lang
stringclasses
5 values
text
stringlengths
1
2.47k
ur_Arab
حالات حاضرہ 24 اگست 2006 - جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے کہا ہے کہ جوہری توانائی کے استعمال سے گریز کرنے کے لیے دی گئی شراعت کا ایران کی طرف سے جواب غیر تسلی بخش ہے۔ - ایپل کمپیوٹرز نے 1،8 ملین بیٹریز کو معیار کی کمی کی وجہ سے واپس منگوا لیا ہے۔ فیصلہ طلب
ur_Arab
جغرافیہ (انگریزی: Geography) یونانی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی ہیں زمین کا بیان۔"جغرافیہ وہ علم ہے۔ جس میں زمین، اس کی خصوصیات، اس کے باشندوں ، اس کے مظاہر، اور اس کے نقوش کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔" تاریخ ایراٹورتھینیس (276-194B.C) وہ پہلا شخص تھا۔ جس نے لفظ جغرافیہ استعمال کیا۔ جغرافیہ کو زمین کی سائنس بھی کہا جاتا ہے۔ آج تک انسان نے جتنی بھی ترقی کی ہے۔ وہ جغرافیہ کی ہی مرہون منت ہے۔ زمین انسان کا گھر ہے۔ اور اس گھر سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کے لیے علم جغرافیہ انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ علم جغرافیہ پرانے زمانے میں بھی موجود رہا ہے۔ لیکن اس دور میں اس کی اہمیت بہت کم تھی۔ عموما دریاؤں، پہاڑوں، سمندروں اور مقامات کے نام یاد کرلینا ہی کافی سمجھا جاتا تھا۔ دوسرے علوم کی نسبت جغرافیہ میں بہت سست رفتاری سے ترقی ہوئی۔ زمانہ قدیم میں جغرافیہ کا تصور اس علم کا آغاز بطور سائنس مصر و یونان میں ہوا۔ زمانہ قدیم کے جغرافیہ دانوں کی بعض تحریریں بڑی دلچسپ ہیں۔ مثلاً سٹرابو جو ایک اطالوی جغرافیہ دان تھا، اس خیال کا مالک تھا کہ سمندر کا پانی ایک بہت بڑے دریا کی طرح کسی ڈھلان پر بند رہتا ہے۔ ارسطو کا خیال تھا کہ فضا سے ہوا زمین میں داخل ہو کر محبوس ہو جاتی ہے اور جب وہ فضا میں واپس جانے کے لیے جدوجہد کرتی ہے تو زلزلہ پیدا ہوتا ہے۔ مگر ان عجیب و غریب خیالات کے ساتھ ساتھ قدیم یونانیوں نے بعض حیرت انگیز دریافتیں بھی کیں۔ مثلاً 200ق م کے قریب، ارسطاطالیس نے مصر کے مشرق و مغرب میں مدوجزر کی لہروں میں تناسب معلوم کرنے پر یہ اعلان کیا کہ بحر اوقیانوس اور بحر ہند آپس میں منسلک ہیں۔ اس کی ایک اور دریافت قابل ذکر ہے، جس کے مطابق اس نے بتایا کہ دور مغرب میں شمال سے جنوب تک کوئی ملک ضرور واقع ہے۔ اس کے 1700 سال بعد کولمبس نے اس ملک امریکا کو دریافت کیا۔جغرافیہ میں سب سے پہلے یونانیوں نے پیش رفت کرنا شروع کی۔ قرون وسطیٰ میں مسلم ممالک میں اس علم میں بہت پیش رفت ہوئی۔ اس دور کے اہم ناموں میں ابن بطوطہ، ابن خلدون اور ادریسی شامل ہیں۔ مسلمانوں کے علمی زوال کے بعد یورپ میں اس مضمون پر بہت پیش رفت ہوئی۔ جغرافیہ کی شاخیں طبیعی جغرافیہ انسانی جغرافیہ تہذیبی جغرافیہ تاریخی جغرافیہ
ur_Arab
پاکستان (رسمی نام: اسلامی جمہوریۂ پاکستان) جنوبی ایشیا کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختار اسلامی ملک ہے۔ یہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی آبادی تقریباً 242 ملین ہے اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کا تینتیسواں بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود اومان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔ موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم ترین دنیا میں وہ علاقے تھے جن میں موہنجوداڑو اور انڈس سولائیزیشن مہر گڑھ ٹیکسلا پراچین سنسکرت دور اور دیگر زیرتحقیق آرک لوجیکل سائٹسٹ جیسے قندھارا تہذیب و تمدن تھی۔ اس علاقے پر پراچین راجپوت ایرانی یونانیعرب، بدھ مت، سکھ، مغل، ہن سفید اور ترک حملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسے چندر گپت موریا، ہخامنشی سلطنت عربوں کی خلافت امویہ، مغل سلطنت، مغلیہ سلطنت، درانی سلطنت، سکھ سلطنت اور برطانوی راج کا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعد محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کامیاب ہوئی اور 14 اگست 1947ء کو ہندوستان کے مشرق اور مغرب میں دو حصوں میں ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان نے اپنا پہلا آئین 1956ء میں بنایا جو 1958 میں منسوخ کردیا گیا اس کے بعد 1962 میں پاکستان کا دوسرا آئین پیش کیا گیا جو 1969 میں جزل یحیی خان نے منسوح کر دیا. 1971ء میں ایک خانہ جنگی کے دوران میں اس کا مشرقی حصہ الگ ہو کر ایک نیا ملک بنگلہ دیش بن گیا۔ پاکستان وفاقی پارلیمانی جمہوری ریاست کے تحت چلتا ہے۔ اس کے پانچ صوبے اور کچھ وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقے ہیں۔ یہ ملک لسانی اور قومی طور پر مختلف اقوام کا علاقہ ہے اور اس کا جغرافیہ بھی ہر طرح کے خطے پر مشتمل ہے۔ پاکستان دنیا کا ایک اہم طاقتور ملک ہے، جیسا کہ اس کی فوج دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے اور یہ اسلامی دنیا کی واحد اور جنوبی ایشیا کی دوسری ایٹمی طاقت ہے۔
ur_Arab
اس کی معیشت دنیا میں 23 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کی تاریخ فوجی آمریت، سیاسی عدم استحکام اور پڑوسی ملک سےجھگڑوں پر مشتمل ہے۔ یہ ملک مؤتمر عالم اسلامی، اقوام متحدہ، دولت مشترکہ ممالک، سارک، ترقی پذیر 8، اقتصادی تعاون تنظیم جیسی تنظیموں کا اہم رکن ہے۔ اشتقاقیات پاکستان کے لفظی معنی پاک لوگوں کی سر زمین ہے، پاک کے اردو اور فارسی میں معنی خالص اور صاف کے ہیں اور ستان کا مطلب زمین یا وطن کا ہے- 1933ء میں چودھری رحمت علی نے دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پر اپنا مشہور کتابچہ اب یا کبھی نہیں شائع کیا جس میں پہلی مرتبہ لفظ پاکستان استعمال کیا گیا۔ لفظ پاکستان اس وقت پانچ مسلم علاقوں کے ناموں کا سرنامیہ ہے۔ پ پنجاب، ا خیبر پختونخوا (افغانیہ)، ک کشمیر، س سندھ، تان بلوچستان۔ تاريخ 711ء میں اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں محمد بن قاسم برصغیر (موجودہ پاکستان و ہندوستان) کے خاصے حصے کو فتح کرتا ہے اور یوں برصغیر (موجودہ پاکستان) دنیا کی سب سے بڑی عرب ریاست کا ایک حصہ بن جاتا ہے، جس کا دار الحکومت دمشق، زبان عربی اور مذہب اسلام تھا۔ یہ علاقہ سیاسی، مذہبی اور ثقافتی طور پر عرب دنیا سے جڑ جاتا ہے۔ اس واقعہ نے برصغیر اور جنوبی ایشیا کی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ سن 1947ء سے پہلے بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش برطانوی کالونیاں تھیں اور برّصغیر کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ہندوستان کی آزادی (انگریزوں سے) کی تحریک کے دوران میں ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے لیے ایک علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا۔ "پاکستان کا مطلب کیا؟ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ" اس تحریک کا مقبول عام نعرہ تھا۔ اس مطالبے کے تحت تحریک پاکستان وجود میں آئی۔ اس تحریک کی قیادت محمد علی جناح نے کی۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستان وجود میں آیا۔ تقسیم برصغیر پاک و ہند کے دوران میں انگریزوں نے کچھ ایسے سقم چھوڑے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان میں 1948ء اور 1965ء میں کشمیر کے مسئلہ پر دو جنگوں کا سبب بن گئے۔ اس کے علاوہ چونکہ پاکستانی پنجاب میں بہنے والے تمام دریا بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے ہوکر آتے ہیں، لہذا پاکستان کو 1960ء میں انڈیا کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کرنا پڑا، جس کے تحت پاکستان کو مشرقی دریاؤں، ستلج، بیاس اور راوی سے دستبردار ہونا پڑا۔ جبکہ دریائے سندھ، چناب اور
ur_Arab
جہلم پر پاکستان کا حق تسلیم کر لیا گیا۔ 1947ء سے لے کر 1948ء تک پاکستان کو بڑی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ بھارت نے پاکستان کے حصہ میں آنے والی رقم پاکستان کو ادا نہ کی۔ اس کے علاوہ صنعتی ڈھانچے کے نام پر پاکستان کے حصے میں گنتی کے چند کارخانے آئے اور مزید برآں کئی اندرونی و بیرونی مشکلات نے بھی پاکستان کو گھیرے رکھا۔ ریاست بہاولپور کے نواب صادق محمد خان پنجم نے اس وقت پاکستان کی مالی مدد کی۔ پاکستانی حکمران پاکستان بطور برطانوی ڈامنینئن آزاد ہوا تھا. پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح اور پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان تھے۔ پاکستان کی عبوری حکومت ١١ اگست ١٩٤٧ کو تشکیل دی گئی تھی۔ 1948 میں قائد اعظم ٹی بی سے وفات پا گئے۔ 1951ء میں پستول کی گولی کا شانہ بنا کر[لیاقت علی خان]] کو شہید کر دیا گیا۔ 1951ء سے 1958ء تک کئی حکومتیں آئیں اور ختم ہو گئیں۔ 1956ء میں پاکستان میں پہلا آئین نافذ ہوا۔ اس کے باوجود سیاسی بحران کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1958ء میں پاکستان میں مارشل لا لگ گیا۔ پاکستان میں موجود تمام بڑے آبی ڈیم جنرل ایوب کے دور آمریت میں بنائے گئے۔ جنرل ایوب کے دور میں پاکستان میں ترقی تو ہوئی لیکن مشرقی پاکستان دور ہوتا گیا۔ 1963ء میں پاکستان کے دوسرے آئین کا نفاذ ہوا، مگر مشرقی پاکستان کے حالات آہستہ آہستہ بگڑتے گئے۔ ایوب خان عوامی احتجاج کی وجہ سے حکومت سےعلیحدہ ہو گئے لیکن جاتے جاتے انہوں نے حکومت اپنے فوجی پیش رو جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دی۔ 1971ء کے عام انتخابات میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ کی واضح کامیابی کے باوجود فوجی حکمران یحییٰ خان نے اقتدار کی منتقلی کی بجائے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کو ترجیح دی۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علیحدگی پسندوں کو بھرپور مالی اور عسکری مدد فراہم کی جس کے نتیجے میں آخرکار دسمبر 1971ء میں سقوط ڈھاکہ ہو گیا اور مشرقی پاکستان ایک علیحدہ ملک بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ 1972ء سے لے کر 1977ء تک پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے صدر اور بعد ازاں وزیر اعظم رہے۔ اس دور میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی رضامندی سے آئین پاکستان مرتب اور نافذ العمل کیا گیا۔ اس دور میں سوشلسٹ اور پین اسلامک عنصر بڑھا۔ اسی دور میں پاکستان میں صنعتوں اور اداروں کو قومیا لیا گیا۔ اس دور کے آخر میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان میں کشیدگی
ur_Arab
بڑھ گئی اور اس کے نتیجے میں 1977ء میں دوبارہ مارشل لا لگ گیا۔ اگلا دور 1977ء تا 1988ء مارشل لا کا تھا۔ اس دور میں پاکستان کے حکمران جنرل ضیا الحق تھے۔ افغانستان میں جنگ کی وجہ سے پاکستان کو بہت امداد ملی۔ اسی دور میں 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات ہوئے اور جونیجو حکومت بنی جسے 1988ء میں ضیاءالحق نے برطرف کر دیا- 1988ء میں صدر مملکت کا طیارہ گر گیا اور ضیاءالحق کے ساتھ ساتھ پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت کی اکثریت زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ پاکستان میں پھر سے جمہوریت کا آغاز ہو گیا۔ اس کے بعد 1988ء میں انتخابات ہوئے اور بينظير بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ کچھ عرصہ بعد صدر غلام اسحاق خان نے حکومت کو برطرف کر دیا۔ 1990ء میں نواز شریف کی قیادت میں آئی جے آئی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ 1993ء میں یہ حکومت بھی برطرف ہو گئی۔ اگلے انتخابات 1993ء میں ہوئے اور ان میں دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اس وقت پاکستان کے صدر فاروق احمد خان لغاری تھے۔ صدر فاروق احمد خان لغاری کے حکم پر یہ حکومت بھی بر طرف ہو گئی۔ 1997ء میں انتخابات کے بعد دوبارہ نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اس حکومت کے آخری وقت میں سیاسی اور فوجی حلقوں میں کشیدگی بڑھ گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1999ء میں دوبارہ فوجی حکومت آ گئی۔ صدر مملکت پرويز مشرف بنے اور 2001ء میں ہونے والے انتخابات کے بعد وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی بنے۔ 2004ء میں جنرل مشرف نے شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنانے کا فيصلہ کیا۔ مختصر عرصہ کے لیے چوہدرى شجاعت حسين نے وزیراعظم کی ذمہ داریاں سرانجام دیں اور شوکت عزیز کے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہونے کے بعد وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو گئے۔ شوکت عزیز قومی اسمبلی کی مدت 15 نومبر 2007ء کو ختم ہونے کے بعد مستعفی ہو گئے۔ 16 نومبر 2007ء کو سینٹ کے چیرمین جناب میاں محمد سومرو نے عبوری وزیر اعظم کا حلف اٹھایا۔ فروری 2008ء میں الیکشن کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعظم نامزد کیا، جنہوں نے مسلم لیگ (ن)، اے این پی کی حمایت سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔ 22 جون 2012ء کو یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد راجہ پرویز اشرف نئے وزیر اعظم بنے۔ مئی 2013ء میں عام انتحابات ہوئے جس میں پاکستان مسلم لیگ
ur_Arab
ن ایک بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔ یوں نوازشریف پاکستان کے تیسرے بار وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔ 28 جولائی 2017ء کو عدالت عظمیٰ نے تاریخ دہراتے ہوئے ایک اور وزیر اعظم نوازشریف کو پانامالیکس فیصلے میں تا حیات نا اہل قرار دے کر برطرف کر دیا اور یوں پاکستان مسلم لیگ ن کے شاہد خاقان عباسی نئے وزیراعظم بن گئے۔ 17 اگست 2018ء کو عمران خان 176 ووٹ حاصل کر کے بائیسویں وزیر اعظم پاکستان بن گئے۔ آئین، حکومت اور سياست پاکستان کا اعلیٰ اساسی قانون آئین پاکستان کہلاتا ہے۔ آئین، پاکستان کا وہ اعلیٰ قانون ہے جو ریاست پاکستان کے اندر تمام اہم چیزوں اور فیصلوں کا تعین کرتا ہے۔ ملک میں چار مرتبہ مارشل لا لگا جس سے دو مرتبہ آئین معطل ہوا، ایک مرتبہ 1956ء کا آئین اور دوسری مرتبہ 1962ء کا آئین۔ 1972ء میں مشرقی پاکستان میں مخالفین نے سازشیں کی، دوسری طرف مشرقی پاکستان کی عوام میں احساس محرومی بڑھ گئی جس کی نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے نام ایک نیا ملک وجود میں آیا۔ اس وقت غور کیا گیا تو ملک ٹوٹنے کی بہت سے وجوہات تھیں۔ اسی بنا پر 1973ء کا آئین بنایا گیا۔آئین بنانے کے لیے ایک خاص کمیٹی تشکیل دے دی گئی اور آئین میں ہر شعبے اور اہم امور کے لیے اصول بنے، آئین میں ریاست کی تمام بڑے فیصلوں کے لیے قوانین بنائے گئے، حکومت اور ریاست کا پورا تشکیل بیان کیا گیا۔ مسودہ تیار ہونے کے بعد اسے قومی اسمبلی سے پاس کرایا گیا۔ پاکستانی سیاست کی بنیاد کو آئین پاکستان نے قائم کیا ہے۔ آئین کے مطابق پاکستان ایک جمہوری اور قومی ریاست ہے۔ آئین پاکستان نے ایک وفاق اور اس کے ماتحت صوبائی حکومتیں قائم کی ہیں۔ آئین کا پہلا آرٹیکل بیان کرتا ہے کہ "مملکت پاکستان ایک وفاقی جمہوریت ہوگا جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا اور جسے بعد ازیں پاکستان کہا جائے گا"۔ پاکستان کی مختلف علاقہ جات کے متعلق آئین پاکستان کا دوسرا آرٹیکل بیان کرتا ہے: آرٹیکل 1 میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی کوئی واضح حیثیت تو بیان نہیں کی گئی لیکن 2009ء میں قومی اسمبلی سے ایک اور بل پاس ہوا جس نے واضح طور پر گلگت بلتستان کو نیم-صوبے کا درجہ دیا اور یہاں باقاعدہ صوبائی حکومت کو قائم کیا گیا، جس کے تمام بنیادی شاخ (اسمبلی، عدلیہ، وزارتیں، وغیرہ) قائم کئے گئے۔ آئین نے مزید ملک میں دو قانون ساز ایوان قائم کئے ایک قومی اسمبلی اور دوسراں سینٹ۔ قومی اسمبلی کی بنیاد آبادی کے لحاظ سے ہے یعنی جہاں آبادی زیادہ ہوگی وہاں زیادہ نشستیں رکھی جائے گی اور قومی اسمبلی کے
ur_Arab
ارکان کو براہ راست عوام اپنے ووٹ سے منتخب کرتے ہیں۔ جبکہ سینٹ میں تمام صوبوں کو برابر کے نشستیں دیے گئے ہیں چاہے صوبہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ سینٹ کے ارکان کو سینیٹر کہا جاتا ہے اور ان سینیٹرز کو چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ممبران اپنے ووٹ سے منتخب کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات کسی ملک کے دوسرے ممالک سے تعلقات قائم کرنا تاکہ وہ ملک دیگر ممالک سے برآمدات اور درآمدات کا سلسلہ قائم رکھ سکے اس سلسلہ میں ملکی مذہبی امور، دفاعی سامان کی خرید وفروخت اور ملکی و قومی نظریات کو بھی مدنظر رکھاجاتا ہے، ایک نقطہ ذہن نشین کر لیں کہ خارجہ پالیسی میں نہ کوئی مستقل دشمن ہوتا ہے اور نہ مستقل دوست۔ یہ سب وقت اور حالات کے تحت بدلتا رہتا ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے انڈونیشیا کے بعد دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے۔ ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باعث بھی اسے اقوام عالم میں مسلمان ممالک میں اونچا مقام حاص ہے۔ پاکستان ہر معاملے میں ایک آزاد خارجہ پالیسی رکھتا ہے خاص طور پر نیوکلیائی ہتھیاروں کا معاملہ ہو یا اسلحے کی خرید و فروخت کا۔ افواج پاکستان کی دفاع کا ذمہ ملک کے مسلح افواج پر ہے جس کی بنیادی طور پر تین شاخیں ہیں: پاک فوج پاک بحریہ پاک فضائیہ 1947ء میں قیام پاکستان سے پہلے پاک عسکریہ، ہندوستانی فوج کا حصہ تھی۔ اس لحاظ سے اس کے تاج برطانیہ کے زیر اثر پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم میں بھی حصہ لیا ہے۔ تقسیم برصغیر کے بعد ہندوستانی فوج پاکستان اور بھارت میں بالترتیب 36% اور 64% کےتناسب میں تقسیم ہو گئی۔ اس وقت اعلان ہوا کہ کوئی بھی فوجی جس بھی فوج میں جانا چاہتا ہے تو اسے مکمل اجازت ہے۔ اس وقت بہت سے مسلمان فوجی، پاک عسکریہ میں شامل ہوگئے۔ تقسیم کے وقت بھارت میں 16 آرڈیننس فیکٹریاں تھیں جبکہ پاکستان میں ایک بھی نہیں تھی۔ اب پاکستان کافی حد تک دفاعی اعتبار سے خود کفیل ہو گیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے بہت سے ادارے شامل ہیں جن میں سول ادارے بھی ہیں اور فوجی بھی۔ فوج اداروں میں پاک فوج، پاک فضائیہ اور پاک بحریہ شامل ہیں جو سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں، قدرتی آفت میں متاثرین کی امداد وغیرہ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ دیگر نیم فوجی ادارے بھی قانون نافذ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ان نیم فوجی داروں میں فرنٹیئر کانسٹبلری، سرحد کور، پاکستان رینجرز شامل ہیں۔ پاکستان رینجرز کو ملک کے دو مشرقی صوبوں یعنی پنجاب اور سندھ میں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اس لیے
ur_Arab
اس ادارے کے مزید دو شاخ بنائے گئے ہیں یعنی پنجاب رینجرز اور سندھ رینجرز۔ اسی طرح سرحد کور اور فرنٹیئر کانسٹبلری کو ملک کے مغربی صوبوں یعنی صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اسی ادارے کو مزید دو شاخوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی پختونخوا کانسٹبلری اور بلوچستان کانسٹبلری۔ اس کے علاوہ ہر انتظامی اکائی میں مختلف پولیس فورسز بنائی گئی ہیں جن میں خیبر پختونخوا پولیس، پنجاب پولیس، سندھ پولیس، بلوچستان پولیس، آزاد کشمیر پولیس اور گلگت بلتستان پولیس شامل ہیں۔پولیس فورس میں ایک الگ شاخ بھی بنایا گیا ہے جسے پولیس قومی رضا کار کہا جاتا ہے، اس فورس کا مقصد تمام صوبوں میں جہاں ضرورت پڑے وہاں کام کرنا ہے۔ ایئرپورٹ پولیس کا کام ایئرپورٹ کے امور سرانجام دینا ہے اسی طرح موٹروے پولیس اور قومی شاہراہ پولیس کا کام سڑکوں کی حفاظت ہے۔ تحقیقات کے لیے وفاقی ادارۂ تحقیقات (ایف آئی اے) اور دیگر تحقیقاتی ادارے موجود ہیں۔ مخابرات اور ملک کے بیرون خطرات سے نمٹنے کے لیے بھی مخابراتی ادارے (جیسے آئی ایس آئی، وغیرہ) موجود ہیں۔ انتظامی تقسیم پاکستان ميں 4 صوبے، 2 وفاقی علاقے اور پاکستانی کشمير کے 2 حصے ہيں۔ حال ہی میں پاکستانی پارلیمنٹ نے گلگت بلتستان کو بھی پاکستان کے پانچویں صوبے کی حیثیت دے دی ہے۔ صوبہ جات کی تقسیم یکم جولائی 1970ء کو کی گئی۔ صوبہ بلوچستان کا کل رقبہ 347,190 مربع کلومیٹر ہے جبکہ 2011ء میں آبادی 79 لاکھ 14 ہزار تھی۔ صوبہ پنجاب کا کل رقبہ 205,344 مربع کلومیٹر ہے جبکہ 2013ء میں آبادی 10 کروڑ 10لاکھ تھی۔ صوبہ خیبر پختونخوا کا کل رقبہ 74,521 مربع کلومیٹر ہے جبکہ 2012ء میں آبادی 2 کروڑ 20 لاکھ تھی۔ صوبہ سندھ کا کل رقبہ 140,914 مربع کلومیٹر ہے جبکہ 2012ء میں آبادی 4 کروڑ 24 لاکھ تھی۔ گلگت بلتستان (سابق شمالی علاقہ جات) کا کل رقبہ 72,496 مربع کلومیٹر ہے جبکہ 2008ء میں آبادی 18 لاکھ تھی۔ انتظامی تقسیم پاکستان کا جغرافيہ، ماحولیات اور آب و ہوا جغرافیائی طور پر پاکستان جنوبی ایشیا کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے۔ پاکستان کا جغرافیہ اور آب و ہوا انتہائی متنوع ہے، پاکستان بے شمار جانداروں کا گھر ہے، بلکہ کہیں جانور اور پرندے ایسے بھی ہیں جو صرف پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان کا کل رقبہ 796,095 مربع کلومیٹر ہے۔ پاکستان کا سمندری ساحل تقریباً 1,046 کلومیٹر ہے اور 6,774 کل
ur_Arab
ومیٹر زمینی سرحد ہے۔پاکستان کے مشرقی، وسطی اور جنوبی علاقے میدانی ہیں جبکہ مغربی اور شمالی علاقے پہاڑی ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا دریا دریائے سندھ ہے۔ یہ دریا پاکستان کے شمال سے شروع ہوتا ہے اور صوبہ خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ سے گزر کر سمندر میں گرتا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی علاقے، صوبہ سندھ کے وسطی علاقے اور پنجاب کے شمالی، وسطی اور جنوبی علاقے میدانی ہیں۔ یہ علاقے نہری ہیں اور زیر کاشت ہیں۔ صوبہ سندھ کے مشرقی اور صوبہ پنجاب کے جنوب مشرقی علاقے صحرائی ہیں۔ زیادہ تر بلوچستان پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے لیکن بلوچستان کا سبی علاقہ میدانی اور صحرائی ہے۔ خیبر پختونخوا کے مغربی علاقوں میں نیچے پہاڑ ہیں جبکہ شمالی خیبر پختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ واقع ہے۔ پاکستان کی زیادہ تر آبادی زراعت کے شعبے سے منسلک ہے۔ پاکستان کی سرحدیں پاکستان کا سمندری ساحل تقریباً 1,046 کلومیٹر ہے اور 6,774 کلومیٹر زمینی سرحد ہے، زمینی سرحد میں سے 2,430 کلومیٹر سرحد افغانستان کے ساتھ، 523 کلومیٹر چین کے ساتھ، 2,912 بھارت کے ساتھ اور 909 ایران کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ معيشت پاکستان دنيا کا ايک ترقی پزیر ملک ہے۔ پاکستان کے سیاسی معاملات ميں فوج كى مداخلت، کثیر اراضی پر قابض افراد (وڈیرے، جاگیردار اور چوہدری وغیرہ) کی عام انسان کو تعلیم سے محروم رکھنے کی نفسیاتی اور خود غرضانہ فطرت (تاکہ بیگار اور سستے پڑاؤ (Labor Camp) قائم رکھے جاسکیں)، اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کا اپنے مفاد میں بنایا ہوا دوغلا تعلیمی نظام (تاکہ کثیر اراضی پر قابض افراد کو خوش رکھا جاسکے اور ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی [عموماً انگریزی اور/ یا ولایت میں تعلیم کے بعد] اجارہ داری کيلیے راہ کو کھلا رکھا جاسکے)، مذہبی علماؤں کا کم نظر اور اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کا رویہ اور بيرونی کشيدگی کی وجہ سے ملک کی معيشت زيادہ ترقی نہيں کر سکی۔ پہلے پاکستان کی معيشت کا زيادہ انحصار زراعت پر تھا۔ مگر اب پاکستان کی معيشت (جو کافی کمزور سمجھی جاتی ہے) نے گیارہ ستمبر کے امریکی تجارتی مرکز پر حملے، عالمی معاشی پستی، افغانستان جنگ، پانی کی کمی اور بھارت کے ساتھ شديد کشيدگی کے با وجود کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کيا ۔ اِس وقت پاکستان کی معيشت
ur_Arab
مستحکم ہے اور تيزی سے بڑھنا شروع ہو گئی ہے ۔ کراچی سٹاک ایکسچینج کے کے ايس سی انڈکس گزستہ دو سالوں سے دنيا بھر ميں سب سے بہترين کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے ۔ اعداد و شمار پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنيا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی آبادی بہت تيزی سے بڑھ رہی ہے۔ پاکستان کے 96.7 فيصد شہری مسلمان ہيں جن ميں سے تقريباً 20 فيصد اہل تشیع، 77 فيصد اہل سنت اور تقریباً 3 فيصد ديگر فقہ سے تعلق رکھتے ہيں۔ تقريباً ایک فيصد پاکستانی ہندو اور اتنے ہی پاکستانی مسیحی مذہب سے تعلق رکھتے ہيں۔ ان کے علاوہ کراچی ميں پارسی، پنجاب وسرحد ميں سکھ اور شمالی علاقوں ميں قبائلی مذاہب کے پيرو کار بھی موجود ہيں۔ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے، جبکہ زيادہ تر دفتری کام انگريزی ميں کیے جاتے ہيں۔ پاکستان کے خواص بھی بنيادی طور پر انگريزی کا استعمال کرتے ہيں۔ پاکستان ميں تمام تر اعلیٰ تعليم بھی انگريزی ميں ہی دی جاتی ہے۔ اس کے باوجود اردو پاکستان کی عوامی و قومی زبان ہے۔ اردو کے علاوہ پاکستان ميں کئی اور زبانيں بولی جاتی ہيں، ان ميں پنجابی، سرائیکی، سندھی، گجراتی، بلوچی، براہوی، پہاڑی، پشتو اور ہندکو زبانیں قابلِ ذکر ہيں۔ پاکستان ميں مختلف قوموں سے تعلّق رکھنے والے لوگ آباد ہيں، ان ميں زيادہ نماياں پنجابی، سرائیکی، سندھی، پٹھان، بلوچی اور مہاجر قوم ہيں، ليکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کے مابین فرق کم ہوتا جا رہا ہے۔ ثقافت اور معاشرہ تہذیب پاکستان کی بہت قديم اور رنگارنگ تہذيب ہے۔ پاکستان کا علاقہ ماضی ميں دراوڑ، آريا، ہن، ايرانی، يونانی، عرب، ترک اور منگول لوگوں کی رياستوں ميں شامل رہا ہے۔ ان تمام تہذيبوں نے پاکستان کی موجودہ تہذيب پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف صوبوں ميں لباس، کھانے، زبان اور تمدن کا فرق پايا جاتا ہے۔ اس ميں اس علاقوں کی تاريخی عليحدگی کے ساتھ ساتھ موسم اور آب و ہوا کا بھی بہت اثر ہے۔ ليکن ايک اسلامی تہذيب کا حصہ ہونے کی وجہ سے اس ميں کافی تہذيبی ہم آہنگی بھی موجود ہے۔ پاکستان ميں بہت مختلف قسم کی موسي
ur_Arab
قی ملتی ہے۔ کلاسيکی موسيقی، نيم کلاسيکی موسيقی، لوک موسيقی اور اس کے ساتھ ساتھ جديد پاپولر ميوزک، ان سب کے پاکستان ميں بلند پايہ موسيقار موجود ہيں۔ پاکستان دنيا بھر ميں قوالی کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ پاکستانی تہذيب ميں مغربی عناصر بڑھتے جا رہے ہيں۔ يہ امراء اور روساء ميں اور بڑے شہروں ميں زيادہ نماياں ہے کيونکہ مغربی اشياء، ميڈيا اور تہذيب تک ان کی زيادہ رسائی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ايک بڑھتی ہوئی تحريک ہے جو مغربی اثرات کو کم ديکھنا چاہتی ہے۔ کچھ جگہوں ميں اس تحريک کا زيادہ جھکاؤ اسلام اور کچھ ميں روايات کی طرف ہے۔ پاکستانيوں کی بڑی تعداد امريکہ، برطانيہ، آسٹريليا، کینیڈا اور مشرق وسطی ميں مقيم ہے- ان بيرون ملک پاکستانيوں کا پاکستان پر اور پاکستان کی بين الاقوامی تصوير پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ ان لوگوں نے ماضی ميں پاکستان ميں بہت سرمايہ کاری بھی کی ہے۔ پاکستان کا سب سے پسنديدہ کھيل کرکٹ ہے۔ پاکستان کی کرکٹ ٹيم دنيا کی اچھی ٹيموں ميں شمار ہوتی ہے۔ کرکٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان ميں ہاکی بھی بہت شوق سے کھيلی جاتی ہے۔ ہاکی پاكستان كا قومى كھيل بھى ہےـ چوگان (پولو) پاکستان کے شمالی علاقہ جات كے لوگوں كا كھيل ہے اور اس كھيل كى پيدائش بھى يہيں ہوئى اور آج تک ان علاقوں ميں بہت شوق سے کھیلی جاتی ہے۔ لباس، فن اور فیشن پاکستان میں سب سے عام لباس شلوار قمیض ہے جس کو قومی لباس کا درجہ حاصل ہے، شلوار قمیص کو پاکستان کے چاروں صوبوں بلوچستان، پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا سمیت قبائلی علاقہ جات، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں پہنا جاتا ہے۔ تاہم پھر ہر صوبے اور علاقے میں شلوار قمیص پہننے کا طرز تھوڑا مختلف بھی ہوتا ہے ہر کوئی اپنے مقامی انداز میں پہنتا ہے۔ شلوار قمیص کے علاوہ اور بھی بہت سے لباس پاکستان میں میں پہنے جاتے ہیں جن میں سوٹ اور نیکٹائی بھی عام ہے جن کا استعمال اسکول، کالج، جامعات، دفاتر، وغیرہ میں ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں شہروں کے بہ نسبت سوٹ اور ٹائی کا استعمال کم ہوتا ہے۔ شیروانی کا استعمال خاص کر تقاریب اور خوشیوں کے مواقع پر کیا جاتا ہے۔ پاکستانی خواتین میں بھی شلوار
