title
stringlengths 22
123
| content
stringlengths 70
2.22k
⌀ |
---|---|
dil-men-mahak-rahe-hain-kisii-aarzuu-ke-phuul-javed-akhtar-ghazals |
دل میں مہک رہے ہیں کسی آرزو کے پھول
پلکوں پہ کھلنے والے ہیں شاید لہو کے پھول
اب تک ہے کوئی بات مجھے یاد حرف حرف
اب تک میں چن رہا ہوں کسی گفتگو کے پھول
کلیاں چٹک رہی تھیں کہ آواز تھی کوئی
اب تک سماعتوں میں ہیں اک خوش گلو کے پھول
میرے لہو کا رنگ ہے ہر نوک خار پر
صحرا میں ہر طرف ہیں مری جستجو کے پھول
دیوانے کل جو لوگ تھے پھولوں کے عشق میں
اب ان کے دامنوں میں بھرے ہیں رفو کے پھول |
suukhii-tahnii-tanhaa-chidiyaa-phiikaa-chaand-javed-akhtar-ghazals |
سوکھی ٹہنی تنہا چڑیا پھیکا چاند
آنکھوں کے صحرا میں ایک نمی کا چاند
اس ماتھے کو چومے کتنے دن بیتے
جس ماتھے کی خاطر تھا اک ٹیکا چاند
پہلے تو لگتی تھی کتنی بیگانہ
کتنا مبہم ہوتا ہے پہلی کا چاند
کم ہو کیسے ان خوشیوں سے تیرا غم
لہروں میں کب بہتا ہے ندی کا چاند
آؤ اب ہم اس کے بھی ٹکڑے کر لیں
ڈھاکہ راولپنڈی اور دلی کا چاند |
ham-ne-dhuunden-bhii-to-dhuunden-hain-sahaare-kaise-javed-akhtar-ghazals |
ہم نے ڈھونڈیں بھی تو ڈھونڈیں ہیں سہارے کیسے
ان سرابوں پہ کوئی عمر گزارے کیسے
ہاتھ کو ہاتھ نہیں سوجھے وہ تاریکی تھی
آ گئے ہاتھ میں کیا جانے ستارے کیسے
ہر طرف شور اسی نام کا ہے دنیا میں
کوئی اس کو جو پکارے تو پکارے کیسے
دل بجھا جتنے تھے ارمان سبھی خاک ہوئے
راکھ میں پھر یہ چمکتے ہیں شرارے کیسے
نہ تو دم لیتی ہے تو اور نہ ہوا تھمتی ہے
زندگی زلف تری کوئی سنوارے کیسے |
na-khushii-de-to-kuchh-dilaasa-de-javed-akhtar-ghazals |
نہ خوشی دے تو کچھ دلاسہ دے
دوست جیسے ہو مجھ کو بہلا دے
آگہی سے ملی ہے تنہائی
آ مری جان مجھ کو دھوکہ دے
اب تو تکمیل کی بھی شرط نہیں
زندگی اب تو اک تمنا دے
اے سفر اتنا رائیگاں تو نہ جا
نہ ہو منزل کہیں تو پہنچا دے
ترک کرنا ہے گر تعلق تو
خود نہ جا تو کسی سے کہلا دے |
shukr-hai-khairiyat-se-huun-saahab-javed-akhtar-ghazals |
شکر ہے خیریت سے ہوں صاحب
آپ سے اور کیا کہوں صاحب
اب سمجھنے لگا ہوں سود و زیاں
اب کہاں مجھ میں وہ جنوں صاحب
ذلت زیست یا شکست ضمیر
یہ سہوں میں کہ وہ سہوں صاحب
ہم تمہیں یاد کرتے رو لیتے
دو گھڑی ملتا جو سکوں صاحب
شام بھی ڈھل رہی ہے گھر بھی ہے دور
کتنی دیر اور میں رکوں صاحب
اب جھکوں گا تو ٹوٹ جاؤں گا
کیسے اب اور میں جھکوں صاحب
کچھ روایات کی گواہی پر
کتنا جرمانہ میں بھروں صاحب |
mere-dil-men-utar-gayaa-suuraj-javed-akhtar-ghazals |
میرے دل میں اتر گیا سورج
