lang
stringclasses 5
values | text
stringlengths 1
2.47k
|
---|---|
ur_Arab | ہ فلکی طبیعیات نظام شمسی |
ur_Arab | صدی سو سال کے عرصہ کو کہا جاتا ہے۔ جو دس عشروں کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ ہر تقویم (ماہ و سال) کے آغاز سے سالوں کا ہر سینکڑہ بھی صدی کہلاتا ہے۔ مزید دیکھیے سال |
ur_Arab | زبانوں کی یہ فہرست ان کے اردو ناموں کے مطابق ہے۔ ایتھونولوگ (Ethonologue) کے مطابق دنیا میں تقریباً 6،800 زبانیں اور تقریباً 41،000 مختلق لہجے اور بولیاں ہیں۔ اس فہرست میں صرف بولی جانے والی زبانیں شامل ہیں۔ زبانیوں کی مزید اقسام کے لیے درج ذیل صحفات ملاحظہ فرمایئے۔ زبان (زبانوں کے بارے میں عمومی معلومات کے لیے) پروگرامنّگ لینگوجیز کی فہرست آ آرمینی آسامی آسیری آسٹریائی آویستی آذربائیجانی آئس لینڈی آئرش آکسیڈنٹل آکسیٹن آماگوا آریا آرموری آسیٹک ا افریقی آئنو اکادی البانی ایلیوٹ ایلگونقوئن الاسٹی امہری انگریزی قدیم(انگلو-سیکسون) اپاچی اے-پکیوار اراگونی ارامائی اکسپریسو انگریزی ایرزیا-موردوی ایسپرینٹو اسٹونی ایٹروسکن ایونک ایڈو ایلیریائ ایلوکانو ایلوکو ایلونگو انوپیاک اسان اسٹرو رومانی انڈونیشیائ ارکٹ اطالوی ابیخ اردو اتے ازبک ب بلوچی بمبارا باوبری بلارسی بِمبا بنگالی بربر بََیٹے بِھلّی بیافران بہاری بیکیا بوسنیائ بلیک فٹ براہوی بریتھاناچ بریٹن بریتھینگ بلگاریائ برمی بین لاقوامی بین لاقوامی پ پہلوی پالی پاپیامینٹو پاراچی پشتو پنجابی زبان پاساماقوڈی پینسلوینیا جرمن پِکٹی پِراہا پلاڈائٹز پولش پرتگالی پوتیگوارا پرووِنقل ت تاگالوگ تاجک تالوسن تالََش تامل تِِلِِگو تھائ تھارو تھرائیکائ تبتی تکوندِِروگا تِگرے تِگرینیا تسمشیان تسوانا ترک ترکمانی ٹ ٹاہیٹی ٹٹ ٹٹر ٹیوناہٹ ٹِگرگنن ٹوچاریائ الِف اور ب ٹوک پسن ٹوکی پونا ٹونگن ٹوپینمبا ٹوپنکن ٹوالی ٹوان ث ج جاپانی جاوانی جدائیو-سپینش جارجیئن جومن چ چاگاتائ چیچن چیچیوا چور |
ur_Arab | سمیاں چکچی ح حوپی خ خندیشی خمِِر خوَیری د دوالا ڈ ڈالمائ ڈینش ڈارگستانی ڈاری ڈیڈا ڈِویہی ڈنگن ڈچ ذ٭ ذہوانگ ر راجستانی راپاہانوک رومانش رومانی رومانیکا رومانے روسِنورسک روسی ڑ ز٭ زیپوٹک زازاکی زولو زنی ژ ژام ژہوسہ !ژو س سامی سالش سنسکرت ساراماکن ساردونی سکاٹ (لالن) سیلونی سیمینول سرب سربو کروشیائ سنڈےبےلے سنڈرن سندہی سنہالی سیاکس سلاوک سلوینی سلویا سولریسل سوربی سپینش سرانن سومیری سوابی سواہیلی سویڈش سوس جرمن سوڈووی سنڈانی سرائیکی ش شینا شونا ص صومالی ض ط ع عربی علامائیٹ غ ف فریگی فیروئ فارسی فلپائنی فنش فلیمی فرنچ کروئلے فرانسیسی فریسیائ فریلویائ فورو ق قبائلی قاناڈا قدیم چرچ سلوانی قدیم فرنچ قدیم نارس قدیم پروسائ ک کلوریا ٹویَر کامونک کھوار کالاشہ کامویری کنٹنی کارب کاٹالن کاٹاوبا کائوگا کوکوما کورنی کورسیکن کروشیائ کمبرک کرونی کافیری کنکونیئن کیونڈے کشمیری کاشوبی کاوی کازاخ کیلن کٹ کنیارواندا کسواہیلی کلنگون کونکنی کوریئن کوروائ کرمچک کردش کرغیز گ گےلک گالیکی گھروالی گاؤلی گایو گییز گیلاکی گوتھک گوراگنگا گورانی گجراتی گلیاک ل لادان لادن لاہنڈہ لاخوٹا لاؤ لاطینی لاٹویائ لینی لیناپ لیتھوانیائ لیوانیائ لاگلان لاجبان لوزی لنڈا لویلی لائدیان م میکےڈونی میکیڈورومانی ماکاسر مالاگاسی مالائالم مالٹی ملائ منچوری منڈرن مینکس میوری مراٹھی مائا مازاندارانی مینکیےلی میگلینو رومانی میچیف مینانگ کاباؤ موبیلی موہاک مون منگول ن ناہوٹل ناروان ناواجو نیپالی نیو کیپچک نہ |
ur_Arab | نگیٹو نائجیرئن پڈگن نیوان نارن نارویجن نوویال این/یو نیانجا و ویپس وردوری ویت نامی وولاپک واکھی والون ویلش وینیڈک وولوف ہ ہیٹی کروؤلے ہاؤسا ہوائ ہزاراگی ہیبرو (عبرانی) ہندی لٹٹی ہنگیرائی ہٹرائٹ جرمن ء ی، ے یونانی یواتاکاسی یوکرائنی یاغنوبی یاکوت یازگولامی یددی یوروبا اس صفحہ پر ذ اور ز سے شروع ہونے والی صرف چند زبانیں دی گئی ہیں۔ تقریباً 50 مزید زبانوں کے لیے ذ اور ز سے شروع ہونے والی زبانوں کی فہرست دیکھیں۔ زبانیں |
ur_Arab | ملينيم 2 بعد از مسيح - ملينيم 3 بعد از مسيح - ملينيم 4 بعد از مسيح تيسری ملينيم بعد از مسيح کا آعاز 1 جنوری 2001 کو ہوا اور اس کا اختتام 31 دسمبر 3000 کو ہو گا۔ صدياں اور دہائياں بعد از مسيح صدياں اور دہائياں |
ur_Arab | اس سے مراد موجودہ زمانہ ہے جو 1 جنوری 2001 سے شروع ہوا اور 31 دسمبر 3000 عیسوی پر ختم ہو گا۔ اس صفحہ پر درج علامات کا مفہوم یوں ہے د = دہائی بم = بعد از مسیح ملينيم 2 بعد از مسيح - ملينيم 3 بعد از مسيح - ملينيم 4 بعد از مسيح تیسرا ہزارہ ہزارسالہ ہزاریہ چھوٹے پیغام خانوں کا استعمال کرنے والے مضامین ویکی ڈیٹا سے مطابقت رکھنے والی مختصر تفصیل |
ur_Arab | 19 صدی بم | 20 صدی بم | 21 صدی بم | 22 صدی بم | 23 صدی بم دہائی 1970 | دہائی 1980 | دہائی 1990 | 2000 کی دہائی| دہائی 2010 | دہائی 2020 | دہائی 2030 2001 | 2002 | 2003 | 2004 | 2005 | 2006 | 2007 | 2008 | 2009 | 2010 اہم واقعات 2000ء کی دہائی اکیسویں صدی ترتیب زمانی برائے تاریخ |
ur_Arab | جنورى فرورى مارچ اپريل مئی 30 مئی، کو عالم دین مفتی نظام الدین شامزئی قاتلانہ حملے میں دارفانی سے کوچ کر گئے۔ جون جولائی اگست ستمبر 7 ستمبر - اشفاق احمد، پاکستانی اردو افسانہ نگار، ادیب کا انتقال۔ اکتوبر نومبر دسمبر <noinclude> 2004ء کامنز زمرہ جس کا ربط ویکی ڈیٹا پر ہے Short description is different from Wikidata |
ur_Arab | اس سے مراد وہ دور ہے جو 1 جنوری 1001 سے شروع ہوا اور 31 دسمبر 2000 کو ختم ہوا۔ اس صفحہ پر درج علامات کا مفہوم یوں ہے د = دہائی بم = بعد از مسیح ملینیم 1 بعد از مسیح - ملینیم 2 بعد از مسیح - ملینیم 3 بعد از مسیح اہم وافعات - اسلامی سنہری دور - منگولوں کے حملے - یورپی رینیزانس - مغل دور اور ہندوستان میں سنہری دور۔ - صنعتی انقلاب کا آغاز - قوم کا نظریہ اور قومی ریاستیں - نو آبادیاتی نظام کا پھیلاؤ - دو جنگ عظیم اور اس کے بعد اقوام متحدہ کا جنم لینا۔ اہم شخصیات - جلال الدین محمد رومی، مفکر - چنگیز خان، منگول بادشاہ - کرسٹوفر کولمبس، امریکا دریافت کیا - مارٹن لوتھر، یورپ میں ریفارمیشن کی شروعات کی۔ - جلال الدین محمد اکبر، ہندوستانی شاہنشاہ - نپولین بوناپارت، فرانسیسی بادشاہ - اوٹو وان بسمارک، ڈوئچ (جرمن) چانسلر - ایلبرٹ آئنسٹائن، سائنس دان اہم دریافتیں - جھاپا خانہ - تخلیقیات (وراثیات) - بھاپ ایندھن - کیلگیولس - انسانی پرواز - جوہری طاقت - خلا نوردی - سرمایہ داری اور اشتراکیت (سنشلزم) - حاسب اور بین الشبکہ دوسرا ہزارہ ہزارسالہ ہزاریہ ویکی ڈیٹا سے مطابقت رکھنے والی مختصر تفصیل |
ur_Arab | پہلا ہزارہ اس سے مراد پہلے ایک ہزار سال ہیں۔ جو ہر آغاز کے اعتبار سے پورے ایک ہزار گزرنے کے بعد اس آغاز کا پہلا ہزارہ ہو گا۔ مثال کے طور ہر تقویم کے آغاز سے ہزار سال گزرنے کے بعد اس تقویم کا پہلا ہزارہ ہو گا۔ تہذیبیں، مملکتیں اور ریاستیں پہلا ہزارہ ہزارسالہ ہزاریہ |
ur_Arab | اس صفحہ پر درج علامات کا مفہوم یوں ہے د = دہائی قم = قبل از مسیح ملینیم 2 قبل از مسیح - ملینیم 1 قبل از مسیح - ملینیم 1 بعد از مسیح اہم واqعات - یورپ میں آہنی دور کا آغاز - یونان میں سنہری دور - بدھ مت کا آغاز - ہندوستان میں موریا دور - روم کا آغاز اہم شخصیات چانک جی مہاراج فلسفى قانون ساز بادشاه گر (هندوستانى) - داؤد علیہ السلام، بنى اسرائیل کے نبی اور بادشاہ - سائرس، بابل پر قبضہ کیا اور پارس کی بنیاد رکھی - بدھا، مذہبی راہنما اصلى نام سدهارت كپل وستو كا شاه زاده بده مت كے بانى - کنفوشس، چینی فلسفی - ارسطو، یونانی فلسفی - سکندر اعظم، یونانی فاتح - اشوک، ہندوستانی شاہنشاہ اہم دریافتیں - لوہے کا استعمال عام ہوا - فلسفہ ہزاریہ |
ur_Arab | پہلا ہزاریہ قبل مسیح پہلی صدی قبل مسیح سے دسویں صدی ق م پر مشتمل ہے۔ اہم وافعات مصر میں وسطی ریاست۔ یہودیت کا آغاز۔ ہندوستان میں زات پات کے نظام کا آغاز۔ اہم شخصیات سلماناسر، اسیریا کو متحد کیا۔ اہم دریافتیں |
ur_Arab | ماضی میں ہر تاریخ پر ہونے والے واقعات (یہ فہرست ابھی مکمل نہیں ہے) بیرونی روابط ڈیلی کانٹنٹ آرکیو ورلڈ ہسٹری ڈیٹا بیس آج کے دن برطانوی تاریخ میں آج کا دن ہسٹری چینل (امریکا): آج کا دن کی تاریخ ہسٹری چینل (برطانیا): تاریخ میں یہ دن دا نیو یارک ٹائم: آج کا دن آج کا دن ڈاٹ کام انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس: فلمی تاریخ میں یہ دن برطانوی نشریاتی ادارہ: آج کا دن امریکی نیوی کی تاریخ میں ایام آسٹریلوی تاریخ میں آج کا دن نیووی لینڈ تاریخ میں آج کا دن ایرانی تاریخ میں آج کا دن کتب خانہ کانگریس امریکن میموری کی آج کے دن کی تاریخ کمپیوٹر ہسٹری میوزیم تاریخ میں یہ دن ہسٹری پوڈ ایام سال تاریخ سے متعلقہ فہرستیں حوالہ جاتی مواد کی فہرستیں Short description is different from Wikidata |
ur_Arab | دوسرا ہزاریہ یا ہزارہ قبل مسیح میں 11 صدی قبل مسیح سے 20 صدی قبل مسیح کی دس صدیاں شامل ہیں۔ اہم وا قعات عراق ميں ار کا سنہری دور۔ بابل کا پہلی شاہی گھرانہ۔ مصر کے تيسرے اور چوتھے شاہی گھرانے۔ سندھ طاس تہذيب کا سنہری دور۔ گيزا والے احرام مصر کی تعمير۔ اہم شخصيات سارگون، اکاد اور سميريا کی سلطنتوں کی بنياد رکھی۔ اہم دريافتيں وسطی ايشيا ميں گھوڑے کو پالتو بنا ليا گيا بادبان کا استعمال شروع ہو گيا مشرق وسطی ميں تامبے کے دور کا آغاز ہو گيا۔ صدیاں گیارہویں صدی ق م بارہویں صدی ق م تیرہویں صدی ق م چودہویں صدی ق م پندرہویں صدی ق م سولہویں صدی ق م سترہویں صدی قبل مسیح اٹھارویں صدی قیل مسیح انیسویں صدی قبل مسیح بیسویں صدی قبل مسیح |
ur_Arab | تیسرا ہزاریہ یا ہزارہ قبل مسیح، 21 صدی قبل مسیح سے 30 صدی قبل مسیح کی دس صدیوں پر مشتمل ہے۔ اہم وافعات مصر ميں ايک متحدہ مملکت بنی۔ عراق ميں دواب ميں شہری رياستيں وجود ميں آئیں۔ صحارہ کا علاقہ ريگستان بننا شروع ہوا۔ ہندوستان ميں چھوٹے شہر وجود ميں آئے۔ اہم شخصيات اہم دريافتيں شہری آبادی کا آغاز۔ مصر اور عراق ميں لکھائی کا آغاز۔ صدیاں 30 صدی قبل مسیح 29 صدی قبل مسیح 28 صدی قبل مسیح 27 صدی قبل مسیح 26 صدی قبل مسیح 25 صدی قبل مسیح 24 صدی قبل مسیح 23 صدی قبل مسیح 22 صدی قبل مسیح 21 صدی قبل مسیح |
ur_Arab | بھارت (جسے عموماً ہندوستان، ہند یا انڈیاکہلایا جاتا ہے، اور رسمی طور پر جمہوریہ بھارت) () جنوبی ایشیا میں واقع ایک ملک ہے۔ پرانے دور سے ہی مختلف مذاہب کو یہاں رچنے بسنے کا موقع ملا۔ بھارت آبادی کے لحاظ سے اس وقت سب سے بڑا ملک بن گیا ہے اور اس لحاظ سے یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھی کہلاتا ہے۔ بھارت کے ایک ارب 35 کروڑ سے زائد باشندے سو سے زائد زبانیں بولتے ہیں۔ بھارت کے مشرق میں بنگلہ دیش اور میانمار، شمال میں بھوٹان، چین اور نیپال اور مغرب میں پاکستان اور جنوب مشرق اور جنوب مغرب میں بحر ہند واقع ہے۔ نیز یہ ملک سری لنکا، مالدیپ سے قریب ترین ملک ہے۔ جبکہ بھارت کے نکوبار اور انڈمان جزیرے تھائی لینڈ اور انڈونیشیا کے سمندری حدود سے جڑے ہوئے ہیں۔ بھارت کے بعض مغربی علاقے زمانہ قدیم میں وادی سندھ کے مراکز میں شامل تھے جو تجارت اور نفع بخش سلطنت کے لیے قدیم زمانے سے ہی دنیا میں مشہور تھی۔ چار مشہور مذاہب جن میں ہندومت ،بدھ مت، جین مت اور سکھ مت نے اسی ملک میں جنم لیا جبکہ، جودھامت، مسیحیت اور اسلام اپنے ابتدائی دور میں ہی یہاں پہنچ گئے تھے، جس نے یہاں کے علاقے کی تہذیب و ثقافت پر انمٹ نقوش مرتب کیے۔ اس علاقے پر آہستہ آہستہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلط 18ویں صدی میں شروع ہوئی جبکہ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد یہاں برطانیہ کی براہ راست حکومت قائم ہوئی۔ فی الحال بھارت کی معیشت عمومی جی ڈی پی کے لحاظ سے ساتویں بڑی اور قوت خرید (پی پی پی) کے لحاظ سے تیسری بڑی معیشت ہے۔ 1991ء کے معاشی اصلاحات نے اسے دنیا کی تیزی سے ابھرتی معیشتوں میں لا کھڑا کیا ہے اور یہ تقریباً صنعتی ملک کا درجہ حاصل کرنے والا ہے۔ بہرحال اس کے باوجود یہ ملک غربت، کرپشن، خوراک اور صحت کے مسائل کا شکار ہے۔ جوہری ہتھیاروں سے لیس یہ ملک خطے کا ایک طاقتور ملک ہے اس کی فوج بلحاظ تعداد دنیا کی تیسری بڑی قوت ہے اور دفاعی خرچ کے لحاظ سے یہ دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے۔ بھارت ایک وفاقی جمہوریہ ہے جو پارلیمانی نظام کے تحت 29 ریاستوں اور 7 وفاقی علاقوں پر مشتمل ہے۔ بھارت ایک کثیر لسانی، مذہبی، ثقافتی اور نسلی معاشرہ ہے۔ نیز یہ ملک کئی انواع و اقسام کی جنگلی حیات سے بھی مالا مال ہے۔ نام کی بنیاد دریائے سندھ کے مشرق میں واقع علاقہ کا نام عرب تاریخ نگاروں |
ur_Arab | کے ہاں ہند تھا۔ علامہ اقبال کامشہور قومی نغمہ "سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا" الفاظ سے شروع ہوتا ہے۔ اس کا ایک اور نام انڈیا ہے۔ انڈس دریا سے نام انڈیا پڑا۔ ماضی میں اس خطے کو عموماً ہندوستان یا بھارت کہا جاتا تھا۔ آزادی کے بعد ملک کا سرکاری نام بھارت رکھا گیا، تاہم تمام عالمی زبانوں میں اس کا انگریزی نام انڈیا ہی مستعمل ہے۔ تاریخی اعتبار سے بھارت کو کرما بھومی، تپو بھومی اور پُنیا بھومی جیسے ناموں سے بھی جاتا ہے۔ تاریخ برصغیر پاک و ہند صرف تین ادوار میں ایک ملک رہا۔ ایک تو چندرگپت موریا کے عہد میں اور دوسرے مغلیہ دور میں اور تیسرے انگریزوں کے زمانے میں۔ اورنگ زیب عالمگیر کے دور حکومت میں مغلیہ سلطنت نسبتاً سب سے بڑی تھی۔ انگریزوں کے زمانے میں سلطنت مغلیہ دور سے قدرے کم تھی۔ ان تین ادوار کے علاوہ ہندوستان (موجودہ بھارت، بنگلہ دیش، بھوٹان ، نیپال ، مالدیپ ، سری لنکا اور پاکستان) ہمیشہ چھوٹی چھوٹی بے شمار ریاستوں میں بٹا رہا۔ اپنی ہزاروں سال کی تاریخ کے بیشتر دور میں ہندوستان چھوٹی ریاستوں ہی میں بٹا رہا ہے۔ بھارت میں پتھروں پر مصوری کی شروعات ۴۰،۰۰۰ سال پہلے ہوئی۔ سب سے پہلی مستقل آبادیاں ۹،۰۰۰ سال پہلے وجود میں آئیں۔ ان مقامی آبادیوں نے ترقی کر کہ سندھ طاس تہذیب کو جنم دیا۔ یہ تہذیب چھبیسویں صدی قبل از مسیح سے لے کر انیسویں صدی قبل از مسیح تک اپنے عروج پر تھی اور اس زمانے کی سب سے بڑی تہذیبوں میں شامل ہوتی تھی۔ مگر اس زمانے میں بھی اسے کبھی ہند نہیں کہا گیا بلکہ سندھ کے نام سے جانا جاتا رہا۔ برصغیر بہت عرصہ تک سندھ اور ہند میں منقسم رہا۔ اس کے بعد آنے والے دور کے بارے میں دو نظریات ہیں۔ پہلا نظریہ ماکس مولر نے پیش کیا۔ اس کے مطابق تقریباً پندرہویں صدی قبل از مسیح میں شمال مغرب کی طرف سے آریاؤں نے ہندورستان میں گھسنا شروع کر دیا۔ آریا حملہ آور بن کر آئے تھے اور طاقت کے استعمال سے پھیلے۔ مگر گنتی کے چند آریا طاقت کا استعمال کیے بغیر آہستہ آہستہ اس علاقے میں پھیلے اور آریاؤں اور مقامی دراوڑوں کے درمیان میں ہونے والے تعلق اور تبادلۂ خیالات سے ویدک تہذیب نے جنم لیا۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ آریا / ویدک لوگ ہندوستان کے مقامی لوگ تھے جو دراوڈ تہذیب ختم ہونے کے بعد ع |
ur_Arab | روج پزیر ہوئے۔ ساتویں صدی میں عربوں نے مغربی برصغیر کے علاقے سندھ پر حملہ کر کہ قبضہ کر لیا۔ اس سے پہلے بہت سے لوگ اسلام قبول کرچکے تھے اور عربوں کے قابض ہونے کے بعد مقامی لوگوں نے بڑی تیزی سے اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد تیرہویں صدی میں ترکوں نے ہندوستان پر حملہ کیا اور شمالی ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ سولہویں صدی میں مغلوں نے ہندوستان پر حملہ کیا اور آہستہ آہستہ تمام ہندوستان کے حاکم بن گئے۔ مغلوں کے حملے سے پہلے ہی ہندوستان میں مقامی لوگوں کی بڑی تعداد مسلمان تھی۔ انیسویں صدی میں انگریزوں نے مغلوں کو اپنے ماتحت کر لیا اور اس طرح ہندوستان کے حاکم بن گئے۔ 1857ء کے غدر کے بعد حکومت کمپنی سے برطانوی تاج کے پاس چلی گئی۔ 1876ء کے بعد سے برطانوی شاہان کو شاہنشاہ ہندوستان کا عہدہ بھی مل گیا۔ ملک کو سنبھالنے کے لیے برطانوی حاکموں نے اپنی ’بانٹو اور راج کرو‘ پالیسی کو استعمال کیا۔ برطانوی پیداوار سستی اور مقامی پیداوار مہنگی کر کے مقامی صنعت کو نقصان پہنچایا گیا اور اس طرح ہندوستان سے پیسہ برطانیہ جاتا گیا۔ بھارت کی تحریک آزادی کا زیادہ تر زور نسلی امتیاز اور تابع تجارتی پالیسی کے خلاف تھا۔ برطانوی راج کے خلاف ایک زیادہ تر غیر تشدد پسند تحریک چلا کر موہن داس کرم چند گاندھی، جواہر لال نہرو، سردار پٹیل، ابوالکلام آزاد، بال گنگادھر تلک اور سبھاش چندر بوس کی قیادت میں بھارت نے 1947ء میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ ہندوستان کی تقسیم ہو کر دو نئے ملک پاکستان اور بھارت بن گئے۔ 1962ء میں بھارت کی متنازع علاقوں پر چین سے جنگ ہوئی۔ 1965ء میں کشمیر پر بھارت کی پاکستان سے جنگ ہوئی۔ 1971ء میں پاکستان میں خانہ جنگی ہوئی اور اس میں بھارتی مداخلت بھی ہوئی۔ اس کے نتیجے میں بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ گزشتہ کچھ عرصہ میں بھارت کی سرمایہ کاری اور پیداوار میں اضافہ دیکھا ہے۔ اس کے باوجود بھارت کے سامنے بنیادی مسائل، پاکستان کے ساتھ کشمیر کا تنازع، آبادی کا زیادہ ہونا، ماحولیاتی آلودگی، غربت، مذہبی اور نسلی اختلاف ہیں۔ سیاست بھارت ایک جھوٹھی جمہوریت والا ملک ہے۔ جمہوریت بس نام کے لیے ہے، کاموں میں اس کا کوئی دخل نہیں بھارت اپنی 29 ریاستوں (صوبہ جات) اور مرکزی زیرِ حکومت علاقوں کا یونین (اتحاد) ہے جس کا بنیادی ڈھانچہ وفاقی ہے۔ بھارت کی ریاست کا سربراہ صدر بھارت ہے۔ صدر اور نائب صدر بھارت پانچ سالہ عرصے کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ بھارت میں انتظامی طاقت کابینہ کے پاس ہے۔ کابینہ |
ur_Arab | کے سربراہ وزیر اعظم ہوتے ہیں۔ صدر ان کو وزیر اعظم مقرر کرتے ہیں جن کو پارلیمان کی اکثریتی جماعت/ جماعتوں نے نامزد کیا ہوتا ہے۔ پھر وزیر اعظم کی صلاح پر دوسرے وزراء مقرر ہوتے ہیں ذیلی علاقہ جات بھارت ایک ملک ہے جو 28 ریاستوں اور 8 مرکزی زیر اقتدار علاقوں پر مبنی ہے۔ ۔ 1956 کے سٹیٹ ریگولیشن ایکٹ کے تحت، اتحادی علاقے مرکزی حکومت کے زیر اقتدار آتے ہیں۔ ریاستورں کو لسانی بنیاد پر تشکیل کی گئی۔ ہر ریاست یا اتحادی علاقہ اضلاع میں تقسیم کیا گیا اور اضلاع تحصیلوں میں۔ حکومت کی آخری انتظامی اکائی کے طور پر گاؤں/پنچایت تشکیل پائے گئے۔ ریاستیں آندھرا پردیش اروناچل پردیش آسام بہار چھتیس گڑھ گوا گجرات ہریانہ ہماچل پردیش جھارکھنڈ کرناٹک کیرلا مدھیہ پردیش مہاراشٹر منی پور میگھالیہ میزورام ناگالینڈ اوڈیشا پنجاب راجستھان سکم تمل ناڈو تلنگانہ تریپورہ اتر پردیش اتراکھنڈ مغربی بنگال مرکزی زیر انتظام علاقے فوجی طاقت 1947ء میں اپنی آزادی کے بعد سے بھارت نے زیادہ تر ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلق قائم رکھا ہے۔ 1950ء کی دہائی میں بھارت نے بھرپور طریقے سے افریقہ اور ایشیا میں یورپی ممالک سے آزادی کی حمایت کی اور غیر وابستہ تحریک میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ 1980ء کے دہائی میں بھارت نے پڑوسی ممالک کی دعوت پر دو ممالک میں مختصر فوجی مداخلت کی۔ مالدیپ، سری لنکا اور دیگر ممالک میں آپریشن کے دوران میں بھارتی امن فوج بھیجی۔ جبکہ، بھارت کے پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ ایک کشیدہ تعلق شروع سے برقرار رہا اور دونوں ملک تین بار جنگوں ( 1965ء، 1971ء اور 1999ء میں) میں مدمقابل آئے۔ تنازع کشمیر ان جنگوں کی بڑی وجہ تھی۔ 1971ء کو چھوڑ کر کہ وہ جنگ اس وقت کے مشرقی پاکستان میں شہری کشیدہ حالات کے لیے کی گئی تھی۔ 1962ء کی بھارت - چین جنگ اور پاکستان کے ساتھ 1965ء کی جنگ کے بعد بھارت نے اپنی فوجی اور اقتصادی حالت میں ترقی کرنے کی کوشش کی۔ سوویت یونین کے ساتھ اچھے تعلقات کی وجہ سے سن 1960ء کی دہائی میں، سوویت یونین بھارت کا سب سے بڑا ہتھیار فراہم کرنے والے ملک کے طور پر ابھرا ہے۔ آج روس کے ساتھ دور رس تعلقات کو جاری رکھنے کے علاوہ، بھارت اسرائیل اور فرانس کے ساتھ دفاعی تعلقات رکھ رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں، بھارت نے علاقائی تعاون اور عالمی تجارتی تنظیم کے لیے ایک جنوب ایشیائی ایس |
ur_Arab | وسی ایشن میں موثر کردار ادا کیا ہے۔ بھارت نے اب تک 10،000 متحدہ فوجی اور پولیس اہلکاروں کے ذریعے چار براعظموں میں پینتیس اقوام متحدہ امن کارروائیوں میں خدمات فراہم کی ہیں۔ بھارت بھی مختلف بین الاقوامی مقام، خاص طور پر مشرقی ایشیا کی سربراہ اجلاس اور جی -85 اجلاس میں ایک سرگرم رکن رہا ہے۔ اقتصادی شعبے میں بھارت نے جنوبی امریکا، افریقہ اور ایشیا کے ترقی پزیر ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات رکھے ہیں۔ اب بھارت نے "آگے کی طرف دیکھو پالیسی" میں بھی اتفاق کیا ہے۔ یہ "آسیان" ممالک کے ساتھ اپنی شراکت کو مضبوط بنانے کے امور کا معاملہ ہے جس میں جاپان اور جنوبی کوریا نے بھی مدد کی ہے۔ یہ خاص طور پر اقتصادی سرمایہ کاری اور علاقائی سلامتی کی کوشش ہے۔ 1974ء میں بھارت نے اپنے پہلے ایٹمی ہتھیاروں کا تجربہ کیا اور پھر 1998ء میں زیر زمین تجربات کیے۔ بھارت کے پاس اب انواع و اقسام کے جوہری ہتھيار ہیں۔ بھارت اب روس کے ساتھ مل کر جدید لڑاکا طیارے تیار کر رہا ہے، جو جوہری ہتھیاروں سے لیس ہو کر حملہ آور ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حال ہی میں، بھارت کا امریکا اور یورپی یونین کے ساتھ مشترکہ اقتصادی، وسیع تر باہمی مفاد اور دفاعی تعاون بڑھ گیا ہے۔ 2008ء میں، بھارت اور امریکا کے درمیان میں غیر فوجی جوہری تعاون کے معائدے پر دستخط کیے گئے تھے۔ حالانکہ اس وقت بھارت کے پاس ایٹمی ہتھیار تیار تھا اور وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) کے حق میں نہیں تھا۔ گو اس کو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ادارے اور نیوکلیئر سپلائر گروپ سے چھوٹ حاصل ہے۔ اسی معاہدے کے تحت بھارت کی غیر فوجی جوہری ٹیکنالوجی اور جوہری تجارتی مقاصد پر پہلے ہی پابندی ختم کر دی گئی ہے۔ بھارت دنیا کا چھٹا ایٹمی ہتھیار سے لیس ملک بن گیا ہے۔ نیوکلئیر سپلائر گروپ کی جانب سے دی گئی چھوٹ کے بعد بھارت روس، فرانس، برطانیہ اور کینیڈا سمیت دوسرے ممالک کے ساتھ غیر فوجی جوہری توانائی معاہدے پر دستخط کرنے کے قابل ہے۔ تقریباً 1.3 ملین سرگرم فوجیوں کے ساتھ، بھارتی فوج دنیا میں تیسری سب سے بڑی فوجی طاقت ہے۔ بھارت کے صدر بھارتی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہیں۔ سال 2011ء میں بھارتی دفاعی بجٹ 36.03 ارب امریکی ڈالر رہا (یا خام ملکی پیداوار کا 1.83٪)۔ 2008ء کی ایک رپورٹ کے مطابق، بھارت خریدنے کی طاقت کے معاملے میں بھارتی فوج کے فوجی اخراجات 72.7 ارب امریکی ڈالر رہے۔ سال 2011ء میں بھارتی وزارت دفاع کے سالانہ دفاعی بجٹ میں |