ur_Arab
قمیض کا استعمال ہوتا ہے تاہم خواتین شلوار قمیض کے علاوہ انارکلی، لہنگا، گاگرہ، وغیرہ بھی پہنتی ہیں۔ میڈیا پاکستان میں بہت سے ذرائع ابلاغ موجود ہیں، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا دونوں میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔اس سے پہلے پی ٹی وی ملک کا واحد چینل نیٹ ورک ہوتا تھا اور حکومت پاکستان اس نیٹ ورک کو چلا رہی تھی۔ 2002ء کے بعد الیکٹرونک میڈیا نے ترقی کی اور پے در پے نئے نجی چینل آتے رہے۔اس وقت پاکستان میں 50 سے بھی زیادہ صرف نجی چینلز موجود ہیں جن کی نشریات 24 گھنٹے جاری رہتی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں نیوز، انٹرٹینمنٹ، ہیلتھ، ایجوکیشن، علاقائی اور بہت سے چینلز موجود ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر چینلز کے نشریات اردو میں ہوتے ہیں تاہم ملک کے علاقائی زبانوں (پشتو، پنجابی، سندھی، بلوچی، کشمیری، سرائیکی وغیرہ) کے بھی ٹی وی چینلز موجود ہیں۔ پی ٹی وی ورلڈ پاکستان کا پہلا انگریزی چینل ہے۔ اردو فلم انڈسٹری لالی وڈ کی صدر مقامات لاہور، کراچی اور پشاور میں واقع ہے۔ لالی وڈ نے اب تک بہت سے فلمیں ریلیز کی ہیں اور کر رہا ہے۔ پاکستان میں سب سے عام اردو ڈراما سیریلز ہیں جو مختلف چینلز پر چلائے جاتے ہیں۔ فن تعمیرات پاکستان کے فن تعمیرات ان مختلف عمارات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو مختلف ادوار میں موجودہ پاکستان کے علاقوں میں بنائے گئے ہیں۔ وادئ سندھ کی تہذیب کے شروع ہونے کے ساتھ ہی جو 3500 قبل مسیح تھا، موجودہ پاکستان کے علاقے میں شہری ثقافت کا ارتقاء ہوا جس میں بڑی عمارتیں تھیں جن میں سے کچھ آج بھی موجود ہیں۔ اس کے بعد گندھارا طرز کا بدھ طرز تعمیر آیا جس میں قدیم یونان کے اجزاء بھی شامل تہے۔ اس کے بقایا جات گندھارا کے صدر مقام ٹیکسلا میں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ پاکستان میں مغل اور انگریزی طرز تعمیر کی مثالیں بھی موجود ہیں جو نہایت ہی اہم ہیں۔ آزادی کے بعد کا فن تعمیر بھی ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ آزادی کے بعد پاکستان نے اپنی نئی حا صل کی گئی آزادی اور شناخت کو فن تعمیر کے ذریعے سے ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان خود کو جدید عمارتوں میں ظاہر کرتا ہے مثلاً فیصل مسجد جو وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں واقع ہے اس مسجد کو 1960ء میں تعمیر کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسری عمارتیں بھی قابل ذکر ہیں جیسے مینار پاکستان، سفید ماربل سے بنا مزار قائد اعظم۔ یہ عمارتیں نئی ریاست کی خود
ur_Arab
اعتمادی کو ظاہر کرتی ہیں۔ ملکی دارالخلافہ اسلام آباد میں موجود قومی یادگار تہذیب، آزادی اور جدید فن تعمیر کا ایک حسین امتزاج ہے۔ پاکستان میں اس وقت چھ (6) جگہیں ایسی ہیں جنہیں عالمی ورثہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے، ان کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔ موہن جو دڑو کے اثریاتی کھنڈر تخت بائی اور پڑوسی شہر شہر بہلول کے بدھ مت کے کھنڈر شاہی قلعہ لاہور اور شالیمار باغ لاہور ٹھٹھہ کی تاریخی یادگاریں قلعہ روہتاس ٹیکسلا سیاحت پاکستان اپنے نظاروں، لوگوں اور تہذیبوں کے حوالے سے ایک وسیع ملک ہے اور اسی وجہ سے سال 2012ء میں یہاں دس (10) لاکھ سیاح آئے۔ پاکستان کی سیاحت کی صنعت 1970ء کے عشرے کے دوران میں عروج پر تھی جب یہاں ایک بہت بڑی تعداد میں سیاح آتے تھے۔ ان سیاحوں کے لیے سب سے زیادہ قابل دلچسپی جگہیں خیبر پاس، پشاور، کراچی، لاہور، سوات اور راولپنڈی تھیں۔ اس ملک کی حامل کشش جگہوں میں موہنجو داڑو، ٹیکسلا اور ہڑپہ جیسی تہذیبوں کے کھنڈر سے لیکر کوہ ہمالیہ کے پہاڑی مقامات تک ہیں۔ پاکستان 7000 میٹر سے زیادہ بلند کئی چوٹیوں کا مسکن ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں کئی پرانے قلعے ہیں، پرانے زمانے کی فن تعمیر، ہنزہ اور چترال کی وادیاں جو ایک چھوٹی سی غیر مسلم سماجی گروہ کیلاش کا مسکن ہے جو خود کو سکندر اعظم کی اولاد سے بتاتے ہیں۔ پاکستان کے ثقافتی مرکز و صدر مقام لاہور میں مغل فن تعمیر کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جیسے بادشاہی مسجد، شالیمار باغ، مقبرہ جہانگیر، اور قلعہ لاہور شامل ہیں جو سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ عالمی معاشی بحران سے پہلے پاکستان میں سالانہ تقریباً پانچ (5) لاکھ سیاح آتے تھے۔ تاہم سال 2008ء سے پاکستان میں اندرونی غیریقینی صورتحال کی وجہ سے یہ تعداد کافی کم ہو گئی ہے۔ اکتوبر 2006ءمیں کشمیر کے زلزلے کے بعد رسالہ دی گارڈین نے پاکستان کے پانچ مقبول ترین سیاحتی مقامات کے نام سے ایک مضمون شائع کیا تاکہ پاکستان کی سیاحتی کی صنعت کی مدد کر سکے۔ یہ پانچ مقامات ٹیکسلا، لاہور، شاہراہ قراقرم، کریم آباد، اور جھیل سیف الملوک تہے۔ عالمی معاشی فورم کے سفر اور سیاحت کے مقابلے کی رپورٹ نے پاکستان کو مقبول ترین 25 فیصد سیاحتی مقامات کا اعزاز عالمی ورثہ کے مقامات کے طور پر مقرر کیا۔ سیاحتی مقامات کی پہنچ جنوب
ur_Arab
میں مینگروو جنگلات سے وادئ سندھ کی تہذیب کے موہنجو داڑو اور ہڑپہ جیسے 5000 سال پرانے شہروں تک ہے۔ خورد و نوش پاکستانی کھانے جنوبی ایشیا کے مختلف علاقائی کھانوں کا حسین امتزاج ہیں۔ پاکستانی کھانوں میں شمالی ھندوستانی، وسط ایشیائی، اور مشرق وسطیٰ کے کھانے شامل ہیں لیکن یہاں کے کھانوں میں گوشت کا استعمال زیادہ ہے۔ پاکستان میں اشیائے خورد و نوش کے نام بہت آسان ہیں۔ پاکستان میں ایک علاقے کے کھانے دوسرے علاقے کے کھانوں سے قدرے مختلف ہوتے ہیں جس سے اس ملک کی ثقافتی اور لسانی تنوع جھلکتی ہے۔ پنجاب اور سندھ کے کھانے مصالحےدار ہوتے ہیں جو جنوبی ایشیا کے کھانوں کی خاصیت ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے علاقوں کے کھانے مثلاً خیبر پختونخوا، بلوچستان، قبائیلی علاقہ جات، گلگت بلتستان اور کشمیر کے کھانے بھی اپنی اپنی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں اور ان پر بھی مختلف علاقائی رنگ غالب ہوتے ہیں۔ کھیل پاکستان میں کھیلے جانے والے بیشتر کھیلوں کا آغاز برطانیہ میں ہوا اور برطانویوں نے انہیں ہندوستان میں متعارف کرایا۔ ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے۔ اس نے 1960ء، 1968ء، اور 1984ء میں کھیلے گئے اولمپک کھیلوں میں تین سونے کے طمغے حاصل کئے ہیں۔ پاکستان نے ہاکی کا عالمی کپ بھی چار بار جیتا ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ پاکستان نے ہاکی کا عالمی کپ 1971ء، 1978ء، 1982ء اور 1994ء میں جیتا ہے۔ تاہم، کرکٹ پاکستان کا سب سے زیادہ مشہور کھیل ہے۔ پاکستان کرکٹ کے ٹیم، جنہیں شاہین کہا جاتا ہے، نے 1992ء میں کرکٹ کا عالمی کپ جیتا تھا۔ 1999ءمیں شاھین دوسرے نمبر پر رہے۔ اور 1987ء اور 1996ء میں عالمی کپ کے مقابلے جزوی طور پر پاکستان میں ہوئے۔ پاکستان ٹی 20 قسم کے کھیل کے پہلے مقابلے میں دوسرے نمبر پر رہے جو سال 2007ء میں جنوبی افریقا میں کھیلا گیا تھا۔ اور سال 2009ء میں اسی قسم کے کھیل میں پہلے نمبر پر رہے اور عالمی کپ جیتا جو برطانیہ میں کھیلا گیا تھا۔ سال 2009ء کے مارچ کے مہینے میں دہشت گردوں نے سری لنکا کے کرکٹ ٹیم پر حملہ کر دیا جو پاکستان کے دورے پر لاہور میں موجود تھی اور اسی کے ساتھ پاکستان میں عالمی کرکٹ عارضی طور پر بند ہو گئی۔ تاہم چھ سالوں کے طویل انتظار کے بعد مئی 2015ء میں عالمی کرکٹ پاکستان میں اس وقت بحال ہوئی جب زمبابوے کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ تمام مقابلے سخت حفاظتی حصار میں لاہور میں ہوئے اور تمام مقابلوں
ur_Arab
کے لیے ٹکٹ سارے بک چکے تھے اور کرسیاں ساری بھری ہوئی تھیں۔ یہ ایک تاریخی کامیابی تھی۔ اس نے دوسری ٹیموں کے آنے کے لیے بھی راہ ہموار کر لی۔ ورزشی کھیلوں میں عبدالخالق نے سال 1954ء اور سال 1958ء کے ایشیائی کھیلوں میں حصہ لیا۔ اس نے 35 سونے کے طمغے اور 15 عالمی چاندی اور پیتل کے طمغے پاکستان کے لیے حاصل کئے۔ اسکواش میں پاکستان کے شہر پشاور سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی جہانگیر خان ہیں جن کو عالمی معیار کا کھلاڑی اور کھیلوں کی تاریخ میں عظیم کھلاڑی مانا جاتا ہے، اور ساتھ ہی جانشیر خان ہیں جنہوں نے عالمی اسکواش کے مقابلوں میں کئی بار پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ صحت عامہ دیگر انسانی بنیادی ضروریات کی ناپیدی اور انحطاط کے ساتھ ساتھ صحت عامہ کا شعبہ بھی پاکستان میں انتہائی تنزل کا شکار ہے۔ پاکستان میں رہنے والے ناقص غذا اور صفائی ستھرائی کی عدم دستیابی و غلاظت سے جنم لینے والے امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اچھا اور مناسب علاج درمیانے سے لیکر اعلیٰ طبقے کے ليے مخصوص ہے۔ سرکاری شفاخانے دنیا بھر کی تہذیب یافتہ اقوام میں اپنا ایک معیار رکھتے ہیں مگر پاکستان میں انکی حالت ابتر ہے۔ تعطيلات قومی چیزیں قومی دن – یوم پاکستان، 23 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ 23 مارچ 1940 کو قرار داد پاکستان منظور ہوئی اور اسی دن پاکستان کا پہلا آئین 1956ء میں منظور ہوا۔ قومی شاعر – حکیم الامت حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال قومی پرچم - اصل مضمون کے لیے دیکھیں قومی پرچم گہرا سبز رنگ جس پر ہلال اور پانچ کونوں والا ستارہ بنا ہوا ہے۔ جھنڈے میں شامل سبز رنگ مسلمانوں کی، سفید رنگ کی پٹی پاکستان میں آباد مختلف مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ قومی پرچم گیارہ اگست 1947ء کو لیاقت علی خان نے دستور ساز اسمبلی میں پیش کیا۔ قومی پھول - پاکستان کا قوی پھول چنبیلی (یاسمین) ہے۔ دیگر 45 پھولوں کے نام بھی جان سکتے ہیں۔ قومی پھل - پاکستان کا قومی پھل آم ہے۔ دیگر 45 پھلوں کے نام بھی جان سکتے ہیں۔ قومی لباس - شلوار قمیض، جناح کیپ، شیروانی (سردیوں میں) جانور – مارخور قومی جانور ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں پائے جانے والے منفرد جانور نیل گائے، چنکارہ، کالا ہرن، ہرن، چیتا، لومڑی، مارکوپولو بھیڑ، سبز کچھوا، نابینا ڈولفن، مگرمچھ ہیں۔ قومی پرندہ -
ur_Arab
پاکستان کا قومی پرندہ چکور ہے۔ قومی مشروب – گنے کا رس قومی کھانا - غیر سرکاری طور پر نہاری۔ قومی نعرہ - پاکستان کا مطلب کیا؟ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ یہ نعرہ مشہور شاعر اصغر سودائی نے 1944ء میں لگایا جو تحریک پاکستان کے دوران میں بہت جلد زبان زدوعام ہو گیا۔ (قابل اعتبار حوالہ درکار ہے) ان کا تعلق سیالکوٹ سے ہے۔ قومی ترانہ - قومی ترانے کے لیے دیکھیں مضمون قومی ترانہ ریاستی نشان ریاستی نشان درج ذیل نشانات پر مشتمل ہے۔ چاند اور ستارہ جو روایتی طور پر اسلام سے ریاست کی عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ چوکور شیلڈ جس میں ملک کی چار اہم صنعتوں کی علامت کندہ ہے۔ شیلڈ کے اردگرد پھول اور پتیاں بنی ہوئی ہیں جو وطن عزیز کے بھر پور ثقافتی ماحول کی عکاسی کرتی ہیں۔ علامت کے چاروں طرف بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کا قول۔۔۔ اتحاد، ایمان، نظم تحریر ہے۔ آبادیات آبادی پاکستان کی زیادہ تر آبادی ملک کی وسطی علاقوں میں ہے، ملک کے جنوب میں زیادہ آباد مقامات اکثر دریائے سندھ کے آس پاس پر واقع ہے جن میں سب سے زیادہ آبادی والا علاقہ کراچی ہے جو ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ بلحاظ سال آبادی اقوام متحدہ کی اعداد و شمار زبانیں پاکستان آپسی محبت اور اتحاد کا ایک اعلیٰ مثال ہے کیونکہ یہاں پہ مختلف علاقوں اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ متحد رہتے ہیں۔ جہاں پہ ہماری بہت سے زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے ایک ہماری قومی زبان اردو ہے۔ اس کے علاوہ چار صوبائی زبانیں اور بہت سے اور زبانیں بولی جاتی ہیں۔ پاکستان میں کئی زبانیں بولی، لکھی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 65 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ انگریزی پاکستان کی سرکاری زبان ہے، تمام معاہدے اور سرکاری کام انگریزی زبان میں ہی طے کیے جاتے ہیں، جبکہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہے۔ پاکستان کی صوبائی زبانوں میں پنجابی صوبہ پنجاب، پشتو صوبہ خیبر پختونخوا، سندھی صوبہ سندھ، بلوچی صوبہ بلوچستان اور شینا صوبہ گلگت بلتستان میں تسلیم شدہ زبانیں ہیں۔ پاکستان میں رائج دوسری زبانوں اور لہجوں میں، آیر، سرائیکی زبان، بدیشی، باگڑی، بلتی، بٹیری، بھایا، براہوی، بروشسکی، چلیسو، دامیڑی، دیہواری، دھاتکی، ڈوماکی، فارسی،
ur_Arab
دری، گواربتی، گھیرا، گوریا، گوورو، گجراتی، گوجری، گرگلا، ہزاراگی، ہندکو، جدگلی، جنداوڑا، کبوترا، کچھی، کالامی، کالاشہ، کلکوٹی، کامویری، کشمیری، کاٹی، کھیترانی، کھوار، انڈس کوہستانی، کولی (تین لہجے)، لہندا لاسی، لوارکی، مارواڑی، میمنی، اوڈ، اورمڑی، پوٹھواری، پھالولہ، سانسی، ساوی، شینا (دو لہجے)، توروالی، اوشوجو، واگھری، وخی، وانیسی اور یدغہ شامل ہیں۔ ان زبانوں میں بعض کو عالمی طور پر خطرے میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ ان زبانوں کو بولنے والوں کی تعداد نسبتاً نہایت قلیل رہ گئی ہے۔ وجود کے خطرات میں گھری یہ زبانیں زیادہ تر ہند فارس شاخ اور ہند یورپی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ پاکستان کے ضلع چترال کو دنیا کا کثیرالسانی خطہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس ضلع میں کل چودہ زبانیں بولی جاتی ہیں- تعلیم یافتگی تعلیمی ادارے بلحاظ زمرہ جات اہم شہر 2017ء کی مردم شماری کے مطابق، دو بڑے شہر ہیں، جن کی آبادی دس ملین سے زیادہ ہے، اور 100 شہر ہیں جن کی آبادی 100,000 یا اس سے زیادہ ہے۔ ان 100 شہروں میں سے 58 ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں، 22 سندھ میں، 11 خیبرپختونخوا میں، چھ بلوچستان میں، دو آزاد کشمیر میں، اور ایک اسلام آباد وفاقی دارالحکومت علاقہ میں واقع ہے۔ گلگت بلتستان نے ابھی تک 2017ء کی مردم شماری کے کوئی نتائج عوامی طور پر جاری نہیں کیے ہیں۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق گلگت بلتستان کا سب سے بڑا شہر گلگت تھا، جس کی آبادی 56,701 تھی۔ ڈویژنل دار الحکومت فہرست متعلقہ مضامین پاکستان فہرست متعلقہ مضامین پاکستان پاکستان کے صدر عسکریہ پاکستان پاکستان کے وزیراعظم پاکستان کی سیاسی جماعتیں پاکستان کے اضلاع پاکستان کے اخبار پاکستان کے ٹی وی چینل پاکستان کے نیشنل پارک قومی ترانہ اہم پاکستانی ایام محمد علی جناح محمد اقبال تحریک پاکستان قیام پاکستان مینار پاکستان قرارداد پاکستان نظریہ پاکستان آل انڈیا مسلم لیگ پاکستان کی بادشاہت فہرست پاکستان کے جزائر
ur_Arab
تاریخ جامع انسانی کے انفرادی و اجتماعی عمال و افعال اور کردار کا آئینہ دار ہے۔ تاریخ انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں گزشتہ نسلوں کے بیش بہا تجربات آئندہ نسلوں تک پہنچاتی ہے، تاکہ تمذن انسانی کا کارواں رواں دواں رہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ اس کے توسط سے افراد و قوم ماضی کے دریچے سے اپنے کردہ اور نا کردہ اعمال و افعال پر تنقیدی نظر ڈال کر اپنے حال و استقبال کو اپنے منشا و مرضی کے مطابق ڈھال سکے۔ (ڈاکٹر آفتاب اصغر، مقدمہ تاریخ مبارک شاہی۔ 21) تاريخ دان تاريخ دان مختلف جگہوں سے اپنی معلومات حاصل کرتے ہيں جن ميں پرانے نسخے، شہادتيں اور پرانی چيزوں کی تحقيق شامل ہے۔ البتہ مختلف ادوار ميں مختلف ذرائع معلومات کو اہميت دی گئی۔ تاریخ کا لفظ عربی زبان سے آیا ہے اور اپنی اساس میں اَرخ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دن (عرصہ / وقت وغیرہ) لکھنے کے ہوتے ہیں۔ تصور تاریخ اتنا ہی قدیم ہے کہ جتنا تصور زماں و مکاں۔ آغاز تمذن سے اب تک تاریخ نے کئی روپ دھارے ہیں۔ قصے کہانیوں سے شروع ہو کر آج تاریخ اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ اسے تمام علوم انسانی کی رواں دواں کہا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ اجتماع انسانی کے شعبے مین کوئی واقعہ پیش آتاہے وہ کسی نہ کسی طرح کل کی یا تاریخ گزشتہ سے مربوط ہوتا ہے، اس لیے یہ کہا جائے کہ تاریخ سب کچھ ہے اور سب کچھ تاریخ ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ (ڈاکٹر آفتاب اصغر، مقدمہ تاریخ مبارک شاہی۔ 21) نظریات اناتول قراش کے خیال میں تاریخ گزشتہ حادثات و اتفاقات کے تحریری بیان سے عبارت ہے۔ ای ایچ کار کی رائے میں تحقیق شدہ واقعات کے ایک سلسلے پر مشتمل ہے۔ کارل بیکر کے نزدیک اقوال و افعال کا علم ہے۔ سیلی کی رائے میں تاریخ گزشتہ سیاست اور گزشتہ سیاست موجودہ تایخ ہے۔ (ڈاکٹر آفتاب اصغر، مقدمہ تاریخ مبارک شاہی۔ 22) اطخاوی کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا علم ہے جس کاموضع انسان زماں و مکاں ہے، جس میں وہ زندگی بسر کرتا ہے۔ ابن خلدون کا کہنا ہے یہ ایک ایسا علم ہے جو کسی خاص عہد ملت کے حالات واقعات کو موضع بحث دیتاہے۔ ظہیرالدین مرغشی کے نزدیک یہ ایک ایسا علم ہے جو اگلے وقتوں کے بارے میں اطلاعات پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر محمد مکری کا قول ہے کہ تاریخ ایسا علم ہے جس میں کسی قوم یا فرد یا چیز کے گزشتہ حالات
ur_Arab
واقعات پر بحث کرتا ہے۔ آقائے مجید یکتائی کا کہنا ہے کہ اعصار و قرون کے ان احوال و حوادث کی آئینہ دار ہے، جو ماضی سے آگئی و مستقبل کے لیے تنبیہ کا باعث بنتے ہیں۔ (ڈاکٹر آفتاب اصغر، مقدمہ تاریخ مبارک شاہی۔22) حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کا نظریات میں کتنا ہی اختلاف ہو، مگر اس حد تک سب متفق ہیں کہ یہ ایک ایسا علم ہے جو عہد گزشتہ کے واقعات اور اُس زماں و مکاں کے بارے میں جس میں واقعات وقوع پزیر ہوئے ہیں، آئندہ نسلوں کو معلومات بہم پہنچاتا ہے۔ یہی وجہ ہے تاریخ اتنی قدیم ہے کہ جتنی تحریر۔ یہ اور بات ہے تاریخ کی ابتدا اساطیر یا دیومالائی کہانیوں سے شروع ہوئی۔ گو تاریخ اور اساطیر مین فرق ہے۔ تاریخ کے کردار حقیقی اور زمان اور مکان متعین و مشخص ہوتے ہیں۔ جب کہ اساطیر میں کردار مقوق الفطرت مسخ شدہ یا محض تخیل کی پیداوار اور زمان و مکان غیر متعین اور نامشخص ہوتے ہیں۔ (ڈاکٹر آفتاب اصغر، مقدمہ تاریخ مبارک شاہی۔ 22، 23) تاریخ کی ابتدا پروفیسر ہربرٹ اسپنر Hurbt Spenser اور گرانٹ ایلن Grant Ain کا کہنا ہے کہ ابتدا میں انسان صرف اپنے اسلاف کا شعور رکھتا تھا، وہ اسلاف کے حقیقی اور فرضی کارناموں سے واقف تھا اور ان کو یاد کرتا رہتا تھا۔ امتتداد زمانہ کے ساتھ ان اسلاف کی حقیقی شخصیتیں روایتوں کے انبار تلے دب گئیں۔ رفتہ رفتہ حقیقت پر خرافات کی اتنی تہ جم گئیں کہ لوگ اسلاف کی حقیقی شخصیتوں کو بھول گئے اور افسانوی شخصیتوں کو دیوتا سمجھ کر ان کی پوجا کرنے لگے۔ بہرحال اسلاف کی عظمتوں کے افسانوں نے دیوتا کا روپ دھار لیا ہو یا مظاہر قدرت کی فعالی اور صاحب ارادہ شخصیتوں کا تصور دیوتاؤں کے پیکر میں ڈھل گیا ہو، یہ حقیقت ہے کہ دیوتاؤں کی تخلق انسانی ذہن کی مرحون منت ہے، اگرچہ یہ تخلق کا عمل کئی مدارج سے گذرا ہے۔ (سبط حسن، ماضی کے مزار۔ 103، 105) مورخ کے فرائض ابن خلدون کا کہنا ہے کہ مورخ کے لیے ضروری ہے کہ وہ محض نقال نہ ہو بلکہ تاریخ سے متعلقہ تمام علوم کو جانتا ہو۔ اسے اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ حکمرانی و سیاست کے قواعد کیا ہیں؟ موجودات کی طبعیت کس ڈھب کی ہے؟ مختلف قوموں کا مزاج
ur_Arab
کیا ہے؟ زمان ومکان کی بوقلمونی سے احوال و عوائد کے گوشے کیوں کر متاثر ہوتے ہیں؟ مختلف مذاہب میں فرق کیا اور حدود اختلافات کیا ہیں اور کہاں ان کے ڈانڈے ملتے ہیں؟ اس طرح یہ بھی جاننا حال کیا ہے اور اس میں اور ماضی اور کیا کیا چیزیں ملتی جلتی ہیں اور کن نکات پر اختلافات ہیں؟ تاکہ جو موجود ہیں ان کی مناسبتوں اور مشا بہتوں سے ماضی کے دندھلکوں کی تشریح کی جائے۔ جو لوگ ان نزاکتوں کو سمجھ نہیں سکتے ہیں، وہ اس حقیقت کو نہیں جانتے ہیں کہ تاریخ کا ہر واقع ایک منفرد واقع نہیں ہوتا ہے، بلکہ اپنے اندر کئی پہلو رکھتا ہے اور کئی سمتوں سے اس کی حقانیت پر روشنی پڑھ سکتی ہے، وہ ہولناک غلطیوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں اور ایسے لاطائل قصے تاریخ کے باب میں پیش کرتے ہیں، جو قطعی مہمل اور مضحکہ خیز ہوتے ہیں۔ (مولانا محمد حنیف ندوی۔ افکار ابن خلدون، 75) مورخ کی ذمہ داری مزید ابن خلدون کا کہنا ہے کہ ایک مورخ کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ تاریخ میں اگرچہ اس زمانے کے مخصوص لوگوں کا ذکر ہوتا ہے، متعین واقعات اور بڑے بڑے حوادث کی تفصیلات ہی بیان کی جاتی ہیں، تاہم اس عصر کے تمام حالات جغرافیہ اور جزئیات اس نوعیت کی ہوسکتی ہیں کہ جن سے ان کی توضیح ہو سکے۔ اس لیے ایک محقق کو ان حالات کو نظر انداز نہیں کرناچاہیے اور قدم انہی کی روشنی میں بڑھانا چاہیے، ورنہ لغزش کا سخت اندیشہ ہے۔ (مولانا محمد حنیف ندوی۔ افکار ابن خلدون، 75) ابن خلدون مزید مسعودی کے حوالے سے لکھتا ہے کہ قومیں مختلف سیاسی کروٹیں بدلتی ہیں اور ایک حالت پر قائم نہیں رہتی ہیں، ان کے مزاج عقائد اور رسمیات ان تبدیلوں سے اتنے متاثر ہوتے ہیں کہ گویا ایک نئی قوم معرض وجود میں آگئی۔ اس لیے ایک مورخ کو اس بات کا بھی خیال رکھنا پڑے گا کہ کسی خاص حکومت کی تبدیلی سے قوم میں کیا کیا تغیرات رونما ہوتے ہیں اور عرف و اصطلاع کے کون کون سے قانون تغیر و تبدل کی نذر ہوچکے ہوتے ہیں۔ تاریخی واقعات پیش کرنے میں ان تقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھنا جائے اور ان اصولوں کی روشنی میں چھان نہیں کی جائے، تو امکان ہے کہ غلطیوں میں الجھ کر غیر صحیح اور غیر معقول افسانوں کو پیش کیا جائے گا۔ کیوں کہ انسانی فظرت کی یہ
ur_Arab
عام کمزوری ہے، وہ غیر معمولی باتوں کو ماننے میں بڑی دلچسپی اور لگاؤ کا اظہار کرتا ہے اور وہ اس سے لاپروا اور بے خطر ان قصوں کو بیان کرتا ہے کہ حقیقت کیا ہے۔ بہر کیف جھوٹے قصے اور عجیب مضحک داستانیں اس وقت تاریخ کے اوراق کی زینت بنتی ہیں کہ مورخ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس نہیں کرتا ہے اور وہ اس حقیقت پر غور نہیں کرتا ہے کہ جو بات بیان کی گئی ہے اس کے تقاضے بھی ہیں یا نہیں اور وہ اس کی تکذیب کرتے ہیں یاتصدیق۔ (مولانا محمد حنیف ندوی۔ افکار ابن خلدون، 79) مورخ کی لغزش مزید ابن خلون کا کہنا ہے کہ ان اسباب کے علاوہ جو بیان کیے گئے ہیں کچھ اور عوامل بھی ہیں، جن کو وضع اور گھڑنت میں براہ راست دخل ہے۔ مثلاََ ایک بڑا سبب جعل وضع کا یہ ہو سکتا ہے کہ مورخ پہلے سے ایک عصبیت رکھتا ہو اور کسی خاص گروہ سے وابستہ ہو، اس کی کوشش حالات واقعات کے سلسلے میں ہمیشہ یہی رہے گی کہ کس طرح تاریخ سے اس کی رائے کی تائید ہو سکے اور دوسروں کی تردید، اس کی نظر واقعات و حلات کے متعلق بے لاگ اور منصفانہ نہیں ہوسکتی ہے۔ ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ناقل کو یہ نہ معلوم ہو کہ خبر کے پیچھے کون سا مقصد پنہاں ہے اور خبر کو جیسا کہ اس کے گمان میں ہے محض اٹکل سے بیان کر دے۔ تیسرا اہم سب یہ ہے کہ تطبیق احوال کی صلاحیت نہ ہو اور ناقل یہ نہ جان سکتا ہو کہ واقعات کی تہ میں تضع اور بناوٹ کی کارفرمائیوں کا کتنا حصہ ہے۔ پانچواں سبب امرا و سلاطین کے قرب کی خواہش۔ اس راہ میں کذب و اخترا کو دخل کا اکثر موقع ملا ہے۔ (مولانا محمد حنیف ندوی۔ افکار ابن خلدون، 75 تا79) تاريخ کی قسم بندی تاريخ ايک بہت وسيع موضوع ہے، اس لیے اس کی کئی طرح سے قسم بندی کی گئی ہے۔ علاقائی قسم بندی ایشیا يورپ امريکہ افریقا آسٹریلیا ادواری قسم بندی دور صدی عشرہ سال جامعاتی قسم بندی دور قديم کی تاريخ امريکہ کی تاريخ تاريخ يورپ تاريخ افريقہ مشرق وسطی کی تاريخ تاريخ ہند ايشيا کی تاريخ آسٹريليا کا تاريخ اسلامی تاريخ ديگر قسمبندياں تاريخ کا فلسفہ علوم کی تاريخ فنون کی تاريخ ادب کی تاريخ طب کی تاريخ فلسفے کی تاريخ موجودہ ممالک کی تاريخ مذاہب کی تاريخ تاريخدانی
ur_Arab
لسانيات ايک ايسا مضمون ہے جس ميں انسانی زبانوں کا مطالعہ کيا جاتا ہے۔ زبانوں کی موجودہ صورت کا مطالعہ کيا جاتا ہے۔ زبانوں ميں وقت کے ساتھ ساتھ ہونے والی تبديليوں کا مطالعہ کيا جاتا ہے۔ مختلف زبانوں کی آپس ميں مشابہت کے بارے ميں مطالعہ کيا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس چيز کا بھی مطالعہ کيا جاتا ہے کہ زبانوں کا اس دنيا کی ديگر چيزوں کے ساتھ کيا تعلق ہے۔ مزید دیکھیے زبانیں لہجہ (لسانيات) اردو ف کی بولی علم ادراک لسان معاشرتی علوم
ur_Arab
اُردُو برصغیر کی معیاری زبانوں میں سے ایک ہے۔ یہ پاکستان کی قومی اور رابطہ عامہ کی زبان ہے، جبکہ بھارت کی چھ ریاستوں کی دفتری زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ آئین ہند کے مطابق اسے 22 دفتری شناخت شدہ زبانوں میں شامل کیا جا چکا ہے۔ 2001ء کی مردم شماری کے مطابق اردو کو بطور مادری زبان بھارت میں 5.01% فیصد لوگ بولتے ہیں اور اس لحاظ سے ہی بھارت کی چھٹی بڑی زبان ہے جبکہ پاکستان میں اسے بطور مادری زبان 7.59% فیصد لوگ استعمال کرتے ہیں، یہ پاکستان کی پانچویں بڑی زبان ہے۔ اردو تاریخی طور پر ہندوستان کی مسلم آبادی سے جڑی ہے۔ زبانِ اردو کو پہچان و ترقی اس وقت ملی جب برطانوی دور میں انگریز حکمرانوں نے اسے فارسی کی بجائے انگریزی کے ساتھ شمالی ہندوستان کے علاقوں اور جموں و کشمیر میں اسے 1846ء اور پنجاب میں 1849ء میں بطور دفتری زبان نافذ کیا۔ اس کے علاوہ خلیجی، یورپی، ایشیائی اور امریکی علاقوں میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے جو بنیادی طور پر جنوبی ایشیاء سے کوچ کرنے والے اہلِ اردو ہیں۔ 1999ء کے اعداد و شمار کے مطابق اردو زبان کے مجموعی متکلمین کی تعداد دس کروڑ ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کی نویں بڑی زبان ہے۔ اردو زبان کو کئی ہندوستانی ریاستوں میں سرکاری حیثیت بھی حاصل ہے۔ نیپال میں، اردو ایک رجسٹرڈ علاقائی بولی ہے اور جنوبی افریقہ میں یہ آئین میں ایک محفوظ زبان ہے۔ یہ افغانستان اور بنگلہ دیش میں اقلیتی زبان کے طور پر بھی بولی جاتی ہے، جس کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں ہے۔ 1837ء میں، اردو برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرکاری زبان بن گئی، کمپنی کے دور میں پورے شمالی ہندوستان میں فارسی کی جگہ لی گئی۔ فارسی اس وقت تک مختلف ہند-اسلامی سلطنتوں کی درباری زبان کے طور پر کام کرتی تھی۔ یورپی نوآبادیاتی دور میں مذہبی، سماجی اور سیاسی عوامل پیدا ہوئے جنہوں نے اردو اور ہندی کے درمیان فرق کیا، جس کی وجہ سے ہندی-اردو تنازعہ شروع ہوا ۔ اردو 18ویں صدی میں ایک ادبی زبان بن گئی اور اسی طرح کی دو معیاری شکلیں دہلی اور لکھنؤ میں وجود میں آئیں۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد سے پاکستانی شہر کراچی میں ایک تیسرا معیار پیدا ہوا ہے۔ دکنی ، ایک پرانی شکل جو دکن میں استعمال ہوتی تھی، سولہویں صدی تک دکن سلاطین کی درباری زبان بن گئی۔ اُردو کا بعض اوقات ہندی کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے۔ ا
ur_Arab
