Poet
stringclasses
30 values
Poem_name
stringlengths
19
107
Poetry
stringlengths
68
2.22k
Mirza Ghalib
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا، مرزا غالب غزلیں
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا رنگ شکستہ صبح بہار نظارہ ہے یہ وقت ہے شگفتن گل ہائے ناز کا تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز میں اور دکھ تری مژہ ہائے دراز کا صرفہ ہے ضبط آہ میں میرا وگرنہ میں طعمہ ہوں ایک ہی نفس جاں گداز کا ہیں بسکہ جوش بادہ سے شیشے اچھل رہے ہر گوشۂ بساط ہے سر شیشہ باز کا کاوش کا دل کرے ہے تقاضا کہ ہے ہنوز ناخن پہ قرض اس گرہ نیم باز کا تاراج کاوش غم ہجراں ہوا اسدؔ سینہ کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا
Mirza Ghalib
ابن مریم ہوا کرے کوئی مرزا غالب غزلیں
ابن مریم ہوا کرے کوئی میرے دکھ کی دوا کرے کوئی شرع و آئین پر مدار سہی ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی چال جیسے کڑی کمان کا تیر دل میں ایسے کے جا کرے کوئی بات پر واں زبان کٹتی ہے وہ کہیں اور سنا کرے کوئی بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی نہ سنو گر برا کہے کوئی نہ کہو گر برا کرے کوئی روک لو گر غلط چلے کوئی بخش دو گر خطا کرے کوئی کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند کس کی حاجت روا کرے کوئی کیا کیا خضر نے سکندر سے اب کسے رہنما کرے کوئی جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
Mirza Ghalib
عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے، مرزا غالب غزلیں
عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے کہ اپنے سائے سے سر پانو سے ہے دو قدم آگے قضا نے تھا مجھے چاہا خراب بادۂ الفت فقط خراب لکھا بس نہ چل سکا قلم آگے غم زمانہ نے جھاڑی نشاط عشق کی مستی وگرنہ ہم بھی اٹھاتے تھے لذت الم آگے خدا کے واسطے داد اس جنون شوق کی دینا کہ اس کے در پہ پہنچتے ہیں نامہ بر سے ہم آگے یہ عمر بھر جو پریشانیاں اٹھائی ہیں ہم نے تمہارے آئیو اے طرہ ہاۓ خم بہ خم آگے دل و جگر میں پرافشاں جو ایک موجۂ خوں ہے ہم اپنے زعم میں سمجھے ہوئے تھے اس کو دم آگے قسم جنازے پہ آنے کی میرے کھاتے ہیں غالبؔ ہمیشہ کھاتے تھے جو میری جان کی قسم آگے
Fahmida Riaz
چار سو ہے بڑی وحشت کا سامان فہمیدہ ریاض غزلیں
چار سو ہے بڑی وحشت کا سماں کسی آسیب کا سایہ ہے یہاں کوئی آواز سی ہے مرثیہ خواں شہر کا شہر بنا گورستاں ایک مخلوق جو بستی ہے یہاں جس پہ انساں کا گزرتا ہے گماں خود تو ساکت ہے مثال تصویر جنبش غیر سے ہے رقص کناں کوئی چہرہ نہیں جز زیر نقاب نہ کوئی جسم ہے جز بے دل و جاں علما ہیں دشمن فہم و تحقیق کودنی شیوۂ دانش منداں شاعر قوم پہ بن آئی ہے کذب کیسے ہو تصوف میں نہاں لب ہیں مصروف قصیدہ گوئی اور آنکھوں میں ہے ذلت عریاں سبز خط عاقبت و دیں کے اسیر پارسا خوش تن و نو خیز جواں یہ زن نغمہ گر و عشق شعار یاس و حسرت سے ہوئی ہے حیراں کس سے اب آرزوئے وصل کریں اس خرابے میں کوئی مرد کہاں
Firaq GorakhPuri
جہاں گنچہ دل کا فقط چٹکنا تھا، فراق گورکھپوری غزلیں
جہان غنچۂ دل کا فقط چٹکنا تھا اسی کی بوئے پریشاں وجود دنیا تھا یہ کہہ کے کل کوئی بے اختیار روتا تھا وہ اک نگاہ سہی کیوں کسی کو دیکھا تھا طنابیں کوچۂ قاتل کی کھنچتی جاتی تھیں شہید تیغ ادا میں بھی زور کتنا تھا بس اک جھلک نظر آئی اڑے کلیم کے ہوش بس اک نگاہ ہوئی خاک طور سینا تھا ہر اک کے ہاتھ فقط غفلتیں تھیں ہوش نما کہ اپنے آپ سے بیگانہ وار جینا تھا یہی ہوا کہ فریب امید و یاس مٹے وہ پا گئے ترے ہاتھوں ہمیں جو پانا تھا چمن میں غنچۂ گل کھلکھلا کے مرجھائے یہی وہ تھے جنہیں ہنس ہنس کے جان دینا تھا نگاہ مہر میں جس کی ہیں صد پیام فنا اسی کا عالم ایجاد و ناز بے جا تھا جہاں تو جلوہ نما تھا لرزتی تھی دنیا ترے جمال سے کیسا جلال پیدا تھا حیات و مرگ کے کچھ راز کھل گئے ہوں گے فسانۂ شب غم ورنہ دوستو کیا تھا شب عدم کا فسانہ گداز شمع حیات سوائے کیف فنا میرا ماجرا کیا تھا کچھ ایسی بات نہ تھی تیرا دور ہو جانا یہ اور بات کہ رہ رہ کے درد اٹھتا تھا نہ پوچھ سود و زیاں کاروبار الفت کے وگرنہ یوں تو نہ پانا تھا کچھ نہ کھوتا تھا لگاوٹیں وہ ترے حسن بے نیاز کی آہ میں تیری بزم سے جب ناامید اٹھا تھا تجھے ہم اے دل درد آشنا کہاں ڈھونڈیں ہم اپنے ہوش میں کب تھے کوئی جب اٹھا تھا عدم کا راز صدائے شکست ساز حیات حجاب زیست بھی کتنا لطیف پردا تھا یہ اضطراب و سکوں بھی تھی اک فریب حیات کہ اپنے حال سے بیگانہ وار جینا تھا کہاں پہ چوک ہوئی تیرے بے قراروں سے زمانہ دوسری کروٹ بدلنے والا تھا یہ کوئی یاد ہے یہ بھی ہے کوئی محویت ترے خیال میں تجھ کو بھی بھول جانا تھا کہاں کی چوٹ ابھر آئی حسن تاباں میں دم نظارہ وہ رخ درد سا چمکتا تھا نہ پوچھ رمز و کنایات چشم ساقی کے بس ایک حشر خموش انجمن میں برپا تھا چمن چمن تھی گل داغ عشق سے ہستی اسی کی نکہت برباد کا زمانہ تھا وہ تھا مرا دل خوں گشتہ جس کے مٹنے سے بہار باغ جناں تھی وجود دنیا تھا قسم ہے بادہ کشو چشم مست ساقی کی بتاؤ ہاتھ سے کیا جام مے سنبھلتا تھا وصال اس سے میں چاہوں کہاں یہ دل میرا یہ رو رہا ہوں کہ کیوں اس کو میں نے دیکھا تھا امید یاس بنی یاس پھر امید بنی اس اک نظر میں فریب نگاہ کتنا تھا یہ سوز و ساز نہاں تھا وہ سوز و ساز عیاں وصال و ہجر میں بس فرق تھا تو اتنا تھا شکست ساز چمن تھی بہار لالہ و گل خزاں مچلتی تھی غنچہ جہاں چٹکتا تھا ہر ایک سانس ہے تجدید یاد ایامے گزر گیا وہ زمانہ جسے گزرنا تھا نہ کوئی وعدہ نہ کوئی یقیں نہ کوئی امید مگر ہمیں تو ترا انتظار کرنا تھا کسی کے صبر نے بے صبر دیا سب کو فراقؔ نزع میں کروٹ کوئی بدلتا تھا
Mirza Ghalib
کبھی نیکی بھی اس کے جی میں گر آ جائے ہے مجھ سے مرزا غالب غزلیں
کبھی نیکی بھی اس کے جی میں گر آ جائے ہے مجھ سے جفائیں کر کے اپنی یاد شرما جائے ہے مجھ سے خدایا جذبۂ دل کی مگر تاثیر الٹی ہے کہ جتنا کھینچتا ہوں اور کھنچتا جائے ہے مجھ سے وہ بد خو اور میری داستان عشق طولانی عبارت مختصر قاصد بھی گھبرا جائے ہے مجھ سے ادھر وہ بد گمانی ہے ادھر یہ ناتوانی ہے نہ پوچھا جائے ہے اس سے نہ بولا جائے ہے مجھ سے سنبھلنے دے مجھے اے نا امیدی کیا قیامت ہے کہ دامان خیال یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے تکلف بر طرف نظارگی میں بھی سہی لیکن وہ دیکھا جائے کب یہ ظلم دیکھا جائے ہے مجھ سے ہوئے ہیں پاؤں ہی پہلے نبرد عشق میں زخمی نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے قیامت ہے کہ ہووے مدعی کا ہم سفر غالبؔ وہ کافر جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سے
Dagh Dehlvi
تماشا دیر و حرم دیکھتے ہیں داغ دہلوی غزلیں
تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں تجھے ہر بہانے سے ہم دیکھتے ہیں ہماری طرف اب وہ کم دیکھتے ہیں وہ نظریں نہیں جن کو ہم دیکھتے ہیں زمانے کے کیا کیا ستم دیکھتے ہیں ہمیں جانتے ہیں جو ہم دیکھتے ہیں پھرے بت کدے سے تو اے اہل کعبہ پھر آ کر تمہارے قدم دیکھتے ہیں ہمیں چشم بینا دکھاتی ہے سب کچھ وہ اندھے ہیں جو جام جم دیکھتے ہیں نہ ایمائے خواہش نہ اظہار مطلب مرے منہ کو اہل کرم دیکھتے ہیں کبھی توڑتے ہیں وہ خنجر کو اپنے کبھی نبض بسمل میں دم دیکھتے ہیں غنیمت ہے چشم تغافل بھی ان کی بہت دیکھتے ہیں جو کم دیکھتے ہیں غرض کیا کہ سمجھیں مرے خط کا مضموں وہ عنوان و طرز رقم دیکھتے ہیں سلامت رہے دل برا ہے کہ اچھا ہزاروں میں یہ ایک دم دیکھتے ہیں رہا کون محفل میں اب آنے والا وہ چاروں طرف دم بدم دیکھتے ہیں ادھر شرم حائل ادھر خوف مانع نہ وہ دیکھتے ہیں نہ ہم دیکھتے ہیں انہیں کیوں نہ ہو دل ربائی سے نفرت کہ ہر دل میں وہ غم الم دیکھتے ہیں نگہباں سے بھی کیا ہوئی بد گمانی اب اس کو ترے ساتھ کم دیکھتے ہیں ہمیں داغؔ کیا کم ہے یہ سرفرازی کہ شاہ دکن کے قدم دیکھتے ہیں
Mirza Ghalib
گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویران ہوتا، مرزا غالب غزلیں
گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا تنگئ دل کا گلہ کیا یہ وہ کافر دل ہے کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پریشاں ہوتا باد یک عمر ورع بار تو دیتا بارے کاش رضواں ہی در یار کا درباں ہوتا
Nida Fazli
دن سلیقے سے اُگا، رات ٹھکانے سے رہی، ندا فاضلی غزلیں
دن سلیقے سے اگا رات ٹھکانے سے رہی دوستی اپنی بھی کچھ روز زمانے سے رہی چند لمحوں کو ہی بنتی ہیں مصور آنکھیں زندگی روز تو تصویر بنانے سے رہی اس اندھیرے میں تو ٹھوکر ہی اجالا دے گی رات جنگل میں کوئی شمع جلانے سے رہی فاصلہ چاند بنا دیتا ہے ہر پتھر کو دور کی روشنی نزدیک تو آنے سے رہی شہر میں سب کو کہاں ملتی ہے رونے کی جگہ اپنی عزت بھی یہاں ہنسنے ہنسانے سے رہی
Mirza Ghalib
رہا گر کوئی تا قیامت سلامت مرزا غالب غزلیں
رہا گر کوئی تا قیامت سلامت پھر اک روز مرنا ہے حضرت سلامت جگر کو مرے عشق خوں نابہ مشرب لکھے ہے خداوند نعمت سلامت علی الرغم دشمن شہید وفا ہوں مبارک مبارک سلامت سلامت نہیں گر سر و برگ ادراک معنی تماشاۓ نیرنگ صورت سلامت دو عالم کی ہستی پہ خط فنا کھینچ دل و دست ارباب ہمت سلامت نہیں گر بہ کام دل خستہ گردوں جگر خائی جوش حسرت سلامت نہ اوروں کی سنتا نہ کہتا ہوں اپنی سر خستہ دشوار وحشت سلامت وفور بلا ہے ہجوم وفا ہے سلامت ملامت ملامت سلامت نہ فکر سلامت نہ بیم ملامت ز خود رفتگی‌ ہائے حیرت سلامت رہے غالبؔ خستہ مغلوب گردوں یہ کیا بے نیازی ہے حضرت سلامت
