Poet
stringclasses 30
values | Poem_name
stringlengths 19
107
| Poetry
stringlengths 68
2.22k
|
---|---|---|
Mirza Ghalib
|
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا، مرزا غالب غزلیں
|
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا
رنگ شکستہ صبح بہار نظارہ ہے
یہ وقت ہے شگفتن گل ہائے ناز کا
تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز
میں اور دکھ تری مژہ ہائے دراز کا
صرفہ ہے ضبط آہ میں میرا وگرنہ میں
طعمہ ہوں ایک ہی نفس جاں گداز کا
ہیں بسکہ جوش بادہ سے شیشے اچھل رہے
ہر گوشۂ بساط ہے سر شیشہ باز کا
کاوش کا دل کرے ہے تقاضا کہ ہے ہنوز
ناخن پہ قرض اس گرہ نیم باز کا
تاراج کاوش غم ہجراں ہوا اسدؔ
سینہ کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا
|
Mirza Ghalib
|
ابن مریم ہوا کرے کوئی مرزا غالب غزلیں
|
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
شرع و آئین پر مدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی
چال جیسے کڑی کمان کا تیر
دل میں ایسے کے جا کرے کوئی
بات پر واں زبان کٹتی ہے
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
نہ سنو گر برا کہے کوئی
نہ کہو گر برا کرے کوئی
روک لو گر غلط چلے کوئی
بخش دو گر خطا کرے کوئی
کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند
کس کی حاجت روا کرے کوئی
کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی
جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
|
Mirza Ghalib
|
عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے، مرزا غالب غزلیں
|
عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے
کہ اپنے سائے سے سر پانو سے ہے دو قدم آگے
قضا نے تھا مجھے چاہا خراب بادۂ الفت
فقط خراب لکھا بس نہ چل سکا قلم آگے
غم زمانہ نے جھاڑی نشاط عشق کی مستی
وگرنہ ہم بھی اٹھاتے تھے لذت الم آگے
خدا کے واسطے داد اس جنون شوق کی دینا
کہ اس کے در پہ پہنچتے ہیں نامہ بر سے ہم آگے
یہ عمر بھر جو پریشانیاں اٹھائی ہیں ہم نے
تمہارے آئیو اے طرہ ہاۓ خم بہ خم آگے
دل و جگر میں پرافشاں جو ایک موجۂ خوں ہے
ہم اپنے زعم میں سمجھے ہوئے تھے اس کو دم آگے
قسم جنازے پہ آنے کی میرے کھاتے ہیں غالبؔ
ہمیشہ کھاتے تھے جو میری جان کی قسم آگے
|
Fahmida Riaz
|
چار سو ہے بڑی وحشت کا سامان فہمیدہ ریاض غزلیں
|
چار سو ہے بڑی وحشت کا سماں
کسی آسیب کا سایہ ہے یہاں
کوئی آواز سی ہے مرثیہ خواں
شہر کا شہر بنا گورستاں
ایک مخلوق جو بستی ہے یہاں
جس پہ انساں کا گزرتا ہے گماں
خود تو ساکت ہے مثال تصویر
جنبش غیر سے ہے رقص کناں
کوئی چہرہ نہیں جز زیر نقاب
نہ کوئی جسم ہے جز بے دل و جاں
علما ہیں دشمن فہم و تحقیق
کودنی شیوۂ دانش منداں
شاعر قوم پہ بن آئی ہے
کذب کیسے ہو تصوف میں نہاں
لب ہیں مصروف قصیدہ گوئی
اور آنکھوں میں ہے ذلت عریاں
سبز خط عاقبت و دیں کے اسیر
پارسا خوش تن و نو خیز جواں
یہ زن نغمہ گر و عشق شعار
یاس و حسرت سے ہوئی ہے حیراں
کس سے اب آرزوئے وصل کریں
اس خرابے میں کوئی مرد کہاں
|
Firaq GorakhPuri
|
جہاں گنچہ دل کا فقط چٹکنا تھا، فراق گورکھپوری غزلیں
|
جہان غنچۂ دل کا فقط چٹکنا تھا
اسی کی بوئے پریشاں وجود دنیا تھا
یہ کہہ کے کل کوئی بے اختیار روتا تھا
وہ اک نگاہ سہی کیوں کسی کو دیکھا تھا
طنابیں کوچۂ قاتل کی کھنچتی جاتی تھیں
شہید تیغ ادا میں بھی زور کتنا تھا
بس اک جھلک نظر آئی اڑے کلیم کے ہوش
بس اک نگاہ ہوئی خاک طور سینا تھا
ہر اک کے ہاتھ فقط غفلتیں تھیں ہوش نما
کہ اپنے آپ سے بیگانہ وار جینا تھا
یہی ہوا کہ فریب امید و یاس مٹے
وہ پا گئے ترے ہاتھوں ہمیں جو پانا تھا
چمن میں غنچۂ گل کھلکھلا کے مرجھائے
یہی وہ تھے جنہیں ہنس ہنس کے جان دینا تھا
نگاہ مہر میں جس کی ہیں صد پیام فنا
اسی کا عالم ایجاد و ناز بے جا تھا
جہاں تو جلوہ نما تھا لرزتی تھی دنیا
ترے جمال سے کیسا جلال پیدا تھا
حیات و مرگ کے کچھ راز کھل گئے ہوں گے
فسانۂ شب غم ورنہ دوستو کیا تھا
شب عدم کا فسانہ گداز شمع حیات
سوائے کیف فنا میرا ماجرا کیا تھا
کچھ ایسی بات نہ تھی تیرا دور ہو جانا
یہ اور بات کہ رہ رہ کے درد اٹھتا تھا
نہ پوچھ سود و زیاں کاروبار الفت کے
وگرنہ یوں تو نہ پانا تھا کچھ نہ کھوتا تھا
لگاوٹیں وہ ترے حسن بے نیاز کی آہ
میں تیری بزم سے جب ناامید اٹھا تھا
تجھے ہم اے دل درد آشنا کہاں ڈھونڈیں
ہم اپنے ہوش میں کب تھے کوئی جب اٹھا تھا
عدم کا راز صدائے شکست ساز حیات
حجاب زیست بھی کتنا لطیف پردا تھا
یہ اضطراب و سکوں بھی تھی اک فریب حیات
کہ اپنے حال سے بیگانہ وار جینا تھا
کہاں پہ چوک ہوئی تیرے بے قراروں سے
زمانہ دوسری کروٹ بدلنے والا تھا
یہ کوئی یاد ہے یہ بھی ہے کوئی محویت
ترے خیال میں تجھ کو بھی بھول جانا تھا
کہاں کی چوٹ ابھر آئی حسن تاباں میں
دم نظارہ وہ رخ درد سا چمکتا تھا
نہ پوچھ رمز و کنایات چشم ساقی کے
بس ایک حشر خموش انجمن میں برپا تھا
چمن چمن تھی گل داغ عشق سے ہستی
اسی کی نکہت برباد کا زمانہ تھا
وہ تھا مرا دل خوں گشتہ جس کے مٹنے سے
بہار باغ جناں تھی وجود دنیا تھا
قسم ہے بادہ کشو چشم مست ساقی کی
بتاؤ ہاتھ سے کیا جام مے سنبھلتا تھا
وصال اس سے میں چاہوں کہاں یہ دل میرا
یہ رو رہا ہوں کہ کیوں اس کو میں نے دیکھا تھا
امید یاس بنی یاس پھر امید بنی
اس اک نظر میں فریب نگاہ کتنا تھا
یہ سوز و ساز نہاں تھا وہ سوز و ساز عیاں
وصال و ہجر میں بس فرق تھا تو اتنا تھا
شکست ساز چمن تھی بہار لالہ و گل
خزاں مچلتی تھی غنچہ جہاں چٹکتا تھا
ہر ایک سانس ہے تجدید یاد ایامے
گزر گیا وہ زمانہ جسے گزرنا تھا
نہ کوئی وعدہ نہ کوئی یقیں نہ کوئی امید
مگر ہمیں تو ترا انتظار کرنا تھا
کسی کے صبر نے بے صبر دیا سب کو
فراقؔ نزع میں کروٹ کوئی بدلتا تھا
|
Mirza Ghalib
|
کبھی نیکی بھی اس کے جی میں گر آ جائے ہے مجھ سے مرزا غالب غزلیں
|
کبھی نیکی بھی اس کے جی میں گر آ جائے ہے مجھ سے
جفائیں کر کے اپنی یاد شرما جائے ہے مجھ سے
خدایا جذبۂ دل کی مگر تاثیر الٹی ہے
کہ جتنا کھینچتا ہوں اور کھنچتا جائے ہے مجھ سے
وہ بد خو اور میری داستان عشق طولانی
عبارت مختصر قاصد بھی گھبرا جائے ہے مجھ سے
ادھر وہ بد گمانی ہے ادھر یہ ناتوانی ہے
نہ پوچھا جائے ہے اس سے نہ بولا جائے ہے مجھ سے
سنبھلنے دے مجھے اے نا امیدی کیا قیامت ہے
کہ دامان خیال یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے
تکلف بر طرف نظارگی میں بھی سہی لیکن
وہ دیکھا جائے کب یہ ظلم دیکھا جائے ہے مجھ سے
ہوئے ہیں پاؤں ہی پہلے نبرد عشق میں زخمی
نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے
قیامت ہے کہ ہووے مدعی کا ہم سفر غالبؔ
وہ کافر جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سے
|
Dagh Dehlvi
|
تماشا دیر و حرم دیکھتے ہیں داغ دہلوی غزلیں
|
تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں
تجھے ہر بہانے سے ہم دیکھتے ہیں
ہماری طرف اب وہ کم دیکھتے ہیں
وہ نظریں نہیں جن کو ہم دیکھتے ہیں
زمانے کے کیا کیا ستم دیکھتے ہیں
ہمیں جانتے ہیں جو ہم دیکھتے ہیں
پھرے بت کدے سے تو اے اہل کعبہ
پھر آ کر تمہارے قدم دیکھتے ہیں
ہمیں چشم بینا دکھاتی ہے سب کچھ
وہ اندھے ہیں جو جام جم دیکھتے ہیں
نہ ایمائے خواہش نہ اظہار مطلب
مرے منہ کو اہل کرم دیکھتے ہیں
کبھی توڑتے ہیں وہ خنجر کو اپنے
کبھی نبض بسمل میں دم دیکھتے ہیں
غنیمت ہے چشم تغافل بھی ان کی
بہت دیکھتے ہیں جو کم دیکھتے ہیں
غرض کیا کہ سمجھیں مرے خط کا مضموں
وہ عنوان و طرز رقم دیکھتے ہیں
سلامت رہے دل برا ہے کہ اچھا
ہزاروں میں یہ ایک دم دیکھتے ہیں
رہا کون محفل میں اب آنے والا
وہ چاروں طرف دم بدم دیکھتے ہیں
ادھر شرم حائل ادھر خوف مانع
نہ وہ دیکھتے ہیں نہ ہم دیکھتے ہیں
انہیں کیوں نہ ہو دل ربائی سے نفرت
کہ ہر دل میں وہ غم الم دیکھتے ہیں
نگہباں سے بھی کیا ہوئی بد گمانی
اب اس کو ترے ساتھ کم دیکھتے ہیں
ہمیں داغؔ کیا کم ہے یہ سرفرازی
کہ شاہ دکن کے قدم دیکھتے ہیں
|
Mirza Ghalib
|
گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویران ہوتا، مرزا غالب غزلیں
|
گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا
تنگئ دل کا گلہ کیا یہ وہ کافر دل ہے
کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پریشاں ہوتا
باد یک عمر ورع بار تو دیتا بارے
کاش رضواں ہی در یار کا درباں ہوتا
|
Nida Fazli
|
دن سلیقے سے اُگا، رات ٹھکانے سے رہی، ندا فاضلی غزلیں
|
دن سلیقے سے اگا رات ٹھکانے سے رہی
دوستی اپنی بھی کچھ روز زمانے سے رہی
چند لمحوں کو ہی بنتی ہیں مصور آنکھیں
زندگی روز تو تصویر بنانے سے رہی
اس اندھیرے میں تو ٹھوکر ہی اجالا دے گی
رات جنگل میں کوئی شمع جلانے سے رہی
فاصلہ چاند بنا دیتا ہے ہر پتھر کو
دور کی روشنی نزدیک تو آنے سے رہی
شہر میں سب کو کہاں ملتی ہے رونے کی جگہ
اپنی عزت بھی یہاں ہنسنے ہنسانے سے رہی
|
Mirza Ghalib
|
رہا گر کوئی تا قیامت سلامت مرزا غالب غزلیں
|
رہا گر کوئی تا قیامت سلامت
پھر اک روز مرنا ہے حضرت سلامت
جگر کو مرے عشق خوں نابہ مشرب
لکھے ہے خداوند نعمت سلامت
علی الرغم دشمن شہید وفا ہوں
مبارک مبارک سلامت سلامت
نہیں گر سر و برگ ادراک معنی
تماشاۓ نیرنگ صورت سلامت
دو عالم کی ہستی پہ خط فنا کھینچ
دل و دست ارباب ہمت سلامت
نہیں گر بہ کام دل خستہ گردوں
جگر خائی جوش حسرت سلامت
نہ اوروں کی سنتا نہ کہتا ہوں اپنی
سر خستہ دشوار وحشت سلامت
وفور بلا ہے ہجوم وفا ہے
سلامت ملامت ملامت سلامت