ur_Arab | 11.6 فیصد اضافہ ہوا، تاہم یہ رقم حکومت کی دیگر شاخوں کے ذریعے فوجی اخراجات کے بجٹ میں شامل نہیں ہوتی۔ حالیہ سالوں میں، بھارت دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار درآمد کنندہ بن گیا ہے۔ آبادیات بھارت اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ اگر دنیا کی آبادی کو چھ حصوں میں تقسیم کیا جائے تو ان چھ حصوں میں سے ایک حصہ آبادی بھارت کی ہے۔ بھارت میں کُل دنیا کے 17.5 فیصد لوگ آباد ہیں۔ آبادی کی مختلف شماریات اور تناسبات کو دیکھ کر ماہرین کا کہنا ہے کہ 2025ء تک بھارت دنیا کا پہلا سب سے بڑا ملک بن جائے گا اور اس کی آبادی چین سے زیادہ ہو جائے گی۔ بھارت کی 50 فیصد سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے یعنی جن کی عمر 25 سال سے کم ہے۔ بھارت میں 1 سال سے 35 سال تک عمر والے افراد پورے بھارت کی 65 فیصد آبادی ہے۔ زبانیں بھارت میں 1000 سے زائد نسلی گروہ ہیں جو ہزار سے زائد زبانیں بولتے ہیں۔۔ دنیا کے چاروں بڑے خاندانہائے زبان (دراوڑی زبانیں، ہند-یورپی زبانیں، جنوبی ایشیائی زبانیں، چینی۔تبتی زبانیں) بھارت میں موجود ہیں۔ بھارت دو اہم زبانی خاندان (ہند آریائی زبانیں اور دراویدی زبانیں) کی جائے پیدائش ہے۔ اول کو 74 فیصد اور دوم کو 24 فیصد آبادی بولتی ہے۔ دیگر زبانوں میں جنوبی ایشیائی زبانیں، چینی تبتی زبانیں جیسے لسانی خاندان شامل ہیں۔ ہندی زبان سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ انگریزی زبان کو ملک بھر میں اچھی حیثیت حاصل ہے۔ تجارت، تعلیم اور انتظامیہ میں انگریزی زبان کو وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مذہب بھارت میں مذہب مذہبی عقائد و اعمال کے تنوع کی خصوصیات رکھتا ہے۔ آئین میں 1976ء میں کی جانے والی 42 ویں ترمیم کے مطابق بھارت ایک لادینی ریاست ہے، اس کا مطلب ہے کہ ریاست تمام مذاہب کے ساتھ مساوی رویہ اختیار کرے گی۔ برصغیر کئی بڑے مذاہب کا پیدائشی وطن ہے; یعنی ہندو مت، بدھ مت، جین مت اور سکھ مت۔ بھارت کی پوری تاریخ میں، مذہب ملکی ثقافت کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ مذہبی تنوع اور مذہبی اعتدال دونوں ملک میں بذریعہ قانون اور رسوم کے قائم ہوئے; بھارت کا آئین صاف الفاظ میں مذہبی آزادی کو بنیادی حق قرار دیتا ہے۔ آج، پوری دنیا کی کل ہندو آبادی کا 90% بھارت میں ہے۔ زیادہ تر ہندو سمادھیاں اور مندر بھارت میں ہیں، اسی طرح یہ زیادہ تر ہندو سنتوں کی جنم بھ |
ur_Arab | ومی ہے۔ الٰہ آباد دنیا کی سب سے بڑی مذہبی زیارت، کمبھ میلہ کی میزبانی کرتا ہے، جہاں پر دنیا بھر کے ہندو بھارت کے تین مقدس دریاؤں دریائے گنگا، دریائے جمنا اور سرسوتی کے سنگم پر غسل کے لیے آتے ہیں۔ مغرب میں بھارتی تارکین وطن نے ہندو فلسفہ کے کئی پہلؤوں کو عام کیا ہے جیسے یوگا، مراقبہ، آیور ویدک، کہانت، کرم اور تناسخ وغیرہ کے نظریات ۔ 2011ء میں بھارت میں کی جانے والی مردم شماری کے مطابق کل آبادی کا 79.8% ہندو اور 14.2% مسلمان ہیں، جب کہ 6% دیگر مذاہب جیسے مسیحیت، سکھ مت، بدھ مت، جین مت وغیرہ ہیں۔ مسیحیت بھارت کا تیسرا بڑا مذہب ہے۔ پارسی اور یہودی قدیم بھارت میں آباد تھے، آج کے دور میں ان کی تعداد محض ہزاروں میں ہے۔ ثقافت بھارت کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے، اس وجہ ایک جغرافیائی خطہ ہو کر بھارت میں کافی ننوع دیکھنے میں آیا ہے۔ بھارت کی آبادی کی غالب اکثریت ہندو مت کی پیروکار ہے۔ تاہم کوئی ایک تعریف کبھی دیکھنے میں نہیں آئی کہ ہندو کون ہے۔ آریہ سماج کے کئی لوگ بت پرستی کو نہیں مان کر بھی ہندو ہے۔ برہمو سماج کے لوگ توحید کا عقیدہ رکھ کر بھی ہندو ہیں۔ ہندو دھرم کے زیادہ تر لوگ کثرت الوہ اور بت پرستی کے قائل ہیں، مگر وہ ان لوگوں کو بھی اپنے میں قبول کرتے ہیں۔ حد یہ کہ خدا کو نہیں ماننے والے ملحد بھی ہندو ہیں۔ ماضی میں بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو ملحد تھے، 2013–18 تک کرناٹک ریاست کے وزیر اعلیٰ سدارمیا معلنہ طور پر ملحد رہے۔ اس وجہ یہاں کا دایاں محاذ ہر بھارتی کو ہندو مانتا ہے لفظ ہندو کو بھارتی کے معنوں میں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تاہم اس بات سے ہر کوئی متفق نہیں ہے۔ اس کے باوجود، بھارت ایک سیکولر ملک ہے۔ یہاں جس طرح منادر جگہ جگہ موجود ہیں، اسی طرح مساجد، گرجا گھر اور گرودوارے ہیں۔ ملک میں کچھ وقت پہلے ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام صدر جمہوریہ تھے جو ایک مسلمان تھے۔ اسی طرح گیانی ذیل سنگھ سکھ ہو کر بھی بھارت کے صدر جمہوریہ تھے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ بھی سکھ تھے اور بھارت میں دس سال تک وزیر اعظم تھے۔ اسی طرح سے بھارت میں کئی زبانیں اور بولیاں موجود ہیں، مگر ملک میں وفاقی حکومت کی سرکاری زبان ہندی کو قرار دینے کے باوجود اسے قومی زبان کا درجہ نہیں |
ur_Arab | دے پائے ہیں۔ اس کی وجہ غالبًا یہ ہے کہ ہم زبان اور بولی میں حد فاصل کیسے قائم کریں، یہ طے نہیں ہے۔ لوگ جدید طور پر بھوجپوری زبان بولتے ہیں جو ہندی زبان سے کافی مشابہ ہے اور دونوں زبان کے لوگ ایک ہی انداز میں بات کرتے ہیں، ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں۔ تاہم بھوجپوری لوگ اپنی زبان کو ہندی سے الگ ماننے لگے ہیں۔ یہی حال راجستھانی زبان اور کچھ اور بولیوں کا ہے۔ ہندی کے خلاف سے سب زیادہ احتجاج جنوبی ہند کی ریاست تمل ناڈو میں ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ سے ریاست کے زیادہ تر مدارس میں لوگ ہندی نہیں پڑھاتے۔ بھارت میں مرکزی اور ریاستی زبانوں کے جھگڑے بھی ہوئے ہیں۔ اور اس کے علاوہ اردو زبان کو اس کا مستحقہ مقام دینے کا مسئلہ ایسا رہا ہے، جس پر سیاسی حلقے سنجیدگی سے کام نہیں کرتے۔ پھر بھی بھارت ایک ہمہ لسانی ملک کے طور عالمی پہچان بنا چکا ہے۔ اس کے کئی بین الاقوامی مطالعے بھی ہو چکے ہیں۔ بھارتی ثقافت میں نرینہ اولاد کو سبقت دینے کی وجہ سے مادہ اسقاط حمل کے رواج سے نر اور مادہ بچوں کے تناسب میں انتشار پیدا ہو گیا ہے۔ ہندوستانی ادب بھارت میں قدیم دور میں تحریری روایتوں کی کمی رہی ہے۔ ہندو میں مذہبی طور پر مقدس چار وید زبانی روایتوں کے ذریعے فروغ پائے۔ بعد کے دور میں ان سے متاثر ہو کر کئی اور کتابیں وجود میں آئی ہیں۔ جیسے کہ اپنشد، اپ وید، پران، برہمنا، اتہاس وغیرہ شامل ہیں۔ قدیم راجگان اور مہاراجگان کے دور سے لے مسلمان سلاطین اور مغلوں کے دور میں درباری شاعر اور مؤرخوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ہے۔ ہندوستان کے کچھ حصے پر فاتح محمود غزنوی نے اپنے درباری شاعر فردوسی کو اپنی خود کی تاریخ بہ عنوان شاہنامہ لکھنے پر مامور کیا۔ جب فردوسی نے پوری ایمان داری سے شاہ نامہ لکھ دیا، تب باد شاہ نے وعدہ شدہ انعام دینے سے انکار کر دیا۔ ایسے میں فردوسی بد دل ہو کر دربار سے رخصت ہوا۔ وہ یہ باور کرنے لگا کہ محمود میں شاہی خون کی کمی ہی شاید رہی ہے کہ وہ اپنے وعدے سے مکر گیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد محمود غزنوی اپنے کیے پر نادم ہوتا ہے اور وعدہ شدہ رقم فردوسی کے گھر پہنچاتا ہے۔ مگر تب تک وہ انتقال کر جاتا ہے۔ اس کی بیٹی نے یہ کہہ کر انعامی رقم لینے سے انکار کر دیا کہ جب جس سے وعدہ کیا گیا تھا، وہ |
ur_Arab | نہیں رہے، تو یہ رقم لینے سے کیا حاصل۔ مغل بادشاہوں میں اکبر نے کئی اہل قلم کی حوصلہ افزائی کی۔ بعد کے دور میں یہ حوصلہ افزائی اور بھی بڑھی ہوئی ہونے لگی۔ آخری مغل فرمانروا بہادر شاہ ظفر خود ایک شاعر تھے۔ انہوں نے استاد ذوق اور مرزا غالب جیسے کئی لوگوں کی حوصلہ افزائی کی تھی جو اصحاب قلم شاعر تھے۔ برطانوی ہند میں ربندرناتھ ٹیگور گیتانجلی لکھے تھے، جس کے لیے انہیں نوبل انعام ملا تھا۔ آزاد ہندوستان میں بھی کئی اہل قلم بھارت میں گذرے۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو ایک تاریخی دستاویز Discovery of India لکھے تھے۔ مشہور مصنفہ اروندھتی رائے سسکتے لوگ نامی ناول لکھا تھا، جس کے لیے اسے بکر انعام دیا گیا تھا۔ حقوق مراقبت بھارتی سرکار کی طرف سے غیر پسندیدہ طباعت پر پابندی لگانے کی روایت ہے۔ اکانمسٹ کے 2011ء شمارے میں کشمیر کا نقشہ متنازع علاقہ لکھنے پر بھارت نے نقشہ پر سفید دھبہ لگانے کے بعد فروخت کی اجازت دی۔ کھیل دنیا بھر میں ناپید ہونے والے قدیم کھیل بھارت میں اب بھی مشہور ہیں اور کھیلے جاتے ہیں جیسے کبڈی، کھو کھو، پہلوانی اور گلی ڈنڈا۔ ایشیائی مارشل آرٹ کی کچھ اقسام جیسے کالا رلیتتو، موستی یوددا، سلمبم اور مارما ادی بھارت کی ہی پیداوار ہیں۔ شطرنج کو عام طور پر بھارت میں ایجاد ہوا کھیل مانا جاتا ہے اورآج کل دنیا بھر میں کافی مقبول ہو رہا ہے اور بھارتی گرانڈ ماسٹر کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔و334وو335و پاششچی جلال الدین اکبر کے دربار میں ایک بڑے سے ماربل کا منقش تھا۔ بھارت سے متعلقہ مضامین حکومت ہند فہرست متعلقہ مضامین بھارت بھارت کے شہر بھارت کے شہر بلحاظ آبادی بھارت کے اضلاع بھارت میں زراعت |
ur_Arab | اس صفحہ پر درج علامات کا مفہوم یوں ہے د = دہائی قم = قبل از مسیح ملينيم 6 قبل از مسيح - ملينيم 5 قبل از مسيح - ملينيم 4 قبل از مسيح اہم وافعات - انجیل کے مطابق دنيا کی شروعات - عراق ميں سوسا اور کش کی تہزيبوں کی شروعا ت اہم شخصيات اہم دريافتيں - لکھائ کی شروعات - يورپ ميں ہل استعمال کرنے کی شروعات - چين ميں بھينس کو پالتو بنا ليا گيا ہزارسالہ ہزاریہ |
ur_Arab | اہم وافعات دريائے نيل کی وادی ميں زراعت کا آغاز۔ ہزارسالہ ہزاریہ ویکی ڈیٹا سے مطابقت رکھنے والی مختصر تفصیل |
ur_Arab | اس صفحہ پر درج علامات کا مفہوم یوں ہے د = دہائی قم = قبل از مسیح ملينيم 8 قبل از مسيح - ملينيم 7 قبل از مسيح - ملينيم 6 قبل از مسيح اہم واقعات - يورپ کی وادی ميں زراعت کا آعاز - سونے اور تانبے کا استعمال - بلوچستان ميں مہر گڑھ ميں زراعت اور آبادی - انگلش چينل بن گيا - عراق ميں پہلے مٹی کے برتن - مشرق وسطی ميں گائے پالتو بنا لی گئی ساتواں ہزارہ ق م ہزارسالہ ہزاریہ ویکی ڈیٹا سے مطابقت رکھنے والی مختصر تفصیل |
ur_Arab | اس صفحہ پر درج علامات کا مفہوم یوں ہے د = دہائی قم = قبل از مسیح ملينيم 9 قبل از مسيح - ملينيم 8 قبل از مسيح - ملينيم 7 قبل از مسيح اہم وافعات - چتال ہويوک کا گاؤں وجود ميں آيا - مصر ميں بلی کو پالتو بنا ليا گيا Catetgory:ہزاریہ ترتیب زمانی برائے تاریخ ہزارسالہ درمیانی سنگی دور ویکی ڈیٹا سے مطابقت رکھنے والی مختصر تفصیل |
ur_Arab | اس صفحہ پر درج علامات کا مفہوم یوں ہے د = دہائی قم = قبل از مسیح ملينيم 10 قبل از مسيح - ملينيم 9 قبل از مسيح - ملينيم 8 قبل از مسيح اہم وافعات - جريکو ميں بستی - عراق ميں زراعت - تير کمان کی ايجاد - چين ميں ثوئر کو پالتو بنا ليا گيا - مشرق وسطی ميں بکری اور بھيڑ کو پالتو بنا ليا گيا درمیانی سنگی دور ہزارسالہ ہزاریہ ویکی ڈیٹا سے مطابقت رکھنے والی مختصر تفصیل |
ur_Arab | اس صفحہ پر درج علامات کا مفہوم یوں ہے د = دہائی قم = قبل از مسیح ملينيم 10 قبل از مسيح - ملينيم 9 قبل از مسيح اہم وافعات - جريکو ميں پتھروں کو استعمال کرتے ہو ئے پہلی تعمير - کتے کو پالتو بنا ليا گيا ہزارسالہ ہزاریہ |
ur_Arab | برصغیر کی عوامی غیر منضبط زبانوں میں ایک زبان ف کی بولی کے نام سے مشہور ہے۔ عموماً یہ زبان والدین اس وقت استعمال کرتے ہیں جب انہیں بچوں کے سامنے ایک دوسرے سے کچھ کہنا ہوتا ہے، جسے وہ بچوں سے چھپانا چاہتے ہیں۔ اس زبان میں عموماً حساس معاملات پر گفتگو ہوتی ہے مثلاً پیسہ، موت، لڑائی جھگڑا یا جنسی معاملات یا ان جیسے دیگر معاملات۔ قواعد زبان کا استعمال نہایت آسان ہے، ہر لفظ کے ہر جُز کے درمیان حرف ف داخل کر دیا جائے۔ مثلاً اتنے پیسے کہاں خرچ ہو گئے؟ کو "ف کی بولی" میں یوں کہا جائے گا: افتنفے پفیسفے کفہفاں خفرچ ہفو گفئے؟ یہ بولی لڑکیوں اور نوعمر خواتین میں بہت مقبول ہے، عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بیشتر لڑکے اس سے نابلد ہیں۔ ف کی بولی کے اصول کو استعمال کرتے ہوئے اردو کے قریباً ہر حرف سے اس کی بولی بنائی جا سکتی ہے جیسے ب کی بولی، ج کی بولی، ڈ کی بولی وغیرہ۔ اردو بولیاں پاکستان کے کھیل زبانوں کے کھیل |
ur_Arab | صفحۂ اول |
ur_Arab | مزید دیکھیے: فہرست ممالک بلحاظ آبادی 2005، فہرست ممالک بلحاظ آبادی 1907 یہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے ممالک کی فہرست ہے۔ اس فہرست میں دنیا کے آزاد ممالک اور دوسرے ممالک کے زیر انتظام وہ علاقے شامل ہیں جنھیں داخلی خود مختاری حاصل ہے۔ جہاں بھی ممکن ہوا، اعدادوشمار ممالک کے اپنے مردم شماری کے اداروں کے تازہ ترین تخمینوں سے حاصل کیے گئے ہیں۔ بصورت دیگر، اقوام متحدہ کے 2007ء کی آبادی کا تخمینہ درج کیا گیا ہے۔ چونکہ تمام ممالک میں مردم شماری ایک وقت میں نہیں ہوتی اور نہ ہی ہر جگہ ایک سی احتیاط برتی جاتی ہے، ذیل میں دیے گئی درجہ بندی () میں کچھ غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ تقابلے کے لیے کچھ نیم خود مختار علاقوں کو یہاں شامل تو کیا گیا ہے، لیکن درجہ بندی صرف خود مختار ممالک کی کی گئی ہے۔ ممالک اور ان کے ماتحت علاقوں کی آبادی کے لحاظ سے فہرست مزید دیکھیے فہرست افریقی ممالک بلحاظ آبادی فہرست ممالک شمالی و جنوبی امریکا بشمول جزائر بلحاظ آبادی فہرست عرب ممالک بلحاظ آبادی فہرست ایشیائی ممالک بلحاظ آبادی فہرست کیریبین جزائر ممالک بلحاظ آبادی فہرست یورپی ممالک بلحاظ آبادی فہرست یورپی یونین رکن ممالک بلحاظ آبادی فہرست لاطینی امریکا ممالک بلحاظ آبادی فہرست ممالک اراکین دولت مشترکہ بلحاظ آبادی فہرست مشرق وسطی ممالک بلحاظ آبادی فہرست شمالی امریکا ممالک بلحاظ آبادی فہرست اوقیانوسیہ ممالک بلحاظ آبادی فہرست جنوبی امریکا ممالک بلحاظ آبادی فہرست ممالک بلحاظ آبادی - ماضی و مستقبل فہرست ممالک بلحاظ آبادی - ماضی (اقوام متحدہ) فہرست ممالک بلحاظ آبادی 2000 فہرست ممالک بلحاظ آبادی 2010 فہرست یوریشیائی ممالک بلحاظ آبادی فہرست شہر بلحاظ آبادی |
ur_Arab | مذہب کا لفظی مطلب راستہ یا طریقہ ہے۔ انگریزی لفظ Religion کا مادہ لاطینی لفظ religio یعنی امتناع، پابندی ہے۔ ویبسٹر کی انگریزی لغت میں Religion کی جو تعریف کی گئی ہے اس سے ملتا جلتا مفہوم مقتدرہ قومی زبان کی انگریزی اردو لغت میں بھی دیا گیا ہے، جو یوں ہے: بہ الفاظ دیگر کسی مخصوص علاقے کی مذہبی روایات میں وہاں کے لوگوں کا کائنات کو دیکھنے اور سمجھنے کا انداز کار فرما ہوتا ہے۔ مثلاً زراعتی معاشروں میں بارش کا دیوتا ہوتا ہے تو خانہ بدوش معاشروں میں شکار کا۔ یہ کہنا درست نہیں کہ مذہب اپنے سے متعلقہ علاقہ کے لوگوں کی روحانی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس یہ کہنا چاہیے کہ کسی خطہ کے لوگ اپنے روحانی تقاضے پورے کرنے کے لیے جو امتناعات، پابندیاں، اُصول و قوانین، ضوابط وغیرہ عائد کرتے ہیں اُن کا مجموعہ مذہب کہلاتا ہے۔ مذہب کی تعریف اس کا واضح تعین اتنا آسان نہیں جتنا ہادی النظر میں معلوم ہوتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مذہب کوئی یک جہتی مظہر نہیں ہے۔ مذہب کے نام کے ساتھ ہی پہلا تصور ہمارا مذاہب کی طرف جاتا ہے کیونکہ مذہب سے سابقہ ہم کو ایک تاریخی مظہر کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ دنیا کے بڑے مذاہب انسانی تہذیب کا ایک جز ہیں اور ان عظیم مذاہب کے ساتھ ساتھ ایسی چھوٹی مذہبی جماعتیں ہیں جن کی اپنی خصوصیات ہیں اور جن کی مذہبی انفرادیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے ایک مذہب کے محقق کا یہ کہنا کسی حد تک صحیح ہے کہ ہم مذہب کو مذاہب ہی کے اندر ڈھونڈ سکتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ہر مذہب کے اندر مختلف قسم کے رجحانات پائے جاتے ہیں۔ جن کا تعلق عقائد کے تعین و توضیح اور ان عقائد پر مبنی مذہبی اعمال و رسوم سے ہوتا ہے جب ہم کسی آدمی کو مذہبی کہتے ہیں تو اس سے ہماری مراد یہی ہوتی ہے کہ وہ ان احکام و اعمال پر سختی سے کاربند ہے۔ جو اس مذہب سے وابستہ ہیں جس میں اس نے نشو و نما پائی ہے اور جن کو اس نے شعوری یا غیر شعوری طور پر قبول کر لیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک طرف تو مذہب کچھ متعین عقائد پر دلالت کرتا ہے جیسے وجود خدا پر ایقان، آخرت پر عقیدہ، جزا و سزا پر ایمان وغیرہ۔ دوسری طرف اس کا اظہار مقررہ عبادات کے مخصوص طریقوں پر بجا لانے اور اخلاقی اوامر و نواہی کی تکمیل میں ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم مذہب |
ur_Arab | پر زیادہ غائر نظر ڈالیں اور ہماری نگاہ صرف اس مذہب تک محدود نہ ہو جس میں ہم پیدا ہوئے ہیں تو ہم کو ان اختلافات کا بھی شدت سے احساس ہوتا ہے جو تاریخی مذاہب میں پائے جاتے ہیں۔ اور ان اشتراکات کا بھی جو ان اختلافات کے باوجود مختلف مذاہب میں موجود ہوتے ہیں تو پھر یہ سوال خود بخود پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا عنصر ہے جو تمام مذاہب میں مشترک ہے اور جس کی بنا پر ہم مذہب کے اس مظہر کو، جہاں شخصی ذاتِ مطلق کا تصور بنیادی حیثیت رکھتا ہے (جیسے یہودیت، مسیحیت، و اسلام) اور اس مظہر کو بھی جس کی اساس محض غیر شخصی حقیقت ہے اور جس کا صرف سلبی طور پر اظہار ممکن ہے (جیسے کہ بدھ مت)، مذہب کا نام دیتے ہیں۔ دنیا کے چند اہم مذاہب ابراہیمی مذاہب اسلام یہودیت عیسائیت مشرقی ایشیائی مذاہب تاؤ مت کنفیوشس مت چینی لوک مذہب ہندوستانی مذاہب ہندو مت جین مت بدھ مت سکھ مت قادیانیت علاقائی اور لوک مذاہب شمن پرستی روحیت اجداد پرستی روایتی افریقی مذاہب روایتی بربر مذہب قدیم مصری مذہب اکان مذہب داهومیائی مذہب سریر مذہب یوروبا مذہب ڈنکا مذہب بوشمن مذہب سانٹریا کانڈومبلے وڈوون امبینڈا میکمبا ایرانی مذاہب زرتشتیت یارسانیت یزدانی یزیدیت سامریت مندائیت بابیت بہائیت ازلیت دروز راستفاری آبادیاتی صنف بندی مزید دیکھیے مذاہب بلحاظ ملک |
ur_Arab | اسلام ایک توحیدی مذہب ہے جو اللہ کی طرف سے، حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی گئی آخری الہامی کتاب (قرآن مجيد) کی تعلیمات پر قائم ہے۔ یعنی دنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی اسلام (اور مسلم نظریے کے مطابق گذشتہ ادیان کی اصلاح) کا آغاز، 610ء تا 632ء تک 23 سال پر محیط عرصے میں محمد پر اللہ کی طرف سے اترنے والے الہام (قرآن) سے ہوتا ہے۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا (برائے وجہ : اللسان القرآن) اور اسی زبان میں دنیا کی کل آبادی کا کوئی 24% حصہ یعنی لگ بھگ 1.6 تا 1.8 ارب افراد اس کو پڑھتے ہیں ؛ ان میں (مختلف ذرائع کے مطابق) قریبا 20 تا 30 کروڑ ہی وہ ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے جبکہ 70 تا 80 کروڑ، غیر عرب یا عجمی ہیں جن کی مادری زبان عربی کے سوا کوئی اور ہوتی ہے۔ متعدد شخصی ماخذ سے اپنی موجودہ شکل میں آنے والی دیگر الہامی کتابوں کے برعکس، بوسیلۂ وحی، فرد واحد (محمد ) کے منہ سے ادا ہوکر لکھی جانے والی کتاب اور اس کتاب پر عمل پیرا ہونے کی راہنمائی فراہم کرنے والی شریعت ہی دو ایسے وسائل ہیں جن کو اسلام کی معلومات کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔ اسلام عیسائیت کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے، جس کے پیروکاروں کا تخمینہ تعداد 1.9 بلین افراد ، یا زمین کی آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی ہے۔ اسلام دنیا کا سب سے تیزی سے بڑھتا ہوا بڑا مذہب ہے، اور پیو ریسرچ سینٹر کی طرف سے توقع ہے کہ اکیسویں صدی کے آخر تک یہ دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔ 49 ممالک میں مسلمانوں کی آبادی کی اکثریت ہے۔ زیادہ تر مسلمان دو فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔جن میں اہل سنت ولجماعت (85-90%) ہیں اور اہل تشیع (10-15%)ہیں۔ تقریباً 13% مسلمان انڈونیشیا میں رہتے ہیں، جو سب سے بڑامسلم اکثریتی ملک ہے۔ 31% مسلمان جنوبی ایشیا میں رہتے ہیں، یہ دنیا میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد والا خطہ ہے۔ 20 % مسلمان مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں رہتے ہیں، جہاں یہ غالب مذہب ہے، اور 15% سب صحارا افریقہ میں۔ امریکہ ، قفقاز ، وسطی ایشیا ، چین ، یورپ ، جنوب مشرقی ایشیا ، فلپائن اور روس میں بھی بڑی مسلم کمیونٹیاں آباد ہیں۔ اسلام دنیا میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا بڑا مذہب ہے۔ لغوی معنی |
ur_Arab | لفظ اسلام لغوی اعتبار سے سلم سے ماخوذ ہے، جس کے معنی اطاعت اور امن، دونوں کے ہوتے ہیں۔ ایسا در حقیقت عربی زبان میں اعراب کے نہایت حساس استعمال کی وجہ سے ہوتا ہے جس میں کہ اردو و فارسی کے برعکس اعراب کے معمولی رد و بدل سے معنی میں نہایت فرق آجاتا ہے۔ اصل لفظ جس سے اسلام کا لفظ ماخوذ ہے، یعنی سلم، س پر زبر اور یا پھر زیر لگا کر دو انداز میں پڑھا جاتا ہے۔ سَلم جس کے معنی امن و سلامتی کے آتے ہیں۔ سِلم جس کے معنی اطاعت، داخل ہو جانے اور بندگی کے آتے ہیں۔ قرآنی حوالہ اسلام کا ماخذ سَلم اپنے امن و صلح کے معنوں میں قرآن کی سورت الانفال کی آیت 61 میں ان الفاظ میں آیا ہے: وَإِن جَنَحُواْ لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (ترجمہ: اور اگر جھکیں وہ صلح (امن) کی طرف تو تم بھی جھک جاؤ اس کی طرف اور بھروسا کرو اللہ پر۔ بے شک وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے)۔ سلم (silm) کا لفظ اپنے اطاعت کے معنوں میں قرآن کی سورت البقرہ کی آیت 208 میں ان الفاظ میں آیا ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِي السِّلْمِ كَآفَّةً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ (ترجمہ: اے ایمان والو! داخل ہوجاؤ اسلام میں پورے پورے اور نہ چلو شیطان کے نقش قدم پر بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے)۔ اسلامی نظریات اور عقائد قرآن کے مطابق مسلمان خدا، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ خدا ایک ہے جس نے کائنات کو اس میں موجود ہر چیز کے ساتھ پیدا کیا، اور |