Jaan Nisar Akhtar
تم پہ کیا بیت گئی کچھ تو بتاؤ یارو، جاں نثار اختر غزلیں
تم پہ کیا بیت گئی کچھ تو بتاؤ یارو میں کوئی غیر نہیں ہوں کہ چھپاؤ یارو ان اندھیروں سے نکلنے کی کوئی راہ کرو خون دل سے کوئی مشعل ہی جلاؤ یارو ایک بھی خواب نہ ہو جن میں وہ آنکھیں کیا ہیں اک نہ اک خواب تو آنکھوں میں بساؤ یارو بوجھ دنیا کا اٹھاؤں گا اکیلا کب تک ہو سکے تم سے تو کچھ ہاتھ بٹاؤ یارو زندگی یوں تو نہ بانہوں میں چلی آئے گی غم دوراں کے ذرا ناز اٹھاؤ یارو عمر بھر قتل ہوا ہوں میں تمہاری خاطر آخری وقت تو سولی نہ چڑھاؤ یارو اور کچھ دیر تمہیں دیکھ کے جی لوں ٹھہرو میری بالیں سے ابھی اٹھ کے نہ جاؤ یارو
Nida Fazli
ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے ندا فضلی غزلیں
ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے ان سے نظریں کیا ملیں روشن فضائیں ہو گئیں آج جانا پیار کی جادوگری کیا چیز ہے بکھری زلفوں نے سکھائی موسموں کو شاعری جھکتی آنکھوں نے بتایا مے کشی کیا چیز ہے ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی اور وہ سمجھے نہیں یہ خاموشی کیا چیز ہے
Faiz Ahmad Faiz
بات بس سے نکل چلی ہے، فیض احمد فیض غزلیں
بات بس سے نکل چلی ہے دل کی حالت سنبھل چلی ہے اب جنوں حد سے بڑھ چلا ہے اب طبیعت بہل چلی ہے اشک خوناب ہو چلے ہیں غم کی رنگت بدل چلی ہے یا یوں ہی بجھ رہی ہیں شمعیں یا شب ہجر ٹل چلی ہے لاکھ پیغام ہو گئے ہیں جب صبا ایک پل چلی ہے جاؤ اب سو رہو ستارو درد کی رات ڈھل چلی ہے
Jaan Nisar Akhtar
لاکھ آوارہ صحیح شہروں کے فٹپاتھوں پہ ہم جاں نثار اختر غزلیں
لاکھ آوارہ سہی شہروں کے فٹ پاتھوں پہ ہم لاش یہ کس کی لیے پھرتے ہیں ان ہاتھوں پہ ہم اب انہیں باتوں کو سنتے ہیں تو آتی ہے ہنسی بے طرح ایمان لے آئے تھے جن باتوں پہ ہم کوئی بھی موسم ہو دل کی آگ کم ہوتی نہیں مفت کا الزام رکھ دیتے برساتوں پہ ہم زلف سے چھنتی ہوئی اس کے بدن کی تابشیں ہنس دیا کرتے تھے اکثر چاندنی راتوں پہ ہم اب انہیں پہچانتے بھی شرم آتی ہے ہمیں فخر کرتے تھے کبھی جن کی ملاقاتوں پہ ہم
Altaf Hussain Hali
آگے بڑھے نہ قصہ عشق بتاں سے ہم، الطاف حسین حالی، غزلیں 3
آگے بڑھے نہ قصۂ عشق بتاں سے ہم سب کچھ کہا مگر نہ کھلے راز داں سے ہم اب بھاگتے ہیں سایۂ عشق بتاں سے ہم کچھ دل سے ہیں ڈرے ہوئے کچھ آسماں سے ہم ہنستے ہیں اس کے گریۂ بے اختیار پر بھولے ہیں بات کہہ کے کوئی راز داں سے ہم اب شوق سے بگڑ کے ہی باتیں کیا کرو کچھ پا گئے ہیں آپ کے طرز بیاں سے ہم جنت میں تو نہیں اگر یہ زخم تیغ عشق بدلیں گے تجھ کو زندگیٔ جاوداں سے ہم
Habib Jalib
اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے حبیب جلیب غزلیں
اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے یہ ہنستا ہوا چاند یہ پر نور ستارے تابندہ و پایندہ ہیں ذروں کے سہارے حسرت ہے کوئی غنچہ ہمیں پیار سے دیکھے ارماں ہے کوئی پھول ہمیں دل سے پکارے ہر صبح مری صبح پہ روتی رہی شبنم ہر رات مری رات پہ ہنستے رہے تارے کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں اے غم جاناں کب تک کوئی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے
Faiz Ahmad Faiz
شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی فیض احمد فیض غزلیں
شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی شکر ہے زندگی تباہ نہ کی تجھ کو دیکھا تو سیر چشم ہوئے تجھ کو چاہا تو اور چاہ نہ کی تیرے دست ستم کا عجز نہیں دل ہی کافر تھا جس نے آہ نہ کی تھے شب ہجر کام اور بہت ہم نے فکر دل تباہ نہ کی کون قاتل بچا ہے شہر میں فیضؔ جس سے یاروں نے رسم و راہ نہ کی
Javed Akhtar
ہم نے ڈھونڈیں بھی تو ڈھونڈیں ہیں سہارے کیسے جاوید اختر غزلیں
ہم نے ڈھونڈیں بھی تو ڈھونڈیں ہیں سہارے کیسے ان سرابوں پہ کوئی عمر گزارے کیسے ہاتھ کو ہاتھ نہیں سوجھے وہ تاریکی تھی آ گئے ہاتھ میں کیا جانے ستارے کیسے ہر طرف شور اسی نام کا ہے دنیا میں کوئی اس کو جو پکارے تو پکارے کیسے دل بجھا جتنے تھے ارمان سبھی خاک ہوئے راکھ میں پھر یہ چمکتے ہیں شرارے کیسے نہ تو دم لیتی ہے تو اور نہ ہوا تھمتی ہے زندگی زلف تری کوئی سنوارے کیسے
Mirza Ghalib
گھر جب بنا لیا تیرے در پر کہے بغیر مرزا غالب غزلیں
گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر جانے گا اب بھی تو نہ مرا گھر کہے بغیر کہتے ہیں جب رہی نہ مجھے طاقت سخن جانوں کسی کے دل کی میں کیونکر کہے بغیر کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں لیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیر جی میں ہی کچھ نہیں ہے ہمارے وگرنہ ہم سر جائے یا رہے نہ رہیں پر کہے بغیر چھوڑوں گا میں نہ اس بت کافر کا پوجنا چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر مقصد ہے ناز و غمزہ ولے گفتگو میں کام چلتا نہیں ہے دشنہ و خنجر کہے بغیر ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر بہرا ہوں میں تو چاہیئے دونا ہو التفات سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر غالبؔ نہ کر حضور میں تو بار بار عرض ظاہر ہے تیرا حال سب ان پر کہے بغیر
Ahmad Faraz
ہوا کے زور سے پندارِ بام و در بھی گیا احمد فراز کی غزلیں
ہوا کے زور سے پندار بام و در بھی گیا چراغ کو جو بچاتے تھے ان کا گھر بھی گیا پکارتے رہے محفوظ کشتیوں والے میں ڈوبتا ہوا دریا کے پار اتر بھی گیا اب احتیاط کی دیوار کیا اٹھاتے ہو جو چور دل میں چھپا تھا وہ کام کر بھی گیا میں چپ رہا کہ اسی میں تھی عافیت جاں کی کوئی تو میری طرح تھا جو دار پر بھی گیا سلگتے سوچتے ویران موسموں کی طرح کڑا تھا عہد جوانی مگر گزر بھی گیا جسے بھلا نہ سکا اس کو یاد کیا رکھتا جو نام لب پہ رہا ذہن سے اتر بھی گیا پھٹی پھٹی ہوئی آنکھوں سے یوں نہ دیکھ مجھے تجھے تلاش ہے جس شخص کی وہ مر بھی گیا مگر فلک کو عداوت اسی کے گھر سے تھی جہاں فرازؔ نہ تھا سیل غم ادھر بھی گیا
Faiz Ahmad Faiz
اب جو کوئی پوچھے بھی تو اس سے کیا شرحِ حالات کریں، فیض احمد فیض غزلیں
اب جو کوئی پوچھے بھی تو اس سے کیا شرح حالات کریں دل ٹھہرے تو درد سنائیں درد تھمے تو بات کریں شام ہوئی پھر جوش قدح نے بزم حریفاں روشن کی گھر کو آگ لگائیں ہم بھی روشن اپنی رات کریں قتل دل و جاں اپنے سر ہے اپنا لہو اپنی گردن پہ مہر بہ لب بیٹھے ہیں کس کا شکوہ کس کے ساتھ کریں ہجر میں شب بھر درد و طلب کے چاند ستارے ساتھ رہے صبح کی ویرانی میں یارو کیسے بسر اوقات کریں
Javed Akhtar
سچ یہ ہے بے کار ہمیں غم ہوتا ہے، جاوید اختر غزلیں
سچ یہ ہے بیکار ہمیں غم ہوتا ہے جو چاہا تھا دنیا میں کم ہوتا ہے ڈھلتا سورج پھیلا جنگل رستہ گم ہم سے پوچھو کیسا عالم ہوتا ہے غیروں کو کب فرصت ہے دکھ دینے کی جب ہوتا ہے کوئی ہمدم ہوتا ہے زخم تو ہم نے ان آنکھوں سے دیکھے ہیں لوگوں سے سنتے ہیں مرہم ہوتا ہے ذہن کی شاخوں پر اشعار آ جاتے ہیں جب تیری یادوں کا موسم ہوتا ہے
Wali Mohammad Wali
یاد کرنا ہر گھڑی اس یار کا ولی محمد ولی غزلیں
یاد کرنا ہر گھڑی اس یار کا ہے وظیفہ مجھ دل بیمار کا آرزوئے چشمۂ کوثر نئیں تشنہ لب ہوں شربت دیدار کا عاقبت کیا ہووے گا معلوم نئیں دل ہوا ہے مبتلا دل دار کا کیا کہے تعریف دل ہے بے نظیر حرف حرف اس مخزن اسرار کا گر ہوا ہے طالب آزادگی بند مت ہو سبحہ و زنار کا مسند گل منزل شبنم ہوئی دیکھ رتبہ دیدۂ بیدار کا اے ولیؔ ہونا سریجن پر نثار مدعا ہے چشم گوہر بار کا
Javed Akhtar
ہمارے شوق کی یہ انتہا تھی جاوید اختر غزلیں
ہمارے شوق کی یہ انتہا تھی قدم رکھا کہ منزل راستا تھی بچھڑ کے ڈار سے بن بن پھرا وہ ہرن کو اپنی کستوری سزا تھی کبھی جو خواب تھا وہ پا لیا ہے مگر جو کھو گئی وہ چیز کیا تھی میں بچپن میں کھلونے توڑتا تھا مرے انجام کی وہ ابتدا تھی محبت مر گئی مجھ کو بھی غم ہے مرے اچھے دنوں کی آشنا تھی جسے چھو لوں میں وہ ہو جائے سونا تجھے دیکھا تو جانا بد دعا تھی مریض خواب کو تو اب شفا ہے مگر دنیا بڑی کڑوی دوا تھی
Jigar Moradabadi
وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ جگر مرادآبادی غزلیں
وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ یہ ترا جمال کامل یہ شباب کا زمانہ دل دشمناں سلامت دل دوستاں نشانہ کبھی حسن کی طبیعت نہ بدل سکا زمانہ وہی ناز بے نیازی وہی شان خسروانہ میں ہوں اس مقام پر اب کہ فراق و وصل کیسے مرا عشق بھی کہانی ترا حسن بھی فسانہ مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ ترے عشق کی کرامت یہ اگر نہیں تو کیا ہے کبھی بے ادب نہ گزرا مرے پاس سے زمانہ تری دوری و حضوری کا یہ ہے عجیب عالم ابھی زندگی حقیقت ابھی زندگی فسانہ مرے ہم صفیر بلبل مرا تیرا ساتھ ہی کیا میں ضمیر دشت و دریا تو اسیر آشیانہ میں وہ صاف ہی نہ کہہ دوں جو ہے فرق مجھ میں تجھ میں ترا درد درد تنہا مرا غم غم زمانہ ترے دل کے ٹوٹنے پر ہے کسی کو ناز کیا کیا تجھے اے جگرؔ مبارک یہ شکست فاتحانہ
