text
stringlengths
0
11.5k
کوکب جہاں
آئی بی سی اردو ،کراچی
ڈرامہ سیریل 'ہمسفر' سے شہرت حاصل کرنے والے ہدایتکار سرمد کھوسٹ کی پہلی فلم 'منٹو' گیارہ ستمبر کو پاکستان کے سینماؤں میں پیش کر دی جائے گی۔
فلم 'منٹو' بر صغیر کی تقسیم کے وقت کے پرسوز واقعات کی کہانیاں لکھنے والے مشہور مصنف سعادت حسن منٹو کی سوانح عمری ہے۔ منٹو اپنی کہانیوں میں
خواتین کے مسائل اور ان کے جذبات کو سچائی کے ساتھ کھلے الفاظ میں بیان کرنے کی وجہ سے ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنے رہے۔
اس سے پہلے بھی منٹو کی کہانیوں اور ان کی زندگی کو پاکستان کے ٹیلیویژن چینلز پر ڈراموں کی شکل میں پیش کیا جاتا رہا ہے۔
اس فلم کے پروڈیوسر اے اینڈ بی کمپنی کے بابر جاوید ہیں جبکہ ڈسٹری بیوٹرز جیو فلمز ہیں۔
حال ہی میں فلم کا ٹریلر دکھانے کے لئے مقامی سینما میں ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں میڈیا کے علاوہ فلم کی کاسٹ، ہدایتکار اور دیگر فنکاروں نے شرکت کی۔
امریکی ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ روزانہ 56 گرام مغز اخروٹ کا مسلسل 6 ماہ تک استعمال خون کی نالیوں کو بہتر بناتا ہے اور ساتھ ہی بہت سے امراض سے بھی بچاجاسکتا ہے۔
امریکی ماہرین کے مطابق دل اور خون کی شریانیں تنگ ہونے سے ٹائپ ٹو ذیابیطس کا مرض لاحق ہو سکتا ہے جس میں انسانی جسم مناسب مقدار میں ہارمون نہیں بناپاتا جب کہ اخروٹ میں فیٹی ایسڈز کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے اس کے علاوہ وٹامن ای اور فولیٹ جیسے اجزا پائے جاتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کیلوریز کی وافر مقدار ہونے کے باوجود بھی یہ موٹاپے کی وجہ نہیں بنتا ۔ امریکہ میں ییل یونیورسٹی کے ماہر پروفیسر کے مطابق اخروٹ صحت پر کئی لحاظ سے مثبت اثر ڈالتے ہیں اور خصوصا دل کو صحت مند رکھتے ہیں۔
ماہرین نے اس کے لیے ایک مختصر مطالعہ کیا جس میں ایسے مرد و خواتین نے حصہ لیا جو ذیابیطس کے کنارے پہنچ چکے تھے، ان میں سے 25 سے 75 برس کے افراد کو 6 ماہ اخروٹ کھانے کو دیئے گئے جس کے بعد 3 ماہ کا وقفہ کیا گیا اور دوسرے گروپ کو اخروٹ کھلائے گئے، یہ تمام افراد کئی امراض کے دہانے پر تھے جن میں ذیابیطس، زائد وزن، بلند بلڈ پریشر، کولیسٹرول اور خون میں شکر کی زیادتی جیسےامراض کے قریب پہنچ چکے تھے۔ نتائج کے مطابق رضاکاروں کے دونوں گروہوں میں دل ، کولیسٹرول، بلڈ شوگر اور دیگر طبی کیفیات میں بہتری دیکھی گئی۔
ماہرین کے مطابق اگر مناسب غذا، ورزش، تمباکو نوشی سے گریز کرتے ہوئے اخروٹ کو روزمرہ خوراک میں شامل رکھا جائے تو اس کے حیرت انگیز نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔
اب تک کی بحث کی روشنی میں ہمارے سامنے سنت کی تشریعی حیثیت اور قرآن وسنت کے باہمی تعلق کے حوالے سے علماے اصول کے اتفاقات اور اختلافات کی ایک واضح تصویر آ چکی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ سنت کا ایک مستقل ماخذ تشریع ہونا فقہا واصولیین کے ہاں ایک مسلم اصول ہے اور وہ ماخذ تشریع کو صرف قرآن تک محدود رکھنے کو ایمان بالرسالۃ کے منافی تصور کرتے ہیں۔ اس ساری بحث میں ایک بہت بنیادی مفروضہ جو جمہور علماے اصول کے ہاں مسلم ہے، یہ ہے کہ شرعی احکام کا ماخذ بننے والے نصوص کو قطعی اور ظنی میں تقسیم کرنا لازم ہے، کیونکہ ایک مستقل ماخذ تشریع ہونے کے باوجود سنت کا بیش تر حصہ اخبار آحاد سے نقل ہوا ہے جو تاریخی ثبوت کے اعتبار سے ظنی ہیں۔ جمہور اصولیین اور فقہا نے اس کو ایک حقیقت واقعہ کے طور پر قبول کیا اور یہ قرار دیا کہ دین کے جزوی اور تفصیلی احکام کو ظنی الثبوت ماخذ، یعنی اخبار آحاد سے اخذ کرنا درست ہے۔ البتہ اس ظنی ماخذ سے ثابت کوئی حکم کسی پہلو سے قطعی الثبوت حکم کے معارض ہو یا مثلا اس کی تخصیص وتقیید یا اس پر زیادت کر رہا ہو تو اس کی قبولیت کے شرائط وقیود کے حوالے سے ان کے مابین بعض اختلافات پائے جاتے ہیں۔
جمہور فقہا ومحدثین کے نزدیک کسی حدیث کو ماخذ حکم بنانے اور اس پر عمل کرنے کے لیے محض اس کا سندا صحیح ہونا کافی ہے اور دین کے دیگر اصولوں، یعنی قرآن، سنت اور ان سے مستنبط اصول کلیہ پر اس کو پرکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ روایت جب سندا ثابت ہو تو وہ بذات خود ایک اصل کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے دوسرے اصولوں پر پرکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی (ابن حجر، فتح الباری 4/366)۔ اس کے مقابلے میں فقہاے حنفیہ اور مالکیہ کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ خبر واحد کا حجت ہونا اس سے مشروط ہے کہ وہ اپنے سے قوی تر کسی دلیل کے ساتھ نہ ٹکراتی ہو۔ اگر خبر واحد قرآن کی نص، سنت مشہورہ یا امت کے اجماع میں سے کسی کے ساتھ ٹکراتی ہو تو معارضہ کے عام عقلی اصول کے مطابق خبر واحد کو رد کر دیا جائے گا یا اس کے ظاہری مفہوم کو چھوڑ کر مناسب تاویل کا راستہ اختیار کیا جائے گا۔
اس جزوی اختلاف سے قطع نظر، خبر واحد کے معتبر ہونے کے باب میں جمہور اصولیین متفق الراے ہیں اور اس کی عقلی وشرعی توجیہ کے حوالے سے ان کا عمومی استدلال یہی ہے کہ تکلیف شرعی کا مدار علی الاطلاق قطعی دلائل پر رکھنا ناممکن ہے اور اسی وجہ سے شارع نے یہ طریقہ اختیار نہیں کیا، بلکہ ظن کو بھی ایک درجے میں معتبر قرار دیا ہے۔ ابن حزم نے اس ضمن میں ایک دوسرا طریقہ اختیار کیا اور تاریخی ثبوت کے اعتبار سے قرآن مجید اور اخبار آحاد کے مابین پائے جانے والے فرق کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک مذہبی اور دینیاتی استدلال سے قطعی اور ظنی کی تقسیم کو غیر اہم ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ابن حزم نے کہا کہ قرآن مجید میں 'الذکر' کی حفاظت کا جو وعدہ کیا گیا ہے، اس سے مراد صرف قرآن نہیں، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی جانے والی ہر طرح کی وحی ہے۔ دوسرے لفظوں میں قرآن کی طرح حدیث بھی اس وعدۂ حفاظت میں شامل ہے اور اللہ تعالی نے تکوینی طور پر احادیث کو بھی مکمل طور پر محفوظ رکھنے اور حفاظت کے ساتھ امت تک منتقل کرنے کا اہتمام فرمایا ہے (الاحکام فی اصول الاحکام 1/ 98)۔ اس وعدۂ حفاظت سے ابن حزم یہ اخذ کرتے ہیں کہ شریعت کا کوئی حکم جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہو، کسی ایسی سند سے منقول نہیں ہو سکتا جس کے راویوں کے بیان پر حجت قائم نہ ہو سکتی ہو، کیونکہ ا س سے شریعت کا ایک مستند حکم ضائع ہو جائے گا۔ اسی اصول پر اگر کسی ثقہ راوی سے کسی حدیث کے بیان میں غلطی ہوئی ہو تو لازم ہے کہ تکوینی طور پر اللہ تعالی نے اس غلطی کی وضاحت کا بھی بندوبست کیا ہو تاکہ امت ایک غیر مستند حکم کو شریعت کا حصہ سمجھنے کی غلطی میں مبتلا نہ ہو جائے (الاحکام 1/ 136)۔