ur_Arab | جبرائیل کے ذریعے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل کیا، اور ان کا عقیدہ ہے کہ یہ ان سے پہلے کے انبیاء کے بھیجے گئے پیغامات کا آخری پیغام ہے۔ انبیاء وہ انسان ہیں جنہیں خدا نے اس کے رسول ہونے کے لیے چنا ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ انبیاء انسان ہیں نہ کہ خدا، حالانکہ ان میں سے بعض کو خدا نے اپنی نبوت کو ثابت کرنے کے لیے معجزات کرنے کی صلاحیت عطا کی تھی۔ اسلامی عقیدے میں انبیاء کو انسانوں کی طرف سے کمال کے قریب ترین سمجھا جاتا ہے، اور وہ وہی ہوتے ہیں جو براہ راست خدا کی طرف سے یا فرشتوں کے ذریعے الہامی وحی حاصل کرتے ہیں۔ قرآن میں متعدد انبیاء کے ناموں کا ذکر ہے جن میں آدم ، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور دیگر شامل ہیں۔ قرآن کے مطابق، تمام انبیاء اسلام کی دعوت دینے والے مسلمان تھے، لیکن مختلف قوانین کے ساتھ۔ اسلام کی تعریف قرآن میں "خدا کی فطرت جس پر انسانوں کو پیدا کیا گیا ہے" کے طور پر کیا گیا ہے:, مسلمانوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ حنیفیت مذہب ابراہیم کی بنیاد ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ ابراہیمی مذاہب کے درمیان فرق صرف شریعت میں ہے نہ کہ مسلک میں، اور یہ کہ اسلام کی شریعت اس سے پہلے کے قوانین کو منسوخ کرتی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی مذہب عقیدہ اور قانون پر مشتمل ہے۔ جہاں تک ایمان کا تعلق ہے، یہ اصولوں کا ایک مجموعہ ہے جس پر ایک مسلمان کو ایمان لانا چاہیے، اور یہ طے شدہ ہے اور مختلف انبیاء کے مطابق مختلف نہیں ہے۔ جہاں تک شریعت کا تعلق ہے، یہ ان عملی احکام کا نام ہے جو مختلف رسولوں کے مطابق مختلف ہیں۔ خدا اسلام کی بنیاد ایک اللہ پر یقین ہے۔ اور یہ کہ وہ ازلی ہے، زندہ ہے، نہیں مرتا، غفلت نہیں کرتا، عدل ظلم نہیں کرتا، اس کا کوئی شریک یا مماثلت نہیں،اس کا کوئی باپ یا بیٹا نہیں،وہ نہایت رحم کرنے والا ہے، وہ گناہوں کو بخشتا ہے اور توبہ قبول کرتا ہے اور لوگوں میں فرق نہیں کرتا سوائے اس کے ان کے اچھے اعمال سے وہ کائنات کا خالق ہے اور اس کی ہر چیز کو جانتا ہے اور اسے کنٹرول کرتا ہے۔ اسلامی عقیدہ میں وہ اپنی تمام مخلوقات سے بالکل مختلف اور انسانی تصورات سے بہت دور ہے، اس لیے اس کی کوئی تصویر یا بشری تصویر نہیں ہے، لیکن مسلمان اس کے وجود پر یقین رکھتے ہیں اور اسے دیکھے بغیر اس |
ur_Arab | کی عبادت کرتے ہیں۔ . جس طرح اسلام میں خدا ایک ہے، اسی وجہ سے مسلمان مسیح کی الوہیت کو رد کرنے کے علاوہ، تین افراد میں خدا کے وجود کے ساتھ تثلیث کے عیسائی نظریے کو مسترد کرتے ہیں، جو اسلامی عقیدے میں ایک انسانی رسول ہے۔ بعض محققین کا کہنا ہے کہ عربی لفظ "اللہ" جو اسلام میں ایک ہی خدا کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، دو حصوں پر مشتمل ہے: " دی " اور " خدا "، جب کہ دوسرے کہتے ہیں کہ لفظ " الوہا " کی وجہ سے اس کی جڑیں آرامی ہیں ۔ اسلام میں، قرآن میں خدا کے متعدد نام مذکور ہیں، اور ایسے ننانوے نام ہیں جو سنی مسلمانوں کے لیے " خدا کے سب سے خوبصورت نام " کے نام سے مشہور ہیں، جو کہ حمد اور تسبیح کے نام ہیں۔ وہ خدا جس کا ذکر قرآن میں یا کسی ایک رسول نے سنی عقیدے کے مطابق کیا ہے، : بادشاہ مقدس، امن پسند، وفادار، غالب، گرفت کرنے والا، توسیع دینے والا، نگہبان، پہلا، رحم کرنے والا، عظمت اور عزت کا مالک، اور دیگر۔ بعض نے تجویز کیا کہ یہ تعداد ننانوے ہے، بخاری کی ایک حدیث کے مطابق جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "خدا کے ننانوے نام ہیں، جو ان کو شمار کرے گا جنت میں داخل ہو جاؤ۔" فرشتے فرشتوں پر ایمان اسلام کی بنیادوں میں سے ہے۔ قرآن کے مطابق، فرشتے خدا کی فرمانبرداری، اس کی تسبیح اور اس کے احکام کو بجا لانے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ فرشتوں کے کاموں میں وحی نازل کرنا، خدا کا تخت اٹھانا، خدا کی تسبیح کرنا، انسان کے اچھے اور برے اعمال لکھنا، موت کے وقت اس کی روح قبض کرنا اور دیگر شامل ہیں۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو نور سے پیدا کیا جس طرح اس نے جن کو آگ سے پیدا کیا، اور اس نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا، اور ان کے پر ایسے ہیں جن سے وہ اڑتے ہیں تاکہ وہ جلدی سے ان کاموں تک پہنچ سکیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے، اور فرشتے "دو، تین اور چار" ہیں اور ان میں سے بعض اس سے بھی زیادہ ہیں، حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسراء کی رات جبرائیل کو دیکھا اور ان کے چھ سو پر ہیں۔ اسی طرح، مسلمانوں کا عقی |
ur_Arab | دہ ہے کہ تمام مخلوقات فرشتوں کو دیکھتے ہیں سوائے انسان کے ان فرشتوں میں سے جن کا ذکر قرآن میں ان کے ناموں سے کیا گیا ہے: جبرائیل اور میکائیل ، اور یہ سورۃ البقرہ میں ہے:اور ہاروت اور ماروت ایک ہی سورہ میں ہیں:اور موت کا فرشتہ جس کا کوئی اور نام قرآن مجید میں نہیں آیا، سورۃ السجدہ میں:. جن دوسرے فرشتوں کا قرآن میں نام کے بغیر ذکر آیا ہے ان میں سے: اسرافیل ، رضوان ، الزبانیہ ، عرش کے حامل، محافظ اور معزز مصنفین ہیں۔ مسلمان نہ صرف فرشتوں کو ان کے ناموں سے ان کی تعظیم کے لیے نشان زد کرتے ہیں، بلکہ وہ ان کی تسبیح کرتے ہیں اور انہیں سلام کرتے ہیں، اس لیے وہ کہتے ہیں، مثال کے طور پر: "جبرائیل" یا "جبرائیل علیہ السلام۔" مقدس کتابیں مسلمان قرآن کو خدا کا لفظی لفظ سمجھتے ہیں۔ اور یہ کہ اس کی آیات واضح عربی زبان میں ہیں، قرآن جبرائیل کے ذریعے محمد پر خدا کی طرف سے نازل ہوئیں، جو کہ 610 عیسوی شروع ہوا اور 8 جون 632 کو ان کی وفات تک کئی مواقع پر نازل کیا گیا۔ قرآن کو محمد کے کچھ ساتھیوں نے ان کی زندگی کے دوران مرتب کیا تھا، لیکن اس وقت اسے کسی ایک کتاب میں جمع نہیں کیا گیا تھا۔ خلیفہ اول حضرت ابوبکر الصدیق کے دور میں قرآن کو پہلی بار ایک کتاب میں جمع کیا گیا، پھر اسے کئی نسخوں میں نقل کیا گیا اور تیسرے خلیفہ عثمان بن عفان کے دور میں مختلف مسلم ممالک میں تقسیم کیا گیا۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور خدا نے اس کی حفاظت کو یقینی بنایا ہے۔ اب تک اس کی ایک ہونے پر تمام فرقوں کے مسلمان متفق ہیں۔ قرآن کو 114 سورتوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور اس میں 6236 آیات ہیں۔ قرآن میں مکی اور مدنی آیات ہیں۔ جہاں تک مکہ کا تعلق ہے، یہ وہی تھا جو ہجرت سے پہلے نازل ہوا تھا، اور اس نے بنیادی طور پر عقیدہ اور ایمان کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور روحانی مسائل پر توجہ مرکوز کی تھی۔ جہاں تک بعد کی تہذیبی آیات کا تعلق ہے تو وہ ہجرت کے بعد نازل ہوئیں اور ان کا تعلق قانون سازی اور احکام سے ہے اور ان کا تعلق مسلم معاشرہ اور بالعموم انسانی معاشرہ کی تعمیر کے لیے ضروری معاشرتی اور اخلاقی مسائل پر ہے۔ قرآن قانونی ہدایات سے زیادہ اخلاقی |
ur_Arab | رہنمائی میں مصروف ہے، اور اسے "اسلامی اصولوں اور اقدار" کے لیے حوالہ کتاب سمجھا جاتا ہے۔ زیادہ تر مسلمان سنت کے ساتھ ساتھ قرآن کو اسلامی قانون کے دو اہم ماخذ مانتے ہیں۔ قرآن کا لفظ "پڑھنا" سے ماخوذ ہے۔ قرآن پڑھنا اسلام میں سب سے اہم عبادتوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ قرآن عربی میں پڑھا جاتا ہے، اور عبادت کے لیے اس کی کسی دوسری زبان میں تلاوت جائز نہیں ہے۔ اگرچہ دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن کے ترجمہ شدہ نسخے موجود ہیں، لیکن انہیں "قرآن" نہیں کہا جاتا اور یہ دوسری زبانوں میں قرآن کے معانی کی محض تشریحات سے زیادہ نہیں ہیں۔ جس طرح مسلمان قرآن پر یقین رکھتے ہیں، اسی طرح وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ قرآن کے نزول سے پہلے کی کتابیں خدا کی طرف سے بعض انبیاء پر نازل ہوئیں، جیسے تورات جو موسیٰ پر نازل ہوئی تھی، زبور جو حضرت داؤد پر نازل ہوئی تھی۔ اور انجیل جو عیسیٰ ابن مریم پر نازل ہوئی ، ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ان کتابوں کے موجودہ نسخوں میں تحریف کی گئی ہے، ان کتابوں پر ایمان رکھنا شرط ہے۔ مسلمانوں میں، اور جو ان کی وحی کا انکار کرتا ہے وہ کافر سمجھا جاتا ہے۔ اس کی دلیل کے طور پر مسلمان جو آیات استعمال کرتے ہیں ان میں سورۃ المائدۃ میں مذکور آیات ہیں: رسول اور انبیاء اسلام میں انبیاء کی تعریف ایسے لوگوں کے طور پر کی گئی ہے جن کو خدا نے لوگوں کے لئے اس کے رسول کے طور پر منتخب کیا ہے، خدا انہیں اپنی نبوت کو ثابت کرنے کے لئے معجزات کرنے کی صلاحیت دیتا ہے، مثال کے طور پر، حضرت سلیمان کا معجزہ پرندوں کی زبان میں اور جنوں کو دیکھنا، اور مسیح عیسیٰ ابن مریم کا معجزہ، بغیر باپ کے پیدا ہونا، بیماروں کی شفایابی، اور مُردوں کا اٹھانا اور اس کے الفاظ جب وہ ابھی شیرخوار تھے، اور محمد کا معجزہ خود قرآن ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ تمام انبیاء دین اسلام کی طرف بلا رہے تھے، لیکن مختلف پیغامات کے ساتھ، یعنی انہوں نے انہی اصولوں کی طرف بلایا جن کی طرف اسلام بلاتا ہے، لیکن اپنے زمانے کے حالات کے مطابق جس کی دعوت دی گئی تھی۔ ان کے لوگ، اور ان میں سے آخری پیغام محمد بن عبداللہ کا پیغام تھا، جسے مسلمان آخری پیغام سمجھتے ہیں اور یہ کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ اور محمد اسلام کے پیغمبر ہیں، |
ur_Arab | اور مسلمان انہیں کسی نئے مذہب کے بانی کے طور پر نہیں دیکھتے، بلکہ اصل اسلام کی بحالی اور تجدید، اور توحید کے عقیدہ کو دیکھتے ہیں جو خدا نے آدم، ابراہیم ،موسیٰ، عیسیٰ، اور دیگر انبیاء پر نازل کیا تھا۔۔ اسلامی روایت میں، محمد کو آخری اور عظیم ترین نبیوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اپنی زندگی کے آخری تئیس سالوں تک، چالیس سال کی عمر سے شروع ہونے والے، محمد کو خدا کی طرف سے حضرات جبرائیل نے قرآن کے ذریعے وحی ملی، اور اسے ان کے پیروکاروں نے حفظ کیا۔ جس طرح مسلمان محمد کو مانتے ہیں، اسی طرح وہ آدم ، نوح، ابراہیم ، موسیٰ ، داؤد ، سلیمان ، عیسیٰ مسیح اور دیگر کو خدا کے نبیوں کو بھی مانتے ہیں۔ قرآن میں پچیس انبیاء کا تذکرہ کیا گیا ہے، جن میں سے بعض کا تذکرہ بائبل اور تورات میں اسی نام سے کیا گیا ہے، جیسے کہ حضرت ابراہیم ، اسحاق، یعقوب ، یوسف اور آدم ، اور بعض کا تذکرہ دوسرے ناموں جیسے کہ حضرت یحییٰ ، جنہیں بائبل میں " جان دی بپٹسٹ " کہا جاتا ہے، اور ان میں سے کچھ کا ذکر ان کتابوں میں کیا گیا ہے جن کا ذکر قرآن میں نہیں ہے، بلکہ حدیث نبوی میں ذکر کیا گیا ہے۔ جیسا کہ دانیال نبی ۔ مسلمان انبیاء کی تعظیم کرتے ہیں اور ان کو سلام کرتے ہیں اور ان کی تعظیم و توقیر میں انہیں ان کے تجریدی ناموں سے نہیں پکارتے، مثال کے طور پر، وہ کہتے ہیں: "محمد" خدا کی دعائیں اور سلام ہو، "یسوع مسیح" ان پر سلام ہو۔ "ہمارے باپ آدم" آپ پر سلام ہو، یہ مانتے ہوئے کہ آدم بنی نوع انسان کے باپ ہیں جیسا کہ بائبل میں بھی مذکور ہے۔ سنی مسلمان کسی بھی شکل میں انبیاء اور رسولوں کی تصویر کشی کرنے سے انکار کرتے ہیں، خواہ وہ کسی خاکے میں ہو یا مجسمہ، یا کسی نمائندہ عمل میں ان کی شخصیت کا ازسر نو جنم، جب کہ شیعہ انبیاء کی تصویر کشی کی اجازت دیتے ہیں، اور محمد کی کئی فارسی خاکے ہیں، ائمہ، اور فرشتے. کچھ احادیث آئی ہیں جن میں بعض انبیاء کے جسم کا ذکر ہے۔ قیامت یومِ قیامت ، یومِ جزا، یومِ آخر، یا قرآن میں مذکور دیگر نام، اسلامی عقیدے میں یومِ جزا ہے۔ اور اسی میں |
ur_Arab | دنیا کا خاتمہ ہے اور خدا تمام لوگوں کو جمع کرتا ہے تاکہ ان سے ان کے اعمال کا محاسبہ کرے اور پھر ان کا ٹھکانہ جنت یا جہنم ہو گا۔ اگر اس کے اعمال اچھے ہیں تو وہ جنت میں داخل ہو گا جو اسلامی عقیدے میں نعمت ہے ۔ اور جو دنیا کی زندگی میں برے اعمال کرتا تھا اسے جہنم میں عذاب دیا جائے گا جو کہ اسلام میں جہنم ہے ۔ قرآن اور احادیث میں قیامت کے واقعات اور ہولناکیوں اور اس کے قریب آنے کی نشانیاں بیان کی گئی ہیں۔ جیسا کہ اس میں جنت کی نعمتوں اور وہاں کی لذتوں کو بیان کیا گیا ہے، اسی طرح جہنم کے عذاب اور اس کے گنہگاروں کی تکالیف کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کا وقت صرف اللہ ہی جانتا ہے، اور اس کی مخلوق میں سے کوئی بھی نہیں جانتا، اور یہ کہ قیامت کسی کی توقع کے بغیر اچانک آجائے گی ۔ قرآن نے قیامت کے دن کی ہولناکیوں کا ذکر کیا ہے، بشمول سورت تکویر میں آیا ہے:, اور سورۃ الانفتار۔ تقدیر اور تخلیق سنی مسلمان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہر چیز انسان کے خالق کی طرف سے پہلے سے طے شدہ ہے، اور تمام تقدیر خدا نے تخلیق یا آدم کی تخلیق سے پہلے محفوظ شدہ تختی میں لکھی تھیں۔ اور یہ کہ اس کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے وہ خدا کی تقدیر اور مرضی سے ہوتا ہے، اس کے مطابق جو کتاب و سنت میں بیان کیا گیا ہے اور اسلامی مذہبی علماء نے جو قیاس کیا ہے۔ اگرچہ واقعات پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں، لیکن انسان کے صحیح اور غلط کے درمیان انتخاب ہے، اور اس لیے وہ اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے۔ سورۃ تکویر میں فرمایا:اور یہ کہ انسان کی مرضی اور طاقت خدا کی طاقت اور مرضی سے باہر نہیں ہے۔ وہی ہے جس نے انسان کو یہ عطا کیا اور اسے فہم و فراست پر قادر کیا جیسا کہ پچھلی آیت کی درج ذیل آیت میں بیان کیا گیا ہے:. دوسری طرف تقدیر کے بارے میں شیعہ فہمجیسا کہ اسے عدل کہا جاتا ہے، انسان کے اپنے اعمال کی ذمہ داری کے گرد گھومتا ہے، لیکن ساتھ ہی وہ بعض معاملات میں بھی رہنمائی کرتا ہے جو اس پر عائد ہوتے ہیں، جیسے کہ جنس۔ ، جائے پیدائش، وغیرہ۔ اسلام کیا ہے؟ یہاں وضاحت، اسلام کیا ہے؟ کو دوبارہ درج کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ اس کا جواب مضمون کے ابتدائیہ میں آچکا ہے۔ جہاں تک رہی بات اس سوال |
ur_Arab | کی کہ اسلام ہے کیا؟ یعنی وہ کیا اجزاء ہیں کہ جو اسلام کی تشکیل کرتے ہیں؟ تو اس وضاحت کی الگ سے ضرورت مختلف خود ساختہ فرقوں کے باعث پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے ایک درکار لازم حیثیت رکھتی ہے۔ ماسوائے چند (جیسے اھل القرآن) تمام فرقے قرآن اور سیرت النبی (سنت) ہی کو اسلامی تعلیمات کی بنیاد قرار دینے پر نا صرف اجتماع رکھتے ہیں بلکہ اپنے اپنے طور اس پر قائم ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں جیسے اھل سنت۔ اور اھل حدیث وغیرہ۔ یہی دعویٰءِ اصلِ اسلام، اھل تصوف سے متعلق کتب و دستاویزات میں بھی دیکھا جاتا ہے اھل تشیع فرقے والے سنت پر ایک خاص اور محتاط نقطۂ نظر بیان کرتے ہیں اور سنیوں کے برعکس ان کے نزدیک جو سنت (حدیث)، اھل بیت سے منحرف ہوتی ہو وہ مستند نہیں، مزید یہ کہ اس فرقے میں قرآن اور سنت کی بجائے قرآن اور اھل بیت کا تصور بھی ملتا ہے۔ قرآن مذکورہ بالا قطعے میں متعدد الانواع --- اھلوں --- کے تذکرے کے بعد یہ بات اپنی جگہ ہے کہ اسلام ایک کتابی مذہب ہے یعنی اس پر عمل کرنے والے اھل کتاب کہلائے جاتے ہیں۔ قرآن خود اپنی حیثیت کے بارے میں بیان کرتا ہے کہ یہ انسانوں کے لیے ایک راہنما (النساء 174)، ایک ہدایت (البقرہ 2) اور اچھے برے کی تمیز بتانے والی (البقرہ 185) کتاب ہے۔ محمد پر وحی (610ء) کی صورت میں نازل ہونے سے لیکر عثمان کے زمانے میں کتاب کی شکل اختیار کرنے (653ء) سے قبل بھی قرآن اپنے لیے کتاب کا لفظ ہی استعمال کرتا ہے۔ قرآن کے ناقابل تحریف و فسخ ہونے اور اس کی ابتدائی زمانے میں کامل ترین طور پر حفاظت کیے جانے کے تاریخی شواہد موجود ہیں ؛ مسلمانوں کا یہ غیر متزلزل ایمان ہے کہ قرآن کے ایک نقطے میں نا تو آج تک تحریف ہوئی ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔ سنت سنت، عربی کا لفظ ہے اور اس کے بنیادی معنی، روش یا راہ کے ساتھ دیگر معنی بھی ہوتے ہیں لیکن اسلامی دستاویزات میں اس سے عام طور پر مراد حضرت محمد کی اختیار کردہ روش حیات یا طریقۂ زندگی کی ہی لی جاتی ہے۔ 569ء سے 632ء تک جو عرصہ محمد نے اس دنیا میں انسانوں کے سامنے کتاب کا عملی نمونہ پیش کرنے کے لیے گزارہ وہ سنت کہلاتا ہے۔ خاتم الانبیا ہونے کی وجہ سے محمد کی وفات نے آخری کتاب کے بعد |
ur_Arab | ، اسلام کی تکمیل کرنے والے دوسرے منبع پر بھی اختتام کی مہر ثبت کردی۔ اس وقت سے لیکر آج تک مسلمان اسلام کے ان دو بنیادی ماخذ، قرآن اور سنت، کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اجزائے ایمان اجزائے ایمان سے مراد ان عقائد کی ہوتی ہے کہ جن پر کامل اعتقاد اسلام میں ایمان (اللہ پر یقین) کی تکمیل کے لیے ضروری ہوتا ہے، عام طور ان میں چھ اجزا کا ذکر زیادہ ہوتا ہے جن کا تمام مسلمان اقرار کرتے ہیں۔ {| style="float: right; border-top:1px solid #bfb6a3; border-right:1px solid #bfb6a3; border-bottom:1px solid #bfb6a3; border-left:1px solid #bfb6a3;" cellpadding="5" cellspacing="0" |- |<li> ایمان باللہ <li> ایمان بالملائکہ |<ul><ol start="3"> ایمان بالکتب ایمان بالرسالت |<li> ایمان بالقدر <li> ایمان بالآخرت |- |} بالائی جدول میں بیان کردہ ان اجزا کے لیے چھ کا عدد ناقابل تحریف نہیں ہے یعنی اجزائے ایمان میں وہ تمام اجزا شامل ہو سکتے ہیں جو کسی شخص کو دل اور زبان سے اللہ کا اقرار کرنے میں معاون ہوں۔ مثال کے طور پر مشہور کلمہ، ایمان مفصل (عکس 1) میں ان کی تعداد چھ کی بجائے سات ہو جاتی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کلمۂِ طیّب سمیت چھ بنیادی کلمات کی طرح ایمان مفصل اور ایمان مجمل بھی ایسے کلمات ہیں کہ جو ایمان کے بنیادی اجزائے ترکیبی کو آسانی سے یاد رکھنے میں مدد دے سکیں اور یہ کسی ایک عبارت کی صورت میں قرآن یا حدیث میں نہیں ملتے البتہ ان کا ذکر قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ ارکانِ اسلام ارکان اسلام کو اعتقادات دین یا دیانہ (creed) سمجھا جاسکتا ہے، یعنی وہ اطوار کہ جو عملی زندگی میں ظاہر ہوں ؛ بعض اوقات ان کو دین کے پانچ ستون بھی کہا جاتا ہے کیونکہ بشری شماریات (demography) کے اندازوں کے مطابق 85 فیصد (اور بعض ذرائع کے مطابق اس سے بھی زیادہ) مسلم افراد، پانچ (5) ارکانِ اسلام پر ہی یقین رکھتے ہیں جبکہ 15% (اور بعض ذرائع کے مطابق اس سے بھی کم) ایسے ہیں جو اس 5 کے عدد سے انحراف کرتے ہیں۔ مذکورہ بالا سطور میں شماریاتی تناسب سے حوالۂ مقصود |
ur_Arab | بالترتیب، سنی اور شیعہ تفرقوں کی جانب ہے۔ شیعہ اثناء عشر کے نزدیک اس کی پھر دو قسمیں ہیں۔ جنہیں اصول دین اور فروع دین کہتے ہیں۔ اصول دین کا تعلق عقیدہ و ایمان سے ہے جس میں توحید، عدل، نبوت، امامت اور قیامت شامل ہیں۔ فروع دین کا تعلق عمل سے ہے جس میں کل 10 چیزیں یعنی نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، خمس، جہاد، تولا، تبرا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر شامل ہیں۔ اسماعیلی شیعاؤں میں ان کی تعداد 5 ارکان میں سے شہادت نکال کر اور ولایۃ (اماموں کی جانثاری و سرپرستی) اور طھارت جمع کر کہ 7 اپنا لی جاتی ہے۔ شیعوں ہی سے نکلنے والا ایک اور فرقے، دروز، والے اسماعیلیوں کی ولایۃ کو تسلیم کہتے ہیں جبکہ نماز کو صدق اللسان کہہ کر عام مسلمانوں کی طرح نماز اور روزے کو ترک عبادت الاثوان قرار دے کر عام مسلمانوں کی طرح روزہ ادا نہیں کرتے، ان لوگوں میں زکوت بھی مختلف اور انفرادی طور پر ہوتی ہے جبکہ حج نہیں ہوتا۔ تاریخِ اسلام 610ء میں قرآن کی پہلی صدا کی بازگشت ایک صدی سے کم عرصے میں بحر اوقیانوس سے وسط ایشیا تک سنائی دینے لگی تھی اور پیغمبرِ اسلام کی وفات (632ء) کے عین سو سال بعد ہی اسلام 732ء میں فرانس کے شہر تور (tours) کی حدود تک پہنچ چکا تھا۔ خلافت راشدہ 632ء میں عبداللہ ابن ابی قحافہ کے انتخاب پر خلافت راشدہ کا آغاز ہوا، انہوں نے حروب الردہ کے بعد سلطنت ساسانیان اور سلطنت بازنطینی کی جانب پیشقدمیاں کیں۔ 634ء میں ابوبکر کے انتقال کے بعد عمر بن الخطاب خلیفۂ دوم ہوئے، کچھ لوگ اس انتخاب پر علی بن ابی طالب کے حق میں تھے۔ عمر فاروق نے ساسانیوں سے عراق (بین النہرین)، ایران کے علاقے اور رومیوں سے مصر، فلسطین، سوریا اور آرمینیا کے علاقے لیکر اسلامی خلافت میں داخل کیے اور عملی طور پر دونوں بڑی سلطنتوں کا خاتمہ ہوا۔ 638ء میں مسلمان بیت المقدس میں داخل ہو چکے تھے۔ 644ء میں ابولولو فیروز کے خنجر سے عمر فاروق کی شہادت کے بعد عثمان ابن عفان خلیفۂ سوم منتخب ہوئے اور 652ء تک اسلامی خلافت، مغرب کی حدوں (جزیرۃ الاندلس) میں پہنچ گئی۔ اگر تفصیل سے تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ وہ عرصہ تھا کہ گو ابھی شیعہ و سنی |
ur_Arab | تفرقے بازی کھل کر تو سامنے نہیں آئی تھی لیکن تیسرے خلیفہ عثمان ابن عفان کے انتخاب (644ء تا 656ء) پر بہرحال ایک جماعت اپنی وضع قطع اختیار کر چکی تھی جس کا خیال تھا کہ علی بن ابی طالب کو ناانصافی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس جماعت سے ہی اس تفرقے نے جنم لیا جسے اور مختصرا شیعہ کہا جاتا ہے۔ عثمان غنی کی شہادت کے بعد اب خلافت راشدہ کا اختتام قریب قریب تھا کہ جب علی المرتضیٰ خلیفہ کے منصب پر آئے (656ء تا 661ء)۔ لوگ فتنۂ مقتل عثمان بن عفان پر نالاں تھے اور علی بن ابی طالب پر شدید دباؤ ان کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے ڈال رہے تھے جس میں ناکامی کا ایک خمیازہ امت کو 656ء کے اواخر میں جنگ جمل کی صورت میں دیکھا نصیب ہوا؛ پھر عائشہ بنت ابی بکر کے حامیوں کی شکست کے بعد دمشق کے حاکم، معاویہ بن ابو سفیان نے علی بن ابی طالب کی بیت سے انکار اور عثمان بن عفان کے قصاص کا مطالبہ کر دیا، فیصلے کے لیے میدان جنگ چنا گیا اور 657ء میں جنگ صفین کا واقعہ ہوا جس میں علی المرتضیٰ کو فتح نہیں ہوئی۔ معاویہ بن ابو سفیان کی حاکمیت (660ء) مصر، حجاز اور یمن کے علاقوں پر قائم رہی۔ 661ء میں عبد الرحمن بن ملجم کی تلوار سے حملے میں علی بن ابی طالب شہید ہوئے۔ یہاں سے، علی بن ابی طالب کے حامیوں اور ابتدائی سنی تاریخدانوں کے مطابق، خلافت راشدہ کے بعد خلیفۂ پنجم حسن ابن علی کا عہد شروع ہوا۔ 661ء تا 1258ء حسن بن علی کی دستبرداری پر معاویہ بن ابو سفیان نے 661ء میں خلافت بنو امیہ کی بنیاد ڈالی اور ایک بار پھر قبل از اسلام کے امرائی و اعیانی عربوں کا سا انداز حکمرانی لوٹ آیا۔ پھر ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے، یزید بن معاویہ (679ء) نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نواسے حسین ابن علی کو 680ء میں جنگ کربلا میں شہید کر دیا اور سنی، شیعہ تفرقوں کی واضح بنیاد ڈالی۔ 699ء میں فقہی امام ابو حنیفہ کی پیدائش ہوئی۔ بنو امیہ کو 710ء میں محمد بن قاسم کی فتح سندھ اور 711ء میں طارق بن زیاد کی فتح اندلس (یہی امام مالک کی پیدائش کا |