ُردو اور ہندی میں بُنیادی فرق یہ ہے کہ اُردو نستعلیق رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور عربی و فارسی الفاظ استعمال کرتی ہے۔ جبکہ ہندی زبان دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور سنسکرت الفاظ زیادہ استعمال کرتی ہے۔ کچھ ماہرینِ لسانیات اُردو اور ہندی کو ایک ہی زبان کی دو معیاری صورتیں گردانتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندی، اُردو زبان سے نکلی ہے۔ اسی طرح اگر اردو اور ہندی زبان کو ایک سمجھا جائے تو یہ دنیا کی چوتھی بڑی زبان ہے۔ اردو زبان دنیا کی نئی زبانوں میں سے ہونے کے باوجود اپنے پاس معیاری اور وسیع ذخیرہ ادب رکھتی ہے۔ خاص کر جنوبی ایشیائی زبانوں میں اردو اپنی شاعری کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ تسمیہ اردو کا نام سب سے پہلے شاعر غلام ہمدانی مصحفی نے 1780ء کے آس پاس ہندوستانی زبان کے لیے استعمال کیا تھا حالانکہ اس نے خود بھی اپنی شاعری میں زبان کی تعریف کے لیے ہندوی اصطلاح استعمال کی تھی۔ اردو کا مطلب ترک زبان میں فوج ہے۔ 18ویں صدی کے آخر میں، اسے کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس کا مطلب بلند کیمپ کی زبان ہے ۔ پہلے اسے ہندوی، ہندی اور ہندوستانی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ تاریخ اردو ہندی زبان کی طرح فارسی، عربی، ترک زبان کی ایک قسم ہے۔ یہ شورسینی زبان (یہ زبان وسطی ہند آریائی زبان تھی جو موجودہ کئی زبانوں کی بنیاد سمجھی جاتی ہے، ان میں پنجابی زبان بھی شامل ہے) کی ذیلی قسم کے طور پر اپ بھرنش سے قرون وسطٰی (چھٹی سے تیرھویں صدی) کے درمیان وجود میں آئی۔ 13ویں صدی سے 19ویں صدی کے آخر تک اردو زبان کو بیک وقت ہندی، ہندوستانی اور ہندوی کہا جاتا تھا۔ اگرچہ لفظ اردو بذات خود ترک زبان کے لفظ اوردو (لشکر، فوج) یا اوردا سے نکلا ہے، اسی سے انگریزی لفظ horde کا ظہور ہوا، تاہم ترک زبان سے اردو میں کم ہی الفاظ آئے ہیں۔ عرب اور ترک الفاظ اردو میں پہنچ کر فارسی قسم کے بن گئے ہیں، جیسے ة کو اکثر اوقات ہ میں بدل دیا جاتا ہے۔ مثلاً عربی تائے مربوطہ (ة) کو (ہ) یا (ت) میں بدل دیا جاتا ہے۔ بھلے ہی آج اردو کو ایک مستقل زبان کی شناخت حاصل ہے؛ لیکن عظیم اردو قلمکاروں نے اُنیسویں صدی کی کچھ ابتدائی دہائیوں تک اپنی زبان کو ہندی
ur_Arab
یا ہندوی کی شکل میں ظاہر کرتے رہے ہیں۔ جیسے غلام حمدان مصحفی نے اپنی ایک شاعری میں لکھا ہے: - اور شاعر مير تقی میر نے کہا ہے: اردو زبان کو ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ خاص کیا جاتا ہے اور اسی حوالے سے کئی نظریات بھی قائم کیے گئے ہیں۔ ممتاز محقق حافظ محمود شیرانی کے نزدیک یہ زبان محمود غزنوی کے حملہ ہندوستان کے ادوار میں پنجاب میں پیدا ہوئی، جب فارسی بولنے والے سپاہی پنجاب میں بس گئے، نیز ان کے نزدیک یہ فارسی متکلمین دہلی فتح کرنے سے قبل دو سو سال تک وہیں آباد رہے، یوں پنجابی اور فارسی زبانوں کے اختلاط نے اردو کو جنم دیا، پھر ایک آدھ صدی بعد جب اس نئی زبان کا آدھا گندھا خمیر دہلی پہنچا تب وہاں اس نے مکمل زبان کی صورت اختیار کی، اس حوالے سے انہوں نے پنجابی اور اردو زبان میں کئی مماثلتیں بھی پیش کی ہیں۔ شیرانی کے اسی نظریہ کو پنجاب میں اردو نامی مقالے میں لکھا گیا، جس نے اردو زبان دانوں میں کافی شہرت پائی اور اسی کو دیکھ کر بہت سے محققین نے اردو کے آغاز کو مسلمانوں کی آمد سے جوڑنا شروع کر دیا، اس طرح "دکن میں اردو"، "گجرات میں اردو"، "سندھ میں اردو"، "بنگال میں اردو "حتیٰ کہ "بلوچستان میں اردو" کے نظریات بھی سامنے آنے لگے۔ (حقیقتاً شیرانی سے قبل بھی سنیت کمار چترجی، محی الدین قادری زور جیسے بعض محققین اردو پنجابی تعلق کے بارے میں ایسے خیالات رکھتے تھے، البتہ اسے ثابت کرنے میں وہ دوسروں سے بازی لے گئے) حافظ شیرانی کے نظریہ کی مخالفت کرنے والوں میں مسعود حسین خان اور سبزواری جیسے محققین شامل ہیں، جنہوں نے ان کے نظریے کو غلط ثابت کیا۔ برطانوی راج میں فارسی کی بجائے ہندوستانی کو فارسی رسم الخط میں لکھا جاتا تھا اور ہندو مسلم دونوں اس پر عمل کرتے تھے۔ لفظ اردو کو شاعر غلام ہمدانی مصحفی نے 1780ء کے آس پاس سب سے پہلے استعمال کیا تھا۔ انہوں نے خود اپنی شاعری میں زبان کی تعریف کے لئے ہندوی لفظ بھی استعمال کیا۔ تیرہویں سے اٹھارویں صدی تک اردو کو عام طور پر ہندی ہی کے نام سے پکارا جاتا رہا۔ اسی طرح اس زبان کے کئی دوسرے نام بھی تھے، جیسے ہندوی، ریختہ یا دہلوی۔ اردو اسی طرح علاقائی زبان بنی رہی، پھر 1837ء میں فارسی کی بجائے اسے انگریزی کے ساتھ دفتری زبان کا درجہ
ur_Arab
دیا گیا۔ اردو زبان کو برطانوی دور میں انگریزوں نے ترقی دی، تاکہ فارسی کی اہمیت کو ختم کیا جا سکے۔ اس وجہ سے شمال مشرقی ہندوستان کے ہندوؤں میں تحریک اٹھی کہ فارسی رسم الخط کی بجائے اس زبان کو مقامی دیوناگری رسم الخط میں لکھا جانا چاہیے۔ نتیجتاً ہندوستانی کی نئی قسم ہندی کی ایجاد ہوئی اور اس نے 1881ء میں بہار میں نافذ ہندوستانی کی جگہ لے لی۔ اس طرح اس مسئلہ نے فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہندوستانی کو دو زبانوں اردو (برائے مسلم) اور ہندی (برائے ہندو) میں تقسیم کر دیا۔ اور اسی فرق نے بعد میں ہندوستان کو دو حصوں بھارت اور پاکستان میں تقسیم کرنے میں اہم کردار ادا کیا (اگرچہ تقسیم سے پہلے اور بعد میں بھی بہت سے ہندو شعرا و مصنفین اردو زبان سے جڑے رہے، جن میں معروف منشی پریم چند، گلزار، گوپی چند نارنگ اور آزاد وغیرہ شامل ہیں۔) ابتدائی تاریخ ہندوستان کے دہلی کے علاقے میں مقامی زبان کھوری بولی تھی، جس کی ابتدائی شکل پرانی ہندی (یا ہندوی) کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس کا تعلق وسطی ہند آریائی زبانوں کے مغربی ہندی زبان سے ہے۔ دہلی جیسے شہروں میں، قدیم ہندی اور فارسی کااثر و رسوخ تھا اور اسے "ہندی" اور بعد میں "ہندوستانی" بھی کہا جانے لگا۔ ہندوی کی ایک ابتدائی ادبی روایت کی بنیاد امیر خسرو نے 13ویں صدی کے آخر میں رکھی تھی۔ دکن کی فتح کے بعد، اور اس کے بعد عظیم مسلم خاندانوں کی جنوب میں ہجرت کے بعد، زبان کی ایک شکل قرون وسطی کے ہندوستان میں شاعری کے طور پر پروان چڑھی۔ اور اسے دکنی کے نام سے جانا جاتا ہے، جس میں تیلگو زبان اور مراٹھی زبان کے الفاظ شامل ہیں۔ 13ویں صدی سے 18ویں صدی کے آخر تک؛ جو زبان اب اردو کے نام سے جانی جاتی ہے اسے ہندی ، ہندوی ، ہندوستانی ، دہلوی ، لاہوری ، اور لشکری کہا جاتا تھا۔ دہلی سلطنت نے فارسی کو ہندوستان میں اپنی سرکاری زبان کے طور پر قائم کیا، یہ پالیسی مغل سلطنت کی طرف سے جاری رہی، جس نے 16 ویں سے 18 ویں صدی تک شمالی جنوبی ایشیا کے بیشتر حصوں میں توسیع کی اور ہندوستانی پر فارسی اثر کو مضبوط کیا۔ خان آرزو کے نوادر الفاز کے مطابق، "زبانِ اردو شاہی" کو عالمگیر کے زمانے میں خاص اہمیت حاصل تھی۔ 1700ء کی دہائی کے اوائل میں اورنگ زیب کے دور
ur_Arab
حکومت کے اختتام تک، دہلی کے آس پاس کی عام زبان کو زبانِ اردو کہا جانے لگا، یہ نام ترک زبان کے لفظ اوردو (فوج) یا اوردا سے ماخوذ ہے اور کہا جاتا ہے۔ "کیمپ کی زبان" کے طور پر پیدا ہوا ہے، یا زبانِ اردو کا مطلب ہے: "اونچے کیمپوں کی زبان" یا مقامی طور پر "لشکری زبان" کا مطلب ہے " فوج کی زبان"؛ اگرچہ اردو کی اصطلاح مختلف ہے۔ اس وقت کے معنی یہ ریکارڈ کیا گیا ہے کہ اورنگ زیب ہندوی زبان میں بولتا تھا، جو غالباً فارسی زبان میں تھی، کیونکہ اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ ہندوی اس دور میں فارسی رسم الخط میں لکھی گئی تھی۔ اس عرصے کے دوران اردو کو "مورس" کہا جاتا تھا، جس کا مطلب صرف مسلمان تھا، یورپی مصنفین نے جان اوونگٹن نے 1689ء میں لکھا: موروں کی زبان ہندوستان کے قدیم اصلی باشندوں سے مختلف ہے لیکن اپنے کرداروں کے لیے ان غیر قوموں کی پابند ہے۔ کیونکہ اگرچہ مورز بولی اپنے لیے مخصوص ہے، پھر بھی اس کے اظہار کے لیے خطوط سے محروم ہے۔ اور اس لیے، اپنی مادری زبان میں اپنی تمام تحریروں میں، وہ اپنے خطوط ہیتھنز، یا فارسیوں، یا دیگر اقوام سے مستعار لیتے ہیں۔1715 میں ریختہ میں ایک مکمل ادبی دیوان نواب صدرالدین خان نے لکھا۔ ایک اردو فارسی لغت خان آرزو نے 1751ء میں احمد شاہ بہادر کے دور میں لکھی تھی۔ اردو کا نام سب سے پہلے شاعر غلام ہمدانی مصحفی نے 1780ء کے آس پاس متعارف کرایا تھا ایک ادبی زبان کے طور پر اردو نے درباری، اشرافیہ کے ماحول میں شکل اختیار کی۔ جبکہ اردو نے مقامی ہندوستانی بولی کھڑ بولی کی گرامر اور بنیادی ہند آریائی الفاظ کو برقرار رکھا، اس نے نستعلیق تحریری نظام کو اپنایا – جسے فارسی خطاطی کے انداز کے طور پر تیار کیا گیا تھا۔ دیگر تاریخی نام اردو زبان کی پوری تاریخ میں، اردو کو کئی دوسرے ناموں سے بھی جانا گیا ہے: ہندی، ہندوی، ریختہ، اردو-ملا، دکھینی ، مورس اور دہلوی وغیرہ۔ 1773 میں سوئس فرانسیسی سپاہی اینٹون پولیئر نے نوٹ کیا کہ انگریزوں نے اردو کے لیے "مورس" کا نام استعمال کرنا پسند کیا:مجھے ہندوستان کی عام زبان کے بارے میں گہرا علم ہے، جسے انگریز مور
ur_Arab
س کہتے ہیں اور اس سرزمین کے باشندے ہیں ۔اشرف جہانگیر سمنانی جیسے صوفی مصنفین کی کئی تخلیقات نے اردو زبان کے لیے اسی طرح کے نام استعمال کیے ہیں۔ شاہ عبدالقادر رائے پوری پہلے شخص تھے جنہوں نے قرآن کا اردو میں ترجمہ کیا۔ شاہجہاں کے زمانے میں دارالحکومت کو دہلی منتقل کر دیا گیا اور اس کا نام شاہجہان آباد رکھا گیا اور اس قصبے کے بازار کا نام اردوئے معلیٰ رکھا گیا۔ نوآبادیاتی دور میں اردو نوآبادیاتی انتظامیہ میں اردو کو معیاری بنانے سے پہلے، برطانوی افسران اکثر اس زبان کو "مُور" کہتے تھے۔ جان گلکرسٹ برطانوی ہندوستان میں پہلے شخص تھے جنہوں نے اردو پر ایک منظم مطالعہ شروع کیا اور "ہندوستانی" کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کی جسے یورپیوں کی اکثریت "مُور" کہتی تھی۔ بعد میں برطانوی پالیسیوں کے ذریعے نوآبادیاتی ہندوستان میں اردو کو فروغ دیا گیا تاکہ فارسی پر سابقہ زور کا مقابلہ کیا جا سکے۔ نوآبادیاتی ہندوستان میں، "انیسویں صدی میں متحدہ صوبوں میں عام مسلمان اور ہندو یکساں طور پر ایک ہی زبان بولتے تھے، یعنی ہندوستانی، خواہ اس نام سے پکارا جائے یا ہندی، اردو، یا برج یا اودھی جیسی علاقائی بولیوں میں سے ایک۔" مسلم برادریوں کے اشراف کے ساتھ ساتھ ہندو اشراف کی ایک اقلیت، جیسا کہ ہندو نسل کے منشی، نے عدالتوں اور سرکاری دفاتر میں فارسی عربی رسم الخط میں زبان لکھی، حالانکہ ہندو بعض ادبیات میں دیوناگری رسم الخط کو استعمال کرتے رہے۔ اور مذہبی سیاق و سباق۔ 19ویں صدی کے آخر تک، لوگ اردو اور ہندی کو دو الگ الگ زبانوں کے طور پر نہیں دیکھتے تھے، حالانکہ شہری علاقوں میں، معیاری ہندستانی زبان کو تیزی سے اردو کہا جاتا تھا اور فارسی عربی رسم الخط میں لکھا جاتا تھا۔ اردو اور انگریزی نے 1837ء میں ہندوستان کے شمالی حصوں میں فارسی کو سرکاری زبانوں کے طور پر بدل دیا نوآبادیاتی ہندوستانی اسلامی اسکولوں میں، مسلمانوں کو ہند اسلامی تہذیب کی زبانوں کے طور پر فارسی اور عربی پڑھائی جاتی تھی۔ انگریزوں نے ہندوستانی مسلمانوں میں خواندگی کو فروغ دینے اور انہیں سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کی طرف راغب کرنے کے لیے ان سرکاری تعلیمی اداروں میں فارسی عربی رسم الخط میں لکھی ہوئی اردو پڑھانا شروع کی اور اس وقت کے بعد ہندوستانی مسلمانوں میں اردو کو بطور خاص نظر آنے لگا۔ شمال مغربی ہندوستان میں ہندوؤں نے، آریہ سماج کے تحت
ur_Arab
فارسی عربی رسم الخط کے استعمال کے خلاف احتجاج کیا اور دلیل دی کہ زبان کو مقامی دیوناگری رسم الخط میں لکھا جانا چاہیے، جس نے دیوناگری میں لکھی گئی ہندی کے استعمال کو جنم دیا۔ انجمن اسلامیہ لاہور دیوناگری رسم الخط میں ہندی اور فارسی-عربی رسم الخط میں لکھی گئی اردو نے مسلمانوں کے لیے "اردو" اور ہندوؤں کے لیے "ہندی" کی فرقہ وارانہ تقسیم قائم کی، یہ تقسیم نوآبادیاتی ہندوستان کی تقسیم کے بعد ہندوستان میں تقسیم ہو گئی۔ پاکستان کی آزادی کے بعد (حالانکہ ایسے ہندو شاعر ہیں جو اردو میں لکھتے رہتے ہیں، جن میں گوپی چند نارنگ اور گلزار ) تھے۔ تقسیم کے بعد اردو کو بمبئی پریزیڈنسی ، بنگال ، صوبہ اڑیسہ ، اور ریاست حیدرآباد کے نوآبادیاتی ہندوستانی مصنفین کے لیے بطور ادبی ذریعہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ 1973 میں، اردو کو پاکستان کی واحد قومی زبان کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔ 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے اور اس کے بعد لاکھوں افغان مہاجرین کی آمد کے بعد جو کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں، نے بھی ہندی-اردو میں عبور حاصل کر لیا ۔ ہندوستانی میڈیا خاص طور پر ہندی-اردو بالی ووڈ فلمیں اور گانے اردو زبان میں ہوتے ہیں۔ اردو کو پراکرت اور سنسکرت کے مقامی الفاظ سے پاک کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اور ہندی کو فارسی کے الفاظ سے پاک کرنے کی کوشش کی گئی ہے - نئی لغت بنیادی طور پر فارسی اور عربی سے اردو کے لیے اور سنسکرت سے ہندی سے نکالی گئی ہے۔ انگریزی نے ایک مشترکہ سرکاری زبان کے طور پر دونوں پر بہت زیادہ اثر ڈالا ہے۔ بروس (2021ء) کے مطابق، اٹھارویں صدی سے اردو نے انگریزی الفاظ کو ڈھال لیا ہے۔ پاکستان میں 1947ء میں اپنی آزادی کے بعد سے ایک اردو کی ہائپر فارسائزیشن کی طرف ایک تحریک ابھری جو ہندوستان میں ابھرنے والی ہائپر سنسکرت زدہ ہندی کی طرح "مصنوعی" ہے۔ ہندی کے بڑھتے ہوئے سنسکرتائزیشن سے کچھ حد تک اردو کی ہائپر فارسائزیشن کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ پاکستان میں روزمرہ کی بنیاد پر بولی جانے والی اردو کا انداز غیر جانبدار ہندستانی کے مشابہ ہے جو برصغیر کے شمالی حصے کی زبان ہے۔ 1977 کے بعد سے، صحافی خشونت سنگھ جیسے کچھ مبصرین نے اردو کو "مرتی ہوئی زبان" قرار دیا ہے
ur_Arab
، حالانکہ دیگر، جیسے کہ ہندوستانی شاعر اور مصنف گلزار (جو دونوں ممالک میں مقبول ہیں، نے اس تشخیص سے اختلاف کیا اور کہا کہ اردو ہندوستان میں "سب سے زندہ زبان ہے اور وقت کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے"۔ یہ رجحان دیگر زبانوں کے بولنے والوں کے مقابلے میں مقامی اردو بولنے والوں کی نسبتاً اور مطلق تعداد میں کمی سے متعلق ہے۔ اردو کے فارسی عربی رسم الخط، اردو ذخیرہ الفاظ اور گرامر کے بارے میں کم ہوتی ہوئی (جدید) علم؛ اردو سے اور ادب کے ترجمے اور نقل کا کردار۔ اردو کی بدلتی ثقافتی تصویر اور اردو بولنے والوں کے ساتھ منسلک سماجی و اقتصادی حیثیت (جس سے دونوں ممالک میں خاص طور پر ان کے روزگار کے مواقع پر منفی اثر پڑتا ہے)، اردو کی قانونی حیثیت اور حقیقی سیاسی حیثیت، اردو کو تعلیم کی زبان کے طور پر کتنا استعمال کیا جاتا ہے اور طلباء نے اعلیٰ تعلیم میں اس کا انتخاب کیا ہے، اور کس طرح اردو کی دیکھ بھال اور ترقی کو حکومتوں اور این جی اوز کی مالی اور ادارہ جاتی مدد حاصل ہے۔ ہندوستان میں، اگرچہ اردو صرف مسلمانوں کے ذریعہ استعمال نہیں کی جاتی ہے اور نہ کبھی ہوتی ہے (اور ہندی کبھی بھی خصوصی طور پر ہندوؤں کے ذریعہ نہیں)، جاری ہندی-اردو تنازعہ اور دونوں مذاہب کے ساتھ ہر زبان کی جدید ثقافتی وابستگی کی وجہ سے بہت کم اضافہ ہوا ہے۔ ہندو اردو استعمال کرتے ہیں۔ 20ویں صدی میں، ہندوستانی مسلمانوں نے بتدریج اجتماعی طور پر اردو کو اپنانا شروع کیا (مثال کے طور پر، ' بہار کی آزادی کے بعد کی مسلم سیاست نے اردو زبان کے ارد گرد ایک متحرک دیکھا جو اقلیتوں کو بااختیار بنانے کے آلے کے طور پر خاص طور پر کمزور سماجی و اقتصادی پس منظر سے آنے والی ہے'۔ )، لیکن 21 ویں صدی کے اوائل میں ہندوستانی مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی نے سماجی و اقتصادی عوامل کی وجہ سے ہندی کو تبدیل کرنا شروع کیا، جیسے کہ ہندوستان کے بیشتر حصوں میں اردو کو تدریسی زبان کے طور پر چھوڑ دیا گیا، ہندوستان میں اردو بولنے والوں کی تعداد 2001ء اور 2011ء کے درمیان 1.5 فیصد کم ہوئی (اس وقت 5.08 ملین اردو بولنے والے تھے)، خاص طور پر سب سے زیادہ اردو بولنے والی ریاستوں اتر پردیش (c. 8% سے 5%) اور بہار (c. 11.5% سے 8.5%)، حالانکہ ان دونوں ریاستوں میں مسلمانوں کی تعداد میں اسی عرصے میں اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ 21 ویں صدی کے
ur_Arab
اوائل کے ہندوستانی پاپ کلچر میں اردو اب بھی بہت نمایاں ہے، بالی ووڈ سے لے کر سوشل میڈیا تک، اردو رسم الخط اور اردو میں کتابوں کی اشاعت میں مسلسل کمی واقع ہوئی ہے۔ چونکہ پاکستانی حکومت نے تقسیم کے وقت اردو کو قومی زبان قرار دیا تھا، اس لیے ہندوستانی ریاست اور کچھ مذہبی قوم پرستوں نے جزوی طور پر اردو کو ایک 'غیر ملکی' زبان کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا۔ ہندوستان میں اردو کے حامی اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ اسے دیوناگری اور لاطینی رسم الخط ( رومن اردو ) میں لکھنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ وولہ بھائی آفتاب نے دلیل دی کہ اردو اصل میں روشن خیالی، ترقی اور آزادی کی ایک بہترین اشرافیہ زبان ہے، جس نے تحریک آزادی کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن 1947ء کی تقسیم کے بعد، جب اسے پاکستان کی قومی زبان کے طور پر منتخب کیا گیا، تو اسے بنیادی طور پر بنگالی سے سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑا (جو کل آبادی کا 56% بولی جاتی ہے، زیادہ تر مشرقی پاکستان میں۔ آزادی کے حامی دونوں اشرافیہ جنہوں نے پاکستان میں مسلم لیگ اور ہندوستان میں ہندو اکثریتی کانگریس پارٹی کی قیادت کی تھی، برطانوی نوآبادیاتی دور میں انگریزی میں تعلیم حاصل کی گئی تھی، اور انگریزی میں کام کرتے رہے اور اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم اسکولوں میں بھیجتے رہے۔ اگرچہ پاکستان میں اشرافیہ نے مختلف درجات کے ساتھ تعلیم کی اردوائزیشن کی کوششیں کی ہیں، لیکن سیاست، قانونی نظام، فوج اور معیشت کو اردو میں کرنے کے لیے کوئی بھی کامیاب کوشش نہیں کی گئی۔ یہاں تک کہ جنرل ضیاء الحق کی حکومت (1977-1988)، جو ایک متوسط پنجابی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ابتدائی طور پر پاکستانی معاشرے کی تیز اور مکمل اردوائزیشن کی بھرپور حمایت کرتے تھے (انہیں 'سرپرست اردو' کا اعزازی خطاب دیا گیا تھا۔ 1960ء کی دہائی سے، اردو پاکستان میں اردو زبان مذہبی اسلام پسندی اور سیاسی قومی قدامت پرستی (اور آخر کار نچلے اور نچلے متوسط طبقے، علاقائی زبانوں جیسے کہ پنجابی، سندھی اور بلوچی) کے ساتھ منسلک رہی ہے، جبکہ انگریزی۔ بین الاقوامی سطح پر سیکولر اور ترقی پسند بائیں بازو (اور آخر کار بالائی اور اعلیٰ متوسط طبقے) سے وابستہ رہی۔ آبادیاتی اور جغرافیائی تقسیم ہندوستان اور پاکستان میں اردو بولنے والوں کی تعداد 100 ملین سے زیادہ ہے۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں اردو بولنے والوں کی
ur_Arab
تعداد 50.8 ملین تھی (کل آبادی کا 4.34%)۔ 2006 میں پاکستان میں تقریباً 16 ملین برطانیہ، سعودی عرب، امریکہ اور بنگلہ دیش میں بولنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ تاہم، اردو زبان بہت وسیع پیمانے پر بولی جاتی ہے، جو دنیا میں مینڈارن چینی اور انگریزی کے بعد تیسری سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ نحو (گرامر)، اردو اور ہندی کے بنیادی الفاظ بنیادی طور پر یکساں ہیں - اس طرح ماہر لسانیات انہیں عام طور پر ایک زبان کے طور پر شمار کرتے ہیں، جب کہ کچھ کا کہنا ہے کہ انہیں سماجی و سیاسی وجوہات کی بنا پر دو مختلف زبانوں کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ دوسری زبانوں کے ساتھ تعامل کی وجہ سے، اردو جہاں کہیں بھی بولی جاتی ہے، بشمول پاکستان میں مقامی ہو گئی ہے۔ پاکستان میں اردو میں تبدیلیاں آئی ہیں اور اس نے علاقائی زبانوں کے بہت سے الفاظ کو شامل کیا ہے۔ اسی طرح، ہندوستان میں بولی جانے والی اردو کو کئی بولیوں میں بھی پہچانا جا سکتا ہے جیسے کہ لکھنؤ اور دہلی کی معیاری اردو کے ساتھ ساتھ جنوبی ہندوستان کی دکنی بولی وغیرہ۔ اردو کی ہندی سے مماثلت کی وجہ سے، دونوں زبانوں کے بولنے والے آسانی سے ایک دوسرے کو سمجھ سکتے ہیں۔ پاکستان میں اردو اردو پورے پاکستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہے، لیکن پاکستان کی صرف 7% آبادی اردو کو اپنی مادری زبان کے طور پر بولتی ہے۔ پاکستان میں پچیس سال سے زائد عرصے تک رہنے والے مختلف نسلی (جیسے پشتون ، تاجک ، ازبک ، ہزاروی اور ترکمان ) کے تقریباً تیس لاکھ افغان مہاجرین میں سے زیادہ تر اردو زبان بولتے ہیں۔ یہ مدرسوں میں اعلیٰ ثانوی جماعتوں تک لازمی مضمون کی طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ اِس نے ایسے کروڑوں اُردو بولنے والے پیدا کر دیئے ہیں، جن کی مادری زبان پنجابی، پشتو، سندھی، بلوچی، کشمیری، براہوی اور چترالی وغیرہ میں سے کوئی ایک ہوتی ہے۔ پاکستان میں اردو میں بہت سے اخبارات شائع ہوتے ہیں جن میں روزنامہ جنگ ، روزنامہ نوائے وقت اور روزنامہ ملت شامل ہیں۔ پاکستان میں کوئی بھی خطہ اردو کو اپنی مادری زبان کے طور پر استعمال نہیں کرتا۔ پاکستان کی پنجابی اشرافیہ ، نے اردو کو مادری زبان کے طور پر اپنایا ہے اور وہ اردو بولنے والے کے ساتھ ساتھ پنجابی شناخت دونوں سے پہچانے جاتے ہیں۔ اردو کو 1947ء میں پاکستان کی نئی ریاست کے لیے اتحاد
ur_Arab
کے طور پر منتخب کیا گیا تھا۔ یہ پاکستان کے تمام صوبوں/علاقوں میں لکھی، بولی اور استعمال کی جاتی ہے۔ انگریزی اور اردو دونوں میڈیم اسکولوں میں ہائر سیکنڈری اسکول تک اردو کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے، جس نے لاکھوں دوسری زبان کے بولنے والوں کو اردو سکھائی۔ جبکہ کچھ اردو الفاظ کو پاکستان کی علاقائی زبانوں نے بھی ضم کر لیا ہے۔ 8 ستمبر 2015ء بروز منگل کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے متعلقہ حکام کو فوری طور پر سرکاری دفاتر میں اردو بطور سرکاری زبان کے نفاذ کے لیے حکم دے رکھا ہے۔ بھارت بھارت میں، اردو ان جگہوں پر بولی جاتی ہے جہاں بڑی مسلم اقلیتیں یا شہر ہیں جو ماضی میں مسلم سلطنتوں کے علاقے تھے۔ ان میں اتر پردیش، مدھیہ پردیش، بہار، تلنگانہ، آندھرا پردیش، مہاراشٹرا (مراٹھواڑہ اور کونکنی)، کرناٹک اور حیدرآباد، لکھنؤ، دہلی، ملیرکوٹلہ، بریلی، میرٹھ، سہارنپور، مظفر نگر، روڑکی، مورا آباد، اعظم گڑھ، بجنور، نجیب آباد، رام پور، علی گڑھ، الہ آباد، گورکھپور، آگرہ، فیروز آباد، کانپور، بدایوں، بھوپال، حیدرآباد، اورنگ آباد، سمستی پور، بنگلور، کولکاتا، میسور، پٹنہ، دربھنگہ، مدھوا، سمبھوانی، گانو پور سہرسہ، سپول، مظفر پور، نالندہ، مونگیر، بھاگلپور، ارریہ، گلبرگہ، پربھنی، ناندیڑ، مالیگاؤں، بیدر، اجمیر اور احمد آباد جیسے شہر شامل ہیں۔ بھارت کے تقریباً 800 اضلاع میں ایک بہت بڑی تعداد میں اردو بولنے والی اقلیت میں ہیں۔ ارریہ ضلع، بہار میں، اردو بولنے والوں کی کثرت ہے اور حیدرآباد ضلع، تلنگانہ (43.35% تلگو بولنے والے اور 43.24% اردو بولنے والے) میں تقریباً کثرت ہے۔ کچھ بھارتی مسلم اسکول (مدرسہ) اردو کو پہلی زبان کے طور پر پڑھاتے ہیں اور ان کا اپنا نصاب اور امتحانات ہوتے ہیں۔ درحقیقت بالی ووڈ فلموں کی زبان میں فارسی اور عربی الفاظ کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے اور اس طرح اسے ایک لحاظ سے "اردو" سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر
ur_Arab
گانوں میں۔ بھارت میں 3,000 سے زیادہ اردو اشاعتیں ہیں جن میں 405 روزانہ اردو اخبارات بھی شامل ہیں۔ اخبارات جیسے کہ نشاط نیوز اردو، سہارا اردو، روزنامہ سالار، ہندوستان ایکسپریس، روزنامہ پاسبان، روزنامہ سیاست، روزنامہ منصف اور انقلاب بنگلور، مالیگاؤں، میسور، حیدرآباد، اور ممبئی میں شائع اور تقسیم کیے جاتے ہیں۔ دیگر ممالک جنوبی ایشیا سے باہر، یہ خلیج فارس کے ممالک کے بڑے شہری مراکز میں نقل مکانی کرنے والے جنوبی ایشیائی کارکنوں کی بڑی تعداد کے ذریعہ بولی جاتی ہے۔ برطانیہ ، ریاستہائے متحدہ، کینیڈا، جرمنی، نیوزی لینڈ، ناروے اور آسٹریلیا کے بڑے شہری مراکز میں بڑی تعداد میں تارکین وطن اور ان کے بچے بھی اردو بولتے ہیں۔ عربی کے ساتھ ساتھ، کاتالونیا میں سب سے زیادہ بولنے والے تارکین وطن کی زبانوں میں اردو بھی شامل ہے۔ سرکاری حیثیت پاکستان میں اُردو پاکستان کی قومی زبان ہے اور یہ پورے ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ یہ تعلیم، اَدب، دفتر، عدالت، وسیط اور دینی اِداروں میں مستعمل ہے۔ یہ ملک کی سماجی و ثقافتی میراث کا خزانہ ہے۔ اردو واحد قومی ہے، اور پاکستان کی دو سرکاری زبانوں میں سے ایک (انگریزی کے ساتھ)۔ یہ پورے ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے، جبکہ ریاستی زبانیں (مختلف خطوں میں بولی جانے والی زبانیں) صوبائی زبانیں ہیں، حالانکہ صرف 7.57% پاکستانی اپنی پہلی زبان کے طور پر اردو بولتے ہیں۔ اس کی سرکاری حیثیت کا مطلب یہ ہے کہ اردو دوسری یا تیسری زبان کے طور پر پورے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ یہ تعلیم، ادب، دفتر اور عدالت کے کاروبار میں استعمال ہوتا ہے، حالانکہ عملی طور پر حکومت کے اعلیٰ عہدوں میں اردو کے بجائے انگریزی استعمال ہوتی ہے۔ پاکستانی آئین کے آرٹیکل 251(1) میں کہا گیا ہے کہ اردو کو حکومت کی واحد زبان کے طور پر لاگو کیا جائے، حالانکہ پاکستانی حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر انگریزی سب سے زیادہ استعمال ہونے والی زبان ہے۔ بھارت میں اردو بھارت میں سرکاری طور پر تسلیم شدہ زبانوں میں سے ایک ہے اور اسے بھارتی ریاستوں آندھرا پردیش، اتر پردیش، بہار، جھارکھنڈ، مغربی بنگال، تلنگانہ اور قومی دارالحکومت دہلی میں "اضافی سرکاری زبان" کا درجہ بھی حاصل ہے۔ جموں و کشمیر کی پانچ سرکاری زبانوں میں سے ایک کے طور پر بھی ہے۔ بھارت نے 1969
ur_Arab
ء میں اردو کے فروغ کے لیے سرکاری بیورو قائم کیا، حالانکہ سنٹرل ہندی ڈائریکٹوریٹ اس سے قبل 1960ء میں قائم کیا گیا تھا، اور ہندی کی ترویج کے لیے بہتر مالی امداد اور زیادہ ترقی دی گئی ہے، جب کہ فروغ سے اردو کی حیثیت کو نقصان پہنچا ہے۔ اردو کی نجی بھارتی تنظیمیں جیسے انجمنِ طریقت اردو، دینی علمی کونسل اور اردو مصحف دستہ اردو کے استعمال اور تحفظ کو فروغ دیتی ہیں، انجمن نے کامیابی کے ساتھ ایک مہم کا آغاز کیا جس نے 1970ء کی دہائی میں بہار کی سرکاری زبان کے طور پر اردو کو دوبارہ متعارف کرایا۔ سابقہ جموں و کشمیر ریاست میں، کشمیر کے آئین کے سیکشن 145 میں کہا گیا ہے: "ریاست کی سرکاری زبان اردو ہوگی لیکن انگریزی زبان جب تک قانون سازی کے ذریعہ دوسری صورت میں فراہم نہیں کرتی، ریاست کے تمام سرکاری مقاصد کے لیے استعمال ہوتی رہے گی۔ وہ ریاست جس کے لیے اسے آئین کے آغاز سے فوراً پہلے استعمال کیا جا رہا تھا۔ بولیاں اردو میں چند تسلیم شدہ بولیاں ہیں، جن میں دکھنی، ڈھاکیہ، ریختہ، اور ماڈرن ورناکولر اردو (دہلی کے علاقے کی کوروی بولی بولی پر مبنی) شامل ہیں۔ دکنی، جنوبی ہندوستان کے علاقے دکن میں بولی جاتی ہے۔ یہ مراٹھی اور کوکنی زبان کے الفاظ کے مرکب کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی اور چغتائی کے الفاظ کے مرکب سے الگ ہے جو اردو کی معیاری بولی میں نہیں ملتی۔ دکھنی مہاراشٹر، تلنگانہ، آندھرا پردیش اور کرناٹک کے تمام حصوں میں بڑے پیمانے پر بولی جاتی ہے۔ اردو ہندوستان کے دوسرے حصوں کی طرح پڑھی اور لکھی جاتی ہے۔ ان ریاستوں میں اردو کے کئی روزنامے اور کئی ماہانہ رسائل شائع ہوتے ہیں۔ ڈھاکیہ اردو بنگلہ دیش کے پرانے ڈھاکہ شہر کی ایک بولی ہے جو مغل دور سے شروع ہوتی ہے۔ تاہم، اس کی مقبولیت، یہاں تک کہ مقامی بولنے والوں میں بھی، 20ویں صدی میں بنگالی زبان کی تحریک کے بعد سے بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔ اسے بنگلہ دیش کی حکومت نے سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی بولی جانے والی اردو اس بولی سے مختلف ہے۔ اردو کی وہ بولیاں جن کی شناخت کی گئی ہے، یہ ہیں: دکنی - اس کو دکھنی، دیسیا، مرگان نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ زبان دکن بھارت میں بولی جاتی ہے۔ مہ