Ahmad Faraz
اب کے تجدید وفا کا نہیں امکان جاناں، احمد فراز کی غزلیں
اب کے تجدید وفا کا نہیں امکاں جاناں یاد کیا تجھ کو دلائیں ترا پیماں جاناں یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں زندگی تیری عطا تھی سو ترے نام کی ہے ہم نے جیسے بھی بسر کی ترا احساں جاناں دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہے فسردہ تو بھی دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر بے پیے بھی ترا چہرہ تھا گلستاں جاناں آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں رگ مینا سلگ اٹھی کہ رگ جاں جاناں مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں جاناں ہم بھی کیا سادہ تھے ہم نے بھی سمجھ رکھا تھا غم دوراں سے جدا ہے غم جاناں جاناں اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جاناں سر بہ زانو ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے ہر کوئی اپنے ہی سائے سے ہراساں جاناں جس کو دیکھو وہی زنجیر بہ پا لگتا ہے شہر کا شہر ہوا داخل زنداں جاناں اب ترا ذکر بھی شاید ہی غزل میں آئے اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں ہم کہ روٹھی ہوئی رت کو بھی منا لیتے تھے ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں ہوش آیا تو سبھی خواب تھے ریزہ ریزہ جیسے اڑتے ہوئے اوراق پریشاں جاناں
Javed Akhtar
ہمارے دل میں اب تلخی نہیں ہے، جاوید اختر غزلیں
ہمارے دل میں اب تلخی نہیں ہے مگر وہ بات پہلے سی نہیں ہے مجھے مایوس بھی کرتی نہیں ہے یہی عادت تری اچھی نہیں ہے بہت سے فائدے ہیں مصلحت میں مگر دل کی تو یہ مرضی نہیں ہے ہر اک کی داستاں سنتے ہیں جیسے کبھی ہم نے محبت کی نہیں ہے ہے اک دروازے بن دیوار دنیا مفر غم سے یہاں کوئی نہیں ہے
Altaf Hussain Hali
بات کچھ ہم سے بن نہ آئی آج، الطاف حسین حالی غزلیں
بات کچھ ہم سے بن نہ آئی آج بول کر ہم نے منہ کی کھائی آج چپ پر اپنی بھرم تھے کیا کیا کچھ بات بگڑی بنی بنائی آج شکوہ کرنے کی خو نہ تھی اپنی پر طبیعت ہی کچھ بھر آئی آج بزم ساقی نے دی الٹ ساری خوب بھر بھر کے خم لنڈھائی آج معصیت پر ہے دیر سے یا رب نفس اور شرع میں لڑائی آج غالب آتا ہے نفس دوں یا شرع دیکھنی ہے تری خدائی آج چور ہے دل میں کچھ نہ کچھ یارو نیند پھر رات بھر نہ آئی آج زد سے الفت کی بچ کے چلنا تھا مفت حالیؔ نے چوٹ کھائی آج
Dagh Dehlvi
رنج کی جب گفتگو ہونے لگی، داغ دہلوی غزلیں
رنج کی جب گفتگو ہونے لگی آپ سے تم تم سے تو ہونے لگی چاہیئے پیغام بر دونوں طرف لطف کیا جب دو بہ دو ہونے لگی میری رسوائی کی نوبت آ گئی ان کی شہرت کو بہ کو ہونے لگی ہے تری تصویر کتنی بے حجاب ہر کسی کے رو بہ رو ہونے لگی غیر کے ہوتے بھلا اے شام وصل کیوں ہمارے رو بہ رو ہونے لگی نا امیدی بڑھ گئی ہے اس قدر آرزو کی آرزو ہونے لگی اب کے مل کر دیکھیے کیا رنگ ہو پھر ہماری جستجو ہونے لگی داغؔ اترائے ہوئے پھرتے ہیں آج شاید ان کی آبرو ہونے لگی
Mirza Ghalib
نہیں ہے زخم کوئی بخیے کے دھر خور میرے تن میں، مرزا غالب غزلیں
نہیں ہے زخم کوئی بخیے کے در خور مرے تن میں ہوا ہے تار اشک یاس رشتہ چشم سوزن میں ہوئی ہے مانع ذوق تماشا خانہ ویرانی کف سیلاب باقی ہے بہ رنگ پنبہ روزن میں ودیعت خانۂ بیداد کاوش‌ ہاۓ مژگاں ہوں نگین نام شاہد ہے مرے ہر قطرۂ خوں تن میں بیاں کس سے ہو ظلمت گستری میرے شبستاں کی شب مہ ہو جو رکھ دوں پنبہ دیواروں کے روزن میں نکوہش مانع بے ربطی شور جنوں آئی ہوا ہے خندۂ احباب بخیہ جیب و دامن میں ہوئے اس مہروش کے جلوۂ تمثال کے آگے پرافشاں جوہر آئینے میں مثل ذرہ روزن میں نہ جانوں نیک ہوں یا بد ہوں پر صحبت مخالف ہے جو گل ہوں تو ہوں گلخن میں جو خس ہوں تو ہوں گلشن میں ہزاروں دل دیے جوش جنون عشق نے مجھ کو سیہ ہو کر سویدا ہو گیا ہر قطرۂ خوں تن میں اسدؔ زندانی تاثیر الفت ‌ہاۓ خوباں ہوں خم دست نوازش ہو گیا ہے طوق گردن میں فزوں کی دوستوں نے حرص قاتل ذوق کشتن میں ہوئے ہیں بخیہ ہائے زخم جوہر تیغ دشمن میں تماشا کردنی ہے لطف زخم انتظار اے دل سویدا داغ مرہم مردمک ہے چشم سوزن میں دل و دین و خرد تاراج ناز جلوہ پیرائی ہوا ہے جوہر آئینہ خیل مور خرمن میں نکوہش مانع دیوانگی ہائے جنوں آئی لگایا خندۂ ناصح نے بخیہ جیب و دامن میں
Nida Fazli
کچھ بھی بچا نہ کہنے کو، ہر بات ہو گئی، ندا فاضلی غزلیں
کچھ بھی بچا نہ کہنے کو ہر بات ہو گئی آؤ کہیں شراب پئیں رات ہو گئی پھر یوں ہوا کہ وقت کا پانسہ پلٹ گیا امید جیت کی تھی مگر مات ہو گئی سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا کھڑکی کے پردے کھینچ دیے رات ہو گئی وہ آدمی تھا کتنا بھلا کتنا پرخلوص اس سے بھی آج لیجے ملاقات ہو گئی رستے میں وہ ملا تھا میں بچ کر گزر گیا اس کی پھٹی قمیص مرے ساتھ ہو گئی نقشہ اٹھا کے کوئی نیا شہر ڈھونڈیئے اس شہر میں تو سب سے ملاقات ہو گئی
Wali Mohammad Wali
عاشق کے منہ پر نین کے پانی کو دیکھ توں والی محمد والی غزلیں
عاشق کے مکھ پہ نین کے پانی کو دیکھ توں اس آرسی میں راز نہانی کوں دیکھ توں سن بے قرار دل کی اول آہ شعلہ خیز تب اس حرف میں دل کے معانی کوں دیکھ توں خوبی سوں تجھ حضور و شمع دم زنی میں ہے اس بے حیا کی چرب زبانی کوں دیکھ توں دریا پہ جا کے موج رواں پر نظر نہ کر انجھواں کی میرے آ کے روانی کوں دیکھ توں تجھ شوق کا جو داغ ولیؔ کے جگر میں ہے بے طاقتی میں اس کی نشانی کوں دیکھ توں
Mohsin Naqvi
کس نے سنگِ خاموشی پھینکا بھرے بازار پر، محسن نقوی غزلیں
کس نے سنگ خامشی پھینکا بھرے بازار پر اک سکوت مرگ طاری ہے در و دیوار پر تو نے اپنی زلف کے سائے میں افسانے کہے مجھ کو زنجیریں ملی ہیں جرأت اظہار پر شاخ عریاں پر کھلا اک پھول اس انداز سے جس طرح تازہ لہو چمکے نئی تلوار پر سنگ دل احباب کے دامن میں رسوائی کے پھول میں نے دیکھا ہے نیا منظر فراز دار پر اب کوئی تہمت بھی وجہ کرب رسوائی نہیں زندگی اک عمر سے چپ ہے ترے اصرار پر میں سر مقتل حدیث زندگی کہتا رہا انگلیاں اٹھتی رہیں محسنؔ مرے کردار پر
Parveen Shakir
قدموں میں بھی تھکان تھی، گھر بھی قریب تھا، پروین شاکر غزلیں
قدموں میں بھی تکان تھی گھر بھی قریب تھا پر کیا کریں کہ اب کے سفر ہی عجیب تھا نکلے اگر تو چاند دریچے میں رک بھی جائے اس شہر بے چراغ میں کس کا نصیب تھا آندھی نے ان رتوں کو بھی بے کار کر دیا جن کا کبھی ہما سا پرندہ نصیب تھا کچھ اپنے آپ سے ہی اسے کشمکش نہ تھی مجھ میں بھی کوئی شخص اسی کا رقیب تھا پوچھا کسی نے مول تو حیران رہ گیا اپنی نگاہ میں کوئی کتنا غریب تھا مقتل سے آنے والی ہوا کو بھی کب ملا ایسا کوئی دریچہ کہ جو بے صلیب تھا
Jaun Eliya
آخری بار آہ کر لی ہے جون ایلیا غزلیں
آخری بار آہ کر لی ہے میں نے خود سے نباہ کر لی ہے اپنے سر اک بلا تو لینی تھی میں نے وہ زلف اپنے سر لی ہے دن بھلا کس طرح گزارو گے وصل کی شب بھی اب گزر لی ہے جاں نثاروں پہ وار کیا کرنا میں نے بس ہاتھ میں سپر لی ہے جو بھی مانگو ادھار دوں گا میں اس گلی میں دکان کر لی ہے میرا کشکول کب سے خالی تھا میں نے اس میں شراب بھر لی ہے اور تو کچھ نہیں کیا میں نے اپنی حالت تباہ کر لی ہے شیخ آیا تھا محتسب کو لیے میں نے بھی ان کی وہ خبر لی ہے
Gulzar
ہوا کے سینگ نہ پکڑو، کھیڈ دیتی ہے گلزار غزلیں۔
ہوا کے سینگ نہ پکڑو کھدیڑ دیتی ہے زمیں سے پیڑوں کے ٹانکے ادھیڑ دیتی ہے میں چپ کراتا ہوں ہر شب امڈتی بارش کو مگر یہ روز گئی بات چھیڑ دیتی ہے زمیں سا دوسرا کوئی سخی کہاں ہوگا ذرا سا بیج اٹھا لے تو پیڑ دیتی ہے رندھے گلے کی دعاؤں سے بھی نہیں کھلتا در حیات جسے موت بھیڑ دیتی ہے
Sahir Ludhianvi
شرما کے یوں نہ دیکھ عدا کے مقام سے، ساحر لدھیانوی غزلیں
شرما کے یوں نہ دیکھ ادا کے مقام سے اب بات بڑھ چکی ہے حیا کے مقام سے تصویر کھینچ لی ہے ترے شوخ حسن کی میری نظر نے آج خطا کے مقام سے دنیا کو بھول کر مری بانہوں میں جھول جا آواز دے رہا ہوں وفا کے مقام سے دل کے معاملے میں نتیجے کی فکر کیا آگے ہے عشق جرم و سزا کے مقام سے
Jigar Moradabadi
تیرے جمال حقیقت کی طاب ہی نہ ہوئی جگر مرادآبادی غزلیں
ترے جمال حقیقت کی تاب ہی نہ ہوئی ہزار بار نگہ کی مگر کبھی نہ ہوئی تری خوشی سے اگر غم میں بھی خوشی نہ ہوئی وہ زندگی تو محبت کی زندگی نہ ہوئی کہاں وہ شوخ ملاقات خود سے بھی نہ ہوئی بس ایک بار ہوئی اور پھر کبھی نہ ہوئی وہ ہم ہیں اہل محبت کہ جان سے دل سے بہت بخار اٹھے آنکھ شبنمی نہ ہوئی ٹھہر ٹھہر دل بے تاب پیار تو کر لوں اب اس کے بعد ملاقات پھر ہوئی نہ ہوئی مرے خیال سے بھی آہ مجھ کو بعد رہا ہزار طرح سے چاہا برابری نہ ہوئی ہم اپنی رندی و طاعت پہ خاک ناز کریں قبول حضرت سلطاں ہوئی ہوئی نہ ہوئی کوئی بڑھے نہ بڑھے ہم تو جان دیتے ہیں پھر ایسی چشم توجہ ہوئی ہوئی نہ ہوئی تمام حرف و حکایت تمام دیدہ و دل اس اہتمام پہ بھی شرح عاشقی نہ ہوئی فسردہ خاطرئ عشق اے معاذ اللہ خیال یار سے بھی کچھ شگفتگی نہ ہوئی تری نگاہ کرم کو بھی آزما دیکھا اذیتوں میں نہ ہونی تھی کچھ کمی نہ ہوئی کسی کی مست نگاہی نے ہاتھ تھام لیا شریک حال جہاں میری بے خودی نہ ہوئی صبا یہ ان سے ہمارا پیام کہہ دینا گئے ہو جب سے یہاں صبح و شام ہی نہ ہوئی وہ کچھ سہی نہ سہی پھر بھی زاہد ناداں بڑے بڑوں سے محبت میں کافری نہ ہوئی ادھر سے بھی ہے سوا کچھ ادھر کی مجبوری کہ ہم نے آہ تو کی ان سے آہ بھی نہ ہوئی خیال یار سلامت تجھے خدا رکھے ترے بغیر کبھی گھر میں روشنی نہ ہوئی گئے تھے ہم بھی جگرؔ جلوہ گاہ جاناں میں وہ پوچھتے ہی رہے ہم سے بات بھی نہ ہوئی