نہ فکر سلامت نہ بیم ملامت
ز خود رفتگی ہائے حیرت سلامت
رہے غالبؔ خستہ مغلوب گردوں
یہ کیا بے نیازی ہے حضرت سلامت
|
Jaan Nisar Akhtar
|
تم پہ کیا بیت گئی کچھ تو بتاؤ یارو، جاں نثار اختر غزلیں
|
تم پہ کیا بیت گئی کچھ تو بتاؤ یارو
میں کوئی غیر نہیں ہوں کہ چھپاؤ یارو
ان اندھیروں سے نکلنے کی کوئی راہ کرو
خون دل سے کوئی مشعل ہی جلاؤ یارو
ایک بھی خواب نہ ہو جن میں وہ آنکھیں کیا ہیں
اک نہ اک خواب تو آنکھوں میں بساؤ یارو
بوجھ دنیا کا اٹھاؤں گا اکیلا کب تک
ہو سکے تم سے تو کچھ ہاتھ بٹاؤ یارو
زندگی یوں تو نہ بانہوں میں چلی آئے گی
غم دوراں کے ذرا ناز اٹھاؤ یارو
عمر بھر قتل ہوا ہوں میں تمہاری خاطر
آخری وقت تو سولی نہ چڑھاؤ یارو
اور کچھ دیر تمہیں دیکھ کے جی لوں ٹھہرو
میری بالیں سے ابھی اٹھ کے نہ جاؤ یارو
|
Nida Fazli
|
ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے ندا فضلی غزلیں
|
ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے
ان سے نظریں کیا ملیں روشن فضائیں ہو گئیں
آج جانا پیار کی جادوگری کیا چیز ہے
بکھری زلفوں نے سکھائی موسموں کو شاعری
جھکتی آنکھوں نے بتایا مے کشی کیا چیز ہے
ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی
اور وہ سمجھے نہیں یہ خاموشی کیا چیز ہے
|
Faiz Ahmad Faiz
|
بات بس سے نکل چلی ہے، فیض احمد فیض غزلیں
|
بات بس سے نکل چلی ہے
دل کی حالت سنبھل چلی ہے
اب جنوں حد سے بڑھ چلا ہے
اب طبیعت بہل چلی ہے
اشک خوناب ہو چلے ہیں
غم کی رنگت بدل چلی ہے
یا یوں ہی بجھ رہی ہیں شمعیں
یا شب ہجر ٹل چلی ہے
لاکھ پیغام ہو گئے ہیں
جب صبا ایک پل چلی ہے
جاؤ اب سو رہو ستارو
درد کی رات ڈھل چلی ہے
|
Jaan Nisar Akhtar
|
لاکھ آوارہ صحیح شہروں کے فٹپاتھوں پہ ہم جاں نثار اختر غزلیں
|
لاکھ آوارہ سہی شہروں کے فٹ پاتھوں پہ ہم
لاش یہ کس کی لیے پھرتے ہیں ان ہاتھوں پہ ہم
اب انہیں باتوں کو سنتے ہیں تو آتی ہے ہنسی
بے طرح ایمان لے آئے تھے جن باتوں پہ ہم
کوئی بھی موسم ہو دل کی آگ کم ہوتی نہیں
مفت کا الزام رکھ دیتے برساتوں پہ ہم
زلف سے چھنتی ہوئی اس کے بدن کی تابشیں
ہنس دیا کرتے تھے اکثر چاندنی راتوں پہ ہم
اب انہیں پہچانتے بھی شرم آتی ہے ہمیں
فخر کرتے تھے کبھی جن کی ملاقاتوں پہ ہم
|
Altaf Hussain Hali
|
آگے بڑھے نہ قصہ عشق بتاں سے ہم، الطاف حسین حالی، غزلیں 3
|
آگے بڑھے نہ قصۂ عشق بتاں سے ہم
سب کچھ کہا مگر نہ کھلے راز داں سے ہم
اب بھاگتے ہیں سایۂ عشق بتاں سے ہم
کچھ دل سے ہیں ڈرے ہوئے کچھ آسماں سے ہم
ہنستے ہیں اس کے گریۂ بے اختیار پر
بھولے ہیں بات کہہ کے کوئی راز داں سے ہم
اب شوق سے بگڑ کے ہی باتیں کیا کرو
کچھ پا گئے ہیں آپ کے طرز بیاں سے ہم
جنت میں تو نہیں اگر یہ زخم تیغ عشق
بدلیں گے تجھ کو زندگیٔ جاوداں سے ہم
|
Habib Jalib
|
اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے حبیب جلیب غزلیں
|
اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے
زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے
یہ ہنستا ہوا چاند یہ پر نور ستارے
تابندہ و پایندہ ہیں ذروں کے سہارے
حسرت ہے کوئی غنچہ ہمیں پیار سے دیکھے
ارماں ہے کوئی پھول ہمیں دل سے پکارے
ہر صبح مری صبح پہ روتی رہی شبنم
ہر رات مری رات پہ ہنستے رہے تارے
کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں اے غم جاناں
کب تک کوئی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے
|
Faiz Ahmad Faiz
|
شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی فیض احمد فیض غزلیں
|
شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی
شکر ہے زندگی تباہ نہ کی
تجھ کو دیکھا تو سیر چشم ہوئے
تجھ کو چاہا تو اور چاہ نہ کی
تیرے دست ستم کا عجز نہیں
دل ہی کافر تھا جس نے آہ نہ کی
تھے شب ہجر کام اور بہت
ہم نے فکر دل تباہ نہ کی
کون قاتل بچا ہے شہر میں فیضؔ
جس سے یاروں نے رسم و راہ نہ کی
|
Javed Akhtar
|
ہم نے ڈھونڈیں بھی تو ڈھونڈیں ہیں سہارے کیسے جاوید اختر غزلیں
|
ہم نے ڈھونڈیں بھی تو ڈھونڈیں ہیں سہارے کیسے
ان سرابوں پہ کوئی عمر گزارے کیسے
ہاتھ کو ہاتھ نہیں سوجھے وہ تاریکی تھی
آ گئے ہاتھ میں کیا جانے ستارے کیسے
ہر طرف شور اسی نام کا ہے دنیا میں
کوئی اس کو جو پکارے تو پکارے کیسے
دل بجھا جتنے تھے ارمان سبھی خاک ہوئے
راکھ میں پھر یہ چمکتے ہیں شرارے کیسے
نہ تو دم لیتی ہے تو اور نہ ہوا تھمتی ہے
زندگی زلف تری کوئی سنوارے کیسے
|
Mirza Ghalib
|
گھر جب بنا لیا تیرے در پر کہے بغیر مرزا غالب غزلیں
|
گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
جانے گا اب بھی تو نہ مرا گھر کہے بغیر
کہتے ہیں جب رہی نہ مجھے طاقت سخن
جانوں کسی کے دل کی میں کیونکر کہے بغیر
کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں
لیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیر
جی میں ہی کچھ نہیں ہے ہمارے وگرنہ ہم
سر جائے یا رہے نہ رہیں پر کہے بغیر
چھوڑوں گا میں نہ اس بت کافر کا پوجنا
چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر
مقصد ہے ناز و غمزہ ولے گفتگو میں کام
چلتا نہیں ہے دشنہ و خنجر کہے بغیر
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
بہرا ہوں میں تو چاہیئے دونا ہو التفات
سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر
غالبؔ نہ کر حضور میں تو بار بار عرض
ظاہر ہے تیرا حال سب ان پر کہے بغیر
|
Ahmad Faraz
|
ہوا کے زور سے پندارِ بام و در بھی گیا احمد فراز کی غزلیں
|
ہوا کے زور سے پندار بام و در بھی گیا
چراغ کو جو بچاتے تھے ان کا گھر بھی گیا
پکارتے رہے محفوظ کشتیوں والے
میں ڈوبتا ہوا دریا کے پار اتر بھی گیا
اب احتیاط کی دیوار کیا اٹھاتے ہو
جو چور دل میں چھپا تھا وہ کام کر بھی گیا
میں چپ رہا کہ اسی میں تھی عافیت جاں کی
کوئی تو میری طرح تھا جو دار پر بھی گیا
سلگتے سوچتے ویران موسموں کی طرح
کڑا تھا عہد جوانی مگر گزر بھی گیا
جسے بھلا نہ سکا اس کو یاد کیا رکھتا
جو نام لب پہ رہا ذہن سے اتر بھی گیا
پھٹی پھٹی ہوئی آنکھوں سے یوں نہ دیکھ مجھے
تجھے تلاش ہے جس شخص کی وہ مر بھی گیا
مگر فلک کو عداوت اسی کے گھر سے تھی
جہاں فرازؔ نہ تھا سیل غم ادھر بھی گیا
|
Faiz Ahmad Faiz
|
اب جو کوئی پوچھے بھی تو اس سے کیا شرحِ حالات کریں، فیض احمد فیض غزلیں
|
اب جو کوئی پوچھے بھی تو اس سے کیا شرح حالات کریں
دل ٹھہرے تو درد سنائیں درد تھمے تو بات کریں
شام ہوئی پھر جوش قدح نے بزم حریفاں روشن کی
گھر کو آگ لگائیں ہم بھی روشن اپنی رات کریں
قتل دل و جاں اپنے سر ہے اپنا لہو اپنی گردن پہ
مہر بہ لب بیٹھے ہیں کس کا شکوہ کس کے ساتھ کریں
ہجر میں شب بھر درد و طلب کے چاند ستارے ساتھ رہے
صبح کی ویرانی میں یارو کیسے بسر اوقات کریں
|
Javed Akhtar
|
سچ یہ ہے بے کار ہمیں غم ہوتا ہے، جاوید اختر غزلیں
|
سچ یہ ہے بیکار ہمیں غم ہوتا ہے
جو چاہا تھا دنیا میں کم ہوتا ہے
ڈھلتا سورج پھیلا جنگل رستہ گم
ہم سے پوچھو کیسا عالم ہوتا ہے
غیروں کو کب فرصت ہے دکھ دینے کی
جب ہوتا ہے کوئی ہمدم ہوتا ہے
زخم تو ہم نے ان آنکھوں سے دیکھے ہیں
لوگوں سے سنتے ہیں مرہم ہوتا ہے
ذہن کی شاخوں پر اشعار آ جاتے ہیں
جب تیری یادوں کا موسم ہوتا ہے
|
Wali Mohammad Wali
|
یاد کرنا ہر گھڑی اس یار کا ولی محمد ولی غزلیں
|
یاد کرنا ہر گھڑی اس یار کا
ہے وظیفہ مجھ دل بیمار کا
آرزوئے چشمۂ کوثر نئیں
تشنہ لب ہوں شربت دیدار کا
عاقبت کیا ہووے گا معلوم نئیں
دل ہوا ہے مبتلا دل دار کا
کیا کہے تعریف دل ہے بے نظیر
حرف حرف اس مخزن اسرار کا
گر ہوا ہے طالب آزادگی
بند مت ہو سبحہ و زنار کا
مسند گل منزل شبنم ہوئی
دیکھ رتبہ دیدۂ بیدار کا
اے ولیؔ ہونا سریجن پر نثار
مدعا ہے چشم گوہر بار کا
|
Javed Akhtar
|
ہمارے شوق کی یہ انتہا تھی جاوید اختر غزلیں
|
ہمارے شوق کی یہ انتہا تھی
قدم رکھا کہ منزل راستا تھی
بچھڑ کے ڈار سے بن بن پھرا وہ
ہرن کو اپنی کستوری سزا تھی
کبھی جو خواب تھا وہ پا لیا ہے
مگر جو کھو گئی وہ چیز کیا تھی
میں بچپن میں کھلونے توڑتا تھا
مرے انجام کی وہ ابتدا تھی
محبت مر گئی مجھ کو بھی غم ہے
مرے اچھے دنوں کی آشنا تھی
جسے چھو لوں میں وہ ہو جائے سونا
تجھے دیکھا تو جانا بد دعا تھی
مریض خواب کو تو اب شفا ہے
مگر دنیا بڑی کڑوی دوا تھی
|
Jigar Moradabadi
|
وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ جگر مرادآبادی غزلیں
|
وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ
یہ ترا جمال کامل یہ شباب کا زمانہ
دل دشمناں سلامت دل دوستاں نشانہ
کبھی حسن کی طبیعت نہ بدل سکا زمانہ
وہی ناز بے نیازی وہی شان خسروانہ
میں ہوں اس مقام پر اب کہ فراق و وصل کیسے
مرا عشق بھی کہانی ترا حسن بھی فسانہ
مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے
مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ
ترے عشق کی کرامت یہ اگر نہیں تو کیا ہے
کبھی بے ادب نہ گزرا مرے پاس سے زمانہ
تری دوری و حضوری کا یہ ہے عجیب عالم
ابھی زندگی حقیقت ابھی زندگی فسانہ
مرے ہم صفیر بلبل مرا تیرا ساتھ ہی کیا
میں ضمیر دشت و دریا تو اسیر آشیانہ
میں وہ صاف ہی نہ کہہ دوں جو ہے فرق مجھ میں تجھ میں
ترا درد درد تنہا مرا غم غم زمانہ
ترے دل کے ٹوٹنے پر ہے کسی کو ناز کیا کیا
تجھے اے جگرؔ مبارک یہ شکست فاتحانہ
|
Ahmad Faraz
|
اب کے تجدید وفا کا نہیں امکان جاناں، احمد فراز کی غزلیں
|
اب کے تجدید وفا کا نہیں امکاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں ترا پیماں جاناں
یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
زندگی تیری عطا تھی سو ترے نام کی ہے
ہم نے جیسے بھی بسر کی ترا احساں جاناں
دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہے فسردہ تو بھی
دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں
اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر
بے پیے بھی ترا چہرہ تھا گلستاں جاناں
آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں
رگ مینا سلگ اٹھی کہ رگ جاں جاناں
مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید
دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں جاناں
ہم بھی کیا سادہ تھے ہم نے بھی سمجھ رکھا تھا
غم دوراں سے جدا ہے غم جاناں جاناں
اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جاناں
سر بہ زانو ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں
ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
ہر کوئی اپنے ہی سائے سے ہراساں جاناں
جس کو دیکھو وہی زنجیر بہ پا لگتا ہے
شہر کا شہر ہوا داخل زنداں جاناں
اب ترا ذکر بھی شاید ہی غزل میں آئے
اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں
ہم کہ روٹھی ہوئی رت کو بھی منا لیتے تھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں
ہوش آیا تو سبھی خواب تھے ریزہ ریزہ
جیسے اڑتے ہوئے اوراق پریشاں جاناں
|
Javed Akhtar
|
ہمارے دل میں اب تلخی نہیں ہے، جاوید اختر غزلیں
|
ہمارے دل میں اب تلخی نہیں ہے
مگر وہ بات پہلے سی نہیں ہے
مجھے مایوس بھی کرتی نہیں ہے
یہی عادت تری اچھی نہیں ہے
بہت سے فائدے ہیں مصلحت میں
مگر دل کی تو یہ مرضی نہیں ہے
ہر اک کی داستاں سنتے ہیں جیسے
کبھی ہم نے محبت کی نہیں ہے
ہے اک دروازے بن دیوار دنیا
مفر غم سے یہاں کوئی نہیں ہے
|
Altaf Hussain Hali
|
بات کچھ ہم سے بن نہ آئی آج، الطاف حسین حالی غزلیں
|
بات کچھ ہم سے بن نہ آئی آج
بول کر ہم نے منہ کی کھائی آج
چپ پر اپنی بھرم تھے کیا کیا کچھ
بات بگڑی بنی بنائی آج
شکوہ کرنے کی خو نہ تھی اپنی
پر طبیعت ہی کچھ بھر آئی آج
بزم ساقی نے دی الٹ ساری
خوب بھر بھر کے خم لنڈھائی آج
معصیت پر ہے دیر سے یا رب
نفس اور شرع میں لڑائی آج
غالب آتا ہے نفس دوں یا شرع
دیکھنی ہے تری خدائی آج
چور ہے دل میں کچھ نہ کچھ یارو
نیند پھر رات بھر نہ آئی آج
زد سے الفت کی بچ کے چلنا تھا
مفت حالیؔ نے چوٹ کھائی آج
|
Dagh Dehlvi
|
رنج کی جب گفتگو ہونے لگی، داغ دہلوی غزلیں
|
رنج کی جب گفتگو ہونے لگی
آپ سے تم تم سے تو ہونے لگی
چاہیئے پیغام بر دونوں طرف
لطف کیا جب دو بہ دو ہونے لگی
میری رسوائی کی نوبت آ گئی
ان کی شہرت کو بہ کو ہونے لگی
ہے تری تصویر کتنی بے حجاب
ہر کسی کے رو بہ رو ہونے لگی
غیر کے ہوتے بھلا اے شام وصل
کیوں ہمارے رو بہ رو ہونے لگی
نا امیدی بڑھ گئی ہے اس قدر
آرزو کی آرزو ہونے لگی
اب کے مل کر دیکھیے کیا رنگ ہو
پھر ہماری جستجو ہونے لگی
داغؔ اترائے ہوئے پھرتے ہیں آج
شاید ان کی آبرو ہونے لگی
|
Mirza Ghalib
|
نہیں ہے زخم کوئی بخیے کے دھر خور میرے تن میں، مرزا غالب غزلیں
|
نہیں ہے زخم کوئی بخیے کے در خور مرے تن میں
ہوا ہے تار اشک یاس رشتہ چشم سوزن میں
ہوئی ہے مانع ذوق تماشا خانہ ویرانی
کف سیلاب باقی ہے بہ رنگ پنبہ روزن میں
ودیعت خانۂ بیداد کاوش ہاۓ مژگاں ہوں
نگین نام شاہد ہے مرے ہر قطرۂ خوں تن میں
بیاں کس سے ہو ظلمت گستری میرے شبستاں کی
شب مہ ہو جو رکھ دوں پنبہ دیواروں کے روزن میں
نکوہش مانع بے ربطی شور جنوں آئی
ہوا ہے خندۂ احباب بخیہ جیب و دامن میں
ہوئے اس مہروش کے جلوۂ تمثال کے آگے
پرافشاں جوہر آئینے میں مثل ذرہ روزن میں
نہ جانوں نیک ہوں یا بد ہوں پر صحبت مخالف ہے
جو گل ہوں تو ہوں گلخن میں جو خس ہوں تو ہوں گلشن میں
ہزاروں دل دیے جوش جنون عشق نے مجھ کو
سیہ ہو کر سویدا ہو گیا ہر قطرۂ خوں تن میں
اسدؔ زندانی تاثیر الفت ہاۓ خوباں ہوں
خم دست نوازش ہو گیا ہے طوق گردن میں
فزوں کی دوستوں نے حرص قاتل ذوق کشتن میں
ہوئے ہیں بخیہ ہائے زخم جوہر تیغ دشمن میں
تماشا کردنی ہے لطف زخم انتظار اے دل
سویدا داغ مرہم مردمک ہے چشم سوزن میں
دل و دین و خرد تاراج ناز جلوہ پیرائی
ہوا ہے جوہر آئینہ خیل مور خرمن میں
نکوہش مانع دیوانگی ہائے جنوں آئی
لگایا خندۂ ناصح نے بخیہ جیب و دامن میں
|
Nida Fazli
|
کچھ بھی بچا نہ کہنے کو، ہر بات ہو گئی، ندا فاضلی غزلیں
|
کچھ بھی بچا نہ کہنے کو ہر بات ہو گئی
آؤ کہیں شراب پئیں رات ہو گئی
پھر یوں ہوا کہ وقت کا پانسہ پلٹ گیا
امید جیت کی تھی مگر مات ہو گئی
سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا
کھڑکی کے پردے کھینچ دیے رات ہو گئی
وہ آدمی تھا کتنا بھلا کتنا پرخلوص
اس سے بھی آج لیجے ملاقات ہو گئی
رستے میں وہ ملا تھا میں بچ کر گزر گیا
اس کی پھٹی قمیص مرے ساتھ ہو گئی
نقشہ اٹھا کے کوئی نیا شہر ڈھونڈیئے
اس شہر میں تو سب سے ملاقات ہو گئی
|
Wali Mohammad Wali
|
عاشق کے منہ پر نین کے پانی کو دیکھ توں والی محمد والی غزلیں
|
عاشق کے مکھ پہ نین کے پانی کو دیکھ توں
اس آرسی میں راز نہانی کوں دیکھ توں
سن بے قرار دل کی اول آہ شعلہ خیز
تب اس حرف میں دل کے معانی کوں دیکھ توں
خوبی سوں تجھ حضور و شمع دم زنی میں ہے
اس بے حیا کی چرب زبانی کوں دیکھ توں
دریا پہ جا کے موج رواں پر نظر نہ کر
انجھواں کی میرے آ کے روانی کوں دیکھ توں
تجھ شوق کا جو داغ ولیؔ کے جگر میں ہے
بے طاقتی میں اس کی نشانی کوں دیکھ توں
|
Mohsin Naqvi
|
کس نے سنگِ خاموشی پھینکا بھرے بازار پر، محسن نقوی غزلیں
|
کس نے سنگ خامشی پھینکا بھرے بازار پر
اک سکوت مرگ طاری ہے در و دیوار پر
تو نے اپنی زلف کے سائے میں افسانے کہے
مجھ کو زنجیریں ملی ہیں جرأت اظہار پر
شاخ عریاں پر کھلا اک پھول اس انداز سے
جس طرح تازہ لہو چمکے نئی تلوار پر
سنگ دل احباب کے دامن میں رسوائی کے پھول
میں نے دیکھا ہے نیا منظر فراز دار پر
اب کوئی تہمت بھی وجہ کرب رسوائی نہیں
زندگی اک عمر سے چپ ہے ترے اصرار پر
میں سر مقتل حدیث زندگی کہتا رہا
انگلیاں اٹھتی رہیں محسنؔ مرے کردار پر
|
Parveen Shakir
|
قدموں میں بھی تھکان تھی، گھر بھی قریب تھا، پروین شاکر غزلیں
|
قدموں میں بھی تکان تھی گھر بھی قریب تھا
پر کیا کریں کہ اب کے سفر ہی عجیب تھا
نکلے اگر تو چاند دریچے میں رک بھی جائے
اس شہر بے چراغ میں کس کا نصیب تھا
آندھی نے ان رتوں کو بھی بے کار کر دیا
جن کا کبھی ہما سا پرندہ نصیب تھا
کچھ اپنے آپ سے ہی اسے کشمکش نہ تھی
مجھ میں بھی کوئی شخص اسی کا رقیب تھا
پوچھا کسی نے مول تو حیران رہ گیا
اپنی نگاہ میں کوئی کتنا غریب تھا
مقتل سے آنے والی ہوا کو بھی کب ملا
ایسا کوئی دریچہ کہ جو بے صلیب تھا
|
Jaun Eliya
|
آخری بار آہ کر لی ہے جون ایلیا غزلیں
|
آخری بار آہ کر لی ہے
میں نے خود سے نباہ کر لی ہے
اپنے سر اک بلا تو لینی تھی
میں نے وہ زلف اپنے سر لی ہے
دن بھلا کس طرح گزارو گے
وصل کی شب بھی اب گزر لی ہے
جاں نثاروں پہ وار کیا کرنا
میں نے بس ہاتھ میں سپر لی ہے
جو بھی مانگو ادھار دوں گا میں
اس گلی میں دکان کر لی ہے
میرا کشکول کب سے خالی تھا
میں نے اس میں شراب بھر لی ہے
اور تو کچھ نہیں کیا میں نے
اپنی حالت تباہ کر لی ہے
شیخ آیا تھا محتسب کو لیے
میں نے بھی ان کی وہ خبر لی ہے
|
Gulzar
|
ہوا کے سینگ نہ پکڑو، کھیڈ دیتی ہے گلزار غزلیں۔
|
ہوا کے سینگ نہ پکڑو کھدیڑ دیتی ہے
زمیں سے پیڑوں کے ٹانکے ادھیڑ دیتی ہے
میں چپ کراتا ہوں ہر شب امڈتی بارش کو
مگر یہ روز گئی بات چھیڑ دیتی ہے
زمیں سا دوسرا کوئی سخی کہاں ہوگا
ذرا سا بیج اٹھا لے تو پیڑ دیتی ہے
رندھے گلے کی دعاؤں سے بھی نہیں کھلتا
در حیات جسے موت بھیڑ دیتی ہے
|
Sahir Ludhianvi
|
شرما کے یوں نہ دیکھ عدا کے مقام سے، ساحر لدھیانوی غزلیں
|
شرما کے یوں نہ دیکھ ادا کے مقام سے
اب بات بڑھ چکی ہے حیا کے مقام سے
تصویر کھینچ لی ہے ترے شوخ حسن کی
میری نظر نے آج خطا کے مقام سے
دنیا کو بھول کر مری بانہوں میں جھول جا
آواز دے رہا ہوں وفا کے مقام سے
دل کے معاملے میں نتیجے کی فکر کیا
آگے ہے عشق جرم و سزا کے مقام سے
|
Jigar Moradabadi
|
تیرے جمال حقیقت کی طاب ہی نہ ہوئی جگر مرادآبادی غزلیں
|
ترے جمال حقیقت کی تاب ہی نہ ہوئی
ہزار بار نگہ کی مگر کبھی نہ ہوئی
تری خوشی سے اگر غم میں بھی خوشی نہ ہوئی
وہ زندگی تو محبت کی زندگی نہ ہوئی
کہاں وہ شوخ ملاقات خود سے بھی نہ ہوئی
بس ایک بار ہوئی اور پھر کبھی نہ ہوئی
وہ ہم ہیں اہل محبت کہ جان سے دل سے
بہت بخار اٹھے آنکھ شبنمی نہ ہوئی
ٹھہر ٹھہر دل بے تاب پیار تو کر لوں
اب اس کے بعد ملاقات پھر ہوئی نہ ہوئی
مرے خیال سے بھی آہ مجھ کو بعد رہا
ہزار طرح سے چاہا برابری نہ ہوئی
ہم اپنی رندی و طاعت پہ خاک ناز کریں
قبول حضرت سلطاں ہوئی ہوئی نہ ہوئی
کوئی بڑھے نہ بڑھے ہم تو جان دیتے ہیں
پھر ایسی چشم توجہ ہوئی ہوئی نہ ہوئی
تمام حرف و حکایت تمام دیدہ و دل
اس اہتمام پہ بھی شرح عاشقی نہ ہوئی
فسردہ خاطرئ عشق اے معاذ اللہ
خیال یار سے بھی کچھ شگفتگی نہ ہوئی
تری نگاہ کرم کو بھی آزما دیکھا
اذیتوں میں نہ ہونی تھی کچھ کمی نہ ہوئی
کسی کی مست نگاہی نے ہاتھ تھام لیا
شریک حال جہاں میری بے خودی نہ ہوئی
صبا یہ ان سے ہمارا پیام کہہ دینا
گئے ہو جب سے یہاں صبح و شام ہی نہ ہوئی
وہ کچھ سہی نہ سہی پھر بھی زاہد ناداں
بڑے بڑوں سے محبت میں کافری نہ ہوئی
ادھر سے بھی ہے سوا کچھ ادھر کی مجبوری
کہ ہم نے آہ تو کی ان سے آہ بھی نہ ہوئی
