file_name
audioduration (s)
0.43
25.3
text
stringlengths
2
388
پیش خدمت ہے
سادت حسن منٹو کا افسانہ
بابو گوپی ناد
بابو گوپی نات سے میری ملاقات سن چالیس میں ہوئی
ان دنوں میں بمبئی کا ایک ہفتہ وار پرچہ ایڈٹ کیا کرتا تھا
دفتر میں عبد الرحیم سینڈو ایک ناٹک ادھ کے آدمی کے ساتھ داخل ہوا میں اس وقت لیڈر لکھ رہا تھا
سینڈو نے اپنے مخصوص انداز میں با آواز بلند مجھے آداب کہا
اور اپنے ساتھی سے متعارف کرایا
منٹو صاحب
بابو گوپی نات سے ملیے
میں نے اٹھ کر اس سے ہاتھ ملایا
سینڈو نے حسب عادت میری تعریفوں کے پل باندھنے شروع کر دیے
بابو گوپی ناس تم ہندوستان کے نمبر ون رائٹر سے ہاتھ ملا رہے ہو
لکھتا ہے تو دھڑن تختہ ہو جاتا ہے لوگوں کا
ایسی ایسی کنٹینیوٹلی ملاتا ہے کہ طبیعت صاف ہو جاتی ہے
پچھلے دنوں وہ کیا چٹکلا لکھا تھا اپنے منٹو صاحب
مس خرشید نے کار خریدی
اللہ بڑا کارساز ہے
کیوں بابو گو پینات
ہے نا انٹی کی پینٹی پو
عبد الرحیم سینڈو کے باتیں کرنے کا انداز بلکل نرالا تھا
کنٹی نیوٹلی دھڑن تختہ اور انٹی کی پینٹی پو
ایسے الفاظ اس کی اپنی اخترار تھے جن کو وہ گفتگو میں بلا تقلف استعمال کرتا تھا
میرا تعرف کرانے کے بعد وہ بابو گوپی ناس کی طرف متوجہ ہوا
جو بہت مروب نظر آتا تھا
آپ ہیں بابو گوپی ناس بڑے خانہ خراب لاہور سے جھک مارتے مارتے بمبئی تشریف لائے ہیں
ساتھ میں کوہکاف کی پری ہے
بابو گوپینات مسکرائیہ
عبد الرحیم سینڈو نے تارف کو ناکافی سمجھ کر کہا
نمبر ون بے وقوف ہو سکتا ہے تو وہ آپ ہیں
لوگ ان کے مسکہ لگا لگا کر روپیہ بٹو رتے ہیں
میں صرف باتیں کر کے ان سے ہر روز پولسن بٹر کے دو پیکٹ وصول کرتا ہوں
بس منٹو صاحب یہ سمجھ لیجئے کہ بڑے انٹی فلوجسٹن قسم کے آدمی ہیں
آپ آج شام کو ان کے فلیٹ پر ضرور تشریف لائیے
بابو گوپی نات نے جو خدا معلوم کیا سوچ رہا تھا چونکر کہا
ہاں ہاں ضرور تشریف لائیے منٹو صاحب
پھر سینڈو سے پوچھا کیوں سینڈو
کہ آپ کچھ اس کا شغل کرتے ہیں
عبد الرحیم سینڈو نے زور سے کہا لگایا
ہر قسم کا شغل کرتے ہیں
تو منٹو صاحب آج شام کو ضرور آئیے گا میں نے بھی پینی شروع کر دی ہے
اس لئے گموفت ملتی ہے
سینڈو نے مجھے فلیٹ کا پتہ لکھا دیا جہاں میں حسب وعدہ شام کو چھے بجے کے قریب پہنچ گیا
تین کمرے کا صاف ستھرا فلیٹ تھا جس میں
بلکل نیا فرنیچر سجا ہوا تھا
سینڈو اور بابو گوپی نات کے علاوہ بیٹھنے والے کمرے میں دو مرد اور دو عورتیں موجود تھیں
جن سے سینڈو نے مجھے متعارف کرایا
ایک تھا غفار سائیں تحمد پوش پنجاب کا ٹھیٹ سائیں
گلے میں موٹے موٹے دانوں کی مالا
سینڈو نے اس کے بارے میں کہا
آپ بابو گو پینات کے لیگل اڈوائزر ہیں
میرا مطلب سمجھ جائیے آپ ہر آدمی جس کی ناک بہتی ہو یا جس کے موں میں سے لعاب نکلتا ہو پنجاب میں خدا کو پہنچا ہوا درویش بن جاتا ہے
یہ بھی بس پہنچے ہوئے ہیں یا پہنچنے والے ہیں
لاہور سے بابو گوپینات کے ساتھ آئے ہیں کیونکہ انہیں وہاں اور کوئی بے وکوف ملنے کی امید نہیں تھی
یہاں آپ بابو صاحب سے کریون اے کے سگریٹ اور سکاچ وسکی کے پیگ پی کر دعا کرتے رہتے ہیں کہ انجام نیک ہو
غفار سائیں یہ سن کر مسکراتا رہا
دوسرے مرد کا نام تھا غلام علی
لمبا ترنگا جوان کسرتی بدن
مو پر چیچک کے داغ
اس کے مطالق سینڈو نے کہا یہ میرا شگرد ہے
اپنے استاد کے نقش قدم پر چل رہا ہے