Wali Mohammad Wali
بھڑکے ہے دل کی آتش تجھ نے کی ہوا، سن والی محمد والی غزلیں۔
بھڑکے ہے دل کی آتش تجھ نیہ کی ہوا سوں شعلہ نمط جلا دل تجھ حسن شعلہ زا سوں گل کے چراغ گل ہو یک بار جھڑ پڑیں سب مجھ آہ کی حکایت بولیں اگر صبا سوں نکلی ہے جست کر کر ہر سنگ دل سوں آتش چقماق جب پلک کی جھاڑا ہے توں ادا سوں سجدہ بدل رکھے سر سر تا قدم عرق ہو تجھ با حیا کے پگ پر آ کر حنا حیا سوں یاں درد ہے پرم کا بیہودہ سر کہے مت یہ بات سن ولیؔ کی جا کر کہو دوا سوں
Mirza Ghalib
کوئی دن گر زندگانی اور ہے مرزا غالب غزلیں
کوئی دن گر زندگانی اور ہے اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں سوز غم ہائے نہانی اور ہے بارہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیں پر کچھ اب کے سرگرانی اور ہے دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر کچھ تو پیغام زبانی اور ہے قاطع اعمار ہے اکثر نجوم وہ بلائے آسمانی اور ہے ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام ایک مرگ ناگہانی اور ہے
Kaifi Azmi
کہیں سے لوٹ کے ہم لڑکھڑائے ہیں، کیا کیا کیفی اعظمی غزلیں
کہیں سے لوٹ کے ہم لڑکھڑائے ہیں کیا کیا ستارے زیر قدم رات آئے ہیں کیا کیا نشیب ہستی سے افسوس ہم ابھر نہ سکے فراز دار سے پیغام آئے ہیں کیا کیا جب اس نے ہار کے خنجر زمیں پہ پھینک دیا تمام زخم جگر مسکرائے ہیں کیا کیا چھٹا جہاں سے اس آواز کا گھنا بادل وہیں سے دھوپ نے تلوے جلائے ہیں کیا کیا اٹھا کے سر مجھے اتنا تو دیکھ لینے دے کہ قتل گاہ میں دیوانے آئے ہیں کیا کیا کہیں اندھیرے سے مانوس ہو نہ جائے ادب چراغ تیز ہوا نے بجھائے ہیں کیا کیا
Ahmad Faraz
ساقیا ایک نظر جام سے پہلے پہلے، احمد فراز کی غزلیں
ساقیا ایک نظر جام سے پہلے پہلے ہم کو جانا ہے کہیں شام سے پہلے پہلے نو گرفتار وفا سعئ رہائی ہے عبث ہم بھی الجھے تھے بہت دام سے پہلے پہلے خوش ہو اے دل کہ محبت تو نبھا دی تو نے لوگ اجڑ جاتے ہیں انجام سے پہلے پہلے اب ترے ذکر پہ ہم بات بدل دیتے ہیں کتنی رغبت تھی ترے نام سے پہلے پہلے سامنے عمر پڑی ہے شب تنہائی کی وہ مجھے چھوڑ گیا شام سے پہلے پہلے کتنا اچھا تھا کہ ہم بھی جیا کرتے تھے فرازؔ غیر معروف سے گمنام سے پہلے پہلے
Mirza Ghalib
حجوم نالہ حیرت عاجز ارض یک آہنگ ہے، مرزا غالب غزلیں
ہجوم نالہ حیرت عاجز عرض یک افغاں ہے خموشی ریشۂ صد نیستاں سے خس بہ دنداں ہے تکلف بر طرف ہے جاں ستاں تر لطف بد خویاں نگاہ بے حجاب ناز تیغ تیز عریاں ہے ہوئی یہ کثرت غم سے تلف کیفیت شادی کہ صبح عید مجھ کو بد تر از چاک گریباں ہے دل و دیں نقد لا ساقی سے گر سودا کیا چاہے کہ اس بازار میں ساغر متاع دست گرداں ہے غم آغوش بلا میں پرورش دیتا ہے عاشق کو چراغ روشن اپنا قلزم صرصر کا مرجاں ہے تکلف ساز رسوائی ہے غافل شرم رعنائی دل خوں گشتہ در دست حنا آلودہ عریاں ہے اسدؔ جمعیت دل در کنار بے خودی خوش تر دو عالم آگہی سامان یک خواب پریشاں ہے کہ جامے کو عرق سعی عروج نشہ رنگیں تر خط رخسار ساقی تا خط ساغر چراغاں ہے رہا بے قدر دل در پردۂ جوش ظہور آخر گل و نرگس بہم آئینہ و اقلیم کوراں ہے تماشا سرخوش غفلت ہے با وصف حضور دل ہنوز آئینہ خلوت گاہ ناز ربط مژگاں ہے تکلف بر طرف ذوق زلیخا جمع کر ورنہ پریشاں خواب آغوش وداع یوسف ستاں ہے
Javed Akhtar
خواب کے گاؤں میں پلے ہیں ہم، جاوید اختر غزلیں
خواب کے گاؤں میں پلے ہیں ہم پانی چھلنی میں لے چلے ہیں ہم چھاچھ پھونکیں کہ اپنے بچپن میں دودھ سے کس طرح جلے ہیں ہم خود ہیں اپنے سفر کی دشواری اپنے پیروں کے آبلے ہیں ہم تو تو مت کہہ ہمیں برا دنیا تو نے ڈھالا ہے اور ڈھلے ہیں ہم کیوں ہیں کب تک ہیں کس کی خاطر ہیں بڑے سنجیدہ مسئلے ہیں ہم
Mirza Ghalib
ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے مرزا غالب غزلیں
ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے صبح وطن ہے خندۂ دنداں نما مجھے ڈھونڈے ہے اس مغنی آتش نفس کو جی جس کی صدا ہو جلوۂ برق فنا مجھے مستانہ طے کروں ہوں رہ وادی خیال تا باز گشت سے نہ رہے مدعا مجھے کرتا ہے بسکہ باغ میں تو بے حجابیاں آنے لگی ہے نکہت گل سے حیا مجھے کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے واں رنگ ‌ہا بہ پردۂ تدبیر ہیں ہنوز یاں شعلۂ چراغ ہے برگ حنا مجھے پرواز‌ ہا نیاز تماشائے حسن دوست بال کشادہ ہے نگۂ آشنا مجھے از خود گزشتگی میں خموشی پہ حرف ہے موج غبار سرمہ ہوئی ہے صدا مجھے تا چند پست فطرتیٔ طبع آرزو یا رب ملے بلندیٔ دست دعا مجھے میں نے جنوں سے کی جو اسدؔ التماس رنگ خون جگر میں ایک ہی غوطہ دیا مجھے ہے پیچ تاب رشتۂ شمع سحر گہی خجلت گدازیٔ نفس نارسا مجھے یاں آب و دانہ موسم گل میں حرام ہے زنار واگسستہ ہے موج صبا مجھے یکبار امتحان ہوس بھی ضرور ہے اے جوش عشق بادۂ مرد آزما مجھے
Parveen Shakir
جستجو کھوئے ہوئوں کی عمر بھر کرتے رہے پروین شاکر غزلیں
جستجو کھوئے ہوؤں کی عمر بھر کرتے رہے چاند کے ہم راہ ہم ہر شب سفر کرتے رہے راستوں کا علم تھا ہم کو نہ سمتوں کی خبر شہر نامعلوم کی چاہت مگر کرتے رہے ہم نے خود سے بھی چھپایا اور سارے شہر کو تیرے جانے کی خبر دیوار و در کرتے رہے وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا اس شام بھی انتظار اس کا مگر کچھ سوچ کر کرتے رہے آج آیا ہے ہمیں بھی ان اڑانوں کا خیال جن کو تیرے زعم میں بے بال و پر کرتے رہے
Nida Fazli
جب سے قریب ہو کے چلے زندگی سے ہم، ندا فاضلی غزلیں
جب سے قریب ہو کے چلے زندگی سے ہم خود اپنے آئنے کو لگے اجنبی سے ہم کچھ دور چل کے راستے سب ایک سے لگے ملنے گئے کسی سے مل آئے کسی سے ہم اچھے برے کے فرق نے بستی اجاڑ دی مجبور ہو کے ملنے لگے ہر کسی سے ہم شائستہ محفلوں کی فضاؤں میں زہر تھا زندہ بچے ہیں ذہن کی آوارگی سے ہم اچھی بھلی تھی دنیا گزارے کے واسطے الجھے ہوئے ہیں اپنی ہی خود آگہی سے ہم جنگل میں دور تک کوئی دشمن نہ کوئی دوست مانوس ہو چلے ہیں مگر بمبئی سے ہم
Allama Iqbal
سما سکتا نہیں پہناۓ فطرت میں میرا سودا علامہ اقبال غزلیں
سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا غلط تھا اے جنوں شاید ترا اندازۂ صحرا خودی سے اس طلسم رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا نگہ پیدا کر اے غافل تجلی عین فطرت ہے کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا رقابت علم و عرفاں میں غلط بینی ہے منبر کی کہ وہ حلاج کی سولی کو سمجھا ہے رقیب اپنا خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں غلامی میں زرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغنا نہ کر تقلید اے جبریل میرے جذب و مستی کی تن آساں عرشیوں کو ذکر و تسبیح و طواف اولیٰ بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے مے خانے یہاں ساقی نہیں پیدا وہاں بے ذوق ہے صہبا نہ ایراں میں رہے باقی نہ توراں میں رہے باقی وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاک قیصر و کسریٰ یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے گلیم بوذر و دلق اویس و چادر زہرا حضور حق میں اسرافیل نے میری شکایت کی یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے برپا ندا آئی کہ آشوب قیامت سے یہ کیا کم ہے ' گرفتہ چینیاں احرام و مکی خفتہ در بطحا لبالب شیشۂ تہذیب حاضر ہے مے لا سے مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانۂ الا دبا رکھا ہے اس کو زخمہ ور کی تیز دستی نے بہت نیچے سروں میں ہے ابھی یورپ کا واویلا اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ و بالا غلامی کیا ہے ذوق حسن و زیبائی سے محرومی جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر کہ دنیا میں فقط مردان حر کی آنکھ ہے بینا وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا فرنگی شیشہ گر کے فن سے پتھر ہو گئے پانی مری اکسیر نے شیشے کو بخشی سختیٔ خارا رہے ہیں اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے ید بیضا وہ چنگاری خس و خاشاک سے کس طرح دب جائے جسے حق نے کیا ہو نیستاں کے واسطے پیدا محبت خویشتن بینی محبت خویشتن داری محبت آستان قیصر و کسریٰ سے بے پروا عجب کیا گر مہ و پرویں مرے نخچیر ہو جائیں کہ بر فتراک صاحب دولتے بستم سر خود را وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے غبار راہ کو بخشا فروغ وادیٔ سینا نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طہٰ سنائیؔ کے ادب سے میں نے غواصی نہ کی ورنہ ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولوئے لالا
Akbar Allahabadi
وہ ہوا نہ رہی وہ چمن نہ رہا وہ گلی نہ رہی وہ حسین نہ رہے، اکبر الہ آبادی غزلیں