خیال یار سلامت تجھے خدا رکھے
ترے بغیر کبھی گھر میں روشنی نہ ہوئی
گئے تھے ہم بھی جگرؔ جلوہ گاہ جاناں میں
وہ پوچھتے ہی رہے ہم سے بات بھی نہ ہوئی
|
Wali Mohammad Wali
|
بھڑکے ہے دل کی آتش تجھ نے کی ہوا، سن والی محمد والی غزلیں۔
|
بھڑکے ہے دل کی آتش تجھ نیہ کی ہوا سوں
شعلہ نمط جلا دل تجھ حسن شعلہ زا سوں
گل کے چراغ گل ہو یک بار جھڑ پڑیں سب
مجھ آہ کی حکایت بولیں اگر صبا سوں
نکلی ہے جست کر کر ہر سنگ دل سوں آتش
چقماق جب پلک کی جھاڑا ہے توں ادا سوں
سجدہ بدل رکھے سر سر تا قدم عرق ہو
تجھ با حیا کے پگ پر آ کر حنا حیا سوں
یاں درد ہے پرم کا بیہودہ سر کہے مت
یہ بات سن ولیؔ کی جا کر کہو دوا سوں
|
Mirza Ghalib
|
کوئی دن گر زندگانی اور ہے مرزا غالب غزلیں
|
کوئی دن گر زندگانی اور ہے
اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے
آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں
سوز غم ہائے نہانی اور ہے
بارہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیں
پر کچھ اب کے سرگرانی اور ہے
دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر
کچھ تو پیغام زبانی اور ہے
قاطع اعمار ہے اکثر نجوم
وہ بلائے آسمانی اور ہے
ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام
ایک مرگ ناگہانی اور ہے
|
Kaifi Azmi
|
کہیں سے لوٹ کے ہم لڑکھڑائے ہیں، کیا کیا کیفی اعظمی غزلیں
|
کہیں سے لوٹ کے ہم لڑکھڑائے ہیں کیا کیا
ستارے زیر قدم رات آئے ہیں کیا کیا
نشیب ہستی سے افسوس ہم ابھر نہ سکے
فراز دار سے پیغام آئے ہیں کیا کیا
جب اس نے ہار کے خنجر زمیں پہ پھینک دیا
تمام زخم جگر مسکرائے ہیں کیا کیا
چھٹا جہاں سے اس آواز کا گھنا بادل
وہیں سے دھوپ نے تلوے جلائے ہیں کیا کیا
اٹھا کے سر مجھے اتنا تو دیکھ لینے دے
کہ قتل گاہ میں دیوانے آئے ہیں کیا کیا
کہیں اندھیرے سے مانوس ہو نہ جائے ادب
چراغ تیز ہوا نے بجھائے ہیں کیا کیا
|
Ahmad Faraz
|
ساقیا ایک نظر جام سے پہلے پہلے، احمد فراز کی غزلیں
|
ساقیا ایک نظر جام سے پہلے پہلے
ہم کو جانا ہے کہیں شام سے پہلے پہلے
نو گرفتار وفا سعئ رہائی ہے عبث
ہم بھی الجھے تھے بہت دام سے پہلے پہلے
خوش ہو اے دل کہ محبت تو نبھا دی تو نے
لوگ اجڑ جاتے ہیں انجام سے پہلے پہلے
اب ترے ذکر پہ ہم بات بدل دیتے ہیں
کتنی رغبت تھی ترے نام سے پہلے پہلے
سامنے عمر پڑی ہے شب تنہائی کی
وہ مجھے چھوڑ گیا شام سے پہلے پہلے
کتنا اچھا تھا کہ ہم بھی جیا کرتے تھے فرازؔ
غیر معروف سے گمنام سے پہلے پہلے
|
Mirza Ghalib
|
حجوم نالہ حیرت عاجز ارض یک آہنگ ہے، مرزا غالب غزلیں
|
ہجوم نالہ حیرت عاجز عرض یک افغاں ہے
خموشی ریشۂ صد نیستاں سے خس بہ دنداں ہے
تکلف بر طرف ہے جاں ستاں تر لطف بد خویاں
نگاہ بے حجاب ناز تیغ تیز عریاں ہے
ہوئی یہ کثرت غم سے تلف کیفیت شادی
کہ صبح عید مجھ کو بد تر از چاک گریباں ہے
دل و دیں نقد لا ساقی سے گر سودا کیا چاہے
کہ اس بازار میں ساغر متاع دست گرداں ہے
غم آغوش بلا میں پرورش دیتا ہے عاشق کو
چراغ روشن اپنا قلزم صرصر کا مرجاں ہے
تکلف ساز رسوائی ہے غافل شرم رعنائی
دل خوں گشتہ در دست حنا آلودہ عریاں ہے
اسدؔ جمعیت دل در کنار بے خودی خوش تر
دو عالم آگہی سامان یک خواب پریشاں ہے
کہ جامے کو عرق سعی عروج نشہ رنگیں تر
خط رخسار ساقی تا خط ساغر چراغاں ہے
رہا بے قدر دل در پردۂ جوش ظہور آخر
گل و نرگس بہم آئینہ و اقلیم کوراں ہے
تماشا سرخوش غفلت ہے با وصف حضور دل
ہنوز آئینہ خلوت گاہ ناز ربط مژگاں ہے
تکلف بر طرف ذوق زلیخا جمع کر ورنہ
پریشاں خواب آغوش وداع یوسف ستاں ہے
|
Javed Akhtar
|
خواب کے گاؤں میں پلے ہیں ہم، جاوید اختر غزلیں
|
خواب کے گاؤں میں پلے ہیں ہم
پانی چھلنی میں لے چلے ہیں ہم
چھاچھ پھونکیں کہ اپنے بچپن میں
دودھ سے کس طرح جلے ہیں ہم
خود ہیں اپنے سفر کی دشواری
اپنے پیروں کے آبلے ہیں ہم
تو تو مت کہہ ہمیں برا دنیا
تو نے ڈھالا ہے اور ڈھلے ہیں ہم
کیوں ہیں کب تک ہیں کس کی خاطر ہیں
بڑے سنجیدہ مسئلے ہیں ہم
|
Mirza Ghalib
|
ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے مرزا غالب غزلیں
|
ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے
صبح وطن ہے خندۂ دنداں نما مجھے
ڈھونڈے ہے اس مغنی آتش نفس کو جی
جس کی صدا ہو جلوۂ برق فنا مجھے
مستانہ طے کروں ہوں رہ وادی خیال
تا باز گشت سے نہ رہے مدعا مجھے
کرتا ہے بسکہ باغ میں تو بے حجابیاں
آنے لگی ہے نکہت گل سے حیا مجھے
کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
واں رنگ ہا بہ پردۂ تدبیر ہیں ہنوز
یاں شعلۂ چراغ ہے برگ حنا مجھے
پرواز ہا نیاز تماشائے حسن دوست
بال کشادہ ہے نگۂ آشنا مجھے
از خود گزشتگی میں خموشی پہ حرف ہے
موج غبار سرمہ ہوئی ہے صدا مجھے
تا چند پست فطرتیٔ طبع آرزو
یا رب ملے بلندیٔ دست دعا مجھے
میں نے جنوں سے کی جو اسدؔ التماس رنگ
خون جگر میں ایک ہی غوطہ دیا مجھے
ہے پیچ تاب رشتۂ شمع سحر گہی
خجلت گدازیٔ نفس نارسا مجھے
یاں آب و دانہ موسم گل میں حرام ہے
زنار واگسستہ ہے موج صبا مجھے
یکبار امتحان ہوس بھی ضرور ہے
اے جوش عشق بادۂ مرد آزما مجھے
|
Parveen Shakir
|
جستجو کھوئے ہوئوں کی عمر بھر کرتے رہے پروین شاکر غزلیں
|
جستجو کھوئے ہوؤں کی عمر بھر کرتے رہے
چاند کے ہم راہ ہم ہر شب سفر کرتے رہے
راستوں کا علم تھا ہم کو نہ سمتوں کی خبر
شہر نامعلوم کی چاہت مگر کرتے رہے
ہم نے خود سے بھی چھپایا اور سارے شہر کو
تیرے جانے کی خبر دیوار و در کرتے رہے
وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا اس شام بھی
انتظار اس کا مگر کچھ سوچ کر کرتے رہے
آج آیا ہے ہمیں بھی ان اڑانوں کا خیال
جن کو تیرے زعم میں بے بال و پر کرتے رہے
|
Nida Fazli
|
جب سے قریب ہو کے چلے زندگی سے ہم، ندا فاضلی غزلیں
|
جب سے قریب ہو کے چلے زندگی سے ہم
خود اپنے آئنے کو لگے اجنبی سے ہم
کچھ دور چل کے راستے سب ایک سے لگے
ملنے گئے کسی سے مل آئے کسی سے ہم
اچھے برے کے فرق نے بستی اجاڑ دی
مجبور ہو کے ملنے لگے ہر کسی سے ہم
شائستہ محفلوں کی فضاؤں میں زہر تھا
زندہ بچے ہیں ذہن کی آوارگی سے ہم
اچھی بھلی تھی دنیا گزارے کے واسطے
الجھے ہوئے ہیں اپنی ہی خود آگہی سے ہم
جنگل میں دور تک کوئی دشمن نہ کوئی دوست
مانوس ہو چلے ہیں مگر بمبئی سے ہم
|
Allama Iqbal
|
سما سکتا نہیں پہناۓ فطرت میں میرا سودا علامہ اقبال غزلیں
|
سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا
غلط تھا اے جنوں شاید ترا اندازۂ صحرا
خودی سے اس طلسم رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں
یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا
نگہ پیدا کر اے غافل تجلی عین فطرت ہے
کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا
رقابت علم و عرفاں میں غلط بینی ہے منبر کی
کہ وہ حلاج کی سولی کو سمجھا ہے رقیب اپنا
خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں غلامی میں
زرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغنا
نہ کر تقلید اے جبریل میرے جذب و مستی کی
تن آساں عرشیوں کو ذکر و تسبیح و طواف اولیٰ
بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے مے خانے
یہاں ساقی نہیں پیدا وہاں بے ذوق ہے صہبا
نہ ایراں میں رہے باقی نہ توراں میں رہے باقی
وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاک قیصر و کسریٰ
یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیم بوذر و دلق اویس و چادر زہرا
حضور حق میں اسرافیل نے میری شکایت کی
یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے برپا
ندا آئی کہ آشوب قیامت سے یہ کیا کم ہے
' گرفتہ چینیاں احرام و مکی خفتہ در بطحا
لبالب شیشۂ تہذیب حاضر ہے مے لا سے
مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانۂ الا
دبا رکھا ہے اس کو زخمہ ور کی تیز دستی نے
بہت نیچے سروں میں ہے ابھی یورپ کا واویلا
اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی
نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ و بالا
غلامی کیا ہے ذوق حسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا
بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردان حر کی آنکھ ہے بینا
وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا
فرنگی شیشہ گر کے فن سے پتھر ہو گئے پانی
مری اکسیر نے شیشے کو بخشی سختیٔ خارا
رہے ہیں اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک
مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے ید بیضا
وہ چنگاری خس و خاشاک سے کس طرح دب جائے
جسے حق نے کیا ہو نیستاں کے واسطے پیدا
محبت خویشتن بینی محبت خویشتن داری
محبت آستان قیصر و کسریٰ سے بے پروا
عجب کیا گر مہ و پرویں مرے نخچیر ہو جائیں
کہ بر فتراک صاحب دولتے بستم سر خود را
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادیٔ سینا
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طہٰ
سنائیؔ کے ادب سے میں نے غواصی نہ کی ورنہ
ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولوئے لالا
|
Akbar Allahabadi
|
وہ ہوا نہ رہی وہ چمن نہ رہا وہ گلی نہ رہی وہ حسین نہ رہے، اکبر الہ آبادی غزلیں
|
وہ ہوا نہ رہی وہ چمن نہ رہا وہ گلی نہ رہی وہ حسیں نہ رہے
وہ فلک نہ رہا وہ سماں نہ رہا وہ مکاں نہ رہے وہ مکیں نہ رہے
وہ گلوں میں گلوں کی سی بو نہ رہی وہ عزیزوں میں لطف کی خو نہ رہی
وہ حسینوں میں رنگ وفا نہ رہا کہیں اور کی کیا وہ ہمیں نہ رہے
نہ وہ آن رہی نہ امنگ رہی نہ وہ رندی و زہد کی جنگ رہی