ur_Arab
اراشٹر میں جائیں تو مراٹھی اور کونکنی زبانوں کا اثر ملے گا، آندھرا پردیش جائیں تو تیلگو کا اثر ملے گا۔ ریختہ کھری بولی: (کھڑی بولی) پاکستان میں اردو پر پشتو، پنجابی، سرائیکی، بلوچی، سندھی زبانوں کا اثر پایا جاتا ہے، مقامی زبانوں کے اثر کی وجہ سے اردو کے حروف تہجی عربی اور فارسی سے زیادہ ہیں، بنیادی طور پر پاکستان کی اردو پر فارسی اور عربی کا اثر نمایاں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ہندی کے ساتھ موازنہ معیاری اردو کا اکثر معیاری ہندی سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ اردو اور ہندی دونوں، جو ایک ہی زبان، ہندوستانی کے بنیادی الفاظ اور گرامر کا اشتراک کرتے ہیں۔ مذہبی انجمنوں کے علاوہ، اختلافات زیادہ تر معیاری شکلوں تک ہی محدود ہیں: معیاری اردو روایتی طور پر فارسی حروف تہجی کے نستعلیق انداز میں لکھی جاتی ہے اور فنی اور ادبی الفاظ کے ماخذ کے طور پر فارسی اور عربی پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے، جبکہ معیاری ہندی روایتی طور پر دیوناگری میں لکھی جاتی ہے اور سنسکرت سے عبارت ہے۔ تاہم، دونوں مقامی سنسکرت اور پراکرت سے ماخوذ الفاظ کی بنیادی ذخیرہ الفاظ اور عربی اور فارسی کے الفاظ کی ایک خاصی مقدار کا اشتراک کرتے ہیں، ماہرین لسانیات کے اتفاق کے ساتھ کہ وہ ایک ہی زبان کی دو معیاری شکلیں ہیں اور فرق پر غور کریں۔ سماجی لسانی ہونا؛ کچھ ان کی الگ الگ درجہ بندی کرتے ہیں۔ دونوں زبانوں کو اکثر ایک زبان (ہندوستانی یا ہندی-اردو) سمجھا جاتا ہے جس میں فارسی سے لے کر سنسکرت کے الفاظ تک کے تسلسل میں بولی جاتی ہے، لیکن اب وہ سیاست کی وجہ سے الفاظ میں زیادہ سے زیادہ مختلف ہیں۔ پرانی اردو لغات میں سنسکرت کے زیادہ تر الفاظ اب ہندی میں موجود ہیں۔ صوتیاتی سطح پر، دونوں زبانوں کے بولنے والے اپنے الفاظ کے انتخاب کی فارسی-عربی یا سنسکرت کی اصل سے اکثر واقف ہوتے ہیں، جو ان الفاظ کے تلفظ کو متاثر کرتا ہے۔ اردو بولنے والے اکثر سنسکرت کے الفاظ میں پائے جانے والے حرفوں کے جھرمٹ کو توڑنے کے لیے حرف داخل کرتے ہیں، لیکن عربی اور فارسی کے الفاظ میں ان کا صحیح تلفظ کریں گے۔ برٹش انڈیا کی تقسیم کے بعد سے مذہبی قوم پرستی اور فرقہ وارانہ کشیدگی کے نتیجے میں، ہندی اور اردو دونوں کے مقامی بولنے والے اکثر
ur_Arab
اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وہ الگ الگ زبانیں ہیں۔ اردو بولنے والے ممالک درج ذیل فہرست میں کچھ ممالک میں اردو بولنے والوں کی تعداد دکھائی گئی ہے۔ ذخیرہ الفاظ سید احمد دہلوی، 19ویں صدی کے ایک لغت نگار جنہوں نے فرہنگِ آصفیہ اردو لغت مرتب کی، اندازہ لگایا کہ 75% اردو الفاظ کی جڑیں سنسکرت اور پراکرت میں ہیں، اور تقریباً اردو کے 99% فعل کی جڑیں سنسکرت اور پراکرت میں ہیں۔ اردو نے فارسی سے الفاظ مستعار لیے ہیں اور کچھ حد تک عربی فارسی کے ذریعے، تقریباً 25% اردو کی ذخیرہ الفاظ کا 30% تک۔ چیپل ہل میں یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا کے ماہر لسانیات افروز تاج کی طرف سے بیان کردہ جدول اسی طرح ادبی اردو میں سنسکرت سے ماخوذ الفاظ کے فارسی ادھار کی مقدار کو 1:3 کے تناسب پر مشتمل بیان کرتا ہے۔"فارسیائزیشن کی طرف رجحان" 18ویں صدی میں اردو شاعروں کے دہلی اسکول سے شروع ہوا، حالانکہ دیگر مصنفین، جیسے میراجی ، نے زبان کی سنسکرت شکل میں لکھا۔ 1947 کے بعد سے پاکستان میں ہائپر فارسائزیشن کی طرف پیش قدمی جاری ہے، جسے ملک کے بیشتر مصنفین نے اپنایا ہے۔ اس طرح، کچھ اردو عبارتیں 70% فارسی-عربی قرضوں پر مشتمل ہو سکتی ہیں جس طرح کچھ فارسی متن میں 70% عربی الفاظ ہو سکتے ہیں۔ کچھ پاکستانی اردو بولنے والوں نے ہندوستانی تفریح کی نمائش کے نتیجے میں ہندی الفاظ کو اپنی تقریر میں شامل کیا ہے۔ ہندوستان میں ہندی سے اردو اتنی نہیں بدل گئی جتنی پاکستان میں ہے۔اردو میں زیادہ تر مستعار الفاظ اسم اور صفت ہیں۔ عربی اصل کے بہت سے الفاظ فارسی کے ذریعے اختیار کیے گئے ہیں، اور عربی کے مقابلے میں مختلف تلفظ اور معنی اور استعمال کی باریکیاں ہیں۔ پرتگالیوں سے ادھار کی تعداد بھی کم ہے۔ اردو میں مستعار پرتگالی الفاظ کے لیے کچھ مثالیں چابی ("chave": key)، گرجا ("igreja": church)، کمرہ ("cámara": room)، قمیض ("camisa": shirt) ہیں۔ اگرچہ اردو کا لفظ ترکی کے لفظ ordu (army) یا orda سے ماخوذ ہے، جس سے انگریزی horde بھی ماخوذ ہے، اردو میں ترک ادھار کم سے کم ہے اور اردو کا تعلق جینیاتی طور پر بھی ترک زبانوں سے نہیں ہے۔ چغتائی اور عربی سے نکلنے والے اردو الفاظ فارسی
ur_Arab
سے مستعار لیے گئے تھے اور اس لیے یہ اصل الفاظ کے فارسی نسخے ہیں۔ مثال کے طور پر، عربی ta' marbuta ( اس میں تبدیلیاں ( > ) یا te ( )۔ بہر حال، عام خیال کے برخلاف، اردو نے ترکی زبان سے نہیں لیا، بلکہ چغتائی سے لیا، جو وسطی ایشیا کی ایک ترک زبان ہے ۔ اردو اور ترکی دونوں عربی اور فارسی سے مستعار ہیں، اس لیے بہت سے اردو اور ترکی الفاظ کے تلفظ میں مماثلت ہے۔ رسمیت اردو کو اس کے کم باضابطہ رجسٹر میں ( ، ) کہا گیا ہے، جس کا مطلب ہے "کھردرا مرکب"۔ اردو کے زیادہ باضابطہ رجسٹر کو بعض اوقات ( )، "بلند کیمپ کی زبان" کہا جاتا ہے، جس کا حوالہ دیتے ہوئے فوج میں مقامی یا لاشری کا ترجمہ کیا جاتا ہے۔ ʃkəɾi ]) یا صرف لشکری۔ اردو میں استعمال ہونے والے لفظ کی تشبیہات ، زیادہ تر حصے کے لیے، فیصلہ کرتی ہیں کہ کسی کی بات کتنی شائستہ یا بہتر ہے۔ مثال کے طور پر، اردو بولنے والے اور آب کے درمیان فرق کریں گے، دونوں کے معنی "پانی" کے ہیں: سابقہ بول چال میں استعمال ہوتا ہے اور اس کی سنسکرت کی اصل ہے، جب کہ مؤخر الذکر فارسی نژاد ہونے کی وجہ سے رسمی اور شاعرانہ طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اگر کوئی لفظ فارسی یا عربی زبان کا ہو تو تقریر کی سطح زیادہ رسمی اور عظیم تر سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح، اگر فارسی یا عربی گرامر کی تعمیرات، جیسے کہ اِضافات ، کو اردو میں استعمال کیا جائے، تو تقریر کی سطح بھی زیادہ رسمی اور عظیم تر سمجھی جاتی ہے۔ اگر کوئی لفظ سنسکرت سے وراثت میں ملا ہے تو تقریر کی سطح کو زیادہ بول چال اور ذاتی سمجھا جاتا ہے۔ تحریری نظام اردو کا تحریری نظام فارسی حروف تہجی کی توسیع ہے جو دائیں سے بائیں لکھا جاتا ہے، اور یہ نظام خود عربی حروف تہجی کی توسیع ہے۔ اردو کا تعلق فارسی خطاطی کے نستعلیق طرز سے ہے، جب کہ عربی عام طور پر ناسخ یا رقہ کے انداز میں لکھی جاتی ہے۔ نستعلیق کو ٹائپ سیٹ کرنا بدنام زمانہ مشکل ہے، لہٰذا 1980ء کی دہائی کے آخر تک اردو اخبارات کو خطاطی کے ماہروں کے ہاتھ سے لکھا جاتا تھا، جنہیں کاتب یا خُوش نویس کہا جاتا تھا۔ ایک ہاتھ سے لکھا ہوا اردو اخبار، دی مسلمان ، اب بھی چنئی میں روزانہ شائع
ur_Arab
ہوتا ہے۔ اردو کی ایک انتہائی فارسی اور تکنیکی شکل بنگال اور شمال مغربی صوبوں اور اودھ میں برطانوی انتظامیہ کی قانونی عدالتوں کی زبانی تھی۔ 19ویں صدی کے آخر تک، اردو کے اس رجسٹر میں تمام کارروائیاں اور عدالتی لین دین سرکاری طور پر فارسی رسم الخط میں لکھا جاتا تھا۔ 1880ء میں، نوآبادیاتی ہندوستان میں بنگال کے لیفٹیننٹ گورنر سر ایشلے ایڈن نے بنگال کی عدالتوں میں فارسی حروف تہجی کے استعمال کو ختم کر دیا اور اردو اور ہندی دونوں کے لیے استعمال ہونے والی مقبول رسم الخط کیتھی کے خصوصی استعمال کا حکم دیا۔ صوبہ بہار میں عدالتی زبان اردو تھی جو کیتھی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔ کیتھی کا اردو اور ہندی کے ساتھ تعلق بالآخر ان زبانوں اور ان کے رسم الخط کے درمیان سیاسی مقابلے کے باعث ختم ہو گیا، جس میں فارسی رسم الخط کو یقینی طور پر اردو سے جوڑا گیا تھا۔ حال ہی میں ہندوستان میں، اردو بولنے والوں نے اردو رسالوں کی اشاعت کے لیے دیوناگری کو اپنایا ہے اور دیوناگری میں اردو کو دیوناگری میں ہندی سے الگ نشان زد کرنے کے لیے نئی حکمت عملیوں کو اختراع کیا ہے۔ ایسے ناشرین نے اردو الفاظ کی فارسی عربی تشبیہات کی نمائندگی کرنے کے مقصد سے دیوناگری میں نئی آرتھوگرافک خصوصیات متعارف کروائی ہیں۔ ایک مثال ہندی آرتھوگرافک قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، ( 'عین ) کے سیاق و سباق کی نقل کرنے کے لیے حرفی علامات کے ساتھ ا (دیوناگری a ) کا استعمال ہے۔ اردو پبلشرز کے لیے، دیوناگری کا استعمال انھیں زیادہ سامعین فراہم کرتا ہے، جب کہ آرتھوگرافک تبدیلیاں انھیں اردو کی ایک الگ شناخت کو برقرار رکھنے میں مدد کرتی ہیں۔ بنگال کے کچھ شاعروں، یعنی قاضی نذر الاسلام ، نے تاریخی طور پر بنگالی رسم الخط کو اردو شاعری لکھنے کے لیے استعمال کیا ہے جیسے پریم نگر کا ٹھکانہ کرلے اور میرا بیٹی کی خیلہ ، نیز دو لسانی بنگالی اردو نظمیں جیسے الگا کورو گو کھوپر بندھن ، جبوکر چھولونا اور میرا دل بیت کیا۔ ڈھاکہ اردو اردو کی ایک بول چال کی غیر معیاری بولی ہے جو عام طور پر نہیں لکھی جاتی تھی۔ تاہم، بولی کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنے والی تنظیموں نے بولی کو بنگالی رسم الخط میں نقل کرنا شروع کر دیا ہے۔ اردوحروف تہجی ادب اردو ادب
ur_Arab
نے حالیہ صدیوں میں حقیقی مقام پایا، اس سے کئی صدیوں پہلے تک سلاطین دہلی پر فارسی کا غلبہ تھا۔ فارسی کی جگہ اردو نے بڑی آسانی سے پالی اور یہاں تک کہ لوگوں کو شک ہوتا ہے کہ فارسی کبھی سرکاری زبان تھی بھی کہ نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ اردو کے مصنفین اور فنکار ہیں۔ نثری ادب مذہبی اردو زبان میں اسلامی ادب اور شریعت کی کئی تصانیف ہیں۔ اس میں تفسیر القران، قرآنی تراجم، احادیث، فقہ، تاریخ اسلام، روحانیت اور صوفی طریقہ کے بے شمار کتب دستیاب ہیں۔ عربی اور فارسی کی کئی کلاسیکی کتب کے بھی تراجم اردو میں ہیں۔ ساتھ ساتھ کئی اہم، مقبول، معروف اسلامی ادبی کتب کا خزینہ اردو میں دستیاب ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پنڈت روپ چند جوشی نے اٹھارویں صدی میں ایک کتاب لکھی، جس کا نام لال کتاب ہے۔ اس کا موضوع فالنامہ ہے۔ یہ کتاب برہمنوں کے اُن خاندانوں میں جہاں اردو عام زبان تھی، کافی مشہور کتاب مانی گئی۔ ادبی غیر مذہبی ادب کو پھر سے دو اشکال میں دیکھ سکتے ہیں۔ ایک فکشن ہے تو دوسرا غیر فکشن۔ فکشن اصناف: افسانہ نگاری کافی مشہور صنف تسلیم کی گئی۔ افسانہ لکھنے والے کو افسانہ نگار کہتے ہیں۔ ان افسانہ نگاروں میں مشہور منشی پریم چند، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، غلام عباس، بلونت سنگھ، ممتاز مفتی، خواجہ احمد عباس، انتظار حسین اور احمد ندیم قاسمی شہرت یافتہ ہیں۔ اردو ناول بھی کافی مشہور صنف ہے۔ اردو کے مشہور ناولوں میں اُمراؤ جان ادا، آگ کا دریا، بستی، اداس نسلیں، خدا کی بستی، آخر شب کے ہمسفر، راکھ، بہاؤ، شامِ اودھ، کئی چاند تھے سرِ آسماں، جانگلوس، گریز، آنگن، علی پور کا ایلی، ضدی، ٹیڑھی لکیر، خس و خاشاک زمانے اور اے غزال شب شہرت رکھتے ہیں۔ سفر نامہ، مضمون، سرگذشت، انشائیہ، مراسلہ، خود نوشت وغیرہ دیگر اصناف میں سے ہیں۔ نظم ادب کی دوسری قسم نظم ہے۔ نظم کے معنی موتی پرونا ہے۔ یعنی کلام کو ایک ترتیب وار ہیئت کے ساتھ پیش کریں تو وہ صنف نظم کہلاتی ہے۔ اس ادب کو اردو نظمی ادب کہتے ہیں۔ لیکن آج کل اس کو اردو شاعر
ur_Arab
ی یا شاعری کے نام سے بھی جانا جانے لگا ہے۔ جنوبی ایشیا میں اردو ایک اہم زبان ہے۔ بالخصوص نظم میں اردو کے مقابلہ میں دوسری زبان نہیں۔ اردو کی روایات میں کئی اصناف ہیں جن میں غزل نمایاں ترین حیثیت کی حامل ہے۔ نظمی اردو (اردو شاعری) میں ذیل کے اصناف ہیں: نظم: مربوط اور مکمل شاعرانہ کلام۔ غزل: دو مصرعوں پر مشتمل مکمل، بامعنی اور جداگانہ اشعار کی لڑی مثنوی: ایک لمبی نظم جس میں کوئی قصہ یا داستان کہی گئی ہو۔ مرثیہ: شہیدوں کے واقعات کو بیان کرنے والی نظم۔ بالخصوص شہیدانِ کربلا کی شہادت کو بیان کرنے والی نظم۔ قصیدہ: قصیدہ اردو نظم کی وہ صنف ہے جسے کسی کی تعریف میں کہی گئی نظمی شکل کہہ سکتے ہیں۔ اس کے چار اقسام ہیں حمد: اللہ کی تعریف میں کہا گیا قصیدہ۔ نعت: حضرت محمد کی شان میں کہا گیا قصیدہ۔ منقبت: بزرگوں کی شان میں کہا گیا قصیدہ۔ مدح: بادشاہوں، نوابوں کی شان میں کہا گیا قصیدہ۔ نوحہ: معرکۂ کربلا میں ہوئے شہیدوں کے واقعات کو بیان کرنے والی صنف نوحہ ہے۔ مرثیہ اور نوحہ لکھنے میں شہرت یافتہ شعرا میر ببر علی انیس اور مرزا سلامت علی دبیر ہیں۔ مزید دیکھیے پاکستان کی زبانیں اردو ہندی تنازع اردو زبان کی ابتدا کے متعلق نظریات اردو ادب اردو ابجد اردو تحریک اردو زبان کے شاعروں کی فہرست اردو زبان کے مصنفین کی فہرست اردو تحریک فارسی اور اردو اردو بولنے والوں کے ذریعہ ہندوستان کی ریاستیں۔ برطانیہ میں اردو اردو شاعری کھری بولی اردو ویکیپیڈیا اردو کی بورڈ بیرونی روابط لہجہ ترتیب وڈیزائننگ ایم پی خا اردولشکری زبان انگریزی سے اردو آف لائن اور editable ڈکشنری ڈاون لوڈ کریں لشکری زبان علوی نستعلیق یونیکوڈ فونٹ ڈاون لوڈ کریں اردو كى پيدائش اردو حروفِ تہجی کی کہانی ہندوستان میں اردو ايتھنولوگ کی اردو پر رپورٹ (جلد اول) بنيادی اردو رومن حروف تہجی کا قاعدہ
ur_Arab
جدید علم جینیات کی رو سے بالاتفاق برصغیر کی سرزمین پر تہتر ہزار برس پہلے سے پچپن ہزار برس قبل کی درمیانی مدت میں انسانوں کی آمد کا سراغ ملتا ہے جو افریقا سے وارد ہوئے تھے، لیکن اثریاتی نقطۂ نظر سے جنوبی ایشیا میں انسانی وجود کے اولین آثار تیس ہزار برس پرانے ہیں جبکہ خوارک کی فراہمی، کاشت کاری اور گلہ بانی وغیرہ کے ہنگاموں سے معمور باقاعدہ انسانی زندگی کا آغاز سات ہزار ق م کے آس پاس ہوا۔ مہر گڑھ کے مقام پر جو اور گیہوں کی پیداوار کے آثار ملتے ہیں اور ساتھ ہی ایسے قرائن پائے گئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے فوراً بعد بھیڑ بکریوں اور گائے بیل وغیرہ مویشیوں کے پالنے کا رجحان پیدا ہو چکا تھا۔ پینتالیس سو ق م تک انسانی زندگی مختلف شعبوں تک پھیل گئی اور بتدریج وادیٔ سندھ کی تہذیب کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھری۔ اس تہذیب کا شمار عہد قدیم کی اولین تہذیبوں میں ہوتا ہے۔ یہ قدیم مصر اور میسوپوٹیمیا کی تہذیبوں کی ہم عصر تھی۔ وادی سندھ کی تہذیب 2500 ق م سے 1900 ق م تک برصغیر کے اُس خطہ میں پھلتی پھولتی رہی جو آج پاکستان اور شمال مغربی ہندوستان میں واقع ہے۔ شہری منصوبہ بندی، پکی اینٹوں کے مکانات، نکاسیِ آب کا پختہ بندوبست اور آب رسانی کا عمدہ نظم اس تہذیب کی خصوصیات میں داخل ہیں۔ قبل مسیح کے دوسرے ہزارے کے اوائل میں مسلسل قحط اور خشک سالی نے وادی سندھ کی آبادی کو منتشر ہونے پر مجبور کر دیا اور یہاں کے باشندے متفرق طور پر بڑے شہروں سے دیہی مقامات پر منتقل ہو گئے۔ عین اسی دور میں ہند۔آریائی قبائل وسط ایشیا سے نکل کر خطۂ پنجاب میں وارد ہوئے۔ یہاں سے ویدک دور کا آغاز ہوتا ہے۔ اس عہد کا قابل ذکر انسانی کارنامہ ویدوں کی تدوین ہے جن میں ان قبیلوں کے دیوی دیوتاؤں کی حمدیہ نظمیں مرتب کی گئی ہیں۔ ان قبیلوں میں وَرَن کا نظام بھی رائج تھا جو آگے چل کر ذات پات کی شکل میں سامنے آیا۔ اس نظام کے تحت ہند۔آریائی قبیلوں نے ہندوستانی معاشرے کو پنڈتوں، جنگجوؤں (سرداروں) اور کسانوں (عوام) میں بانٹ دیا جس کے بعد مقامی آبادی کو ان کے پیشے کے ناموں سے بلایا اور حقیر سمجھا جانے لگا۔
ur_Arab
یہ عقلمند بہادر طاقتور اور مہذب ہند آریائی قبائل پنجاب سے بڑھ کر دریائے گنگا کے میدانی علاقہ تک پھیل گئے اور کاشت کاری کی غرض سے اس خطہ کے جنگلوں کو مسطح میدانوں میں تبدیل کر دیا۔ ویدک متون کی تدوین تقریباً 600 ق م تک انجام کو پہنچی اور اسی کے ساتھ ایک نئی بین علاقائی ثقافت کا ظہور ہوا۔ چھوٹے چھوٹے سردار (یا جن پد) آپس میں مل کر بڑی ریاستوں (یا مہا جن پد) کی شکل اختیار کرنے لگے اور یوں وادی سندھ کی تہذیب کے خاتمہ کے بعد دوبارہ برصغیر میں شہری آبادکاری کا آغاز ہوا۔ دوسری طرف اسی دور میں متعدد مذہبی تحریکیں برپا ہوئیں جن میں جین مت اور بدھ مت قابل ذکر ہیں۔ ان تحریکوں نے برہمنیت کے بڑھتے اثرات کی سخت مخالفت کی اور ان ویدک رسوم کی افضلیت پر سوال اٹھانے لگے جنھیں صرف برہمن پنڈت کے ہاتھوں انجام دیا جاتا تھا۔ برصغیر کے معاشرہ میں ان تحریکوں کے مخالفانہ افکار کا نفوذ بڑھا تو نئے مذہبی تصورات پروان چڑھنے لگے اور ان کی کامیابی نے برہمنیت کو برصغیر میں پہلے سے موجود ثقافتوں اور تہذیبوں کو باہم ملا کر ایک نیا آمیزہ تیار کرنے پر مجبور کر دیا جو آگے چل کر ہندومت کہلایا۔ چوتھی اور تیسری صدی ق م کے دوران میں برصغیر ہند کے بیشتر حصہ کو آریائی نسل موریا سلطنت نے فتح کر لیا۔ تیسری صدی ق م سے شمالی ہندوستان میں پراکرت اور پالی ادب کا اور جنوبی ہند میں تمل اور سنگم ادب کا ارتقا شروع ہوا اور ان زبانوں کا ادب اپنے جغرافیائی سرحدوں سے نکل کر ممالکِ غیر تک جا پہنچا۔ کلاسیکی عہد میں اگلے پندرہ سو برس تک ہندوستان کے مختلف خطوں پر متفرق بادشاہوں کا تسلط رہا جن میں گپتا سلطنت کا عہد گوناگوں وجوہ سے ممتاز ہے۔ اس عہد میں ہندو مت اور اس کے مفکرین از سر نو ابھر کر سامنے آئے، ان کی سرگرمیاں بڑھیں اور برہمنیت کو پھر سے فروغ نصیب ہوا۔ انھی وجوہ سے یہ دور "ہندوستان کا عہد زریں" کہلاتا ہے۔ اسی عہد میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت اور مذہب و تمدن کے مختلف پہلوؤں سے ایشیا کا بڑا خطہ متعارف ہوا، نیز جنوبی ہند کی مملکتوں نے بحری راستوں کے ذریعہ مشرق وسطیٰ اور بحیرہ روم سے اپنے تجارتی روابط قائم کیے۔ چنانچہ
ur_Arab
اب جنوب مشرقی ایشیا کا بڑا حصہ ہندوستان کی تہذیب و ثقافت سے متاثر ہونے لگا اور اسی صورت حال نے آگے چل کر جنوب مشرقی ایشا میں خالص ہندوستانی مملکتوں (ہندوستانِ عظمیٰ) کے قیام کی راہ ہموار کی۔ ساتویں اور گیارھویں صدی عیسوی کے درمیان میں پیش آنے والے حوادث و واقعات میں سب سے اہم واقعہ سہ گانہ مقابلہ ہے جس کا مرکز قنوج تھا۔ یہ مقابلہ پال سلطنت، راشٹر کوٹ سلطنت اور گرجر پرتیہار سلطنت کے مابین دو صدیوں سے زائد عرصہ تک جاری رہا۔ پانچویں صدی عیسوی کے وسط سے جنوبی ہند مختلف شاہانہ رزم آرائیوں کا مرکز توجہ بن گیا جن میں بالخصوص چالوکیہ، چول، پَلّو، چیر، پانڈیہ اور مغربی چالوکیہ قابل ذکر ہیں۔ گیارھویں صدی عیسوی میں چول حکمران جنوبی ہند فتح کرنے کے بعد جنوب مشرقی ایشیا کے بعض حصوں سمیت سری لنکا، مالدیپ اور بنگال پر بھی حملہ آور ہوئے۔ قرون وسطیٰ کے اوائل میں ہندوستانی ریاضیات (ہندی -عربی نظام عدد) نے عرب دنیا میں جاری فلکیات اور ریاضیات کی ترقی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آٹھویں صدی کے آغاز میں برصغیر میں عربوں کی آمد ہوئی اور انھوں نے افغانستان اور سندھ میں اپنی حکومت قائم کر لی۔ پھر دسویں صدی کے اواخر اور گیارھویں صدی کے اوائل میں محمود غزنوی کا ورود ہوا۔ سنہ 1206ء میں وسط ایشیائی ترکوں نے سلطنت دہلی کی بنیاد رکھی اور چودھویں صدی عیسوی کے اوائل تک شمالی ہند کے ایک بڑے حصہ پر اپنا اقتدار مستحکم کر لیا لیکن چودھویں صدی کے ختم ہوتے ہوتے ان کا زوال شروع ہو گیا۔ سلطنت دہلی کے زوال سے دکن سلطنتیں ابھریں۔ سلطنت بنگالہ بھی ایک اہم قوت کے طور پر نمودار ہوئی اور تین صدیوں تک مسلسل تخت اقتدار پر متمکن رہی۔ سلطنت دہلی کے اسی عہد زوال میں وجے نگر سلطنت اور مملکت میواڑ کے پہلو بہ پہلو دیگر مختلف طاقت ور ہندو اور راجپوت ریاستیں بھی قائم ہوئیں۔ پندرھویں صدی عیسوی میں سکھ مت کا ظہور ہوا۔ سولھویں صدی عیسوی سے عہد جدید کی ابتدا ہوتی ہے جب مغلیہ سلطنت نے برصغیر ہند کے بڑے رقبہ کو اپنے زیر نگین کر کے دنیا میں صنعت کاری کے ابتدائی نمونے پیش کیے اور عالمی سطح پر عظیم ترین معیشت بن گئی۔ سلطنت مغلیہ کے عہد میں
ur_Arab
ہندوستان کی مجموعی گھریلو پیداوار دنیا کی چوتھائی گھریلو پیداوار تھی جو یورپ کی کل گھریلو پیداوار سے زیادہ ہے۔ اٹھارویں صدی کے اوائل میں مغلوں کا تدریجاً زوال شروع ہوا جس کی بنا پر مرہٹوں، سکھوں، میسوریوں، نظاموں اور نوابان بنگالہ کو برصغیر ہند کے بہت بڑے رقبے پر زور آزمائی کا موقع مل گیا اور جلد ہی متفرق طور پر ان کی علاحدہ علاحدہ ریاستیں وجود میں آگئیں۔ اٹھارویں صدی کے وسط سے انیسویں صدی کے وسط تک ہندوستان کے بیشتر علاقوں پر بتدریج ایسٹ انڈیا کمپنی قابض و متصرف ہو گئی جسے سلطنت برطانیہ نے ہندوستان کی سرزمین پر اپنا خود مختار عامل و نائب قرار دے رکھا تھا۔ لیکن ہندوستان کے باشندے کمپنی راج سے سخت بیزار اور بد دل تھے۔ نتیجتاً 1857ء میں تحریک آزادی کی زبرست لہر اٹھی اور شمالی ہند سے لے کر وسطی ہند تک اس لہر نے حصول آزادی کی روح پھونک دی لیکن یہ تحریک کامیاب نہ ہو سکی۔ اس کے بعد سلطنت برطانیہ نے کمپنی کو تحلیل کر دیا اور ہندوستان براہ راست تاج برطانیہ کے ماتحت آگیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد( چوہدری رحمت علی) محمد علی جوہر، ابو الکلام آزاد، موہن داس گاندھی اور دیگر ہندو مسلم رہنماؤں نے اپنی تحریروں، تقریروں اور رسائل و جرائد کے ذریعہ پورے ہندوستان میں حصول آزادی کی تحریک چھیڑی۔ اول اول تحریک خلافت نے، پھر انڈین نیشنل کانگریس نے ہندوستان کے باشندوں کے اس جذبہ کو ایک مہم کی شکل میں مہمیز کیا۔ کچھ عرصہ کے بعد اس جد و جہد میں آل انڈیا مسلم لیگ بھی شامل ہو گئی۔ تھوڑی ہی مدت گذری تھی کہ مسلم لیگ کے رہنماؤں نے بوجوہ علاحدہ مسلم اکثریتی ریاست کا مطالبہ رکھا اور آہستہ آہستہ یہ مطالبہ زور پکڑتا چلا گیا۔ بالآخر کانگریسی قیادت کی رضامندی کے بعد سلطنت برطانیہ نے ہندوستان کو دو لخت کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلہ کے نتیجے میں ہندوستان بھارت ڈومینین اور ڈومنین پاکستان کے ناموں سے دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور اسی کے ساتھ ہندوستان نے برطانوی استعمار سے نجات پائی۔ ماقبل تاریخ کا عہد (تقریباً 3300 ق م تک) قدیم سنگی دور جب براعظم افریقہ سے انسان نما انواع کا پھیلاؤ شروع ہوا تو ایک اندازے کے مطابق انھوں نے تقریباً بیس لاکھ یا شاید بائیس لاکھ برس ق ح برصغیر ہند کی زمین پر قدم رکھا۔ ان
ur_Arab
اندازوں کی بنیاد وہ دریافتیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کھڑے آدمی کی نسل انڈونیشیا میں اٹھارہ لاکھ برس قبل اور مشرقی ایشیا میں تیرہ لاکھ ساٹھ ہزار برس قبل موجود تھی۔ نیز رائیوات میں واقع وادی سوانی اور موجودہ پاکستان میں واقع پبی پہاڑیوں سے ملنے والے سنگی آلات بھی کھڑے آدمی کی موجودگی کا پتا دیتے ہیں۔ یہ سنگی آلات نسل انسانی کے بالکل ابتدائی ایام کے ہیں۔ گو کہ بعض مزید پرانے انکشافات بھی ہوئے ہیں اور ان کی مدد سے آبی رسوبات کی بنیاد پر زمانے کا تعین کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے لیکن دیگر آزاد ذرائع سے ان کی اب تک تصدیق نہیں ہو سکی۔ برصغیر ہند ميں پائے جانے والے انسان نما انواع کے قدیم ترین متحجرات یا ڈھانچے کھڑے آدمیوں یا ہائیڈل برگ انسانوں کے ہیں۔ یہ متحجرات وسطی ہندوستان میں واقع وادی نرمدا سے ملے ہیں اور تخمیناً پانچ لاکھ برس پرانے ہیں۔ نیز ایسے متحجرات بھی ملے ہیں جن کے متعلق یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ مذکورہ متحجرات سے زیادہ قدیم ہیں لیکن یہ دعویٰ قابل اعتبار نہیں ہے۔ اثریاتی شہادتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سات لاکھ برس پہلے تک برصغیر ہند میں یہ انواع کہیں کہیں آباد تھیں اور اندازاً ڈھائی لاکھ برس قبل تک یہ برصغیر کے بڑے رقبے پر پھیل گئیں۔ چنانچہ اسی عہد سے قدیم انسانوں کے وجود کی اثریاتی شہادتیں بھی وافر تعداد میں ملتی ہیں۔ جنوبی ایشیا کی آبادیات کے ایک ماہر جِم ڈائسن لکھتے ہیں: مائیکل پیٹراگلیا اور بریجٹ آلچن لکھتے ہیں: اور جنوبی ایشیا کے ماحولیاتی تاریخ دان مائیکل فشر کے الفاظ میں: اثریاتی شہادتوں سے بھی یہ مفہوم اخذ کرنے کی کوشش کی گئی کہ برصغیر ہند میں نسل انسانی کی موجودگی کے آثار اٹھہتر ہزار سے چوہتر ہزار برس قبل کے ہیں لیکن یہ مفہوم ہنوز متنازع ہے۔ جنوبی ایشیا میں ابتداءً انسانی قافلے انفرادی طور پر شکار کی تلاش میں آئے اور پھر یہیں آباد ہو گئے۔ خطہ میں ان کی آمد اور سکونت نے لمبے عرصہ کے بعد زبردست تنوع پیدا کر دیا۔ اس نوع کی رنگا رنگی افریقا کے بعد جنوبی ایشیا ہی میں پائی جاتی ہے۔ ٹم ڈائسن رقم طراز ہے: نیا سنگی دور آہستہ آہستہ یہ انسانی قافلے آوارہ گردی ترک کر کے کسی خطے میں مقیم ہونے لگے اور با
ur_Arab
قاعدہ بود و باش اختیار کر لی۔ یہاں سے نئے سنگی دور کا آغاز ہوتا ہے۔ برصغیر میں اندازاً نو ہزار برس قبل دریائے سندھ کے مغربی کناروں پر انسانی آبادی کی ابتدا ہوئی اور یہی آبادی بڑھتے بڑھتے قبل مسیح کے تیسرے ہزارے کی وادی سندھ کی تہذیب کی شکل میں نمودار ہوئی۔ چنانچہ ٹم ڈائسن لکھتے ہیں: "سات ہزار برس پہلے بلوچستان میں کاشت کاری کی مضبوط بنیاد پڑ چکی تھی اور اگلے دو ہزار برسوں میں مشرق کی طرف وادی سندھ میں آہستہ آہستہ اس کا رواج بڑھنے لگا۔" مائیکل فشر لکھتے ہیں: برنجی دور – پہلی شہر کاری (تقریباً 3300 ق م تا 1800 ق م) وادی سندھ کی تہذیب 3300 ق م کے آس پاس برصغیر میں برنجی دور کا آغاز ہوا۔ قدیم مصر اور میسوپوٹیمیا کے خطوں کے ساتھ ساتھ وادی سندھ کا خطہ بھی انسانی تہذیب کے تین اولین گہواروں میں سے ایک ہے اور ان تینوں میں وادی سندھ کی تہذیب سب سے زیادہ وسيع رقبے پر پھيلی ہوئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب کے دور عروج میں یہاں پچاس لاکھ افراد بستے تھے۔ دریائے سندھ کی وادی اس تہذیب کا مستقر بنی، پھر مشرقی پاکستان اور شمال مغربی ہندوستان کے دریائے گھگر کی ترائی تک یہ پھیل گئی۔ 2600 ق م سے 1900 ق م تک اس تہذیب کے عروج کا دور ہے اور یہیں سے برصغیر ہند میں تمدنی زندگی کی بنیاد پڑتی ہے۔ پاکستان میں واقع ہڑپہ، گنیریوالا اور موہن جو دڑو، نیز ہندوستان میں موجود دھولویرا، کالی بنگا، راکھی گڑھی اور لوتھل اس تہذیب کے اہم مقامات تھے۔ قدیم وادی سندھ کے باشندے ہڑپہ نے دھات کاری اور دست کاری (سنگ یمانی کی مصنوعات اور مہر تراشی) کے نئے نئے اطوار ایجاد کیے اور تانبا، کانسی، سیسہ اور ٹین تیار کیے۔ مزید برآں ان لوگوں نے اینٹوں سے مکانات بنائے، نکاسی آب کا بہترین نظام قائم کیا اور متعدد منزلہ عمارتیں کھڑی کیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے ہاں کسی طرز کا بلدیاتی نظم بھی پایا جاتا تھا۔ وادی سندھ کی تہذیب کے سقوط کے بعد اس کے باشندے دریائے سندھ اور دریائے کھگر کی وادیوں سے نکل کر گنگا جمنا کی ترائی میں ہمالیہ کی نیچی پہاڑیوں کی جانب
ur_Arab