وہ ہوا نہ رہی وہ چمن نہ رہا وہ گلی نہ رہی وہ حسیں نہ رہے وہ فلک نہ رہا وہ سماں نہ رہا وہ مکاں نہ رہے وہ مکیں نہ رہے وہ گلوں میں گلوں کی سی بو نہ رہی وہ عزیزوں میں لطف کی خو نہ رہی وہ حسینوں میں رنگ وفا نہ رہا کہیں اور کی کیا وہ ہمیں نہ رہے نہ وہ آن رہی نہ امنگ رہی نہ وہ رندی و زہد کی جنگ رہی سوئے قبلہ نگاہوں کے رخ نہ رہے اور در پہ نقش جبیں نہ رہے نہ وہ جام رہے نہ وہ مست رہے نہ فدائی عہد الست رہے وہ طریقۂ کار جہاں نہ رہا وہ مشاغل رونق دیں نہ رہے ہمیں لاکھ زمانہ لبھائے تو کیا نئے رنگ جو چرخ دکھائے تو کیا یہ محال ہے اہل وفا کے لیے غم ملت و الفت دیں نہ رہے ترے کوچۂ زلف میں دل ہے مرا اب اسے میں سمجھتا ہوں دام بلا یہ عجیب ستم ہے عجیب جفا کہ یہاں نہ رہے تو کہیں نہ رہے یہ تمہارے ہی دم سے ہے بزم طرب ابھی جاؤ نہ تم نہ کرو یہ غضب کوئی بیٹھ کے لطف اٹھائے گا کیا کہ جو رونق بزم تمہیں نہ رہے جو تھیں چشم فلک کی بھی نور نظر وہی جن پہ نثار تھے شمس و قمر سو اب ایسی مٹی ہیں وہ انجمنیں کہ نشان بھی ان کے کہیں نہ رہے وہی صورتیں رہ گئیں پیش نظر جو زمانہ کو پھیریں ادھر سے ادھر مگر ایسے جمال جہاں آرا جو تھے رونق روئے زمیں نہ رہے غم و رنج میں اکبرؔ اگر ہے گھرا تو سمجھ لے کہ رنج کو بھی ہے فنا کسی شے کو نہیں ہے جہاں میں بقا وہ زیادہ ملول و حزیں نہ رہے
Mohsin Naqvi
آنسو اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا، محسن نقوی غزلیں
اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا ابر کی زد میں ستارا نہیں دیکھا جاتا اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے جب تک زیر خنجر کوئی پیارا نہیں دیکھا جاتا موج در موج الجھنے کی ہوس بے معنی ڈوبتا ہو تو سہارا نہیں دیکھا جاتا تیرے چہرے کی کشش تھی کہ پلٹ کر دیکھا ورنہ سورج تو دوبارہ نہیں دیکھا جاتا آگ کی ضد پہ نہ جا پھر سے بھڑک سکتی ہے راکھ کی تہہ میں شرارہ نہیں دیکھا جاتا زخم آنکھوں کے بھی سہتے تھے کبھی دل والے اب تو ابرو کا اشارا نہیں دیکھا جاتا کیا قیامت ہے کہ دل جس کا نگر ہے محسنؔ دل پہ اس کا بھی اجارہ نہیں دیکھا جاتا
Waseem Barelvi
وسیم بریلوی کی غزلیں اداسیوں میں بھی راستے نکال لیتی ہیں۔
اداسیوں میں بھی رستے نکال لیتا ہے عجیب دل ہے گروں تو سنبھال لیتا ہے یہ کیسا شخص ہے کتنی ہی اچھی بات کہو کوئی برائی کا پہلو نکال لیتا ہے ڈھلے تو ہوتی ہے کچھ اور احتیاط کی عمر کہ بہتے بہتے یہ دریا اچھال لیتا ہے بڑے بڑوں کی طرح داریاں نہیں چلتیں عروج تیری خبر جب زوال لیتا ہے جب اس کے جام میں اک بوند تک نہیں ہوتی وہ میری پیاس کو پھر بھی سنبھال لیتا ہے
Meer Taqi Meer
اس عہد میں الہی محبت کو کیا ہوا میر تقی میر غزلیں
اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا امیدوار وعدۂ دیدار مر چلے آتے ہی آتے یارو قیامت کو کیا ہوا کب تک تظلم آہ بھلا مرگ کے تئیں کچھ پیش آیا واقعہ رحمت کو کیا ہوا اس کے گئے پر ایسے گئے دل سے ہم نشیں معلوم بھی ہوا نہ کہ طاقت کو کیا ہوا بخشش نے مجھ کو ابر کرم کی کیا خجل اے چشم جوش اشک ندامت کو کیا ہوا جاتا ہے یار تیغ بکف غیر کی طرف اے کشتۂ ستم تری غیرت کو کیا ہوا تھی صعب عاشقی کی بدایت ہی میرؔ پر کیا جانیے کہ حال نہایت کو کیا ہوا
Waseem Barelvi
جہاں دریا کہیں اپنے کنارے چھوڑ دیتا ہے، وسیم بریلوی غزلیں
جہاں دریا کہیں اپنے کنارے چھوڑ دیتا ہے کوئی اٹھتا ہے اور طوفان کا رخ موڑ دیتا ہے مجھے بے دست و پا کر کے بھی خوف اس کا نہیں جاتا کہیں بھی حادثہ گزرے وہ مجھ سے جوڑ دیتا ہے بچھڑ کے تجھ سے کچھ جانا اگر تو اس قدر جانا وہ مٹی ہوں جسے دریا کنارے چھوڑ دیتا ہے محبت میں ذرا سی بے وفائی تو ضروری ہے وہی اچھا بھی لگتا ہے جو وعدے توڑ دیتا ہے
Gulzar
زندگی یوں ہوئی بسر تنہا گلزار غزلیں
زندگی یوں ہوئی بسر تنہا قافلہ ساتھ اور سفر تنہا اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں عمر گزری ہے اس قدر تنہا رات بھر باتیں کرتے ہیں تارے رات کاٹے کوئی کدھر تنہا ڈوبنے والے پار جا اترے نقش پا اپنے چھوڑ کر تنہا دن گزرتا نہیں ہے لوگوں میں رات ہوتی نہیں بسر تنہا ہم نے دروازے تک تو دیکھا تھا پھر نہ جانے گئے کدھر تنہا
Allama Iqbal
متاع بے بہا ہے درد و سوزِ آرزومندی علامہ اقبال غزلیں
متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی حجاب اکسیر ہے آوارۂ کوئے محبت کو مری آتش کو بھڑکاتی ہے تیری دیر پیوندی گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کار آشیاں بندی یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی زیارت گاہ اہل عزم و ہمت ہے لحد میری کہ خاک راہ کو میں نے بتایا راز الوندی مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسن معنی کو کہ فطرت خود بہ خود کرتی ہے لالے کی حنا بندی
Jaun Eliya
دل نے وفا کے نام پر کارِ وفا نہیں کیا، جون ایلیا غزلیں
دل نے وفا کے نام پر کار وفا نہیں کیا خود کو ہلاک کر لیا خود کو فدا نہیں کیا خیرہ سران شوق کا کوئی نہیں ہے جنبہ دار شہر میں اس گروہ نے کس کو خفا نہیں کیا جو بھی ہو تم پہ معترض اس کو یہی جواب دو آپ بہت شریف ہیں آپ نے کیا نہیں کیا نسبت علم ہے بہت حاکم وقت کو عزیز اس نے تو کار جہل بھی بے علما نہیں کیا جس کو بھی شیخ و شاہ نے حکم خدا دیا قرار ہم نے نہیں کیا وہ کام ہاں بہ خدا نہیں کیا
Dagh Dehlvi
غیر کو منہ لگا کے دیکھ لیا داغ دہلوی غزلیں
غیر کو منہ لگا کے دیکھ لیا جھوٹ سچ آزما کے دیکھ لیا ان کے گھر داغؔ جا کے دیکھ لیا دل کے کہنے میں آ کے دیکھ لیا کتنی فرحت فزا تھی بوئے وفا اس نے دل کو جلا کے دیکھ لیا کبھی غش میں رہا شب وعدہ کبھی گردن اٹھا کے دیکھ لیا جنس دل ہے یہ وہ نہیں سودا ہر جگہ سے منگا کے دیکھ لیا لوگ کہتے ہیں چپ لگی ہے تجھے حال دل بھی سنا کے دیکھ لیا جاؤ بھی کیا کرو گے مہر و وفا بارہا آزما کے دیکھ لیا زخم دل میں نہیں ہے قطرۂ خوں خوب ہم نے دکھا کے دیکھ لیا ادھر آئینہ ہے ادھر دل ہے جس کو چاہا اٹھا کے دیکھ لیا ان کو خلوت سرا میں بے پردہ صاف میدان پا کے دیکھ لیا اس نے صبح شب وصال مجھے جاتے جاتے بھی آ کے دیکھ لیا تم کو ہے وصل غیر سے انکار اور جو ہم نے آ کے دیکھ لیا داغؔ نے خوب عاشقی کا مزا جل کے دیکھا جلا کے دیکھ لیا
Altaf Hussain Hali
حق وفا کے جو ہم جتانے لگے الطاف حسین حالی غزلیں
حق وفا کے جو ہم جتانے لگے آپ کچھ کہہ کے مسکرانے لگے تھا یہاں دل میں طعن وصل عدو عذر ان کی زباں پہ آنے لگے ہم کو جینا پڑے گا فرقت میں وہ اگر ہمت آزمانے لگے ڈر ہے میری زباں نہ کھل جائے اب وہ باتیں بہت بنانے لگے جان بچتی نظر نہیں آتی غیر الفت بہت جتانے لگے تم کو کرنا پڑے گا عذر جفا ہم اگر درد دل سنانے لگے سخت مشکل ہے شیوۂ تسلیم ہم بھی آخر کو جی چرانے لگے جی میں ہے لوں رضائے پیر مغاں قافلے پھر حرم کو جانے لگے سر باطن کو فاش کر یا رب اہل ظاہر بہت ستانے لگے وقت رخصت تھا سخت حالیؔ پر ہم بھی بیٹھے تھے جب وہ جانے لگے
Gulzar
بے سبب مسکرا رہا ہے چاند گلزار غزلوں کا
بے سبب مسکرا رہا ہے چاند کوئی سازش چھپا رہا ہے چاند جانے کس کی گلی سے نکلا ہے جھینپا جھینپا سا آ رہا ہے چاند کتنا غازہ لگایا ہے منہ پر دھول ہی دھول اڑا رہا ہے چاند کیسا بیٹھا ہے چھپ کے پتوں میں باغباں کو ستا رہا ہے چاند سیدھا سادہ افق سے نکلا تھا سر پہ اب چڑھتا جا رہا ہے چاند چھو کے دیکھا تو گرم تھا ماتھا دھوپ میں کھیلتا رہا ہے چاند
Mohsin Naqvi
سانسوں کے اس ہنر کو نہ آسان خیال کر، محسن نقوی غزلیں
سانسوں کے اس ہنر کو نہ آساں خیال کر زندہ ہوں ساعتوں کو میں صدیوں میں ڈھال کر مالی نے آج کتنی دعائیں وصول کیں کچھ پھول اک فقیر کی جھولی میں ڈال کر کل یوم ہجر زرد زمانوں کا یوم ہے شب بھر نہ جاگ مفت میں آنکھیں نہ لال کر اے گرد باد لوٹ کے آنا ہے پھر مجھے رکھنا مرے سفر کی اذیت سنبھال کر محراب میں دیے کی طرح زندگی گزار منہ زور آندھیوں میں نہ خود کو نڈھال کر شاید کسی نے بخل زمیں پر کیا ہے طنز گہرے سمندروں سے جزیرے نکال کر یہ نقد جاں کہ اس کا لٹانا تو سہل ہے گر بن پڑے تو اس سے بھی مشکل سوال کر محسنؔ برہنہ سر چلی آئی ہے شام غم غربت نہ دیکھ اس پہ ستاروں کی شال کر
Nida Fazli
تنہا تنہا دکھ جھیلیں گے، محفل محفل گائیں گے، ندا فاضلی کی غزلیں۔
تنہا تنہا دکھ جھیلیں گے محفل محفل گائیں گے جب تک آنسو پاس رہیں گے تب تک گیت سنائیں گے تم جو سوچو وہ تم جانو ہم تو اپنی کہتے ہیں دیر نہ کرنا گھر آنے میں ورنہ گھر کھو جائیں گے بچوں کے چھوٹے ہاتھوں کو چاند ستارے چھونے دو چار کتابیں پڑھ کر یہ بھی ہم جیسے ہو جائیں گے اچھی صورت والے سارے پتھر دل ہوں ممکن ہے ہم تو اس دن رائے دیں گے جس دن دھوکا کھائیں گے کن راہوں سے سفر ہے آساں کون سا رستہ مشکل ہے ہم بھی جب تھک کر بیٹھیں گے اوروں کو سمجھائیں گے
Jigar Moradabadi
جہل خرد نے دن یہ دکھائے، جگر مرادآبادی غزلیں
جہل خرد نے دن یہ دکھائے گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے ہائے وہ کیونکر دل بہلائے غم بھی جس کو راس نہ آئے ضد پر عشق اگر آ جائے پانی چھڑکے آگ لگائے دل پہ کچھ ایسا وقت پڑا ہے بھاگے لیکن راہ نہ پائے کیسا مجاز اور کیسی حقیقت اپنے ہی جلوے اپنے ہی سائے جھوٹی ہے ہر ایک مسرت روح اگر تسکین نہ پائے کار زمانہ جتنا جتنا بنتا جائے بگڑتا جائے ضبط محبت شرط محبت جی ہے کہ ظالم امڈا آئے حسن وہی ہے حسن جو ظالم ہاتھ لگائے ہاتھ نہ آئے نغمہ وہی ہے نغمہ کہ جس کو روح سنے اور روح سنائے راہ جنوں آسان ہوئی ہے زلف و مژہ کے سائے سائے