اس پس منظر میں آٹھویں صدی ہجری میں غرناطہ کے جلیل القدر مالکی عالم امام ابو اسحق الشاطبی نے اپنی کتاب "الموافقات" میں ایک مربوط عقلی نظام کے طور پر شریعت کی تفہیم کو موضوع بنایا تو قرآن وسنت کے باہمی تعلق کے تناظر میں قطعیت اور ظنیت کا سوال ازسرنو اٹھایا اور ایک نئے زاویے سے اس بحث کے مختلف پہلوؤں کو واضح کرنے کی کوشش کی۔ زیر نظر سطور میں ہم اس حوالے سے شاطبی کے اصولی نظریے کی وضاحت کریں گے۔
تشریع کا اصل الاصول: انسانی مصالح
شاطبی کے نظریے میں تشریع کے مقاصد اور احکام شرعیہ میں ملحوظ انسانی مصالح کا تصور بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ شاطبی اسی کی روشنی میں شریعت کی تفہیم ایک مربوط اور منضبط نظام کے طور پر کرتے اور شریعت میں قطعیت یا ظنیت کے سوال کو حل کرتے ہیں اور اسی فریم ورک میں قرآن وسنت کے باہمی تعلق کو بھی واضح کرتے ہیں۔ احکام شرعیہ کی بنیاد میں مخصوص مقاصد ومصالح کے کارفرما ہونے کے تصور کو ایک باقاعدہ نظریے کے طور پر پیش کرنے کی نسبت عموما امام الحرمین الجوینی کی طرف کی جاتی ہے۔ الجوینی کے زیراثر شافعی روایت میں امام غزالی اور پھر عز الدین بن عبد السلام نے اس تصور کے مختلف پہلوؤں کو واضح کیا۔ دوسرے فقہی مکاتب فکر سے منتسب بعض اہل علم، مثلا شہاب الدین القرافی، نجم الدین الطوفی، ابن تیمیہ اور ابن القیم کے ہاں بھی اس بحث سے خصوصی اعتنا ملتا ہے۔ شاطبی اسی اصولی روایت سے منسلک ہیں اور ان کے ہاں تشریع کے تصور، مقاصد اور عمل تشریع کے بنیادی اصولوں کی توضیح جس طرح کی گئی ہے، اس کا خلاصہ درج ذیل نکات کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے:
1۔ شارع کی تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ انبیا کے ذریعے سے انسانوں کی رہنمائی سے انسانوں ہی کی بھلائی او رمصلحت مقصود ہے۔ شارع کا مطالبہ یہ ہے کہ بنی نوع انسان اپنی انفرادی واجتماعی زندگی میں ایسے اصولوں اور ضابطوں کی پابندی کریں جن سے ان مخصوص مصالح کی حفاظت ممکن ہو جو شارع کا مقصود ہیں۔ یہ مصالح حسب ذیل ہیں:
1۔ دین، 2۔ انسانی زندگی، 3۔ نسل، 4۔ مال، اور 5۔ عقل۔
احکام شرعیہ کے استقرا سے واضح ہوتا ہے کہ تشریع کے پورے عمل میں انھی مخصوص انسانی مصالح کی حفاظت کو موضوع بنایا گیا ہے اور انھی پر بنی نوع انسان کی دنیوی واخروی فلاح کا مدار ہے۔
2۔ شاطبی حفظ دین کو عبادات (ایمان، نماز، زکوۃ، روزہ اور حج) کے ساتھ، نفس اور عقل کی حفاظت کو عادات (خور ونوش، لباس اور رہایش وغیرہ) کے ساتھ اور حفظ نسل اور حفظ مال کو اور بعض پہلوؤں سے حفظ نفس اور حفظ عقل کو معاملات (بیع وشرا، نکاح، قصاص ودیت اور جنایات وغیرہ) کے ساتھ متعلق کرتے ہیں۔ شارع کی طرف سے دی گئی ہدایات تین مختلف سطحوں پر مذکورہ مصالح کی حفاظت کو موضوع بناتی ہیں۔ غزالی کی پیروی میں، شاطبی ان سطحوں کو ضروریات، حاجیات اور تحسینیات سے تعبیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عبادات، عادات اور معاملات، تمام دائروں میں ان تینوں درجات کی حفاظت شریعت کا مقصود ہے۔
ضروریات کا درجہ ان مصالح کو محفوظ رکھنے کا وہ کم سے کم درجہ ہے جس کے بغیر انسانی زندگی صحیح ڈگر پر قائم نہیں رہ سکتی اور اس کا نتیجہ فساد، انتشار اور زندگی کے کلی خاتمے کی صورت میں نکلنا یقینی ہے۔ ان کی حفاظت جانب وجود اور جانب عدم، دونوں طرف سے ہونی چاہیے، یعنی ایسا بندوبست بھی ہونا چاہیے کہ یہ مصالح مثبت طور پر قائم رہیں اور ایسا انتظام بھی درکار ہے کہ ان مصالح میں خلل ڈالنے والے امور کا سدباب کیا جا سکے۔ شریعت میں بیان کیے گئے بنیادی فرائض اور ممنوعات، مثلا عبادات میں نماز اور زکوۃ، معاملات میں خرید و فروخت کی اباحت اور قتل، زنا اور چوری وغیرہ کی حرمت اس کی مثالیں ہیں۔ ضروریات کے ساتھ ملحق تکمیلی امور کی، مثال کے طور پر شاطبی باجماعت نماز کا اہتمام کرنے، خرید وفروخت کے وقت گواہ مقرر کرنے، نشہ آور اشیا کی معمولی مقدار سے بھی گریز کرنے، اجنبی عورت کو دیکھنے اور سود کی ممانعت وغیرہ کا ذکر کرتے ہیں۔
حاجیات کے درجے میں مقصود یہ ہوتا ہے کہ مکلفین کے لیے احکام شریعت کی پابندی میں وسعت اور سہولت پیدا کی جائے اور انھیں مشقت اور تنگی میں پڑنے سے بچایا جائے۔ اس درجے میں وہ تمام رخصتیں آجاتی ہیں جو شریعت میں کسی بھی دائرے میں اصل حکم سے لاحق ہونے والی مشقت کو دور کرنے کے لیے بیان کی گئی ہیں، مثلا بیماری اور سفر میں روزہ ترک کرنے کی رخصت، جانو رکو ذبح کرنا ممکن نہ ہونے کی صورت میں شکار کی اجازت اور مالی لین دین کے دائرے میں مضاربت، مساقاۃ اور سلم کی اباحت اور دیت کی ادائیگی کو عاقلہ کی اجتماعی ذمہ داری قرار دینا وغیرہ۔ حاجیات کے ساتھ بھی کچھ تکمیلی احکام ملحق ہوتے ہیں جس کی مثال نکاح میں کفو کی رعایت کرنے اور سفر میں دو نمازوں کو جمع کرنے جیسی ہدایات ہیں جن کی رعایت نہ کرنے سے ضروریات تو متاثر نہیں ہوتیں، لیکن تخفیف اور تیسیر کے اصول پر زد پڑتی ہے۔
تحسینیات سے مراد یہ ہے کہ انسان محاسن عادات اور مکارم اخلاق کو اختیار کرے اور عقل سلیم جن چیزوں سے نفو رمحسوس کرتی ہے، ان سے اجتناب کرے۔ تحسینیات، اصل ضروری اور حاجی مصالح سے زاید ہوتے ہیں، کیونکہ ان کا فقدان کسی ضروری یا حاجی مصلحت میں خلل انداز نہیں ہوتا اور ان کی نوعیت محض تحسین اور تزیین کی ہوتی ہے۔ شاطبی نے اس کی مثال کے طور پر عبادت کرتے ہوئے طہارت، ستر عورت اور زینت کا اہتمام کرنے، کھانے پینے کے آداب کا لحاظ رکھنے، غلام اور عورت کو حکمرانی کے منصب کے لیے نااہل قرار دینے اور جنگ میں عورتوں، بچوں اور راہبوں وغیرہ کے قتل سے ممانعت کا ذکر کیا ہے۔ ضروریات اور حاجیات کی طرح تحسینیات کے ساتھ بھی کچھ مکملات ملحق ہوتے ہیں اور اس کی مثال کے طور پر شاطبی پیشاب، پاخانہ کے آداب اور قربانی کے لیے اچھے جانور کے انتخاب کا ذکر کرتے ہیں (الموافقات 2/ 9- 13)۔
3۔ یہ مصالح ناقابل تنسیخ ہیں اور ان مصالح کی رعایت وحفاظت صرف شریعت محمدی کا خاصہ نہیں، بلکہ یہ تمام شرائع میں مقصود رہی ہے، اگرچہ ان کی حفاظت کے لیے وضع کی جانے والی عملی صورت مختلف اوقات میں مختلف رہی ہے۔ مختلف شرائع میں دیے گئے جن احکام میں نسخ واقع ہوا ہے، وہ بھی فروع اور جزئیات میں ہوا ہے، اصول وکلیات میں نہیں ہوا۔ تمام شرائع ضروریات، حاجیات اور تحسینیات کی رعایت اور حفاظت پر مبنی رہی ہیں، اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان میں سے کسی کلی مصلحت کو سرے سے منسوخ کر دیا گیا ہو۔ نسخ صرف اس پہلو سے واقع ہوا ہے کہ کسی مصلحت کی رعایت اور حفاظت کے ایک طریقے کو دوسرے طریقے سے تبدیل کر دیا گیا (الموافقات 2 /23۔ 3/ 96- 97)۔
تشریع کے عمل میں مصالح کی بنیادی اور مرکزی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے شاطبی لکھتے ہیں:
أن الشارع قد قصد بالتشریع إقامة المصالح الأخرویة والدنیویة وذلک علی وجہ لا یختل لھا به نظام، لا بحسب الکل ولا بحسب الجزء، وسواء فی ذلک ما کان من قبیل الضروریات أو الحاجیات أو التحسینیات، فإنھا لو کانت موضوعة بحیث یمکن أن یختل نظامھا أو تخل أحکامھا لم یکن التشریع موضوعا لھا، إذ لیس کونھا مصالح إذ ذاک بأولی من کونھا مفاسد، لکن الشارع قاصد بھا أن تکون مصالح علی الإطلاق، فلابد أن یکون وضعھا علی ذلک الوجه أبدیا وکلیا وعاما فی جمیع أنواع التکلیف والمکلفین وجمیع الأحوال وکذلک وجدنا الأمر فیھا والحمد للہ. (الموافقات 2 /33)