سوئے قبلہ نگاہوں کے رخ نہ رہے اور در پہ نقش جبیں نہ رہے
نہ وہ جام رہے نہ وہ مست رہے نہ فدائی عہد الست رہے
وہ طریقۂ کار جہاں نہ رہا وہ مشاغل رونق دیں نہ رہے
ہمیں لاکھ زمانہ لبھائے تو کیا نئے رنگ جو چرخ دکھائے تو کیا
یہ محال ہے اہل وفا کے لیے غم ملت و الفت دیں نہ رہے
ترے کوچۂ زلف میں دل ہے مرا اب اسے میں سمجھتا ہوں دام بلا
یہ عجیب ستم ہے عجیب جفا کہ یہاں نہ رہے تو کہیں نہ رہے
یہ تمہارے ہی دم سے ہے بزم طرب ابھی جاؤ نہ تم نہ کرو یہ غضب
کوئی بیٹھ کے لطف اٹھائے گا کیا کہ جو رونق بزم تمہیں نہ رہے
جو تھیں چشم فلک کی بھی نور نظر وہی جن پہ نثار تھے شمس و قمر
سو اب ایسی مٹی ہیں وہ انجمنیں کہ نشان بھی ان کے کہیں نہ رہے
وہی صورتیں رہ گئیں پیش نظر جو زمانہ کو پھیریں ادھر سے ادھر
مگر ایسے جمال جہاں آرا جو تھے رونق روئے زمیں نہ رہے
غم و رنج میں اکبرؔ اگر ہے گھرا تو سمجھ لے کہ رنج کو بھی ہے فنا
کسی شے کو نہیں ہے جہاں میں بقا وہ زیادہ ملول و حزیں نہ رہے
|
Mohsin Naqvi
|
آنسو اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا، محسن نقوی غزلیں
|
اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا
ابر کی زد میں ستارا نہیں دیکھا جاتا
اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے جب تک
زیر خنجر کوئی پیارا نہیں دیکھا جاتا
موج در موج الجھنے کی ہوس بے معنی
ڈوبتا ہو تو سہارا نہیں دیکھا جاتا
تیرے چہرے کی کشش تھی کہ پلٹ کر دیکھا
ورنہ سورج تو دوبارہ نہیں دیکھا جاتا
آگ کی ضد پہ نہ جا پھر سے بھڑک سکتی ہے
راکھ کی تہہ میں شرارہ نہیں دیکھا جاتا
زخم آنکھوں کے بھی سہتے تھے کبھی دل والے
اب تو ابرو کا اشارا نہیں دیکھا جاتا
کیا قیامت ہے کہ دل جس کا نگر ہے محسنؔ
دل پہ اس کا بھی اجارہ نہیں دیکھا جاتا
|
Waseem Barelvi
|
وسیم بریلوی کی غزلیں اداسیوں میں بھی راستے نکال لیتی ہیں۔
|
اداسیوں میں بھی رستے نکال لیتا ہے
عجیب دل ہے گروں تو سنبھال لیتا ہے
یہ کیسا شخص ہے کتنی ہی اچھی بات کہو
کوئی برائی کا پہلو نکال لیتا ہے
ڈھلے تو ہوتی ہے کچھ اور احتیاط کی عمر
کہ بہتے بہتے یہ دریا اچھال لیتا ہے
بڑے بڑوں کی طرح داریاں نہیں چلتیں
عروج تیری خبر جب زوال لیتا ہے
جب اس کے جام میں اک بوند تک نہیں ہوتی
وہ میری پیاس کو پھر بھی سنبھال لیتا ہے
|
Meer Taqi Meer
|
اس عہد میں الہی محبت کو کیا ہوا میر تقی میر غزلیں
|
اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا
چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا
امیدوار وعدۂ دیدار مر چلے
آتے ہی آتے یارو قیامت کو کیا ہوا
کب تک تظلم آہ بھلا مرگ کے تئیں
کچھ پیش آیا واقعہ رحمت کو کیا ہوا
اس کے گئے پر ایسے گئے دل سے ہم نشیں
معلوم بھی ہوا نہ کہ طاقت کو کیا ہوا
بخشش نے مجھ کو ابر کرم کی کیا خجل
اے چشم جوش اشک ندامت کو کیا ہوا
جاتا ہے یار تیغ بکف غیر کی طرف
اے کشتۂ ستم تری غیرت کو کیا ہوا
تھی صعب عاشقی کی بدایت ہی میرؔ پر
کیا جانیے کہ حال نہایت کو کیا ہوا
|
Waseem Barelvi
|
جہاں دریا کہیں اپنے کنارے چھوڑ دیتا ہے، وسیم بریلوی غزلیں
|
جہاں دریا کہیں اپنے کنارے چھوڑ دیتا ہے
کوئی اٹھتا ہے اور طوفان کا رخ موڑ دیتا ہے
مجھے بے دست و پا کر کے بھی خوف اس کا نہیں جاتا
کہیں بھی حادثہ گزرے وہ مجھ سے جوڑ دیتا ہے
بچھڑ کے تجھ سے کچھ جانا اگر تو اس قدر جانا
وہ مٹی ہوں جسے دریا کنارے چھوڑ دیتا ہے
محبت میں ذرا سی بے وفائی تو ضروری ہے
وہی اچھا بھی لگتا ہے جو وعدے توڑ دیتا ہے
|
Gulzar
|
زندگی یوں ہوئی بسر تنہا گلزار غزلیں
|
زندگی یوں ہوئی بسر تنہا
قافلہ ساتھ اور سفر تنہا
اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں
عمر گزری ہے اس قدر تنہا
رات بھر باتیں کرتے ہیں تارے
رات کاٹے کوئی کدھر تنہا
ڈوبنے والے پار جا اترے
نقش پا اپنے چھوڑ کر تنہا
دن گزرتا نہیں ہے لوگوں میں
رات ہوتی نہیں بسر تنہا
ہم نے دروازے تک تو دیکھا تھا
پھر نہ جانے گئے کدھر تنہا
|
Allama Iqbal
|
متاع بے بہا ہے درد و سوزِ آرزومندی علامہ اقبال غزلیں
|
متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی
مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی
ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی
حجاب اکسیر ہے آوارۂ کوئے محبت کو
مری آتش کو بھڑکاتی ہے تیری دیر پیوندی
گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں
کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کار آشیاں بندی
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
زیارت گاہ اہل عزم و ہمت ہے لحد میری
کہ خاک راہ کو میں نے بتایا راز الوندی
مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسن معنی کو
کہ فطرت خود بہ خود کرتی ہے لالے کی حنا بندی
|
Jaun Eliya
|
دل نے وفا کے نام پر کارِ وفا نہیں کیا، جون ایلیا غزلیں
|
دل نے وفا کے نام پر کار وفا نہیں کیا
خود کو ہلاک کر لیا خود کو فدا نہیں کیا
خیرہ سران شوق کا کوئی نہیں ہے جنبہ دار
شہر میں اس گروہ نے کس کو خفا نہیں کیا
جو بھی ہو تم پہ معترض اس کو یہی جواب دو
آپ بہت شریف ہیں آپ نے کیا نہیں کیا
نسبت علم ہے بہت حاکم وقت کو عزیز
اس نے تو کار جہل بھی بے علما نہیں کیا
جس کو بھی شیخ و شاہ نے حکم خدا دیا قرار
ہم نے نہیں کیا وہ کام ہاں بہ خدا نہیں کیا
|
Dagh Dehlvi
|
غیر کو منہ لگا کے دیکھ لیا داغ دہلوی غزلیں
|
غیر کو منہ لگا کے دیکھ لیا
جھوٹ سچ آزما کے دیکھ لیا
ان کے گھر داغؔ جا کے دیکھ لیا
دل کے کہنے میں آ کے دیکھ لیا
کتنی فرحت فزا تھی بوئے وفا
اس نے دل کو جلا کے دیکھ لیا
کبھی غش میں رہا شب وعدہ
کبھی گردن اٹھا کے دیکھ لیا
جنس دل ہے یہ وہ نہیں سودا
ہر جگہ سے منگا کے دیکھ لیا
لوگ کہتے ہیں چپ لگی ہے تجھے
حال دل بھی سنا کے دیکھ لیا
جاؤ بھی کیا کرو گے مہر و وفا
بارہا آزما کے دیکھ لیا
زخم دل میں نہیں ہے قطرۂ خوں
خوب ہم نے دکھا کے دیکھ لیا
ادھر آئینہ ہے ادھر دل ہے
جس کو چاہا اٹھا کے دیکھ لیا
ان کو خلوت سرا میں بے پردہ
صاف میدان پا کے دیکھ لیا
اس نے صبح شب وصال مجھے
جاتے جاتے بھی آ کے دیکھ لیا
تم کو ہے وصل غیر سے انکار
اور جو ہم نے آ کے دیکھ لیا
داغؔ نے خوب عاشقی کا مزا
جل کے دیکھا جلا کے دیکھ لیا
|
Altaf Hussain Hali
|
حق وفا کے جو ہم جتانے لگے الطاف حسین حالی غزلیں
|
حق وفا کے جو ہم جتانے لگے
آپ کچھ کہہ کے مسکرانے لگے
تھا یہاں دل میں طعن وصل عدو
عذر ان کی زباں پہ آنے لگے
ہم کو جینا پڑے گا فرقت میں
وہ اگر ہمت آزمانے لگے
ڈر ہے میری زباں نہ کھل جائے
اب وہ باتیں بہت بنانے لگے
جان بچتی نظر نہیں آتی
غیر الفت بہت جتانے لگے
تم کو کرنا پڑے گا عذر جفا
ہم اگر درد دل سنانے لگے
سخت مشکل ہے شیوۂ تسلیم
ہم بھی آخر کو جی چرانے لگے
جی میں ہے لوں رضائے پیر مغاں
قافلے پھر حرم کو جانے لگے
سر باطن کو فاش کر یا رب
اہل ظاہر بہت ستانے لگے
وقت رخصت تھا سخت حالیؔ پر
ہم بھی بیٹھے تھے جب وہ جانے لگے
|
Gulzar
|
بے سبب مسکرا رہا ہے چاند گلزار غزلوں کا
|
بے سبب مسکرا رہا ہے چاند
کوئی سازش چھپا رہا ہے چاند
جانے کس کی گلی سے نکلا ہے
جھینپا جھینپا سا آ رہا ہے چاند
کتنا غازہ لگایا ہے منہ پر
دھول ہی دھول اڑا رہا ہے چاند
کیسا بیٹھا ہے چھپ کے پتوں میں
باغباں کو ستا رہا ہے چاند
سیدھا سادہ افق سے نکلا تھا
سر پہ اب چڑھتا جا رہا ہے چاند
چھو کے دیکھا تو گرم تھا ماتھا
دھوپ میں کھیلتا رہا ہے چاند
|
Mohsin Naqvi
|
سانسوں کے اس ہنر کو نہ آسان خیال کر، محسن نقوی غزلیں
|
سانسوں کے اس ہنر کو نہ آساں خیال کر
زندہ ہوں ساعتوں کو میں صدیوں میں ڈھال کر
مالی نے آج کتنی دعائیں وصول کیں
کچھ پھول اک فقیر کی جھولی میں ڈال کر
کل یوم ہجر زرد زمانوں کا یوم ہے
شب بھر نہ جاگ مفت میں آنکھیں نہ لال کر
اے گرد باد لوٹ کے آنا ہے پھر مجھے
رکھنا مرے سفر کی اذیت سنبھال کر
محراب میں دیے کی طرح زندگی گزار
منہ زور آندھیوں میں نہ خود کو نڈھال کر
شاید کسی نے بخل زمیں پر کیا ہے طنز
گہرے سمندروں سے جزیرے نکال کر
یہ نقد جاں کہ اس کا لٹانا تو سہل ہے
گر بن پڑے تو اس سے بھی مشکل سوال کر
محسنؔ برہنہ سر چلی آئی ہے شام غم
غربت نہ دیکھ اس پہ ستاروں کی شال کر
|
Nida Fazli
|
تنہا تنہا دکھ جھیلیں گے، محفل محفل گائیں گے، ندا فاضلی کی غزلیں۔
|
تنہا تنہا دکھ جھیلیں گے محفل محفل گائیں گے
جب تک آنسو پاس رہیں گے تب تک گیت سنائیں گے
تم جو سوچو وہ تم جانو ہم تو اپنی کہتے ہیں
دیر نہ کرنا گھر آنے میں ورنہ گھر کھو جائیں گے
بچوں کے چھوٹے ہاتھوں کو چاند ستارے چھونے دو
چار کتابیں پڑھ کر یہ بھی ہم جیسے ہو جائیں گے
اچھی صورت والے سارے پتھر دل ہوں ممکن ہے
ہم تو اس دن رائے دیں گے جس دن دھوکا کھائیں گے
کن راہوں سے سفر ہے آساں کون سا رستہ مشکل ہے
ہم بھی جب تھک کر بیٹھیں گے اوروں کو سمجھائیں گے
|
Jigar Moradabadi
|
جہل خرد نے دن یہ دکھائے، جگر مرادآبادی غزلیں
|
جہل خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
ہائے وہ کیونکر دل بہلائے
غم بھی جس کو راس نہ آئے
ضد پر عشق اگر آ جائے
پانی چھڑکے آگ لگائے
دل پہ کچھ ایسا وقت پڑا ہے
بھاگے لیکن راہ نہ پائے
کیسا مجاز اور کیسی حقیقت
اپنے ہی جلوے اپنے ہی سائے
جھوٹی ہے ہر ایک مسرت
روح اگر تسکین نہ پائے
کار زمانہ جتنا جتنا
بنتا جائے بگڑتا جائے
ضبط محبت شرط محبت
جی ہے کہ ظالم امڈا آئے
حسن وہی ہے حسن جو ظالم
ہاتھ لگائے ہاتھ نہ آئے
نغمہ وہی ہے نغمہ کہ جس کو
روح سنے اور روح سنائے
راہ جنوں آسان ہوئی ہے