Parveen Shakir
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی پروین شاکر غزلیں
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی تیرا پہلو ترے دل کی طرح آباد رہے تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی
Javed Akhtar
آج میں نے اپنا پھر سودا کیا جاوید اختر غزلیں
آج میں نے اپنا پھر سودا کیا اور پھر میں دور سے دیکھا کیا زندگی بھر میرے کام آئے اصول ایک اک کر کے انہیں بیچا کیا بندھ گئی تھی دل میں کچھ امید سی خیر تم نے جو کیا اچھا کیا کچھ کمی اپنی وفاؤں میں بھی تھی تم سے کیا کہتے کہ تم نے کیا کیا کیا بتاؤں کون تھا جس نے مجھے اس بھری دنیا میں ہے تنہا کیا
Mirza Ghalib
نہیں کہ مجھ کو قیامت کا یقین نہیں مرزا غالب غزلیں
نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں شب فراق سے روز جزا زیاد نہیں کوئی کہے کہ شب مہ میں کیا برائی ہے بلا سے آج اگر دن کو ابر و باد نہیں جو آؤں سامنے ان کے تو مرحبا نہ کہیں جو جاؤں واں سے کہیں کو تو خیرباد نہیں کبھی جو یاد بھی آتا ہوں میں تو کہتے ہیں کہ آج بزم میں کچھ فتنہ و فساد نہیں علاوہ عید کے ملتی ہے اور دن بھی شراب گدائے کوچۂ مے خانہ نا مراد نہیں جہاں میں ہو غم شادی بہم ہمیں کیا کام دیا ہے ہم کو خدا نے وہ دل کی شاد نہیں تم ان کے وعدہ کا ذکر ان سے کیوں کرو غالبؔ یہ کیا کہ تم کہو اور وہ کہیں کہ یاد نہیں
Mohsin Naqvi
اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر، محسن نقوی غزلیں
اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر کیا جانئے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اڑا کر اس شخص کے تم سے بھی مراسم ہیں تو ہوں گے وہ جھوٹ نہ بولے گا مرے سامنے آ کر ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے تو حلقۂ یاراں میں بھی محتاط رہا کر اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسنؔ دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر
Gulzar
جب بھی یہ دل اداس ہوتا ہے، گلزار کی غزلیں
جب بھی یہ دل اداس ہوتا ہے جانے کون آس پاس ہوتا ہے آنکھیں پہچانتی ہیں آنکھوں کو درد چہرہ شناس ہوتا ہے گو برستی نہیں سدا آنکھیں ابر تو بارہ ماس ہوتا ہے چھال پیڑوں کی سخت ہے لیکن نیچے ناخن کے ماس ہوتا ہے زخم کہتے ہیں دل کا گہنہ ہے درد دل کا لباس ہوتا ہے ڈس ہی لیتا ہے سب کو عشق کبھی سانپ موقع شناس ہوتا ہے صرف اتنا کرم کیا کیجے آپ کو جتنا راس ہوتا ہے
Faiz Ahmad Faiz
پھر حریفِ بہار ہو بیٹھے فیض احمد فیض غزلیں
پھر حریف بہار ہو بیٹھے جانے کس کس کو آج رو بیٹھے تھی مگر اتنی رائیگاں بھی نہ تھی آج کچھ زندگی سے کھو بیٹھے تیرے در تک پہنچ کے لوٹ آئے عشق کی آبرو ڈبو بیٹھے ساری دنیا سے دور ہو جائے جو ذرا تیرے پاس ہو بیٹھے نہ گئی تیری بے رخی نہ گئی ہم تری آرزو بھی کھو بیٹھے فیضؔ ہوتا رہے جو ہونا ہے شعر لکھتے رہا کرو بیٹھے
Akbar Allahabadi
تیری زلفوں میں دل الجھا ہوا ہے، اکبر الہ آبادی غزلیں
تری زلفوں میں دل الجھا ہوا ہے بلا کے پیچ میں آیا ہوا ہے نہ کیوں کر بوئے خوں نامے سے آئے اسی جلاد کا لکھا ہوا ہے چلے دنیا سے جس کی یاد میں ہم غضب ہے وہ ہمیں بھولا ہوا ہے کہوں کیا حال اگلی عشرتوں کا وہ تھا اک خواب جو بھولا ہوا ہے جفا ہو یا وفا ہم سب میں خوش ہیں کریں کیا اب تو دل اٹکا ہوا ہے ہوئی ہے عشق ہی سے حسن کی قدر ہمیں سے آپ کا شہرا ہوا ہے بتوں پر رہتی ہے مائل ہمیشہ طبیعت کو خدایا کیا ہوا ہے پریشاں رہتے ہو دن رات اکبرؔ یہ کس کی زلف کا سودا ہوا ہے
Sahir Ludhianvi
ہوس نصیب نظر کو کہیں قرار نہیں، ساحر لدھیانوی غزلیں
ہوس نصیب نظر کو کہیں قرار نہیں میں منتظر ہوں مگر تیرا انتظار نہیں ہمیں سے رنگ گلستاں ہمیں سے رنگ بہار ہمیں کو نظم گلستاں پہ اختیار نہیں ابھی نہ چھیڑ محبت کے گیت اے مطرب ابھی حیات کا ماحول خوش گوار نہیں تمہارے عہد وفا کو میں عہد کیا سمجھوں مجھے خود اپنی محبت پہ اعتبار نہیں نہ جانے کتنے گلے اس میں مضطرب ہیں ندیم وہ ایک دل جو کسی کا گلہ گزار نہیں گریز کا نہیں قائل حیات سے لیکن جو سچ کہوں کہ مجھے موت ناگوار نہیں یہ کس مقام پہ پہنچا دیا زمانے نے کہ اب حیات پہ تیرا بھی اختیار نہیں
Sahir Ludhianvi
یہ زلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا، ساحر لدھیانوی غزلیں
یہ زلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا اس رات کی تقدیر سنور جائے تو اچھا جس طرح سے تھوڑی سی ترے ساتھ کٹی ہے باقی بھی اسی طرح گزر جائے تو اچھا دنیا کی نگاہوں میں بھلا کیا ہے برا کیا یہ بوجھ اگر دل سے اتر جائے تو اچھا ویسے تو تمہیں نے مجھے برباد کیا ہے الزام کسی اور کے سر جائے تو اچھا
Nazm Tabatabai
سنگِ جفا کا غم نہیں، دستِ طلب کا ڈر نہیں، نظم طباعی، غزلیں۔
سنگ جفا کا غم نہیں دست طلب کا ڈر نہیں اپنا ہے اس پر آشیاں نخل جو بارور نہیں سنتے ہو اہل قافلہ میں کوئی راہ بر نہیں دیکھ رہا ہوں تم میں سے ایک بھی راہ پر نہیں موت کا گھر ہے آسماں اس سے کہیں مفر نہیں نکلیں تو کوئی در نہیں بھاگیں تو رہ گزر نہیں پہلے جگر پر آہ کا نام نہ تھا نشاں نہ تھا آخر کار یہ ہوا آہ تو ہے جگر نہیں صبح ازل سے تا ابد قصہ نہ ہوگا یہ تمام جور فلک کی داستاں ایسی بھی مختصر نہیں برگ خزاں رسیدہ ہوں چھیڑ نہ مجھ کو اے نسیم ذوق فغاں کا ہے مجھے شکوۂ ابر تر نہیں منکر حشر ہے کدھر دیکھے تو آنکھ کھول کر حشر کی جو خبر نہ دے ایسی کوئی سحر نہیں شبنم و گل کو دیکھ کر وجد نہ آئے کس طرح خندہ بے سبب نہیں گریہ بے اثر نہیں تیرے فقیر کا غرور تاجوروں سے ہے سوا طرف کلہ میں دے شکن اس کو یہ درد سر نہیں کوشک و قصر و بام و در تو نے بنا کئے تو کیا حیف ہے خانماں خراب دل میں کسی کے گھیر نہیں نالہ کشی رقیب سے میری طرح محال ہے دل نہیں حوصلہ نہیں زہرہ نہیں جگر نہیں شاطر پیر آسماں واہ ری تیری دست برد خسرو و کیقباد کی تیغ نہیں کمر نہیں شان کریم کی یہ ہے ہاں سے ہو پیشتر عطا لطف عطا کا کیا ہو جب ہاں سے ہو پیشتر نہیں لاکھ وہ بے رخی کرے لاکھ وہ کج روی کرے کچھ تو ملال اس کا ہو دل کو مرے مگر نہیں سن کے برا نہ مانئے سچ کو نہ جھوٹ جانئے ذکر ہے کچھ گلہ نہیں بات ہے نیشتر نہیں
Parveen Shakir
پورا دکھ اور آدھا چاند پروین شاکر غزلیں
پورا دکھ اور آدھا چاند ہجر کی شب اور ایسا چاند دن میں وحشت بہل گئی رات ہوئی اور نکلا چاند کس مقتل سے گزرا ہوگا اتنا سہما سہما چاند یادوں کی آباد گلی میں گھوم رہا ہے تنہا چاند میری کروٹ پر جاگ اٹھے نیند کا کتنا کچا چاند میرے منہ کو کس حیرت سے دیکھ رہا ہے بھولا چاند اتنے گھنے بادل کے پیچھے کتنا تنہا ہوگا چاند آنسو روکے نور نہائے دل دریا تن صحرا چاند اتنے روشن چہرے پر بھی سورج کا ہے سایا چاند جب پانی میں چہرہ دیکھا تو نے کس کو سوچا چاند برگد کی اک شاخ ہٹا کر جانے کس کو جھانکا چاند بادل کے ریشم جھولے میں بھور سمے تک سویا چاند رات کے شانے پر سر رکھے دیکھ رہا ہے سپنا چاند سوکھے پتوں کے جھرمٹ پر شبنم تھی یا ننھا چاند ہاتھ ہلا کر رخصت ہوگا اس کی صورت ہجر کا چاند صحرا صحرا بھٹک رہا ہے اپنے عشق میں سچا چاند رات کے شاید ایک بجے ہیں سوتا ہوگا میرا چاند
Nida Fazli
اب خوشی ہے نہ کوئی درد رلانے والا ندا فاضلی غزلیں
اب خوشی ہے نہ کوئی درد رلانے والا ہم نے اپنا لیا ہر رنگ زمانے والا ایک بے چہرہ سی امید ہے چہرہ چہرہ جس طرف دیکھیے آنے کو ہے آنے والا اس کو رخصت تو کیا تھا مجھے معلوم نہ تھا سارا گھر لے گیا گھر چھوڑ کے جانے والا دور کے چاند کو ڈھونڈو نہ کسی آنچل میں یہ اجالا نہیں آنگن میں سمانے والا اک مسافر کے سفر جیسی ہے سب کی دنیا کوئی جلدی میں کوئی دیر سے جانے والا
Javed Akhtar
یہ مجھ سے پوچھتے ہیں چارہ گر کیوں جاوید اختر غزلیں
یہ مجھ سے پوچھتے ہیں چارہ گر کیوں کہ تو زندہ تو ہے اب تک مگر کیوں جو رستہ چھوڑ کے میں جا رہا ہوں اسی رستے پہ جاتی ہے نظر کیوں تھکن سے چور پاس آیا تھا اس کے گرا سوتے میں مجھ پر یہ شجر کیوں سنائیں گے کبھی فرصت میں تم کو کہ ہم برسوں رہے ہیں در بہ در کیوں یہاں بھی سب ہیں بیگانہ ہی مجھ سے کہوں میں کیا کہ یاد آیا ہے گھر کیوں میں خوش رہتا اگر سمجھا نہ ہوتا یہ دنیا ہے تو میں ہوں دیدہ ور کیوں
Ahmad Faraz
وحشتیں بڑھتی گئیں ہجر کے اضطراب کے ساتھ، احمد فراز کی غزلیں۔
وحشتیں بڑھتی گئیں ہجر کے آزار کے ساتھ اب تو ہم بات بھی کرتے نہیں غم خوار کے ساتھ ہم نے اک عمر بسر کی ہے غم یار کے ساتھ میرؔ دو دن نہ جئے ہجر کے آزار کے ساتھ اب تو ہم گھر سے نکلتے ہیں تو رکھ دیتے ہیں طاق پر عزت سادات بھی دستار کے ساتھ اس قدر خوف ہے اب شہر کی گلیوں میں کہ لوگ چاپ سنتے ہیں تو لگ جاتے ہیں دیوار کے ساتھ ایک تو خواب لیے پھرتے ہو گلیوں گلیوں اس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ شہر کا شہر ہی ناصح ہو تو کیا کیجئے گا ورنہ ہم رند تو بھڑ جاتے ہیں دو چار کے ساتھ ہم کو اس شہر میں تعمیر کا سودا ہے جہاں لوگ معمار کو چن دیتے ہیں دیوار کے ساتھ جو شرف ہم کو ملا کوچۂ جاناں سے فرازؔ سوئے مقتل بھی گئے ہیں اسی پندار کے ساتھ
Wali Mohammad Wali
ساجن تک ناز سن، مجھ پاس آ آہستہ آہستہ، ولی محمد ولی کی غزلیں۔