"تشریع سے شارع کا مقصد اخروی اور دنیوی مصالح کو اس طرح قائم کرنا ہے کہ (شریعت کے وضع کردہ) نظام میں کل یا جزء کسی بھی اعتبار سے خلل واقع نہ ہو۔ اس میں ضروریات، حاجیات اور تحسینیات سب برابر ہیں، کیونکہ اگر ان کی وضع اس طرح کی گئی ہو کہ نظام میں خلل کا واقع ہونا یا احکام کا خلل پذیر ہونا ممکن ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تشریع، مصالح کے لیے نہیں کی گئی، کیونکہ خلل ممکن ہونے کی صورت میں ان کو مصالح کے بجاے مفاسد کہنے کا بھی پورا جواز ہے۔ لیکن چونکہ شارع کا مقصود یہ ہے کہ احکام سے علی الاطلاق مصالح کی حفاظت کی جائے، اس لیے لازم ہے کہ ان کے مصالح ہونے کی نوعیت ابدی ہو اور تکلیف کی تمام انواع اور جملہ مکلفین اور تمام احوال کے لیے عام ہو، اور بحمد اللہ ہم نے شریعت کو اسی طرح پایا ہے۔"
شریعت کے قطعی ہونے کی نوعیت
شاطبی کے نزدیک شریعت کا قطعی ہونا تکلیف شرعی میں بنیادی نکتے کی حیثیت رکھتا ہے اور شارع کی طرف سے انسان کو ہدایت مہیا کرنا اور اسے اس کا مکلف ٹھیرانا قطعیت کے بغیر ناقابل فہم ہے۔ تاہم شاطبی کے سامنے سوال یہ ہے کہ جب شرعی نصوص اپنے ثبوت اور دلالت، دونوں اعتبارات سے قطعی اور ظنی میں منقسم ہیں اور خاص طور پر شریعت کے تفصیلی اور فروعی احکام کا ثبوت زیادہ تر اخبار آحاد کی صورت میں ظنی دلائل پر منحصر ہے تو پھر بہ حیثیت مجموعی شریعت کے قطعی ہونے کا دعوی کیونکر اور کس معنی میں کیا جا سکتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں شاطبی مقاصد ومصالح کے مذکورہ نظریے سے مدد لیتے ہیں۔ شاطبی کہتے ہیں کہ شریعت، کلیات واصول اور جزئیات وفروع پر مشتمل ہے اور ان میں سے کلیات، جو اصل اور اساس کی حیثیت رکھتے ہیں، قطعی، جب کہ جزئیات وفروع ظنی ہیں۔ کلیات سے ان کی مراد وہی اجتماعی انسانی مصالح ہیں جن کی توضیح انھوں نے ضروریات، حاجیات اور تحسینیات کے عنوان سے کی ہے۔ شاطبی کا کہنا ہے کہ شریعت میں ظن کا تعلق صرف جزئیات وفروع سے ہے، جب کہ کسی کلی اصول کا ثبوت ظنی دلائل پر منحصر نہیں۔ شریعت کی تشکیل جن قواعد کلیہ کی روشنی میں کی گئی ہے، وہ باعتبار ثبوت بھی قطعی اور یقینی ہیں اور باعتبار دلالت بھی واضح اور محکم ہیں اور شریعت کا حجت ہونا دراصل انھی کے قطعی اور محکم ہونے پر منحصر ہے۔ ظن، شریعت کی جزئیات کو تو لاحق ہو سکتا ہے، لیکن اگر کلیات کا بھی ظن کے دائرے میں آنا ممکن مانا جائے تو اس سے خود شریعت معرض شک میں آ جاتی ہے جو اس کے محفوظ ہونے کے منافی ہے، جب کہ اللہ تعالی نے اس کی حفاظت کی ضمانت دی ہے (الموافقات 1/24)۔ اسی طرح دلالت کے اعتبار سے فروع اور جزئیات میں تو تشابہ واقع ہو سکتا ہے، لیکن اصول و قواعد کے متشابہ اور غیر واضح ہونے کا مطلب یہ ہوگا کہ شریعت کا اکثر حصہ متشابہ ہو جائے اور یہ اس کے 'ہدایت' ہونے کے منافی ہے (الموافقات 3/ 79)۔
شریعت کے کلیات کا قطعی ہونا کیسے ثابت ہوتا ہے؟ اس سوال کے حوالے سے شاطبی کا منہج عام اصولیین سے مختلف ہے اور وہ اس کے لیے کسی قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ نص سے انفرادی سطح پر استدلال کا طریقہ اختیار نہیں کرتے۔ شاطبی کا نقطۂنظر یہ ہے کہ کسی بھی انفرادی دلیل شرعی سے قطعیت مستفاد کرنا ناممکن ہے، کیونکہ انفرادی دلیل یا تو ثبوت کے اعتبار سے ظنی ہوگی، جیسا کہ اخبار آحاد ہیں اور یا اگر وہ باعتبار ثبوت قطعی ہو تو بھی اس کی دلالت گوناگوں عوارض کی وجہ سے قطعی نہیں ہو سکتی۔ شاطبی نے اس ضمن میں معتزلی اور اشعری متکلمین کے اس معروف استدلال کا حوالہ دیا ہے جو وہ دلالت نصوص کی بحث میں پیش کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
وجود القطع فیھا علی الاستعمال المشھور معدوم أو فی غایة الندور أعنی فی آحاد الأدلة، فإنھا إن کانت من أخبار الآحاد فعدم إفادتھا القطع ظاھر، وإن کانت متواترة فإفادتھا القطع موقوفة علی مقدمات جمیعھا أو غالبھا ظنی، والموقوف علی الظنی لابد أن یکون ظنیا، فإنھا تتوقف علی نقل اللغات وآراء النحو وعدم الاشتراک وعدم المجاز والنقل الشرعی أو العادی والإضمار والتخصیص للعموم والتقیید للمطلق وعدم الناسخ والتقدیم والتاخیر والمعارض العقلی، وإفادة القطع مع اعتبار ھذه الأمور متعذر، وقد اعتصم من قال بوجودھا بأنھا ظنیة فی انفسھا، لکن إذا اقترنت بھا قرائن مشاھدة أو منقولة فقد تفید الیقین، وھذا کله نادر أو متعذر. (الموافقات 1/ 28)
​ "معروف معنی کے لحاظ سے انفرادی دلائل میں قطعیت کا پایا جانا معدوم یا بے حد نادر ہے، کیونکہ انفرادی دلائل اگر اخبار آحاد ہوں تو ان سے قطعیت کا ثابت نہ ہونا واضح ہے، اور اگر انفرادی دلائل متواتر ہوں تو ان سے قطعیت کا اثبات بہت سے مقدمات پر موقوف ہے جو سب کے سب یا ان میں سے بیش تر ظنی ہیں اور ظنی مقدمات پر موقوف استدلال بھی لازما ظنی ہوتا ہے۔ قطعی الثبوت دلیل سے قطعیت کا اثبات اس پر موقوف ہے کہ لغات اور نحوی مسائل نقل کیے جائیں، لفظ مشترک نہ ہو اور اس سے مجازی مفہوم مراد نہ ہو، لفظ اپنے اصل معنی سے کسی شرعی یا عرفی مفہوم کی طرف منتقل نہ ہوا ہو، کلام میں حذف اور اضمار نہ ہو، عموم کی تخصیص اور مطلق کی تقیید نہ ہوئی ہو، حکم منسوخ نہ ہو چکا ہو، کلام میں تقدیم وتاخیر نہ ہو اور اس کے معارض کوئی عقلی دلیل بھی موجود نہ ہو۔ ان تمام پہلوؤں کا لحاظ کرتے ہوئے کسی نص کی قطعی مراد طے کرنا، ناممکن ہے۔ جو حضرات اس کے قائل ہیں، انھوں نے اس نکتے کا سہارا لیا ہے کہ انفرادی دلائل فی نفسہ تو ظنی ہوتے ہیں، لیکن اگر ان کے ساتھ کچھ مشاہد یا منقول قرائن شامل ہو جائیں تو وہ یقین کا فائدہ دے سکتے ہیں، لیکن ایسی صورتیں بھی بالکل نادر یا ناپید ہیں۔"
اب اگر شرعی نصوص کی اکثریت ثبوت کے اعتبار سے بھی ظنی ہے اور انفرادی نصوص کی دلالت بھی، چاہے وہ قطعی الثبوت ہوں یا ظنی الثبوت، اپنی مراد پر قطعی نہیں ہو سکتی تو سوال یہ ہے کہ شریعت کے کلیات کی قطعیت کیسے ثابت ہوگی؟ شاطبی کا جواب یہ ہے کہ اس کا طریقہ شرعی دلائل کا استقرا ہے اور یہی وہ واحد طریقہ ہے جس کی مدد سے جزئی اور انفرادی ادلہ کے مجموعے سے قطعیت حاصل کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ شریعت میں جتنے بھی احکام قطعی اور یقینی مانے جاتے ہیں، ان کا مدار کسی جزوی نص کی قطعی دلالت پر نہیں، بلکہ ان کی قطعیت شریعت میں وارد متعدد نصوص کی مجموعی دلالت سے ثابت ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر نماز کی فرضیت کے اثبات کے لیے صرف '