تیرگی میں نکھر گیا سورج
درس دے کر ہمیں اجالے کا
خود اندھیرے کے گھر گیا سورج
ہم سے وعدہ تھا اک سویرے کا
ہائے کیسا مکر گیا سورج
چاندنی عکس چاند آئینہ
آئینے میں سنور گیا سورج
ڈوبتے وقت زرد تھا اتنا
لوگ سمجھے کہ مر گیا سورج |
yaqiin-kaa-agar-koii-bhii-silsila-nahiin-rahaa-javed-akhtar-ghazals |
یقین کا اگر کوئی بھی سلسلہ نہیں رہا
تو شکر کیجیے کہ اب کوئی گلا نہیں رہا
نہ ہجر ہے نہ وصل ہے اب اس کو کوئی کیا کہے
کہ پھول شاخ پر تو ہے مگر کھلا نہیں رہا
خزانہ تم نہ پائے تو غریب جیسے ہو گئے
پلک پہ اب کوئی بھی موتی جھلملا نہیں رہا
بدل گئی ہے زندگی بدل گئے ہیں لوگ بھی
خلوص کا جو تھا کبھی وہ اب صلا نہیں رہا
جو دشمنی بخیل سے ہوئی تو اتنی خیر ہے
کہ زہر اس کے پاس ہے مگر پلا نہیں رہا
لہو میں جذب ہو سکا نہ علم تو یہ حال ہے
کوئی سوال ذہن کو جو دے جلا نہیں رہا |
dil-kaa-har-dard-kho-gayaa-jaise-javed-akhtar-ghazals |
دل کا ہر درد کھو گیا جیسے
میں تو پتھر کا ہو گیا جیسے
داغ باقی نہیں کہ نقش کہوں
کوئی دیوار دھو گیا جیسے
جاگتا ذہن غم کی دھوپ میں تھا
چھاؤں پاتے ہی سو گیا جیسے
دیکھنے والا تھا کل اس کا تپاک
پھر سے وہ غیر ہو گیا جیسے
کچھ بچھڑنے کے بھی طریقے ہیں
خیر جانے دو جو گیا جیسے |
hamaare-dil-men-ab-talkhii-nahiin-hai-javed-akhtar-ghazals |
ہمارے دل میں اب تلخی نہیں ہے
مگر وہ بات پہلے سی نہیں ہے
مجھے مایوس بھی کرتی نہیں ہے
یہی عادت تری اچھی نہیں ہے
بہت سے فائدے ہیں مصلحت میں
مگر دل کی تو یہ مرضی نہیں ہے
ہر اک کی داستاں سنتے ہیں جیسے
کبھی ہم نے محبت کی نہیں ہے
ہے اک دروازے بن دیوار دنیا
مفر غم سے یہاں کوئی نہیں ہے |
saarii-hairat-hai-mirii-saarii-adaa-us-kii-hai-javed-akhtar-ghazals |
ساری حیرت ہے مری ساری ادا اس کی ہے
بے گناہی ہے مری اور سزا اس کی ہے
میرے الفاظ میں جو رنگ ہے وہ اس کا ہے
میرے احساس میں جو ہے وہ فضا اس کی ہے
شعر میرے ہیں مگر ان میں محبت اس کی
پھول میرے ہیں مگر باد صبا اس کی ہے
اک محبت کی یہ تصویر ہے دو رنگوں میں
شوق سب میرا ہے اور ساری حیا اس کی ہے
ہم نے کیا اس سے محبت کی اجازت لی تھی
دل شکن ہی سہی پر بات بجا اس کی ہے
ایک میرے ہی سوا سب کو پکارے ہے کوئی
میں نے پہلے ہی کہا تھا یہ صدا اس کی ہے
خون سے سینچی ہے میں نے جو زمیں مر مر کے
وہ زمیں ایک ستم گر نے کہا اس کی ہے
اس نے ہی اس کو اجاڑا ہے اسے لوٹا ہے
یہ زمیں اس کی اگر ہے بھی تو کیا اس کی ہے |
jab-aaiina-koii-dekho-ik-ajnabii-dekho-javed-akhtar-ghazals |
جب آئینہ کوئی دیکھو اک اجنبی دیکھو