سجن ٹک ناز سوں مجھ پاس آ آہستہ آہستہ چھپی باتیں اپس دل کی سنا آہستہ آہستہ غرض گویاں کی باتاں کوں نہ لا خاطر منیں ہرگز سجن اس بات کوں خاطر میں لا آہستہ آہستہ ہر اک کی بات سننے پر توجہ مت کر اے ظالم رقیباں اس سیں ہوئیں گے جدا آہستہ آہستہ مبادا محتسب بدمست سن کر تان میں آوے طنبورہ آہ کا اے دل بجا آہستہ آہستہ ولیؔ ہرگز اپس کے دل کوں سینے میں نہ رکھ غمگیں کہ بر لاوے گا مطلب کوں خدا آہستہ آہستہ
Habib Jalib
خوب آزادیِ صحافت ہے حبیب جلیب غزلیں
خوب آزادئ صحافت ہے نظم لکھنے پہ بھی قیامت ہے دعویٰ جمہوریت کا ہے ہر آن یہ حکومت بھی کیا حکومت ہے دھاندلی دھونس کی ہے پیداوار سب کو معلوم یہ حقیقت ہے خوف کے ذہن و دل پہ سائے ہیں کس کی عزت یہاں سلامت ہے کبھی جمہوریت یہاں آئے یہی جالبؔ ہماری حسرت ہے
Faiz Ahmad Faiz
سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا، سبھی راحتیں، سبھی کلفتیں، فیض احمد فیض غزلیں۔
سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا سبھی راحتیں سبھی کلفتیں کبھی صحبتیں کبھی فرقتیں کبھی دوریاں کبھی قربتیں یہ سخن جو ہم نے رقم کیے یہ ہیں سب ورق تری یاد کے کوئی لمحہ صبح وصال کا کوئی شام ہجر کی مدتیں جو تمہاری مان لیں ناصحا تو رہے گا دامن دل میں کیا نہ کسی عدو کی عداوتیں نہ کسی صنم کی مروتیں چلو آؤ تم کو دکھائیں ہم جو بچا ہے مقتل شہر میں یہ مزار اہل صفا کے ہیں یہ ہیں اہل صدق کی تربتیں مری جان آج کا غم نہ کر کہ نہ جانے کاتب وقت نے کسی اپنے کل میں بھی بھول کر کہیں لکھ رکھی ہوں مسرتیں
Meer Taqi Meer
یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں، میر تقی میر غزلیں
یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں اب دو تو جام خالی ہی دو میں نشے میں ہوں ایک ایک قرط دور میں یوں ہی مجھے بھی دو جام شراب پر نہ کرو میں نشے میں ہوں مستی سے درہمی ہے مری گفتگو کے بیچ جو چاہو تم بھی مجھ کو کہو میں نشے میں ہوں یا ہاتھوں ہاتھ لو مجھے مانند جام مے یا تھوڑی دور ساتھ چلو میں نشے میں ہوں معذور ہوں جو پاؤں مرا بے طرح پڑے تم سرگراں تو مجھ سے نہ ہو میں نشے میں ہوں بھاگی نماز جمعہ تو جاتی نہیں ہے کچھ چلتا ہوں میں بھی ٹک تو رہو میں نشے میں ہوں نازک مزاج آپ قیامت ہیں میرؔ جی جوں شیشہ میرے منہ نہ لگو میں نشے میں ہوں
Dagh Dehlvi
کون سا طائرِ گم گشتہ اُسے یاد آیا داغ دہلوی غزلیں
کون سا طائر گم گشتہ اسے یاد آیا دیکھتا بھالتا ہر شاخ کو صیاد آیا میرے قابو میں نہ پہروں دل ناشاد آیا وہ مرا بھولنے والا جو مجھے یاد آیا کوئی بھولا ہوا انداز ستم یاد آیا کہ تبسم تجھے ظالم دم بیداد آیا لائے ہیں لوگ جنازے کی طرح محشر میں کس مصیبت سے ترا کشتۂ بیداد آیا جذب وحشت ترے قربان ترا کیا کہنا کھنچ کے رگ رگ میں مرے نشتر فصاد آیا اس کے جلوے کو غرض کون و مکاں سے کیا تھا داد لینے کے لیے حسن خداداد آیا بستیوں سے یہی آواز چلی آتی ہے جو کیا تو نے وہ آگے ترے فرہاد آیا دل ویراں سے رقیبوں نے مرادیں پائیں کام کس کس کے مرا خرمن برباد آیا عشق کے آتے ہی منہ پر مرے پھولی ہے بسنت ہو گیا زرد یہ شاگرد جب استاد آیا ہو گیا فرض مجھے شوق کا دفتر لکھنا جب مرے ہاتھ کوئی خامۂ فولاد آیا عید ہے قتل مرا اہل تماشا کے لیے سب گلے ملنے لگے جب کہ وہ جلاد آیا چین کرتے ہیں وہاں رنج اٹھانے والے کام عقبیٰ میں ہمارا دل ناشاد آیا دی شب وصل موذن نے اذاں پچھلی رات ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا میرے نالے نے سنائی ہے کھری کس کس کو منہ فرشتوں پہ یہ گستاخ یہ آزاد آیا غم جاوید نے دی مجھ کو مبارک بادی جب سنا یہ کہ انہیں شیوۂ بیداد آیا میں تمنائے شہادت کا مزا بھول گیا آج اس شوق سے ارمان سے جلاد آیا شادیانہ جو دیا نالہ و شیون نے دیا جب ملاقات کو ناشاد کی ناشاد آیا لیجئے سنئے اب افسانۂ فرقت مجھ سے آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا آپ کی بزم میں سب کچھ ہے مگر داغؔ نہیں ہم کو وہ خانہ خراب آج بہت یاد آیا
Waseem Barelvi
ہم اپنے آپ کو ایک مثال بنا نہ سکے، وسیم بریلوی غزلیں
ہم اپنے آپ کو اک مسئلہ بنا نہ سکے اسی لئے تو کسی کی نظر میں آ نہ سکے ہم آنسوؤں کی طرح واسطے نبھا نہ سکے رہے جن آنکھوں میں ان میں ہی گھر بنا نہ سکے پھر آندھیوں نے سکھایا وہاں سفر کا ہنر جہاں چراغ ہمیں راستہ دکھا نہ سکے جو پیش پیش تھے بستی بچانے والوں میں لگی جب آگ تو اپنا بھی گھر بچا نہ سکے مرے خدا کسی ایسی جگہ اسے رکھنا جہاں کوئی مرے بارے میں کچھ بتا نہ سکے تمام عمر کی کوشش کا بس یہی حاصل کسی کو اپنے مطابق کوئی بنا نہ سکے تسلیوں پہ بہت دن جیا نہیں جاتا کچھ ایسا ہو کے ترا اعتبار آ نہ سکے
Javed Akhtar
ہم تو بچپن میں بھی اکیلے تھے، جاوید اختر غزلیں
ہم تو بچپن میں بھی اکیلے تھے صرف دل کی گلی میں کھیلے تھے اک طرف مورچے تھے پلکوں کے اک طرف آنسوؤں کے ریلے تھے تھیں سجی حسرتیں دکانوں پر زندگی کے عجیب میلے تھے خود کشی کیا دکھوں کا حل بنتی موت کے اپنے سو جھمیلے تھے ذہن و دل آج بھوکے مرتے ہیں ان دنوں ہم نے فاقے جھیلے تھے
Mirza Ghalib
راندی ہوئی ہے کوکبہ شہریار کی مرزا غالب غزلیں
روندی ہوئی ہے کوکبۂ شہریار کی اترائے کیوں نہ خاک سر رہ گزار کی جب اس کے دیکھنے کے لیے آئیں بادشاہ لوگوں میں کیوں نمود نہ ہو لالہ زار کی بھوکے نہیں ہیں سیر گلستاں کے ہم ولے کیونکر نہ کھائیے کہ ہوا ہے بہار کی
Habib Jalib
جھوٹی خبریں گھڑنے والے، جھوٹے شعر سنانے والے، حبیب جالب غزلیں
جھوٹی خبریں گھڑنے والے جھوٹے شعر سنانے والے لوگو صبر کہ اپنے کئے کی جلد سزا ہیں پانے والے درد آنکھوں سے بہتا ہے اور چہرہ سب کچھ کہتا ہے یہ مت لکھو وہ مت لکھو آئے بڑے سمجھانے والے خود کاٹیں گے اپنی مشکل خود پائیں گے اپنی منزل راہزنوں سے بھی بد تر ہیں راہنما کہلانے والے ان سے پیار کیا ہے ہم نے ان کی راہ میں ہم بیٹھے ہیں نا ممکن ہے جن کا ملنا اور نہیں جو آنے والے ان پر بھی ہنستی تھی دنیا آوازیں کستی تھی دنیا جالبؔ اپنی ہی صورت تھے عشق میں جاں سے جانے والے
Sahir Ludhianvi
چہرے پہ خوشی چھا جاتی ہے، آنکھوں میں سرور آ جاتا ہے، ساحر لدھیانوی غزلیں۔
چہرے پہ خوشی چھا جاتی ہے آنکھوں میں سرور آ جاتا ہے جب تم مجھے اپنا کہتے ہو اپنے پہ غرور آ جاتا ہے تم حسن کی خود اک دنیا ہو شاید یہ تمہیں معلوم نہیں محفل میں تمہارے آنے سے ہر چیز پہ نور آ جاتا ہے ہم پاس سے تم کو کیا دیکھیں تم جب بھی مقابل ہوتے ہو بیتاب نگاہوں کے آگے پردہ سا ضرور آ جاتا ہے جب تم سے محبت کی ہم نے تب جا کے کہیں یہ راز کھلا مرنے کا سلیقہ آتے ہی جینے کا شعور آ جاتا ہے
Mirza Ghalib
کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا مرزا غالب غزلیں
کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا دل کہاں کہ گم کیجے ہم نے مدعا پایا عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا درد کی دوا پائی درد بے دوا پایا دوست دار دشمن ہے اعتماد دل معلوم آہ بے اثر دیکھی نالہ نارسا پایا سادگی و پرکاری بے خودی و ہشیاری حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا غنچہ پھر لگا کھلنے آج ہم نے اپنا دل خوں کیا ہوا دیکھا گم کیا ہوا پایا حال دل نہیں معلوم لیکن اس قدر یعنی ہم نے بارہا ڈھونڈا تم نے بارہا پایا شور پند ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا بے دماغ خجلت ہوں رشک امتحاں تا کے ایک بیکسی تجھ کو عالم آشنا پایا خاک بازی امید کارخانۂ طفلی یاس کو دو عالم سے لب بہ خندہ وا پایا کیوں نہ وحشت غالب باج خواہ تسکیں ہو کشتۂ تغافل کو خصم خوں بہا پایا فکر نالہ میں گویا حلقہ ہوں ز سر تا پا عضو عضو جوں زنجیر یک دل صدا پایا شب نظارہ پرور تھا خواب میں خیال اس کا صبح موجۂ گل کو نقش بوریا پایا جس قدر جگر خوں ہو کوچہ دادن گل ہے زخم تیغ قاتل کو طرفہ دل کشا پایا ہے مکیں کی پا داری نام صاحب خانہ ہم سے تیرے کوچے نے نقش مدعا پایا نے اسدؔ جفا سائل نے ستم جنوں مائل تجھ کو جس قدر ڈھونڈا الفت آزما پایا
Naseer Turabi
تجھے کیا خبر میرے بے خبر میرا سلسلہ کوئی اور ہے، نصیر ترابی غزلیں ۳
تجھے کیا خبر مرے بے خبر مرا سلسلہ کوئی اور ہے جو مجھی کو مجھ سے بہم کرے وہ گریز پا کوئی اور ہے مرے موسموں کے بھی طور تھے مرے برگ و بار ہی اور تھے مگر اب روش ہے الگ کوئی مگر اب ہوا کوئی اور ہے یہی شہر شہر قرار ہے تو دل شکستہ کی خیر ہو مری آس ہے کسی اور سے مجھے پوچھتا کوئی اور ہے یہ وہ ماجرائے فراق ہے جو محبتوں سے نہ کھل سکا کہ محبتوں ہی کے درمیاں سبب جفا کوئی اور ہے ہیں محبتوں کی امانتیں یہی ہجرتیں یہی قربتیں دیے بام و در کسی اور نے تو رہا بسا کوئی اور ہے یہ فضا کے رنگ کھلے کھلے اسی پیش و پس کے ہیں سلسلے ابھی خوش نوا کوئی اور تھا ابھی پر کشا کوئی اور ہے دل زود رنج نہ کر گلہ کسی گرم و سرد رقیب کا رخ ناسزا تو ہے روبرو پس ناسزا کوئی اور ہے بہت آئے ہمدم و چارہ گر جو نمود و نام کے ہو گئے جو زوال غم کا بھی غم کرے وہ خوش آشنا کوئی اور ہے یہ نصیرؔ شام سپردگی کی اداس اداس سی روشنی بہ کنار گل ذرا دیکھنا یہ تمہی ہو یا کوئی اور ہے
Bahadur Shah Zafar
نہیں عشق میں اس کا تو رنج ہمیں کہ قرار و شکیب ذرا نہ رہا، بہادر شاہ ظفر غزلیں
