text
stringlengths
0
11.5k
فراغت کا مضحکہ خیز مظاہرہ شادیوں کی تقاریب میں آئے دن کیا جاتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ مظاہرے مضحکہ خیز ہونے کے ساتھ ساتھ دردناک بھی ہیں۔ ولیمے کی تقریب ہے۔ بہترین ملبوسات زیب تن کیے' خوشبوئوں میں لپٹے معزز مہمان چار گھنٹوں سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ کیوں؟ ایک پلیٹ چاول' آدھے نان اور گوشت کے چند ٹکڑوں کی خاطر! دیر کس بات کی ہے؟ لڑکی والے ابھی نہیں پہنچے' پہنچیں گے تو کھانا شروع ہوگا! لڑکی والے کب پہنچیں گے؟ اس آسمان کے نیچے اور اس زمین کے اوپر کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کب پہنچیں گے! وقت کے تعین کا کوئی عمل دخل اس سارے کھیل میں کہیں ہے ہی نہیں!
سرکاری تقاریب کا بھی یہی عالم ہے۔ کہیں وزیر صاحب کا انتظار ہو رہا ہے تو کہیں وزیراعظم کا اور کہیں صدر صاحب کا! چند دن پہلے کراچی کی ایک تقریب میں سینیٹ کے چیئرمین تاخیر سے پہنچے۔ اس وقت ایک نوجوان تقریر کر رہا تھا' اس کی تقریر میں آمد اور استقبال کی وجہ سے رخنہ ڈالا گیا تو اس نے احتجاج بھی کیا! لیکن ایسے احتجاج کرنے والے اس معاشرے میں پاگل کہلاتے ہیں اور انہیں اس پاگل پن کی باقاعدہ سزا دی جاتی ہے!
کسی دفتر چلے جائیے۔ جاڑا ہے تو ملازمین گروہوں میں کھڑے دھوپ سینکتے پائے جائیں گے' گرمی کا موسم ہو تو درختوں کے سائے میں کھڑے ہوں گے۔ کینٹین بھری ہوئی اور ڈیوٹی والے کمرے خالی ہوں گے۔ کالجوں میں اساتذہ کی اکثریت کے نزدیک پیریڈ نہ پڑھانا کوئی بڑی بات نہیں! ہسپتالوں میں مریض گھنٹوں نہیں پہروں انتظار کرتے ہیں' ڈاکٹر کے بارے میں اس کے نائب قاصد سمیت کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا! وفاقی دارالحکومت میں ایک اہم وزارت کے انچارج وزیر صاحب صرف بدھ کے دن دفتر تشریف لاتے ہیں! جہاں پوری قوم فارغ ہو' وہاں یہ کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں! یہ کوئی سنگاپور یا ہالینڈ تھوڑی ہی ہے کہ وزیراعظم سمیت سارے وزرا مقررہ وقت پر دفتروں میں پہنچیں۔ پورا ملک قبائلی طرز پر چل رہا ہے۔ اکیسویں صدی میں ہوتے ہوئے بھی یہ ملک نویں دسویں صدی میں زندہ ہے۔ ہر شخص قبیلے کا سردار ہے۔ وزیر ہے یا افسر' دکاندار ہے یا اہلکار' ٹرین چلانے والا ہے یا جہاز اڑانے والا' کالج کا استاد ہے یا منتخب ایوان کا رکن! اس پر کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا! بالکل اس طرح جیسے قبائلی سردار پر کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا! وہ چاہے تو دربار لگائے' چاہے تو شکار کو نکل جائے' چاہے تو حویلی سے باہر ہی نہ آئے!
قومیں منصوبہ بندی ڈویژن یا آئی ایم ایف کے عطا کردہ اعدادوشمار سے ترقی نہیں پاتیں' نہ سر بفلک عمارتوں' ایئرپورٹوں اور ٹرینوں اور بسوں کے منصوبوں سے! ہمارے وزیراعظم ایک نہیں' چار جہاز لے کر ہزاروں ساتھیوں سمیت امریکہ کا دورہ کر لیں' ہم پھر بھی ترقی یافتہ کہلائیں گے نہ مہذب! مشرق وسطی کے بادشاہوں کے جہازوں میں سونے چاندی کے پلنگ نصب ہیں' پھر بھی ان کے ملک ترقی یافتہ ملکوں میں شمار نہیں ہوتے' اس لیے کہ ترقی کا دارومدار رویے پر ہے۔ خواہ وہ دکاندار کا رویہ ہے یا دفتری کلرک کا یا وزیر کا یا حکمران اعلی کا! دکاندار یا دفتری ملازم حکومت سے کیا شکوہ کر سکتا ہے! کیا وہ خود اپنے دائرے کا کام کر رہا ہے؟
شفیق الرحمن نے ایک جگہ ایک واقعاتی لطیفہ لکھا ہے۔ ایک شخص مصروف شاہراہ کے کنارے کھڑا ہو گیا اور اوپر بالکونی کو دیکھنے لگ گیا۔ تھوڑی دیر میں ایک اور صاحب بھی اس کے ساتھ آ کھڑے ہوئے' پھر ایک اور' پھر ایک اور۔ تھوڑی دیر میں اچھا خاصا مجمع اوپر بالکونی کو دیکھ رہا تھا۔ بالکونی میں کھڑے صاحب نیچے دیکھ رہےتھے کہ کیا بات ہے؟ اصل بات یہ تھی کہ سب فارغ تھے!