ur_Arab | سال بھی ہے) کے بعد 750ء میں عباسی خلافت کے قیام نے گو ختم تو کر دیا لیکن بنو امیہ کا ایک شہزادہ عبدالرحمٰن الداخل فرار ہو کر 756ء میں اندلس جا پہنچا اور وہاں خلافت قرطبہ کی بنیاد رکھی، یوں بنو امیہ کی خلافت 1031ء تک قائم رہی۔ ادھر عباسی خلافت میں کاغذ کی صنعت، بغداد کے بیت الحکمۃ (762ء) جیسے شاہکار نظر آئے تو ادھر اندلس میں بچی ہوئی خلافت امیہ میں جامع مسجد قرطبہ جیسی عمارات تعمیر ہوئیں۔ 767ء میں فقہی امام شافعی اور 780ء امام حنبل کی پیدائش ہوئی۔ 1258ء میں شیعیوں کی حمایت سے ہلاکو کے بغداد پر حملے سے آخری خلیفہ، موسیقی و شاعری کے دلدادہ، معتصم باللہ کو قالین میں لپیٹ کر گھوڑوں سے روندا گیا اور خلیفۃ المسلمین و امیرالمومنین کی صاحبزادی کو منگولیا، چنگیز خان کے پوتے مونکو خان کے حرم بھیج دیا گیا، مصلحت اندیشی سے کام لیتے ہوئے ہلاکو نے اہم شیعہ عبادت گاہوں کو اپنے سپاہیوں سے بچانے کی خاطر پہرے دار مقرر کر دیے تھے ؛ یوں خلافت عباسیہ کا خاتمہ ہوا۔ عباسیہ عہد ہی میں اسلامی تاریخ کو کوئی 700ء سے شروع ہونے والے اسلامی عہدِ زریں کا دیکھنا نصیب ہوا اور مسلم سائنسدانوں کی متعدد عظیم کتب اسی زمانے میں تخلیق ہوئیں اور اسی زمانے میں ان کی سیاہی کو دجلہ کا پانی کالا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ خلافت تا خلافتیں کہنے کو 1924ء تک گھسٹنے والی خلافت، لغوی معنوں میں 632ء تا 1258ء تک ہی قائم سمجھی جاسکتی ہے۔ جبکہ فی الحقیقت اس کا عملی طور پر خاتمہ 945ء میں بنی بویہ کے ہاتھوں ہو چکا تھا ادھر ایران میں سامانیان (819ء تا 999ء) والے اور ایران کے متعدد حصوں سمیت ماوراء النہر و موجودہ ہندوستان کے علاقوں پر پھیلی غزنوی سلطنت (963ء تا 1187ء) والے، عباسی خلافت کو دکھاوے کے طور برائے نام ہی نمائندگی دیتے تھے۔ فاطمیون (909ء تا 1171ء)، تیونس میں عباسی خلافت کو غاصب قرار دے کر اپنی الگ خلافت (920ء) کا دعویٰ کر چکے تھے اور اسپین میں عبد الرحمن سوم، 928ء میں اپنے لیے خلیفہ کا لقب استعمال کر رہا تھا۔ یہ وہ سماں تھا کہ |
ur_Arab | ایک ہی وقت میں دنیا میں کم از کم تین بڑی خلافتیں موجود تھیں اور ہر جانب سے خلیفہ بازی اپنے زوروں پر تھی، یہ بیک وقت موجود خلافتیں ؛ خلافت عباسیہ، خلافت فاطمیہ اور خلافت قرطبہ (اندلسی امیہ) کی تھیں۔ 1169ء میں نور الدین زنگی نے شیر کوہ کے ذریعے مصر اپنے تسلط میں لے کر فاطمیہ خلافت کا خاتمہ کیا۔ صلاح الدین ایوبی (1138ء تا 1193ء) نے 1174ء میں ایوبی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ اور 1187ء میں مسیحیوں کی قائم کردہ مملکت بیت المقدس سے بیت المقدس کو آزاد کروا لیا۔ 1342ء میں ایوبی سلطنت کے خاتمے اور مملوک (1250ء تا 1517ء) حکومت کے قیام سے قبل اس سلطنت میں ایک خاتون سلطانہ، شجر الدر (1249ء تا 1250ء) نے بھی ساتویں صلیبی جنگوں کے دوران میں قیادت کی طوائف الملوک تا استعماریت 1258ء میں چنگیز کے پوتے سے بچ نکلنے والے عباسیوں نے مصر میں مملوکوں کی سلطنت (1250ء تا 1517ء) میں خلفیہ کا لقب اختیار کر کے عباسی (فرار ہوجانے والی) خلافت کو مملوکوں کی عثمانیوں کے سلیم اول کے ہاتھوں شکست ہونے تک (1517ء) نام دکھاوے کی طرح قائم رکھا اور پھر سلیم اول نے آخری مصری عباسی خلیفہ، محمد المتوکل ثانی (1509ء تا 1517ء) کے بعد خلیفہ کا لقب اس سے اپنے لیے حاصل کر لیا۔ ھاشم ثانی کے بعد خلافت قرطبہ (756ء تا 1031ء) ختم ہوئی اور الاندلس چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ گیا۔ دولت مرابطین کے یوسف بن تاشفین نے 1094ء میں اسے پھر متحد کیا لیکن اس کے بعد دولت موحدون آئی اور معرکہ العقاب (1212ء) میں ان کی شکست پر دوبارہ اندلس کا شیرازہ بکھر گیا اور 1492ء میں ابو عبد اللہ اندلس کو مسیحیوں کے حوالے کر کہ مراکش آگیا۔ ادھر مشرق کی جانب مملوکوں سے سلطنت غزنویہ (986ء تا 1186ء) اور سلطنت غوریہ (1148ء تا 1215ء) نے خلافت کو طوائف بنانے میں اپنا کردار ادا کیا، اس کے بعد خلجی خاندان اور تغلق خاندان آئے اور 1526ء میں سلطنت دہلی، سلطنت مغلیہ بن گئی۔ اسلام و دیگر مذاہب اسلام ایک ایسا مذھب ہے جو زندگی کے ہر شعبہ |
ur_Arab | کے حوالے سے رہنمائی کرتا ہے یعنی صرف عبادات نہیں بلکہ معیشت،تجارت،اخلاقیاف ہر حوالے سے رہنمائی دیتا ہے ۔اسلام میں سود حرام ہے،اسلام میں بحیثیت انسان سب برار ہے ،اسلام لوگوں کو ایک وحدت میں پروتا ہے اور کہتا ہے کہ سب آدم کی اولاد ہیں ،اسلام میں غریبوں کا بڑا خیال رکھا گیا ہے زکوہ کا نظام قائم کر کے غرباء کی مدد کی جاتی ہے۔اسلام کہتا ہے کہ سب کے ساتھ انصاف کا معاملہ ہو۔اسلام میں حقیقی بھائی بہن سے نکاح حرام ہے۔اسلام کسی غیر محرم پر نظر اٹھانے سے بھی منع کرتا ہے۔کسی کا مال ناحق کھانے کی ممانعت ہے چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے۔اسلام میں عورت کو بڑی عزت دی جاتی ہے اس کو وراثت میں حصہ ملتا ہے اس کے کھانے پینے ،پہننے ،رہائش کی زمہ داری مرد پر ہوتی ہے،اسلام میں ہر انسان کا خون قیمتی ہے کسی غیر مسلم کو ناحق قتل نہیں کیا جا سکتا اسلام باہمی ہمدردی ،اخوت کا درس دیتا ہے مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ خدا ایک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے آخری پیغمبر ہیں ۔یہ دنیا فانی ہے موت کے بعد اللہ اس زندگی کا حساب لے گا اور جنھوں نے اچھے اعمال کیے ہونگے انھیں جنت میں داخل کرے گا اور برے لوگوں کو جہنم میں ڈالے گا، اسلام میں مسلمان دن میں پانچ نمازیں ادا کرتے ہیں ،سال بھر میں ایک مہینہ روزے رکھتے ہیں ، سال میں ایک مرتبہ اپنے اضافی مال میں سے اڑھائی فیصد غریبوں کو دینا فرض ہے ،زندگج میں ایک مرتبہ اگر استطاعت ہو تو بہت اللہ کا حج فرض ہے۔اسلام میں جھوٹ بولنے،ناپ تول میں کمی کرنے کی سخت ممانعت ہے،غصہ ،لالچ ،تکبر،شہوت حسد،غیبت ان تمام برائیوں سے اسلام روکتا ہے ہے۔ اسلام کا سارا نظام عدل و انصاف پر مبنی ہے ،بڑوں کی عزت کرنا ،پڑوسی کا خیال رکھنا،اولاد کی اچھی تربیت کرنا اسلامی تعلیمات میں شامل ہیں۔از روئے قرآن، اسلام کی بنیادی تعلیمات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ محمد صل للہ علیہ والہ وسلم سے قبل جتنے بھی مذاہب اس دنیا میں آئے وہ فی الحقیقت اسلام تھے اور جو عقائد محمد صل للہ علیہ والہ وسلم کی جانب سے انسانوں کو سکھائے گئے محمد صل للہ علیہ والہ وسلم سے گذشتہ تمام انبیا نے |
ur_Arab | بھی ان ہی عقائد کی تبلیغ کی تھی۔ سورت النساء میں درج ہے ؛ بے شک ہم نے وحی بھیجی ہے تمہاری طرف جیسے وحی بھیجی تھی ہم نے نوح علیہ السلام اور ان نبیوں کی طرف جو اس کے بعد ہوئے اور وحی بھیجی ہم نے علیہ السلام، اسماعیل علیہ السلام، اسحاق علیہ السلام، یعقوب علیہ السلام اور اوالاد یعقوب علیہ السلام کی طرف اور عیسیٰ علیہ السلام، ایوب علیہ السلام، یونس علیہ السلام ہارون علیہ السلام اور سليمان علیہ السلام کی طرف اور دی ہم نے داؤد علیہ السلام کو زبور۔ قرآن 04:163 مذکورہ بالا آیت سے دوسرے مذاہب کے بارے میں اسلام کے نظریے کی وضاحت سامنے آجاتی ہے۔ اسلام میں انبیا قرآن ہی کی سورت 35 (فاطر) کی آیت 24 کے مطابق، قرآن میں درج 25 انبیاء و مرسال کے علاوہ اسلامی عقائد کے مطابق ایسے انبیا اکرام بھی ہیں کہ جن کا ذکر قرآن میں نہیں آتا، قطعہ بنام اجمالی جائزہ میں درج آیت سے یہ بات عیاں ہے کہ ہر امت میں نبی (یا انبیا) بھیجے گئے، اس سلسلے میں ایک حدیث بھی مسند احمد بن حنبل اور فتح الباری بشرح صحیح البخاری میں آتی ہے جس میں پیغمبران کی تعداد 124000 بیان ہوئی ہے۔؛ ظاہر ہے کہ ان میں ان مذاہب کے وہ اشخاص منطقی طور پر شامل ہو جاتے ہیں کہ جن کو آج ان مذاہب کی ابتدا کرنے والا یا ان مذاہب کا خدا مانا جاتا ہے ؛ مثال کے طور پر سدھارتھ گوتم بدھ مت اور دیگر مذاہب کی ابتدا کرنے والے، گوتم بدھ کے بارے میں بعض علما کا خیال ہے کہ یہ پیغمبر ذو الکفل علیہ السلام (الانبیاء آیت 85) کی جانب اشارہ ہے اور kifl اصل میں سنسکرت کے لفظ (Kapilavastu) کو تشبیہ ہے، گو یہ خیال سنی اور شیعہ کے علاوہ خود بدھ مذہب والوں میں بھی پایا جاتا ہے لیکن چونکہ گوتم بدھ کا نام براہ راست قرآن میں نہیں آتا اس لیے متعدد علما اس وضاحت کو تسلیم نہیں کرتے۔ قرآن کی رو سے یہ تمام اشخاص خدا کی طرف سے وہی پیغام اپنی اپنی امت میں لائے تھے کہ جو آخری بار قرآن لایا، مگر ان میں تحریف پیدا ہو گئی۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار کی تعداد کے بارے میں متعدد نظریات دیکھنے میں آتے ہیں اور بہت سے علما کے نزدیک یہ عدد کوئی معین یا ناقابل ترمیم نہیں ہے شریعت اور اسلامی فقہ اسلامی قانون قرآن ، احادیث نبوی، صالحین |
ur_Arab | کے اقوال یا شیعوں کی رائے میں اہل بیت اور اسلامی مذہبی علماء کی فقہ کے ذریعہ نافذ کردہ قوانین کا مجموعہ ہے، جو انسان کی تعریف کرتا ہے۔ خدا، لوگوں، معاشرے اور کائنات کے ساتھ تعلق کی وضاحت کرتا ہے کہ کیا کیا جا سکتا ہے اور کیا نہیں کیا جا سکتا۔ ان قوانین میں سب سے اہم اسلام کے پانچ ستون ہیں۔ اسلامی قانون میں شامل دفعات کو تین اہم حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: عقائدی احکام : ان میں خدا کی ذات، صفات اور اس پر ایمان سے متعلق تمام احکام شامل ہیں جنہیں الوہیت کہا جاتا ہے، ان احکام میں رسولوں سے متعلق تمام احکام، ان پر ایمان اور ان پر نازل ہونے والی کتابیں بھی شامل ہیں۔ اور اسی طرح، جو پیشین گوئی کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ نظریاتی احکام ایک سائنس کے ذریعہ متحد ہیں جسے " توحید کی سائنس " یا " سائنس آف تقریر " کہا جاتا ہے الاحکام التہبیب : یہ وہ احکام ہیں جو نیکی اور برائی کو ترک کرنے کی دعوت دیتے ہیں، ان فضائل کی وضاحت سے متعلق احکام ہیں جن کا انسان میں ہونا ضروری ہے، جیسے کہ دیانت، دیانت، ہمت، وفاداری، صبر وغیرہ۔ خیانت وغیرہ، اور یہ نظم و ضبط کے احکام ایک سائنس کے ذریعہ متحد ہیں جسے " اخلاقیات کی سائنس " یا " تصوف کی سائنس " کہا جاتا ہے۔ عملی احکام : یہ وہ احکام ہیں جن کا تعلق انسانی عمل یا انسانی عمل سے ہے۔یہ احکام اسلامی فقہ میں زیر مطالعہ ہیں۔ اسلام پسند اسلامی قانون کے مطابق ملک پر حکمرانی اور نظم و نسق کی ضرورت کو دیکھتے ہیں، اور اس کا اطلاق مسلمانوں اور ان کے زیرِ حراست افراد پر ہوتا ہے ، جیسے کہ ذمّہ کے لوگ، عہد اور امانت دار۔ وہ اس مسلمان پر حد کے نام سے جانے والی سزا کو نافذ کرنے کی ضرورت کو بھی دیکھتے ہیں جو شریعت کی حدود سے تجاوز کرتا ہے اور جس چیز سے منع کرتا ہے اس کا ارتکاب کرتا ہے ۔ جیسے کسی عورت پر بغیر ثبوت کے زنا کا الزام لگانا، یا کسی بے گناہ پر غیرت یا بہادری کو متاثر کرنے والے الزامات کا الزام لگانا۔ ، جیسے چوری اور بغیر ثبوت کے اعتماد کی خلاف ورزی، شراب پینا ، چوری ، بدکاری ، لڑائی ، قتل ، اور ارتداد ۔ کسی شخص پر عائد کی گئی سزا اس کے ارتکاب کے مطابق مختلف ہوتی ہے۔ اسلامی شریعت کو یکے بعد دیگرے اسلامی ممالک میں بنیادی قانون کے طور پر لاگو کیا گیا، لیکن آج چند ممالک اسے ریاست کے واحد قانون کے |
ur_Arab | طور پر لاگو کرتے ہیں، یعنی سعودی عرب، جو کہ سلفی طریقہ کار پر شریعت کا اطلاق کرتا ہے، ایران بارہ کے طریقہ کار پر، اور صومالیہ۔ اسلامی عدالتوں اور مجاہدین یوتھ موومنٹ کے زیر کنٹرول علاقوں میں نصاب سے دو مختلف طریقوں پر سنی۔ جب کہ دوسرے ممالک اسے اپنے قانونی قوانین کے علاوہ لاگو کرتے ہیں، دوسرے اسے صرف ذاتی حیثیت کے معاملات میں لاگو کرتے ہیں۔ جہاں تک اسلامی فقہ کا تعلق ہے تو یہ ان عملی شرعی احکام کا علم ہے جو تفصیلی شواہد سے اخذ کیے گئے ہیں، اور یہاں سے مراد فہم ہے، اور عملی شرعی احکام میں قانون دینے والے کے خطوط ہیں جو اعمال و افعال سے متعلق ہر چیز کو ترتیب دیتے ہیں۔ بندوں میں سے، اور قیاس سے مراد وہ ہے جو ثبوت سے لیا گیا ہو، اور تفصیلی شواہد سے کیا مراد ہے: قرآن ، سنت رسول ، شرعی علماء کا اجماع اور قیاس پر مبنی ہے۔ پہلے سے معلوم معاملات، مروجہ رواج، منظوری ، اور دیگر ثبوت یا اسلامی فقہ کے ذرائع۔ اسلامی فقہ کو کئی اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے جن کی تعریف اور شمار میں فقہاء کا اختلاف ہے، لیکن انہیں چار بنیادی اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: عبادات : یہ وہ احکام ہیں جو انسان کے رب کے ساتھ تعلق کو منظم کرتے ہیں، جیسے نماز ، زکوٰۃ ، روزہ ، حج ، جہاد ، نذر وغیرہ۔ لین دین : یہ وہ رشتے ہیں جو کسی فرد کے اس کے انفرادی بھائی کے ساتھ تعلقات کو منظم کرتے ہیں، جیسے کہ انسان کے بنائے ہوئے معاہدوں سے متعلق دفعات جیسے فروخت کا معاہدہ، لیز، قرض، امن، تحفہ، جمع، قرض، ضمانت، اور دیگر معاہدے شرعی سیاست : یہ وہ دفعات ہیں جو افراد یا دیگر ممالک کے ساتھ ریاست کے تعلقات کو منظم کرتی ہیں۔ ان کی مثالیں وہ دفعات ہیں جو خزانے کے وسائل اور اس کے جائز اخراجات کے بارے میں بات کرتی ہیں، ان دفعات کے علاوہ جو عدلیہ کے بارے میں بات کرتی ہیں، اور وہ دفعات جو جرائم اور سزاؤں کو ظاہر کرتی ہیں، چاہے وہ حدود ہوں یا کمک۔ خاندانی دفعات : اس قسم میں ایسی دفعات شامل ہیں جو شادی، طلاق ، بچوں کے حقوق، وراثت ، وصیت ، اور دیگر چیزوں کو منظم کرتی ہیں جنہیں اصطلاح "ذاتی حیثیتوں" کہا جاتا ہے۔ یہ دفعات وہ ہیں جو ذاتی حیثیت کے قوانین میں شامل ہیں۔ اسلامی قانون سازی |
ur_Arab | کے ذرائع 1۔ قرآن : یہ خدا کی طرف سے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے، اور یہ قانون سازی کا پہلا ذریعہ ہے، اور یہ وہی ہے جو اس کا لفظ اور معنی خدا کی طرف سے عربی الفاظ میں پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے، اور خدا نے اس کی حفاظت کا عہد کیا ہے۔ یہ تبدیلی اور تحریف سے۔ جدید دور میں، ایک اقلیت نمودار ہوئی جو کہتی ہے کہ قرآن اسلامی قانون کا واحد ماخذ ہے، وہ بعد میں قرآن پرست کہلانے لگے۔ اور مسلمانوں کے لیے، قرآن پہلی قانون سازی کی اصل اور بنیاد ہے، اور یہ شریعت کی بنیادیں اور اس کی خصوصیات کو عقائد، عبادات اور لین دین میں، تفصیلات اور خلاصوں کے درمیان دکھا سکتا ہے۔ اور قرآن، شرعی علما کے نزدیک، قطعی ہے، جہاں تک احکام کی طرف اشارہ ہے، یہ قطعی یا مفروضہ ہو سکتا ہے، اور یہ اس صورت میں قطعی ہے کہ جس الفاظ میں حکم کا صرف ایک معنی ہو۔ 2. سنت نبوی : قرآن کہتا ہے کہ رسول محمد بن عبداللہ کے احکامات پر عمل کرنا واجب ہے، اور اسلامی علماء کہتے ہیں کہ رسول کی پیروی سنت نبوی کی پیروی پر مشتمل ہے، جو کہ ہر قول، فعل یا رپورٹ کو جاری کیا گیا ہے۔ رسالت اسلامی قانون سازی کا دوسرا ذریعہ ہے ، اور علماء نے سنت نبوی کو کتابوں کے ایک گروپ میں جمع کیا ہے جیسے کہ صحیح البخاری ، صحیح مسلم ، اور حدیث کی دیگر کتب۔ سنت کو اس کی سند کے مطابق، یعنی اس کی روایت کو احناف کے نزدیک تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: متواتر سنت، مشہور سنت اور واحد سنت۔ جہاں تک متواتر سنت کا تعلق ہے تو یہ وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کی ایک جماعت نے نقل کی ہے جن کی ملی بھگت سے جھوٹ بولنا عموماً ناممکن ہوتا ہے اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ معروف سنت وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی گئی ہو، ایک یا دو، یا صحابہ کی ایک جماعت جو تعدد کی حد کو نہ پہنچی ہو، اور عام طور پر جھوٹ بولنے میں ان کی ملی بھگت کو روکتی نہیں، پھر اسے روایت کیا گیا۔ ان کی طرف سے پیروکاروں کے ایک گروہ نے جن کی ملی بھگت سے جھوٹ بولنا ناممکن ہے، پھر اسے پیروکاروں کے ایک گروہ نے روایت کیا جن کا عام طور پر جھوٹ بولنے پر اتفاق کرنا ناممکن ہے۔ یکطرفہ سنت وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ |
ur_Arab | وسلم سے ایک یا دو نے روایت کی ہو، یا صحابہ کی ایک جماعت جو تعدد کی حد کو نہ پہنچی ہو، اور یہ عام طور پر جھوٹ بولنے میں ان کی ملی بھگت سے نہیں روکتی، پھر اسے پیروکاروں کے ایک گروہ نے روایت کیا ۔ تابعین کے پیروکار جو تعدد کی حد کو بھی نہیں پہنچے اور احادیث واحد کی سند پر اہل سنت میں اختلاف ہے، اس لیے وہ دیکھتا ہے کہ مخاطبین احادیث کو ایمان کے معاملے میں مدنظر نہیں رکھتے، جب کہ علماء کرام شافعی اور احمد بن حنبل سمیت احادیث اور آثار قدیمہ کے ، دیکھیں کہ وہ مستند ہیں۔ 4. اجماع : یہ کسی خاص مسئلے کے حکم پر اہل علم کے ایک عظیم اجتماع کا اجماع ہے جو اس میں موجود نصوص سے دلیل ہے۔ اجماع اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک کہ درج ذیل امور حاصل نہ ہو جائیں: یہ کہ حکم کا اتفاق مجتہدوں کے درمیان ہے جو اہل سنت کے درمیان اجتہاد کے درجے کو پہنچ چکے ہیں، اور شیعوں کے درمیان ائمہ کے بارے میں، اور اسی وجہ سے دوسروں کا اتفاق ہے۔ عام لوگوں میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اسی طرح تمام مجتہدوں کا متفق ہونا ضروری ہے، اس لیے ان میں سے کوئی بھی انحراف نہیں کرتا، اور اگر ان میں سے کوئی اختلاف کرے تو صحیح ترین قول کے مطابق اجماع نہیں ہوتا۔ نیز مجتہدوں کا امت محمدیہ میں سے ہونا ضروری ہے، اس لیے اس امت کے علاوہ کسی اور کے مجتہد کے معاہدے کا کوئی لحاظ نہیں ہے، اور مجتہدوں کا معاہدہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہونا چاہیے، کیونکہ ان کی زندگی میں کوئی اتفاق رائے نہیں تھا کیونکہ ان کے دور میں قانون سازی کے ذرائع صرف قرآن و سنت تک محدود تھے۔ آخر میں، قانونی حکم پر اتفاق اجتہاد کے ساتھ مشروط ہونا چاہیے، جیسے کہ کسی چیز کے واجب، حرام، مستحب، وغیرہ پر اتفاق۔ اجماع کی دو قسمیں ہیں: صریح اجماع، جو کہ زمانے کے مجتہد کسی خاص واقعہ کے شرعی حکم پر متفق ہو جائیں اور ان میں سے ہر ایک اپنی رائے کا اظہار واضح طور پر کرے، اور خاموش اجماع، جو کہ اس وقت ہوتا ہے۔ کسی زمانے میں بعض مجتہد کسی خاص واقعہ کے متعلق شرعی حکم کی بات کرتے ہیں اور باقی مجتہدوں کو اس کے بارے میں علم ہوتا ہے اسی زمانے میں بغیر اظہار منظوری یا اختلاف کے خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ 5۔ قیاس |
ur_Arab | : یہ ایک ایسے حکم کو شامل کرنا ہے جس کا حکم قرآن، سنت یا اجماع میں متعین نہیں ہے، کسی دوسرے معاملے میں جس کا حکم قرآن، سنت یا اجماع میں متعین ہے، کیونکہ یہ دونوں مشترک ہیں۔ حکم کی وجہ. مشابہت کی ایک مثال شراب کی حرمت کے ساتھ مشابہت سے شراب کی حرمت ہے جیسا کہ سورۃ المائدۃ میں مذکور ہے کہ شراب کا حکم حرمت ہے اور اس کی حرمت کی وجہ نشہ ہے، اور یہی وجہ شراب میں بھی موجود ہے، اس لیے علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے شراب کا شرعی حکم ہے۔ 6۔ اجتہاد : یہ کسی عالم یا علماء کی جماعت کی رضامندی سے کسی ایسے مسئلہ کا حکم اخذ کرنا ہے جس میں کوئی خاص عبارت نہ ہو۔ جیسے ٹیکنالوجی کی جدید چیزیں اور دیگر۔ سائنسدانوں نے مستعدی کے حقداروں کے لیے شرائط رکھی ہیں۔ فقہ کے بڑے مکاتب فقہی مکاتب فکر میں یہ شامل ہے کہ انفرادی کیا ہے اور کیا اجتماعی ہے، اور انفرادی عقائد سے مراد وہ عقائد ہیں جو کسی ایک مجتہد یا فقیہ کے اقوال اور اقوال سے تشکیل پاتے ہیں، اور ان عقائد کے پیروکار اور طلبہ نہیں ہوتے تھے جو ان کو مرتب کرتے اور شائع کرتے، لہذا وہ مکمل طور پر بعد کی عمروں میں منتقل نہیں ہوئے تھے۔ جہاں تک فقہ کے اجتماعی مکاتب فکر کا تعلق ہے تو اس سے مراد وہ مکاتب ہیں جو مجتہد ائمہ کے اقوال و اقوال کے علاوہ ان کے شاگردوں اور پیروکاروں کی آراء سے تشکیل پاتے ہیں۔ فقہ کے سب سے مشہور مکاتب فکر میں سے چار مشہور مکاتب فکر ہیں، جو کہ تاریخی ترتیب کے مطابق ہیں: حنفی مکتبہ فکر مکتبہ مالکی ، شافعی مکتب فکر، مکتب حنبلی فکر کا ، اور ظاہر مکتبہ فکر ۔ حنفی مکتبہ فکر اس مکتبہ فکر کے مالک امام ابو حنیفہ النعمان بن ثابت ہیں، جنہیں فارسی نژاد "سب سے بڑا امام" کہا جاتا ہے۔ وہ سنہ 80 ہجری کے مطابق 699 ء میں کوفہ میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے اور 150 ہجری کے مطابق 767ء میں بغداد میں وفات پائی۔ بعض مؤرخین اور علماء کا کہنا ہے کہ ابو حنیفہ کو " پیروی " میں شمار کیا جاتا ہے، یعنی اس نسل سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض |
ur_Arab | صحابہ کے ساتھ رہی، کیونکہ انہوں نے ذاتی طور پر انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کچھ احادیث نقل کی ہیں، دیگر صحابہ کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ. جب کہ دوسرے مورخین کا کہنا ہے کہ وہ "پیروکاروں کے پیروکاروں" میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ ابوحنیفہ کے فقہی نقطہ نظر کی بنیاد قرآن کو اپنانا، پھر صحیح سنت نبوی ، خلفائے راشدین اور عام صحابہ کے احکام کو اپنانا اور پھر تشبیہ کا سہارا لینا ہے۔ لیکن اس نے پیروکاروں کے خیالات کی پابندی نہیں کی، "وہ مرد ہیں اور ہم مرد ہیں،" وہ کہتے ہیں۔ ابوحنیفہ حدیث کے معاملے میں انتہائی سخت تھے، اس لیے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حدیث کو اس وقت تک قبول نہیں کرتے تھے جب تک کہ اسے کسی گروہ کی طرف سے روایت نہ کیا جائے۔ یا وہ حدیث تھی جس پر علاقوں کے فقہاء نے عمل کرنے کا اتفاق کیا۔ یا کسی صحابی نے ان کی ایک مجلس میں اسے روایت کیا اور کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیا۔ وہ ٹوٹی پھوٹی احادیث اور واحد احادیث کو بھی رد کرتے تھے اور متواتر حدیث میں یہ شرط لگاتے تھے کہ راوی اس کے راوی کو جانتا ہے، اس کے ساتھ رہتا ہے اور اس کی ثقہ کا یقین رکھتا ہے۔ مجموعی طور پر، ابوحنیفہ نے غیر معتبر حدیث پر تشبیہ کو ترجیح دی، اور ایک دوسرے کے خلاف ناپی جانے والے مسائل کے درمیان مشترک سبب کو اخذ کرنے کے لیے رائے کے استعمال کو وسعت دی۔ ابوحنیفہ ان اصولوں کو مدنظر رکھتے تھے جو کسی بھی قانونی نصوص سے متصادم نہ ہوں اور ان پر عمل کرنے کا پابند ہو، خاص طور پر تجارت کے شعبے میں جس کا انہیں وسیع تجربہ تھا۔ چنانچہ ابوحنیفہ کی فقہ کے بارے میں کہا گیا کہ وہ ’’زندگی کے ساتھ چلتے ہیں اور اس کے مختلف مسائل کو مدنظر رکھتے ہیں‘‘۔ مالکی مکتبہ فکر اس مکتبہ فکر کے امام مالک بن انس ہیں، جنہیں " شیخ اسلام " اور " حجۃ الجماعۃ" کا لقب دیا جاتا ہے۔ اور ان کی وفات سنہ 179 ہجری کے مطابق 795ء میں ہوئی۔ ملک کے لیے قانون سازی کی بنیاد قرآن اور سنت نبوی ہے۔ شہر میں بہت سے بولنے والے تھے اور وہ ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ تاہم، مالک نے تشبیہ کو رد نہیں کیا، یعنی ان سے ان کے مشابہات پر احکام وضع کرنا جن پر اہل مدینہ متفق تھے، اور خلفائے راشد |