ہجرت کر گئے۔ گیرو رنگ کے برتنوں کی ثقافت قبل مسیح کے دوسرے ہزارے کے دوران میں گنگ و جمن کے دو آبہ میں گیرو رنگ کے برتنوں کی ثقافت ابھری۔ یہ دیہاتوں کے باشندے تھے اور شکار و کاشت کاری ان کا ذریعۂ معاش تھا۔ وہ تانبے کے آلات جیسے کلہاڑی، تیر و تلوار اور نیزے وغیرہ استعمال کرتے اور مویشیوں میں گائے بیل بھینس، بھیڑ بکری، گھوڑے، کتے اور خنزیروں کو پالتے۔ سنہ 2018ء میں برنجی دور کے بنے ہوئے مضبوط پہیوں کے چھکڑے دریافت ہوئے جن کے متعلق بعضوں کا کہنا ہے کہ ان رتھوں کو گھوڑے کھینچتے تھے۔ اس دریافت کے بعد محققین کی توجہ مذکورہ مقام کی جانب مبذول ہوئی۔ آہنی دور (1500 ق م تا 200 ق م) ويدک دور (تقریباً 1500 ق م تا 600 ق م) وادی سندھ کی تہذیب کے آخری دنوں ميں يا اس کے کچھ عرصہ بعد وسط ایشیا سے ہند آریائی قبائل بر صغير ميں داخل ہوئے۔ مقامی لوگوں کے ساتھ ميل جول ہوا اور ايک ن ئی تہذيب نے جنم ليا۔ اسی دور ميں ويد لکھے گئے جن میں آریائی قبائل کے خداؤں کی حمدیہ نظمیں اکٹھا کی گئی ہیں۔ اس عہد کو ویدک دور کہا جاتا ہے۔ البتہ ویدک تہذیب کا دائرہ فقط ہندوستان کے شمال مغرب تک محدود تھا اور ہندوستان کے بقیہ خطے اپنی جداگانہ ثقافتی شناخت رکھتے تھے۔ اس تہذیب کو ویدوں میں بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ وید ویدک سنسکرت میں لکھے گئے ہیں اور آج بھی ہندوؤں کی مقدس کتابوں میں شامل ہیں۔ نیز یہ ہندوستان کے ان قدیم ترین متون میں سے ہیں جو دست بردِ زمانہ سے محفوظ رہے۔ ویدک عہد کا دورانیہ 1500 ق م سے 500 ق م تک ہے۔ ہندوستانی ثقافت کی تشکیل میں اس عہد کا خاصا اہم کردار رہا اور ہندوستان کے مختلف ثقافتی پہلوؤں کی بنیاد اسی عہد میں رکھی گئی۔ علاوہ بریں برصغیر ہند کے بہت سے علاقے اس عہد میں سنگی و برنجی دور سے آہنی دور میں داخل ہوئے۔ ویدک معاشرہ خطۂ پنجاب اور گنگا کے بالائی میدان میں ویدک معاشرہ کے خد و خال کو واضح کرنے کے لیے مورخین ویدوں کا سہارا لیتے ہیں۔ بیشتر مورخین کا کہنا ہے کہ اس عہد میں شمال مغرب سے ہند
ur_Arab
آریائی قبائل نے متفرق طور پر بڑی تعداد میں ہندوستان کا رخ کیا اور پھر یہیں آباد ہو گئے۔ اتھرو وید کے زمانہ تک پیپل کے درخت اور گائے مقدس سمجھے جانے لگے تھے۔ ہندوستانی فلسفہ کے بہت سے تصورات (مثلاً دھرم) کی اصل اسی ویدک دور میں ملتی ہے۔ ابتدائی ویدک معاشرہ کو رگ وید میں بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ رِگ وید قدیم ترین ویدک متن ہے اور کہا جاتا ہے کہ قبل مسیح کے دوسرے ہزارے میں برصغیر کے شمال مغربی خطہ میں یہ مدون ہوا۔ اُس وقت کا آریائی معاشرہ ہڑپہ کی شہری تہذیب سے یکسر مختلف، قبیلوں میں منقسم اور دیہی طرز معاشرت کا عادی تھا۔ ہڑپہ کا تمدن رخصت ہو چکا تھا اور اس کی جگہ دیہی زندگی نے لے لی تھی۔ اثریاتی تناظر میں ہند۔آریائی قبائل غالباً جزوی طور پر ابتدا میں گیرو رنگ کے برتنوں کی ثقافت سے مشابہ نظر آتے ہیں۔ ریگ ویدک دور کے اختتام پر آریائی معاشرہ نے برصغیر ہند کے شمال مغربی خطہ سے آگے بڑھ کر دریائے گنگا کے مغربی میدانی علاقہ کی جانب پھیلنا شروع کیا۔ انھوں نے بڑی سرعت سے کاشت کاری کو پیشہ بنایا اور اپنے معاشرے کو چار ورنوں میں تقسیم کر کے ایک مخصوص طبقاتی نظام کے تحت اسے منظم کر لیا۔ اس سماجی ڈھانچے کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ اسے شمالی ہندوستان کے مقامی تمدن سے ہم آہنگ رکھا گیا تھا لیکن آخرکار یہ ہم آہنگی برقرار نہیں رہی اور باہر سے آنے والے یہ آریہ قبائل مقامی قوموں کو حقیر اور ان کے پیشوں کو ذلیل سمجھنے لگے۔ اس عہد میں چھوٹے چھوٹے قبیلوں اور سرداروں نے آپس میں مل کر جن پد قائم کرنا شروع کیا۔ جن پد برصغیر ہند میں 1200 ق م سے چھٹی صدی ق م کا درمیانی عرصہ آہنی دور کہلاتا ہے۔ یہ عہد جن پدوں کے عروج کا ہے جو دراصل مختلف سرداروں اور قبیلوں کے اتحاد سے بننے والی قلمرو، جمہوریے اور بادشاہتیں تھیں۔ ان جن پدوں میں کرو، پانچال، کوشل اور وِدیہ مملکتیں ممتاز ہیں۔ کرو مملکت کا عہد تقریباً 1200 ق م سے 800 ق م تک تھا جو ویدک عہد میں صوبائی سطح کا پہلا معاشرہ نظر آتا ہے۔ اسی کے پہلو بہ پہلو اتھرو و
ur_Arab
ید کی ترتیب و تدوین بھی جاری تھی۔ چنانچہ اس عہد کے یہ دونوں واقعات شمال مغربی ہندوستان میں آہنی دور کا نقطۂ آغاز سمجھے جاتے ہیں۔ اتھرو وید ہندوستان کی سب سے پہلی کتاب ہے جس میں "شیام آیَس" (سیاہ دھات) کے نام سے لوہے کا ذکر ملتا ہے۔ کرو مملکت نے ویدک عہد کی نظموں کو مرتب کیا اور سماجی نظم کو برقرار رکھنے کے لیے شَرَوت کی رسم ایجاد کی۔ پرکشت اور اس کے جانشین جن مے جے اس سلطنت کے عظیم بادشاہ گذرے ہیں جنھوں نے اپنی سلطنت کو چھوٹی قلمرو سے نکال کر اسے آہنی دور کے شمالی ہندوستان کی ایک با اثر سیاسی، سماجی اور تہذیبی طاقت بنا دیا تھا۔ کرو سلطنت کے زوال کے بعد ویدک تہذیب کا مرکز اس کی مشرقی ہمسایہ ریاست پانچال منتقل ہو گیا۔ منقش خاکستری برتنوں کی ثقافت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ کرو اور پانچال سلطنتوں کی ہم عصر تھی اور 1100 ق م سے 600 ق م تک ہریانہ اور مغربی اتر پردیش میں رائج رہی۔ ویدک عہد کے اواخر میں ویدک تہذیب کے نئے مرکز کے طور پر ودیہ مملکت ابھر کر سامنے آئی۔ یہ مملکت مشرق کے اس خطہ میں قائم تھی جو اب نیپال اور بہار کا حصہ ہے۔ ودیہ بادشاہ جنک کے عہد میں برہمن پنڈتوں اور یاگیہ ولکیہ، آرونی، واچکنوی گارگی جیسے فلسفیوں کو شاہی دربار کی سرپرستی حاصل رہی اور یہی اس سلطنت کے عروج کا زمانہ ہے۔ اس دور کے آخری دنوں میں پورے شمالی ہندوستان میں مذکورہ جن پد سلطنتوں سے بڑی ریاستیں اور مملکتیں قائم ہونے لگیں جنھیں مہا جن پد سے موسوم کیا گیا۔ دوسری شہر کاری (600 ق م تا 200 ق م) 800 ق م سے 200 ق م کے درمیان میں شَرَمَن تحریک کی بنیاد پڑی اور اس کے بطن سے جین مت اور بدھ مت کا ظہور ہوا۔ نیز اسی عہد میں اولین اپنیشدیں بھی لکھی گئیں۔ 500 ق م کے بعد برصغیر نے وادی سندھ کی تہذیب کے سقوط کے بعد پہلی دفعہ اُس شہری تمدن کا پھر سے مشاہدہ کیا جسے تاریخ کے اوراق میں "دوسری شہر کاری" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ گنگا اور بالخصوص وسطی گنگا کے میدانوں میں نئے شہر آباد ہوئے۔ درحقیقت دوسری شہر کاری کی بنیادیں 600 ق م
ur_Arab
سے پہلے ہی دریائے گھگر اور بالائی گنگا کے میدان میں رکھ دی گئی تھیں جو منقش برتنوں کی تہذیب کا علاقہ تھا۔ گرچہ ابتدا میں اس تہذیب کے بیشتر مقامات کسانوں کے چھوٹے چھوٹے گاؤں کی شکل میں تعمیر ہوئے لیکن یہی گاؤں آگے چل کر بڑے قصبات میں بدل گئے۔ ان میں سب سے بڑے قصبے کے گرد خندقیں کھودی گئی تھیں اور لکڑی کے جنگلے لگا کر ریت کے تودوں سے بند بنائے گئے تھے۔ گو کہ یہ انتظام اُن قلعہ بند، مستحکم اور بڑے شہروں کے مقابلہ میں مختصر اور بہت سادہ ہے جو 600 ق م کے بعد سیاہ قلعی دار شمالی برتنوں کی ثقافت کے عہد میں تعمیر کیے گئے۔ دوسری شہر کاری کے عہد میں وسطی گنگا کا میدان ایک نمایاں تہذیبی خطہ تھا۔ اسی خاک سے مگدھ مہا جن پد کو عروج ملا جو آگے جا کر عظیم الشان موریہ سلطنت کی بنیاد بنا اور 500 ق م کے بعد اسی خطہ میں نئی ریاستیں قائم ہوئیں۔ یہ علاقہ ویدک ثقافت سے متاثر ضرور ہوا لیکن یہ کرو پنچال کے خطہ سے بہت مختلف تھا۔ نیز "تا حال دریافت شدہ آثار کی رو سے جنوبی ایشیا میں یہ پہلا خطہ ہے جہاں سب سے پہلے چاول کی فصل اگائی گئی اور 1800 ق م تک یہ چراند اور چیچر نامی مقامات سے منسوب نئے حجری دور کی ترقی یافتہ آبادی کا مسکن رہا"۔ اسی سرزمین میں شَرَمَن روایت کا شجر ثمر دار پروان چڑھا اور پھر جین مت اور بدھ مت کی شاخیں پھونٹیں۔ بدھ مت اور جین مت 800 ق م سے 400 ق م تک ابتدائی اپنیشدیں مدوّن ہوتی رہیں جنھوں نے ہندو مت کی نظریاتی اساس کا کام کیا۔ ان کتابوں کو ویدانت (یعنی ویدوں کا ماحصل) بھی کہا جاتا ہے۔ ساتویں اور چھٹی صدی ق م کے ہندوستان میں ایک جانب شہر کاری فروغ پا رہی تھی تو دوسری طرف شَرَمَن تحریکیں بھی انگڑائی لے کر بیدار ہو رہی تھیں۔ ان تحریکوں نے برہمنیت کے تسلط کو للکارا اور قدیم رسم و رواج کے زور کو توڑنے کی کوشش کی۔ جین مت کے تیر تھنکر مہاویر (تقریباً 549 ق م تا 477 ق م) اور بدھ مت کے بانی گوتم بدھ (تقریباً 563 ق م تا 483 ق م) اس تحریک کی نمایاں ترین شخصیات گذری
ur_Arab
ہیں۔ ان تحریکوں نے بد حال ہندوستانی معاشرے کو سنسار (تناسخ) اور موکش (نجات) کے نئے تصورات عطا کیے۔ گوتم بدھ نے ایک درمیانی راستہ بھی کھوج نکالا تھا جس کی مدد سے شرمن مذاہب کی کڑی ریاضتوں اور زہدِ بے جا کو قابو میں کیا گیا۔ عین اسی دوران میں (جین مت کے چوبیسویں تیرتھنکر) مہاویر نے بعض مذہبی عقائد کی تبلیغ شروع کی اور یہی عقائد آگے چل کر جین مت کی شکل میں سامنے آئے۔ تاہم راسخ العقیدہ جینیوں کا ایمان ہے کہ تیر تھنکروں کی تعلیمات وقت سے پہلے ہی دے دی جاتی ہیں۔ محققین لکھتے ہیں کہ جین مت کے تیئیسویں تیر تھنکر پارشوناتھ (تقریباً 872 ق م تا 772 ق م) کی شخصیت تاریخی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ویدوں میں بھی بعض تیر تھنکروں اور شرمن تحریک سے مشابہ درویشانہ تصورات کا ذکر ملتا ہے۔ سنسکرت کے رزمیے سنسکرت زبان کی شہرہ آفاق رزمیہ داستانیں راماین اور مہا بھارت اسی عہد کی یادگار ہیں۔ مہا بھارت دنیا کی طویل ترین نظم سمجھی جاتی ہے۔ انھی دو نظموں کی بنا پر مورخین اس عہد کو "مہا کاویہ عہد" سے موسوم کرتے تھے لیکن اب تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہ نظمیں (جو ایک دوسرے سے بڑی حد تک مشابہ ہیں) صدیوں تک ارتقا کے مختلف مراحل سے گزر کر موجودہ شکل کو پہنچی ہیں۔ بر سبیل مثال مہا بھارت شاید (1000 ق م کی) کسی معمولی جھڑپ کے واقعات پر مبنی ہے جسے شاعروں اور رزمیہ نگاروں کے بے لگام تخیل نے عظیم الشان معرکہ میں تبدیل کر دیا۔ آثار قدیمہ سے اب تک کوئی ایسا حتمی ثبوت دریافت نہیں ہوا جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ مہا بھارت کی داستان تاریخی واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔ ان رزمیہ داستانوں کے حالیہ متن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ ویدک عہد کے بعد تقریباً 400 ق م سے 400 عیسوی کے درمیان میں وجود میں آئے۔ مہا جن پد چھٹی صدی ق م سے تیسری صدی ق م تک مہا جن پد کے عروج کا دور ہے۔ مہا جن پد ان سولہ طاقت ور حکومتوں اور چند سری جمہوریتوں کو کہا جاتا ہے جو شمال مغرب میں گندھارا سے لے
ur_Arab
کر مشرق میں بنگال تک پھیلی ہوئی تھیں اور ما ورائے وندھیاچل کے بعض علاقے بھی اس کے زیر نگین تھے۔ قدیم بودھ گرنتھوں انگُتّر نکائے وغیرہ میں ان سولہ ریاستوں کا کثرت سے تذکرہ ملتا ہے۔ یہ سولہ ریاستیں حسب ذیل تھیں: انگ، اشمک، اَوَنتی، چیدی، گاندھار، کاشی، کمبوج، کوشل، کرو، مگدھ، ملّ، متسیہ، پاں چال، شورسین، وِرِجّی اور وتس۔ وادی سندھ کی تہذیب کے خاتمہ کے بعد اسی عہد میں پہلی بار ہندوستان میں بڑے بڑے شہر بسائے گئے۔ شاکیہ، کولی، ملّ، اور لچھوی وغیرہ گن سنگھوں میں جمہوری نظام حکومت رائج تھا اور یہ گن سنگھ کہلاتے تھے۔ بعض گن سنگھ مثلاً ملّ، جس کا دار الحکومت کشی نگر تھا، اور وَجّی، جس کا پایۂ تخت ویشالی تھا، وغیرہ چھٹی صدی ق م کے اوائل میں ہی قائم ہو چکے تھے اور کچھ خطوں پر چوتھی صدی عیسوی تک ان کی حکمرانی برقرار رہی۔ وجی مہا جن پد کے تخت اقتدار پر لچھوی سب سے معروف قبیلہ گذرا ہے۔ سیاہ قلعی دار شمالی برتنوں کی ثقافت کا زمانہ بھی یہی ہے۔ گرچہ اس ثقافت کا مرکز گنگا کا وسطی میدان تھا لیکن وسطی اور شمالی ہندوستان کے خاصے وسیع رقبے پر اس کے اثرات موجود تھے۔ اس ثقافت کے زیر اثر بڑے بڑے شہر قائم ہوئے اور ان کے گرد مضبوط شہر پناہیں تعمیر کی گئیں، آبادی میں زبردست اضافہ ہوا، متعدد سماجی طبقات ابھرے، تجارت کا دائرہ بڑھا، مفاد عامہ کی تعمیرات وجود میں آئیں، آب رسانی کا نظام قائم ہوا، ہاتھی دانت، سنگ تراشی اور دیگر صنعتوں کے مختلف کارخانے قائم ہوئے، وزن کا نظام طے کیا گیا، آہت سکے ڈھالے گئے اور براہمی اور خروشٹھی رسم الخط ایجاد ہوئے۔ اس عہد میں عوام الناس کی زبان سنسکرت تھی، ہاں البتہ شمالی ہندوستان کی عوامی زبانوں کو پراکرت کہا جاتا ہے۔ 500 یا 400 ق م یعنی گوتم بدھ کے عہد تک مذکورہ سولہ مہا جن پد چار بڑی ریاستوں میں ضم ہو گئے۔ یہ چار ریاستیں تھیں: وَتس، اَوَنتی، کوشل اور مگدھ۔ گوتم بدھ کے حالات زندگی
ur_Arab
انھی چار ریاستوں کے گرد گھومتے ہیں۔ مگدھ کا دور اول سلطنتِ مگدھ سولہ مہا جن پدوں میں سے ایک تھی اور دریائے گنگا کے جنوب میں واقع بھارت کا صوبۂ بہار اس کا مرکز تھا۔ ابتدا میں راجگیر پایۂ تخت رہا لیکن بعد میں پاٹلی پتر (موجودہ پٹنہ) منتقل ہو گیا۔ لچھوی اور انگ کو یکے بعد دیگرے فتح کر لینے کے بعد بہار و بنگال کے بیشتر علاقوں پر اور بعد ازاں مشرقی اتر پردیش و اڑیسہ پر بھی سلطنت مگدھ قابض و متصرف ہو گئی۔ جین اور بودھ گرنتھوں میں مگدھ کی اس قدیم سلطنت کا بارہا ذکر آیا ہے۔ نیز راماین، مہا بھارت اور پرانوں میں بھی اس کا مذکور ملتا ہے۔ مگدھ کا سب سے قدیم تذکرہ اتھرو وید میں ہے، اس میں انگوں، گندھاروں اور مُجوَتوں کے ساتھ مگدھ کے لوگوں کا نام بھی لیا گیا ہے۔ جین مت اور بدھ مت کے فروغ میں سلطنت مگدھ کا خاصا اہم کردار رہا۔ مگدھ کے دائرۂ اقتدار میں بعض جمہوری برادریاں مثلاً راج کمار برادری وغیرہ بھی شامل تھیں۔ علاوہ بریں مگدھ کے زیر نگین گاؤں کی اپنی پنچایتیں ہوتی تھیں جن کا مکھیا انھی میں سے ایک ہوتا اور وہ گرامک کہلاتا۔ سلطنت کا نظم و انصرام عاملہ، عدلیہ اور فوج کے شعبوں میں منقسم تھا۔ پالی گرنتھوں، جین آگموں اور ہندو پرانوں وغیرہ قدیم مآخذ سے معلوم ہوتا ہے کہ مگدھ پر کوئی 200 برس تک (تقریباً 600 ق م تا 413 ق م) ہَریَک خانوادہ حاکم رہا۔ اس خانوادے کا بادشاہ بمبی سار توسیع پسندانہ عزائم رکھتا تھا اور اسی بنا پر بمبی سار نے انگ پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا تھا۔ انگ کا علاقہ اب مشرقی بہار اور مغربی بنگال میں پڑتا ہے۔ بمبی سار کو اس کے بیٹے اجات شترو نے تخت سلطنت سے بے دخل کر کے قتل کر دیا اور خود حکمران بن کر اپنے باپ کی توسیع پسندانہ مہمات کو جاری رکھا۔ یہی دور ہے جس میں گوتم بدھ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ مگدھ سلطنت میں گذارا۔ انھیں بودھ گیا میں نروان حاصل ہوا، سارناتھ میں اپنا پہلا خطہ دیا اور راج گرہ میں پہلی بودھ سنگتی منعقد ہوئی۔ ہریک
ur_Arab
خانوادہ کے بعد شی شو ناگ خانوادہ تخت سلطنت پر متمکن ہوا۔ 345 ق م میں آخری شی شو ناگ بادشاہ کالا شوک مہا پدم نند کے ہاتھوں مارا گیا۔ کالا شوک کے مرتے ہی شی شو ناگ خاندان کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا اور مگدھ کے افق پر نندوں کا آفتاب طلوع ہوا۔ مہا پدم نند نو نندوں میں سے پہلا تھا اور اس کے بعد اسی کے آٹھ بیٹے نند کہلائے۔ نند سلطنت اور سکندر کی مہم نند سلطنت کی سرحدیں بنگال سے پنجاب تک اور جنوب میں وندھیاچل تک پھیلی ہوئی تھیں۔ یہ نند سلطنت کے عروج کا زمانہ تھا اور اس کی ثروت اور دولت مندی کے چرچے ہر طرف تھے۔ ہَریَک اور شی شو ناگ خانوادوں نے جس سلطنت کی بنیادیں اٹھائی تھیں، نند کے دور میں وہ بڑھتے بڑھتے شمالی ہند کی پہلی عظیم الشان سلطنت بن گئی۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے زبردست فوج بنائی جس میں (کم ترین اندازے کے مطابق) 2 لاکھ پیادے، 20 ہزار سوار، 2 ہزار جنگی رتھ اور تین ہزار جنگی ہاتھی تھے۔ یونانی مورخ پلو ٹارک لکھتا ہے کہ نند افواج میں 2 لاکھ پیادے، اسی ہزار سوار، آٹھ ہزار جنگی رتھ اور چھ ہزار جنگی ہاتھی تھے۔ دھنا نند کے عہد میں سکندر شمال مغربی ہندوستان پر حملہ آور ہوا لیکن نند افواج کو سکندر اعظم سے مقابلہ کرنے کا موقع نہیں ملا کیونکہ دریائے بیاس پر یونانی افواج نے سکندر کے خلاف بغاوت کر دی اور مزید پیش قدمی سے انکار کر دیا تھا۔ چنانچہ سکندر کو پنجاب اور سندھ کے میدانوں سے واپس لوٹنا پڑا۔ موریا سلطنت بر صغير سے سکندر اعظم کے جانے کے بعد نند سلطنت کی بساط الٹ گئی اور موريا دور کا آغاز ہوا۔ برصغیر کی تاریخ میں پہلی بار ایسی عظیم الشان اور مستحکم سلطنت قائم ہوئی تھی۔ موریا سلطنت (322 ق م تا 185 ق م) نے اپنے عہد عروج میں ہندوستان کے بیشتر خطوں کو اپنی سلطنت کے حدود میں شامل کر لیا تھا۔ چنانچہ اس کی حکومت شمال میں ہمالیہ سے جنوب میں کرناٹک تک اور مشرق میں آسام سے مغرب میں کوہ ہندوکش سے پرے افغانستان تک پھیلی ہوئی تھی۔ سکندر کی واپسی کے بعد چانکیہ (کوٹلیہ) کی مدد سے چندرگپت موریا نے مگدھ (موجودہ بہار) میں نند سلطنت کا تختہ پل
ur_Arab
ٹا اور موریا سلطنت کی بنیاد رکھی۔ چندر گپت نے اپنے دشمنوں کو زیر کرتے ہوئے بڑی سرعت سے مغربی ہند سے وسطی ہند تک اپنا اقتدار قائم کر لیا اور 317 ق م تک پورا شمال مغربی ہندوستان اس کے ما تحت آچکا تھا۔ بعد ازاں سلوقی موریا جنگ کے میدان میں اس نے سلوقی اول کو شکست دی جو سلوقی سلطنت کا بانی اور سکندر کا دوست تھا۔ اس جنگ میں فتح پانے کے بعد دریائے سندھ کا مغربی خطہ بھی اس کی حکومت میں شامل ہو گیا۔ چندر گپت کے بعد اس کا بیٹا بندو سار 297 ق م کے آس پاس تخت سلطنت پر بیٹھا۔ اس کی وفات تک (تقریباً 272 ق م) برصغیر ہند کا بڑا رقبہ موریا سلطنت کے حدود میں شامل ہو چکا تھا۔ البتہ کلنگ کا علاقہ (موجودہ اوڈیشا) اس کے دائرۂ اقتدار سے باہر رہا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ جنوب سے کلنگ کے تجارتی روابط مضبوط تھے۔ بندو سار کے بعد سلطنت کی باگ ڈور اشوک کے ہاتھوں میں آئی۔ اشوک نے 232 ق م میں اپنی وفات تک تقریباً 37 برس حکومت کی۔ تخت نشینی کے کچھ عرصہ بعد 260 ق م کے آس پاس اشوک بھاری فوج لے کر کلنگ پر قبضہ کے ارادے سے نکلا۔ گھمسان کی جنگ ہوئی، لاکھوں آدمی مارے گئے لیکن کلنگ کا راجا اتنی بڑی فوج کے سامنے ٹک نہ سکا اور میدان اشوک کے ہاتھ رہا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد جب اشوک میدان کارزار کا معائنہ کر رہا تھا تو انسانی لاشوں کے انبار، زخموں سے چور فوجیوں اور جا بجا کٹے ہوئے سروں اور بریدہ ہاتھ پاؤں کو دیکھ کر اس کی طبیعت سخت متوحش ہوئی اور شدید احساس ندامت نے اسے آگھیرا۔ اس منظر نے اشوک کے وجود کو اندر سے ہلا ڈالا تھا۔ بالآخر اس نے زور و تشدد کی راہ ترک کر دی اور بدھ مت قبول کرنے کا اعلان کیا۔ اشوک کے عہد حکومت میں بدھ مت سارے ہندوستان میں پھیل چکا تھا۔ اشوک خود بدھ مت کا مبلغ بن کر تبلیغی دورے کرتا، اپنی رعایا سے ملتا اور انھیں بدھ مت کی تعلیم دیتا۔ اشوک کی وفات کے بعد سلطنت کا زوال شروع ہوا اور آخری موریا بادشاہ برہ دَرَتھ کو اس کے برہمن سالار پشیہ متر شونگ نے قتل کر کے آپ مگدھ کے تخت پر قابض ہوا اور یوں شونگ سلطنت کی ابتدا ہوئی۔ اس دوران میں اور اس
ur_Arab
کے بعد بھی يونانيوں اور کشانوں کا اثر برقرار رہا۔ کشان راجہ گجر قوم سے تھا جس کا پورا نام مہاراجہ کنشک کسانہ ہے اور اس کی اولاد آگے چل کر کسانہ کہلائی۔ اس کا دارالخلافہ قنوج تھا جس کے کھنڈر آج بھی شمالی بھارت میں پائےجاتے ہیں۔ چندر گپت موریہ اور اس کے جانشینوں کے دور میں کاشت کاری اور اقتصادی سرگرمیاں سارے ہندوستان میں تیز تر ہو گئی تھیں اور مقامی و بیرونی تجارت خوب پھل پھول رہی تھی۔ اس ترقی اور خوش حالی کی وجہ موریا سلطنت کا وہ مستحکم اور متحدہ نظام تھا جو مالی، انتظامی اور حفاظتی شعبوں میں رائج تھا اور اسی بہترین نظم نے سارے ہندوستان کو ایک سرے سے دوسرے تک ایک لڑی میں پرو دیا تھا۔ موریا حکمرانوں نے گرینڈ ٹرنک روڈ تعمیر کی جو ایشا کی قدیم ترین اور طویل ترین شاہراہوں میں سے ایک ہے اور برصغیر ہند کو وسطی ایشیا سے جوڑتی ہے۔ جنگ کلنگ کے بعد تقریباً نصف صدی تک سلطنت میں ہر طرف امن و امان کا راج رہا۔ یہ عوام کی فلاح و بہبود، سماجی ہم آہنگی، مذہبی تبدیلی اور علوم و فنون کی ترقی کا زمانہ تھا۔ چندر گپت کے جین دھرم کو اختیار کر لینے کے بعد ہندوستانی معاشرے میں سماجی اور مذہبی تبدیلیوں اور اصلاحات کا آغاز ہوا تھا۔ جبکہ اشوک کی تبدیلی مذہب کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس واقعہ نے ہندوستانی معاشرے کی سماجی و سیاسی بُنت میں ایک انقلاب برپا کر دیا اور سارا ہندوستان عدم تشدد، امن و امان اور بے مثال نظم و ضبط کا گہوارہ بن گیا۔ اشوک نے حکومت کے سفیروں کی بجائے ملکوں ملکوں بدھ مت کے مبلغین بھیجے جنھوں نے گوتم بدھ کے پیغام کو عام کیا۔ چنانچہ اس کے مبلغین سری لنکا، جنوب مشرقی ایشیا، مغربی ایشیا، شمالی افریقا اور یورپ کے بحیرۂ روم تک پہنچے اور ان مقامات کو بدھ مت کی تعلیمات سے رو شناس کیا۔ ارتھ شاستر اور اشوک کے کتبے موریا دور کے احوال و وقائع کے اولین مآخذ ہیں۔ اثریات کی رو سے یہ سیاہ قلعی دار شمالی برتنوں کی تہذیب کا زمانہ تھا۔ موریا سلطنت کی بنیادیں اپنے عہد کی ترقی یافتہ معیشت اور ہنر مند سماج پر استوار تھیں۔ گرچہ اس عہد میں سامان تجارت کی خریداری کا سارا نظام حکومت کے متعینہ اصول و ضوابط کے تحت ہی انجام پاتا تھا لیکن معاشرے میں بنکاری کا سراغ نہیں ملتا اور شرح
ur_Arab
سود بندھے ہوئے سماجی چلن کے مطابق ہی لی اور دی جاتی تھی۔ انسانی غلامی کی شہادتیں بڑی تعداد میں ملتی ہیں جن سے صاف ظاہر ہے کہ موریا معاشرے میں غلاموں کا چلن عام تھا۔ اسی عہد میں شمالی ہندوستان میں ایک قسم کا نہایت معیاری فولاد تیار کیا گیا جسے ووٹز فولاد کہتے ہیں۔ یہ فولاد چین اور عرب تک جاتا تھا۔ سنگم عہد تیسری صدی ق م سے چوتھی صدی عیسوی تک کا زمانہ سنگم عہد کہلاتا ہے۔ یہ تمل ادب کے فروغ کا زمانہ ہے اور اسی عہد میں تین تمل شاہی خانوادوں چیر، چول اور پانڈیہ نے جنوبی ہند کے مختلف علاقوں پر حکمرانی کی۔ یہ تینوں شاہی خانوادے تمل اکام کے تاجوران ثلاثہ کہلاتے ہیں۔ سنگم عہد کے ادیبوں نے اپنی تخلیقات میں اس دور کے وقائع و تواریخ، سیاسیات اور جنگوں اور تمل قوم کی تہذیب و ثقافت کو بڑی وضاحت اور تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان ادیبوں کا تعلق کسی مقتدر خانوادے سے نہیں تھا، بلکہ سماج کے معمولی گھروں میں ان کا جنم ہوا اور عوام الناس کے درمیان میں پرورش پائی۔ ان کے مسائل کا بچشم خود مشاہدہ کیا اور ان کے درد و کرب کو محسوس کیا۔ گو کہ ان ادیبوں کو شاہانہ سرپرستی حاصل تھی، لیکن انھوں نے راجوں مہاراجوں کی قصیدہ نگاری کی بجائے سماج کے عام طبقات کی زندگی اور ان کے روزمرہ مسائل کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ سنسکرت مصنفین کے برعکس جو بالعموم برہمن ہوا کرتے تھے، سنگم ادب کے تخلیق کاروں کا تعلق مختلف سماجی طبقوں سے تھا، وہ متنوع پس منظر کے حامل اور بیشتر غیر برہمن تھے۔ ان کا دھرم مختلف اور پیشے جدا جدا تھے۔ ان میں کاشت کار بھی تھے، دست کار بھی تھے، دکان دار، تاجر اور پروہت بھی تھے۔ ان میں عورتیں بھی تھیں اور شاہزادے بھی تھے۔ تقریباً 300 ق م سے 200 عیسوی تک پَتو پاٹّو، ایٹو توگئی اور پَتی نَینکل کنکّو لکھے جاتے رہے۔ پَتو پاٹّو اوسط لمبائی کی دس نظموں کا مجموعہ ہے اور سنگم ادب کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ ایٹو توگئی میں آٹھ منتخب مجموعہ ہائے کلام کو یکجا کیا گیا ہے اور پَتی نَینکل کنکّو اٹھارہ مختصر نظموں
ur_Arab
کا مجموعہ ہے۔ نیز تمل زبان کے گرامر کی قدیم ترین کتاب تولکا پیئم بھی اسی دوران میں تصنیف کی گئی۔ علاوہ بریں سنگم عہد میں تمل ادب کے پانچ عظیم رزمیے (ائیم پیروم کاپّی یَنکَل) بھی تخلیق کیے گئے۔ سیلاپتی کارم کو ایلانگو ادیگل نے لکھا جو ایک غیر مذہبی رزمیہ ہے۔ اس رزمیہ کا مرکزی کردار کن نکی نامی ایک خاتون ہے جس کے ساتھ پانڈیہ دربار میں نا انصافی ہوتی ہے اور وہ اپنے شوہر سے علاحدہ ہو جاتی ہے۔ اس ظلم پر کن نکی کا جذبۂ انتقام بیدار ہوتا ہے اور سلطنت سے بدلہ لینے کی ٹھان لیتی ہے۔ سیتَلئی ساتّنار نے منی میکالئی تصنیف کی جو دراصل سیلاپتی کارم ہی کا تسلسل ہے۔ اس میں کوولن کی بیٹی مادھوی کی کہانی نظم کی گئی ہے جو بودھ بھکشونی بن جاتی ہے۔ کلاسیکی اور اوائل قرون وسطی کے ادوار (200 ق م تا 1200ء) تیسری صدی عیسوی سے چھٹی صدی عیسوی کا درمیانی عرصہ ہندوستان کا کلاسیکی دور کہلاتا ہے۔ یہ عہد موریہ سلطنت کے زوال سے شروع ہو کر گپت سلطنت کے زوال تک جاری رہا۔ اس دور کو مزید مختلف ذیلی ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہی وہ دور ہے جس میں شونگ اور ساتواہن سلطنتوں کو عروج حاصل ہوا۔ چوتھی صدی عیسوی سے چھٹی صدی عیسوی تک گپت سلطنت قائم رہی۔ گپت سلطنت کا یہ دور ہندومت کی تاریخ کا عہد زریں سمجھا جاتا ہے۔ کلاسیکی عہد کی اس پوری مدت میں مذکورہ سلطنتوں کے علاوہ ہندوستان کے مختلف خطوں پر دیگر متعدد سلطنتیں بھی حکمران رہیں اور انھوں نے پوری خود مختاری سے اپنی ریاست کا نظم و نسق سنبھالا۔ علاوہ بریں تیسری صدی ق م سے تیسری صدی عیسوی تک جنوبی ہندوستان میں سنگم ادب بھی نکھرتا اور ترقی کی منزلیں طے کرتا رہا۔ اس پورے عرصہ میں یعنی پہلی صدی عیسوی سے 1000 عیسوی تک ہندوستانی کی معیشت دنیا کی کل دولت کا ایک تہائی سے ایک چوتھائی حصہ رہی، اس لحاظ سے اُس وقت ہندوستان کی معیشت دنیا کی سب سے بڑی معیشت تھی۔ ابتدائی کلاسیکی دور (تقریباً 200 ق م تا تقریباً 320 عیسوی) شونگ سلطنت شونگ مگدھ سے اٹھے اور برصغیر ہند کے مشرقی اور وسطی علاقوں تک اپنی
ur_Arab
سلطنت قائم کر لی۔ ان کا عہد سلطنت تقریباً 187 ق م سے 78 ق م تک رہا۔ پشیہ متر شونگ نے موریا سلطنت کے آخری بادشاہ کو تخت و تاج سے بے دخل کر کے اس سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اس کا دار السلطنت پاٹلی پتر تھا لیکن آگے چل کر بعض شونگ بادشاہوں مثلاً بھگ بھدر وغیرہ نے ودیشا میں بھی اپنا دربار کیا جو اُس وقت بیس نگر کہلاتا تھا اور مشرقی مالوہ میں واقع تھا۔ پشیہ متر شونگ نے 36 برس حکومت کی۔ بعد ازاں اس کا بیٹا اگنی متر اس کا جانشین ہوا۔ کل دس شونگ بادشاہ گذرے ہیں لیکن اگنی متر کی وفات کے بعد سلطنت کا شیرازہ تیزی سے بکھرنے لگا۔ اس عہد کے کتبات اور سکوں سے معلوم ہوتا ہے کہ شمالی اور وسطی ہندوستان میں چھوٹی چھوٹی متعدد سلطنتیں اور بھی موجود تھیں جو شونگ کی بالادستی سے مکمل آزاد اور خود مختار تھیں۔ شونگ سلطنت اپنے دور حکمرانی میں بیرونی اور اندرونی دونوں طاقتوں سے نبرد آزما رہی۔ چنانچہ کلنگ کی مہامیگھ واہن سلطنت، دکن کی ساتواہن سلطنت، ہند یونانیوں اور غالباً پانچال اور متھرا کی متر سلطنت سے ان کی کئی جنگیں ہوئیں۔ فنون لطیفہ اور فلسفہ کی مختلف شکلیں اور تعلیم و تعلم کے دیگر وسائل بھی اس عہد میں پروان چڑھے جن میں کھپریلوں پر شبیہ سازی، پتھروں کے دیو ہیکل مجسمے اور تعمیراتی یادگاریں بھرہوت اور سانچی کے معروف استوپ وغیرہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ شونگ بادشاہوں نے فنون لطیفہ اور تعلیم کے فروغ کے لیے شاہی وظیفہ بھی جاری کیا اور اس روایت کو قائم کرنے میں ان کا بڑا حصہ رہا۔ امور سلطنت میں جس رسم الخط کو استعمال کیا جاتا تھا، وہ براہمی رسم الخط کی ایک شکل تھی جس میں سنسکرت لکھی جاتی۔ شونگ سلطنت نے ایسے وقت میں ہندوستانی ثقافت کے فروغ میں مربیانہ کردار نبھایا جب ہندو افکار میں بعض اہم ترین تغیرات رونما ہو رہے تھے۔ اس نے سلطنت کو پھلنے پھولنے اور اقتدار حاصل کرنے میں خاصی مدد کی۔ ساتواہن سلطنت ساتواہن سلاطین اصلاً دکنی تھے، اسی بنا پر وہ "آندھرا سلاطین" بھی کہلاتے ہیں۔ آندھرا پردیش کا مقام امراوتی ان کا دار السلطنت تھا لیکن مختلف ادوار میں ان کا پایۂ تخت تبدیل ہوتا رہا، کبھی جنر (پونہ
ur_Arab
) ان کا مستقر رہا، کبھی پرٹسٹھان (پئے ٹھن)، مہاراشٹر ان کا صدر مقام بنا۔ پہلی صدی ق م میں ان کی سلطنت کی بنیاد پڑی اور رفتہ رفتہ انھوں نے ہندوستان کے بڑے حصے پر اپنا اقتدار قائم کر لیا۔ پہلے یہ موریا سلطنت کے باج گزار تھے لیکن اس کے زوال کے بعد اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا اور دکن کے نصف بالائی حصہ پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک قابض ہو گئے۔ ساتواہن سلاطین ہندومت اور بدھ مت کے بڑے سرپرست اور مربی گذرے ہیں۔ ان کی اسی سرپرستی کا نتیجہ ہے کہ آج ایلورا سے امراوتی تک بدھ مت کی متعدد یادگاریں پائی جاتی ہیں۔ ساتواہن ان اولین ہندوستانی ریاستوں میں سے ہے جنھوں نے اپنے سکوں پر سلاطین کی شبیہ بنائی۔ نیز ان سلاطین نے سندھ و گنگ کے میدان اور جنوبی ہندوستان میں ایک تہذیبی پل کا کام کیا جس کی مدد سے شمالی ہند کے افکار و تصورات جنوب تک پہنچے۔ علاوہ بریں ساتواہن نے ان دونوں خطوں میں تجارتی روابط کے استحکام میں بھی خاصا اہم اور فعال کردار نبھایا۔ ساتواہن کو اپنے اقتدار کے استحکام کی خاطر شونگ اور مگدھ کی اُس وقت کی کَنَو سلطنت سے معرکہ آرائی بھی کرنا پڑی۔ آگے چل کر یہی سلطنت ہندوستان پر بیرونی حملوں کے سامنے مضبوط فصیل ثابت ہوئی اور ہندوستان کے بڑے حصے کو خارجی عناصر مثلاً شکوں، یونانیوں اور پہلووں کے ہاتھوں میں جانے سے محفوظ رکھا۔ بالخصوص مغربی شترپوں سے ان کی کشمکش طویل عرصہ تک جاری رہی۔ اور بالآخر ساتواہن سلاطین گوتمی پتر شاتکرنی اور یگیہ شری شاتکرنی جیسے بیرونی حملہ آوروں کو شکست دینے میں کامیاب رہے۔ تیسری صدی عیسوی میں ساتواہن سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا اور وہ متعدد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو گئی۔ ہندوستان کی تجارت اور سیاحت کیرالا کی مسالوں کی تجارت قدیم دنیا کے تاجروں کو کھینچ کھینچ کر ہندوستان لا رہی تھی۔ چنانچہ نئے سنگی دور کے نقوش و کتبات میں ایسے قرائن ہاتھ آئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کا جنوب مشرقی ساحل موزریز تین ہزار ق م تک مسالوں کی تجارت کا عظیم الشان مرکز بن چکا تھا۔ نیز 562 ق م تک کوچی، کیرالا کی بندرگاہ پر اترنے والے سمیریوں اور