ہم ایک فارغ قوم ہیں۔ مکمل طور پر فارغ۔ سب کھڑے ہیں اور اوپر' بالکونی کو دیکھے جا رہے ہیں!
بشکریہ:روزنامہ دنیا
اسلام آباد.......خیبر پختونخوا کے منتخب بلدیاتی نمائندے 9 ماہ سے اختیارات نہ ملنے پر پارٹی چیئرمین عمران خان کے گھر کے سامنے سراپا احتجاج بن گئے، مصر کے سفیر عمران خان سے ملنے آئے تو ان کا بھی راستہ روک لیا۔
پارٹی ترجمان نعیم الحق نے مظاہرین کی منت سماجت کی ۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ منتخب ہوئے 9 ماہ ہو چکے، اختیارات مل رہے ہیں نہ مراعات۔وزیر اعلی پرویز خٹک نے دو ماہ تک ملاقات کے لیے انتظار کرایا ، ایک ہفتہ پہلے ملے تو یقین دہانی کرادی مگر عمل کچھ نہیں ہوا،عمران خان کے گھر کے سامنے احتجاج کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا ،یہ کہنا تھا مردان، صوابی اور چارسدہ سے منتخب بلدیاتی نمائندوں کا ۔
اس دوران مصر کے سفیر سید محمد السید عمران خان سے ملنے آئے تو احتجاجی مظاہرین نے ان کا راستہ بھی روک لیا، مصری سفیر تقریبا 15 منٹ گاڑی میں بیٹھے انتظار کرتے رہے،خبر اندر پہنچی تو نعیم الحق بھاگے چلے آئے، منت سماجت کے علاوہ فوری مذاکرات اور مطالبات ماننے کی یقین دہانی بھی کرا دی۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ عمران خان کو شرمندہ کرانا چاہتے ہیں کیا؟ مصر کے سفیر کو عمران خان سے ملنے جانے دیں۔
مصر کے سفیر کی ملاقات کے بعد احتجاجی مظاہرین کا وفد عمران خان سے ملا اور تحریک انصاف کے چیئرمین نے انہیں با اختیار بنانے، مراعات دینے کے تمام مطالبات منظور کر لیے ۔
قومی کرکٹر عمر اکمل کی حمایت کے لیے پاکستانی اداکارہ میرا بھی میدان میں آگئیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بھائی کی حمایت کے لیے شانہ بشانہ کھڑی ہیں ۔
نجی نیوز چینل "نائنٹی ٹو" نیوز کے مطابق اداکارہ میرا نے کہا ہے کہ عمر اکمل بے قصو ہیں ،ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ عمر اکمل قوم کا سرمایہ ہیں ،
ان کے خلاف سازش کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوں گے ۔
اداریہ
ہندوستان میں لکھی جانے والی اولین فارسی خود نوشت
معین الدین عقیل
9
اٹھارہ سو ستاون سے قبل کی اردو شاعری میں یورپی زبانوں کے دخیل الفاظ
رؤف پاریکھ
19
تکملۃ التکملۃ: سندھ میں فارسی تذکرہ نویسی کی روایت کا آخری نمونہ
عارف نوشاہی
47
طغیانی رود موسی: اردو شاعری میں سانحات کے اظہار کی روایت کا ایک گم شدہ باب
فیض الدین احمد
53
خطۂ ستلج کی بولیوں اور زبانوں کے اردو سے لسانی روابط
مزمل بھٹی /طارق جاوید
97
سیر ملک اودھ از یوسف خاں کمبل پوش
یوسف خاں کمبل پوش/ نجیبہ عارف
127
اقبال اور خودی
واصف علی واصف
225
معرکۂ اسرار خودی
ایوب صابر
233
علامہ محمد اقبال: جاودانی عظمت کے نقیب
سعادت سعید
257
علامہ اقبال اور عطیہ فیضی: باہمی روابط کے دو تاریخ ساز اثرات
محمد یامین عثمان
291
اقبال کا تصور تنہائی: نظم "تنہائی" کے پس منظر میں
وحید الظفرخاں
315
اسرار خودی: رد عمل کی لہریں
مسعود الحسن ضیاء
329
موت کا زندگی سے مکالمہ: بلراج مین را کا افسانہ
ناصر عباس نیر
341
اردو ادیبوں کا فطرت سے بدلتاہوا تعلق: چار صدیوں کے تناظر میں
ضیاء الحسن
377
پاکستان میں اردو تھیئٹر کے فروغ کے لیے "الحمرا آرٹس کونسل" کا کردار:
تاریخ، رجحان اور امکانات
محمدسلمان بھٹی
391
ما بعد جدید حسیت اور معاصر اردو نظم
احتشام علی
419