ur_Arab | ین اور باقی صحابہ کے فتاویٰ کا اثر، بشرطیکہ اس میں تضاد نہ ہو۔ ایک دلچسپی جو شریعت کے مقاصد سے ہم آہنگ ہو۔ ملک نے مرسل مفادات یا "نظر ثانی" کے اصول کو کہا جو "منظوری" کے اصول کے قریب ہے۔ اس میں یہ بھی شرط ہے کہ یہ مفادات شریعت کے مقاصد اور اصولوں سے ہم آہنگ ہیں۔ تجدید سے مراد ایک ایسے واقعے میں فیصلے کا نفاذ ہے جس میں کوئی متن یا اتفاق نہ ہو، ایک بھیجے گئے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے جو کہ اس کے اثبات یا تردید کی نشاندہی کرنے والے متن کے ذریعہ محدود نہیں ہے، لہذا یہ اس طرح ایک متبادل ہے۔ قیاس اس صورت میں کہ مؤخر الذکر اس کے خلاف ماپا جانے والے اصل فیصلے کے کھو جانے کی وجہ سے ناممکن ہے۔ اور مالک نے اہل مدینہ کے کام کو ایک قانون سازی کی دلیل سمجھا جو خبر اور تشبیہ سے پہلے ہے۔ اور جب اس کے لیے کوئی مشکل پیش آتی تھی تو وہ agnosticism کی بات کرتا تھا تاکہ حرام چیزوں میں نہ پڑ جائے۔ اس کی بے باکی نے اسے بعض اوقات حکام کے ساتھ جھڑپوں تک پہنچایا۔ فرمایا: مجبور کرنے والے کی بیعت نہیں ہے۔ خلیفہ ابو جعفر المنصور نے ان الفاظ کو اپنی خلافت پر حملہ سمجھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عارضی شادی قانونی نہیں ہے، اس لیے بعض عباسی اس کے مخالف تھے۔ مالکی مکتب کے پیروکار اپنی نماز میں باقی اسلامی مکاتب فکر کے پیروکاروں سے کھڑے ہونے اور ہاتھوں کی پوزیشن کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ شافعی مکتبہ فکر اس مکتبہ فکر کے بانی امام محمد ابن ادریس الشافعی ہیں، وہ غزہ میں سنہ 767 عیسوی میں پیدا ہوئے سنہ 150 ہجری کے مطابق اور سن 204 ہجری کے مطابق سن 820 عیسوی میں وفات پائی۔ . وہ مدینہ میں امام مالک کے ساتھ رہے اور کتاب الموطہ حفظ کر لی، اس لیے وہ بغداد میں "ناصر الحدیث" کے نام سے مشہور ہوئے۔ اس نے عراق کے ائمہ مثلاً امام الشیبانی کی بھی پیروی کی اور ان سے فقہ کی تعلیم حاصل کی، پھر اس نے مصر کا سفر کیا، اور وہاں ان کا عقیدہ پھیل گیا، اور وہ "دو مکاتب کے مالک" کے طور پر جانے جاتے تھے۔ شافعی کے نزدیک قانون سازی کی بنیاد قرآن و سنت ہے۔ حدیث کا متواتر ہونا ضروری نہیں۔ بلکہ وہ واحد لوگوں کی احادیث کو قبول کرتا ہے، بشر |
ur_Arab | طیکہ راوی سچے اور معتبر ہوں، جس طرح شافعی صحابہ اور اہل مدینہ کے اجماع کو قبول کرتے ہیں، لیکن وہ تمام خطوں کے علماء کے اجماع کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ ملک کے اتحاد اور مفاد کا زیادہ ضامن ہے اور اسی کو توسیعی اتفاق رائے کہا جا سکتا ہے۔ پھر قیاس آتا ہے، پھر اجتہاد، اگر قیاس پر مبنی ہو۔ لہذا، الشافعی نے اس منظوری سے انکار کیا جو تشبیہ سے بالاتر ہے اور اس وجہ سے موضوعی عنصر سے متاثر ہے۔ بلکہ، وہ منظوری کے مقابلے میں مشابہت کو ترجیح دیتا ہے، کیونکہ یہ اس کی اصل یا اجماع کی بنیاد پر پچھلے احکام کو اپنانے کی وجہ سے احکام کی قانونی حیثیت کی زیادہ ضمانت ہے۔ اصل کی طرف لوٹنا جائز انصاف کے حصول کے لیے زیادہ ہے۔ شافعی اپنی نماز کی شکل میں باقی فرقوں سے کچھ معاملات میں مختلف ہیں، جیسے کھڑے ہونے اور رکوع کے وقت ہاتھوں کی پوزیشن، اور شہادت کی انگلی کو سلام تک اٹھائے رکھنا۔ حنبلی مکتبہ فکر اس مکتبہ فکر کے مالک امام احمد بن حنبل ہیں، وہ سنہ 780 ہجری بمطابق 164 ہجری میں بغداد میں پیدا ہوئے اور وہیں سنہ 12 ربیع الاول کو وفات پائی۔ 855ء سال 241 ہجری کی مناسبت سے۔ وہ شافعی کا شاگرد ہے۔ اس نے بات کرنے کا رجحان لیا. وہ عباسی دور میں پیدا ہوا اور زندہ رہا، جس میں بہت زیادہ زبانی اور فقہی تنازعہ تھا، اور اس نے اس تنازعہ میں قانونی سچائی سے انحراف دیکھا۔ اور احادیث کی تالیفات نے من گھڑت رجحان کو ختم کر دیا تھا، اس لیے حدیث پر بھروسہ ایک ضامن معاملہ بن گیا۔ چنانچہ احمد بن حنبل نے ان پر بھروسہ کیا، اور ان کا عقیدہ قدامت پسند کے طور پر جانا جاتا تھا۔ احمد بن حنبل نے حدیث پر انحصار کیا اور اسے قرآن کے بعد قانون سازی کے لیے عام طور پر کافی سمجھا۔ اس سے صحابہ کرام خصوصاً خلفائے راشدین کے فتاویٰ بھی مراد ہیں، بشرطیکہ وہ کسی حدیث کے منافی نہ ہوں۔ اور وہ حدیث جو ضعیف زنجیروں کے ساتھ منقطع ہو چکی ہو، احادیث احادیث اور قیاس سے منقطع حدیث پیش کرتے تھے۔ وہ شاذ و نادر کے علاوہ تشبیہ کا سہارا نہیں لیتے، اس لیے ان میں سے بعض نے اسے حدیث کا آدمی سمجھا، فقہ کا آدمی نہیں۔ جعفری مکتبہ فکر اس مکتب فکر |
ur_Arab | کے سربراہ امام جعفر بن محمد الصادق ہیں۔ آپ 80 ہجری کے مطابق 702ء میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور وہیں سن 148 ہجری کے مطابق 765ء میں وفات پائی اور البقیع میں دفن ہوئے۔ وہ مذہبی علوم میں دلچسپی کے علاوہ فلسفہ میں بھی دلچسپی رکھتے تھے اور وہ ایک ممتاز فقہی حوالہ تھے۔ ان کی مجلس میں ابو حنیفہ اور مالک جیسے بزرگ علماء نے شرکت کی، اور وہ بارہ اماموں کے سلسلے میں چھٹے امام ہیں۔ امام جعفر الصادق کا مستعد طریقہ کار بنیادی معاملات میں سنی علماء کے طریقہ کار سے ملتا جلتا ہے۔ تاہم، وہ اس میں شیعوں کے لیے ایک ضروری امر کا اضافہ کرتے ہیں، جو کہ امامت کا عقیدہ ہے اور اس کے نتیجے میں صحابہ کی تشخیص، ان کے فتاویٰ، ان کی احادیث اور اہل بیت کے بارے میں ان کے موقف کے مطابق ان کی تشریحات ہیں۔ یہ امامت کے شیعہ تصور سے امام کی عصمت کہنے کی پیروی کرتا ہے۔ امام کی فقہ اپیل کے تابع نہیں تھی، کیونکہ وہ غلطی، بھول اور نافرمانی سے عاری تھے۔ بلکہ اس کے اقوال اور فقہ سنت کے دائرے میں آتے ہیں۔ ہر فرد کے لیے قرآن کے چھپے ہوئے معانی کو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ بلکہ یہ معاملہ صرف ائمہ کا ہے، کیونکہ ان کی فقہ شریعت کے مقاصد سے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ مطابقت رکھتی ہے۔ شیعہ قیاس کے معاملے میں بہت سخت ہیں، اس لیے قیاس اس وقت تک قبول نہیں کیا جاتا جب تک کہ اس کے خلاف فیصلہ کسی مقررہ وجہ سے درست نہ ہو۔ جہاں تک قیاس کا تعلق ہے جس میں کوئی دلیل نہ ہو تو وہ رائے بن جاتی ہے اور فقہ رائے کے اعتبار سے رد ہو جاتی ہے کیونکہ یہ ایک انسانی فعل ہے جس کی کوئی قانونی ضمانت نہیں ہے۔ جعفری فقہ کو متفقہ طور پر لیا جاتا ہے، بشرطیکہ اسے شیعہ ائمہ نے جاری کیا ہو۔ جہاں تک عام صحابہ کا اجماع ہے تو یہ اس وقت تک دلیل نہیں ہے جب تک کہ شیعوں کے پہلے امام علی بن ابی طالب اس کے فریق نہ ہوں۔ اجماع معصوم اماموں کا حق ہے، لیکن عام اجماع کو رد کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ قانونی ضمانت بھی نہیں دیتا۔ اس کے علاوہ، مسلمانوں کے مفاد کو محفوظ بنانے کے لیے جب قرآن و سنت یا ائمہ کا اجماع نہ ہو تو خالص عقل کی کوشش کرنا اور اس کا سہارا لینا ضروری ہے۔ لیکن مستعدی تمام لوگوں کے لیے نہیں ہے، یہ سب سے پہلے معصوم اماموں کے لیے |
ur_Arab | ہے اور پھر نیک محنتی علماء کے لیے، بشرطیکہ وہ اپنی مستعدی سے اس بات کے خلاف نہ ہوں جس کے ساتھ معصوم امام آئے تھے۔ اور اگر مجتہد اپنی غلطی کو درست کرنے اور قوم کو صراط مستقیم پر رکھنے کے لیے غلطی کریں تو امام پیش ہونے کے لیے تیار ہے۔ دوسرے عقائد مذکورہ بالا پانچ مکاتب فکر کو سب سے زیادہ پھیلے ہوئے اسلامی مکاتب فکر میں شمار کیا جاتا ہے اور ان کے علاوہ چند دوسرے مکاتب فکر بھی ہیں جو کم پھیلے ہوئے ہیں اور ختم ہو چکے ہیں۔ ان فرقوں میں سے: زیدی فرقہ اور ادارہ امام زید بن علی زین العابدین بن الحسین بن علی بن ابی طالب جو سنہ 80 ہجری میں پیدا ہوئے اور سنہ 122 ہجری میں قتل ہوئے۔ زیدی مکتبہ فقہ اپنے فقہی احکام میں اہل سنت کے مکاتب فکر بالخصوص حنفی مکاتب فکر کے قریب ہے اور اس قربت کی وجہ زید کا عراق کے فقہاء کے ساتھ رابطہ ہے اور اس نے انہیں ان سے لیا اور انہوں نے انہیں ان سے لیا خاص طور پر مکتب فکر کے امام ابو حنیفہ النعمان ۔ قرآن کو زیدیوں کے لیے احکام کی تخفیف کا پہلا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، اس کے بعد سنت نبوی کی امامت ہے۔ انہوں نے رائے کے اعتبار سے مستعدی پر بھی بھروسہ کیا اور ان کے اصولوں میں سے ایک اصول ائمہ میں مستعدی کا تقاضا ہے اور وہ مسلمانوں پر مستعدی کو واجب قرار دیتے ہیں۔ زید کی سب سے مشہور کتابوں میں سے: کتاب المجموۃ الفقہی الکبیر اور کتاب الجماعۃ والقلعۃ ۔ عبادی مکتبہ فکر اور اس کے بانی امام جابر بن زید العزدی بھی ہیں اور یہ مکتب اہل سنت کے عقائد کے قریب ہے اور اس کے ائمہ کے ماخذ اہل سنت کے منابع سے احکام اخذ کرنے میں شاید ہی مختلف ہوں۔ عام طور پر مکاتب فکر، اور اسی وجہ سے ان میں اور اہل سنت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے سوائے بعض احکام کے جن میں وارث کو وصیت کی اجازت شامل ہے۔ اس کے علاوہ تین صورتیں ہیں جن میں ان کا قول ہے۔ آخرت کے بارے میں خدا کی نظر کو جھٹلانے کا مسئلہ، یہ کہنا کہ قرآن کو تخلیق کیا گیا ہے ، اور فاسق کے لیے جہنم میں ہمیشہ رہنے پر یقین کرنا اگر وہ توبہ نہیں کرتا ہے۔ یہ سب مصنف کی ناقابل تردید کتاب احمد بن حمد الخلیلی میں واضح ہو چکا ہے۔ امام د |
ur_Arab | اؤد بن علی بن خلف الاصفہانی کی طرف سے قائم کردہ ظہری مکتب بھی ہے، جو احکام اخذ کرنے میں کتاب و سنت کے نصوص کے مظاہر پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے داؤد الظہری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ الظہری شروع میں ایک شافعی مکتبہ فکر تھا لیکن اس کے بعد اس نے اپنے لیے ایک خاص مکتبہ فکر اختیار کیا جس میں اس نے نصوص کے مظاہر کو لیا اور تشبیہ کا انکار کیا جب تک کہ وجہ بیان نہ کی جائے اور یہ وجہ شاخ میں پائی گئی۔ . بعد میں ایک اور عالم پیدا ہوا جس نے اس عقیدہ کو مرتب کیا، اسے پھیلایا اور اس کی وضاحت کی، تو اس نے اسے ظاہری مکتب فکر کا دوسرا بانی کہا، اور یہ امام ابن حزم الاندلسی ہیں۔ اخذ کردہ احکام میں مجازی نظریے کی ابتداء قرآن اور پھر سنت نبوی ہے، اور یہ نظریہ سنت، پھر اجماع، لیکن اجماع کے تصور کے ساتھ کام کرنے میں سب سے زیادہ وسیع عقائد میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ ظاہری دوسروں کے بغیر صرف صحابہ کے اجماع تک محدود تھا اور مجازی عقیدہ نے مشابہت نہیں لی اور اس کے ساتھ کام کرنے اور رائے کا انکار کیا سوائے ضرورت کے اس صورت میں جب نصوص اس کی مدد نہیں کرتی تھیں اور اسے قیاس یا ثبوت کہا جاتا تھا۔ نہ اس نے منظوری لی، نہ حیلے بہانوں سے روکا، نہ بھیجے گئے مفادات۔ امام الظہری کی بہت سی تصانیف ہیں جن میں شامل ہیں: کتاب ابطلال قیاس اور کتاب ابتال الاقلاد۔ جن فرقوں کا زندہ رہنا مقدر میں نہیں تھا ان میں الاوزائی مکتبہ بھی شامل ہے، جس کی بنیاد امام ابو عمرو عبدالرحمٰن بن عمرو بن یحمد الاوزاعی کے ہاتھوں رکھی گئی تھی، جو لبنان کے شہر بعلبیک میں پیدا ہوئے تھے۔ سنہ 707 عیسوی میں، سن 88 ہجری کے مطابق، اور جو 157 ہجری کے مطابق سن 774 عیسوی میں بیروت میں فوت ہوئے۔ الاوزاعی ان اہم ترین فقہاء میں سے ایک تھے جنہوں نے شام اور اندلس میں اسلامی فقہ کو خاص طور پر متاثر کیا، کیونکہ دمشق اور آس پاس کے ملک کے لوگ تقریباً دو سو بیس سال تک ان کے عقیدہ پر قائم رہے۔ پھر اس کا نظریہ اندلس منتقل ہوا اور وہاں ایک مدت تک پھیل گیا، پھر اس کے معاملات لیونٹ میں |
ur_Arab | شافعی مکتب فکر کے سامنے کمزور پڑ گئے اور اندلس میں ملک مکتبہ فکر کے سامنے بھی کمزور پڑ گئے، جس کے حامی اور طلباء مل گئے۔ اندلس میں، جب کہ الاوزاعی کے اسکول کو حامی اور طلباء نہیں ملے۔ امام لیث بن سعد المصری کے عقیدہ کا بھی یہی حال تھا۔ اسلامی معاشرہ پھیلاؤ دو سو بتیس ممالک اور خطوں کے 2009 کے ایک جامع مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی کل آبادی کا 23%، یا تقریباً 1.6 بلین لوگ مذہب اسلام کو قبول کرتے ہیں۔ سنی فرقے کو ماننے والوں کی شرح 87% اور 90% کے درمیان ہے، اور شیعہ فرقے کے ماننے والوں کی حد 10% اور 13% کے درمیان ہے، باقی کے لیے۔ فرقوں، وہ لوگوں کی ایک اقلیت کی طرف سے قبول کر رہے ہیں. یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیا کے تقریباً 50 ممالک میں مسلمانوں کی آبادی کی اکثریت ہے، اور یہ کہ عرب دنیا کے مسلمانوں کا 20% ہیں۔ زیادہ تر مسلمان براعظم افریقہ اور ایشیا میں رہتے ہیں، اور ان میں سے تقریباً 62% آخری براعظم میں رہتے ہیں، جہاں انڈونیشیا ، پاکستان ، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں 683 ملین سے زیادہ مسلمان آباد ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں، ترکی اور ایران دو سب سے بڑے غیر عرب ممالک ہیں جن کی آبادی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ افریقہ میں مصر اور نائیجیریا سب سے بڑے اسلامی ممالک ہیں۔ 73% مسلمان مسلم اکثریتی ممالک میں رہتے ہیں جبکہ 27% مذہبی اقلیتوں کے مقابلے میں۔ ہندوستان میں مسلم اقلیت دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیت ہے، جو کل آبادی کا 14% (یعنی؛ 176 ملین افراد) بنتی ہے۔ اکثر ماہرین کا کہنا ہے کہ عوامی جمہوریہ چین میں مسلمانوں کی تعداد 20 سے 30 ملین کے درمیان ہے (کل آبادی کا 1.5% اور 2% کے درمیان)۔ تاہم اسٹیٹ یونیورسٹی کے مردم شماری مرکز کی طرف سے یو ایس کو فراہم کردہ ڈیٹا چین مسلمانوں کی تعداد 65.3 ملین تک پہنچ گئی ہے۔ ترکی کے علاوہ پورے یورپ میں مسلمانوں کی تعداد 44 ملین تک پہنچ گئی ہے جو کہ یورپ کی کل آبادی کا تقریباً 6% ۔ زیادہ تر یورپی ممالک میں اسلام کو عیسائیت کے بعد دوسرا سب سے زیادہ پھیلایا جانے والا مذہب سمجھا جاتا ہے، اور امریکہ (4.2 ملین یا کل آبادی کا 1.1%) میں اسی مقام پر قابض ہونے کے راستے پر ہے، جہاں امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد صرف، بعض ذرائع کے مطابق 2,454,000 اور 7 ملین کے درمیان ہے۔ 2015 میں پیو ریسرچ سینٹر کی طرف |
ur_Arab | سے شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، اسلام دنیا میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا بڑا مذہبی گروہ ہے، جس کی بنیادی وجہ "مسلمانوں کی کم عمر اور دیگر مذہبی گروہوں کے مقابلے میں مسلمانوں میں زرخیزی کی شرح زیادہ ہے۔ نتیجے کے طور پر، یہ توقع کی جاتی ہے کہ 21 ویں صدی کے آخر تک عیسائیت کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔ مطالعہ نوٹ کرتا ہے کہ مذہب کی تبدیلی کا مسلمانوں کی آبادی میں اضافے پر کوئی خالص اثر نہیں پڑتا کیونکہ "اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد تقریباً اسلام چھوڑنے والے لوگوں کی تعداد کے برابر ہے"۔ جہاں تک آبادی کے لحاظ سے پندرہ بڑے اسلامی ممالک کا تعلق ہے، وہ یہ ہیں: عبادت کی جگہیں اسلام میں بہت سی عبادات ہیں، اور ان میں سے اکثر کے لیے حج کے علاوہ کسی خاص جگہ کی ضرورت نہیں ہوتی (جس کے لیے مقدس مقامات کی زیارت کی ضرورت ہوتی ہے)۔ جہاں تک نماز کا تعلق ہے، جابر کی حدیث کے مطابق زمین کو مسلمانوں کے لیے مسجد بنا دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین کا ہر ٹکڑا (سوائے ان کے جو حرام ہیں) انفرادی اور اجتماعی طور پر نماز پڑھنے کے لیے موزوں ہے۔ مسلمان ایک خاص جگہ مختص کرتے ہیں جسے مساجد (واحد مسجد ) کہا جاتا ہے جو انہیں باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے جمع کرتے ہیں۔ "مسجد" کا نام لفظ "سجدہ" سے لیا گیا ہے، کیونکہ اسلامی نماز سجدہ اور رکوع پر مشتمل ہے۔ عظیم مساجد کو "جماعت" یا "جامع مسجد" بھی کہا جاتا ہے۔ مساجد ایسی جگہیں ہیں جہاں مسلمان نماز کے علاوہ علم حاصل کرنے اور اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے آتے ہیں، حالانکہ ان کا کردار فی الحال مسلمانوں کو نماز پڑھنے اور یاد کرنے کے لیے جمع کرنے تک محدود ہے۔ مسجد میں ادا کی جانے والی نمایاں نمازوں میں سے: جمعہ کے دن ظہر کی نماز ، کیونکہ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ مسجد میں باجماعت ادا کرے اور امام کا خطبہ سنے۔ مساجد کی تعمیر کا انداز اسلام کی پہلی مسجد قبا مسجد کی تعمیر کے بعد سے اب تک بہت زیادہ ترقی کر چکا ہے، اور مساجد کے لیے کئی طرز تعمیر ہیں، جن میں خاص طور پر: عثمانی طرز ، فارسی طرز ، مراکش سٹائل ، اور دیگرہیں۔ اسلامی عقیدہ کے مطابق گرجا گھر میں اس صورت میں نماز پڑھنا جائز ہے کہ کوئی مسجد یا چیپل نہ ہو، اور جن لوگوں نے اس کی اجازت دی: امام حسن بن علی بن ابی طالب ، |
ur_Arab | عمر بن عبدالعزیز ، امام الشعبی ، امام اوزاعی ، اور سعید بن عبدالعزیز، اور اسے عمر بن الخطاب اور ابو موسیٰ اشعری سے بھی روایت کیا گیا ہے۔ تاہم، علماء کا کہنا ہے کہ یہ صرف ضرورت کے معاملات میں محدود ہے، تاکہ اس سے اسلام کی شبیہ مسخ نہ ہو، اور غیر مسلموں کو یہ خیال نہ ہو کہ یہ غیر واضح خصوصیات والا مذہب ہے۔ خاندان خاندان اسلامی معاشرے کی مرکزی اکائی ہے اور اسلام نے اس کے ہر فرد کے کردار کو متعین کیا ہے اور انہیں کچھ حقوق اور فرائض تفویض کیے ہیں۔ اسلام میں خاندان کی حفاظت اور دیکھ بھال کا بنیادی ذمہ دار باپ کے طور پر ظاہر ہوتا ہے، اس لیے اس کے اخراجات، جیسے کھانے پینے، دوائی، لباس وغیرہ کا خیال رکھنا فرض ہے۔ قرآن نے اسلام میں وراثت کے اسباب کو واضح طور پر بیان کیا ہے، جو جاہلیت کی تردید کرتی ہیں، جو کہ نکاح رشتہ داری اور وفاداری ہیں، اور ان میں سے ہر ایک کے لیے کچھ شرائط بیان کی ہیں جن کا وراثت کے درست ہونے کے لیے پورا ہونا ضروری ہے۔ جس کے بغیر کوئی رکاوٹ قائم نہیں رہتی اور اسلام میں وراثت میں عورت کا حصہ بعض صورتوں میں مرد کا نصف حصہ ہے اور بعض صورتوں میں عورت وراثت میں مرد کے برابر ہے اور بعض صورتوں میں اس کا حصہ زیادہ ہے۔ آدمی کا حصہ. اسی طرح قرآن میں یہ خاص طور پر ان لوگوں کے لیے آیا ہے جو مرنے والوں کے لیے ان کے رشتہ داروں کے درجے کے مطابق جائداد اور ان کے درجات کے حقدار ہیں، اور مسلمان اس کی دلیل کے طور پر جو آیات استعمال کرتے ہیں ان میں سے سورۃ النساء میں آیا ہے۔ -نساء :. جہاں تک اسلام میں شادی کا تعلق ہے، اسے ایک شہری معاہدہ سمجھا جاتا ہے جس میں دوسرے معاہدوں کے تمام عناصر دستیاب ہوتے ہیں، جیسے پیشکش اور قبولیت، دو فریقوں کے درمیان جن کے پاس اس کو انجام دینے کے لیے ضروری ذہنی اور قانونی صلاحیت ہے، اور دو کی موجودگی میں۔ مرد گواہ، یا ایک مرد اور دو عورتیں۔ اسلامی شادی کا معاہدہ شرعی عدالت میں عام طور پر شرعی جج کے سامنے کیا جاتا ہے۔ اسلامی فقہ نے شادی کرنے والے کے لیے کئی باتوں کی رہنمائی کی ہے جو اسے شادی کرنے والے کے لیے پیش کرنے والے کے لیے پیش نظر رکھنی چاہئیں، جیسے مذہبی ہونا، خوبصورت ہونا، اچھا نسب ہونا اور دوسری چیزیں، اور یہی بات نکاح پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ لڑکی، لہذا اسے اس آدمی میں |
ur_Arab | انہی باتوں کا خیال رکھنا چاہیے جو اسے تجویز کرتا ہے۔ اسلام شوہر سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو عقد نکاح کے مطابق مہر ادا کرے۔ اسلام میں ایک مرد کے لیے 4 عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے، اس شرط پر کہ وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے۔جبکہ مسلمان عورت صرف ایک شوہر کی حقدار ہے۔ قرآن نے اسی سورت میں عورتوں کی وضاحت کی ہے جو مردوں کے لیے حرام ہیں، جہاں یہ کہتا ہے:. ایک مسلمان مرد کو اہل کتاب میں سے کسی عورت سے شادی کرنے کا حق ہے، یعنی عیسائی ، یہودی ، صابی یا حنیف عورت، اور اس پر لازم ہے کہ وہ اسے اپنے مذہب کی رسومات پر عمل کرنے سے نہ روکے، جبکہ مسلمان عورت کو مسلمان مرد کے علاوہ کسی سے شادی کرنے کا حق نہیں ہے۔ اسلام میں طلاق شرعی طور پر جائز ہے لیکن اس شرط پر کہ میاں بیوی کے درمیان مشترکہ زندگی کسی وجہ سے نا ممکن ہو جائے اور طلاق اس وقت واقع ہو جاتی ہے جب مرد اپنی بیوی سے کہے کہ تمہیں طلاق ہو گئی ہے۔ قرآن مردوں اور عورتوں کے درمیان غیر قانونی اختلاط سے منع کرتا ہے، اور قرآنی آیات میں عورتوں کو پردہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور اپنی شرمگاہ کو کسی ایسے مرد کے سامنے ظاہر نہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے جو ان سے اجنبی ہو۔ ٹھوڑی اور کانوں کی دونوں وادیوں کے درمیان، تاکہ بال، بالیاں یا گردن میں سے کچھ نظر نہ آئے، اور لباس سے نیچے کی چیز ظاہر نہ ہو۔ اس کی دلیل کے طور پر مسلمان جو آیات استعمال کرتے ہیں ان میں سے سورۃ النور میں آیا ہے:. جہاں تک مردوں کا تعلق ہے، قرآن نے ان کے لیے کوئی مخصوص لباس نہیں بتایا، لیکن یہ ضروری ہے کہ لباس ان کی شرمگاہوں کو ڈھانپے۔ بہت سے مسلمان مرد داڑھی بڑھاتے ہیں، اور ان میں سے کچھ اپنی مونچھیں منڈواتے ہیں اس حدیث کی پیروی کرتے ہوئے: ہجری کیلنڈر اسلامی کیلنڈر یا ہجری کیلنڈر کا انحصار اس قمری کیلنڈر پر ہے جو اسلام سے پہلے عربوں نے استعمال کیا تھا، اور اس وقت کے عرب سالوں کو شمار نہیں کرتے تھے، لیکن ہر سال کا ایک نام ہوتا تھا جو اسے باقی سالوں سے ممتاز کرتا تھا۔ ہجری کیلنڈر۔ اور اس میں پہلا سال وہ سال بنایا جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی، لیکن عرب مہینوں کے ناموں یا ان کی ترتیب میں کوئی تبدیلی نہیں کی، اور ہجری مہینے ہیں |
ur_Arab | : محرم ، صفر ، ربیع الاول ، ربیع الاول۔ -ثانی، جمادی الاول ، جمادۃ الآخرہ ، رجب ، شعبان ، رمضان ، شوال ، ذوالقعدہ ، ذوالحجہ ۔ قمری مہینہ دو ہلالوں کے درمیان کی مدت ہے، اور عصری فلکیاتی اظہار میں یہ وہ دور ہے جس کے دوران چاند زمین کے گرد ایک مکمل چکر مکمل کرتا ہے۔ اس کا دورانیہ فلکیاتی طور پر 29.530588 دن ہے، اس لیے ہجری مہینے کبھی 30 دن کے ہوتے ہیں اور کبھی 29 دن کے۔ علماء مسلمان علماء جو مذہب اور عبادات کے معاملات کو سمجھتے ہیں انہیں "علماء" یا "فقیہ" کہا جاتا ہے اور ان میں سے جو بھی علم کے اعلیٰ درجے پر پہنچ جاتا ہے اور ابھرتے ہوئے مسائل پر فتویٰ جاری کرتا ہے جو اس کے سامنے لایا جاتا ہے اسے "مفتی" کہا جاتا ہے۔ مسلم علما کو کئی اور نام دیئے گئے ہیں، جن میں شامل ہیں: مولا، شیخ، اور مولوی۔ شیعہ ایسے علما کو کہتے ہیں جن کا سلسلہ نسب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جاتا ہے اور واحد لفظ "ماسٹر" ہے۔ ڈروز بزرگ علماء کو "عقل کے شیخ" بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ مذہب کے معاملات کو سمجھتے ہیں اور ان میں لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اسلام اور دیگر مذاہب مسلمان دو آیات پر غور کرتے ہیں۔ اور آیت< بنیادی طور پر غیر مسلموں کے ساتھ معاملہ کرنے میں۔ قرآن دوسرے ابراہیمی مذاہب، جیسے یہودیت اور عیسائیت کے لیے احترام فراہم کرتا ہے، جیسا کہ مذاہب پہلے خدا کی طرف سے بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے بھیجے گئے رسولوں اور انبیاء پر نازل ہوئے تھے۔ اور قرآن اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ وہ "اس خالص ابراہیمی مذہب کو بحال کر رہا ہے جو ابراہیم پر نازل ہوا تھا اور جسے کچھ یہودیوں اور عیسائیوں نے مسخ کیا تھا۔" مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ زبور ، تورات اور انجیل آسمانی کتابیں ہیں جو خدا نے اپنے انبیاء داؤد ، موسیٰ اور عیسیٰ مسیح پر نازل کیں، لیکن وہ ان کی موجودہ نسخوں کی حرمت پر یقین نہیں رکھتے اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان میں تحریف کی گئی ہے۔ ہیرا پھیری کی کاپیاں، اور یہ کہ اصل کتابیں مختلف وجوہات کی بنا پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ضائع ہو گئیں، جیسے کہ ان کو لکھنے میں تاخیر اور انہیں حفظ کرنے والوں |