لاہور کی ایک نامی طواف کی کماری لڑکی اس پر عاشق ہو گئی
بڑی بڑی کنٹی نیوٹلیاں ملائے گئیں اس کو فانسی کے لیے
مگر اس نے کہا do or die میں برہمچاری رہوں گا
ایک تقیئے میں بات چیت پیتے ہوئے بابو گوپی نات سے ملاقات ہو گئی
بس اس دن سے ان کے ساتھ چمٹا ہوا ہے
ہر روز کریون ایک ڈبا اور کھانا پینا مقرر ہے
یہ سن کر غلام علی بھی مسکراتا رہا
گول چہرے والی ایک سرخ و سفید عورت تھی
کمرے میں داخل ہوتے ہی میں سمجھ گیا تھا کہ یہ وہی کوہ کاف کی پری ہے جس کے متعلق سینڈو نے دفتر میں ذکر کیا تھا
بہت صاف ستری عورت تھی بال چھوٹے تھے ایسا لگتا تھا کٹے ہوئے ہیں
مگر در حقیقت ایسا نہیں تھا
آنکھیں شفاف اور چمکیلی تھیں
چہرے کے خطوط سے ظاہر تھا کہ بے حد الہڑ اور ناتجربہ کار ہے
سینڈو نے اس سے تعرف کراتے ہوئے کہا
زیند بیگم
بابو صاحب پیار سے زینو کہتے ہیں
ایک بڑی خران نائکہ کشمیر سے یہ سیب توڑ کر لاہور لے آئی
بابو گوپی ناس کو اپنی سی آئی ڈی سے پتہ چلا اور ایک رات لے اڑے
مقدمہ بازی ہوئی آخر بابو صاحب نے مقدمہ جیت لیا اور اسے یہاں لے آئے
دھرانتا
اب گہرے ساملے رنگ کی عورت باقی رہ گئی تھی جو خاموش بیٹھی سگرٹ پی رہی تھی
آنکھیں سرخ تھیں جن سے کافی بے حیائے مترشہ تھی
بابو گوپی ناہ نے اس کی طرف اشارہ کیا اور سینڈو سے کہا
اس کے متعلق بھی کچھ ہو جائے
سینڈو نے اس عورت کی بیٹ پر ہاتھ مارا اور کہا
جناب
یہ ہے تین ٹپوٹی فل فل فوٹی
مسز عبد الرحیم سینڈو اور
سردار بیگم
آپ بھی لاہور کی پیداوار ہیں سن چھتیس میں مجھ سے عشق ہوا
دو برسوں ہی میں میرا دھڑن تختہ کر کے رکھ دیا میں لاہور چھوڑ کر بھاگا
بابو گوپی ناٹ نے اسے یہاں بلوا لیا ہے تاکہ میرا دل لگا رہے
اس کو بھی ایک ڈبا کریون ایک اراشن میں ملتا ہے
ہر روز شام کو ڈھائی روپے کا مورفی کا ایجیکشن لیتی ہے رنگ کالا ہے
مگر ویسے بڑی ٹٹ فٹیٹ قسم کی عورت ہے
سردار نے ایک عدا سے صرف اتنا کہا
بکواس نکار
اس ادا میں پیشور عورت کی بناوٹ تھی
سب سے متعارف کرانے کے بعد سینڈوں نے حسب عادت میری تعریفوں کے پل باندھنے شروع کر دیے

UAT: Urdu Audio Transcriptions

UAT is a dataset featuring high quality audios and their transcriptions, sourced from Urdu audiobooks. This dataset is designed to support both TTS and ASR research in the Urdu language.

Data Format

Each entry in the dataset includes:

  • file_name: A unique identifier for the audio file.
  • text: The corresponding text transcription.

Usage

This dataset is ideal for:

  • Training and evaluating TTS systems.
  • Developing ASR models.
  • Exploring linguistic and acoustic features of the Urdu language.

Acknowledgments

UAT is distributed under the MIT license. When using this dataset, please acknowledge the creators by citing it as follows:

@dataset{uat,
  title       = {UAT: Urdu Audio Transcriptions},
  author      = {Mahwiz Khalil},
  year        = {2025},
  publisher   = {Hugging Face},
  howpublished= {\url{https://huggingface.co/datasets/mahwizzzz/UAT}},
}

For any inquiries or further information, please contact: [email protected]

Downloads last month
179