نہیں عشق میں اس کا تو رنج ہمیں کہ قرار و شکیب ذرا نہ رہا غم عشق تو اپنا رفیق رہا کوئی اور بلا سے رہا نہ رہا دیا اپنی خودی کو جو ہم نے اٹھا وہ جو پردہ سا بیچ میں تھا نہ رہا رہے پردے میں اب نہ وہ پردہ نشیں کوئی دوسرا اس کے سوا نہ رہا نہ تھی حال کی جب ہمیں خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا ترے رخ کے خیال میں کون سے دن اٹھے مجھ پہ نہ فتنۂ روز جزا تری زلف کے دھیان میں کون سی شب مرے سر پہ ہجوم بلا نہ رہا ہمیں ساغر بادہ کے دینے میں اب کرے دیر جو ساقی تو ہائے غضب کہ یہ عہد نشاط یہ دور طرب نہ رہے گا جہاں میں سدا نہ رہا کئی روز میں آج وہ مہر لقا ہوا میرے جو سامنے جلوہ نما مجھے صبر و قرار ذرا نہ رہا اسے پاس حجاب و حیا نہ رہا ترے خنجر و تیغ کی آب رواں ہوئی جب کہ سبیل ستم زدگاں گئے کتنے ہی قافلے خشک زباں کوئی تشنۂ آب بقا نہ رہا مجھے صاف بتائے نگار اگر تو یہ پوچھوں میں رو رو کے خون جگر ملے پاؤں سے کس کے ہیں دیدۂ تر کف پا پہ جو رنگ حنا نہ رہا اسے چاہا تھا میں نے کہ روک رکھوں مری جان بھی جائے تو جانے نہ دوں کئے لاکھ فریب کروڑ فسوں نہ رہا نہ رہا نہ رہا نہ رہا لگے یوں تو ہزاروں ہی تیر ستم کہ تڑپتے رہے پڑے خاک پہ ہم ولے ناز و کرشمہ کی تیغ دو دم لگی ایسی کہ تسمہ لگا نہ رہا ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانئے گا وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
Gulzar
مجھے اندھیرے میں بیشک بٹھا دیا ہوتا گلزار غزلز ۱
مجھے اندھیرے میں بے شک بٹھا دیا ہوتا مگر چراغ کی صورت جلا دیا ہوتا نہ روشنی کوئی آتی مرے تعاقب میں جو اپنے آپ کو میں نے بجھا دیا ہوتا یہ درد جسم کے یارب بہت شدید لگے مجھے صلیب پہ دو پل سلا دیا ہوتا یہ شکر ہے کہ مرے پاس تیرا غم تو رہا وگرنہ زندگی نے تو رلا دیا ہوتا
Akbar Allahabadi
کہاں وہ اب لطفِ باہمی ہے، محبتوں میں بہت کمی ہے، اکبر الہ آبادی غزلیں۔
کہاں وہ اب لطف باہمی ہے محبتوں میں بہت کمی ہے چلی ہے کیسی ہوا الٰہی کہ ہر طبیعت میں برہمی ہے مری وفا میں ہے کیا تزلزل مری اطاعت میں کیا کمی ہے یہ کیوں نگاہیں پھری ہیں مجھ سے مزاج میں کیوں یہ برہمی ہے وہی ہے فضل خدا سے اب تک ترقی کار حسن و الفت نہ وہ ہیں مشق ستم میں قاصر نہ خون دل کی یہاں کمی ہے عجیب جلوے ہیں ہوش دشمن کہ وہم کے بھی قدم رکے ہیں عجیب منظر ہیں حیرت افزا نظر جہاں تھی وہیں تھمی ہے نہ کوئی تکریم باہمی ہے نہ پیار باقی ہے اب دلوں میں یہ صرف تحریر میں ڈیر سر ہے یا جناب مکرمی ہے کہاں کے مسلم کہاں کے ہندو بھلائی ہیں سب نے اگلی رسمیں عقیدے سب کے ہیں تین تیرہ نہ گیارہویں ہے نہ اسٹمی ہے نظر مری اور ہی طرف ہے ہزار رنگ زمانہ بدلے ہزار باتیں بنائے ناصح جمی ہے دل میں جو کچھ جمی ہے اگرچہ میں رند محترم ہوں مگر اسے شیخ سے نہ پوچھو کہ ان کے آگے تو اس زمانے میں ساری دنیا جہنمی ہے
Mirza Ghalib
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار مرزا غالب غزلیں
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار صحرا مگر بہ تنگی چشم حسود تھا آشفتگی نے نقش سویدا کیا درست ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا لیتا ہوں مکتب غم دل میں سبق ہنوز لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا ڈھانپا کفن نے داغ عیوب برہنگی میں ورنہ ہر لباس میں ننگ وجود تھا تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسدؔ سرگشتۂ خمار رسوم و قیود تھا عالم جہاں بہ عرض بساط وجود تھا جوں صبح چاک جیب مجھے تار و پود تھا بازی خور فریب ہے اہل نظر کا ذوق ہنگامہ گرم حیرت بود و نبود تھا عالم طلسم شہر خموشی ہے سربسر یا میں غریب کشور گفت و شنود تھا تنگی رفیق رہ تھی عدم یا وجود تھا میرا سفر بہ طالع چشم حسود تھا تو یک جہاں قماش ہوس جمع کر کہ میں حیرت متاع عالم نقصان و سود تھا گردش محیط ظلم رہا جس قدر فلک میں پائمال غمزۂ چشم کبود تھا پوچھا تھا گرچہ یار نے احوال دل مگر کس کو دماغ منت گفت و شنود تھا خور شبنم آشنا نہ ہوا ورنہ میں اسدؔ سر تا قدم گزارش ذوق سجود تھا
Meer Taqi Meer
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا میر تقی میر غزلیں
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا حرف نہیں جاں بخشی میں اس کی خوبی اپنی قسمت کی ہم سے جو پہلے کہہ بھیجا سو مرنے کا پیغام کیا ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا کس کا کعبہ کیسا قبلہ کون حرم ہے کیا احرام کوچے کے اس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا شیخ جو ہے مسجد میں ننگا رات کو تھا مے خانے میں جبہ خرقہ کرتا ٹوپی مستی میں انعام کیا کاش اب برقعہ منہ سے اٹھا دے ورنہ پھر کیا حاصل ہے آنکھ مندے پر ان نے گو دیدار کو اپنے عام کیا یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے رات کو رو رو صبح کیا یا دن کو جوں توں شام کیا صبح چمن میں اس کو کہیں تکلیف ہوا لے آئی تھی رخ سے گل کو مول لیا قامت سے سرو غلام کیا ساعد سیمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لا کر چھوڑ دیئے بھولے اس کے قول و قسم پر ہائے خیال خام کیا کام ہوئے ہیں سارے ضائع ہر ساعت کی سماجت سے استغنا کی چوگنی ان نے جوں جوں میں ابرام کیا ایسے آہوئے رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی سحر کیا اعجاز کیا جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
Mirza Ghalib
مجھ کو دیار غیر میں مارا وطن سے دور مرزا غالب غزلیں
مجھ کو دیار غیر میں مارا وطن سے دور رکھ لی مرے خدا نے مری بیکسی کی شرم وہ حلقہ ‌ہاۓ زلف کمیں میں ہیں یا خدا رکھ لیجو میرے دعوی وارستگی کی شرم
Mirza Ghalib
جو نہ نقد داغ دل کی کرے شعلہ پاسبانی مرزا غالب غزلیں
جو نہ نقد داغ دل کی کرے شعلہ پاسبانی تو فسردگی نہاں ہے بہ کمین بے زبانی مجھے اس سے کیا توقع بہ زمانۂ جوانی کبھی کودکی میں جس نے نہ سنی مری کہانی یوں ہی دکھ کسی کو دینا نہیں خوب ورنہ کہتا کہ مرے عدو کو یا رب ملے میری زندگانی
Javed Akhtar
شکر ہے خیریت سے ہوں صاحب، جاوید اختر غزلیں
شکر ہے خیریت سے ہوں صاحب آپ سے اور کیا کہوں صاحب اب سمجھنے لگا ہوں سود و زیاں اب کہاں مجھ میں وہ جنوں صاحب ذلت زیست یا شکست ضمیر یہ سہوں میں کہ وہ سہوں صاحب ہم تمہیں یاد کرتے رو لیتے دو گھڑی ملتا جو سکوں صاحب شام بھی ڈھل رہی ہے گھر بھی ہے دور کتنی دیر اور میں رکوں صاحب اب جھکوں گا تو ٹوٹ جاؤں گا کیسے اب اور میں جھکوں صاحب کچھ روایات کی گواہی پر کتنا جرمانہ میں بھروں صاحب
Bahadur Shah Zafar
ہوتے ہوتے چشم سے آج اشک باری رہ گئی، بہادر شاہ ظفر غزلیں
ہوتے ہوتے چشم سے آج اشک باری رہ گئی آبرو بارے تری ابر بہاری رہ گئی آتے آتے اس طرف ان کی سواری رہ گئی دل کی دل میں آرزوئے جاں نثاری رہ گئی ہم کو خطرہ تھا کہ لوگوں میں تھا چرچا اور کچھ بات خط آنے سے تیرے پر ہماری رہ گئی ٹکڑے ٹکڑے ہو کے اڑ جائے گا سب سنگ مزار دل میں بعد از مرگ کچھ گر بے قراری رہ گئی اتنا ملیے خاک میں جو خاک میں ڈھونڈے کوئی خاکساری خاک کی گر خاکساری رہ گئی آؤ گر آنا ہے کیوں گن گن کے رکھتے ہو قدم اور کوئی دم کی ہے یاں دم شماری رہ گئی ہو گیا جس دن سے اپنے دل پر اس کو اختیار اختیار اپنا گیا بے اختیاری رہ گئی جب قدم اس کافر بدکیش کی جانب بڑھے دور پہنچے سو قدم پرہیزگاری رہ گئی کھینچتے ہی تیغ ادا کے دم ہوا اپنا ہوا آہ دل میں آرزوئے زخم کاری رہ گئی اور تو غم خوار سارے کر چکے غم خوارگی اب فقط ہے ایک غم کی غم گساری رہ گئی شکوہ عیاری کا یاروں سے بجا ہے اے ظفرؔ اس زمانے میں یہی ہے رسم یاری رہ گئی
Wali Mohammad Wali
عشق بے تابِ جان گدازی ہے ولی محمد ولی غزلیں
عشق بیتاب جاں گدازی ہے حسن مشتاق دل نوازی ہے اشک خونیں سوں جو کیا ہے وضو مذہب عشق میں نمازی ہے جو ہوا راز عشق سوں آگاہ وو زمانے کا فخر رازی ہے پاک بازاں سوں یوں ہوا مفہوم عشق مضمون پاک بازی ہے جا کے پہنچی ہے حد ظلمت کوں بسکہ تجھ زلف میں درازی ہے تجربے سوں ہوا مجھے ظاہر ناز مفہوم بے نیازی ہے اے ولیؔ عیش ظاہری کا سبب جلوۂ شاہد مجازی ہے
Mirza Ghalib
جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی، مرزا غالب غزلیں
جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی لکھ دیجیو یا رب اسے قسمت میں عدو کی اچھا ہے سر انگشت حنائی کا تصور دل میں نظر آتی تو ہے اک بوند لہو کی کیوں ڈرتے ہو عشاق کی بے حوصلگی سے یاں تو کوئی سنتا نہیں فریاد کسو کی دشنے نے کبھی منہ نہ لگایا ہو جگر کو خنجر نے کبھی بات نہ پوچھی ہو گلو کی صد حیف وہ ناکام کہ اک عمر سے غالبؔ حسرت میں رہے ایک بت عربدہ جو کی گو زندگی زاہد بے چارہ عبث ہے اتنا ہے کہ رہتی تو ہے تدبیر وضو کی اب بے خبراں میرے لب زخم جگر پر بخیہ جسے کہتے ہو شکایت ہے رفو کی
Javed Akhtar
میں کب سے کتنا ہوں تنہا تجھے پتا بھی نہیں، جاوید اختر غزلیں
میں کب سے کتنا ہوں تنہا تجھے پتا بھی نہیں ترا تو کوئی خدا ہے مرا خدا بھی نہیں کبھی یہ لگتا ہے اب ختم ہو گیا سب کچھ کبھی یہ لگتا ہے اب تک تو کچھ ہوا بھی نہیں کبھی تو بات کی اس نے کبھی رہا خاموش کبھی تو ہنس کے ملا اور کبھی ملا بھی نہیں کبھی جو تلخ کلامی تھی وہ بھی ختم ہوئی کبھی گلہ تھا ہمیں ان سے اب گلہ بھی نہیں وہ چیخ ابھری بڑی دیر گونجی ڈوب گئی ہر ایک سنتا تھا لیکن کوئی ہلا بھی نہیں