ur_Arab | کی موت، جس کی وجہ سے بعد میں آنے والے اس کے کچھ پیروکار ان میں فرق نہیں کرتے۔ اسلام اور مندائیت مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ مندائیت کا مذہب ابراہیمی ہے، جو قرآن میں بیان ہوا ہے:, جہاں دوسرے ابراہیمی مذاہب کے تناظر میں صابیئن کا ذکر کیا گیا ہے، اور مفسرین نے اس میں اختلاف کیا ہے کہ لفظ "صابی" سے کیا مراد ہے، ان میں سے بعض نے کہا کہ وہ "وہ لوگ ہیں جن تک رسائی نہیں ہوئی۔ ایک نبی کی دعوت دی گئی، اور کہا گیا: "ایسی قوم جس کا مذہب عیسائیوں کے مذہب سے مشابہت رکھتا ہے"، اور کہا گیا: " مجوسیوں ، یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان ایک قوم ۔ اہل کتاب اور ان کے احکام لے۔ اسلام اور یہودیت قرآن میں ارشاد ہے: ، اسلام نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اہل کتاب کے ساتھ اچھا سلوک کریں، خواہ وہ یہودی ہوں یا عیسائی، جب تک کہ وہ جنگجو نہ ہوں، اور ان سے بحث نہ کریں سوائے اس طریقے کے جو بہتر ہو۔ قرآن نے مسلمانوں کو یہودیوں کے کھانے کی اجازت دی اور اس کے برعکس، جس طرح اس نے سورۃ المائدہ کی آیت میں ان کی پاک دامن عورتوں سے شادی کی اجازت دی ہے۔۔ پیغمبر اسلام نے مدینہ میں یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کیا، اور انہیں اسلامی قوم کا حصہ سمجھا، اور بہت سے یہودی بازنطینیوں اور فرینکوں کے خلاف شانہ بشانہ لڑے۔ یہی بات عرب اسرائیل تنازعہ پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ شیخ یوسف القرضاوی کہتے ہیں: « مسلمان اور یہودی تورات میں مذکور موسیٰ اور دیگر کی پیشینگوئی پر اور بنی اسرائیل کے مصر سے نکل جانے اور بحیرہ احمر کے الگ ہونے کی صورت میں نیز بعض مقامات کی حرمت میں اپنا عقیدہ رکھتے ہیں۔ جیسا کہ یروشلم کا شہر ، مسجد ابراہیمی ، اور دیوار براق ، جسے یہودی "دیوار نوحہ" کہتے ہیں۔ اسلام اور عیسائیت عیسائی ، اسلامی قانون کے مطابق، مسلمانوں کے قریب ترین لوگ ہیں، اور قرآن نے اس کی وجہ ان کی عقیدت اور تکبر کی کمی کو قرار دیا، جیسا کہ آیا ہے: تاہم، قرآن میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ ان میں سے کچھ اپنے مذہب کی طرف متعصب ہیں اور مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں:. سورۃ المائدۃ کی بیاسیویں آیت کے مطابق اسلام مسلمانوں کو عیسائیوں سے دوستی کرنے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے |
ur_Arab | کی اجازت دیتا ہے، لیکن پچاس کے مطابق ان کو بھائی اور اتحادی کے طور پر لینا منع ہے۔ سورہ مائدہ کی پہلی آیت:جس سے مسلمان علماء نے وفاداری اور نافرمانی کی حکمرانی حاصل کی۔ جہاں تک قرآن میں مسیح کا تعلق ہے ، اسے " یسوع " کے بجائے " یسوع" کہا گیا ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ یہ اس کے یونانی نام "Isos" کی عربی ہے۔ وہ ایک ایسا نبی ہے جسے واضح ثبوت دیا گیا ہے اور روح القدس کی طرف سے تائید کی گئی ہے، اور وہ دنیا اور آخرت میں خدا کا معروف کلام کہلاتے ہیں، سچ بولتے ہیں، اور وہ حکمت لے کر آیا، اور قرآن نے بھی عیسیٰ کے متعدد کاموں اور معجزات کا ذکر کیا ہے جن کا تذکرہ انجیلوں میں کیا گیا ہے، اور دیگر کا تذکرہ ایپوکریفون کتابوں میں کیا گیا ہے، اور انہیں آدم سے تشبیہ دی گئی ہے، جیسا کہ خدا۔ انہیں مٹی سے پیدا کیا اور پھر ان میں اپنی روح پھونک دی، اور سورہ الانبیاء 91 میں مریم کی کنواری اور ان کے حمل کی طرف اشارہ ہے خدا کے حکم سے انسانوں کے ہاتھ سے چھوئے بغیر، اور یہ اعلان کرتے ہوئے ختم ہوا کہ عیسیٰ اور اس کی ماں جہانوں کے لیے نشان ہے۔ تاہم، قرآن ان لوگوں کو مسترد کرتا ہے جو مسیح کی الوہیت پر یقین رکھتے ہیں، اور اس کی مصلوبیت یا موت کا انکار کرتے ہیں، لیکن اشارہ کرتا ہے کہ وہ مسیح ہے، اور متعدد آیات میں اسے اس نام سے پکارتا ہے۔ اسلام اور مشرقی عقائد مسلمان ہندو مذہب کو کافر مذہب سمجھتے ہیں، ہندومت کئی لحاظ سے اسلام سے ملتا جلتا ہے: جدید ہندو مت کہتا ہے کہ ہندوؤں کے ذریعہ پوجا تمام قدیم دیوتا ایک خدا کے نام اور صفات ہیں، اور قرآن بھی ناموں کی کثرت کو بیان کرتا ہے۔ اور سورۃ الحشر کے آخر میں خدا کی صفات۔ ہندوؤں کا خیال ہے کہ موت کے بعد ایک حساب اور سزا ہے، اور یہ کہ خدا ہی ہے جو تمام لوگوں کو جوابدہ رکھے گا، جیسا کہ مسلمان یقین رکھتے ہیں۔ ہندو مذہب اسلام سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ ہندو جنت یا جہنم پر یقین نہیں رکھتے بلکہ اچھے اور برے کے لیے ایک اور انعام پر یقین رکھتے ہیں، اس لیے کہتے ہیں کہ جب اچھا آدمی مرتا ہے تو اس کا جسم مر جاتا ہے اور اس کی روح لازوال رہتی ہے۔ خدا کا حصہ ہے، لہذا اسے ایک صالح جسم میں رکھ |
ur_Arab | کر اجر ملتا ہے، جسے روحوں کی منتقلی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح، ہندو اس کے مرنے کے بعد لاش کو جلا دیتے ہیں، جب کہ مسلمان میت کو مٹی میں دفن کرتے ہیں، یہ مانتے ہیں کہ یہ "مرنے والوں کی عزت" ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تصادم کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ہندو اور اسلامی عقائد کو ملا کر ایک نیا مذہب وجود میں آیا، جو کہ سکھ مذہب ہے۔ اور مسلمان سکھوں کی طرح اس لحاظ سے ہیں کہ وہ ایک خالق کو مانتے ہیں اور بتوں کی پوجا سے منع کرتے ہیں اور لوگوں کی برابری اور خالق کی وحدانیت کہتے ہیں جو نہیں مرتا اور جس کی کوئی خاص شکل نہیں ہے اور وہ عبادت نہیں کرتے۔ سورج یا قدرتی قوتیں یا جانور ، اور وہ رہبانیت سے منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ روزی تلاش کرنا اور نبوت اور پیغام پر ایمان لانا اور یہ کہ لوگوں کی رہنمائی کے لیے خدا کی طرف سے ایک رسول ہے۔ اور جس طرح اسلام کے پانچ ستون ہیں، اسی طرح سکھ مذہب کے بھی پانچ اصول ہیں: سر اور داڑھی کے بالوں کو چھوڑنا اور نہ منڈوانا، بالوں کی چوٹ لگانا، "کچا" یعنی چوڑی پتلون پہننا جو گھٹنوں تک تنگ ہو، " کربل" جو سکھوں کے لیے ایک تلوار یا خنجر ہے جس سے پناہ لی جاتی ہے، اور کلائی کے گرد لوہے کا کڑا پہننا "الکارہ" کڑا ہے۔ اسلام سکھ مت سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ مؤخر الذکر شراب پینے اور سور کا گوشت کھانے کی اجازت دیتا ہے اور گائے کا گوشت منع کرتا ہے کیونکہ یہ ان کے مطابق مقدس ہے۔ اسلام تقدیر اور تقدیر پر یقین کے لحاظ سے کنفیوشس کے مذہب سے مشابہت رکھتا ہے، اور والدین کی اطاعت، حاکم اور بھائی کا احترام، دوست کے ساتھ اخلاص اور وفاداری، لوگوں پر ظلم نہ کرنے، نہ قول و فعل میں، اور اعتماد اور عدم خیانت سے لطف اندوز ہونا۔ اور پہاڑوں، زمین، چاند، آسمان وغیرہ کے متعدد دیوتاؤں کے وجود میں کنفیوشس کے عقیدے اور اپنے آباؤ اجداد کی روحوں کے لیے ان کی تعظیم اور ان کے عقیدے کی کمی کے لحاظ سے یہ اس سے مختلف ہے۔ جہاں تک بدھ مذہب کا تعلق ہے ، اس کا تعلق اسلام کے برعکس - کسی دیوتا یا خالق کی عبادت سے نہیں، بلکہ استاد بدھا کی تعلیمات سے ہے، اس کے علاوہ |
ur_Arab | اس کے عقیدے میں ہندو مذہب کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ روحوں کا دوبارہ جنم بدھ مت بہت سے اصولوں کا مطالبہ کرتا ہے جن کا اسلام مطالبہ کرتا ہے اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دی جاتی ہے، جیسے چوری نہ کرنا، زنا سے بچنا، اچھے الفاظ بولنا وغیرہ۔ اسلام بدھ مت سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ بدھ مت زندگی کو مسلسل مصائب اور مستقل مصائب کے طور پر دیکھتا ہے اور انہیں اس میں صرف ایک تاریک پہلو نظر آتا ہے جس سے وہ چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور اسلام میں ایسا نہیں ہے، اس میں لذتیں اور برکتیں بھی ہیں۔ اور انسان کو اس زندگی میں اعمال صالحہ کرنے کی ضرورت ہے، زندگی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے نہیں، بلکہ اس میں زندگی گزارنا اور آخرت میں بھی رہنا ہے۔ اسلام کے بارے میں غیر مسلموں کی رائے کچھ غیر مسلم محققین کا خیال ہے کہ اسلام عیسائیت میں نیستورین ازم یا آریائی ازم سے یا یہودیت کے کسی فرقے سے انحراف ہے، اور وہ اسے محمد کی پہلی بیوی خدیجہ بنت خویلد اور اس کی قرابت کو ورقہ بن نوفل سے جوڑتے ہیں، یا اسے قیس سے جوڑتے ہیں۔ بن سعدہ دیگر آراء یہ دیکھتے ہیں کہ محمد ان مذہبی رجحانات سے متاثر تھے، لیکن انہوں نے ان میں توسیع نہیں کی، بلکہ ایک مکمل طور پر ایک نیا مذہب قائم کیا، اور ان میں سے کچھ نظریات اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور میں جاتے ہیں۔ کچھ غیر مسلم یہ بھی کہتے ہیں کہ ذمیوں پر کچھ سماجی اور قانونی پابندیاں لگائی گئی تھیں، جن میں سے بہت سی علامتی تھیں۔ ذمیوں کے لیے ان پابندیوں میں سب سے زیادہ ناگوار وہ نمایاں لباس تھا جو بغداد میں ان پر عائد کیا گیا تھا، حالانکہ قرآن یا سنت میں اس کا ذکر نہیں تھا۔ انیسویں صدی سے پہلے برنارڈ لیوس کا دعویٰ ہے کہ اسلام اور عیسائیت میں غیر ماننے والوں کے ساتھ برتاؤ میں کسی نے رواداری کی پرواہ نہیں کی۔ اور یہ کہ رواداری کی معروف تعریف یہ تھی: «میں رہنما ہوں۔ میں آپ کو ان حقوق اور اختیارات میں سے کچھ عطا کروں گا، لیکن تمام نہیں، اس شرط پر کہ آپ میرے نافذ کردہ اور کنٹرول کردہ قوانین کے مطابق زندگی گزاریں۔ » تاہم، یہ درست نہیں ہے، کیونکہ مسلم رہنما اسلامی قانون کی دفعات کے مطابق حکومت کرتا ہے جو تمام معاملات کو واضح کرتی ہے اور تسلط کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتی |
ur_Arab | ہے، اور اگر رہنما اس کے مطابق حکومت نہیں کرے گا، تو تمام رعایا کو نقصان پہنچے گا۔ اور اس رہنما کا مذاق اڑانا اور اس کی اطاعت سے اس حقیقت کی بنیاد پر الگ ہونا درست نہیں کہ وہ خلاف ورزی کر رہا ہے۔ برنارڈ لیوس کا کہنا ہے کہ اصل میں یہودیوں اور عیسائیوں کو - اہل کتاب - کو اسلامی ممالک میں ذمی کی حیثیت سے رہنے کی اجازت دی گئی تھی اور انھیں "کچھ پابندیوں کے تحت اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے اور اپنے مذہب کے لیے کچھ خود مختاری حاصل کرنے کی اجازت دی گئی تھی" اور ان کی حفاظت اور جائیداد خراج تحسین کی ادائیگی کے بدلے میں دفاع کیا جاتا ہے، حالانکہ دوسری سطح پر، مسلمانوں کو زکوٰۃ ادا کرنے کی ضرورت ہے، جو کہ ٹیکس کی ایک قسم بھی ہے۔ برنارڈ لوئس کہتے ہیں کہ اسلامی ممالک میں ذمیوں کی کم حیثیت کے باوجود، قدیم عیسائی ممالک میں غیر عیسائیوں یا حتیٰ کہ غیر رسمی فرقوں کے عیسائیوں کے مقابلے ان کی حالت اچھی تھی۔ اسے پھانسی دی جائے یا ویران کر دیا جائے یا اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور کیا جائے۔ ذمیوں کو اپنے گھر اور ان پیشوں کا انتخاب کرنے میں آزادی تھی جس سے وہ اپنی روزی کماتے تھے۔ اور یہ کہ زیادہ تر معاملات جن میں ذمی نے اپنا مذہب تبدیل کیا وہ اپنی مرضی سے اور اپنی وجوہات کی بنا پر تھے۔ تاہم، شمالی افریقہ ، اندلس اور فارس میں بارہویں صدی میں جبری تبدیلی کے واقعات پیش آئے، اور کچھ محققین کے مطابق، لوئس کے کچھ الفاظ درست ہیں اور باقی مانے جاتے ہیں۔ کچھ غیر مسلم ہیں، خاص طور پر مغربی، جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ان کے ممالک کے لیے خطرہ ہے، خاص طور پر نیویارک شہر میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹوئن ٹاورز پر 11 ستمبر کو ہونے والے حملوں کے بعد، جس میں الزام کی انگلی ان کی طرف اٹھائی گئی تھی۔ القاعدہ نے یورپ میں ٹرین اور بس سٹیشنوں پر ہونے والے دوسرے دہشت گردانہ حملوں کے علاوہ، اسلامی تنظیموں پر اس کے پیچھے کھڑی ہونے کا الزام لگایا۔ جس چیز نے ان لوگوں کے خوف میں اضافہ کیا وہ ہے مغربی ممالک میں مسلمان تارکین وطن کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے اسلام کا تیزی سے پھیلنا، اور متعدد مقامی باشندوں کا اس مذہب میں تبدیل ہونا، اور وہ اپنی محفوظ زندگی کو یقینی بنانے کے لیے کئی چیزوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جس میں مساجد کی تعمیر نہ کرنا اور اسلامی قانون کے نفاذ کی اجازت نہ دینا شامل ہے۔ دوسری |
ur_Arab | طرف، ایک اور فیصد مغربی باشندے ہیں جو یہ نہیں مانتے کہ اسلام ان کے لیے خطرہ ہے اور وہ مساجد کی تعمیر اور غیر ملکی اسلامی معاشروں میں شریعت کے نفاذ پر کوئی اعتراض نہیں کرتے۔ دینی فرقے اسلامی تاریخ کے مراحل کے دوران، متعدد فرقے قائم ہوئے، اور ان کے اور حکمران مسلمانوں کے درمیان تنازع کا مرکز خلافت اور مسلمانوں کی قیادت تھی، یعنی یہ تنازعہ نیم سیاسی تھا۔ ان میں سے کچھ گروہ آج بھی موجود ہیں، جب کہ کچھ غائب ہو چکے ہیں۔ سب سے اہم موجودہ اسلامی فرقے یہ ہیں: اہل السنۃ والجماعۃ : سنی مسلمانوں کو آج سب سے بڑا اسلامی فرقہ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اسلامی ممالک کی اکثریت سنی ممالک کی ہے۔ اور زبان میں سنت "سنت " سے ہے، جو راستے پر چلنا اور اس پر چلنا ہے، اور شریعت کی رو سے اس کا مطلب وہ راستہ ہے جو مسلمانوں کے لیے قرآن اور پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان نے کھینچا ہے۔ اہل سنت کا کہنا ہے کہ صحیح رہنمائی والے خلیفہ پیغمبر محمد کے جائز جانشین تھے، چونکہ پیغمبر اسلام نے اپنے بعد کسی کو خلافت کی سفارش نہیں کی تھی، اس لیے مسلمانوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ ان کے لیے خلیفہ کا انتخاب کریں۔ اہل سنت خلافت کو شوریٰ کے ذریعے سمجھتے ہیں کیونکہ یہ ایک سیاسی کام ہے۔ اہل سنت فقہ کے چار بنیادی مکاتب فکر کی پیروی کرتے ہیں: حنفی ، شافعی ، مالکی اور حنبلی ، اور وہ کہتے ہیں کہ یہ سب جائز ہیں، اور یہ کہ مسلمان اس کا انتخاب کر سکتا ہے جو اس کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہے اور بغیر شرمندگی کے اس کی پیروی کر سکتا ہے۔ شیعہ : پیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹ "دنیا میں مسلم آبادی کا حجم اور تقسیم" کے نتائج کے مطابق - جو اکتوبر 2009 میں ہوئی تھی، شیعوں کا تناسب کل مسلمانوں کے 10% سے 13% کے درمیان ہے۔ دنیا بھر میں، انہیں دوسرا سب سے بڑا اسلامی فرقہ بناتا ہے۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ خلافت امام علی بن ابی طالب اور ان کی اولاد کا حق ہے کیونکہ پیغمبر اسلام نے ان سے اس کی سفارش کی تھی اس لیے یہ دین کی بنیادوں میں سے ہے اور اسے لوگوں پر چھوڑنا جائز نہیں ہے۔ جس کو چاہیں منتخب کریں۔ اور شیعوں کے نزدیک امام گناہوں سے عاری ہے، یعنی وہ کسی فرض کو چھوڑنے کی استطاعت کے باوجود نہیں چھوڑتا، اور اس کی استطاعت کے باوجود کوئی حرام کام نہیں کرتا۔ شیعوں کے اندر بہت |
ur_Arab | سے فرقے اور تنازعات ابھرے ہیں، جن میں سب سے زیادہ مشہور ہیں: "امامی" یا "جعفاری" ، جنہوں نے امامت اور ائمہ کی عصمت پر اپنے عقیدے کو محفوظ رکھا؛ اور " زیدی "، جو بہترین کی موجودگی کے ساتھ ترجیح کی قیادت کی اجازت دیتے ہیں، یعنی امام علی خلافت کے زیادہ مستحق ہیں، لیکن وہ ابوبکر ، عمر اور عثمان کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اور شیعوں میں سب سے پہلے امام علی بن ابی طالب ہیں، جن کے بعد ان کے دو بیٹے الحسن اور پھر الحسین ہیں، اور الحسین سے بارہ اماموں میں سے باقی نو آئے جن کی پیروی بارہ شیعہ کرتے ہیں۔ . اسماعیلی : اسماعیلی شیعوں کا ایک گروہ ہیں جو پہلے چھ اماموں سے متفق ہیں، اور جعفر الصادق کے بعد باقی ائمہ سے اختلاف رکھتے ہیں، کیونکہ وہ امامت کو موسیٰ کاظم کے بجائے ان کے بیٹے اسماعیل کو دیتے ہیں، جس کے مطابق ان کے نزدیک "پوشیدہ امام" ہے۔ اسماعیلیوں کا عقیدہ ہے کہ ہر ظاہر باطنی ہے، اور ہر قرآنی آیت کی ایک تفسیر ہوتی ہے، اور وہ دوسرے مسلمانوں سے اس لحاظ سے مختلف ہیں کہ ان کا عقیدہ ہے کہ سبق ایمان میں ہے نہ کہ اعمال میں۔ متعدد سنی علماء اسماعیلیوں کو اسلام سے باہر سمجھتے ہیں، جیسے ابن الجوزی ، ابن تیمیہ ، اور مصر کے سابق مفتی حسنین محمد مخلوف ۔ تصوف : تصوف ایک ایسا راستہ ہے جو بندے کی طرف سے نیکی کے درجات تک پہنچنے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے، عبادت کے لیے پوری طرح وقف کر کے اور غیب کی دنیا سے پردہ اٹھانے کی کوشش اور دعا، تپش اور جدوجہد کے ذریعے انسان کی سچائی اور خوشی، جیسا کہ اس عقیدہ کے مطابق صحابہ کرام اور پیشرو کیا کرتے تھے۔ تصوف کو اس کے پیروکاروں کے مطابق اسلامی قانون کا تکمیلی تصور کیا جاتا ہے۔جہاں تک مسلمانوں کے سلفی فرقے کا تعلق ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ اس عقیدے سے جو کچھ ہوا وہ ایک بری بدعت ہے جس سے بچنا چاہیے۔ تصوف میں، کئی مکاتب یا "طریقے" ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق سنی فرقے سے ہے، کچھ کا شیعہ فرقہ سے ہے، جب کہ دوسرے اپنے آپ کو ایک فرقہ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ دروز : دروز ایک باطنی فرقہ ہے جو اسماعیلی فرقے |
ur_Arab | سے الگ ہوا ہے۔ یہ محمد بن اسماعیل الدرزی سے منسوب ہیں، جو فاطمی خلیفہ، الحاکم بن عمرو اللہ کے مبلغین میں سے ایک تھے۔ دروز اپنے آپ کو ایک فرقے کے مالک سمجھتے ہیں نہ کہ کسی مذہب کے، اور یہ کہ وہ زمانہ قدیم سے موجود ہیں، اور یہ کہ اس دعوت کا وقت ختم ہو گیا جس کو حاکم نے تبلیغ کرنے کی ہدایت کی تھی اور اسے قبول کرنے کا دروازہ کھل گیا تھا۔ بند کر دیا ہے. اور وہ توحید پر یقین رکھتے ہیں، کیونکہ خدا ایک ہے، ایک ہے، بغیر ابتدا اور بغیر انتہا کے، اور یہ کہ دنیا اس کے کہنے سے بنی ہے "عالمگیر" اور ایسا ہی ہوا، اور وہ زمانہ تقدیر ہے، اور وہ انبیاء کی تعظیم کرتے ہیں جن کا ذکر نازل شدہ کتابیں . دروز اور دیگر اسلامی فرقوں کے درمیان سب سے نمایاں فرق تناسخ میں ان کا عقیدہ ہے، یعنی انسانی روحیں منتقل ہوتی ہیں یا دوبارہ جنم لیتی ہیں، یعنی وہ موت کے بعد ایک شخص سے دوسرے میں منتقل ہوتی ہیں۔ اسی طرح وہ صرف ایک عورت سے نکاح کرتے ہیں، اور اگر ان میں سے کوئی اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو اسے اس کو واپس کرنے کی اجازت نہیں، اور وہ جس کو چاہیں اپنے مال کی وصیت کر سکتے ہیں۔ ڈروز فضائل کے خواہشمند ہیں اور انہیں کچھ مذہبی ذمہ داریوں پر پیش کرتے ہیں۔ عفت، دیانت، حسن اخلاق اور تمباکو نوشی اور شراب نوشی سے پرہیز وہ تمام امور ہیں جن پر فرقہ وارانہ طریقہ پر اصرار ہے۔ دروز علما اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں، لیکن سنی اور شیعہ علماء کے اس دعوے کے بارے میں مختلف نظریات تھے، جیسا کہ بعض نے اسے قبول کیا اور بعض نے اسے مسترد کیا۔ دوسری طرف، کچھ محققین Druze توحید کو ایک آزاد ابراہیمی اور توحیدی مذہب سمجھتے ہیں جو اسلام سے الگ ہو گیا ہے۔ بہت سے دوسرے علماء کا یہ بھی کہنا ہے کہ عام ڈروز خود کو مسلمان نہیں مانتے۔ احمدیہ : احمدیہ برادری کی ابتدا انیسویں صدی عیسوی کے آخر میں برصغیر پاک و ہند میں ہوئی۔ اس کے بانی مرزا غلام احمد القدیانی ہیں، جنہوں نے اعلان کیا کہ وہ متوقع مہدی ، اپنے وقت کی تجدید، اور وہ مسیح موعود ہیں جس کی نبی محمد نے تبلیغ کی اور کہا کہ وہ آخری وقت پر آئے گا۔ احمدیوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے گروہ کے بانی دین اسلام کی تجدید کے لیے آئے تھے، اور ان کے لیے تجدید کا |
ur_Arab | مطلب یہ ہے کہ دین پر صدیوں سے جمع ہونے والی گرد وغبار کو دور کر کے اسے اس طرح صاف اور پاکیزہ بنا دیا جائے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے۔ محمد ، جسے وہ مانتے ہیں "خدا کے بندے، اس کے رسول، اور خاتم النبیین ہیں۔" احمدیہ اسلامی عقیدے کے تمام ستونوں پر یقین رکھتے ہیں، لیکن وہ کئی اہم معاملات میں مسلمانوں سے مختلف ہیں، جیسا کہ ان کا عقیدہ کہ مسیح کو آسمان پر نہیں اٹھایا گیا، بلکہ صلیب پر لٹکایا گیا، لیکن وہ مرے نہیں، بلکہ وہ بے ہوش ہو گئے۔ پھر بیدار ہوئے، ہجرت کی، اور ایک عام موت مرگئی، وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ محمد سب سے بہتر اور کامل انبیاء ہیں، ان میں سے آخری نہیں۔ یہ وہ چیز ہے جو ان کے خیال میں بانی عقیدہ کی نبوت اور اسلام کے ساتھ ان کی مسلسل وابستگی کے درمیان مفاہمت کرتی ہے۔ بہت سے سنی اور شیعہ علماء کا ماننا ہے کہ احمدیہ فرقہ اسلامی فرقہ نہیں ہے، کیونکہ اس کا قرآن کا واضح انکار ہے، جس میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں، اور یہ بنیادی طور پر ان کی حمایت سے قائم ہوا تھا۔ انگریزوں نے بیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستان اور پاکستان کے مسلمانوں کے درمیان تقسیم کا بیج بونا تھا۔ متذکرہ بالا فرقوں کے علاوہ، کچھ اور فرقے ہیں جو باقی رہ گئے ہیں اور دوسرے معدوم ہو گئے ہیں: سب سے نمایاں معدوم ہوتے مذہبی فرقوں میں خوارجی فرقہ ہے، اور یہ وہ فرقہ ہے جو امام علی بن ابی طالب سے منحرف ہو گیا، یا " جنگ صفین کے بعد اس سے علیحدگی اختیار کر لی اور اس کے اور معاویہ بن ابو سفیان کے درمیان ثالثی کے اصول کو قبول نہیں کیا۔ خوارج کا خیال تھا کہ خلافت صرف قبیلہ قریش تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ ہر مسلمان کا حق ہے، اور انہوں نے اسلام کے ذریعے مانگے گئے جمہوری اصولوں کی توثیق پر زور دیا۔ لیکن اگر ان کے مخالفین رائے اور دلیل کے ذریعے ان اصولوں کے قائل نہیں ہیں تو انہیں زبردستی اور تشدد کے ذریعے ان کا قائل کرنا چاہیے۔ جہاں تک خوارج کے سب سے مشہور فرقوں کا تعلق ہے، وہ یہ ہیں: الازاریقہ ، نجدات ، صفریہ ، عبادی ، اور مؤخر الذکر خوارجی فرقوں میں سب سے زیادہ نرم خو ہے، اور اسی وجہ سے |