زلف و مژہ کے سائے سائے
|
Parveen Shakir
|
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی پروین شاکر غزلیں
|
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
تیرا پہلو ترے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی
|
Javed Akhtar
|
آج میں نے اپنا پھر سودا کیا جاوید اختر غزلیں
|
آج میں نے اپنا پھر سودا کیا
اور پھر میں دور سے دیکھا کیا
زندگی بھر میرے کام آئے اصول
ایک اک کر کے انہیں بیچا کیا
بندھ گئی تھی دل میں کچھ امید سی
خیر تم نے جو کیا اچھا کیا
کچھ کمی اپنی وفاؤں میں بھی تھی
تم سے کیا کہتے کہ تم نے کیا کیا
کیا بتاؤں کون تھا جس نے مجھے
اس بھری دنیا میں ہے تنہا کیا
|
Mirza Ghalib
|
نہیں کہ مجھ کو قیامت کا یقین نہیں مرزا غالب غزلیں
|
نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
شب فراق سے روز جزا زیاد نہیں
کوئی کہے کہ شب مہ میں کیا برائی ہے
بلا سے آج اگر دن کو ابر و باد نہیں
جو آؤں سامنے ان کے تو مرحبا نہ کہیں
جو جاؤں واں سے کہیں کو تو خیرباد نہیں
کبھی جو یاد بھی آتا ہوں میں تو کہتے ہیں
کہ آج بزم میں کچھ فتنہ و فساد نہیں
علاوہ عید کے ملتی ہے اور دن بھی شراب
گدائے کوچۂ مے خانہ نا مراد نہیں
جہاں میں ہو غم شادی بہم ہمیں کیا کام
دیا ہے ہم کو خدا نے وہ دل کی شاد نہیں
تم ان کے وعدہ کا ذکر ان سے کیوں کرو غالبؔ
یہ کیا کہ تم کہو اور وہ کہیں کہ یاد نہیں
|
Mohsin Naqvi
|
اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر، محسن نقوی غزلیں
|
اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر
کیا جانئے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے
خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اڑا کر
اس شخص کے تم سے بھی مراسم ہیں تو ہوں گے
وہ جھوٹ نہ بولے گا مرے سامنے آ کر
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر
اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے
تو حلقۂ یاراں میں بھی محتاط رہا کر
اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسنؔ
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر
|
Gulzar
|
جب بھی یہ دل اداس ہوتا ہے، گلزار کی غزلیں
|
جب بھی یہ دل اداس ہوتا ہے
جانے کون آس پاس ہوتا ہے
آنکھیں پہچانتی ہیں آنکھوں کو
درد چہرہ شناس ہوتا ہے
گو برستی نہیں سدا آنکھیں
ابر تو بارہ ماس ہوتا ہے
چھال پیڑوں کی سخت ہے لیکن
نیچے ناخن کے ماس ہوتا ہے
زخم کہتے ہیں دل کا گہنہ ہے
درد دل کا لباس ہوتا ہے
ڈس ہی لیتا ہے سب کو عشق کبھی
سانپ موقع شناس ہوتا ہے
صرف اتنا کرم کیا کیجے
آپ کو جتنا راس ہوتا ہے
|
Faiz Ahmad Faiz
|
پھر حریفِ بہار ہو بیٹھے فیض احمد فیض غزلیں
|
پھر حریف بہار ہو بیٹھے
جانے کس کس کو آج رو بیٹھے
تھی مگر اتنی رائیگاں بھی نہ تھی
آج کچھ زندگی سے کھو بیٹھے
تیرے در تک پہنچ کے لوٹ آئے
عشق کی آبرو ڈبو بیٹھے
ساری دنیا سے دور ہو جائے
جو ذرا تیرے پاس ہو بیٹھے
نہ گئی تیری بے رخی نہ گئی
ہم تری آرزو بھی کھو بیٹھے
فیضؔ ہوتا رہے جو ہونا ہے
شعر لکھتے رہا کرو بیٹھے
|
Akbar Allahabadi
|
تیری زلفوں میں دل الجھا ہوا ہے، اکبر الہ آبادی غزلیں
|
تری زلفوں میں دل الجھا ہوا ہے
بلا کے پیچ میں آیا ہوا ہے
نہ کیوں کر بوئے خوں نامے سے آئے
اسی جلاد کا لکھا ہوا ہے
چلے دنیا سے جس کی یاد میں ہم
غضب ہے وہ ہمیں بھولا ہوا ہے
کہوں کیا حال اگلی عشرتوں کا
وہ تھا اک خواب جو بھولا ہوا ہے
جفا ہو یا وفا ہم سب میں خوش ہیں
کریں کیا اب تو دل اٹکا ہوا ہے
ہوئی ہے عشق ہی سے حسن کی قدر
ہمیں سے آپ کا شہرا ہوا ہے
بتوں پر رہتی ہے مائل ہمیشہ
طبیعت کو خدایا کیا ہوا ہے
پریشاں رہتے ہو دن رات اکبرؔ
یہ کس کی زلف کا سودا ہوا ہے
|
Sahir Ludhianvi
|
ہوس نصیب نظر کو کہیں قرار نہیں، ساحر لدھیانوی غزلیں
|
ہوس نصیب نظر کو کہیں قرار نہیں
میں منتظر ہوں مگر تیرا انتظار نہیں
ہمیں سے رنگ گلستاں ہمیں سے رنگ بہار
ہمیں کو نظم گلستاں پہ اختیار نہیں
ابھی نہ چھیڑ محبت کے گیت اے مطرب
ابھی حیات کا ماحول خوش گوار نہیں
تمہارے عہد وفا کو میں عہد کیا سمجھوں
مجھے خود اپنی محبت پہ اعتبار نہیں
نہ جانے کتنے گلے اس میں مضطرب ہیں ندیم
وہ ایک دل جو کسی کا گلہ گزار نہیں
گریز کا نہیں قائل حیات سے لیکن
جو سچ کہوں کہ مجھے موت ناگوار نہیں
یہ کس مقام پہ پہنچا دیا زمانے نے
کہ اب حیات پہ تیرا بھی اختیار نہیں
|
Sahir Ludhianvi
|
یہ زلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا، ساحر لدھیانوی غزلیں
|
یہ زلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا
اس رات کی تقدیر سنور جائے تو اچھا
جس طرح سے تھوڑی سی ترے ساتھ کٹی ہے
باقی بھی اسی طرح گزر جائے تو اچھا
دنیا کی نگاہوں میں بھلا کیا ہے برا کیا
یہ بوجھ اگر دل سے اتر جائے تو اچھا
ویسے تو تمہیں نے مجھے برباد کیا ہے
الزام کسی اور کے سر جائے تو اچھا
|
Nazm Tabatabai
|
سنگِ جفا کا غم نہیں، دستِ طلب کا ڈر نہیں، نظم طباعی، غزلیں۔
|
سنگ جفا کا غم نہیں دست طلب کا ڈر نہیں
اپنا ہے اس پر آشیاں نخل جو بارور نہیں
سنتے ہو اہل قافلہ میں کوئی راہ بر نہیں
دیکھ رہا ہوں تم میں سے ایک بھی راہ پر نہیں
موت کا گھر ہے آسماں اس سے کہیں مفر نہیں
نکلیں تو کوئی در نہیں بھاگیں تو رہ گزر نہیں
پہلے جگر پر آہ کا نام نہ تھا نشاں نہ تھا
آخر کار یہ ہوا آہ تو ہے جگر نہیں
صبح ازل سے تا ابد قصہ نہ ہوگا یہ تمام
جور فلک کی داستاں ایسی بھی مختصر نہیں
برگ خزاں رسیدہ ہوں چھیڑ نہ مجھ کو اے نسیم
ذوق فغاں کا ہے مجھے شکوۂ ابر تر نہیں
منکر حشر ہے کدھر دیکھے تو آنکھ کھول کر
حشر کی جو خبر نہ دے ایسی کوئی سحر نہیں
شبنم و گل کو دیکھ کر وجد نہ آئے کس طرح
خندہ بے سبب نہیں گریہ بے اثر نہیں
تیرے فقیر کا غرور تاجوروں سے ہے سوا
طرف کلہ میں دے شکن اس کو یہ درد سر نہیں
کوشک و قصر و بام و در تو نے بنا کئے تو کیا
حیف ہے خانماں خراب دل میں کسی کے گھیر نہیں
نالہ کشی رقیب سے میری طرح محال ہے
دل نہیں حوصلہ نہیں زہرہ نہیں جگر نہیں
شاطر پیر آسماں واہ ری تیری دست برد
خسرو و کیقباد کی تیغ نہیں کمر نہیں
شان کریم کی یہ ہے ہاں سے ہو پیشتر عطا
لطف عطا کا کیا ہو جب ہاں سے ہو پیشتر نہیں
لاکھ وہ بے رخی کرے لاکھ وہ کج روی کرے
کچھ تو ملال اس کا ہو دل کو مرے مگر نہیں
سن کے برا نہ مانئے سچ کو نہ جھوٹ جانئے
ذکر ہے کچھ گلہ نہیں بات ہے نیشتر نہیں
|
Parveen Shakir
|
پورا دکھ اور آدھا چاند پروین شاکر غزلیں
|
پورا دکھ اور آدھا چاند
ہجر کی شب اور ایسا چاند
دن میں وحشت بہل گئی
رات ہوئی اور نکلا چاند
کس مقتل سے گزرا ہوگا
اتنا سہما سہما چاند
یادوں کی آباد گلی میں
گھوم رہا ہے تنہا چاند
میری کروٹ پر جاگ اٹھے
نیند کا کتنا کچا چاند
میرے منہ کو کس حیرت سے
دیکھ رہا ہے بھولا چاند
اتنے گھنے بادل کے پیچھے
کتنا تنہا ہوگا چاند
آنسو روکے نور نہائے
دل دریا تن صحرا چاند
اتنے روشن چہرے پر بھی
سورج کا ہے سایا چاند
جب پانی میں چہرہ دیکھا
تو نے کس کو سوچا چاند
برگد کی اک شاخ ہٹا کر
جانے کس کو جھانکا چاند
بادل کے ریشم جھولے میں
بھور سمے تک سویا چاند
رات کے شانے پر سر رکھے
دیکھ رہا ہے سپنا چاند
سوکھے پتوں کے جھرمٹ پر
شبنم تھی یا ننھا چاند
ہاتھ ہلا کر رخصت ہوگا
اس کی صورت ہجر کا چاند
صحرا صحرا بھٹک رہا ہے
اپنے عشق میں سچا چاند
رات کے شاید ایک بجے ہیں
سوتا ہوگا میرا چاند
|
Nida Fazli
|
اب خوشی ہے نہ کوئی درد رلانے والا ندا فاضلی غزلیں
|
اب خوشی ہے نہ کوئی درد رلانے والا
ہم نے اپنا لیا ہر رنگ زمانے والا
ایک بے چہرہ سی امید ہے چہرہ چہرہ
جس طرف دیکھیے آنے کو ہے آنے والا
اس کو رخصت تو کیا تھا مجھے معلوم نہ تھا
سارا گھر لے گیا گھر چھوڑ کے جانے والا
دور کے چاند کو ڈھونڈو نہ کسی آنچل میں
یہ اجالا نہیں آنگن میں سمانے والا
اک مسافر کے سفر جیسی ہے سب کی دنیا
کوئی جلدی میں کوئی دیر سے جانے والا
|
Javed Akhtar
|
یہ مجھ سے پوچھتے ہیں چارہ گر کیوں جاوید اختر غزلیں
|
یہ مجھ سے پوچھتے ہیں چارہ گر کیوں
کہ تو زندہ تو ہے اب تک مگر کیوں
جو رستہ چھوڑ کے میں جا رہا ہوں
اسی رستے پہ جاتی ہے نظر کیوں
تھکن سے چور پاس آیا تھا اس کے
گرا سوتے میں مجھ پر یہ شجر کیوں
سنائیں گے کبھی فرصت میں تم کو
کہ ہم برسوں رہے ہیں در بہ در کیوں
یہاں بھی سب ہیں بیگانہ ہی مجھ سے
کہوں میں کیا کہ یاد آیا ہے گھر کیوں
میں خوش رہتا اگر سمجھا نہ ہوتا
یہ دنیا ہے تو میں ہوں دیدہ ور کیوں
|
Ahmad Faraz
|
وحشتیں بڑھتی گئیں ہجر کے اضطراب کے ساتھ، احمد فراز کی غزلیں۔
|
وحشتیں بڑھتی گئیں ہجر کے آزار کے ساتھ
اب تو ہم بات بھی کرتے نہیں غم خوار کے ساتھ
ہم نے اک عمر بسر کی ہے غم یار کے ساتھ
میرؔ دو دن نہ جئے ہجر کے آزار کے ساتھ
اب تو ہم گھر سے نکلتے ہیں تو رکھ دیتے ہیں
طاق پر عزت سادات بھی دستار کے ساتھ
اس قدر خوف ہے اب شہر کی گلیوں میں کہ لوگ
چاپ سنتے ہیں تو لگ جاتے ہیں دیوار کے ساتھ
ایک تو خواب لیے پھرتے ہو گلیوں گلیوں
اس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ
شہر کا شہر ہی ناصح ہو تو کیا کیجئے گا
ورنہ ہم رند تو بھڑ جاتے ہیں دو چار کے ساتھ
ہم کو اس شہر میں تعمیر کا سودا ہے جہاں
لوگ معمار کو چن دیتے ہیں دیوار کے ساتھ
جو شرف ہم کو ملا کوچۂ جاناں سے فرازؔ
سوئے مقتل بھی گئے ہیں اسی پندار کے ساتھ
|
Wali Mohammad Wali
|
ساجن تک ناز سن، مجھ پاس آ آہستہ آہستہ، ولی محمد ولی کی غزلیں۔
|
سجن ٹک ناز سوں مجھ پاس آ آہستہ آہستہ
چھپی باتیں اپس دل کی سنا آہستہ آہستہ