ur_Arab
یہودیہ سے آنے والے یہودی تاجروں کا باضابطہ تحریری سراغ ملتا ہے۔ پہلی صدی عیسوی کے آس پاس توما رسول بحری راستے سے ہندوستان پہنچا اور موزریز ساحل پر اترا۔ یہاں پہنچ کر توما نے سات گرجا گھروں کی بنیاد رکھی۔ پہلی یا دوسری صدی عیسوی میں بدھ مت شاہ راہ ریشم سے چل کر چین میں داخل ہوا اور دونوں تہذیبوں کے میل جول سے متعدد چینی سیاحوں اور سادھوؤں کے دلوں میں ہندوستان کی سیاحت کا داعیہ پیدا ہوا۔ ہندوستان کی سیاحت کرنے والے چینیوں میں فاہیان، یی جنگ، سونگ یون اور ہیون سانگ قابل ذکر ہیں۔ ان سیاحوں نے برصغیر ہند کی سیاحت کے مفصل سفرنامے لکھے جن میں اس خطہ کے سیاسی اور سماجی حالات پر بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے۔ جنوب مشرقی ایشا میں قائم ہندو اور بدھ مت کے مذہبی ادارے بھی تجارتی اور اقتصادی سرگرمیوں میں شریک نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان اداروں کے سرپرستوں نے ان کے تصرف میں خطیر رقمیں اس غرض سے دی تھیں کہ وہ اس سرمایہ کے ذریعہ مقامی معیشت کو پروان چڑھائیں اور اسے تجارت و صنعت کے فروغ کے لیے استعمال کریں۔ خصوصاً بدھ مت نے بحری تجارت کی گزر گاہوں سے خوب سفر کیا اور سکوں، فنون لطیفہ اور تعلیم و تعلم کے نظام کو فروغ دیتی رہی۔ مسالوں کے ہندوستانی تاجر اپنے ہندوستانی پکوانوں کو جنوب مشرقی ایشیا پہنچا آئے اور مقامی باشندوں کے درمیان میں جلد ہی یہ مسالے اور ان سے تیار کی جانے والی ترکاریاں ہاتھوں ہاتھ لی جانے لگیں۔ روم و یونان نے شاہراہ بخور اور ہند رومی شاہراہوں کے ذریعہ اپنی تجارت جاری رکھی۔ دوسری صدی ق م میں عدن وغیرہ کے عرب ساحلوں پر یونان اور ہندوستان کے بحری تاجروں کا آمنا سامنا ہوا اور باہمی تجارتی روابط استوار ہوئے۔ پہلے ہزارے میں ہندوستان کی آبی گذرگاہوں کا انتظام ہندوستانیوں اور حبشیوں کے ہاتھوں میں دکھائی دیتا ہے جو اس وقت بحیرہ احمر کی سمندری تجارت کا اہم ستون سمجھے جاتے تھے۔ کُشان سلطنت کُجُل کڈفِسیس کشان سلطنت کا پہلا فرماں روا تھا۔ تقریباً پہلی صدی عیسوی کے وسط تک اس نے اپنی سلطنت کے رقبہ کو موجودہ افغانستان سے باہر برصغیر ہند کے شمال مغرب تک پھیلا دیا تھا۔ کشانیوں کے متعلق یہ گمان ہے کہ وہ تشاری زبان بولنے والے اور یوہژی اتحاد کے
ur_Arab
پانچ ارکان میں سے ایک تھے۔ کجل کڈفسیس کے پوتے کنشک اعظم کے دور حکومت تک افغانستان کے بیشتر حصہ پر کشان قابض ہو چکے تھے۔ پھر سلطنت کی فتوحات کا دائرہ شمالی ہندوستان کے خطے ساکیت اور وارانسی کے قریب واقع سارناتھ تک وسیع ہو گیا۔ شہنشاہ کنشک بدھ مت کا بڑا مربی تھا۔ لیکن جب کشان جنوب کی طرف بڑھے تو ان کے دیوی دیوتاؤں کی مورتیوں میں نئی ہندو اکثریت کا عکس نمایاں ہونے لگا۔ اس کے باوصف بدھ مت کے استحکام میں کشانیوں کے غیر معمولی کردار کو فراموش نہیں جا سکتا۔ ہندوستان سے وسط ایشیا تک اور چین کی سرزمین پر بدھ مت کا استحکام انھی کشانیوں کی کاوشوں کا ثمر ہے۔ مورخ ونسنٹ اسمتھ کنشک کے متعلق لکھتا ہے: علاوہ بریں کشانی فرماں رواؤں نے بحر ہند کی سمندری تجارت کو وادی سندھ کے ذریعہ شاہراہ ریشم کے کاروبار سے جوڑا اور دور دراز کے ممالک سے تجارت کی سرپرستی کی، بالخصوص چین اور روم کے مابین تجارت کی خوب ہمت افزائی کی۔ اس عہد میں گندھارا اور متھرا کے فنون بھی بہار دکھانے لگے تھے۔ ان میں نئے شگوفے کھلے، نئے غنچے چٹخے، نئے رجحان سامنے آئے اور یہ فنون اپنی جوبن پر آگئے۔ ہیو جارج رالنسن رقم طراز ہے: تیسری صدی عیسوی تک پہنچتے پہنچتے کشانوں کی سلطنت بکھرنے لگی۔ ان کا آخری قابل ذکر بادشاہ واسو دیو اول تھا۔ کلاسیکی دور (320 عیسوی - 650 عیسوی) گپت سلطنت گپت سلطنت کے عہد حکومت کو تہذیبی اور ثقافتی شعبوں خصوصاً ادب، فن تعمیر، سنگ تراشی اور نقاشی میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ اس عرصہ میں کالی داس، آریہ بھٹ، وراہ مہیر، وشنو شرما اور وتسیہ یان جیسی ذی علم ہستیاں ابھریں جنھوں نے علوم و فنون کے مختلف میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے اور اپنے دیرپا نقوش چھوڑے۔ انھی وجوہ سے گپت عہد کو ہندوستانی ثقافت کی تاریخ کا اہم ترین موڑ سمجھا جاتا ہے۔ گپت سلاطین نے اپنی حکمرانی کو تقویت بخشنے اور ہندوؤں کی نگاہ میں اسے قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے ایک طرف ویدک امور انجام دیے، اور دوسری
ur_Arab
جانب انھوں نے بدھ مت کو بھی اپنا سایۂ عاطفت عطا کیا جو برہمنی عقائد کے بالمقابل ایک متبادل نظام فکر کے روپ میں اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔ نیز گپت سلطنت کے ابتدائی تین سلاطین چندر گپت اول، سمدر گپت اور چندر گپت دوم کے عہد میں ہونے والی لشکر کشی سے ہندوستان کا بڑا حصہ گپت سلطنت کے زیر نگین آگیا۔ اس عہد میں علوم و فنون اور سیاسی انتظام و انصرام نے نئی چوٹیاں سر کیں۔ مضبوط تجارتی تعلقات نے بھی اِس خطے کو ایک اہم تہذیبی مرکز بنانے میں خاصا بڑا کردار نبھایا اور قریبی ریاستوں اور حکومتوں مثلاً سمندری جنوب مشرقی ایشیا (برونائی، انڈونیشیا، ملائیشیا، فلپائن، سنگاپور اور مشرقی تیمور)، نیز ہند چینی (کمبوڈیا، لاؤس، میانمار، تھائی لینڈ اور ویت نام) وغیرہ پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے اور گپت سلطنت کی مدت حکمرانی امن و سکون اور چین و سلامتی میں ضرب المثل بن گئی۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے چہرے پر اس عہد کو گپت سلطنت کا بوسۂ امن قرار دیا جاتا ہے۔ بعد میں آنے والے گپت سلاطین الچون ہن کی آمد تک اپنی سرحدوں کا کامیاب دفاع کرتے رہے۔ پانچویں صدی عیسوی کے نصف اول میں الچون ہن افغانستان کی سرزمین پر ابھرے اور بامیان کو اپنا دار الحکومت بنا کر گپت سلطنت کی شمال مغربی سرحدوں پر حملہ آور ہوئے۔ تاہم شمال کی اس شورش سے دکن سمیت جنوبی ہندوستان کے اکثر حصے عام طور پر محفوظ رہے۔ گپت خاندان کی تباہی ان منگول قوموں کے ہاتھوں ہوئی جو ہن کہلاتی تھیں۔ یہ لوگ سفید رنگت کی وجہ سے سفید ہن کہلائے۔ ان کی ایک شاخ ایران میں مقیم ہو گئی جبکہ ایک گروہ ترکی چلا گیا اور ایک شاخ یورپ جا کر آباد ہو گئی۔ 450ء کے قریب یہ قبائل پنجاب کی سرزمین پر وارد ہوئے اور اسی جگہ بود و باش اختیار کر لی۔ یہاں سے چل کر یہ لوگ جمنا کی تلہٹی میں پہنچے اور اس وقت کے گپت راجا پر غالب آگئے۔ ان کے سردار کا نام تورمان تھا۔ اس نے 500ء کے قریب اپنے آپ کو مالوے کا راجا بنایا اور مہاراجا کہلوایا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا مہر گل گدی پر بیٹھا۔ یہ بڑا بے رحم اور ظالم
ur_Arab
حکمران تھا۔ اس نے بے شمار افراد قتل کروائے۔ اس کا ظلم و ستم اس حد تک بڑھ گیا کہ بالآخر ہندوستان کے تمام بادشاہ مہر گل کے خلاف متحد ہوئے اور مگدھ کا راجا بالا دتیہ وسط ہند کے ایک راجا یسودھرمن کی مدد سے بڑی بھاری فوج لے کر اس کے مقابلے پر آیا۔ 528ء میں ملتان کے قریب کہروڑ کے مقام پر مہر گل کو شکست دی اور مہر گل اور اس کی فوج کو ہندوستان سے نکال دیا۔ مہر گل کشمیر چلا گیا، وہاں کے راجا نے اسے پناہ دی۔ ہن ہندوستان میں سو برس کے قریب رہے۔ روایات کے مطابق ہن قبائل نے بعد میں کاشتکاری کا پیشہ اختیار کر لیا۔ یہ لوگ زیادہ تر گایوں کی افزائش نسل کرتے تھے، اس لیے انھیں "گاؤ چر" کا خطاب ملا جو کثرت استعمال سے گجر بن گیا۔ انھوں نے ہندوستان میں گجرات، گوجرہ اور گوجرانوالہ کے شہر آباد کیے۔ واکاٹک سلطنت کاماروپا سلطنت پالوا سلطنت کدامبا سلطنت ہرش سلطنت ابتدائی قرون وسطی کا دور (وسط چھٹی صدی تا 1200 عیسوی) چالوکیہ سلطنت راشٹرکوٹا سلطنت گرجر پرتیہار سلطنت گہداوالا خاندان کھیاروالا خاندان پالا سلطنت چولا سلطنت مغربی چالوکیہ سلطنت قرون وسطی کا آخری دور (1200ء تا 1526ء) سلطنت دہلی تيرہويں صدی ميں شمالی ہند ميں دہلی سلطنت قائم ہوئی۔ اس کا آغاز خاندان غلاماں نے رکھا۔ اس کے بعد شمالی ہند کا تاج خلجی، تغلق، سيد اور پھر لودھی خاندانوں کے پاس گيا۔ اس دوران میں جنوبی ہند ميں باہمنی اور وجے نگر سلطنتیں قائم تھيں۔ وجے نگر سلطنت میواڑ خاندان (728-1947) بھکتی تحریک اور سکھ مت دورِ جدید کی ابتدا (1526ء تا 1858ء) مغلیہ سلطنت سن 1526ء ميں شہنشاہ بابر نے دہلی پر قبضہ کر کے بر صغير ميں مغل سرکار کی بنياد رکھی۔ اس کے بعد تاج ہمايوں، اکبر، جہانگیر، شاہ جہاں اور اورنگزيب کے پاس گيا۔ يہ دو سو سال بر صغير کا ايک سنہرا دور تھا۔ اس دور ميں علم و ادب اور فن نے بہت ترقی کی۔ اس دوران میں جنوبی ہند ميں ايک ايک کر کے مغلوں نے کئی علاقوں پر قبضہ کر ليا۔ مرہٹے اور سکھ مرہٹہ سلطنت سکھ سلطنت دیگر مملکتیں یورپی نوآبادیاتی دور ایسٹ انڈیا کمپنی کا راج بر صغير ميں یورپی
ur_Arab
اثر سولہويں صدی سے بڑھتا جا رہا تھا۔ انگريزوں نے کئی علاقوں ميں حکومت کرنا شروع کر دی تھی۔ سن 1857ء ميں بر صغير کے لوگوں نے انگريزوں کے خلاف سب سے پہلی جنگ آزادی لڑی جس ميں وہ ہار گئے۔ سنہ 1947ء ميں برطانوی ہند کی تقسیم کے ساتھ پاکستان اور ہندوستان کو آزادی ملی۔ 1971ء ميں بنگلہ ديش پاکستان سے عليحدہ ہو گيا۔ 1972ء ميں سری لنکا کو مکمل آزادی مل گئی۔ جدید دور اور آزادی (1850 عیسوی کے بعد) جنگ آزادی ہند 1857ء اور نتائج برطانوی راج (1858-1947ء) ہندوستانی نشاۃ ثانیہ قحط پہلی جنگ عظیم دوسری جنگ عظیم ہندوستانی تحریک آزادی (1885-1947ء) دوسری جنگ عظیم کے بعد (1946–1947) آزادی اور تقسیم (1947 تا حال) تاریخ نگاری حالیہ دہائیوں میں تاریخ نگاری کے چار اہم مکاتب ہیں کہ مورخین کس طرح ہندوستان کا مطالعہ کرتے ہیں: کیمبرج، نیشنلسٹ، مارکسی، اور سبالٹرن۔ ایک زمانے میں عام "مشرقی" نقطہ نظر جس کی اپنی حس، عسیر الفہم، اور مکمل روحانی ہندوستان کی تصویر تھی، سنجیدہ علمی وظائف میں ختم ہو چکی ہے۔ "کیمبرج مکتبہ فکر" جس کی قیادت انیل سیل، گورڈن جانسن، رچرڈ گورڈن، اور ڈیوڈ اے واشبروک، کر رہے ہیں، نظریات کی نفی کرتے ہیں۔۔ تاہم تاریخ نگاری کے اس مکتب پر مغربی تعصب یا یورو سینٹرزم کی وجہ سے تنقید کی جاتی ہے۔ "نیشنلسٹ مکتبہ فکر" نے کانگریس، گاندھی، نہرو اور اعلیٰ سطح کی سیاست پر توجہ مرکوز کی ہے۔ اس نے 1857ء کے بغاوت کو آزادی کی جنگ کے طور پر اجاگر کیا، اور 1942ء میں شروع ہونے والی گاندھی کی تحریک 'ہندوستان چھوڑ دو' کو تاریخی واقعات کی وضاحت کے طور پر لکھا۔ تاریخ نگاری کے اس مکتب کو اشرافیت پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ "مارکسی مکتبہ فکر" نے نوآبادیاتی دور میں معاشی ترقی، زمین کی ملکیت، اور طبقاتی کشمکش اور نوآبادیاتی دور میں غیر صنعتی ہونے کے مطالعے پر توجہ مرکوز کی ہے۔ مارکسیوں نے گاندھی کی تحریک کو بورژوا اشرافیہ کے آلہ کار کے طور پر پیش کیا تاکہ مقبول، ممکنہ طور پر انقلابی قوتوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ ایک بار پھر، مارکسیوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ
ur_Arab
وہ نظریاتی طور پر "بہت زیادہ" متاثر ہیں۔ "سبلٹرن مکتبہ فکر" کی شروعات 1980ء کی دہائی میں رنجیت گوہا اور گیان پرکاش نے کی تھی۔ یہ اشرافیہ اور سیاست دانوں سے ہٹ کر "نیچے سے تاریخ" کی طرف توجہ مرکوز کرتا ہے، کسانوں کی لوک داستانوں، شاعری، پہیلیوں، کہاوتوں، گانوں، زبانی تاریخ اور بشریات سے متاثر طریقوں کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ 1947ء سے پہلے کے نوآبادیاتی دور پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور عام طور پر ذات پات اور طبقے کو کم کرنے پر زور دیتا ہے، تاکہ سبلٹرن مکتبہ فکر کو ناگواری ہو۔ ابھی حال ہی میں ہندو قوم پرستوں نے ہندوستانی معاشرے میں ہندوتوا کو اپنے مطالبات کی حمایت کے لیے تاریخ کا ایک نسخہ تیار کیا ہے۔ یہ مکتبہ فکر ابھی ترقی کے مراحل میں ہے۔ مارچ 2012ء میں ہارورڈ یونیورسٹی میں تقابلی مذہب اور مطالعہ ہند کی پروفیسر، ڈیانا ایل۔ ایک نے اپنی کتاب "ہندوستان: ایک مقدس جغرافیہ" (India: A Sacred Geography) میں لکھاہے کہ "ہندوستان کا تصور انگریزوں یا مغلوں سے بہت پہلے کا ہے۔ یہ صرف علاقائی شناختوں کا ایک جھرمٹ نہیں تھا اور یہ گروہی یا نسلی نہیں تھا۔" مزید دیکھیے آدی واسی جمہوریہ ہند کی تاریخ بھارت کے خارجہ تعلقات قدیم ہندوستان تاریخ ہند کا خط زمانی
ur_Arab
نيا صفحہ کس طرح شروع کيا جا سکتا ہے۔ ايک اہم بات یہ ديکھ ليں کہ صفحہ پہلے سے موجود تو نہيں۔ نئے صفحے نيا صفحہ شروع کرنے کے طريقے۔ موجودہ لنک سے نيا صفحہ ويکيپيڈيا پڑھتے ہوئے آپ ايسی 'لنکس' پر پہنچيں گے جو لال رنگ کی ہيں۔ جيسے کہ لال لنک کی مثال يہ وہ لنکس ہيں جن کے مضمون ابھی لکھے نہيں گئے۔ اس لنک پر کلک کرنے سے آپ ايک نئے صفحے پر جاءيں گے جہاں لکھا ہو گا کہ آپ ايک ايسے صفحے پر ہيں جسے ابھی تشکيل نہيں کيا گيا۔ صفحہ شروع کرنے کے لیے نيچے والے خانے ميں لکھنا شروع کر ديں۔ ايڈٹ خانے ميں لکھنا شروع کر ديں۔ جب لکھ ليں تو اسے 'محفوظ' کر ليں۔ دوسرے صفحات کی لنکس بنانا جب آپ کوئی صفحہ لکھ رہے ہوں اور آپ کو لگے کہ کسی لفظ يا فقرے کا اپنا صفحہ ہونا چاہئے تو اس کے دونوں طرف دہرے بريکٹ لگا ديں۔ جيسا کہ[[نئ لنک]]۔ اس طرح آپ کی اس صفحے تک لنک يو آر ايل کے ضريعے نيا صفحہ کسی بھی نئے صفحہ کے يو آر ايل پر جاءيں۔ http://ur.wikipedia.org/wiki/نيا_صفحہ نيا_صفحہ کی جگہ اپنے مضمون کا نام لکھيں، مثلا کراچی کے لیے http://ur.wikipedia.org/wiki/کراچی آپ کو خالی صفحہ ملے گا جس کو آپ 'صفحے ميں ترميم کريں' کے ضريعے پر کر سکتے ہيں۔ نامعلوم
ur_Arab
یہ مضمون ملک الجزائر کے بارے میں ہے۔ اس ملک کے دار الحکومت کے بارے میں مضمون کے لیے دیکھیے الجزائر شہر الجزائر جسے انگریزی میں الجیریا بھی کہتے ہیں، شمالی افریقہ میں واقع ایک ملک ہے۔ رقبے کے اعتبار سے بحیرہ روم پر واقع سب سے بڑا، عرب دنیا اور افریقی براعظم میں سوڈان کے بعد سب سے بڑا ملک ہے۔ دنیا میں اس کا 11واں نمبر ہے۔ الجزائر کے شمال مشرق میں تیونس، مغرب میں مراکش، جنوب مغرب میں مغربی صحارا، موریتانیا اور مالی ہیں۔ جنوب مشرق میں نائجر جبکہ شمال میں بحیرہ روم واقع ہیں۔ اس کا رقبہ تقریباً 24 لاکھ مربع میل جبکہ آبادی 3 کروڑ 57 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ الجزائر کے دار الحکومت کا نام بھی الجزائر ہے۔ الجزائر عرب لیگ، اقوامِ متحدہ اور اوپیک کا رکن ہے۔ وجہ تسمیہ ملک کا نام اس کے شہر الجزائر سے نکلا ہے۔ ایک اندازہ ہے کہ یہ لفظ "جزائر بنی مازغان" کی مختصر شکل ہے۔ تاریخ قبل از تاریخ پرانے دور میں الجزائر کو سلطنتِ نومیڈیا کہا جاتا تھا۔ اس کے لوگ نومیڈین کہلاتے تھے۔ اس سلطنت کے تعلقات اس دور کے قدیم یونان اور رومن اقوام کے ساتھ تھے۔ اس علاقے کو زرخیز علاقے کے طور پر جانا جاتا تھا اور یہاں کے لوگ گھڑ سواری کے ماہر تھے۔ شمالی افریقہ کے مقامی لوگ بالاخر بربر بنے۔ 1000 ق م میں قرطاجنہ قبائل نے ساحل کے ساتھ ساتھ آبادیاں بسانا شروع کر دیں۔ بربر قبائل نے موقع پا کر قرطاجنوں سے آزادی پا لی اور بربر ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ 200 ق م میں اس علاقے پر رومن سلطنت نے قبضہ کر لیا۔ تاہم جب 476 عیسوی میں مغربی رومن ریاست کا زوال ہوا تو بربر پھر سے آزاد ہو گئے۔ بعد میں یہاں وندال قبائل نے قبضہ کر لیا جو بازنطینیوں کی آمد تک قائم رہا۔ بازنطینی یہاں 8ویں صدی عیسوی تک موجود رہے پھر عرب یہاں قابض ہو گئے۔ قرونِ وسطٰی بربر قبائل قرونِ وسطٰی کے دوران زیادہ تر مغرب کے علاقے پر قابض رہے۔ بربر قبائل بذاتِ خود کئی قبائل پر مشتمل تھے۔ قرونِ وسطٰی میں مغرب، سوڈان، اٹلی، مالی، نائجر، سینیگال، مصر اور دیگر نزدیکی جزائر پر بربروں کے مختلف قبائلوں نے اپنی سلطنتیں قائم کیں۔ ابنِ خلدون نے ان قبائل کی کل تعداد 12 بیان کی ہے۔ اسلام
ur_Arab
کی آمد جب مسلمان عرب 7ویں صدی کے وسط میں یہاں پہنچے تو مقامی افراد کی بڑی تعداد نے اسلام قبول کر لیا۔ عرب امیہ سلطنت کے 751 عیسوی میں زوال کے بعد بہت ساری مقامی بربر سلطنتیں قائم ہوئیں جن میں الغالبہ، الموحدون، عبد الودید، زیریون، رستمیوں، حمیدیوں اور فاطمی وغیرہ اہم ہیں۔ ہسپانوی علاقے ہسپانویوں کی شمالی افریقہ میں توسیع پسندوں نے کیتھولک بادشاہ اور ملکہ کی مدد سے آئبیرین کے جزیرہ نما پر قبضہ کر لیا۔ الجزائر کے ساحل پر بہت سارے قصبوں اور بیرونی چوکیوں پر ہسپانویوں نے قبضہ کر لیا۔ 15 جولائی 1510 کو الجزائر کے بادشاہ کو زبردستی ہسپانوی بادشاہ کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا گیا۔ بعد ازاں 1516 کو 1٫300 ترک سپاہیوں اور 16 بحری جہازوں کی مدد سے یہاں قبضہ کر کے الجزائر کو سلطنت عثمانیہ سے ملا دیا گیا۔ عثمانی دور الجزائر کو خیرالدین بربر اور اس کے بھائی عروج نے 1517 میں سلطنتِ عثمانی سے جوڑ دیا۔ 1541 میں مقدس رومن سلطنت کے بادشاہ چارلس پنجم نے الجزائر پر 65 بحری جنگی جہازوں اور 23٫000 فوجیوں کی مدد سے حملہ کر دیا۔ اس فوج میں 2٫000 گھڑ سوار بھی شامل تھے۔ تاہم انہیں بدترین شکست ہوئی اور الجزائر کے رہنما حسن آغا کو قومی رہنما مان لیا گیا۔ الجزائر بہت بڑی فوجی قوت بن کر ابھرا۔ عثمانیوں نے الجزائر کی موجودہ سرحدیں شمال میں قائم کر دیں۔ عثمانی جہادیوں کے لیے الجزائر کے ساحل پڑاؤ کا کام کرنے لگے۔ 17ویں صدی میں عثمانیوں کے امریکی بحری جہازوں پر حملوں کی وجہ سے پہلی اور دوسری بربر جنگیں ہوئیں۔ دونوں اطراف کی فوجیں دشمنوں کو پکڑنے کے بعد غلام بنا دیتی تھیں۔ ان لوگوں کے گہرے اثر و رسوخ کی بنا پر اس علاقے کو بربری ساحل کہا جاتا تھا۔ یہ لوگ اکثر یورپی ساحلوں پر حملہ کر کے مسیحیوں کو غلام بنا کر ترکی، مصر، ایران، الجزائر اور مراکو کے بازاروں میں بیچ دیتے تھے۔ رابرٹ ڈیوس کے مطابق 16ویں سے 19ویں صدی کے دوران دس لاکھ سے ساڑھے بارہ لاکھ یورپیوں کو غلام بنا کر بیچا گیا۔ ان لوگوں کی اکثریت اٹلی، سپین اور پرتگال کی ساحلی بستیوں کے علاوہ فرانس، انگلینڈ، آئرلینڈ، ہالینڈ، جرمنی، پولینڈ، روس، سکینڈے نیویا، آئس لینڈ، ہندوستان، جنوبی مشرقی
ur_Arab
ایشیا اور شمالی امریکا سے پکڑی گئی تھی۔ ان حملوں کا اثر تباہ کن تھا۔ فرانس، انگلینڈ اور سپین کے ہزاروں بحری جہاز تباہ ہوئے اور سپین اور اٹلی کے ساحلوں کا بہت بڑا حصہ غیر آباد ہو گیا۔ 19ویں صدی تک انہی بحری قذاقوں کی وجہ سے ساحلی علاقے غیر آباد رہے۔ 1609 سے 1616 تک انگلینڈ کے 466 تجارتی بحری جہاز تباہ ہوئے۔ شمالی افریقہ کے شہروں پر طاعون کا بہت برا حملہ ہوا۔ اندازہ ہے کہ الجزائر ہی میں طاعون کی مختلف وباؤں سے 30٫000 سے 50٫000 شہری ہلاک ہوئے۔ فرانسیسی دورِ حکومت اپنے سفیر کی بے عزتی کے پیشِ نظر فرانسیسیوں نے 1830 میں حملہ کر کے الجزائر پر قبضہ کر لیا۔ تاہم یہ جنگ بہت طویل تھی اور بہت خون خرابا ہوا۔ 1830 سے 1872 تک مقامی آبادی جنگوں اور بیماریوں کی وجہ سے ایک تہائی کم ہو گئی۔ 1825 سے 1847 تک 50٫000 سے زیادہ فرانسیسی الجزائر منتقل ہوئے۔ تاہم یہ منتقلی بہت آہستگی سے ہوئی کیونکہ مقامی آبادی نے اس کے خلاف بہت جد و جہد کی۔ قبضے کے بعد فرانس نے ہر ممکن کوشش کر کے الجزائر کو فرانس کا اٹوٹ انگ بنایا۔ فرانس، سپین، اٹلی اور مالٹا سے ہزاروں میں آبادکار الجزائر منتقل ہوئے اور الجزائر کے ساحلی میدانوں پر کاشتکاری کے علاوہ شہروں کے اہم حصوں پر بھی قابض ہو گئے۔ ان آبادکاروں کو حکومتِ فرانس کی پشت پناہی حاصل تھی۔ 19ویں صدی کے اواخر سے الجزائر میں آباد یورپی النسل افراد اور الجزائرئی یہودیوں کو فرانس کا شہری تسلیم کر لیا گیا۔ الجزائر کی 1962 میں آزادی کے بعد یہاں یورپی النسل افراد کو کالے پیروں والے کہا جانے لگا کیونکہ آبادکار کالے بوٹ پہنتے تھے۔ تاہم یہ نام محض ہتک کے لیے لیا جاتا تھا۔ تاہم مسلمان الجزائرئی باشندوں کی بہت بڑی اکثریت کو بشمول پرانے فوجیوں کے، فرانسیسی شہریت اور ووٹ کے حق سے محروم رکھا گیا۔ بعد از آزادی 1954 میں نیشنل لبریشن فرنٹ نے الجزائر کی جنگِ آزادی شروع کی جو گوریلا جنگ تھی۔ اس جنگ کے اختتام پر صدر نے اپنے مشہور خطاب میں عوام سے کہا کہ "میں نے آپ کی بات سمجھ لی ہے "۔ عوام سمجھے کہ صدر نے الجزائر کے فرانس کا حصہ رہنے کے بارے اعلان کیا ہے۔ ریفرنڈم کے انعقاد کے بعد بہت بھاری اکثریت سے عوام نے آزادی کا انتخاب کر لیا۔ دس لاکھ سے زیادہ افراد فرانس منتقل ہو گئے۔ الجزائر کے پہلے صدر احمد بن بلا تھے جنہیں ان کے ہی معتمد اور سابقہ حلیف
ur_Arab
بومدین نے اقتدار سے ہٹا دیا۔ احمد بن بلا کے دور میں حکومت کا رحجان سوشلسٹ اور آمرانہ تھا۔ ان کے بعد یہ رحجان جاری رہا۔ تیل نکالنے کے پلانٹوں کو قومیا لیا گیا۔ اسی دور میں زراعت کو انفرادی سطح سے اجتماعی سطح پر لایا گیا اور صنعتی انقلاب کی راہ ہموار ہوئی۔ تاہم اس کے نتیجے میں تیل پر انحصار بڑھ گیا اور 1980 کی دہائی میں تیل کی گرتی قیمتوں سے ملکی معیشت بیٹھ گئی۔ الجزائر کے خارجہ تعلقات مغربی ہمسائے مراکو سے اچھے نہیں۔ اس کی وجوہات میں مراکو کا الجزائر کے کچھ علاقوں پر قبضہ اور الجزائر کی طرف سے مراکو کے علیحدگی پسندوں کی حمایت وغیرہ اہم ہیں۔ الجزائر میں اختلافِ رائے کی گنجائش نہیں ہے اور حکومت زیادہ تر میڈیا پر قابض ہے۔ 1976 کے آئین کے تحت ایک کے سوا تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ 1978 میں بومدین کا انتقال ہوا اور ان کے جانشین شاذلی بن جدید نسبتاً کھلے ذہن کے مالک تھے۔ ان کے دور میں افسرِ شاہی کا غلبہ ہوا اور رشوت ستانی عام ہو گئی۔ جدت پسندی کی وجہ سے الجزائر کی آبادی کی خصوصیات میں کافی تبدیلیاں ہوئیں۔ دیہاتوں کی شکل و صورت بدلنے لگی اور شہروں کی طرف منتقلی کا رحجان بڑھ گیا۔ نت نئی صنعتیں قائم ہوئیں اور زراعت میں لوگوں کی توجہ کم ہو گئی۔ ملک بھر میں تعلیم عام ہو گئی اور شرحِ خواندگی 10 فیصد سے بڑھ کر 60 فیصد تک جا پہنچی۔ فی عورت بچوں کی اوسط 7 سے 8 ہو گئی۔ 1980 سے 1988 تک اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف عراق کے ڈکٹیٹر صدام حسین کی مسلط کردہ جنگ کے دوران الجزائر نے ایران کا ساتھ دیا اور امریکی ایما پر لڑی جانے والی اس جنگ کو عرب اور عجم یا شیعہ سنی کی جنگ قرار دینے کی مذموم کوشش کوناکام بنادیا۔ 80 کے عشرے میں ملک میں نوجوانوں کی تعداد بہت بڑھ گئی۔ نتیجتاً دو مختلف گروہ پیدا ہوئے۔ پہلے گروہ میں بربر بھی شامل تھے جو کمیونسٹ رحجان رکھتے تھے جبکہ دوسری طرف اسلام پسند تھے۔ دونوں گروہ ہی یک جماعتی قانون کے خلاف تھے لیکن ایک دوسرے سے بھی لڑتے رہے۔ تاہم انہی کے احتجاج کے باعث 1988 میں بن جدید نے یک جماعتی قانون کو ختم کر دیا۔ الجزائر کے سیاسی واقعات (1991 تا 2002) 1991 میں الجزائر میں انتخابات منعقد ہونے تھے۔ دسمبر 1991 میں اسلامک سالویشن فرنٹ نے انتخابات کا پہلا مرحلہ جیتا تو فوج نے مداخلت کی اور دوسرا مرحلہ منسوخ کر دیا۔ اس کے
ur_Arab
بعد فوج نے اس وقت کے صدر بن جدید کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور مذہب کی بنیاد پر بننے والی ہر سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دے دیا۔ سیاسی چپقلش پیدا ہوئی اور خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ 1٫60٫000 سے زیادہ افراد 17 جنوری 1992 سے جون 2002 کے دوران مارے گئے۔ ان کی اکثریت شہریوں کی تھی۔ مبصرین کے بقول حکومت نے اپنی فوج اور غیر ملکیوں کی مدد سے شہریوں کو ہلاک کر کے ذمہ داری مختلف اسلامی گروہوں پر ڈال دی۔ 1995 میں انتخابات بحال ہوئے اور 1998 میں جنگ ختم ہو گئی۔ 27 اپریل 1999 کو عبد العزیز بوتفلیقہ کو فوج نے صدر چن لیا۔ جنگ کے بعد 2002 تک زیادہ تر چھاپہ مار گروہ یا تو ختم کر دیے گئے تھے یا پھر ہتھیار ڈال کر عام معافی پا چکے تھے۔ تاہم کچھ علاقوں میں لڑائی اور دہشت گردی کی کارروائیاں جاری ہیں۔ الجزائر کا زیادہ تر حصہ اب بحالی کی راہ پر چل رہا ہے اور ملکی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ تیل اور قدرتی گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے نئی حکومت کو ملکی ڈھانچے کی تعمیرِ نو میں مدد مل رہی ہے۔ جغرافیہ الجزائر کا زیادہ تر ساحلی علاقہ پتھریلا اور چٹانی ہے اور کہیں کہیں پہاڑ بھی ملتے ہیں۔ تاہم یہاں کئی قدرتی بندرگاہیں بھی موجود ہیں۔ ساحل سے لے کر اطلس التلی تک کا علاقہ زرخیز ہے۔ اطلس التلی کے بعد کا علاقہ گھاس کے وسیع و عریض میدانوں پر مشتمل ہے جو کوہ اطلس کے مشرقی حصے تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے بعد صحرائے صحارا ہے۔ ھقار کے پہاڑ دراصل وسطی صحارا کے بلند علاقے ہیں جو دار الحکومت سے 1٫500 کلومیٹر جنوب میں ہیں۔ الجزائر، وہران، قسطنیہ، تیزی وزو اور عنابہ بڑے شہر ہیں۔ اس وقت افریقہ میں سوڈان کے بعد الجزائر سب سے بڑا ملک ہے۔ تاہم جولائی 2011 میں جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے بعد الجزائر افریقہ کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔ موسم الجزائر کا موسم عموماً سال بھر گرم رہتا ہے۔ تاہم سورج غروب ہونے کے بعد خشک اور صاف ہوا سے گرمی جلد ہی ختم ہو جاتی ہے اور راتوں کو درجہ حرارت گر جاتا ہے۔ سرکاری طور پر سب سے زیادہ گرمی ان صلاح میں پڑی جو 50.6 ڈگری ریکارڈ کی گئی۔ بارش زیادہ تر ساحلی علاقوں پر ہوتی ہے اور بارش کی مقدار مغرب سے مشرق کو زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ شمال مشرقی الجزائر میں سب سے زیادہ بارش ہوتی ہے۔ الجزائر میں ریت کی پہاڑیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ سیاست صدر ملک کا سربراہ
ur_Arab
ہوتا ہے جو پانچ سال کے لیے چنا جاتا ہے۔ 2008 کے قانون سے قبل ہر صدر زیادہ سے زیادہ دو بار منتخب ہو سکتا تھا۔ 18 سال کی عمر میں ووٹ ڈالنے کا حق ملتا ہے۔ صدر وزراء کی کونسل اور ہائی سکیورٹی کونسل کا سربراہ ہوتا ہے۔ صدر وزیرِ اعظم کا تقرر کرتا ہے جو حکومت کے سربراہ کا کام کرتا ہے۔ وزیرِ اعظم وزراء کی کونسل کا تقرر کرتا ہے۔ الجیریا کی پارلیمان دو ایوانوں پر مشتمل ہے۔ ایوانِ زیریں کو نیشنل پیپلز اسمبلی کہتے ہیں جس کے 380 اراکین ہوتے ہیں۔ ایوانِ بالا جسے کونسل آف نیشن کہتے ہیں کے 144 اراکین ہوتے ہیں۔ ایوانِ زیریں کے لیے ہر پانچ سال بعد انتخابات ہوتے ہیں۔ 1976 کے آئین کے مطابق ملک میں ایک سے زیادہ سیاسی جماعتیں بنائی جا سکتی ہیں تاہم ان کی منظوری وزیرِ داخلہ سے ضروری ہوتی ہے۔ اس وقت ملک میں 40 سے زیادہ سیاسی جماعتیں موجود ہیں۔ آئین کے مطابق مذہب، زبان، نسل، جنس یا علاقائی بنیادوں پر سیاسی جماعت بنانا ممنوع ہے۔ فوج الجیریا کی فوج بری، بحری، ہوائی اور علاقائی ائیر ڈیفنس فوجوں پر مشتمل ہے۔ فوج کا سربراہ ملک کا صدر ہوتا ہے جس کے پاس ملکی وزیرِ دفاع کا عہدہ بھی ہوتا ہے۔ کل فوجیوں کی تعداد 1٫47٫000 ہے۔ ریزرو فوجیوں کی تعداد 1٫50٫000 جبکہ نیم فوجیوں کی تعداد 1٫87٫000 ہے۔ 19 سے 30 سال تک کی عمر کے نوجوان مردوں کے لیے فوجی خدمات لازمی ہیں جو ڈیڑھ سال پر محیط ہوتی ہیں۔ اس میں چھ ماہ تربیت اور ایک سال شہری منصوبوں پر کام کرنا شامل ہے۔ 2006 کے تخمینے کے مطابق الجزائر اپنی فوج پر کل قومی آمدنی کا 2.7 فیصد سے 3.3 فیصد تک خرچ کرتا ہے۔ الجزائر زیادہ تر روسی اور چینی ساخت کا اسلحہ استعمال کرتا ہے جو فوجی تجارت کے معاہدوں کے تحت خریدا جاتا ہے۔ الجزائر کی ہوائی فوج نے 2007 میں روس سے 55 مگ 29 جنگی طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا ہے جو تقریباً دو ارب ڈالر مالیت کا ہے۔ اسی معاہدے کے تحت الجزائر روس کو پرانے جہاز بھی واپس کرے گا جو اس نے سابقہ سوویت یونین سے خریدے تھے۔ روس الجزائر کے لیے دو ڈیزل آبدوزیں بھی بنا رہا ہے۔ اکتوبر 2009 میں مبینہ اسرائیلی پرزوں کو شامل کرنے کے امکان کے پیشِ نظر الجزائر نے فرانس سے ہونے والا فوجی معاہدہ ختم کر دیا ہے۔ صوبے اور اضلاع الجزائر میں 48 صوبے، 553 اضلاع اور 1٫541 بلدیات ہیں۔ ہر صوبے، ضلع اور بلدیہ کا نام عموماً اس کے سب سے بڑے شہر پر رکھا جاتا ہے۔ آئین