اقیموا الصلوة' کی نص کافی نہیں، کیونکہ انفرادی سطح پر اس نص کو مختلف مفاہیم پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ نماز کا فرض ہونا درحقیقت ان تمام نصوص کے مجموعے سے مستفاد ہے جن میں مختلف پہلوؤں سے نماز کی تاکید وارد ہوئی ہے۔ چنانچہ کہیں نماز ادا کرنے کی مدح وتوصیف کی گئی ہے، کہیں نماز ترک کرنے والوں کی مذمت وارد ہوئی ہے، کہیں مکلفین کو ہر ہر حالت میں نماز ادا کرنے کا پابند ٹھیرایا گیا ہے، اور کہیں تارکین نماز کے ساتھ قتال کی بات بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح انسانی جان کی حرمت کا قطعی ہونا کسی ایک آیت یا حدیث پر منحصر نہیں، بلکہ یہ بات اس باب میں وارد جملہ نصوص کی دلالت سے ثابت ہوتی ہے۔ مثلا کسی نص میں انسان کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے، کسی میں قاتل کو قصاص کا سزاوار قرار دیا گیا ہے، کہیں قتل کا ذکر شرک کے ساتھ کبیرہ گناہوں کے زمرے میں کیا گیا ہے، کہیں حالت اضطرار میں جان بچانے کے لیے حرام کو مباح قرار دیا گیا ہے، اور کہیں انسانی جان کی حرمت کا احترام نہ کرنے والوں کے خلاف قتال کی ہدایت کی گئی ہے۔
ان مثالوں کی روشنی میں شاطبی واضح کرتے ہیں کہ شریعت کے تمام قطعی احکام اور اصولی قواعد اسی طرح شرعی نصوص کے استقرا سے اخذ کیے گئے ہیں اور ثبوت کے پہلو سے ان کلی قواعد اور جزئی مسائل میں یہی چیز فارق ہے کہ فروعی احکام اور مسائل کا ماخذ جزئی نصوص ہوتے ہیں اور وہ ظنی الدلالۃ کے دائرے میں رہتے ہیں، جب کہ اصول اور کلیات متفرق ومتعدد نصوص کی مجموعی دلالت سے اخذ کیے جاتے ہیں اور استقرا کے اصول کے تحت ان میں قطعیت پیدا ہو جاتی ہے (الموافقات 1 /28 - 31)۔
اخبار آحاد کی ظنیت کا مسئلہ
شاطبی کے نظریے کے مطابق شریعت بطور ایک کلی نظام کے قطعیت سے متصف ہے، جب کہ ظن صرف جزئیات اور فروع کی سطح پر پایا جاتا ہے۔ اسی نکتے کی روشنی میں شاطبی یہ کہتے ہیں کہ قرآن میں 'الذکر' کی حفاظت اور 'الدین' کی تکمیل سے متعلق جو بیانات وارد ہوئے ہیں، وہ بھی شریعت کے کلیات کے حوالے سے ہیں، کیونکہ استقرا سے واضح ہے کہ جزئیات کے متعلق یہ بات درست نہیں ہو سکتی۔ لکھتے ہیں:
أن الحفظ المضمون فی قوله تعالی "انا نحن نزلنا الذکر وانا له لحفظون" إنما المراد به حفظ أصوله الکلیة المنصوصة، وھو المراد بقوله تعالی "الیوم اکملت لکم دینکم" أیضا، لا أن المراد المسائل الجزئیة إذ لو کان کذلک لم یتخلف عن الحفظ جزئی من جزئیات الشریعة، ولیس کذلک لأنا نقطع بالجواز ویؤیدہ الوقوع لتفاوت الظنون وتطرق الاحتمالات فی النصوص الجزئیة، ووقوع الخطأ فیھا قطعا، فقد وجد الخطأ فی أخبار الآحاد وفی معانی الآیات، فدل علی أن المراد بالذکر المحفوظ ما کان منه کلیا. (الموافقات 1/ 25- 26)
"اللہ تعالی کے ارشاد 'انا نحن نزلنا الذکر وانا له لحفظون' میں جس حفاظت کی ضمانت دی گئی ہے، اس سے مرا د دین کے کلی اور منصوص اصولوں کی حفاظت ہے۔ اللہ تعالی کے ارشاد 'الیوم اکملت لکم دینکم' سے بھی یہی مراد ہے، جزئی مسائل کی حفاظت مراد نہیں، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو شریعت کا کوئی جزئی حکم حفاظت کے دائرے سے باہر نہ ہوتا، (یعنی تمام اخبار آحاد صحت اور حفاظت سے منقول ہوتیں اور ان میں کسی غلطی کا امکان نہ ہوتا)، حالاں کہ ایسا نہیں ہے، اس لیے کہ ہم قطعی طور پر اس کے امکان کو جانتے ہیں جس کی تائید عملا اس کے وقوع سے ہوتی ہے۔ (نص کو سمجھنے میں) خیالات مختلف ہوتے ہیں، جزئی نصوص میں کئی طرح کے احتمالات بھی در آتے ہیں اور اس میں غلطی کا واقع ہونا یقینی ہے، چنانچہ اخبار آحاد (کی روایت) میں اور مختلف آیات کا مفہو م سمجھنے میں (اہل علم سے) غلطیاں ہوئی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ذکر کی حفاظت سے مراد اس کے کلیات کی حفاظت ہے۔"
تاہم شاطبی یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ کلیات کے قطعی ہونے کی صورت میں جزئیات کے ظنی ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں اور اس سطح پر ظنی دلائل کی قبولیت سے شریعت کی اصولی اور کلی قطعیت مجروح نہیں ہوتی۔ چنانچہ شاطبی جمہور علماے اصول کی موافقت میں جزوی اور فروعی مسائل کے دائرے میں اخبار آحاد کے حجت ہونے کے قائل ہیں اور یہ قرار دیتے ہیں کہ اخبار آحاد کو قبول کرنا کوئی رعایتی موقف نہیں، بلکہ بذات خود ایک کلی مصلحت پر مبنی ہے۔ اس مصلحت کی رو سے قطعیت کلیات ہی میں مطلوب ہے اور جزئیات میں یہ شرط عائد نہیں کی جا سکتی۔ کلیات اور جزئیات، دونوں میں قطعیت کی شرط عائد کرنا دونوں کا درجہ یکساں کر دینے کے مترادف ہے جو شارع کو مطلوب نہیں۔ شاطبی لکھتے ہیں:
أن الشارع وضع الشریعة علی اعتبار المصالح باتفاق وتقرر فی ھذه المسائل أن المصالح المعتبرة ھی الکلیات دون الجزئیات، إذ مجاری العادات کذلک جرت الأحکام فیھا، ولولا أن الجزئیات أضعف شانا فی الاعتبار لما صح ذلک، بل لولا ذلک لم تجر الکلیات علی حکم الإطراد، کالحکم بالشھادة وقبول خبر الواحد مع وقوع الغلط والنسیان فی الآحاد، لکن الغالب الصدق، فأجریت الأحکام الکلیة علی ما ھو الغالب حفظا علی الکلیات، ولو اعتبرت الجزئیات لم یکن بینھما فرق ولامتنع الحکم إلا بما ھو معلوم ولاطرح الظن بإطلاق، ولیس کذلک. (الموافقات 1/ 108)
"شارع نے بالاتفاق شریعت کو مصالح کی رعایت سے وضع کیا ہے اور سابقہ مباحث میں یہ بات طے ہو چکی ہے کہ جو مصالح معتبر ہیں، وہ کلیات ہیں نہ کہ جزئیات، کیونکہ انسانی زندگی کے معمول وعادت میں احکام اسی طرح جاری ہوتے ہیں، اور اگر جزئیات کے معتبر ہونے کا نسبتا کم زور معیار قبول نہ کیا جائے تو ایسا کرنا درست نہیں ہو سکتا، بلکہ اگر ظن کو قبول نہ کیا جائے تو بعض کلیات بھی برقرار نہیں رہ سکتیں، مثلا گواہی پر فیصلہ کرنا اور افراد کی خبر کو قبول کرنا، حالاں کہ افراد سے غلطی اور بھول چوک ہو سکتی ہے۔ لیکن چونکہ عموما وہ سچ ہی بیان کرتے ہیں، اس لیے کلیات کو محفوظ رکھنے کے لیے احکام کلیہ کا مدار غالب اور عمومی حالات پر رکھا گیا ہے۔ اگر جزئیات کے اعتبار میں بھی یہی شرط، (یعنی یقینی ہونا) عائد کی جائے تو کلیات اور جزئیات میں کوئی فرق نہیں رہے گا اور یقینی معلومات کے علاوہ کسی بھی بنیاد پر فیصلہ کرنا ممتنع ہو جائے گا اور ظن کو کلیتا ترک کر دینا مطلوب قرار پائے گا، حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔"
البتہ شاطبی کا زاویۂ نظر اس پہلو سے جمہور اصولیین سے مختلف ہے کہ وہ فروع وجزئیات کے لیے اخبار آحاد کو علی الاطلاق ماخذ تسلیم نہیں کرتے، بلکہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا اخبار آحاد میں بیان کردہ حکم کا کسی کلی اور قطعی شرعی اصول کے تحت اور اس کے ساتھ متعلق ہونا ضروری ہے یا نہیں۔ جیسا کہ واضح کیا گیا، اصولیین کا ایک گروہ اخبار آحاد کی قبولیت کو اس شرط سے مشروط کرتا ہے کہ وہ کسی قوی تر دلیل کے معارض نہ ہوں۔ شاطبی کا سوال اس سے مختلف ہے۔ وہ سوال کو اس صورت تک محدود نہیں رکھتے جب خبر واحد کسی قوی تر دلیل کے معارض ہو۔ ان کا سوال یہ ہے کہ تعارض کے بغیر بھی، کیا اصولی طور پر یہ متعین کرنا ضروری ہے یا نہیں کہ خبر واحد میں جو حکم بیان کیا گیا ہے، وہ شریعت کے کون سے قطعی اور کلی اصول کی فرع ہے؟