غرض گویاں کی باتاں کوں نہ لا خاطر منیں ہرگز
سجن اس بات کوں خاطر میں لا آہستہ آہستہ
ہر اک کی بات سننے پر توجہ مت کر اے ظالم
رقیباں اس سیں ہوئیں گے جدا آہستہ آہستہ
مبادا محتسب بدمست سن کر تان میں آوے
طنبورہ آہ کا اے دل بجا آہستہ آہستہ
ولیؔ ہرگز اپس کے دل کوں سینے میں نہ رکھ غمگیں
کہ بر لاوے گا مطلب کوں خدا آہستہ آہستہ
|
Habib Jalib
|
خوب آزادیِ صحافت ہے حبیب جلیب غزلیں
|
خوب آزادئ صحافت ہے
نظم لکھنے پہ بھی قیامت ہے
دعویٰ جمہوریت کا ہے ہر آن
یہ حکومت بھی کیا حکومت ہے
دھاندلی دھونس کی ہے پیداوار
سب کو معلوم یہ حقیقت ہے
خوف کے ذہن و دل پہ سائے ہیں
کس کی عزت یہاں سلامت ہے
کبھی جمہوریت یہاں آئے
یہی جالبؔ ہماری حسرت ہے
|
Faiz Ahmad Faiz
|
سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا، سبھی راحتیں، سبھی کلفتیں، فیض احمد فیض غزلیں۔
|
سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا سبھی راحتیں سبھی کلفتیں
کبھی صحبتیں کبھی فرقتیں کبھی دوریاں کبھی قربتیں
یہ سخن جو ہم نے رقم کیے یہ ہیں سب ورق تری یاد کے
کوئی لمحہ صبح وصال کا کوئی شام ہجر کی مدتیں
جو تمہاری مان لیں ناصحا تو رہے گا دامن دل میں کیا
نہ کسی عدو کی عداوتیں نہ کسی صنم کی مروتیں
چلو آؤ تم کو دکھائیں ہم جو بچا ہے مقتل شہر میں
یہ مزار اہل صفا کے ہیں یہ ہیں اہل صدق کی تربتیں
مری جان آج کا غم نہ کر کہ نہ جانے کاتب وقت نے
کسی اپنے کل میں بھی بھول کر کہیں لکھ رکھی ہوں مسرتیں
|
Meer Taqi Meer
|
یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں، میر تقی میر غزلیں
|
یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں
اب دو تو جام خالی ہی دو میں نشے میں ہوں
ایک ایک قرط دور میں یوں ہی مجھے بھی دو
جام شراب پر نہ کرو میں نشے میں ہوں
مستی سے درہمی ہے مری گفتگو کے بیچ
جو چاہو تم بھی مجھ کو کہو میں نشے میں ہوں
یا ہاتھوں ہاتھ لو مجھے مانند جام مے
یا تھوڑی دور ساتھ چلو میں نشے میں ہوں
معذور ہوں جو پاؤں مرا بے طرح پڑے
تم سرگراں تو مجھ سے نہ ہو میں نشے میں ہوں
بھاگی نماز جمعہ تو جاتی نہیں ہے کچھ
چلتا ہوں میں بھی ٹک تو رہو میں نشے میں ہوں
نازک مزاج آپ قیامت ہیں میرؔ جی
جوں شیشہ میرے منہ نہ لگو میں نشے میں ہوں
|
Dagh Dehlvi
|
کون سا طائرِ گم گشتہ اُسے یاد آیا داغ دہلوی غزلیں
|
کون سا طائر گم گشتہ اسے یاد آیا
دیکھتا بھالتا ہر شاخ کو صیاد آیا
میرے قابو میں نہ پہروں دل ناشاد آیا
وہ مرا بھولنے والا جو مجھے یاد آیا
کوئی بھولا ہوا انداز ستم یاد آیا
کہ تبسم تجھے ظالم دم بیداد آیا
لائے ہیں لوگ جنازے کی طرح محشر میں
کس مصیبت سے ترا کشتۂ بیداد آیا
جذب وحشت ترے قربان ترا کیا کہنا
کھنچ کے رگ رگ میں مرے نشتر فصاد آیا
اس کے جلوے کو غرض کون و مکاں سے کیا تھا
داد لینے کے لیے حسن خداداد آیا
بستیوں سے یہی آواز چلی آتی ہے
جو کیا تو نے وہ آگے ترے فرہاد آیا
دل ویراں سے رقیبوں نے مرادیں پائیں
کام کس کس کے مرا خرمن برباد آیا
عشق کے آتے ہی منہ پر مرے پھولی ہے بسنت
ہو گیا زرد یہ شاگرد جب استاد آیا
ہو گیا فرض مجھے شوق کا دفتر لکھنا
جب مرے ہاتھ کوئی خامۂ فولاد آیا
عید ہے قتل مرا اہل تماشا کے لیے
سب گلے ملنے لگے جب کہ وہ جلاد آیا
چین کرتے ہیں وہاں رنج اٹھانے والے
کام عقبیٰ میں ہمارا دل ناشاد آیا
دی شب وصل موذن نے اذاں پچھلی رات
ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا
میرے نالے نے سنائی ہے کھری کس کس کو
منہ فرشتوں پہ یہ گستاخ یہ آزاد آیا
غم جاوید نے دی مجھ کو مبارک بادی
جب سنا یہ کہ انہیں شیوۂ بیداد آیا
میں تمنائے شہادت کا مزا بھول گیا
آج اس شوق سے ارمان سے جلاد آیا
شادیانہ جو دیا نالہ و شیون نے دیا
جب ملاقات کو ناشاد کی ناشاد آیا
لیجئے سنئے اب افسانۂ فرقت مجھ سے
آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا
آپ کی بزم میں سب کچھ ہے مگر داغؔ نہیں
ہم کو وہ خانہ خراب آج بہت یاد آیا
|
Waseem Barelvi
|
ہم اپنے آپ کو ایک مثال بنا نہ سکے، وسیم بریلوی غزلیں
|
ہم اپنے آپ کو اک مسئلہ بنا نہ سکے
اسی لئے تو کسی کی نظر میں آ نہ سکے
ہم آنسوؤں کی طرح واسطے نبھا نہ سکے
رہے جن آنکھوں میں ان میں ہی گھر بنا نہ سکے
پھر آندھیوں نے سکھایا وہاں سفر کا ہنر
جہاں چراغ ہمیں راستہ دکھا نہ سکے
جو پیش پیش تھے بستی بچانے والوں میں
لگی جب آگ تو اپنا بھی گھر بچا نہ سکے
مرے خدا کسی ایسی جگہ اسے رکھنا
جہاں کوئی مرے بارے میں کچھ بتا نہ سکے
تمام عمر کی کوشش کا بس یہی حاصل
کسی کو اپنے مطابق کوئی بنا نہ سکے
تسلیوں پہ بہت دن جیا نہیں جاتا
کچھ ایسا ہو کے ترا اعتبار آ نہ سکے
|
Javed Akhtar
|
ہم تو بچپن میں بھی اکیلے تھے، جاوید اختر غزلیں
|
ہم تو بچپن میں بھی اکیلے تھے
صرف دل کی گلی میں کھیلے تھے
اک طرف مورچے تھے پلکوں کے
اک طرف آنسوؤں کے ریلے تھے
تھیں سجی حسرتیں دکانوں پر
زندگی کے عجیب میلے تھے
خود کشی کیا دکھوں کا حل بنتی
موت کے اپنے سو جھمیلے تھے
ذہن و دل آج بھوکے مرتے ہیں
ان دنوں ہم نے فاقے جھیلے تھے
|
Mirza Ghalib
|
راندی ہوئی ہے کوکبہ شہریار کی مرزا غالب غزلیں
|
روندی ہوئی ہے کوکبۂ شہریار کی
اترائے کیوں نہ خاک سر رہ گزار کی
جب اس کے دیکھنے کے لیے آئیں بادشاہ
لوگوں میں کیوں نمود نہ ہو لالہ زار کی
بھوکے نہیں ہیں سیر گلستاں کے ہم ولے
کیونکر نہ کھائیے کہ ہوا ہے بہار کی
|
Habib Jalib
|
جھوٹی خبریں گھڑنے والے، جھوٹے شعر سنانے والے، حبیب جالب غزلیں
|
جھوٹی خبریں گھڑنے والے جھوٹے شعر سنانے والے
لوگو صبر کہ اپنے کئے کی جلد سزا ہیں پانے والے
درد آنکھوں سے بہتا ہے اور چہرہ سب کچھ کہتا ہے
یہ مت لکھو وہ مت لکھو آئے بڑے سمجھانے والے
خود کاٹیں گے اپنی مشکل خود پائیں گے اپنی منزل
راہزنوں سے بھی بد تر ہیں راہنما کہلانے والے
ان سے پیار کیا ہے ہم نے ان کی راہ میں ہم بیٹھے ہیں
نا ممکن ہے جن کا ملنا اور نہیں جو آنے والے
ان پر بھی ہنستی تھی دنیا آوازیں کستی تھی دنیا
جالبؔ اپنی ہی صورت تھے عشق میں جاں سے جانے والے
|
Sahir Ludhianvi
|
چہرے پہ خوشی چھا جاتی ہے، آنکھوں میں سرور آ جاتا ہے، ساحر لدھیانوی غزلیں۔
|
چہرے پہ خوشی چھا جاتی ہے آنکھوں میں سرور آ جاتا ہے
جب تم مجھے اپنا کہتے ہو اپنے پہ غرور آ جاتا ہے
تم حسن کی خود اک دنیا ہو شاید یہ تمہیں معلوم نہیں
محفل میں تمہارے آنے سے ہر چیز پہ نور آ جاتا ہے
ہم پاس سے تم کو کیا دیکھیں تم جب بھی مقابل ہوتے ہو
بیتاب نگاہوں کے آگے پردہ سا ضرور آ جاتا ہے
جب تم سے محبت کی ہم نے تب جا کے کہیں یہ راز کھلا
مرنے کا سلیقہ آتے ہی جینے کا شعور آ جاتا ہے
|
Mirza Ghalib
|
کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا مرزا غالب غزلیں
|
کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
دل کہاں کہ گم کیجے ہم نے مدعا پایا
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی درد بے دوا پایا
دوست دار دشمن ہے اعتماد دل معلوم
آہ بے اثر دیکھی نالہ نارسا پایا
سادگی و پرکاری بے خودی و ہشیاری
حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا
غنچہ پھر لگا کھلنے آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا گم کیا ہوا پایا
حال دل نہیں معلوم لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بارہا ڈھونڈا تم نے بارہا پایا
شور پند ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
بے دماغ خجلت ہوں رشک امتحاں تا کے
ایک بیکسی تجھ کو عالم آشنا پایا
خاک بازی امید کارخانۂ طفلی
یاس کو دو عالم سے لب بہ خندہ وا پایا
کیوں نہ وحشت غالب باج خواہ تسکیں ہو
کشتۂ تغافل کو خصم خوں بہا پایا
فکر نالہ میں گویا حلقہ ہوں ز سر تا پا
عضو عضو جوں زنجیر یک دل صدا پایا
شب نظارہ پرور تھا خواب میں خیال اس کا
صبح موجۂ گل کو نقش بوریا پایا
جس قدر جگر خوں ہو کوچہ دادن گل ہے
زخم تیغ قاتل کو طرفہ دل کشا پایا
ہے مکیں کی پا داری نام صاحب خانہ
ہم سے تیرے کوچے نے نقش مدعا پایا
نے اسدؔ جفا سائل نے ستم جنوں مائل
تجھ کو جس قدر ڈھونڈا الفت آزما پایا
|
Naseer Turabi
|
تجھے کیا خبر میرے بے خبر میرا سلسلہ کوئی اور ہے، نصیر ترابی غزلیں ۳
|
تجھے کیا خبر مرے بے خبر مرا سلسلہ کوئی اور ہے
جو مجھی کو مجھ سے بہم کرے وہ گریز پا کوئی اور ہے
مرے موسموں کے بھی طور تھے مرے برگ و بار ہی اور تھے
مگر اب روش ہے الگ کوئی مگر اب ہوا کوئی اور ہے
یہی شہر شہر قرار ہے تو دل شکستہ کی خیر ہو
مری آس ہے کسی اور سے مجھے پوچھتا کوئی اور ہے
یہ وہ ماجرائے فراق ہے جو محبتوں سے نہ کھل سکا
کہ محبتوں ہی کے درمیاں سبب جفا کوئی اور ہے
ہیں محبتوں کی امانتیں یہی ہجرتیں یہی قربتیں
دیے بام و در کسی اور نے تو رہا بسا کوئی اور ہے
یہ فضا کے رنگ کھلے کھلے اسی پیش و پس کے ہیں سلسلے
ابھی خوش نوا کوئی اور تھا ابھی پر کشا کوئی اور ہے
دل زود رنج نہ کر گلہ کسی گرم و سرد رقیب کا
رخ ناسزا تو ہے روبرو پس ناسزا کوئی اور ہے
بہت آئے ہمدم و چارہ گر جو نمود و نام کے ہو گئے
جو زوال غم کا بھی غم کرے وہ خوش آشنا کوئی اور ہے
یہ نصیرؔ شام سپردگی کی اداس اداس سی روشنی
بہ کنار گل ذرا دیکھنا یہ تمہی ہو یا کوئی اور ہے
|
Bahadur Shah Zafar
|
نہیں عشق میں اس کا تو رنج ہمیں کہ قرار و شکیب ذرا نہ رہا، بہادر شاہ ظفر غزلیں
|
نہیں عشق میں اس کا تو رنج ہمیں کہ قرار و شکیب ذرا نہ رہا
غم عشق تو اپنا رفیق رہا کوئی اور بلا سے رہا نہ رہا
دیا اپنی خودی کو جو ہم نے اٹھا وہ جو پردہ سا بیچ میں تھا نہ رہا