ur_Arab
کے مطابق ہر صوبے کو کسی حد تک معاشی آزادی حاصل ہوتی ہے۔ پیپلز پراونشل اسمبلی صوبے پر حکومت کرتی ہے۔ اس کا اپنا صدر ہوتا ہے جسے اسمبلی کے اراکین چنتے ہیں۔ اسمبلی کے اراکین کو 5 سال کی مدت کے لیے عام انتخابات سے چنا جاتا ہے۔ والی یعنی گورنر بھی ہر صوبے کے لیے الگ موجود ہوتا ہے۔ والی کو ملک کا صدر مقرر کرتا ہے۔ معیشت معدنی تیل ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتا ہے اور کل قومی آمدنی کا 30 فیصد سے زیادہ پیدا کرتا ہے۔ تاہم یہ مقدار برآمدات کے 95 فیصد پر مشتمل ہے۔ تیل کے ذخائر کے حوالے سے الجزائر کا 14واں نمبر ہے۔ یہاں کل 11.8 ارب بیرل کے ذخائر کا تخمینہ لگایا جا چکا ہے تاہم اصل مقدار اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ امریکی توانائی کے انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے محکمے کی 2005 کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ الجزائر میں 160 کھرب مکعب فٹ قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہیں جو دنیا بھر میں 8ویں نمبر پر آتے ہیں۔ معدنی تیل اور گیس کے علاوہ ملکی آمدنی 2003 سے 2007 تک 6 فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھی ہے۔ بیرونی قرضے تقریباً ختم ہو چکے ہیں اور حکومت نے تیل کی آمدنی سے فنڈ قائم کیا ہے۔ افراطِ زر کی شرح پورے خطے میں سب سے کم ہے اور 2003 سے 2007 تک محض 4 فیصد رہی ہے۔ الجزائر کے معاشی اور مالی اشاریئے 1990 کی دہائی کے وسط سے بہتر ہونے لگے تھے۔ اس کی اہم وجہ پیرس کلب کے قرضوں کی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی طرف سے ری شیڈیولنگ تھی۔ 2000 اور 2001 میں الجزائر کی آمدنی پر تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور حکومت کی سخت مالیاتی پالیسیوں سے مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ اس سے تجارتی سرپلس اور فارن کرنسی میں اضافے کے علاوہ بیرونی قرضے میں کمی ہوئی۔ تاہم حکومت کی جانب سے بیرونی اور ملکی سرمایہ کاروں کو ملک میں توانائی کے علاوہ دیگر منصوبوں میں سرمایہ کاری پر راغب کرنے سے بے روزگاری کی شرح کم نہیں ہوئی۔ 2001 میں الجزائر کی حکومت نے یورپی یونین سے معاہدہ کیا ہے جس کے تحت مصنوعات کی قیمتیں کم اور کل تجارت بڑھ جائے گی۔ 2004 میں روس نے الجزائر کے ذمے 4.74 ارب ڈالر مالیت کا پرانا قرضہ معاف کرنے کا اعلان کیا۔ اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے الجزائر کے صدر نے روس سے 7.5 ارب ڈالر مالیت کے جنگی جہاز، فضائی دفاع کے آلات اور دیگر اسلحہ جات خریدنے کا اعلان کیا۔ 2006 میں الجزائر نے پیرس کلب کا 8 ارب ڈالر کا قرضہ قبل از وقت واپس کر دیا ہے جس سے ملکی معیشت بہتر ہوئی ہے
ur_Arab
اور اس کے بعد بیرونی قرضے محض 5 ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے تھے۔ زراعت الجزائر ہمیشہ سے ہی اپنی زرخیز زمین کے حوالے سے مشہور رہا ہے۔ کل آبادی کا چوتھائی حصہ زراعت سے وابستہ ہے۔ امریکا کی خانہ جنگی کے دوران یہاں کپاس کی کاشت بہت بڑھ گئی تھی۔ 20ویں صدی کے اوائل میں زراعت پر پھر سے زور دیا جانے لگا تھا۔ بونی کھجوروں کی بہت بڑی تعداد ان کے پتوں کے حصول کے لیے کاشت کی گئی ہے۔ زیتون اور تمباکو بھی کامیاب ترین فصلوں میں سے ہیں۔ 30٫000 مربع کلومیٹر سے زیادہ رقبہ غلے کی پیداوار کے لیے مختص ہے۔ اطلس التلی کا علاقہ غلے کے لیے مخصوص ہے۔ دیگر فصلوں میں گندم، جو اور اوٹ اہم ترین ہیں۔ پھلوں بالخصوص رس دار پھلوں اور سبزیوں کی کاشت بھی عروج پر ہے اور بیرون ملک برآمد کیے جاتے ہیں۔ الجزائر کی برآمدات میں انجیر، کھجوریں اور کاک شامل ہیں۔ آبادی کی خصوصیات 2010 کے تخمینے کے مطابق الجزائر کی آبادی 3٫48٫95٫000 افراد پر مشتمل ہے جس میں 99 فیصد عرب یا بربر النسل ہیں۔ الجزائر کے 90 فیصد سے زیادہ باشندے شمالی ساحلی علاقوں پر رہتے ہیں۔ آبادی کا کچھ حصہ صحرائے صحارا میں بھی رہائش پزیر ہے۔ آبادی کا تقریباً ایک تہائی حصہ 15 سال سے کم عمر ہے۔ تقریباً 83 فیصد آبادی الجزائری عربی بولتی ہے جبکہ 15 فیصد کے قریب لوگ بربر لہجے کو اپناتے ہیں۔ فرانسیسی کو بھی بڑے پیمانے پر سمجھا جاتا ہے۔ یورپی النسل افراد کل آبادی کا 1 فیصد سے بھی کم ہیں اور تقریباً تمام تر ہی بڑے شہروں میں رہتے ہیں۔ آبادی کے مکانات اور صحت کی سہولیات کی کمی ملک کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے جو بہت بڑی تعداد میں آبادی کے شہروں کی طرف رخ کرنے سے پیدا ہوا ہے۔ الجزائر کے وکلا میں سے 70 فیصد اور ججوں میں سے 60 فیصد خواتین ہیں۔ صحت کے شعبے میں بھی خواتین کی اجارہ داری ہے۔ گھریلو آمدنی میں مردوں کی نسبت عورتوں کا حصہ بڑھ رہا ہے۔ یونیورسٹیوں میں 60 فیصد خواتین طالبات ہیں۔ نسلی گروہ الجزائر کے عرب اکثریتی گروہ ہیں جبکہ بربر قبائل آبادی کا چوتھائی ہیں۔ زبانیں الجزائر کی سرکاری زبان عربی ہے جو 1963 کے آئین میں واضح کی گئی ہے۔ 8 مارچ 2002 کو آئین میں ایک ترمیم کے ذریعے بربر زبان کو بھی "قومی" زبان کا درجہ دیا گیا ہے۔ عربی اور بربر زبانیں کل آبادی کا 99 فیصد سے زیادہ حصہ بولتا ہے۔ فرانسیسی کو سرکاری درجہ حاصل نہیں لیکن آبادی کی اکثریت فرانس
ur_Arab
یسی کو سمجھ اور بول سکتی ہے۔ عربی زبان الجزائر کا عربی کے لیے اپنا لہجہ ہے جو 78 فیصد سے زیادہ افراد بولتے ہیں۔ 5 فیصد افراد عام عربی بولتے ہیں۔ تاہم سرکاری اور اہم مواقع پر عام عربی استعمال ہوتی ہے۔ بہت سارے بربر الجزائری عربی کو ثانوی زبان کے طور پر بولتے ہیں۔ عربی کو واحد سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ بربر زبان بربر زبان کو کل آبادی کا تقریباً 40 فیصد حصہ بولتا ہے۔ آئین میں ہونے والی حالیہ ترمیم سے بربر کو قومی زبان تسلیم کیا گیا ہے۔ فرانسیسی زبان فرانسیسی بطور غیر ملکی زبان کے سب سے زیادہ پڑھی جاتی ہے اور الجزائری باشندوں کی اکثریت اسے سمجھ اور بول سکتی ہے۔ تاہم روزمرہ استعمال میں نہیں آتی۔ مذہب 99 فیصد آبادی کا مذہب اسلام ہے۔ تقریباً سارے ہی افراد سنی العقیدہ مسلمان ہیں۔ الجزائر میں اڑھائی لاکھ مسیحی بھی ہیں۔ 1960 کے عشرے تک الجزائر میں یہودیوں کی آبادی کافی تھی۔ تاہم بعد میں یہودی یہاں سے دیگر ملکوں کو منتقل ہو گئے۔ صحت 2002 میں الجزائر میں ڈاکٹروں، نرسوں اور دندان سازوں کی تعداد آبادی کے اعتبار سے انتہائی کم تھی۔ پینے کے صاف پانی تک رسائی 92 فیصد شہری اور 80 فیصد دیہاتی افراد تک محدود تھی۔ عموماً غریبوں کو صحت کی سہولیات مفت مہیا کی جاتی ہیں۔ تعلیم 6 سے 15 سال تک کی عمر کے بچوں کے لیے تعلیم لازمی ہے۔ بالغ آبادی کا 5 فیصد ان پڑھ ہے۔ الجزائر میں 46 یونیورسٹیاں، 10 کالج اور 7 ادارے اعلٰی تعلیم دیتے ہیں۔ الجزائر میں تعلیمی نظام بنیادی، جنرل سیکنڈری اور ٹیکنیکل سیکنڈری سکولوں پر مشتمل ہے۔ بنیادی سکول 9 سالہ تعلیم پر مشتمل ہوتا ہے۔ جنرل سیکنڈری 3 سالہ ہوتا ہے۔ ٹیکنیکل سیکنڈری 3 سالہ تعلیم پر مشتمل ہوتا ہے۔ فہرست متعلقہ مضامین الجزائر فہرست متعلقہ مضامین الجزائر الجزائر کا جغرافیہ الجزائر کی انتظامی تقسیم الجزائر کے صوبے الجزائر کے شہر الجزائر کی بلدیات کی فہرست الجزائر کےشہروں کے پوسٹل کوڈ الجزائر کی سیاست
ur_Arab
کراچی (سندھی: ڪراچي) () پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی و اقتصادی مرکز ہے۔ کراچی دنیا کاچهٹا بڑا شہر ہے۔ کراچی پاکستان کے صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے۔ شہر دریائے سندھ کے مغرب میں بحیرہ عرب کی شمالی ساحل پر واقع ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ اور ہوائی اڈا بھی کراچی میں قائم ہے۔ کراچی 1947ء سے 1960ء تک پاکستان کا دار الحکومت بھی رہا۔ موجودہ کراچی کی جگہ پر واقع قدیم ماہی گیروں کی بستی کا نام مائی کولاچی تھا۔ جو بعد میں بگڑ کر کراچی بن گیا انگریزوں نے انیسویں صدی میں اس شہر کی تعمیر و ترقی کی بنیادیں ڈالیں۔ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے وقت کراچی کو نو آموز مملکت کا دار الحکومت منتخب کیا گیا۔ اس کی وجہ سے شہر میں لاکھوں مہاجرین کا دخول ہوا۔ پاکستان کا دار الحکومت اور بین الاقوامی بندرگاہ ہونے کی وجہ سے شہر میں صنعتی سرگرمیاں دیگر شہروں سے قبل شروع ہو گئیں۔ 1959ء میں پاکستان کے دار الحکومت کی اسلام آباد منتقلی کے باوجود کراچی کی آبادی اور معیشت میں ترقی کی رفتار کم نہیں ہوئی۔ پورے پاکستان سے لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی آتے ہیں اور اس وجہ سے یہاں مختلف مذہبی، نسلی اور لسانی گروہ آباد ہیں۔ کراچی کو اسی وجہ سے چھوٹا پاکستان بھی کہتے ہیں۔ ان گروہوں کی باہمی کشیدگی کی وجہ سے 80 اور 90 کی دہائیوں میں کراچی لسانی فسادات، تشدد اور دہشت گردی کا شکار رہا۔ بگڑتے ہوئے حالات کو سنبھالنے کے ليے پاک فوج کو بھی کراچی میں مداخلت کرنی پڑی۔ اکیسویں صدی میں تیز قومی معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ کراچی کے حالات میں بہت تبدیلی آئی ہے۔ کراچی کی امن عامہ کی صورت حال کافی بہتر ہوئی ہے اور شہر میں مختلف شعبوں میں ترقی کی رفتار میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ کراچی دریائے سندھ کے دہانے کی شمالی حد پر واقع ہے۔ شہر ایک قدرتی بندرگاہ کے گرد وجود پایا۔ کراچی 52 ́ 24° شمال اور 03 ́ 67° مشرق پر واقع ہے۔ تاریخ قدیم یونانی کراچی کے موجودہ علاقہ سے مختلف ناموں سے واقف تھے: کروکولا، جہاں سکندر اعظم وادی سندھ میں اپنی مہم کے بعد، اپنی فوج کی واپس بابل روانگی کی تیّاری کے لیے خیمہ زن ہوا ؛ بندر مرونتوبارا (Morontobara)، (ممکنً کراچی کی بندرگاہ سے نزدیک جزیرہ منوڑہ جہاں سے سکندر کا سپہ سالار نییرچس(نیارخوس) واپس اپنے وطن روانہ
ur_Arab
ہوا ؛ اور بربیریکون(بارباریکون)، جو ہندوستانی یونانیوں کی باختری مملکت کی بندرگاہ تھی۔ اس کے علاوہ، عرب اس علاقہ کو بندرگاہِ دیبل کے نام سے جانتے تھے، جہاں سے محمد بن قاسم نے 712ء میں اپنی فتوحات کا آغاز کیا۔ برطانوی تاریخ دان ایلیٹ کے مطابق موجودہ کراچی کے چند علاقے اور جزیرہ منوڑہ، دیبل میں شامل تھے۔ موجودہ نام کراچی سے پہلے کراچی کو مکران (بلوچستان) کے علاقے کولانچ کی ایک بلوچ مائی جو کولانچ سے ھجرت کر کے یہاں آباد ہوئی تھی کی نسبت سے مائی کولاچی کے نام سے جانا جاتا تھا جس کی تمام تر آبادی بلوچ تھی مائی کولاچی سے بعد میں کولاچی اور بگڑ کر انگریزوں کے دور میں کراچی ھو گئی 1772ء کو مائی کولاچی کو مسقط اور بحرین کے ساتھ تجارت کرنے کے لیے بندرگاہ منتخب کیا گیا۔ اس کی وجہ سے یہ گاؤں تجارتی مرکز میں تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ یوں مائی کولاچی میں بلوچوں کے علاوہ ہمسایہ علاقوں کی کمیونٹی بھی بڑی تعداد میں بس گئی بڑھتے ہوئے شہر کی حفاظت کے لیے شہر کی گرد فصیل بنائی گئی اور مسقط سے توپیں درآمد کرکے شہر کی فصیل پر نصب کی گئیں۔ فصیل میں 2 در تھے (بلوچی میں در گیٹ کو کہتے ہیں) ایک در (گیٹ) کا رخ سمندر کی طرف تھا اور اس لیے اس کو بلوچی میں کھارادر (سندھی میں کھارودر) کہا جاتا اور دوسرے در (گیٹ) کا رخ لیاری ندی کی طرف تھا اور اس لیے اس کو بلوچی میں میٹھادر (سندھی میں مٹھودر) کہا جاتا تھا۔ 1795ء تک کراچی (کولاچی) خان قلات کی مملکت کا حصہ تھا۔ اس سال سندھ کے حکمرانوں اور خان قلات کے درمیان میں جنگ چھڑ گئی اور کراچی پر سندھ کی حکومت کا قبضہ ہو گیا۔ اس کے بعد شہر کی بندرگاہ کی کامیابی اور زیادہ بڑے ملک کی تجارت کا مرکز بن جانے کی وجہ سے کراچی کی آبادی میں اضافہ ہوا۔ اس ترقی نے جہاں ایک طرف کئی لوگوں کو کراچی کی طرف کھینچا وہاں انگریزوں کی نگاہیں بھی اس شہر کی طرف کھینچ لیں۔ انگریزوں نے 3 فروری 1839ء کو کراچی شہر پر حملہ کیا اور اس پر قبضہ کر لیا۔ تین سال کے بعد شہر کو برطانوی ہندوستان کے ساتھ ملحق کرکے ایک ضلع کی حیثیت دے دی۔ انگریزوں نے کراچی کی قدرتی بندرگاہ کو دریائے
ur_Arab
سندھ کی وادی کا اہم تجارتی مرکز بنانے کے لیے شہر کی ترقی پر اہم نظر رکھی۔ برطانوی راج کے دوران میں کراچی کی آبادی اور بندرگاہ دونوں بہت تیزی سے بڑھے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران میں کراچی میں 21 ویں نیٹِو انفنٹری نے 10 ستمبر کو مغل فرمانروا بہادر شاہ ظفر سے بیعت کر لی۔ انگریزوں نے شہر پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور "بغاوت" کا سر کچل دیا۔ 1876ء میں کراچی میں بانی پاکستان محمد علی جناح کی پیدائش ہوئی۔ اس وقت تک کراچی ایک ترقی یافتہ شہر کی صورت اختیار کر چکا تھا جس کا انحصار شہر کے ریلوے اسٹیشن اور بندرگاہ پر تھا۔ اس دور کی اکثر عمارتوں کا فن تعمیر کلاسیکی برطانوی نوآبادیاتی تھا، جو بر صغیر کے اکثر شہروں سے مختلف ہے۔ ان میں سے اکثر عمارتیں اب بھی موجود ہیں اور سیاحت کا مرکز بنتی ہیں۔ اس ہی دور میں کراچی ادبی، تعلیمی اور تہذیبی سرگرمیوں کا مرکز بھی بن رہا تھا۔ کراچی آہستہ آہستہ ایک بڑی بندرگاہ کے گرد ایک تجارتی مرکز بنتا گیا۔ 1880 کی دہائی میں ریل کی پٹڑی کے ذریعے کراچی کو باقی ہندوستان سے جوڑا گیا۔ 1881 میں کراچی کی آبادی 73،500 تک، 1891 میں 105،199 اور 1901 میں 115،407 تک بڑھ گئی۔ 1899 میں کراچی مشرقی دنیا کا سب سے بڑا گندم کی درآمد کا مرکز تھا۔ جب 1911 میں برطانوی ہندوستان کا دار الحکومت دہلی بنا تو کراچی سے گزرنے والے مسافروں کی تعداد بڑھ گئی۔ 1936 میں جب سندھ کو صوبہ کی حیثیت دی گئی تو کراچی کو اس کا دار الحکومت منتخب کیا گیا۔ 1947 میں کراچی کو پاکستان کا دار الحکومت منتخب کیا گیا۔ اس وقت شہر کی آبادی صرف چار لاکھ تھی۔ اپنی نئی حیثیت کی وجہ سے شہر کی آبادی میں کافی تیزی سے اضافہ ہوا اور شہر خطے کا ایک مرکز بن گیا۔ پاکستان کا دار الحکومت کراچی سے راولپنڈی اور پھر اسلام آباد منتقل تو ہوا لیکن کراچی اب بھی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی و تجارتی مرکز ہے۔ کراچی 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں تشدد، سیاسی اور سماجی ہنگامہ آرائی اور دہشت گردی کا شکار بنا رہا۔ موجودہ دہائی میں کراچی میں امن عامہ کی صورت حال کافی بہتر ہوئی ہے اور اس کی وجہ سے شہر میں بہت ترقی ہوئی۔ ابھی کراچی میں ترقیاتی کام بہت تیزی سے جاری ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کراچی ایک عالمی مرکز کی شکل میں ابھر رہا ہے۔ موسم،جغرافیہ اور محل وقوع کراچی جنوبی پاکستان میں بحیرہ عرب کے عین شمال میں واقع ہے۔ شہر کا رقبہ 3،527 مربع کلومیٹر ہے۔ یہ ایک ناہموار میدانی
ur_Arab
علاقہ ہے جس کی شمالی اور مغربی سرحدیں پہاڑیاں ہیں۔ شہر کے درمیان میں سے دو بڑی ندیاں گزرتی ہیں، ملیر ندی اور لیاری ندی۔ (سیلابی ند یاں) اس کے ساتھ ساتھ شہر سے کئی اور چھوٹی بڑی ندیاں)( اور برساتی نالے)گزرتی ہیں۔ کراچی کی بندرگاہ شہر کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ چونکہ بندرگاہ ہر طرف سے زمین سے گھری ہوئی ہے اس ليے اس کو ایک بہت خوبصورت قدرتی بندرگاہ سمجھا جاتا ہے۔ موسم ساحل سمندر پر واقع ہونے کی وجہ سے شہر کا موسم بہت معتدل ہے۔ شہر میں بارشیں کم ہوتی ہیں، سال میں اوسطا 250 ملی میٹر، جن کا زیادہ تر حصہ مون سون میں ہوتا ہے۔ کراچی میں گرمیاں اپریل سے اگست تک باقی رہتی ہیں اور اس دوران میں ہوا میں نمی کا تناسب بھی زیادہ رہتا ہے۔ نومبر سے فروری شہر میں موسم سرما مانا جاتا ہے۔ دسمبر اور جنوری شہر میں سب سے زیادہ آرام دہ موسم کے مہینے ہیں اور اس وجہ سے شہر میں ان ہی دنوں میں سب سے زیادہ تقاریب اورسیاحت ہوتی ہے۔ اس شہر کا عام طور موسم سرما سے زیادہ واسطہ نہیں پڑتا اور یہاں کا موسم گرم مرطوب ہی رہتا ہے لیکن 21 جنوری 1934 میں کراچی والوں نے ایک ایسا دن دیکھا جب کراچی کا درجہ حرارت 0 ڈگری ہو گیا۔ حکومت کراچی شہر کی بلدیہ کا آغاز 1933ء میں ہوا۔ ابتدا میں شہر کا ایک میئر، ایک نائب میئر اور 57 کونسلر ہوتے تھے۔ 1976ء میں بلدیہ کراچی کو بلدیہ عظمی کراچی بنا دیا گیا۔ سن 2000ء میں حکومت پاکستان نے سیاسی، انتظامی اور مالی وسائل اور ذمہ داریوں کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کے بعد 2001ء میں اس منصوبے کے نفاذ سے پہلے کراچی انتظامی ڈھانچے میں دوسرے درجے کی انتظامی وحدت یعنی ڈویژن، کراچی ڈویژن، تھا۔ کراچی ڈویژن میں پانچ اضلاع، ضلع کراچی جنوبی، ضلع کراچی شرقی، ضلع کراچی غربی، ضلع کراچی وسطی اور ضلع ملیر شامل تھے۔سن 2001ء میں ان تمام ضلعوں کو ایک ضلعے میں جوڑ لیا گیا۔ اب کراچی کا انتظامی نظام تین سطحوں پر واقع ہے۔ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ ٹاؤن میونسپل ایڈمنسٹریشن یونین کونسل ایڈمنسٹریشن ضلع کراچی کو 18 ٹاؤن(بلدیات) میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان سب کی منتخب بلدیاتی انتظامیہ موجود ہیں۔ ان کی ذمہ داریوں اور اختیارات میں پانی کی فراہمی، نکاسی آب، کوڑے کی صفائی، سڑکوں کی مرمت،
ur_Arab
باغات، ٹریفک سگنل (حمل و نقل کی ہم آہنگی) اور چند دیگر زمرے آتے ہیں۔ بقیہ اختیارات ضلعی انتظامیہ کے حوالے ہیں۔ یہ ٹاؤنز(بلدیات) مزید 178 یونین کونسلوں میں تقسیم ہیں جو مقامی حکومتوں کے نظام کی بنیادی اکائی ہے۔ ہر یونین کونسل 13 افراد کی باڈی پر مشتمل ہے جس میں ناظم اور نائب ناظم بھی شامل ہیں۔ یوسی ناظم مقامی انتظامیہ کا سربراہ اور شہری حکومت کے منصوبہ جات اور بلدیاتی خدمات کے علاوہ عوام کی شکایات حکام بالا تک پہنچانے کا بھی ذمہ دار ہے۔ 2005ء میں مقامی حکومتوں کے انتخابات میں سید مصطفیٰ کمال نے کامیابی حاصل کی اور نعمت اللہ خان کی جگہ کراچی کے ناظم قرار پائے جبکہ نسرین جلیل شہر کی نائب ناظمہ قرار پائیں۔ مصطفیٰ کمال ناظم کا عہدہ سنبھالنے سے قبل صوبہ سندھ کے وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی تھے۔ ان سے قبل کراچی کے ناظم نعمت اللہ خان 2004ء اور 2005ء کے لیے ایشیا کے بہترین ناظمین میں سے ایک قرار پائے تھے۔ مصطفیٰ کمال نعمت اللہ خان کا شروع کردہ سفر جاری رکھتے ہوئے شہر میں ترقی میں کافی تیزی سے کام کیا۔ لیکن 2010 کے بعد کراچی شہر میں بلدیاتی نظام کے خاتمے کے بعد سے کراچی شہر کی ترقی کافی حد تک رک سی گئی تھی لیکن 2015 میں عام انتخابات کے بعد سے نئی حکومتوں کے بعد شہر کی تعمیر و ترقی کا دوبارہ سے آغاز ہوچکا ہے۔ کراچی شہر مندرجہ ذیل قصبات میں تقسیم ہے: واضح رہے کہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کراچی میں قائم ہے لیکن وہ کراچی کا ٹاؤن نہیں اور نہ ہی کسی ٹاؤن کا حصہ ہے بلکہ پاک افواج کے زیر انتظام ہے۔ شہری انتظامیہ اعداد و شمار گذشتہ 150 سالوں میں کراچی کی آبادی و دیگر اعداد و شمار میں واضح تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ غیر سرکاری اور بین الاقوامی ذرائع کے مطابق کراچی کی موجودہ آبادی 24 ملین ہے۔ جو 1947ء کے مقابلے میں 37 گنا زیادہ ہے۔ آزادی کے وقت کراچی کی آبادی محض 4 لاکھ تھی۔ تقسیم ہند (1947) کے نتیجے میں دس لاکھ لوگ ہجرت کر کے کراچی میں آ بسے۔ شہر کی آبادی اس وقت 5 فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے جس میں اہم ترین کردار دیہات سے شہروں کو منتقلی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر ماہ 45 ہزار افراد شہر قائد پہنچتے ہیں۔ کراچی دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔ کراچی ایک کثیر النسلی، کثیر اللسانی اور کثیر الثقافتی بین الاقوامی شہر ہے۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی 94 اعشاریہ 04 فیصد آبادی شہر میں قیام پز
ur_Arab
یر ہے۔ اس طرح وہ صوبہ سندھ کا سب سے جدید علاقہ ہے۔ کراچی میں سب سے زیادہ آبادی اردو بولنے والے مہاجرین کی ہے جو 1947ء میں تقسیم برصغیر کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آکر کراچی میں آباد ہوئے تھے۔ ہندوستان سے آئے ہوئے ان مسلم مہاجرین کو نو آموز مملکت پاکستان کی حکومت کی مدد سے مختلف رہائش گاہیں نوازی گئیں جن میں سے اکثر پاکستان چھوڑ کر بھارت جانے والی ہندو اور سکھ برادری کی تھی۔ انڈیا سے آنے والے مہاجرین میں دہلی، یوپی، حیدرآباد دکن سے آنے والوں کے علاوہ گجرات، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور راجپوتانہ سے آنے والی ماڑواڑی، میمن، ملباری، باہری اور بعد میں مشرقی پاکستان سے آنے والی بہاری کمیونٹی قابل ذکر ہیں- شہر کے دیگر باسیوں میں سندھی، بلوچی، پنجابی، پٹھان، گجراتی، کشمیری، سرائیکی اور 10 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین شامل ہیں جو 1979ء میں افغانستان پر سوویت یونین کی جارحیت کے بعد ہجرت کرکے شہر قائد پہنچے اور اب یہاں کے مستقل باسی بن چکے ہیں۔ ان مہاجرین میں پختون، تاجک، ہزارہ، ازبک اور ترکمان شامل تھے۔ ان کے علاوہ ہزاروں بنگالی، عرب، ایرانی، اراکانی کے مسلم مہاجرین (برما کی راکھائن ریاست کے ) اور افریقی مہاجرین بھی کراچی میں قیام پزیر ہیں۔ آتش پرست پارسیوں کی بڑی تعداد بھی تقسیم ہند سے قبل سے کراچی میں رہائش پزیر ہے۔ کراچی کے پارسیوں نے شہر کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اہم سرکاری عہدوں اور کاروباری سرگرمیوں میں بھرپور طریقے سے شامل رہے ہیں۔ آزادی کے بعد ان کی اکثریت مغربی ممالک کو ہجرت کرگئی تاہم اب بھی شہر میں 5 ہزار پارسی آباد ہیں۔ علاوہ ازیں شہر میں گوا سے تعلق رکھنے والے کیتھولک مسیحیوں کی بھی بڑی تعداد آبادی ہے جو برطانوی راج کے زمانے میں یہاں پہنچی تھی۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق شہر کی لسانی تقسیم اس طرح سے ہے: اقتصادیات کراچی پاکستان کا تجارتی دار الحکومت ہے اور جی ڈی پی کے بیشتر حصہ کا حامل ہے۔ قومی محصولات کا 65 فیصد کراچی سے حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان کے تمام سرکاری و نجی بینکوں کے دفاتر کراچی میں قائم ہیں۔ جن میں سے تقریباً تمام کے دفاتر پاکستان کی وال اسٹریٹ "آئی آئی چندریگر روڈ"(سابق میکلیوڈ روڈ) پر قائم ہیں۔دبئی کا معروف تعمیراتی ادارہ ایمار پراپرٹیز کراچی کے دو جزائر بنڈ
ur_Arab
ل اور بڈو پر 43 ارب امریکی ڈالرز کی لاگت سے تعمیراتی کام کا آغاز کر رہا ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ 20 ارب روپے کے ایک منصوبے پورٹ ٹاور کمپلیکس کا آغاز کر رہی ہے جو ایک ہزار 947 فٹ بلندی کے ساتھ پاکستان کی سب سے بلند عمارت ہوگی۔ اس میں ایک ہوٹل، ایک شاپنگ سینٹر اور ایک نمائشی مرکز شامل ہوگا۔ عمارت کی اہم ترین خوبی اس کا گھومتا ہوا ریستوران ہوگا جس کی گیلری سے بدولت کراچی بھر کا نظارہ کیا جاسکے گا۔ مذکورہ ٹاور کلفٹن کے ساحل پر تعمیر کیا جائے گا۔ بینکنگ اور تجارتی دار الحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ کراچی میں پاکستان میں کام کرنے والے تمامبین الاقوامی اداروں کے بھی دفاتر قائم ہیں۔ یہاں پاکستان کا سب سے بڑا بازار حصص کراچی اسٹاک ایکسچینج بھی موجود ہے جو اب پاکستان اسٹاک ایکسچینج بن چکا ہے۔ اس نے 2005ء میں پاکستان کے جی ڈی پی میں 7 فیصد اضافے میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔ انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشنز ٹیکنالوجیز (آئی سی ٹی)، الیکٹرانک میڈیا اور کال سینٹرز کا نیا رحجان بھی شہر کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ غیر ملکی کمپنیوں (شرکتوں)کے کال سینٹرز کو ترقی کے ليے بنیادی ہدف قرار دیا گیا ہے اور حکومت نے آئی ٹی شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے ليے محصولات میں 80 فیصد تک کمی کے ليے کام کر رہی ہے [حوالہ درکار]۔ کراچی پاکستان کا سافٹ ویئر مرکز بھی ہے۔ پاکستان کے کئی نجی ٹیلی وژن اور ریڈیو چینلوں کے صدر دفاتر بھی کراچی میں ہیں جن میں سے جیو،اے آروائی ،ڈان، ہم، ایکسپرس اور آج ٹی وی مشہور ہیں۔ مقامی سندھی چینل کے ٹی این، سندھ ٹی وی اور کشش ٹی وی بھی معروف چینل ہیں۔ کراچی میں کئی صنعتی زون واقع ہیں جن میں کپڑے، ادویات، دھاتوں اور آٹو موبائل کی صنعتیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ مزيد برآں کراچی میں ایک نمائشی مرکز ایکسپو سینٹر بھی ہے جس میں کئی علاقائی و بین الاقوامی نمائشیں منعقد ہوتی ہیں۔ ٹویوٹا اور سوزوکی موٹرز کے کارخانے بھی کراچی میں قائم ہیں۔ اس صنعت سے متعلق دیگر اداروں میں ملت ٹریکٹرز، آدم موٹر کمپنی اور ہینو پاک کے کارخانے بھی یہیں موجود ہیں۔ گاڑیوں کی تیاری کا شعبہ پاکستان میں سب سے زیادہ تیزی سے ابھرتی ہوا صنعتی شعبہ ہے جس کا مرکز کراچی ہے۔ کراچی بندرگاہ اورمحمد بن
ur_Arab
قاسم بندرگاہ پاکستان کی دو اہم ترین بندرگاہیں ہیں جبکہ جناح بین الاقوامی ہوائی اڈا ملک کا سب سے بڑا ہوائی اڈا ہے۔ 1960ء کی دہائی میں کراچی کو ترقی پزیر دنیا میں ترقی کا رول ماڈل سمجھا جاتا ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنوبی کوریا نے شہر کا دوسرا پنج سالہ منصوبہ برائے 1960ء تا 1965ء نقل کیا۔ تعمیرات پورٹ ٹاور کمپلیکس (مجوزہ) کریسنٹ بے (منظور شدہ) کراچی کریک مرینا (زیر تعمیر) ڈولمین ٹاورز (زیر تعمیر) آئی ٹی ٹاور (منظور شدہ) بنڈل جزیرہ (منظور شدہ) بڈو جزیرہ (منظور شدہ)(اب کام رک چکا ہے) اسکوائر ون ٹاورز (زیر تعمیر) کراچی ماس ٹرانزٹ نظام انشاء ٹاورز (منظور شدہ) ایف پی سی سی آئی ٹاور (مجوزہ) ثقافت کراچی پاکستان کے چند اہم ترین ثقافتی اداروں کا گھر ہے۔ تزئین و آرائش کے بعد ہندو جیم خانہ میں قائم کردہ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) کلاسیکی موسیقی اور جدید تھیٹر سمیت دیگر شعبہ جات میں دو سالہ ڈپلومہ کورس پیش کرتا ہے۔ آل پاکستان میوزیکل کانفرنس 2004ء میں اپنے قیام کے بعد سالانہ میوزک فیسٹیول منعقد کر رہا ہے۔ یہ فیسٹیول شہری زندگی کے ایک اہم جز کی حیثیت اختیار کر گیا ہے جس کا شدت سے انتظار کیا جاتا ہے اور 3 ہزار سے زائد شہری اس میں شرکت کرتے ہیں جبکہ دیگر شہروں سے بھی مہمان تشریف لاتے ہیں۔ کوچہ ثقافت میں مشاعرے، ڈرامے اور موسیقی پیش کی جاتی ہے۔ کراچی میں قائم چند عجائب گھروں میں معمول کی بنیادوں پر نمائشیں منعقد ہوتی ہیں جن میں موہٹہ پیلس اور قومی عجائب گھر شامل ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر منعقدہ کارا فلم فیسٹیول میں پاکستانی اور بین الاقوامی آزاد اور دستاویزی فلمیں پیش کی جاتی ہیں۔ کراچی کی ثقافت مشرق وسطی، جنوبی ایشیائی اور مغربی تہذیبوں کے ملاپ سے تشکیل پائی ہے۔ کراچی میں پاکستان کی سب سے بڑی مڈل کلاس آبادی قیام پزیر ہے۔ کراچی صوبہ سندھ کا صدر مقام ہے۔ تعلیم پاکستان میں سب سے زیادہ شرح خواندگی کراچی شہر میں ہے جہاں کئی جامعات اور کالیجز قائم ہیں۔ کراچی اپنی کثیر نوجوان آبادی کے باعث ملک بھر میں جانا جاتا ہے۔ کراچی کی کئی جامعات ملک کے بہترین تعلیمی اداروں میں شمار ہوتی ہیں۔ کراچی کے
ur_Arab