ur_Arab | یہ موجودہ وقت تک زندہ رہنے کے قابل تھا، جیسا کہ آج موجود ہیں۔ الجزائر ، تیونس ، سلطنت عمان ، لیبیا اور زنجبار میں۔ معدوم ہونے والے فرقوں میں بھی شامل ہیں: قرامطین اور قاتل ۔ اور مسلمانوں کا ایک گروہ ایسا ہے جو قانونی احکام اخذ کرنے کے لیے حدیث نبوی کا سہارا لینے سے انکار کرتا ہے، اور صرف قرآن کا حوالہ دیتا ہے، اور انہیں " قرآن پرست " کہا جاتا ہے۔ اجمالی جائزہ جغرافیائی اعتبار سے مسیحیت اور یہودیت کی طرح اسلام بھی ان ہی علاقوں سے دنیا میں آیا کہ جن کو مشرقی وسطٰی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسلام میں حضرت محمد کے ساتھ دیگر تمام انبیا پر ایمان رکھا جاتا ہے اور ان میں قرآن ہی کی سورت 35 (فاطر) کی آیت 24 کے مطابق، قرآن میں درج 25 انبیاء و مرسال کے علاوہ ان میں وہ تمام بھی شامل ہیں جن کا ذکر قرآن میں نہیں آتا، مثال کے طور پر سدھارتھ گوتم بدھ مت اور دیگر مذاہب کی ابتدا کرنے والے، قرآن کی رو سے یہ تمام اشخاص خدا کی طرف سے وہی پیغام اپنی اپنی امت میں لائے تھے کہ جو آخری بار قرآن لایا، مگر ان میں تحریف پیدا ہو گئی۔ یقیناً ہم نے بھیجا ہے تم کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر۔ اور نہیں ہے کوئی امت مگر ضرور آیا ہے اس میں کوئی منتبہ کرنے والا۔ (قرآن؛ 35:24) تقدم زمانی کے لحاظ سے تمام توحیدیہ مذاہب میں جدید ترین کتاب ہونے کے باوجود عقیدے کے لحاظ سے قرآن قدیم ترین الہامی کتاب سمجھی جاتی ہے اور عرب و عجم سمیت تمام دنیا کے مسلمانوں میں عربی ہی میں اسے پڑھا جاتا ہے، جبکہ اس کے متعدد لسانی تراجم کو (ساتھ درج عربی کے لیے) محض تشریح کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اسلام میں جن باتوں پر ایمان رکھنا ضروری ہے انکا ذکر اجزائے ایمان کے قطعے میں آچکا ہے، ان کے علاوہ توحید (شرک سے پرہیز) اور تخلیق بھی ان اجزاء میں بیان کیے جاسکتے ہیں۔ عبادات میں نمازِ پنجگانہ و نمازِ جمعہ کے علاوہ عید و بقرعید وغیرہ کی نمازیں قابلِ ذکر ہیں ؛ نمازوں کے علاوہ تمام ارکانِ اسلام عبادات میں ہی شمار ہوتے ہیں۔ اہم تہواروں میں عیدالفطر و عید الاضحٰی شامل ہیں۔ روزمرہ زندگی میں اسلامی آداب زندگی پر قائم رہنے کی کوشش کی جاتی ہے جن میں معاشرے کے مختلف افراد کے حقوق، |
ur_Arab | مناسب لباس، بے پردگی سے بچاؤ اور آداب و القاب کا خیال رکھا جاتا ہے ؛ خرد و نوش میں حلال و حرام کی تمیز ضروری ہے۔ ایمان، سچائی اور دیانت ہر شعبۂ زندگی میں ملحوظ خاطر رکھنے کی تاکید کی جاتی ہے ؛ کام کاج اور فرائض منصبی کو درست طور پر ادا کرنا اور محنت کی عظمت کے بارے میں متعدد احادیث بیان کی جاتی ہیں۔ مزید دیکھیے انتقاد بر اسلام تاریخ اسلام اسلام اور دیگر مذاہب اسلام بلحاظ ملک اسلامی ادب مسلمانوں میں تفرقات اسلامیات نومسلم شخصیات مسلمان شخصیات کی فہرستیں بڑے مذہبی گروہ عالم اسلام تبدیلی مذہب#اسلام اسلامی تاریخ کا خط زمانی اسلام میں ملنساری |
ur_Arab | ابوحفص عمر فاروق بن خطاب عدوی قرشی (586ء/590ء، مکہ - 6 نومبر 644ء، مدینہ) ابوبکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، کے سسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔ عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں،جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔ عمر بن خطاب ہجری تقویم کے بانی ہیں، ان کے دور خلافت میں عراق، مصر، لیبیا، سرزمین شام، ایران، خراسان، مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیا اور سجستان فتح ہو کر مملکت اسلامی میں شامل ہوئے اور اس کا رقبہ بائیس لاکھ اکاون ہزار اور تیس (22,51,030) مربع میل پر پھیل گیا۔ عمر بن خطاب ہی کے دور خلافت میں پہلی مرتبہ یروشلم فتح ہوا، اس طرح ساسانی سلطنت کا مکمل رقبہ اور بازنطینی سلطنت کا تقریباً تہائی حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگین آ گیا۔ عمر بن خطاب نے جس مہارت، شجاعت اور عسکری صلاحیت سے ساسانی سلطنت کی مکمل شہنشاہیت کو دو سال سے بھی کم عرصہ میں زیر کر لیا، نیز اپنی سلطنت و حدود سلطنت کا انتظام، رعایا کی جملہ ضروریات کی نگہداشت اور دیگر امور سلطنت کو جس خوش اسلوبی اور مہارت و ذمہ داری کے ساتھ نبھایا وہ ان کی عبقریت کی دلیل ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے سے یہ بات معلوم ہونا بھی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ کچھ احادیث اور تاریخی کتابوں کے واقعات میں راویوں پر علما اسلام کی طرف |
ur_Arab | سے جرح بھی کی گئی ہے اور بہت سے راویوں کے حالات معلوم نہیں ہیں۔مسلمان امت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطھار کے بارے میں صحیح عقائد قرآن اور مستند و صحیح احادیث نبوی سے لیتے ہیں۔بعض روایات جو کتب احادیث و تاریخ میں اہل بدعت راویوں کی بھی ہیں وہ اس لیے قابل اعتبار نہیں کیونکہ علمائے اسلام نے بدعت سے نسبت رکھنے والی روایات کو مردود قرار دیا ہے۔ نام و نسب عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزّٰی بن ریاح بن عبد اللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوّیٰ بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان جبکہ والدہ کا نام خنتمہ تھا جو عرب کے مشہور سردار ہشام بن مغیرہ کی بیٹی تھیں آپ کا لقب فاروق، کنیت ابو حفص، لقب و کنیت دونوں محمد کے عطا کردہ ہیں۔ آپ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا خاندان ایام جاہلیت سے نہایت ممتاز تھا، آپ کے جدا علیٰ عدی عرب کے باہمی منازعات میں ثالث مقرر ہوا کرتے تھے اور قریش کو کسی قبیلہ کے ساتھ کوئی ملکی معاملہ پیش آجاتا تو سفیر بن کر جایا کرتے تھے اور یہ دونوں منصب عدی کے خاندان میں نسلا بعد نسل چلے آ رہے تھےددھیال کی طرح عمر ننھیال کی طرف سے بھی نہایت معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے، آپ کی والدہ ختمہ، ہاشم بن مغیرہ کی بیٹی تھیں اور مغیرہ اس درجہ کے آدمی تھے کہ جب قریش کسی قبیلہ سے نبرد آزمائی کے لیے جاتے تھے تو فوج کا اہتمام ان ہی کے متعلق ہوتا تھا۔ ابتدائی زندگی عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے چالیس برس پہلے پیدا ہوئے،ایام طفولیت کے حالات پردہ خفا میں ہیں؛بلکہ سن رشد کے حالات بھی بہت کم معلوم ہیں، شباب کا آغاز ہوا تو ان شریفانہ مشغلوں میں مشغول ہوئے جو شرفائے عرب میں عموماً رائج تھے، یعنی نسب دانی، سپہ گری، پہلوانی اور خطابت میں مہارت پیدا کی، خصوصاً شہسواری میں کمال حاصل کیا، اسی زمانہ میں انہوں نے لکھنا پڑھنا بھی سیکھ لیا تھا |
ur_Arab | ؛چنانچہ زمانہ جاہلیت میں جو لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے ان میں سے ایک عمر بن خطاب بھی تھے۔ تعلیم و تعلم سے فارغ ہونے کے بعد فکر معاش کی طرف متوجہ ہوئے، عرب میں لوگوں کا ذریعہ معاش زیادہ تر تجارت تھا، اس لیے انہوں نے بھی یہی شغل اختیار کیا اور اسی سلسلہ میں دور دور ممالک کا سفر کیا، اس سے آپ کو بڑے تجربے اور فوائد حاصل ہوئے ، آپ کی خودداری بلند حوصلگی، تجربہ کاری اور معاملہ فہمی اسی کا نتیجہ تھی اور ان ہی اوصاف کی بنا پر قریش نے آپ کو سفارت کے منصب پر مامور کر دیا تھا، قبائل میں جب کوئی پیچیدگی پیدا ہو جاتی تھی تو آپ ہی سفیر بن کر جاتے تھے اور اپنے غیر معمولی فہم و تدبر اور تجربہ سے اس عقدہ کو حل کرتے تھے۔ عمر بن خطاب کا ستائیسواں سال تھا کہ ریگستان عرب میں آفتاب اسلام روشن ہوا اور مکہ کی گھاٹیوں سے توحید کی صدا بلند ہوئی، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے لیے یہ آواز نہایت نامانوس تھی اس لیے سخت برہم ہوئے، یہاں تک جس کی نسبت معلوم ہو جاتا کہ یہ مسلمان ہو گیا ہے اس کے دشمن بن جاتے، ان کے خاندان کی ایک کنیز بسینہ نامی مسلمان ہو گئی تھی، اس کو اتنا مارتے کہ مارتے مارتے تھک جاتے، بسینہ کے سوا اور جس جس پر قابو چلتا زدو کوب سے دریغ نہیں کرتے تھے؛لیکن اسلام کا نشہ ایسا نہ تھا جو چڑھ کر اتر جاتا، ان تمام سختیوں پر ایک شخص کو بھی وہ اسلام سے بددل نہ کرسکے۔ اسلام قریش کے سربرآوردہ اشخاص میں ابو جہل اور عمر اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی میں سب سے زیادہ سرگرم تھے، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ ان ہی دونوں کے لیے اسلام کی دعا فرمائی :اللہم اعزالاسلام باحدالرجلین اما ابن ہشام و اما عمر بن الخطاب یعنی خدایا اسلام کو ابو جہل یا عمر بن الخطاب سے معزز کر، مگر یہ دولت تو قسام ازل نے عمر بن خطاب کی قسمت میں لکھ دی تھی، ابو جہل کے حصہ میں کیونکر آتی؟ اس دعائے مستجاب کا اثر یہ ہوا کہ کچھ دنوں کے بعد اسلام کا یہ سب سے بڑا دشمن اس کا سب سے بڑا دوست اور سب سے بڑا جاں نثار بن گیا، یعنی عمر بن خطاب کا دامن دولت ایمان سے بھر گیا""تاریخ و سیرت کی کتابوں میں عمر کی تفصیلاتِ قبول |
ur_Arab | ِ اسلام میں اختلاف ہے۔ ایک مشہور واقعہ جس کو عام طور پر ارباب سیر لکھتے ہیں، یہ ہے کہ جب عمر اپنی انتہائی سختیوں کے باوجود ایک شخص کو بھی اسلام سے بددل نہ کرسکے تو آخر کار مجبور ہوکر (نعوذ باللہ) خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کیا اور تلوار کمر سے لگا کر سیدھے رسول اللہ کی طرف چلے راہ میں اتفاقاً نعیم بن عبداللہ مل گئے، ان کے تیور دیکھ کر پوچھا خیر تو ہے؟ بولے"محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ کرنے جاتا ہوں، انہوں نے کہا پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو خود تمہاری بہن اور بہنوئی اسلام لا چکے ہیں" فوراً پلٹے اور بہن کے یہاں پہنچے، وہ قرآن پڑھ رہی تھیں، ان کی آہٹ پاکر چپ ہوگئیں اور قرآن کے اجزاء چھپالئے؛لیکن آواز ان کے کان میں پڑ چکی تھی، بہن سے پوچھا یہ کیسی آواز تھی؟ بولیں کچھ نہیں، انہوں نے کہا میں سن چکا ہوں کہ تم دونوں مرتد ہو گئے ہو، یہ کہہ کر بہنوئی سے دست وگریباں ہو گئے اور جب ان کی بہن بچانے کو آئیں تو ان کی بھی خبر لی، یہاں تک کہ ان کا جسم لہو لہان ہو گیا؛لیکن اسلام کی محبت پر ان کا کچھ اثر نہ ہوا "بولیں عمر جو بن آئے کرلو ؛لیکن اسلام اب دل سے نہیں نکل سکتا "ان الفاظ نے عمر بن خطاب کے دل پر خاص اثر کیا، بہن کی طرف محبت کی نگاہ سے دیکھا، ان کے جسم سے خون جاری تھا، اسے دیکھ کر اور بھی رقت ہوئی، فرمایا تم لوگ جو پڑھ رہے تھے مجھے بھی سناؤ، فاطمہ ؓ نے قرآن کے اجزاء سامنے لاکر رکھ دیے، اٹھاکر دیکھا تو یہ سورۃ تھی: "سَبَّحَ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِo وَہُوَالْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ" "زمین وآسمان میں جو کچھ ہے سب خدا کی تسبیح پڑھتے ہیں، وہ غالب اور حکمت والا ہے۔" ایک ایک لفظ پر ان کا دل مرعوب ہوتا جاتا تھا، یہاں تک کہ جب اس آیت پر پہنچے: "اٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ" خدا اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ تو بے اختیار |
ur_Arab | پکاراٹھے "اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً عبدُہُ وَ الرَّسُوْلُ" یہ وہ زمانہ تھاجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارقم ؓ کے مکان پر جو کوہ صفا کے نیچے واقع تھا پناہ گزین تھے، عمر بن خطاب نے آستانہ مبارک پر پہنچ کر دستک دی، چونکہ شمشیر بکف تھے، صحابہ کو تردد ہوا؛ لیکن حضرت حمزہ ؓ نے کہا آنے دو، مخلصانہ آیا ہے تو بہتر ہے ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کردوں گا، عمر نے اندر قدم رکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود آگے بڑھے اور ان کا دامن پکڑ کر فرمایا"کیوں عمر!کس ارادے سے آئے ہو؟ نبوت کی پر جلال آواز نے ان کو کپکپا دیا، نہایت خضوع کے ساتھ عرض کیا ایمان لانے کے لیے !آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بے ساختہ اللہ اکبر کا نعرہ اس زور سے مارا کہ تمام پہاڑیاں گونچ اٹھیں۔ یہی روایت تھوڑے سے تغیر کے ساتھ دارقطنی، ابویعلیٰ، حاکم اور بیہقی میں حضرت انس ؓ سے مروی ہے، دونوں میں فرق صرف اس قدر ہے کہ پہلی میں سورہ حدید کی آیۃ ہے، دوسری میں سورۂ طہٰ کی یہ آیت ہے: "" "میں ہوں خدا کوئی نہیں معبود ؛لیکن میں، تو مجھ کو پوجو اور میری یاد کے لیے نماز کھڑی کرو"۔ جب اس آیت پر پہنچے تو بے اختیار لا الہ الا اللہ پکار اٹھے اور دراقدس پر حاضری کی درخواست کی ؛لیکن یہ روایت دو طریقوں سے مروی ہے اور دونوں میں ایسے رواۃ ہیں جو قبول کے لائق نہیں؛چنانچہ دارقطنی نے اس روایت کو مختصراً لکھا ہے کہ اس کا ایک راوی قاسم بن عثمان بصری قوی نہیں۔ذہبی نے مستدرک حاکم کے استدلال میں لکھا ہے کہ روایت واہی و منقطع ہےان دونوں روایتوں کے مشترک راوی اسحاق بن یوسف، قاسم بن عثمان، اسحاق بن ابراہیم الحسینی اور اسامہ بن زید بن اسلم ہیں اور یہ سب کے سب پایہ اعتبار سے ساقط ہیں۔ ان روایتوں کے علاوہ مسند ابن حنبل میں ایک روایت خود عمر سے مروی ہے، جو گو ایک |
ur_Arab | تابعی کی زبان سے مروی ہے تاہم اس باب میں سب سے زیادہ محفوظ ہے، عمر فرماتے ہیں کہ ایک شب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چھیڑنے نکلا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑھ کر مسجد حرام میں داخل ہو گئے اورنماز شروع کردی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ الحاقہ تلاوت فرمائی، میں کھڑا سنتارہا اورقرآن کے نظم واسلوب سے حیرت میں تھا، دل میں کہا جیسا قریش کہا کرتے ہیں، خدا کی قسم یہ شاعر ہے، ابھی یہ خیال آیا ہی تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: "" "یہ ایک بزرگ قاصد کا کلام ہے اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں، تم بہت کم ایمان رکھتے ہو۔" میں نے کہا یہ تو کاہن ہے، میرے دل کی بات جان گیا ہے، اس کے بعد ہی یہ آیت پڑھی: "" "یہ کاہن کا کلام بھی نہیں تم بہت کم نصیحت پکڑتے ہو، یہ تو جہانوں کے پروردگار کی طرف سے اترا ہے"۔ آپ نے یہ سورۃ آخر تک تلاوت فرمائی اور اس کو سن کر اسلام میرے دل میں پوری طرح گھر کرگیا۔ اس کے علاوہ صحیح بخاری میں خود عمر کی زبانی یہ روایت ہے کہ بعثت سے کچھ پہلے یا اس کے بعد ہی وہ ایک بت خانہ میں سوتے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک بت پر ایک قربانی چڑھائی گئی اور اس کے اندرسے آواز آئی، اے جلیج ایک فصیح البیان کہتا ہے: لاَ اِلٰہَ اِلاَّاللہ، اس آواز کا سننا تھا کہ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے ؛لیکن میں کھڑا رہا کہ دیکھوں اس کے بعد کیا ہوتا ہے کہ پھر وہی آواز آئی، اس واقعہ پر تھوڑے ہی دن گذرے تھے کہ لوگوں میں چرچا ہوا کہ یہ نبی ہیں، (باب بنیان الکعبہ باب اسلام عمر ؓ)اس روایت میں اس کا بیان نہیں ہے کہ اس آواز کا عمر پر کیا اثر ہوا۔ پہلی عام روایت بھی اگر صحیح مان لی جائے تو شاید واقعہ کی ترتیب یہ ہوگی کہ اس ندائے غیب پر عمرنے لبیک نہیں کہا اور اس کا کوئی تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی بشارت سے وہ نہ پیدا کرسکے کہ اس میں ان کی رسالت اور نبوت کا کوئی ذکر نہ تھا تاہم چونکہ توحید کا ذکر تھا اس لیے ادھر میلان ہوا ہوگا؛لیکن چونکہ ان کو قرآن سننے کا موقع نہیں ملا، اس لیے اس توحید کی دعوت کی حقیقت نہ معلوم ہو سکی، اس کے بعد |
ur_Arab | جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ الحاقہ جس میں قیامت اور حشر ونشر کا نہایت موثر بیان ہے، نماز میں پڑھتے سنی تو ان کے دل پر ایک خاص اثر ہوا جیسا کہ اس فقرے سے ظاہر ہوتا ہے وقع الاسلام فی قلبی کل موقع، یعنی اسلام میرے دل میں پوری طرح بیٹھ گیا تاہم چونکہ وہ طبعاً مستقل مزاج اور پختہ کار تھے اس لیے انہوں نے اسلام کا اعلان نہیں کیا ؛بلکہ اس اثر کو شاید وہ روکتے رہے ؛لیکن اس کے بعد جب ان کی بہن کا واقعہ پیش آیا اور سورۂ طہٰ پر نظر پڑی جس میں توحید کی نہایت مؤثر دعوت ہے تو دل پر قابو نہ رہا اور بے اختیار کلمہ توحید پکار اٹھے اور دراقدس پر حاضری کی درخواست کی۔ اور اگر وہ پہلی روایت صحیح تسلیم نہ کی جائے تو واقعہ کی سادہ صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اس ندائے غیب نے ان کے دل میں توحید کا خیال پیدا کیا لیکن چونکہ تین برس دعوت محدود اور مخفی رہی تھی اس لیے ان کو اس کا حال نہ معلوم ہو سکا اور مخالفت کی شدت کے باعث کبھی خود بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جانے اور قرآن سننے کا موقع نہ ملا پھر جب رفتہ رفتہ اسلام کی حقیقت کی مختلف آوازیں ان کے کانوں میں پڑتی گئیں تو ان کی شدت کم ہوتی گئی، بالآخر وہ دن آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ان کو سورۃ الحاقہ سننے کا موقع ملا اور وہ لبیک کہتے ہوئے اسلام کے آستانہ پر حاضر ہو گئے۔ زمانۂ اسلام عام مورخین اور ارباب سیر نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کا زمانہ 7 نبوی مقرر کیا ہے اور لکھا ہے کہ آپ چالیسویں مسلمان تھے۔ (آج کل کے ایک نوجوان خوش فہم صاحب قلم نے تمام گذشتہ روایات کو ایک سرے سے ناقابل التفات قرار دے کر یہ دعویٰ کیا ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نہایت قدیم الاسلام تھے، شاید مقصود یہ ہو کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ وغیرہ کے بعد ہی ان کا شمار ہو، اس مقصد کے لیے انہوں نے تنہا بخاری کو سند قرار دیا ہے، چنانچہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام کی تمہید میں وہ لکھتے ہیں کہ: اسی فطرت سلیمہ کی بنا پر ان (عمر ؓ ) کو اسلام سے ہمدردی پیدا ہوئی؛چنانچہ ان کی ہمشیرہ اور سعید بن زید نے اسلام قبول کیا تو گووہ مسلمان نہیں ہوئے تھے تاہم لوگوں کو اسلام پر قائم رہنے کی تاکید کیا کرتے |
ur_Arab | تھے؛چنانچہ سعید نے اس واقعہ کو ایک موقع پر بیان کیا ہے۔" کان عمر بن الخطاب ؓ یقیم علی الاسلام اناواختہ وما اسلم "یعنی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مجھ کو اور اپنی بہن کو اسلام پر مضبوط کرتے تھے حالانکہ خود نہیں اسلام لاتے تھے"۔ اس حدیث میں اپنے موافق مطلب تحریر کرنے کے بعد وہ فرماتے ہیں:"اس حدیث کا بعض لوگوں نے اور بھی مطلب بیان کیا ہے اور قسطلانی نے اس کی تردید کی ہے۔"اس کے بعد بت خانہ میں ندائے غیب سننے کے واقعہ کا ذکر کیا۔ پہلی حدیث سے عمر بن خطاب کی اسلام کے ساتھ ہمدردی اور دوسری میں ہاتف غیب کی آواز سننے کا ذکر ہے، ان دونوں باتوں کو ملا کر انہوں نے فوراً عمر بن خطاب کے آغاز اسلام ہی میں مسلمان ہونے کا قطعی فیصلہ کر دیا اور اسی واقعہ کو ان کے فوری اسلام کا سبب قرار دیدیا، اس کے بعد ایک اور شہادت پر مصنف کی نظر پڑی کہ مرض الموت میں ایک نوجوان نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے یہ الفاظ کہے:"اے امیر المومنین:خدا نے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور سبقت کے ذریعہ سے (جس کو آپ جانتے ہیں) جو بشارت دی ہے اس سے آپ خوش ہوں"اس قدر شواہد اور اتنے دلائل کے بعد فاضل مصنف ناظرین سے داد طلب ہیں کہ: "ایک طرف تو صحیح بخاری کی مستند روایات ہیں جو عمر کی فطری سلامت روی اور حق پرستی کو ظاہر کرتی ہیں، دوسری طرف مزخرفات کا یہ دفتر بے پایاں ہے جو ان میں گذشتہ اوصاف سے متعارض صفات تسلیم کراتا ہے، ناظرین انصاف کریں کہ ان میں سے کس کو صحیح تسلیم کیا جائے؟ ’’ افسوس مصنف کو دیگر مسائل کی طرح اس مسئلہ میں بھی متعدد مسامحات میں گرفتار ہونا پڑا ہے، ہم ناظرین کو مصنف کے ابتدائی دلائل کی طرف توجہ دلاتے ہیں، مصنف نے سب سے پہلے اسلام کے ساتھ عمر بن خطاب کی ہمدردی میں سعید بن زید ؓ کی یہ روایت پیش کی ہے: کان عمر بن الخطاب یقیم علی الاسلام انا واختہ وما اسلم "یعنی عمر مجھ کو اور اپنی بہن کو اسلام پر مضبوط کرتے تھے حالانکہ خود مسلمان نہیں ہوئے تھے۔" اس کے بعد لکھتے ہیں کہ اس حدیث کا بعض لوگوں نے ایک اور مطلب بھی بیان کیا ہے اور قسطلانی نے اس کی تردید کی ہے، یہاں پر مصنف نے اپنا مطلب ثابت کرنے کے لیے بڑی |
ur_Arab | جسارت سے کام لیا ہے، اول توحدیث کے لفظ میں صریح تحریف کی ہے اور تحریف بھی ادب عربی کے خلاف ہے، پھر حدیث میں "یقیم" کی بجائے "موثقی"ہے، جس کے معنی باندھنے کے ہیں نہ کہ مضبوط کرنے اور قائم رکھنے کے یہ عربی کا محاورہ ہے اور قسطلانی نے باندھنے کے معنی لیے ہیں، اور مصنف کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ قسطلانی سے مصنف کے بیان کردہ معنی کی تائید ہوتی ہے، حالانکہ یہ سراسر غلط ہے، ہذا بہتان عظیم؛چنانچہ قسطلانی کے الفاظ یہ ہیں، ( بجبل اوقد کالا سیر تضییقا واھانۃ، یعنی موثقی سے مراد رسی یا تسمہ سے قیدی کی طرح تنگ کرنے اور ذلیل کرنے کے لیے باندھنا ہے، البتہ قسطلانی نے مصنف کے اختیار کردہ غلط معنی کی تردید کی ہے جس کو بعض خوش فہموں نے اختیار کرنا چاہا تھا۔ دوسری حدیث جو مصنف نے عمر کے اسلام کے باب میں پیش کی ہے، یعنی ہاتف غیب کی آواز، اس روایت میں کوئی ایسا فقرہ نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ عمر بن خطاب اس کو سن کر متاثر ہوئے اور فورا اسلام لے آئے، اس قصہ کے آخر میں یہ صاف مذکور ہے کہ اس کے بعد تھوڑے ہی دن گذرے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا شہرہ ہوا، اس لیے یہ بالکل ہی آغاز اسلام کا واقعہ ہوگا ، اگر اسی وقت حضرت عمر ؓکا اسلام لانا ثابت ہو جائے تو اس سے یہ بھی ثابت ہو جائے گا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی ولادت سے پہلے ہی آپ مسلمان ہو چکے تھے جو قطعی غلط ہے، جیسا کہ آگے ثابت ہوگا۔ آئیے اب ہم صحیح بخاری ہی کے ارشادات پر چل کر عمرکے اسلام کی تاریخ تلاش کریں، عمرکے اسلام کے واقعہ کے بیان میں حضرت عبد اللہ بن عمر بن خطاب ؓ کے یہ الفاظ بخاری میں ہیں:"حضرت عمرؓ مسلمان ہوئے تو ایک ہنگامہ برپا ہوگیا، مشرکین بکثرت ان کے مکان پرجمع ہو گئے اورکہنے لگے صبا عمر، عمر بے دین ہو گئے، حضرت عمرؓ بن خطاب خوف زدہ گھر کے اندر تھے اور میں مکان کی چھت پرتھا۔" اس روایت سے ظاہر ہے کہ عمر کے اسلام کے وقت نہ صرف یہ کہ وہ پیدا ہوچکے تھے ؛بلکہ سن تمیز کے اس درجہ پر پہنچ چکے تھے کہ ان کو لڑکپن کے واقعات وضاحت سے یادرہ گئے |