کہاں پہ لائی ہے تم کو یہ زندگی دیکھو
محبتوں میں کہاں اپنے واسطے فرصت
جسے بھی چاہے وہ چاہے مری خوشی دیکھو
جو ہو سکے تو زیادہ ہی چاہنا مجھ کو
کبھی جو میری محبت میں کچھ کمی دیکھو
جو دور جائے تو غم ہے جو پاس آئے تو درد
نہ جانے کیا ہے وہ کمبخت آدمی دیکھو
اجالا تو نہیں کہہ سکتے اس کو ہم لیکن
ذرا سی کم تو ہوئی ہے یہ تیرگی دیکھو |
vo-zamaana-guzar-gayaa-kab-kaa-javed-akhtar-ghazals |
وہ زمانہ گزر گیا کب کا
تھا جو دیوانہ مر گیا کب کا
ڈھونڈھتا تھا جو اک نئی دنیا
لوٹ کے اپنے گھر گیا کب کا
وہ جو لایا تھا ہم کو دریا تک
پار اکیلے اتر گیا کب کا
اس کا جو حال ہے وہی جانے
اپنا تو زخم بھر گیا کب کا
خواب در خواب تھا جو شیرازہ
اب کہاں ہے بکھر گیا کب کا |
ham-to-bachpan-men-bhii-akele-the-javed-akhtar-ghazals |
ہم تو بچپن میں بھی اکیلے تھے
صرف دل کی گلی میں کھیلے تھے
اک طرف مورچے تھے پلکوں کے
اک طرف آنسوؤں کے ریلے تھے
تھیں سجی حسرتیں دکانوں پر
زندگی کے عجیب میلے تھے
خود کشی کیا دکھوں کا حل بنتی
موت کے اپنے سو جھمیلے تھے
ذہن و دل آج بھوکے مرتے ہیں
ان دنوں ہم نے فاقے جھیلے تھے |
misaal-is-kii-kahaan-hai-koii-zamaane-men-javed-akhtar-ghazals |
مثال اس کی کہاں ہے کوئی زمانے میں
کہ سارے کھونے کے غم پائے ہم نے پانے میں
وہ شکل پگھلی تو ہر شے میں ڈھل گئی جیسے
عجیب بات ہوئی ہے اسے بھلانے میں
جو منتظر نہ ملا وہ تو ہم ہیں شرمندہ
کہ ہم نے دیر لگا دی پلٹ کے آنے میں
لطیف تھا وہ تخیل سے خواب سے نازک
گنوا دیا اسے ہم نے ہی آزمانے میں
سمجھ لیا تھا کبھی اک سراب کو دریا
پر اک سکون تھا ہم کو فریب کھانے میں
جھکا درخت ہوا سے تو آندھیوں نے کہا
زیادہ فرق نہیں جھکنے ٹوٹ جانے میں |
._shaaer-e-fitrat-huun-jab-bhii-fikr-farmaataa-huun-main-jigar-moradabadi-ghazals | null |
._ham-ko-mitaa-sake-ye-zamaane-men-dam-nahiin-jigar-moradabadi-ghazals | null |
._har-ek-baat-pe-kahte-ho-tum-ki-tuu-kyaa-hai-mirza-ghalib-ghazals | null |
._phir-huaa-vaqt-ki-ho-baal-kushaa-mauj-e-sharaab-mirza-ghalib-ghazals | null |
._ye-na-thii-hamaarii-qismat-ki-visaal-e-yaar-hotaa-mirza-ghalib-ghazals | null |
._ham-par-tumhaarii-chaah-kaa-ilzaam-hii-to-hai-faiz-ahmad-faiz-ghazals | null |
._aalam-e-aab-o-khaak-o-baad-sirr-e-ayaan-hai-tuu-ki-main-allama-iqbal-ghazals | null |
._dekhaa-hai-zindagii-ko-kuchh-itnaa-qariib-se-sahir-ludhianvi-ghazals | null |
._mir-taqi-mir-ghazals-36 | null |
Subsets and Splits