تدریس افسانہ: نیا تناظر
محمد کیومرثی
457
افسانہ: بحیثیت صنف ادب
ایم خالد فیاض
469
اردو افسانہ، عالمی ادبی تحریکوں کے تناظر میں
صباحت مشتاق
485
وزیر آغا کا انشائی اسلوب
سائرہ بتول
501
ہمہ یاراں دوزخ: آپ بیتی یا رپورتاژ
صائمہ علی
511
خورخے لوئس بورخیس: فکشن کا فن
رونلڈکرسٹ/محمد عمر میمن
527
مغربی ناول میں ہیرو کا تصور
رفیق سندیلوی
569
پاکستانی ثقافت: اتفاق و اختلاف
جلیل عالی
617
The Name and Nature of a Language: Would Urdu by any other Name Smell as Sweet? Shamsur Rahman Faruqi 3
Pakistan and Europe: Their Intellectual, Cultural and Political Relationship M. Ikram Chaghatai 13
The Legacy of the "Misfit" Poet: Repositioning Majid Amjad in the Modern Urdu Canon Mehr Afshan Farooqi 45
Poetics of Cross–cultural Assimilation: A Study of Taufiq Rafat's 'Reflections' Muhammad Safeer Awan 79
Abstracts 95
وہ صحافی اور مبصرین جن کا ایمان میری طرح اب تک کمزور نہیں ہوا ہے بہت سنجیدگی سے یہ دعوی کرتے پائے جا رہے ہیں کہ نواز شریف اتنے بھی بیمار نہیں۔ دل کی چھوٹی موٹی تکلیف ضرور ہوگی مگر اس کا علاج پاکستان میں بھی آسانی سے رعایتی نرخوں پر کروایا جا سکتا تھا۔ وزیر اعظم لندن جا کر بیٹھ گئے ہیں تو اصل مقصد اس کا پانامہ لیکس کی بدولت اٹھے طوفان سے خود کو اور اپنے خاندان کو "کڑے احتساب" سے بچانا ہے۔ ایسی بچت ہوتی مگر ممکن نظر نہیں آرہی کیونکہ ہمیں مل چکے ہیں عمران خان۔
نواز شریف کی "اصل بیماری" کی دنیا کے مانے ہوئے ماہرین قلب کی طرح تشخیص کرتے ہوئے اپنے تئیں اس ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے یہ دعوے دار اس ضمن میں بھی کافی پریشان ہیں کہ وزیر اعظم کی علاج کے نام پر اتنی لمبی غیر حاضری کے دوران پاکستانی ریاست اور حکومت کا نظام کیسے چلایا جلائے۔ آئینی طور پر ہمارے ملک میں کسی قائم مقام وزیراعظم کی گنجائش موجود نہیں کیونکہ وزیر اعظم وفاقی حکومت کا یک وتنہاء "چیف ایگزیکٹو" ہوا کرتا ہے۔
آئین اور قانون کے عین مطابق اپنی زندگی کا ہر پل گزارنے والے ان صاحب ایمان لوگوں کے خیالات سن کر پہلے مجھے غصہ آیا پھر ہنسی آنا شروع ہو گئی۔ غصہ بس یہ سوچ کر آتا رہا کہ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں ایک نہیں بلکہ دو بار آئین توڑنے والے کو بھی ایک پراسرار بیماری کا علاج ڈھونڈنے کے لئے پاکستان سے باہر جانا پڑا ہے۔ عدالتیں اب ان کو اپنے روبروپیش ہوتا دیکھنے کے لئے اخباروں میں اشتہارات دینے کا حکم صادر فرمارہی ہیں۔ہمارے صاحب ایمان لوگوں کی مگر اس طرف نظر نہیں جا رہی۔
تھوڑے غصے کے بعد مگر ان صاحب ایمان لوگوں کی معصومیت پر ہنسی آنا شروع ہو گئی جو بڑی شدت کے ساتھ یہ دہراتے پائے گئے کہ پاکستان میں کوئی آئین ہوتا ہے۔ "چوروں اور لٹیروں" سے بھری سہی، ایک منتخب قومی اسمبلی بھی ہے جس نے اس ملک کا "چیف ایگزیکٹو" منتخب کیا تھا۔ ایسا "چیف ایگزیکٹو" جسے ملااختر منصور کی ہلاکت کے بعد کسی "ولی محمد" کے مارے جانے کی اطلاع دی گئی اور وہ اس اطلاع کو دل وجان سے تسلیم کرنے کو تیار ہو گیا۔ حالانکہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے واقعے کے پانچ گھنٹے گزرجانے کے بعد موصوف کو ٹیلی فون کے ذریعے بتا دیا تھا کہ بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ گرائے جانے والے ڈرون میزائل نے افغان طالبان کے امیرکو ہلاک کر دیا ہے۔