اہم تعلیمی ادارے درج ذیل ہیں؛ جامعہ کراچی این ای ڈی انجینیئرنگ یونی ورسٹی ڈائو انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز داؤد انجینیئرنگ یونی ورسٹی جناح میڈیکل یونیورسٹی آغا خان یونی ورسٹی اینڈ سکول آف نرسنگ کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن انسٹیٹیوٹ آف کاسٹ اینڈ مینیجمینٹ اکاؤنٹس نیشنل انسٹیٹوٹ آف پرفارمنگ آرٹس سندھ لاء یونیورسٹی کھیل کراچی کے مشہور کھیلوں میں کرکٹ، ہاکی، مکے بازی، فٹ بال اور گھڑ دوڑ شامل ہیں۔ بین الاقوامی مرکز نیشنل اسٹیڈيم کے علاوہ کرکٹ کے میچز(مقابلے) یو بی ایل اسپورٹس کمپلیکس، اے او کرکٹ اسٹیڈیم، کے سی سی اے کرکٹ گراؤنڈ، کراچی جیم خانہ گراؤنڈ اور ڈی ایچ اے کرکٹ اسٹیڈیم پر منعقد ہوتے ہیں۔ شہر میں ہاکی کے ليے ہاکی کلب آف پاکستان اور یو بی ایل ہاکی گراؤنڈ، باکسنگ کے ليے کے پی ٹی اسپورٹس کمپلیکس، اسکواش کے ليے جہانگیر خان اسکواش کمپلکیس اور فٹبال کے ليے پیپلز فٹ بال اسٹیڈیم اور پولو گراؤنڈ، کراچی جیسے شاندار مراکز قائم ہیں۔ 2005ء میں شہر کے پیپلز فٹ بال اسٹیڈيم میں ساف کپ فٹ بال ٹورنامنٹ منعقد ہوا۔ کشتی رانی بھی کراچی کی کھیلوں کی سرگرمیوں کا ایک اہم حصہ ہے۔ کراچی جیم خانہ، سندھ کلب، کراچی کلب، مسلم جیم خانہ، کریک کلب اور ڈی ایچ اے کلب سمیت دیگر کھیلوں کے کلب اپنے ارکان کو ٹینس، بیڈمنٹن، اسکواش، تیراکی، دوڑ، اسنوکر اور دیگر کھیلوں کی سہولیات مہیا کرتے ہیں۔ کراچی میں دو عالمی معیار کے گالف کلب ڈي ایچ اے اور اور کارساز قائم ہیں۔ علاوہ ازیں شہر میں چھوٹے پیمانے پر کھیلوں کی سرگرمیاں بھی عروج پر ہوتی ہیں جن میں سب سے مشہور نائٹ کرکٹ ہے جس میں ہر اختتام ہفتہ پر چھوٹے موٹے میدانوں اور گلیوں میں برقی قمقموں میں کرکٹ کھیلی جاتی ہے۔ مراکز صحت کراچی میں بین الاقوامی معیار کی تقریبا تمام طبی سہولیات موجود ہیں- کراچی کے طبی اداروں میں جگر کی پیوندکاری، گردوں کی پیوندکاری، آنکھوں کی پیوندکاری سمیت دل کے بائی پاس اور انجیوگرافی کی سہولیات موجود ہیں- کراچی میں مندرجہ ذیل اہم طبی ادارے ہیں؛ جناح پوسٹ
ur_Arab
گریجویٹ میڈیکل سینٹر سندھ انسٹیٹوٹ آف یورینری ٹریکٹ کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈس ایز اسپنسر آئی اسپتال آغا خان اسپتال لیاقت نیشنل ہسپتال قومی ادارہ برائے امراض قلب قومی ادارہ برائے صحت اطفال ضیاء الدین ہسپتال دلچسپ مقامات مزار قائد۔ بابائے قوم محمد علی جناح کی آخری آرام گاہ کراچی یونی ورسٹی کوچہ ثقافت مسجد طوبٰی۔ واحد گنبد کی دنیا کی سب سے بڑی مسجد آئی آئی چندریگر روڈ۔ پاکستان کی وال اسٹریٹ آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کراچی چڑیا گھر (زولوجیکل اینڈ باٹنیکل گارڈن ) باغ ابن قاسم، کلفٹن زیب النساء اسٹریٹ برنس روڈ فوڈ اسٹریٹ طارق روڈ (خریداری کا مرکز) کیماڑی پائیر ساحل کراچی منوڑہ کا ساحل کلفٹن اور جہانگیر کوٹھاری پریڈ سی ویو، کلفٹن ڈی ایچ اے مرینا کلب ہاکس بے پیراڈائز پوائنٹ سینڈز پٹ بیچ فرنچ بیچ رشین بیچ پورٹ فاؤنٹین۔ 600 فٹ بلند فوارہ زمزمہ تجارتی مرکز۔ اپنے بوتیک اور کیفے کے ليے مشہور عبد اللہ شاہ غازی کا مزار عجائب گھر پاکستان ایئر فورس میوزیم قومی عجائب گھر موہٹہ پیلس، کراچی و خطے کی تاریخ کا عجائب گھر میری ٹائم میوزیم اسٹیٹ بینک میوزیم برطانوی راج کے دور کی عمارات ایشیا بلڈنگ(سابق قید خانہ) ایمپریس مارکیٹ پرانا الاکو ہاؤس جہانگیرکوٹھاری پریڈ خالقدینا ہال ڈی جے سائنس کالج ڈنسوہال لائبریری سابق وکٹوریا میوزیم فیض حسینی بلڈنگ قائد اعظم ہاؤس میوزیم :کچہری کراچی پورٹ ٹرسٹ کراچی سٹی سٹیشن کراچی کینٹونمنٹ سٹیشن1 کراچی کینٹونمنٹ سٹیشن2 کراچی مندر کراچی سٹی سٹیشن فری میسن ہال کراچی میونسپل کارپوریشن بلڈنگ کرائسٹ دی کنگ یادگار سندھ کلب سندھ ہائی کورٹ سینٹ اینڈریوزچرچ شری لکشمی نرائن مندر سینٹ پیٹرکس کیتھیڈرل فریئر ہال گورنر ہاؤس لوٹیا بلڈنگ لیڈی ڈفرین ہسپتال میری ویدرٹاور میولز مینشن دوا خانہ وزیرمینشن ہندو جیم خانہ (اب نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کے زیر استعمال ہے) ہولی ٹرینیٹی کیتھ
ur_Arab
یڈرل جزائر بنڈل بابابھٹ شمس پیرسینڈزپٹ کلفٹن آئسٹر روکس منوڑہ باغات آنٹی پارک (کلفٹن) باغ جناح (سابق پولوگراؤنڈ) الہ دین پارک (راشد منہاس روڈ) بارہ دری پارک (سابق پولوگراؤنڈ) بلوچ پارک امیر خسرو پارک ( کلفٹن) باغ ا بن قاسم (سابق کلفٹن پارک) بے دھاوارلائبریری پارک (پارسی کالونی) پرانی سبزی منڈی پارک (یونیورسٹی روڈ) تکون پارک جہا نگیر پارک (صدر) چھاؤنی پارک (ملیرچھاؤنی) ڈولفن بیچ پارک(کلفٹن) سفاری پارک (یونیورسٹی روڈ) سہراب کٹرک پارک سند باد سی ویو پارک عزیز بھٹی پارک عسکری پارک شہید نثار پارک فیز 4 ڈیفنس فورم پارک(کلفٹن) کراچی چڑیا گھر (گاندھی گارڈن) کشمیر پارک کھوڑی گارڈن گبول پارک گٹرباغیچہ مجاہد شہید ماڈل پارک مولانامحمدعلی جوہر پارک مولوی عثمان پارک محمدی پارک نباتاتی باغ(یونیورسٹی روڈ) نثارشہید پارک ہل پارک کھیل کے میدان الجعفر پلےگراؤنڈ “ایف“ بلاک پلےگراؤنڈ بنگلورٹاون گراؤنڈ پاکستانی بہروں کا گراؤنڈ جناح گراؤنڈ ریلوے گراؤنڈ زاہد گراؤنڈ شرف آباد کریکٹ گراؤنڈ فاتح باغ کے جی اے گراؤنڈ کراچی پارسی انسٹی ٹیوٹ گراؤنڈ کوکن گراؤنڈ کھجی گراؤنڈ کشتزار (فارم ہاؤسز) جان فارم ہاؤس شمسی ریزورٹ(ملیرچھاؤنی) میمن فارم ہاؤس ولیج گارڈن میلے (ریزورٹس) ڈریم ورلڈ ریزورٹ ریس کورس ریس کورس یونیورسٹی روڈ ایوان عکس (سینیما) کیپری سینما نشاط سینما ( بابری مسجد سانحہ کے بعد اسے مظاہرین نے جلا دیا ) پرنس سینما یونیورس سنیپلیکس (کلفٹن) شرب و طعام (فوڈ اینڈ ڈرنکس) حیدرآباد کالونی برنس روڈ علاوہ ازیں کلفٹن، ڈي ایچ اے، شارع فیصل، نارتھ ناظم آباد، کریم آباد، گلشن اقبال، گلستان جوہر وغیرہ میں بھی کئی مراکز ہیں۔ حسین آباد کو کو دوسرا برنس روڈ کہا جائے تو
ur_Arab
غلط نہیں ہو گا کیونکہ یہاں بھی بے شمار فوڈ اینڈ ڈرنکس کے مراکز ہیں۔ کلفٹن کا ساحل ماضی قریب میں دو مرتبہ تیل کی رسائی کے باعث متاثر ہوچکا ہے جس کے بعد ساحل کی صفائی کردی گئی ہے۔ علاوہ ازیں رات کے وقت تفریح کے ليے ساحل پر برقی قمقمے بھی نصب کیے گئے ہیں۔ حکومت نے کراچی کی ساحلی پٹی کی خوبصورتی کے ليے کلفٹن میں بیچ پارک قائم کیا ہے جو جہانگیر کوٹھاری پیریڈ اور باغ ابن قاسم سے منسلک ہے۔ شہر کے قریب دیگر ساحلی تفریحی مقامات بھی ہیں جن میں سینڈزپٹ، ہاکس بے، فرنچ بیچ، رشین بیچ اور پیراڈائز پوائنٹ معروف ہیں۔ مزار قائد۔ بابائے قوم محمد علی جناح کی آخری آرام گاہ کوچہ ثقافت مسجد طوبٰی۔ واحد گنبد کی دنیا کی سب سے بڑی مسجد آئی آئی چندریگر روڈ۔ پاکستان کی وال اسٹریٹ آغا خان یونیورسٹی ہسپتال علاقوں کے دلچسپ نام اس کے علاقوں کے کچھ عجیب و غریب اور دلچسپ نام۔ پاپوش نگر (یعنی جوتوں کا علاقہ ) انڈا موڑ (نارتھ کراچی) کریلا موڑ ( نارتھ کراچی ) بھائی جان چوک (فیڈرل بی ایریا) چیل چوک (لیاری) مچھر کالونی (دو ہیں۔گل بائی/الآصف) پرفیوم چوک (گلستان جوہر) بھینس کالونی (لانڈھی) ناگن چورنگی (نارتھ کراچی) کالا پل (ڈیفنس) کنواری کالونی (منگھوپیر) 2 منٹ چورنگی ( نارتھ کراچی) فقیر کالونی خاموش کالونی فیوچر کالونی پٹھان کالونی گٹر باغیچہ ناصر جمپ خدا کی بستی رنچھوڑ لائن قلندریہ چوک گل بائی مینٹل چوک (لانڈھی) نانک واڑہ بھیم پورہ مرغی خانہ ( قائد آباد) لنڈی کوتل (نارتھ ناظم آباد) کٹی پہاڑی مکا چوک دو اور تین تلوار (کلفٹن) کالا بورڈ (ملیر/ جوہرآباد) پٹیل پاڑہ گیدڑ کالونی کمھار واڑہ بندر روڈ 24 مارکیٹ (بلدیہ ٹاون) اچانک چوک انگارہ گوٹھ گولیمار 100 کوارٹر (کورنگی) برزٹہ لائن لائینز ایریا سنگھو لائین رامسوامی چمڑا چورنگی ڈولی اور گاڑی کھاتہ بادل نالہ دنبہ گوٹھ (
ur_Arab
گڈاپ ملیر) چاکی واڑہ کھوڑی گارڈن دوپٹہ گلی ٹوکن اسٹاپ (ملیر) بوتل گلی پریشان چوک یوپی موڑ نالہ اسٹاپ ( نیوکراچی ) کچھی گلی (میڈیسن مارکیٹ) ڈھائی نمبر (کورنگی) دولت رام ( پرانی سبزی منڈی) ساڑھے 3 نمبر۔ (کورنگی) تین ہٹی پیتل گلی پہلوان گوٹھ چنیسر ہالٹ آدم بستی کوڑھی گارڈن مٹکے والی پلیہ کورنگی (دو مقامات) انجام کالونی (بلدیہ) 13 ڈی (گلشن) کھڈا مارکیٹ تاج کالونی آگرہ تاج کالونی جیکسن مارکیٹ نیٹی جیٹی پل دعا چوک نورانی کباب ۔(طارق روڈ) بمبئ بازار فوارہ چوک انچولی۔ (گلبرگ) 10 نمبر۔ (لالو کھیت) چاندنی چوک خلافت چوک بڑا میدان، چھوٹا میدان بھنگی پاڑہ برف خانہ کلّو چوک ( کورنگی نمبر 4) انکوائری محبت نگر۔ (ملیر) سخی حسن شیش محل (ملیر ) موسمیات چورنگی (ناظم آباد) اچھی قبر نیوچکی نیو چالی اللہ والا ٹاون ڈالمیا بے روزگار چوک ایٹی نائن (داؤد چورنگی) بکرا پیڑی (ملیر) خریداری کا مرکز کراچی پاکستان میں خریداری کا مرکز تصور کیا جاتا ہے جہاں روزانہ لاکھوں صارفین اپنی ضروریات کی اشیاء خریدتے ہیں۔ صدر، گلف شاپنگ مال، بہادر آباد، طارق روڈ، زمزمہ، زیب النساء اسٹریٹ اور حیدری اس حوالے سے ملک بھر میں معروف ہیں۔ ان مراکز میں کپڑوں کے علاوہ دنیا بھر سے ضروریات زندگی کی تمام اشیاء حاصل کی جاسکتی ہیں۔ برطانوی راج کے زمانے کی ایمپریس مارکیٹ مصالحہ جات اور دیگر اشیاء کا مرکز ہے۔ صدر میں ہی قائم رینبو سینٹر دنیا میں چوری شدہ سی ڈیز کے بڑے مراکز میں سے ایک ہے۔ دیگر اہم علاقوں میں پاپوش مارکیٹ اور حیدری شامل ہیں۔ ہر اتوار کو لیاقت آباد میں پرندوں اور پالتو جانوروں کے علاوہ پودوں کا بازار بھی لگتا ہے۔ کراچی میں جدید تعمیرات کے حامل خریداری مراکز کی بھی کمی نہیں ہے، جن میں پارک ٹاورز، دی فورم، ملینیم مال اور ڈولمین مال خصوصا قابل ذکر ہیں۔ اس وقت زیر تعمیر ایٹریم مال، جمیرہ مال، آئی ٹی ٹاور اور ڈولمین سٹی مال بھی
ur_Arab
تعمیرات کے شاہکار ہیں۔ اسکے علاوہ ٹائون اور اضلاع کی سطح پر بھی ملبوسات، زیورات اور اشیائے صرف کی خریداری کے مراکز ہیں- جوڑیا بازار اور اس سے متصل صرافہ بازار اور کاغذی بازار بالترتیب اشیائے خورد، زیورات اور ملبوسات کے مرکزی بازار ہیں جہاں سے یہ شہر کے دوسرے بازاروں تک ان اشیاء کے پہنچنے کا ذریعہ بنتے ہیں- لانڈھی کی بابر مارکیٹ، ملیر کی لیاقت مارکیٹ، واٹر پمپ مارکیٹ، ناظم آباد گول مارکیٹ، لیاقت آباد مارکیٹ، نیو کراچی کی کالی مارکیٹ، شاہ فیصل مارکیٹ، سولر بازار، رنچھوڑلین مارکیٹ، اورنگی میں پاکستان بازار اور کیماڑی کی جیکسن مارکیٹ اہم مقامی بازار ہیں- ذرائع نقل و حمل فضائی کراچی ایک جدید بین الاقوامی ہوائی اڈے جناح انٹرنیشنل کا حامل ہے جو پاکستان کا مصروف ترین ہوائی اڈا ہے۔ شہر کا قدیم ایئرپورٹ ٹرمینل اب حج پروازوں، کارگو اور سربراہان مملکت کے ليے استعمال ہوتا ہے۔ نیا ہوائی اڈا 1993ء میں ایک فرانسیسی ادارے نے تیار کیا۔ بندر گاہ ملک کی سب سے بڑی بندرگاہیں بھی کراچی میں قائم ہیں جو کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کہلاتی ہیں۔ یہ بندرگاہیں جدید سہولیات سے مزین ہیں اور نہ صرف پاکستان کی تمام تجارتی ضروریات کے مطابق کام کرتی ہیں بلکہ افغانستان اور وسط ایشیاء کے ممالک کی سمندری تجارت بھی انہی بندرگاہوں سے ہوتی ہے۔ ریلوے کراچی پاکستان ریلویز کے جال کے ذریعے بذریعہ ریل ملک بھر سے منسلک ہے۔ شہر کے دو بڑے ریلوے اسٹیشن سٹی اور کینٹ ریلوے اسٹیشن ہیں۔ ریلوے کا نظام کراچی کی بندرگاہ کے ذریعے ملک بھر کو سامان پہنچانے کی خدمات انجام دیتا ہے۔ اس وقت شہر میں بسوں اور منی بسوں نے عوامی نقل و حمل کا بیڑا اٹھارکھا ہے لیکن مستقبل میں شہر میں تیز اور آرام دہ سفر کے ليے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی اور ماس ٹرانزٹ نظام کی تعمیر کا منصوبہ بھی موجود ہے۔ کراچی شہر کو دنیا کے اور ممالک کی طرح نقل و حمل کے نئے طرز کے وسائل فراہم کرنے کے لیے اٹھارویں صدی کے اواخر میں ٹرام گاڑی چلانے کی تجویز پیش کی گئی، نتیجتاً اکتوبر 1884 میں اس پر کام شروع ہو گیا- ٹرامیں(1885–1975) سڑکوں پر باقائدگی سے یہ خدمت انجام دیتی رہی- لیکن سیاسی گٹھ جوڑکی وجہ سے اس سہولت کو وقت کے ساتھ ساتھ بہتر نہ بنایا جا سکا- جیسا کہ دنیا بھر کے
ur_Arab
اور شہروں میں ہوا ہے۔ زمینی ملکیت کراچی ساحل کے ساتھ نیم صحرائی علاقے پر قائم ہیں جہاں صرف دو ندیوں ملیر اور لیاری کے ساتھ ساتھ موجود علاقے کی زمین ہی زراعت کے قابل ہے۔ آزادی سے قبل کراچی کی اکثر آبادی ماہی گیروں اور خانہ بدوشوں پر مشتمل تھی اور بیشتر زمین سرکاری ملکیت تھی۔ آزادی کے بعد کراچی کو ملک کا دار الحکومت قرار دیا گیا تو زمینی علاقے ریاست کے زیر انتظام آ گئے۔ 1988ء میں کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے مہیا کردہ اعداد و شمار کے مطابق 4 لاکھ 25 ہزار 529 ایکڑ (1722 مربع کلومیٹر) میں سے تقریباً 4 لاکھ ایکڑ (1600 مربع کلومیٹر) کسی نہ کسی طرح سرکاری ملکیت ہے۔ حکومت سندھ ایک لاکھ 37 ہزار 687 ایکڑ (557 مربع کلومیٹر)،کے ڈی اے ایک لاکھ 24 ہزار 676 ایکڑ، کراچی پورٹ ٹرسٹ 25 ہزار 259 ایکڑ، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) 24 ہزار 189 ایکڑ، آرمی کنٹونمنٹ بورڈ 18 ہزار 569 ایکڑ، پاکستان اسٹیل مل 19 ہزار 461 ایکڑ، ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی 16 ہزار 567 ایکڑ، پورٹ قاسم 12 ہزار 961 ایکڑ، حکومت پاکستان 4 ہزار 51 ایکڑ اور پاکستان ریلوے 12 ہزار 961 ایکڑ رقبے کی حامل ہے۔ 1990ء کی دہائی میں کے ڈی اے کی غیر تعمیر زمین ملیر ڈيولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) اور لیاری ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کو منتقل کردی گئی۔ مسائل کراچی دنیا میں تیزی سے پھیلتے ہوئے شہروں میں سے ایک ہے اس ليے اسے بڑھتی ہوئی آبادی، ٹریفک، آلودگی، غربت، دہشت گردی اور جرائم جیسے مسائل کا سامناہے۔ اس وقت کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ ٹریفک کا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں ہر سال 550 افراد ٹریفک حادثوں میں اپنی جان گنواتے ہیں۔ شہر میں کاروں کی تعداد سڑکوں کے تعمیر کردہ ڈھانچے سے کہیں زیادہ ہے۔ ٹریفک کے ان مسائل سے نمٹنے کے ليے شہر میں نعمت اللہ خان کے دور میں کئی منصوبے شروع کیے گئے جن میں فلائی اوورز اور انڈر پاسز شامل ہیں۔ بڑھتے ہوا ٹریفک اور دھواں چھوڑتی گاڑیوں کو کھلی چھٹی کے باعث شہر میں آلودگی بڑھتی جا رہی ہے۔ کراچی میں فضائی آلودگی عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے متعین کردہ معیار سے 20 گنا زیادہ ہے۔ ٹریفک کے علاوہ کوڑے کرکٹ کو آگ لگانا اور عوامی شعور کی
ur_Arab
کمی بھی آلودگی کا بڑا سبب ہے۔ ایک اور بڑا مسئلہ شاہراہوں کو چوڑا کرنے کے ليے درختوں کی کٹائی ہے۔ کراچی میں پہلے ہی درختوں کی کمی ہے اور موجود درختوں کی کٹائی پر ماحولیاتی تنظیموں نے شدید احتجاج کیا ہے۔ جس پر شہری حکومت نے ستمبر 2006ء سے تین ماہ کے ليے شجرکاری مہم کا اعلان کیا۔ پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح سیاست دانوں اور سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے کھلی جگہوں پر ناجائز تجاوازات تعمیر کا مسئلہ کراچی میں بھی عوام اور آنے والی نسلوں کے لیے پریشان کن ہے۔ ان کے علاوہ فراہمی آب اور بجلی کی فراہمی میں تعطل شہر کے دو بڑے مسائل ہیں خصوصا 2006 کے موسم گرما میں کراچی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے عالمی شہرت حاصل کی۔ مدارس دارالعلوم کراچی، کورنگی دارالعلوم امجدیہ دارالعلوم نعیمیہ جامعہ اسلامیہ، نیو ٹاؤن جامعہ بنوریہ، سائٹ جامعات المدینہ و مدارس المدینہ دعوت اسلامی جامعہ فاروقیہ شراکت دار شہر بیرونی روابط شہری حکومت کی آفیشل ویب سائٹ کراچی اسٹاک ایکسچینج جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کراچی بندرگاہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کراچی کی سیٹیلائٹ تصویر کراچی آپ ڈیٹس کراچی کی تازہ ترین صورت حال کراچی کی تاریخ، شہر کی پرانی تصاویر کے ساتھ کراچی کی تصویری البم از علی عدنان قزلباش کارا فلم فیسٹیول کراچی میں ٹرامیں مزید دیکھیے پاکستان کے شہر لاہور اسلام آباد سکھر فیصل آباد ملتان کوئٹہ پشاور ایبٹ آباد گوادر قصور نوابشاہ عمرکوٹ مٹھی نوری آباد حیدرآباد کوٹری جامشورو سیالکوٹ جیکب آباد دادو بہاولپور بہاولنگر نارووال شیخوپورہ سوات آزاد ابن حیدر ڈاکٹر محمد علی شاہ کانڈرا والا موٹرز شیخ عاطف احمد شہر نتائج
ur_Arab
فلکیات (یعنی: سِتاروں کا قانون؛ انگریزی: astronomy)، قُدرتی علوم کی ایک ایسی مخصُوص شاخ ہے جس میں اجرامِ فلکی (مثلاً، چاند، سیارے، ستارے، شہابیے، کہکشاں، وغیرہ) اور زمینی کرۂ ہوا کے باہر روُنما ہونے والے واقعات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ اِس میں آسمان پر نظر آنے والے اجسام کے آغاز، ارتقا اور طبعی و کیمیا ئی خصوصیات کا مطالعہ بھی کیا جاتا ہے۔ فلکیات کے عالم کو فلکیات دان کہا جاتا ہے۔ جہاں فلکیات محض اجرامِ فلکی اور دیگر آسمانی اجسام پر غور کرتی ہے، وہاں پوری کائنات کے سالِم علم کو علم الکائنات کہتے ہیں۔ اشتقاقیات اُردُو زبان میں فلکیات، دراصل لفظ فلک کا ماخذ ہے۔ فلک سے مرادزمین کے کرّہ کے گرد کی وسیع آسمانی چادر ہے، لہٰذا اِس چادر پر عیاں مختلف اجسام (چاند، سورج، ستارے، سیارے، وغیرہ) کی جانچ پڑتال بھی فلکیات کے علوم میں شامل ہوتی ہیں۔ انگریزی میں اِسے ”ایسٹرونومی“ (astronomy) کہا جاتا ہے، جو یونانی زبان کے الفاظ ”ایسٹرون“ (ἄστρον؛ یعنی، ستارہ) اور ”نوموس“ (νόμος؛ یعنی، قانون) سے مل کر بنتا ہے۔ چنانچہ، فلکیات کا مفہوم ”سِتاروں کے علم“ یا ”سِتاروں کے قانون“ کا ہے۔ تاریخچہ قدیم زمانے میں فلکیات کی پہنچ صرف اُن اجرامِ فلکی تک ہی محدود تھی جنہیں آنکھوں سے دیکھا جا سکتا تھا، مثلاً سورج، چاند اور ستارے۔ یہ قدیم ماہرین فلکیات اکثر اِن اجرام کے مشاہدوں پر مبنی پشِين گوئیوں کیا کرتے تھے۔ تاریخی ابواب میں ایسی کئی تہذیبوں کا ذِکّر ملتا ہے جو اِن اجرام کی پوُجا بھی کیا کرتے تھے اور اسٹون ہینج کے طرز پر بنی مَصنُوعات اِس بات کی طرف اِشارہ کرتی ہیں کہ یہ لوگ کسی نہ کسی حد تک اِن مرئی فلکی اجرام کے نظام سے واقف تھے۔ اِن قدیم تہذیبوں کے لیے اِس طرح کی مَصنُوعات دراصل ایک طرح کی رصدگاہ
ur_Arab
کا کام سر انجام دیا کرتی تھیں، جو نہ صرف مذہبی تہواروں کی نشان دہی کرتی تھیں بلکہ موسمی تبدیلیوں سے بھی اِنکو آراستہ رکھتی تھیں۔ ان پشِين گوئیوں کی مدد سے قدیم انسانی تہذیبیں سال کی طوالت کا اندازہ بھی لگایا کرتی تھیں اور فصلوں کی کاشت کے اوقات سے بھی بروقت آشنا رہتی تھیں۔ قدیم فلکی جائزے دوربین کی ایجاد سے قبل، سِتاروں کے مُطالعے کسی نہ کسی اونچی جگہ سے ہی مُمکن تھے اور یہ جائزے محض آنکھوں کی مدد سے ہی لیے جاتے تھے۔ جیسے جیسے تہذیبیں ترقی یافتہ ہوتی رہیں، ویسے ویسے بین النہرین، چین، مصر، یونان، ہند اور وسطی امریکہ کی قدیم تہذیبوں نے سِتاروں کے مطالعوں کے لیے مخصوص اور جدید رصدگاہوں کی تعمیر شروع کر دی۔ آہستہ آہستہ، اِن لوگوں میں کائنات کی مزید جانچ پڑتال کا تجسس پیدا ہوتا گیا؛ چنانچہ، اِس زمانے کے زیادہ تر فلکیاتی انکشافات، ستاروں اور سیاروں کی نقشہ بندی تک ہی محدود تھے۔ اِس علم کو نَجُوم پيمائی کہا جاتا ہے۔ اِن ابتدائی مطالعوں سے سیاروں کی حرکت؛ سورج، چاند اور زمین کی فطرت؛ اور ستاروں کے جمگھٹوں کے بارے میں بہت کُچھ معلوم کیا جا سکا۔ جب فلسفے کی مدد سے اِن فلکی اجرام کو سمجھنے کی کوشش کی گئی تو کائنات کا ایک مرکزی تصّور اُبھر کر عیاں ہوا — اِن لوگوں کے مطابق زمین کائنات کا مرکز تھی؛ یعنی سورج، چاند اور ستارے زمین کے گرد گردش کیا کرتے تھے۔ اِس نظریے کو ارض مرکزی نظریہ کہا جاتا ہے جس کی بنیاد دوسری صدی عیسوی میں مشہور یونانی فلکیات دان بطلیموس نے ڈالی۔ بابل اور قدیم یونانی فلکیات سلطنتِ بابل کے فلکیات دان وہ پہلے لوگ تھے جنہوں نے ریاضی اور منطق کی مدد سے اِس بات کا اندازہ لگایا کہ چاند گرہن درحقیقت ایک تکراری واقعہ ہے اور اِس کی پيش گوئی قبل از وقت مُمکن ہے۔ گرہنوں کے اِس چکر کو ساروس کہا جاتا ہے۔ بابل کے اِن فلکیات دانوں کے بعد قدیم یونان اور ہیلینیہ کی تہذیبوں میں فلکیات کو پزیرائی ملنے لگی۔ یونانی فلکیات میں شُروع سے ہی اِس
ur_Arab
بات کا خیال رکھا گیا کہ دیگر اجرامِ فلکی اور آسمانی مظاہر کو طبعی وضاحت سے پیش کیا جائے اور منطق کی مدد سے سمجھانے کی کوشش کی جائے۔ آریستارخس ساموسی وہ پہلا یونانی فلکیات دان تھا جس نے تیسری صدی قبل مسیح میں زمین کے قطر کی پیمائش کی؛ سورج اور چاند کے فاصلوں کو دریافت کیا؛ اور نظام شمسی کے لیے شمس مرکزی نظریہ پیش کیا۔ دوسری صدی قبل مسیح میں ہیپارکس نے بے دائریت دریافت کی اور چاند کا قطر اور اِس کا زمین سے فاصلہ بھی ناپا۔ ہیپارکس نے فلکیاتی پیمائش کے لیے اسطرلاب نامی ایک مخصوص آلہ بھی ایجاد کیا۔ ہیپارکس کی اَنتھک کاوشیں یہیں ختم نہ ہوئیں اور اِس نے شمالی نصف کرہ میں عیاں 1020 ستاروں کا فہرست نامہ بھی لِکھ ڈالا۔ یہی وجہ ہے کہ اِن ستاروں کے یونانی نام ہی اکثر ہر جگہ استعمال میں آتے ہیں۔ پہلی صدی میں ایجاد کردہ انتیکیتھرا میکانیہ دُنیا میں سب سے پہلے استعمال ہونے والا تماثلی اختراع تھا جس کی مدد سے سورج، چاند اور زمین کے مقام کا قبل از وقت ٹھیک ٹھیک اندازہ کسی بھی دی گئی تاریخ کے مطابق لگایا جا سکتا تھا۔ اِس طرح کے پیچیدہ اختراع بعد از چودہویں صدی میں ہی دیکھنے کو ملتے ہیں، چنانچہ اِسکی دریافت سائنسدانوں اور ماہرینِ فلکیات کے لیے حیران کُن ہے۔ اِسلامی فلکیات دان قُرُونِ وُسطیٰ میں جہاں یورپی مُمالک کے اکثر باسی علم النجوم اور فلکیات سے تیرہویں صدی تک فاسد رہے، وہیں اِسلامی سائنس دان اِس علم میں صدیوں پہلے مہارت حاصل کر چُکے تھے۔ اِسلامی دُنیا میں علم فلکیات کو اتنی پزیرائی ملی کہ نویں صدی کے اوائل میں مسلمان سائنسدانوں نے نہایت عالیٰ درجہ کی رصدگاہیں تعمیر کیں۔ 964ء میں عبدالرحمن الصوفی نے مقامی گروہ میں جادہ شیر کے ہمراہ 25 لاکھ نوری سالوں کی دوری پر ایک اور کہکشاں دریافت کیا — اِس کہکشاں کو آج ہم اینڈرومیڈا کے نام سے جانتے ہیں۔ اِس کہکشاں کی نشان دہی الصوفی نے اپنی کتاب صورالکواکب میں ایک خلائی بادل
ur_Arab
کے طور پر کی۔ الصوفی نے سب سے پہلے درج شدہ صحابیہ اور سپر نووا کے بارے میں بھی اِس کتاب میں لکھا۔ اِس سپر نووا کو پہلی مرتبہ مصری فلکیات دان علی بن رضوان اور کُچھ چینی فلکیاتدانوں نے 1006ء میں اپنے روزنامچوں میں درج کیا تھا۔ دیگر اور مسلمان فلکیاتدانوں میں جابر بن سنان البتانی، ثابت بن قرہ، ابومعشر بلخی، ابو ریحان البیرونی، ابراہیم بن یحییٰ الزرقالی، عبدالعلی بیرجندی اور مراغہ و سمرکنڈ کی رصدگاہوں میں مقیم فلکیات دان شامل ہیں۔ اِس دور کے متعارف کردہ ستاروں کے عربی نام ابھی بھی فلکیات میں زیرِ استعمال ہیں۔ یہ بھی مانا جاتا ہے کہ عظیم زمبابوے اور ٹمبکٹو میں بھی مسلمانوں کی تعمیر کردہ کئی رصدگاہیں موجود تھیں۔ یہ قدیم رصدگاہیں اِس بات کا ثبوت دیتی ہیں کہ قُرُونِ وُسطیٰ کے افریقہ جنوب صحرا میں بھی علمِ فلکیات عروج پر تھا۔ سائنسی انقلاب نشاۃِ ثانیہ میں نکولس کوپرنیکس نے ایک مرتبہ پھر شمس مرکزی نظریہ عام فلکیات میں مُتعارف کرایا۔ کیونکہ پچھلی چند صدیوں سے مسلمان فلکیاتدانوں نے ارض مرکزی نظریے کی طوالت میں بیشمار کام کر رکھا تھا، اِسلئے کوپرنیکس کی اِس وضاحت کو ابتدائی طور پر رد کر دیا گیا۔ بعد از، گلیلیو اور کپلر نے جدید آلات کی مدد سے اِس نئے نظریے کی تائید کر ڈالی۔ صحیح اور درُست ناپ تول کے لیے گلیلیو نے پہلی دوربین بھی ایجاد کی۔ کپلر وہ پہلے سائنس دان تھے جنہوں نے شمسِ مَرکزی نظریے کو ایک مُکمل نظامِ شمسی میں ڈھالا اور طبعی وضاحت کو اِستعمال کرتے ہوئے سیاروں کی سورج کے گرد گردِش اور حرکت کو منطقی طور سے پیش کیا۔ تاہم کپلر اپنے اِس نظام کے لیے لازم قوانین کی ضابطہ بندی نہ کر سکے اور اِس کام کو بعد از آئزک نیوٹن نے اپنے فلکی میکانیات اور ثقالت سے متعلق قوانین میں سر انجام تک پہنچایا۔ دوربین کے سائز اور معیار میں بہتری لانے کے علاوہ مزید اور بھی دریافتیں ہوتی رہیں۔ نکولاس لاکائی کی زیر
ur_Arab
ِ نگرانی سِتاروں کی معیاری اور مُکمل فہرستیں چھپتی رہیں اور دوسری طرف ولیم ہرشل صحابیہ جات اور اِنکے دیگر مجموعوں کی فہرست تیار کرتے رہے۔ 1781ء میں ہرشل نے ایک نیا سیارہ بھی دریافت کیا جسے آج ہم یورینس کے نام سے جانتے ہیں۔ فریڈرک بیسل نے 1838ء میں نظامِ شمسی کے باہر پائے جانے والے پہلے سورج نُما ستارے سے زمین کا فاصلہ دریافت کیا۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی کے دورانئے میں اویلر، کلیراٹ اور دالمبر نے جب سہ جسمی مسئلے کو سُلجھانے کی طرف دھیان دیا تو اِنکے اِس کام کے ذریعے چاند اور سیاروں کی حرکات کے بارے میں معیاری پيش گوئیاں مُمکن ہو گئیں۔ اس کام کو آگے بڑھاتے ہوئے، لاگرانج اور لاپلاس نے چاند اور دیگر سیاروں کے اضطراب سے اِنکے وزن کا بھی ٹھیک اندازہ لگایا۔ وقت کے ساتھ ساتھ، فلکیاتی تجربوں کے لیے جدید ترین آلہ جات استعمال ہونے لگے، مثلاً طیف بینی اور عکاسی، وغیرہ۔ فراون ہوفر نے 1814ء تا 1815ء میں طیف بینی کے ذریعے سورج سے خارج ہونے والی روشنی میں 600 رنگوں کی پٹیاں دریافت کیں۔ بعد از، 1859ء میں کیرشھوف نے انکشاف کیا کہ اِن پٹیوں کا ہر رنگ کسی نہ کسی کیمیائی عنصر کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔ کیرشھوف نے مُختلف کیمیائی عناصر کے مخصوص رنگوں کی ایک فہرست بھی بنا ڈالی تاکہ مُختلف سیاروی مادوں کے بارے میں اِنکے رنگوں سے معلوم کیا جا سکے۔ اِن ٹیکنالوجیوں کی بِنا پر جب سورج نُما دیگر اور ستارے دریافت کیے گئے تو معلوم ہوا کہ یہ ستارے سورج کی مانند تو ہیں ہی لیکن ہمارے مقامی ستارے کے برعکس یہ درجہ حرارت، کمیت اور قامت میں کافی مُختلف ہیں۔ زمین کے مقامی کہکشاں کو ایک متفرق مجمع النجُوم کی طرح صرف بیسویں صدی میں ہی دیکھا گیا جب دیگر اور کہکشاؤں کو دریافت کیا گیا۔ دوسرے کہکشاؤں کو زمین سے دور جاتے دیکھ کر یہ بھی اندازہ لگایا گیا کہ کائنات تسلسُل سے پھیل رہی تھی۔ دورِ جدید کی فلکیات میں دیگر اور اجرامِ فلکی بھی دریافت کیے گئے جن میں نابضات، کوازار،
ur_Arab
بلیزار اور ریڈیائی کہکشاں شامل ہیں۔ اِن نئے اجرام کی دریافت کے بعد دیگر طبعی نظریات مثلا ثقب اسود اور نیوٹرون ستاروں کے مزید شواہد سامنے آنے لگے۔ علاوہ ازیں، خلائی دوربینوں کی مدد سے برقناطیسی طیف کے اُن حصّوں کی بھی جانچ کی جانے لگی جو زمینی کرۂ ہوا کی وجہ سے زمین تک پہنچ نہ سکتے تھے۔ فلکیاتی نظریات کی تقویم مزید مطالعہ کے لیے فلکیاتدان کا مضمون پڑھیں یا افکار کی تاریخ پر دیگر مضامین پڑھیں۔ انسانی تاریخ میں زمینی سیارے کی شکل، کردار اور عمل پر مُختلف فلسفیوں اور فلکیاتدانوں نے مُختلف نظریات، افکار اور تصورات پیش کیے۔ اجرامِ فلکی کے بارے میں آج ہم جو جانتے ہیں، اِن جدید نظریات تک پہنچنے کے لیے کافی وقت لگا۔ دیگر فلسفیوں اور فلکیاتدانوں کے ممتاز ترین افکار و تصورات مندرجہ ذیل بیان کیے گئے ہیں۔ مشاہداتی فلکیات فلکیات میں، اجرامِ فلکی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا مرکزی ذریعہ مرئی نور کا مشاہدہ یا برقناطیسی اشعاع کی جانچ ہی رہا ہے۔ چنانچہ مشاہداتی فلکیات کو برقناطیسی طیف کے مُختلف حصّوں کے مطابق دیگر ساحات میں بانٹا جا سکتا ہے۔ جہاں اِس طیف کے کُچھ حصّوں کا زمین کی سطح سے جائزہ لیا جا سکتا ہے، وہاں دیگر حصّوں کو صرف اونچائی یا خلاء سے ہی پرکھا جا سکتا ہے۔ اِن ذیلی ساحات کے بارے میں مزید معلومات مندرجہ ذیل دی گئی ہیں۔ ریڈیائی فلکیات ریڈیائی فلکیات میں ایسی اشعاعی لہروں کا معائنہ کیا جاتا ہے جن کا طولِ موج تقریباًًًً ایک ملیمیٹر سے زیادہ ہو۔ یہ مشاہداتی فلکیات کی دوسری ساحات سے اِس طرح مُختلف ہے کہ اِس میں ریڈیائی امواج کے ساتھ موجوں جیسا سلُوک کیا جا سکتا ہے نہ کہ محض مجرَد نوریہ جیسا، چنانچہ اِن کا طور اور حیطہ آسانی سے پرکھا جا سکتا ہے۔ یہ جائزہ چھوٹی طول کی امواج کے ساتھ اتنی آسانی سے مُمکن نہیں ہوتا۔ زیر سرخ فلکیات بصری فلکیات بالائے بنفشی فلکیات شعاعیہ فلکیات مزید دیکھیے فلکیات علوم طبیعی