شاطبی کا جواب یہ ہے کہ ظنی دلیل اگر کسی اصل قطعی کی طرف راجع ہو تو اس کا قابل قبول ہونا واضح ہے اور اخبار آحاد کی اکثریت یہی نوعیت رکھتی ہے۔ چنانچہ اخبار آحاد میں یا تو قرآن میں مذکور کسی اصولی حکم کی تفصیل بیان کی جاتی ہے، جیسے طہارت صغری وکبری، نماز اور حج وغیرہ سے متعلق سنت میں وارد تفصیلی احکام یا قرآن میں بیان کیے گئے کسی اصولی ضابطے کی فروع وجزئیات واضح کی جاتی ہیں، جیسے 'لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل' کی تفصیل کے طور پر سنت میں وارد خرید وفروخت کی مختلف صورتوں اور ربا وغیرہ کی ممانعت، اور یا شریعت کے احکام میں ملحوظ کسی قطعی اصول کی وضاحت کی جاتی ہے، جیسے 'لا ضرر ولا ضرار' اور اس نوعیت کی دیگر اخبار آحاد۔ شاطبی کے نزدیک اس نوعیت کی تمام اخبار آحاد معتبر ہیں، لیکن اگر اخبار آحاد شریعت کے کسی قطعی اور اصولی حکم کی طرف راجع نہ ہوں تو انھیں علی الاطلاق قبول کرنا درست نہیں، بلکہ ان کے متعلق غور وفکر اور تحقیق کرنا واجب ہے۔ شاطبی لکھتے ہیں:
وإن کان ظنیا فإما أن یرجع إلی أصل قطعی أو لا، فإن رجع إلی قطعی فھو معتبر أیضا، وإن لم یرجع وجب التثبت فیه ولم یصح إطلاق القول بقبوله. (الموافقات 3 / 16)
"اگر دلیل شرعی ظنی ہو تو یا تو وہ کسی اصل قطعی کی طرف راجع ہوگی یا نہیں۔ اگر اصل قطعی کی طرف راجع ہو تو وہ بھی معتبر ہے، لیکن اگر راجع نہ ہو تو اس کے متعلق تحقیق اور غور وفکر کرنا واجب ہے اور اس کے مطلقا قبول ہونے کی بات درست نہیں۔"
ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
لا بد فی کل مسألة یراد تحصیل علمھا علی أکمل الوجوه أن یلتفت إلی أصلھا فی القرآن، فإن وجدت منصوصا علی عینھا أو ذکر نوعھا أو جنسھا فذاک وإلا فمراتب النظر فیھا متعددة ... أما إذا لم یرد من المسألة الا العمل خاصة فیکفی الرجوع فیھا إلی السنة المنقولة بالآحاد کما یکفی الرجوع فیھا إلی قول المجتھد وھو أضعف، وإنما یرجع فیھا إلی أصلھا فی الکتاب لافتقاره إلی ذلک فی جعلھا أصلا یرجع إلیه أو دینا یدان اللہ به، فلا یکتفی بمجرد تلقیھا من أخبار الآحاد. (الموافقات 3/ 300)
"ہر وہ مسئلہ جس میں علم کا حصول کامل ترین طریقے پر مطلوب ہو، اس میں قرآن میں اس کی اصل کی طرف متوجہ ہونا لازم ہے۔ اگر وہ قرآن میں بعینہ منصوص مل جائے یا اس کی نوع یا جنس کا وہاں ذکر ہو تو درست، ورنہ اس کے متعلق مختلف درجوں میں غور وفکر مطلوب ہوگا۔ ... البتہ اگر کسی مسئلے میں صرف عمل مقصود ہو تو اس میں آحاد کے ذریعے سے منقول سنت کی طرف رجوع بھی کافی ہوگا، جیسا کہ مجتہد کے قول کی طرف رجوع کافی ہوتا ہے، حالاں کہ وہ اس سے بھی کم زور ہے۔ البتہ اخبار آحاد کو کتاب اللہ میں ان کی اصل کی طرف لوٹایا جائے گا، کیونکہ یہ کتاب اللہ کے بنیادی ماخذ اور اللہ کے دین کا مصدر ہونے کا تقاضا ہے، چنانچہ ایسے احکام کو صرف اخبار آحاد سے لینے پر اکتفا نہیں کی جا سکتی۔"
یہ شاطبی کا موقف ہے، تاہم وہ یہاں اجتہادی اختلاف کی گنجایش کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خبرواحد اگر کسی قطعی اصول کی طرف راجع نہ ہو، لیکن کسی قطعی اصول کے ساتھ متعارض بھی نہ ہو تو اس صورت کی یہ تعبیر بھی کی جا سکتی ہے کہ کسی اصل قطعی کے ساتھ تعلق نہ ہونا گویا اس کے اصول شرعیہ کے معارض ہونے کے ہم معنی ہے، اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کسی قطعی اصول کے ساتھ تعلق نہ ہونے کے باوجود وہ ایک ظنی دلیل کی حیثیت بہرحال رکھتی ہے اور کسی قطعی دلیل کے معارض نہ ہونے کی صورت میں ظنی دلیل بھی شریعت میں معتبر ہوتی ہے (الموافقات 3/ 23)۔
بہرحال، شاطبی کے نزدیک اخبار آحاد کا کسی اصل قطعی پر مبنی ہونا ضروری ہے اور ان کے زاویۂ نظر سے اس شرط کے التزام سے گویا شریعت کے فروع وجزئیات کا باعتبار ثبوت ظنی ہونا شریعت کے بہ حیثیت مجموعی محفوظ ہونے کے منافی نہیں رہتا، کیونکہ یہ فروع وجزئیات کسی نہ کسی اصل قطعی سے پیدا ہوئی ہیں اور اس پر مبنی ہونے کی وجہ سے یہ بھی بالواسطہ قطعی ہیں۔ یوں شریعت بہ حیثیت مجموعی اپنے اصول کلیہ اور فروع، دونوں کے لحاظ سے محفوظ ہو جاتی ہے۔ شاطبی لکھتے ہیں:
القسم الأول ھو الأصل والمعتمد والذی علیه مدار الطلب وإلیه تنتھی مقاصد الراسخین وذلک ما کان قطعیا أو راجعا إلی أصل قطعی، والشریعة المبارکة المحمدیة منزلة علی ھذا الوجه ولذلک کانت محفوظة فی أصولھا وفروعھا کما قال اللہ تعالی: "انا نحن نزلنا الذکر وانا له لحفظون"، لأنھا ترجع إلی حفظ المقاصد التی بھا یکون صلاح الدارین، وھی الضروریات والحاجیات والتحسینیات وما ھو مکمل لھا ومتمم لأطرافھا، وھی أصول الشریعة وقد قام البرھان القطعی علی اعتبارھا، وسائر الفروع مستندة إلیھا. (الموافقات 1/ 58)
"علم کی پہلی قسم اصل اور معتمد ہے اور اسی پر طلب علم کا مدار ہے اور علم میں پختگی رکھنے والوں کے مقاصد اسی کی طرف منتہی ہوتے ہیں، اور یہ وہ ہے جو خود قطعی ہو یا کسی اصل قطعی کی طرف راجع ہو۔ بابرکت شریعت محمدیہ اسی درجے کا علم ہے اور اسی لیے وہ اپنے اصول اور فروع، دونوں میں محفوظ ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے: 'انا نحن نزلنا الذکر وانا له لحفظون'۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ شریعت ان مقاصد کی حفاظت پر مبنی ہے جو دارین کی کامیابی کا ذریعہ ہیں، یعنی ضروریات، حاجیات اور تحسینیات اور ان کی تکمیل واتمام کرنے والے احکام۔ یہی شریعت کے اصول ہیں اور ان کے معتبر ہونے پر برہان قطعی قائم ہو چکی ہے، جب کہ تمام فروع انھی اصولوں پر مبنی ہیں۔"
یہ ساری بحث تو اس صورت میں ہے جب ظنی دلیل کسی اصل قطعی کے معارض نہ ہو۔ اگر ظنی دلیل اور اصل قطعی کے مابین تعارض بھی پایا جائے تو شاطبی کے نزدیک اس کی دو مزید صورتیں ممکن ہیں: ایک یہ کہ جو ظنی دلیل کسی قطعی دلیل کے معارض ہے، کیا وہ کسی دوسرے قطعی شرعی اصول کے تحت آتی ہے؟ اگر زیربحث ظنی دلیل بذات خود کسی قطعی شرعی اصول کی فرع ہو تو اسے رد نہیں کیا جائے گا، کیونکہ اس کی تائید میں خود شریعت کا ایک دوسرا قطعی اصول موجود ہے، اگرچہ اس صورت میں اجتہادی اختلاف کی گنجایش موجود ہوتی ہے۔ مثال کے طو رپر سیدہ عائشہ نے اسراء کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے، اللہ تعالی کو دیکھنے کے قول کو رد کر دیا، کیونکہ قرآن مجید میں ہے کہ انسانی نگاہیں اللہ تعالی کی ذات کو نہیں پا سکتیں، تاہم دیگر اہل علم نے اس کو اس بنیاد پر قبول کیا کہ خود شریعت کے دیگر قطعی دلائل سے آخرت میں اللہ تعالی کی رویت ثابت ہے اور اس کی روشنی میں دنیا میں بھی اس کا امکان ثابت ہوتا ہے (الموافقات 3/19)۔ یوں یہ ظنی اور قطعی دلیل کے تعارض کی نہیں، بلکہ دو قطعی دلیلوں کے تعارض کی صورت بن جاتی ہے۔
دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اصل قطعی کے معارض ظنی دلیل بذات خود کسی دوسری اصل قطعی سے موید نہ ہو۔ ایسی صورت میں اسے رد کرنا واجب ہے۔ شاطبی اس کی مثال کے طور پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور امام مالک کی آرا کا حوالہ دیتے ہیں جنھوں نے بعض احادیث کو اس وجہ سے رد کر دیا کہ وہ قرآن مجید کی آیت 'لا تزر وازرة وزر اخری. وان لیس للانسان الا ما سعی'، "کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی اور انسان کے کام وہی عمل آئے گا جو اس نے خود کیا ہو" کے خلاف ہیں۔ چنانچہ سیدہ عائشہ نے اس بنیاد پر سیدنا عمر کی روایت کردہ اس حدیث کو قبول نہیں کیا کہ مرنے والے پر اگر اس کے اہل خانہ آہ وبکا کریں تو اس کی وجہ سے مردے کو عذاب دیا جاتا ہے۔ اسی طرح امام مالک نے اسی قاعدے کے تحت اس حدیث کو قبول نہیں کیا جس میں کہا گیا ہے کہ اگر مرنے والے کے ذمے روزے ہوں تو اس کے وارث کو اس کی طرف سے روزے قضا کرنے چاہییں (الموافقات 3/19، 21)۔ شاطبی کے نقطۂنظر سے یہ خبر واحد کے ایک انفرادی آیت کے ساتھ تعارض کی نہیں، بلکہ شریعت کے ایک قطعی اور کلی اصول کے ساتھ تعارض کی مثال ہے جو اس خاص آیت پر منحصر نہیں، بلکہ استقرا کے طریقے پر بے شمار شرعی دلائل سے ماخوذ ہے (الموافقات 2/ 195)۔
اس بحث کا بنیادی نکتہ شاطبی نے ان الفاظ میں واضح کیا ہے کہ:
وھذا القسم علی ضربین: أحدھما أن تکون مخالفته للأصل قطعیة فلا بد من ردہ. والآخر أن تکون ظنیة، إما بأن یتطرق الظن من جھة الدلیل الظنی وإما من جھة کون الأصل لم یتحقق کونه قطعیا، وفی ھذا الموضع مجال للمجتھدین ولکن الثابت فی الجملة أن مخالفة الظنی لأصل قطعی یسقط اعتبار الظنی علی الإطلاق وھو مما لا یختلف فیه. (الموافقات 3/ 17- 18)
"ظنی دلیل اگر قطعی دلیل کے مخالف ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ اس کا اصل کے مخالف ہونا قطعی ہو، اس صورت میں اس کو رد کرنا لازم ہے۔ دوسری یہ کہ اس کا اصل کے خلاف ہونا ظنی ہو، یاتو اس لیے کہ اصل کے ساتھ اس کی مخالفت ظنی ہے اور یا اس لیے کہ اصل کا قطعی ہونا متحقق نہیں ہوا۔ اس دوسری صورت میں مجتہدین کے لیے اختلاف کی گنجایش ہے، لیکن اصولی طور پر یہ بات طے شدہ ہے کہ ظنی کا قطعی کے مخالف ہونا ظنی کو ساقط الاعتبار کر دیتا ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔"
تشریع میں سنت، قرآن کی فرع ہے
تشریعی اصولوں اور مقاصد ومصالح نیز دلائل شرعیہ کی قطعیت وظنیت کی اس بحث کے تناظر میں شاطبی نے قرآن وسنت کے باہمی تعلق کو بھی موضوع بنایا ہے۔ شاطبی کتاب اور سنت کے باہمی تعلق کو اصل اور فرع کے طور پر متعین کرتے ہیں اور یہ قرار دیتے ہیں کہ تشریع میں اصل اور بنیادی کردار قرآن مجیدکا ہے، جب کہ سنت، کتاب اللہ کے تابع اور اس پر مبنی ہے اور اس کا وظیفہ قرآن کی توضیح وتبیین اور اس کی تفریع وتفصیل ہے۔
یہ تصور اصولی طور پر جمہور علماے اصول کا متفق علیہ تصور ہے۔ اس باب میں استثنائی موقف غالبا صرف ابن حزم کا ہے جو قرآن اور سنت، دونوں کو بالکل یکساں اور مساوی نوعیت کا ماخذ قرار دیتے ہیں اور ان کے نزدیک دونوں میں فرق صرف اس ظاہری صورت کے لحاظ سے ہے جو وحی کے ابلاغ کے لیے اختیار کی گئی۔ قرآن کے اصل اور سنت کے تابع ہونے کے تصور کو واضح انداز میں سب سے پہلے امام شافعی نے پیش کیا اور اس کی توضیح یوں کی ہے کہ سنت میں قرآن سے زاید جو احکام وارد ہیں، وہ یا تو کتاب اللہ سے ہی مستنبط ہیں اور یا اگر مستقل وحی یا اجتہاد پر مبنی ہیں تو بھی کتاب اللہ ہی میں مذکور کسی اصولی اور بنیادی حکم کی تفصیلات وفروع بیان کرتے ہیں۔ جصاص اور دیگر اصولیین نے اس حوالے سے یہ نکتہ بھی شامل کیا کہ قرآن کے علاوہ جن دیگر مآخذ مثلا سنت، اجماع اور قیاس وغیرہ سے شرعی احکام اخذ کیے جاتے ہیں، ان کا ماخذ ہونا بھی بنیادی طور پر قرآن مجید سے ثابت ہوا ہے۔ گویا قرآن نے بہت سے امور میں متعین اور جزئی احکام بیان کرنے کے علاوہ تشریع کے ان دیگر مآخذ اور اصولوں کی بھی تعیین کر دی ہے جن سے مزید احکام اخذ کیے جا سکتے ہیں (احکام القرآن 3/ 189- 190)۔
شاطبی بھی اس بحث میں جمہور اصولیین سے اتفاق رکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ سنت میں جو بھی حکم بیان کیا جاتا ہے، وہ اصولا قرآن ہی کے حکم میں مضمر ہوتا ہے، بلکہ شاطبی کو اصرار ہے کہ سنت میں کوئی حکم ایسا نہیں جو قرآن سے اس معنی میں زاید ہو کہ قرآن کا حکم کسی بھی مفہوم میں اس کو متضمن نہ ہو اور سنت ایک بالکل نئے اور مستقل بالذات حکم کے طور پر اس کا اثبات کرتی ہو۔ لکھتے ہیں:
السنة راجعة فی معناھا إلی الکتاب، فھی تفصیل مجمله، وبیان مشکله وبسط مختصره، وذلک لأنھا بیان له وھو الذی دل علیه قوله تعالی "وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیهم"، فلا تجد فی السنة أمرا إلا والقرآن قد دل علی معناه دلالة إجمالیة أو تفصیلیة، وأیضا فکل ما دل علی أن القرآن ھو کلیة الشریعة وینبوع لھا فھو دلیل علی ذلک ... ولأن اللہ جعل القرآن تبیانا لکل شیء فیلزم من ذلک أن تکون السنة حاصلة فیه فی الجملة، لأن الأمر والنھی أول ما فی الکتاب، ومثله قوله "ما فرطنا فی الکتب من شیء" وقوله "الیوم اکملت لکم دینکم" وھو یرید بإنزال القرآن، فالسنة إذا فی محصول الأمر بیان لما فیه وذلک معنی کونھا راجعة إلیه. (الموافقات 4/ 12- 13)
"سنت اپنے معنی کے اعتبار سے کتاب کی طرف راجع ہے۔ وہ اس کے مجمل کی تفصیل کرتی، باعث اشتباہ امور کی وضاحت کرتی اور مختصر احکام کو کھولتی ہے۔ یہ اس لیے کہ وہ قرآن کا بیان ہے اور اسی پر اللہ تعالی کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے:
مزید لکھتے ہیں:
وقوله فی السوال: "فلا بد أن یکون زائدا علیه" مسلم، ولکن ھذا الزائد ھل ھو زیادة الشرح علی المشروح إذ کان للشرح بیان لیس فی المشروح وإلا لم یکن شرحا أم ھو زیادة معنی آخر لا یوجد فی الکتاب؟ ھذا محل النزاع. (الموافقات 4 / 17- 18)
"معترض کا یہ کہنا کہ سنت کا قرآن سے زاید ہونا لازم ہے، مسلم ہے، لیکن اس زاید کی نوعیت کیا ایسی ہے جیسے شرح، مشروح پر زاید ہوتی ہے؟ کیونکہ شرح میں بہرحال ایسی توضیح ہوتی ہے جو مشروح میں نہیں ہوتی، ورنہ اسے شرح ہی نہ کہا جائے۔ یا زاید ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سنت کوئی ایسی بات بیان کرتی ہے جو کتاب میں موجود ہی نہیں؟ ہمارا اختلاف اس دوسری بات میں ہے۔"
شاطبی نے اس نکتے کو جمہور اصولیین کی بہ نسبت کہیں زیادہ وسعت اور تحقیق وتدقیق کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کے فریم ورک میں سنت کے، کتاب اللہ پر مبنی اور اس کی طرف راجع ہونے کے جو پہلو نمایاں ہو کر سامنے آتے ہیں، ذیل میں ان کی کچھ تفصیل پیش کی جائے گی۔
] باقی [
رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اگر ان کو اور ان کے ساتھیوں کو کسی خطۂ ارض میں اقتدار حاصل ہو جائے تو خدا کا فیصلہ ہے کہ ان کے منکرین کے لیے دو ہی صورتیں ہیں: ان میں اگر مشرکین ہوں گے تو قتل کر دیے جائیں گے اور کسی نہ کسی درجے میں توحید کے ماننے والے ہوں گے تو محکوم بنا لیے جائیں گے۔ بقرہ، انفال اور توبہ میں* اللہ تعالی نے جس قتال کی ہدایت فرمائی اور مشرکین عرب کے جس قتل عام کا حکم دیا ہے، وہ اسی فیصلے کا نفاذ ہے۔ اس کا شریعت اور اس کے احکام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چنانچہ اپنی کتاب "میزان" میں ہم نے لکھا ہے:
"... یہ محض قتال نہ تھا، بلکہ اللہ تعالی کا عذاب تھا جو اتمام حجت کے بعد سنت الہی کے عین مطابق اور فیصلۂ خداوندی کی حیثیت سے پہلے عرب کے مشرکین اور یہود و نصاری پر اور اس کے بعد عرب سے باہر کی قوموں پر نازل کیا گیا۔ لہذا یہ بالکل قطعی ہے کہ منکرین حق کے خلاف جنگ اور اس کے نتیجے میں مفتوحین پر جزیہ عائد کر کے انھیں محکوم اور زیردست بنا کر رکھنے کا حق اس کے بعد ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے۔ قیامت تک کوئی شخص اب نہ دنیا کی کسی قوم پر اس مقصد سے حملہ کر سکتا ہے اور نہ کسی مفتوح کو محکوم بنا کر اس پر جزیہ عائد کرنے کی جسارت کر سکتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے قتال کی ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے اور وہ ظلم و عدوان کے خلاف جنگ ہے۔ اللہ کی راہ میں قتال اب یہی ہے۔ اس کے سوا کسی مقصد کے لیے بھی دین کے نام پر جنگ نہیں کی جا سکتی۔" (599)
ابراہیم علیہ السلام کی ذریت کے بارے میں بھی خدا کا فیصلہ ہے کہ وہ اگر حق پر قائم ہوں اور اسے بے کم و کاست اور پوری قطعیت کے ساتھ دنیا کی سب قوموں تک پہنچاتے رہیں تو ان کی دعوت کے منکرین پر انھیں غلبہ حاصل ہوگا، لیکن حق سے انحراف کریں تو انھی کے ذریعے سے ذلت اور محکومی کے عذاب میں مبتلا کر دیے جائیں گے۔ یہ وعدہ بنی اسرائیل اور بنی اسمعیل، دونوں کے ساتھ ہے۔ قرآن میں صراحت ہے کہ دین کی شہادت کے لیے بنی اسمعیل بھی اسی طرح منتخب کیے گئے، جس طرح ان سے پہلے بنی اسرائیل منتخب کیے گئے تھے**۔ لہذا جو وعدے بنی اسرائیل کے لیے تورات میں مذکور ہیں اور قرآن نے جگہ جگہ جن کا حوالہ دیا ہے***، وہ ان کے متعلق بھی آپ سے آپ تسلیم کیے جائیں گے۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ اس کے لیے خود کوئی اقدام کر سکتے اور دنیا کی قوموں پر اس مقصد کے لیے حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ ہرگز نہیں، اس کا حق نہ انھیں تورات میں دیا گیا ہے نہ قرآن میں۔ اس وعدے کا ظہور تکوینی طور پر ہوتا ہے اور اس کے اسباب بھی اسی طریقے سے پیدا کیے جاتے ہیں۔ ان کا کام صرف یہ ہے کہ خدا کے سب حکموں پر عمل کریں او ر اپنی استطاعت کی حد تک شہاد ت کی وہ ذمہ داری اخلاص او ردیانت داری کے ساتھ پوری کرتے رہیں جس کے لیے خدا نے انھیں منتخب فرمایا ہے۔
اس فیصلے کی ایک فرع یہ ہے کہ فلسطین اوراس کے گردو نواح میں کنعان کا علاقہ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کے لیے اور جزیر نماے عرب کا علاقہ بنی اسمعیل کے لیے خاص کر دیا ہے تاکہ دنیا کی سب قومیں ان کے ساتھ اس کی معیت کا مشاہدہ کریں او رہدایت پائیں۔ چنانچہ بنی اسرائیل کو اسی بنا پر حکم دیا گیا کہ اپنی میراث کے اس علاقے کو اس کے باشندو ں سے خالی کرالیں، اس میں کسی کافرو مشرک کو زندہ نہ چھوڑیں اور نہ اس کی سرحدوں سے متصل کسی علاقے میں کافروں اور مشرکوں کی کوئی حکومت قائم رہنے دیں، الا یہ کہ وہ ان کے باج گزار بن جائیں۔ وہ اس سے انکار کریں تو سزا کے طور پر ان کے مرد قتل کر دیے جائیں او رعورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے۔ استثنا کے باب20 میں یہ حکم پوری تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ سلیمان علیہ السلام نے ملکۂ سبا کو اسی کے تحت تسلیم و انقیاد کے لیے مجبور کیا تھا۔ فتح مکہ کے بعد جزیرنماے عرب میں مشرکین کے تمام معابد اسی کے تحت ختم کیے گئے۔ 'لایجتمع دینان فی جزیرۃ العرب****' کی ہدایت بھی اسی کے تحت ہے۔ چنانچہ سرزمین عرب میں اسی بنا پر نہ غیر اللہ کی عبادت کے لیے کوئی معبد تعمیر کیا جا سکتا ہے اور نہ کسی کافر و مشرک کو رہنے بسنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ یہ تمام احکام توحید کے اسی مرکز سے متعلق ہیں۔ ان کا دنیا کے کسی دوسرے علاقے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
یہ خدا کے منصوص فیصلے ہیں اور الہامی صحائف میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ تورات میں بھی انھیں پوری تفصیل کے ساتھ واضح کیا گیا ہے اور قرآن میں بھی۔ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ دور حاضر میں ان کے بعض جلیل القدر مفکرین ان فیصلوں کی صحیح نوعیت کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ اسلام کی سیاسی تعبیر اسی غلط فہمی کے بطن سے پیدا ہوئی ہے، جس کا نتیجہ اس تعبیر کے زیر اثر اٹھنے والی جہاد و قتال کی تحریکوں کی صورت میں پوری امت مسلمہ بھگت رہی ہے۔ اس صورت حال کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ خدا کے ان فیصلوں کو عالمی سطح پر سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی جائے تاکہ کسی انتہا پسند کے لیے ان کی تعمیم کے ذریعے سے کوئی فتنہ پیدا کرنے کی گنجایش نہ رہے۔
*البقرہ2: 190۔ 194۔ الانفال8: 38۔ 40۔ التوبہ9: 29، 3۔ 5۔
**الحج22: 78۔
*** استثنا 28: 1۔ 25۔ البقرہ2: 40۔ بنی اسرائیل17: 8۔
**** الموطا، رقم2607۔ "جزیر نماے عرب میں دو دین جمع نہیں ہو سکتے۔"
قدوس سید
آئی بی سی اردو ،لاہور
مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے آفتاب پر 1992 میں لاہور میں ایک خاتون سمیت تین افراد کو قتل کرنے کا الزام تھا۔لاہور میں جیل کے حکام کا کہنا ہے کہ آفتاب بہادر کو بدھ کو علی الصبح تختۂ دار پر لٹکایا گیا۔
جس وقت انھیں سزائے موت سنائی گئی تھی، ان کی عمر 15 برس تھی، تاہم اس وقت تک قانونا اس عمر میں موت کی سزا دی جا سکتی تھی۔ سنہ 2000 میں پاکستان میں سزائے موت دینے کے لیے کم از کم عمر 18 برس کر دی گئی تھی۔
حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ریپریو نے آفتاب بہادر کو سزائے موت دیے جانے کی مذمت کی ہے۔ تنظیم کی ڈائریکٹر مایا فوا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ 'یہ پاکستان کے نظام انصاف کے لیے ایک شرمناک دن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آفتاب مسیح کے ساتھ ہر معاملے میں ناانصافی ہوئی۔ ریپریو کا کہنا ہے کہ آفتاب کو دو عینی شاہدین کی گواہی پر موت کی سزا سنائی گئی لیکن وہ دونوں گواہان بعد میں اپنے بیان سے مکر گئے تھے اور کہا تھا کہ ان سے یہ بیان زبردستی دلوایا گیا تھا۔ ریپریو کے اس بیان کی پاکستان کی اہم شخصیات نے مذمت کی ہے اور اسے ملکی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے ۔
پاکستان میں پھانسی کی سزاؤں پر عائد غیر اعلانیہ پابندی دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر طالبان کے حملے کے بعد ہٹا لی گئی تھی۔ابتدائی طور پر صرف دہشت گردی کے مقدمات میں سزائے موت پانے والوں کی سزا پر عمل درآمد شروع ہوا تھا تاہم بعدازاں اس حکم کو تمام مقدمات میں یہ سزا پانے والوں پر لاگو کر دیا گیا تھا۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن کے مطابق ملک میں سال کے پہلے پانچ ماہ میں 135 افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ کمیشن نے یہ بھی کہا ہے کہ جس رفتار سے پاکستان میں پھانسی کی سزاؤں پر عمل ہو رہا ہے جلد ہی پاکستان ان ملکوں میں شامل ہو جائے گا جو لوگوں کی جان لینے کے سب سے زیادہ درپے ہیں۔