رہے پردے میں اب نہ وہ پردہ نشیں کوئی دوسرا اس کے سوا نہ رہا
نہ تھی حال کی جب ہمیں خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
ترے رخ کے خیال میں کون سے دن اٹھے مجھ پہ نہ فتنۂ روز جزا
تری زلف کے دھیان میں کون سی شب مرے سر پہ ہجوم بلا نہ رہا
ہمیں ساغر بادہ کے دینے میں اب کرے دیر جو ساقی تو ہائے غضب
کہ یہ عہد نشاط یہ دور طرب نہ رہے گا جہاں میں سدا نہ رہا
کئی روز میں آج وہ مہر لقا ہوا میرے جو سامنے جلوہ نما
مجھے صبر و قرار ذرا نہ رہا اسے پاس حجاب و حیا نہ رہا
ترے خنجر و تیغ کی آب رواں ہوئی جب کہ سبیل ستم زدگاں
گئے کتنے ہی قافلے خشک زباں کوئی تشنۂ آب بقا نہ رہا
مجھے صاف بتائے نگار اگر تو یہ پوچھوں میں رو رو کے خون جگر
ملے پاؤں سے کس کے ہیں دیدۂ تر کف پا پہ جو رنگ حنا نہ رہا
اسے چاہا تھا میں نے کہ روک رکھوں مری جان بھی جائے تو جانے نہ دوں
کئے لاکھ فریب کروڑ فسوں نہ رہا نہ رہا نہ رہا نہ رہا
لگے یوں تو ہزاروں ہی تیر ستم کہ تڑپتے رہے پڑے خاک پہ ہم
ولے ناز و کرشمہ کی تیغ دو دم لگی ایسی کہ تسمہ لگا نہ رہا
ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانئے گا وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
|
Gulzar
|
مجھے اندھیرے میں بیشک بٹھا دیا ہوتا گلزار غزلز ۱
|
مجھے اندھیرے میں بے شک بٹھا دیا ہوتا
مگر چراغ کی صورت جلا دیا ہوتا
نہ روشنی کوئی آتی مرے تعاقب میں
جو اپنے آپ کو میں نے بجھا دیا ہوتا
یہ درد جسم کے یارب بہت شدید لگے
مجھے صلیب پہ دو پل سلا دیا ہوتا
یہ شکر ہے کہ مرے پاس تیرا غم تو رہا
وگرنہ زندگی نے تو رلا دیا ہوتا
|
Akbar Allahabadi
|
کہاں وہ اب لطفِ باہمی ہے، محبتوں میں بہت کمی ہے، اکبر الہ آبادی غزلیں۔
|
کہاں وہ اب لطف باہمی ہے محبتوں میں بہت کمی ہے
چلی ہے کیسی ہوا الٰہی کہ ہر طبیعت میں برہمی ہے
مری وفا میں ہے کیا تزلزل مری اطاعت میں کیا کمی ہے
یہ کیوں نگاہیں پھری ہیں مجھ سے مزاج میں کیوں یہ برہمی ہے
وہی ہے فضل خدا سے اب تک ترقی کار حسن و الفت
نہ وہ ہیں مشق ستم میں قاصر نہ خون دل کی یہاں کمی ہے
عجیب جلوے ہیں ہوش دشمن کہ وہم کے بھی قدم رکے ہیں
عجیب منظر ہیں حیرت افزا نظر جہاں تھی وہیں تھمی ہے
نہ کوئی تکریم باہمی ہے نہ پیار باقی ہے اب دلوں میں
یہ صرف تحریر میں ڈیر سر ہے یا جناب مکرمی ہے
کہاں کے مسلم کہاں کے ہندو بھلائی ہیں سب نے اگلی رسمیں
عقیدے سب کے ہیں تین تیرہ نہ گیارہویں ہے نہ اسٹمی ہے
نظر مری اور ہی طرف ہے ہزار رنگ زمانہ بدلے
ہزار باتیں بنائے ناصح جمی ہے دل میں جو کچھ جمی ہے
اگرچہ میں رند محترم ہوں مگر اسے شیخ سے نہ پوچھو
کہ ان کے آگے تو اس زمانے میں ساری دنیا جہنمی ہے
|
Mirza Ghalib
|
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار مرزا غالب غزلیں
|
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
صحرا مگر بہ تنگی چشم حسود تھا
آشفتگی نے نقش سویدا کیا درست
ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا
لیتا ہوں مکتب غم دل میں سبق ہنوز
لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا
ڈھانپا کفن نے داغ عیوب برہنگی
میں ورنہ ہر لباس میں ننگ وجود تھا
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسدؔ
سرگشتۂ خمار رسوم و قیود تھا
عالم جہاں بہ عرض بساط وجود تھا
جوں صبح چاک جیب مجھے تار و پود تھا
بازی خور فریب ہے اہل نظر کا ذوق
ہنگامہ گرم حیرت بود و نبود تھا
عالم طلسم شہر خموشی ہے سربسر
یا میں غریب کشور گفت و شنود تھا
تنگی رفیق رہ تھی عدم یا وجود تھا
میرا سفر بہ طالع چشم حسود تھا
تو یک جہاں قماش ہوس جمع کر کہ میں
حیرت متاع عالم نقصان و سود تھا
گردش محیط ظلم رہا جس قدر فلک
میں پائمال غمزۂ چشم کبود تھا
پوچھا تھا گرچہ یار نے احوال دل مگر
کس کو دماغ منت گفت و شنود تھا
خور شبنم آشنا نہ ہوا ورنہ میں اسدؔ
سر تا قدم گزارش ذوق سجود تھا
|
Meer Taqi Meer
|
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا میر تقی میر غزلیں
|
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا
حرف نہیں جاں بخشی میں اس کی خوبی اپنی قسمت کی
ہم سے جو پہلے کہہ بھیجا سو مرنے کا پیغام کیا
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں
بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا
سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا
کس کا کعبہ کیسا قبلہ کون حرم ہے کیا احرام
کوچے کے اس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا
شیخ جو ہے مسجد میں ننگا رات کو تھا مے خانے میں
جبہ خرقہ کرتا ٹوپی مستی میں انعام کیا
کاش اب برقعہ منہ سے اٹھا دے ورنہ پھر کیا حاصل ہے
آنکھ مندے پر ان نے گو دیدار کو اپنے عام کیا
یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا یا دن کو جوں توں شام کیا
صبح چمن میں اس کو کہیں تکلیف ہوا لے آئی تھی
رخ سے گل کو مول لیا قامت سے سرو غلام کیا
ساعد سیمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لا کر چھوڑ دیئے
بھولے اس کے قول و قسم پر ہائے خیال خام کیا
کام ہوئے ہیں سارے ضائع ہر ساعت کی سماجت سے
استغنا کی چوگنی ان نے جوں جوں میں ابرام کیا
ایسے آہوئے رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی
سحر کیا اعجاز کیا جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا
میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
|
Mirza Ghalib
|
مجھ کو دیار غیر میں مارا وطن سے دور مرزا غالب غزلیں
|
مجھ کو دیار غیر میں مارا وطن سے دور
رکھ لی مرے خدا نے مری بیکسی کی شرم
وہ حلقہ ہاۓ زلف کمیں میں ہیں یا خدا
رکھ لیجو میرے دعوی وارستگی کی شرم
|
Mirza Ghalib
|
جو نہ نقد داغ دل کی کرے شعلہ پاسبانی مرزا غالب غزلیں
|
جو نہ نقد داغ دل کی کرے شعلہ پاسبانی
تو فسردگی نہاں ہے بہ کمین بے زبانی
مجھے اس سے کیا توقع بہ زمانۂ جوانی
کبھی کودکی میں جس نے نہ سنی مری کہانی
یوں ہی دکھ کسی کو دینا نہیں خوب ورنہ کہتا
کہ مرے عدو کو یا رب ملے میری زندگانی
|
Javed Akhtar
|
شکر ہے خیریت سے ہوں صاحب، جاوید اختر غزلیں
|
شکر ہے خیریت سے ہوں صاحب
آپ سے اور کیا کہوں صاحب
اب سمجھنے لگا ہوں سود و زیاں
اب کہاں مجھ میں وہ جنوں صاحب
ذلت زیست یا شکست ضمیر
یہ سہوں میں کہ وہ سہوں صاحب
ہم تمہیں یاد کرتے رو لیتے
دو گھڑی ملتا جو سکوں صاحب
شام بھی ڈھل رہی ہے گھر بھی ہے دور
کتنی دیر اور میں رکوں صاحب
اب جھکوں گا تو ٹوٹ جاؤں گا
کیسے اب اور میں جھکوں صاحب
کچھ روایات کی گواہی پر
کتنا جرمانہ میں بھروں صاحب
|
Bahadur Shah Zafar
|
ہوتے ہوتے چشم سے آج اشک باری رہ گئی، بہادر شاہ ظفر غزلیں
|
ہوتے ہوتے چشم سے آج اشک باری رہ گئی
آبرو بارے تری ابر بہاری رہ گئی
آتے آتے اس طرف ان کی سواری رہ گئی
دل کی دل میں آرزوئے جاں نثاری رہ گئی
ہم کو خطرہ تھا کہ لوگوں میں تھا چرچا اور کچھ
بات خط آنے سے تیرے پر ہماری رہ گئی
ٹکڑے ٹکڑے ہو کے اڑ جائے گا سب سنگ مزار
دل میں بعد از مرگ کچھ گر بے قراری رہ گئی
اتنا ملیے خاک میں جو خاک میں ڈھونڈے کوئی
خاکساری خاک کی گر خاکساری رہ گئی
آؤ گر آنا ہے کیوں گن گن کے رکھتے ہو قدم
اور کوئی دم کی ہے یاں دم شماری رہ گئی
ہو گیا جس دن سے اپنے دل پر اس کو اختیار
اختیار اپنا گیا بے اختیاری رہ گئی
جب قدم اس کافر بدکیش کی جانب بڑھے
دور پہنچے سو قدم پرہیزگاری رہ گئی
کھینچتے ہی تیغ ادا کے دم ہوا اپنا ہوا
آہ دل میں آرزوئے زخم کاری رہ گئی
اور تو غم خوار سارے کر چکے غم خوارگی
اب فقط ہے ایک غم کی غم گساری رہ گئی
شکوہ عیاری کا یاروں سے بجا ہے اے ظفرؔ
اس زمانے میں یہی ہے رسم یاری رہ گئی
|
Wali Mohammad Wali
|
عشق بے تابِ جان گدازی ہے ولی محمد ولی غزلیں
|
عشق بیتاب جاں گدازی ہے
حسن مشتاق دل نوازی ہے
اشک خونیں سوں جو کیا ہے وضو
مذہب عشق میں نمازی ہے
جو ہوا راز عشق سوں آگاہ
وو زمانے کا فخر رازی ہے
پاک بازاں سوں یوں ہوا مفہوم
عشق مضمون پاک بازی ہے
جا کے پہنچی ہے حد ظلمت کوں
بسکہ تجھ زلف میں درازی ہے
تجربے سوں ہوا مجھے ظاہر
ناز مفہوم بے نیازی ہے
اے ولیؔ عیش ظاہری کا سبب
جلوۂ شاہد مجازی ہے
|
Mirza Ghalib
|
جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی، مرزا غالب غزلیں
|
جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
لکھ دیجیو یا رب اسے قسمت میں عدو کی
اچھا ہے سر انگشت حنائی کا تصور
دل میں نظر آتی تو ہے اک بوند لہو کی
کیوں ڈرتے ہو عشاق کی بے حوصلگی سے
یاں تو کوئی سنتا نہیں فریاد کسو کی
دشنے نے کبھی منہ نہ لگایا ہو جگر کو
خنجر نے کبھی بات نہ پوچھی ہو گلو کی
صد حیف وہ ناکام کہ اک عمر سے غالبؔ
حسرت میں رہے ایک بت عربدہ جو کی
گو زندگی زاہد بے چارہ عبث ہے
اتنا ہے کہ رہتی تو ہے تدبیر وضو کی
اب بے خبراں میرے لب زخم جگر پر
بخیہ جسے کہتے ہو شکایت ہے رفو کی
|
Javed Akhtar
|
میں کب سے کتنا ہوں تنہا تجھے پتا بھی نہیں، جاوید اختر غزلیں
|
میں کب سے کتنا ہوں تنہا تجھے پتا بھی نہیں
ترا تو کوئی خدا ہے مرا خدا بھی نہیں
کبھی یہ لگتا ہے اب ختم ہو گیا سب کچھ
کبھی یہ لگتا ہے اب تک تو کچھ ہوا بھی نہیں
کبھی تو بات کی اس نے کبھی رہا خاموش
کبھی تو ہنس کے ملا اور کبھی ملا بھی نہیں
کبھی جو تلخ کلامی تھی وہ بھی ختم ہوئی
کبھی گلہ تھا ہمیں ان سے اب گلہ بھی نہیں
وہ چیخ ابھری بڑی دیر گونجی ڈوب گئی
ہر ایک سنتا تھا لیکن کوئی ہلا بھی نہیں
|
Subsets and Splits
No community queries yet
The top public SQL queries from the community will appear here once available.