نوشہرہ میں قائم ملک کے پہلے پولیس بم ڈسپوزل سکول میں پانچ سوسے زائد اہلکاروں کی تربیت مکمل ہو چکی ہے حکام کے مطابق دہشگردی کے ستر فیصد واقعات میں بارودی مواد کا ہی استعمال ہوتا ہے
نوشہرہ میں قائم سکول آف ایکسپلوزو ہینڈلنگ۔۔۔۔ جہاں بارود سے کھیلنے اوردہشت گردوں کے عزائم ناکام بنانے کی تربیت دی جاتی ہے ملک میں اپنی نوعیت کے پہلے سکول میں آٹھ ماہ کے دوران پانچ سے زائد اہلکارتربیتی کورس مکمل کر چکے ہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بم ڈسپوزل یونٹ کے پندرہ اہلکارجام شہادت نوش کر چکے ہیں یہ مختصر سکوارڈ جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ پہلے یونٹ اور اب سکول میں ڈھل چکا ہے۔۔۔ بارودی مواد کی نشاندہی اور اسے ناکارہ بنانے کے ساتھ ساتھ بی ڈی یو اب تفتیش کے اموربھی سرانجام دے رہا ہے ۔۔۔۔ حالیہ قائم اس سکول میں تربیت مکمل کرنے والے ہلکاروں نے اپنی جانوں کے ساتھ ساتھ عوام کی جانیں محفوظ بنانے کا عزم ظاہرکیا
پاکستان میں بلیک بیری سروس کو مزید ایک ماہ کی مہلت مل گئی۔ پی ٹی اے کی ہدایت پر بلیک بیری کی ای میل اور میسیج سروس یکم دسمبر سے ختم ہونی تھیں، اب 31 دسمبر کو ختم ہوں گی۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ پاکستان سے جانے کا دکھ ہے مگر صارفین کی تمام معلومات فراہم کرنے کی درخواست نہیں مان سکتے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق بلیک بیری 2015ء کے آخر میں پاکستان میں اپنا کام مکمل طور پر بند کر دے گی۔ پاکستانی حکومت کی جانب سے بلیک بیری صارفین کےتمام میسج اور ای میلوں کی مانیٹرنگ کی درخواست پر کمپنی نے یہ فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان کی حکومت نے دہشت گردی کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر بلیک بیری کمپنی کو ہدایت کی تھی کہ بالعموم تمام صارفین کا ڈیٹا اسے فراہم کیا جائے۔
بلیک بیری حکام کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گردی اور فرقہ واریت کے خلاف ہر قسم کے تعاون کو تیار ہیں، لیکن ان سے منتخب صارفین کا نہیں بلکہ تمام صارفین کا ڈیٹا طلب کیا جا رہا ہے جو وہ دنیا کے کسی بھی ملک میں فراہم نہیں کر رہے۔
امریکا میں بھی پہلے این ایس اے تمام صارفین کا ڈیٹا اکھٹا کرتی تھی مگر عدالتی حکم کے بعد اب صرف منتخب افراد کا ڈیٹا لیا جا رہا ہے
بلا کا رش تھا۔ ٹریفک اندھادھند تھی اور بے ہنگم گاڑیوں کا دھواں' پیں پیں کی آوازیں' چلتی رکتی بسوں کے کنڈکٹروں کی مسافروں کو بلاتی صدائیں' پیدل چلنے والوں کا ازدحام' سب کچھ بھیڑ میں اضافہ کرنے والا تھا۔ گاڑیاں انچوںکے حساب سے رینگ رہی تھیں۔ ایسے میں زور کی دھماکہ نما آواز آئی۔ ہماری گاڑی کو پچھلی گاڑی نے ٹکر ماری تھی۔ میں نے گاڑی ایک طرف کرلی۔ پیچھے والی گاڑی بھی ایک طرف ہو کر رک گئی۔ جتنی دیر میں' میں گاڑی سے نکل کر چند قدم پیچھے کی طرف چلا اور جتنی دیر میں پچھلی گاڑی کا ڈرائیور باہر نکل کر چند قدم آگے کی طرف چلا کم از کم چھ افراد جمع ہو چکے تھے۔ ابھی میں نے اور پچھلی گاڑی والے نے آپس میں کوئی بات ہی نہیں کی تھی کہ یہ تعداد چھ سے آٹھ اور پھر بارہ ہو گئی۔ دو سفید ریش اشخاص بار بار کہے جا رہےتھے: "چھوڑیں جی' جانے دیں"۔ ایک نوجوان بلند آواز سے بولا: "غلطی پچھلی گاڑی کی ہے"۔ ایک اور آواز آئی: "اگلی گاڑی والے نے بھی تو کچھ کیا ہی ہوگا نا"۔ خوش قسمی سے پچھلی گاڑی والا شریف آدمی تھا۔ اس نے اپنا کارڈ مجھے دیا اور کہا کہ غلطی اس کی تھی۔ گاڑی کی مرمت پر جتنا خرچ آئے گا' وہ ادا کرے گا۔ قیامت کے ہنگامے میں ایسا شریف انسان نعمت سے کم نہ تھا۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور آ کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ لیکن جمع ہو جانے والے آدمیوں کے (جن کی تعداد اب بیس سے کیا کم ہوگی) چہروں پر جو ناامیدی تھی' دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ جس تماشے کی امید میں وہ دوڑ کر آئے تھے' ہوا ہی نہیں! ہم نے ایک دوسرے پر الزامات لگائے' نہ چیخے' نہ گالیاں دیں' نہ گریباں پکڑے' نہ پولیس آئی نہ ٹریفک بلاک ہوئی!
یہ وہ منظر ہے جو ہم اور آپ ہر روز دیکھتے ہیں' جیسے ہی دو گاڑیاں ٹکراتی ہیں۔ جیسے ہی دو افراد میں توتو میں میں کی ابتدا ہوتی ہے' ایک "سرگرمی" شروع ہو جاتی ہے۔ کوئی ویگن چلا رہا ہے یا کار' گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی کرتا ہے اور پھر بھاگ کر جائے واردات پر پہنچتا ہے۔ نوٹ کرنے کی خصوصی بات یہ ہے کہ بھاگ کر پہنچ جانے کے بعد اس نے وہاں صرف کھڑا ہونا ہے۔ نزدیک سے نزدیک کھڑا ہونے کی کوشش کرنی ہے اور پھر دیکھنا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ اگر آپ دو گھنٹوں کے بعد بھی وہاں سے گزریں گے تو منظر یہی ہوگا۔
اس صورت حال کی وجہ کیا ہے؟ فراغت اور صرف فراغت! فراغت ایک جامع لفظ ہے جس کا گھیرا وسیع ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان لوگوں کے پاس کام کوئی نہیں۔ اس کا مطلب بے روزگاری بھی نہیں! اس کا مطلب یہ رویہ ہے۔ ایسا رویہ جس میں ڈیوٹی کا احساس ہے نہ ذمہ داری کا۔ جس شخص نے حادثہ یا لڑائی دیکھ کر ویگن یا کار ایک طرف کھڑی کر دی اور دوڑ کر جائے حادثہ پر پہنچا' ایسا نہیں کہ وہ بے کار ہے۔ اس نے ایک جگہ پہنچنا ہے' مگر اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ وہ تاخیر کا مرتکب ہو رہا ہے اور کہیں کوئی اس کا انتظار کر رہا ہے۔ وہ جتنی دیر چاہے گا' "تماشے" سے لطف اندوز ہوگا۔ پھر وہ اپنی مرضی سے' جب بھی دل اکتا جائے گا' گاڑی میں بیٹھ کر منزل کا رخ کرے گا۔ دو یا تین گھنٹے کی تاخیر ہمارے ملک میں کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں! انتظار کرنے والے پوچھیں گے نہ تاخیر سے پہنچنے والے کو کچھ بتانے کی یا معذرت کرنے کی ضرورت ہے! یہی فراغت ہے!
ہمارے پاس فراغت ہی فراغت ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم ایک فارغ قوم ہیں! سب کچھ اپنی رفتار سے چل رہا ہے۔ فکر کرنے کی ضرورت ہے نہ کسی کی پروا! دکان نو بجے کھلنی ہے تو دس بجے کھلے گی۔ دفتر آٹھ بجے لگنا ہے تو ساڑھے نو پہنچیں گے۔ اور تو اور پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس وقت پر نہیں شروع ہو سکتے۔ ڈاک خانے میں جس بابو نے آپ کے ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید کرنی ہے' وہ کھڑکی پر ہاتھ سے لکھا ہوا اعلان لٹکا گیا ہے: "وقفہ نماز ڈیڑھ بجے"۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ وقفہ جو ڈیڑھ بجے شروع ہوا' ختم کب ہوگا۔ تین بجنے کو ہیں' کھڑکی کے سامنے لوگ جمع ہیں' جب بابو آ کر کھڑکی کھولے گا' اس سے کوئی کچھ نہیں پوچھے گا۔ اگر کسی سر پھرے نے پوچھ بھی لیا تو اسی کے ساتھ کھڑا شخص اسے سمجھانے لگے گا کہ چھوڑو بھائی! کام کرائو اور چلتے بنو!