ur_Arab | اورتجربہ اس کا شاہد ہے کہ 5 ، 6 سال کابچہ واقعات کو اس طرح سے محفوظ نہیں رکھ سکتا، آگے چلئے، 3ھ یعنی بعثت کے سولہویں سال غزوہ ٔاحد ہوا، بخاری میں خود حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ اس وقت ان کی عمر 14 سال تھی اس لیے چھوٹی عمر کے بچوں کے ساتھ چھانٹ دیے گئے تھے اور مجاہدین میں نہیں لیے گئے، اس حساب سے بعثت کے دوسال بعد آپ کی پیدائش ماننی پڑے گی، اورکم از کم پانچ سال کی عمر واقعات محفوظ رہنے کے لیے ماننی ہوگی توپانچ سال یہ اور دو سال بعد بعثت کے کل سات سال ہوجاتے ہیں، لہذا خود صحیح بخاری کی تائید سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عمر کا زمانہ اسلام 7ھ بعثت ہو گا، اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ ہاتف غیب کی آواز سننے کے سات سال بعد اسلام لائے۔) عمرکے مسلمان ہوجانے سے اسلام کی تاریخ میں ایک نیا دور شروع ہو گیا، اس وقت تک چالیس یا اس سے کچھ کم وبیش آدمی دائرہ اسلام میں داخل ہوچکے تھے ؛لیکن وہ نہایت بے بسی ومجبوری کے عالم میں تھے، علانیہ فرائض مذہبی ادا کرنا تو درکنار اپنے کو مسلمان ظاہر کرنا بھی خطرہ سے خالی نہ تھا اور کعبہ میں نماز پڑھنا تو بالکل ناممکن تھا، عمر کے اسلام لانے سے دفعتاً حالت بدل گئی، انہوں نے علانیہ اپنے اسلام کا اظہار کیا، صرف اتنا ہی نہیں ؛بلکہ مشرکین کو جمع کرکے بآواز بلند اپنے ایمان کا اعلان کیا، مشرکین نہایت برافروختہ ہوئے ؛لیکن عاص بن وائل نے جو رشتہ میں عمر بن خطاب کے ماموں تھے، ان کو اپنی پناہ میں لے لیا، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ قبول اسلام سے پہلے اپنی آنکھوں سے مسلمانوں کی مظلومیت کا تماشہ دیکھتے تھے اس لیے شوق مساوات نے اسے پسند نہ کیا کہ وہ اسلام کی نعمت سے متمتع ہونے کے بعد عاص بن وائل کی حمایت کے سہارے اس کے نتائج سے محفوظ رہیں، اس لیے انہوں نے پناہ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور برابر ثبات و استقلال کے ساتھ مشرکین کا مقابلہ کرتے رہے، یہاں تک کہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ برابر کعبہ میں جاکر نماز اداکی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ حق، باطل کے مقابلہ میں سر بلند ہوا اور عمر کو اس صلہ میں دربار نبوت سے فاروق کا لقب |
ur_Arab | مرحمت ہوا۔ ، ہجرت مکہ مکرمہ میں جس قدر مسلمانوں کی تعداد بڑہتی گئی، اسی قدر مشرکین قریش کے بغض و عناد میں بھی ترقی ہوتی گئی،اگر پہلے وہ صرف فطری خونخواری اور جوش مذہبی کی بناپر مسلمانوں کو اذیت پہنچاتے تھے تو اب انہیں سیاسی مصالح نے مسلمانوں کے کامل استیصال پر آمادہ کر دیا تھا، سچ یہ ہے کہ اگر بلا کشان اسلام میں غیر معمولی جوش ثبات اور وارفتگی کا مادہ نہ ہوتا ایمان پر ثابت قدم رہنا غیر ممکن تھا۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ 7 نبوی میں اسلام لائے تھے اور 13 نبوی میں ہجرت ہوئی،اس طرح گویا انہوں نے اسلام لانے کے بعد تقریباً 7،6 برس تک قریش کے مظالم برداشت کیے،جب مسلمانوں کو مدینہ کی جانب ہجرت کی اجازت ملی تو عمر بن خطاب بھی اس سفر کے لیے آمادہ ہوئے اور بارگاہ نبوت سے اجازت لے کر چند آدمیوں کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور اس شان کے ساتھ روانہ ہوئے کہ پہلے مسلح ہوکر مشرکین کے مجمعوں سے گزرتے ہوئے خانہ کعبہ پہنچے، نہایت اطمینان سے طواف کیا، نماز پڑھی، پھر مشرکین سے مخاطب ہوکر کہا جس کو مقابلہ کرنا ہو وہ مکہ سے باہر نکل کر مقابلہ کرلے ؛لیکن کسی کی ہمت نہ ہوئی اوروہ مدینہ روانہ ہو گئے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مدینہ پہنچ کر قبا میں رفاعہ بن عبدالمنذر کے مہمان ہوئے، قبا کا دوسرانام عوالی ہے؛چنانچہ صحیح مسلم میں ان کی فرودگاہ کا نام عوالی ہی لکھا ہے، عمرکے بعد اکثر صحابہ نے ہجرت کی یہاں تک کہ 622ء میں خود آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم بھی مکہ کی گھاٹیوں سے نکل کر مدینہ کے افق سے ضوافگن ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ تشریف لانے کے بعد غریب الوطن مہاجرین کے رہنے سہنے کا اس طرح انتظام فرمایا کہ ان میں اور انصار میں برادری قائم کردی، اس موقع پر انصار نے عدیم النظیر ایثار سے کام لے کر اپنے مہاجر بھائیوں کو مال واسباب میں نصف کا شریک بنالیا، اس رشتہ کے قائم کرنے میں درجہ و مراتب کا خاص طور پر خیال رکھا گیا تھا یعنی جو مہاجر جس رتبہ کا تھا اسی حیثیت کے انصاری سے اس کی برادری قائم کی گئی تھی؛چنانچہ عمر ؓ کے برادر اسلام حضرت عتبہ بن مالک قرار پائے تھے جو قبیلہ بنی سالم کے م |
ur_Arab | عزز رئیس تھے۔ مدینہ کا اسلام مکہ کی طرح بے بس و مجبور نہ تھا؛بلکہ اب آزادی اور اطمینان کا دور تھا اور اس کا وقت آگیا تھا کہ فرائض وارکان محدود اور معین کیے جائیں نیز مسلمانوں کی تعداد وسیع سے وسیع تر ہوتی جاتی تھی اور وہ دور دور کے محلوں میں آباد ہونے لگے تھے، اس بنا پر شدید ضرورت تھی کہ اعلان نماز کا کوئی طریقہ معین کیاجائے؛چنانچہ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اسی کا انتظام کرنا چاہا، بعض صحابہ کی رائے ہوئی کہ آگ جلا کر لوگوں کو خبر کی جائے، بعض کا خیال تھا کہ یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح بوق و ناقوس سے کام لیا جائے، عمر بن خطاب نے کہا کہ ایک آدمی اعلان کے لیے کیوں نہ مقرر کیا جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ رائے پسند آئی اور اسی وقت حضرت بلال ؓ کو اذان کا حکم دیا گیا، اس طرح اسلام کا ایک شعار اعظم عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کے موافق قائم ہوا، جس سے تمام عالم قیامت تک دن اور رات میں پانچ وقت توحید ورسالت کے اعلان سے گونجتا رہے گا۔ . غزوات نبوی میں شرکت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مندرجہ ذیل غزوات و واقعات میں شریک رہے۔ ، ، غزوۂ بدر مدینہ میں سب سے پہلا معرکہ بدر کا پیش آیا، عمراس معرکہ میں رائے، تدبر جانبازی اورپامردی کے لحاظ سے ہر موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست و بازو رہے، عاص بن ہشام ابن مغیرہ جو رشتہ میں ان کا ماموں ہوتا تھا، خود ان کے خنجر خاراشگاف سے واصل جہنم ہوا یہ بات عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خصوصیات میں سے ہے کہ اسلام کے مقابلہ میں قرابت ومحبت کے تعلقات سے مطلقاً متاثر نہیں ہوتےتھے، آپ کے ہاتھوں عاص کا قتل اس کی روشن مثال ہے۔ بدر کا میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا، غنیم کے کم وبیش ستر آدمی مارے گئے اور تقریباً اسی قدر گرفتار ہوئے ؛چونکہ ان میں سے قریش کے اکثر بڑے بڑے معزز سردار تھے، اس لیے یہ بحث پیدا ہوئی کہ ان کے ساتھ کیاسلوک کیا جائے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ ؓ سے رائے لی، لوگوں نے مختلف رائیں دی،حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی رائے ہوئی کہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے، عمر نے اختلاف کیا اور کہا کہ ان سب کو قتل کردی |
ur_Arab | نا چاہیے،اور اس طرح کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے ہاتھوں سے اپنے عزیز کو قتل کرے، علی ، عقیل کی گردن ماریں اور فلاں جو میرا عزیز ہےاس کا کام میں تمام کردوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رحمت نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی رائے پسند کی اور فدیہ لے کر چھوڑ دیا، بارگاہ الہی میں یہ چیز پسند نہ آئی اس پر عتاب ہوا اور یہ آیت نازل ہوئی: مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ "کسی پیغمبر کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک وہ خونریزی نہ کرلے۔" حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے گریہ وزاری کی۔ غزوہ احد واقعہ بدر کے بعد خود مدینہ کے یہودیوں سے لڑائی ہوئی اور ان کو جلاوطن کیا گیا اسی طرح غزوہ سویق اور دوسرے چھوٹے چھوٹے معرکے پیش آئے، سب میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سرگرم پیکار رہے، یہاں تک کہ شوال 3ھ میں احد کا معرکہ پیش آیا، اس میں ایک طرف تو قریش کی تعداد تین ہزار تھی جس میں دو سو سوار اور سات سو زرہ پوش تھے، ادھر غازیان اسلام کی کل تعداد صرف سات سو تھی جس میں سوزرہ پوش اور دو سو سوار تھے، 7 شوال ہفتہ کے دن لڑائی شروع ہوئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن جبیرؓ کو پچاس تیر اندازوں کے ساتھ فوج کے عقب میں متعین کر دیا تھا کہ ادھر سے کفار حملہ نہ کرنے پائیں۔ مسلمانوں نے غنیم کی صفیں تہ وبالا کردیں، کفار شکست کھاکر بھاگے اور غازیان دین مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف ہو گئے، تیر اندازوں نے سمجھا کہ اب معرکہ ختم ہوچکا ہے، اس خیال سے وہ بھی لوٹنے میں مصروف ہو گئے، تیر اندازوں کا اپنی جگہ سے ہٹنا تھا کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے)دفعتہ عقب سے زور و شور کے ساتھ حملہ کر دیا، مسلمان چونکہ غافل تھے اس لیے ناگہانی ریلے کو روک نہ سکے، یہاں تک کہ کفار نے خود ذات اقدس صلی اللہ |
ur_Arab | علیہ وسلم پر یورش کردی اور اس قدر تیروں اور پتھروں کی بارش کی کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے، پیشانی پر زخم آیا اور رخساروں میں مغفر کی کڑیاں چبھ گئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گڑھے میں گر پڑے اور لوگوں کی نظروں سے چھپ گئے۔ جنگ کا زور وشورجب کسی قدر کم ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تیس فدائیوں کے ساتھ پہاڑ پر تشریف لائے، اسی اثنا میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ایک دستہ فوج کے ساتھ اس طرف بڑھتے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ خدایا یہ لوگ یہاں تک نہ آنے پائیں، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چند مہاجرین اور انصار کے ساتھ آگے بڑھ کر حملہ کیا اور ان لوگوں کو ہٹادیا۔ ابو سفیان سالار قریش نے درہ کے قریب پہنچ کر پکارا کہ اس گروہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ کوئی جواب نہ دے، ابو سفیان نے پھر عمر اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا نام لے کر کہا، یہ دونوں اس مجمع میں ہیں یا نہیں؟ اور جب کسی نے جواب نہ دیا تو بولا کہ ضرور یہ لوگ مارے گئے، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے نہ رہا گیا، پکار کر کہا:او دشمن خدا!ہم سب زندہ ہیں، ابوسفیان نے کہا"اعل ھبل" یعنی اے ہبل بلند ہو، (ہبل ایک بت کا نام تھا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب سے فرمایا جواب دو، اللہ اعلیٰ واجل یعنی خدا بلند وبرتر ہے۔ غزوہ احد کے بعد 3ھ میں حضرت عمر بن خطاب کو یہ شرف حاصل ہوا کہ ان کی صاحبزادی حضرت حفصہ ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں، 4ھ بنو نضیر کو ان کی بدعہدی کے باعث مدینہ سے جلاوطن کیا گیا، اس واقعہ میں بھی حضرت عمرؓ بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ شریک رہے، غزوہ خندق 5ھ میں غزوہ خندق پیش آیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے باہر نکل کر خندق تیار کرائی، دس ہزار کفار نے خندق کا محاصرہ کیا، وہ لوگ کبھی کبھی خندق میں گھس کر حملہ کرتے تھے، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کے ادھر ادھر کچھ کچھ فاصلے پر اکابر صحابہ کو متع |
ur_Arab | ین فرمادیا تھا کہ دشمن ادھر سے نہ آنے پائیں، ایک حصہ پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ متعین تھے؛چنانچہ یہاں پر ان کے نام کی ایک مسجد آج بھی موجود ہے، ایک دن کافروں کے مقابلہ میں ان کو اس قدر مصروف رہنا پڑا کہ عصر کی نماز قضا ہوتے ہوتے رہ گئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر عرض کیا کہ آج کافروں نے نماز پڑھنے تک کا موقع نہ دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے بھی اب تک عصر کی نماز نہیں پڑھی، کامل ایک ماہ کے محاصرہ کے بعد مسلمانوں کے ثبات واستقلال کے آگے کافروں کے پاؤں اکھڑ گئے اور یہ میدان بھی غازیوں کے ہاتھ رہا۔ بیعت الرضوان اور صلح حدیبیہ 6ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیارت کعبہ کا ارادہ فرمایا اور اس خیال سے کہ کسی کو لڑائی کا شبہ نہ ہو، حکم دیا کہ کوئی ہتھیار باندھ کر نہ چلے،ذوالحلیفہ پہنچ کر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خیال ہوا کہ دشمنوں میں غیر مسلح چلنا مصلحت نہیں ہے؛چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رائے کے موافق مدینہ سے اسلحہ منگوا لئے، مکہ کے قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ قریش نے عہد کر لیا ہے کہ مسلمانوں کو مکہ مکرمہ میں قدم نہ رکھنے دیں گے، چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لڑنا مقصود نہیں تھا اس لیے مصالحت کے خیال سے حضرت عثمان بن عفان ؓ کو سفیر بناکر بھیجا ، قریش نے ان کو روک رکھا جب کئی دن گزر گئے تو یہ خبر مشہور ہو گئی کہ وہ شہید ہو گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر سن کر صحابہ ؓ جو تعداد میں چودہ سو تھے،ایک درخت کے نیچے جہاد پر بیعت لی؛چنانچہ قرآن مجید کی اس آیت میں "لَقَدْ رَضِیَ اللہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ"، اسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیعت سے پہلے ہی لڑائی کی تیاری شروع کردی تھی، ہتھیار سج رہے تھے کہ خبر ملی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیعت لے رہے ہیں، اسی وقت بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے اور جہاد کے لیے |
ur_Arab | دست اقدس پر بیعت کی۔ قریش مصر تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سال مکہ میں داخل نہیں ہوسکتے،آخر بڑے ردو قدح کے بعد ایک معاہدہ پر طرفین رضا مند ہو گئے، اس معاہدہ میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر قریش کا کوئی آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں چلا جائے تو اس کو قریش کے پاس واپس کر دیا جائے گا؛لیکن اگر مسلمانوں کا کوئی شخص قریش کے ہاتھ آ جائے تو ان کو نہ واپس کرنے کا اخیتار ہوگا، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی غیور طبیعت اس شرط سے نہایت مضطرب ہوئی اور خود سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوکر دریافت کیا کہ جب ہم حق پر ہیں تو باطل سے اس قدر دب کر کیوں صلح کرتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں خدا کا پیغمبر ہوں اور خدا کے حکم کے خلاف نہیں کرتا، اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بھی یہی گفتگو کی، انہوں نے بھی یہی جواب دیا،بعد کو حضرت عمرؓ بن خطاب کو اپنی گفتگو پرندامت ہوئی اور اس کے کفارے میں کچھ خیرات کی۔ غرض معاہدہ صلح لکھا گیا، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی اس پر اپنے دستخط ثبت کیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کا قصد کیا، راہ میں سورہ "اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا"نازل ہوئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر سنایا اور فرمایا کہ آج ایسی سورۃ نازل ہوئی ہے جو مجھ کو دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے۔ . غزوہ خیبر 7ھ میں واقعہ خبیر پیش آیا، یہاں یہودیوں کے بڑے بڑے مضبوط قلعے تھے جن کا مفتوح ہونا آسان نہ تھا، پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سپہ سالار ہوئے، ان کے بعد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس خدمت پر مامور ہوئے؛ لیکن یہ فخر حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے مقدر ہو چکا تھا چنانچہ آخر میں جب آپ کو علم مرحمت ہوا تو آپ کے ہاتھوں خیبر کا رئیس مرحب مارا گیا اور خبیر مفتوح ہوا، آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر کی زمین مجاہدوں کو تقسیم کردی؛چنانچہ ایک ٹکڑا ثمغ نامی حضرت عمر بن خطاب رضی |
ur_Arab | اللہ تعالیٰ عنہ کے حصہ میں آیا، انہوں نے اس کو راہ خدا میں وقف کر دیا، اسلام کی تاریخ میں یہ پہلا وقف تھا جو عمل میں آیا۔ فتح مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قریش کے درمیان میں حدیبیہ میں جو معاہدہ ہوا خیبر کے بعد قریش نے اس کو توڑدیا، ابوسفیان نے پیش بندی کےخیال سے مدینہ آکر عذر خواہی کی؛لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، اس لیے وہ اٹھ کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس گیا کہ وہ اس معاملہ کو طے کرا دیں، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس سختی سے جواب دیا کہ وہ بالکل نا امید ہو گیا، غرض نقض عہد کے باعث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہزار مجاہدین کے ساتھ رمضان 8ھ میں مکہ کا قصد فرمایا، قریش میں مقابلہ کی طاقت نہ تھی، اس لیے انہوں نے کوئی مزاحمت نہ کی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہایت جاہ و جلال کے ساتھ مکہ مکرمہ میں فاتحانہ داخل ہوئے اور باب کعبہ پر کھڑے ہوکر نہایت فصیح وبلیغ تقریری کی جو تاریخوں میں بعینہ مذکور ہے، پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر مقام صفا پر لوگوں سے بیعت لینے کے لیے تشریف لائے لوگ جوق درجوق آتے تھے اور بیعت کرتے جاتے تھے،حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قریب ؛لیکن کسی قدر نیچے بیٹھے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیگانہ عورتوں کے ہاتھ مس نہیں کرتے تھے، اس لیے جب عورتوں کی باری آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اشارہ کیا کہ تم ان سے بیعت لو؛چنانچہ تمام عورتوں نے ان ہی کے ہاتھ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی۔ غزوہ حنین فتح مکہ کے بعد اسی سال ہوازن کی لڑائی پیش آئی جو غزوہ حنین کے نام سے مشہو رہے،حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس جنگ میں بھی نہایت ثابت قدمی اور پامردی کے ساتھ شریک کار زار رہے، پھر 9ھ میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ قیصر روم عرب پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کو تیاری کا حکم دیا اورجنگی تیاریوں کے لیے زر ومال سے اعانت کی ترغیب دلائی،اکثر صحابہ نے بڑی بڑی رقمیں پیش کیں عمر بن |
ur_Arab | خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس موقع پر اپنے تمام مال و املاک کا آدھا حصہ لاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ غزوہ تبوک اسلحہ اور سامان رسد مہیا ہو جانے کے بعد مجاہدین نے مقام تبوک کا رخ کیا ، یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ خبر غلط تھی ، اس لیے چند روز قیام کے بعد سب لوگ واپس آگئے۔ حجۃ الوداع 10ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع کے لیے تشریف لے گئے، حضرت عمرؓ بن خطاب بھی ہمرکاب تھے، اس حج سے واپس آنے کے بعد ابتدا ماہ ربیع الاول دوشنبہ کے دن حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوگئے اور دس روز کی مختصر علالت کے بعد 12 ربیع الاول دوشنبہ کے دن دوپہر کے وقت آپ کا وصال ہو گیا، عام روایت یہ ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ازخود رفتہ ہوکر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اعلان کیا کہ جو شخص یہ کہے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اس کو قتل کر ڈالوں گا۔ شاید اس میں یہ بھی مصلحت ہو کہ منافقین کو فتنہ پردازی کا موقع نہ ملے، پھر بھی فتنہ سقیفہ بنی ساعدہ کھڑا ہی ہو گیا، اگر عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہوقت پر پہنچ کر اپنے ناخن عقل سے اس گتھی کو نہ سلجھاتے تو کیا عجب تھا کہ یہی فتنہ شمع اسلام کو ہمیشہ کے لیے گل کر دیتا لیکن انصار کے ساتھ بہت بحث و مباحثہ کے بعد حضرت عمرؓ بن خطاب نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی اوراس کے بعد اور لوگوں نے بیعت کی۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت صرف سوا دو برس رہی ان کے عہد میں جس قدر بڑے بڑے کام انجام پائے سب میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شریک رہے، قرآن شریف کی تدوین کا کام خاص ان کے مشورہ اور اصرار سے عمل میں آیا ، غرض حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنے عہد خلافت میں تجربہ ہوچکا تھا کہ منصب خلافت کے لیے عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی شخص موزوں نہیں ہوسکتا؛چنانچہ انہوں نے وفات کے قریب اکابر صحابہ سے مشورہ کے بعد ان کو اپنے بعد خلیفہ نامزد کیا اور آئندہ کے لیے مفید مؤثر نصیحتیں کیں جو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے لیے نہایت عمدہ دستور العمل ثابت ہوئیں۔ |
ur_Arab | خلافت حضرت ابوبکر صدیق ؓ تریسٹھ سال کی عمر میں اواخر جمادی الثانی دوشنبہ کے روز وفات پائی اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ مسند آرائے خلافت ہوئے، خلیفۂ سابق کے عہد میں مدعیان نبوت، مرتدین عرب اور منکرین زکوٰۃ کا خاتمہ ہو کر فتوحات ملکی کا آغاز ہوچکا تھا، یعنی 12ھ میں عراق پر لشکر کشی ہوئی اور حیرہ کے تمام اضلاع فتح ہوگئے، اسی طرح 13ھ میں شام پر حملہ ہوا اور اسلامی فوجیں سرحدی اضلاع میں پھیل گئیں، ان مہمات کا آغاز ہی تھا کہ خلیفہ وقت نے انتقال کیا، حضرت عمرؓ بن خطاب نے عنان حکومت ہاتھ میں لی تو ان کا سب سے اہم فرض ان ہی مہمات کو تکمیل تک پہنچانا تھا۔ ہاتھ میں لی تو ان کا سب سے اہم فرض ان ہی مہمات کو تکمیل تک پہنچانا تھا۔ فتوحات عراق سیرت صدیق ؓ میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ مذکور ہوچکا ہےکہ عراق پر حملے کے کیا وجوہ واسباب تھے اور کس طرح اس کی ابتدا ہوئی، یہاں سلسلہ کے لیے مختصراً اس قدر جان لینا چاہیے کہ خالد بن ولید بانقیا، کسکر، اور حیرہ کے اضلاع کو فتح کر چکے تھے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے حکم سے مثنی بن حارثہ کو اپنا جانشین کرکے مہم شام کی اعانت کے لیے ان کو شام جانا پڑا، حضرت خالد بن ولید ؓ کا جانا تھا کہ عراق کی فتوحات دفعۃ رک گئیں۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مسند نشین خلافت ہوئے تو سب سے پہلے مہم عراق کی تکمیل کی طرف متوجہ ہوئے، بیعت خلافت کے لیے عرب کے مختلف حصوں سے بے شمار آدمی آئے تھے، اس موقع کو غنیمت سمجھ کر مجمع عام میں آپ نے جہاد کا وعظ کیا؛لیکن چونکہ عام خیال تھا کہ عراق حکومت فارس کا پایہ تخت ہے اور اس کا فتح ہونا نہایت دشوار ہےاس لیے ہر طرف سے صدائے برنخاست کا معاملہ رہا، عمر نے کئی دن تک وعظ کہا ؛لیکن کچھ اثر نہ ہوا، آخر چوتھے دن ایسی پر جوش تقریر کی کہ حاضرین کے دل دہل گئے مثنی شیبانی نے کہا کہ"مسلمانو! میں نے مجوسیوں کو آزما لیا ہے وہ مرد میدان نہیں ہیں، ہم نے عراق کے بڑے بڑے اضلاع فتح کرلئے ہیں اور عجمی اب ہمارا لوہا مان گئے ہیں، اسی طرح قبیلہ ثقیف کے سردار ابوعبیدہ ثقفی نے |
ur_Arab | جوش میں آکر کہا "انالھذا"یعنی اس کے لیے میں ہوں، ابو عبیدہ کی بیعت نے تمام حاضرین کو گرما دیا اور ہرطرف سے آوازیں اٹھیں کہ ہم بھی حاضر ہیں، عمر نے مدینہ اور اس کے مضافات سے ایک ہزار اور دوسری روایت کے مطابق پانچ ہزار آدمی انتخاب کیے اور ابو عبید کو سپہ سالار مقرر کرکے روانہ کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہد میں عراق پر جو حملہ ہوا اس نے ایرانیوں کو بیدار کر دیا تھا؛چنانچہ پوران وخت نے جو صغیر السن یزد گرد شاہِ ایران کی متولیہ تھی فرخ زاد گورنر خراسان کے بیٹے رستم کو جو نہایت شجاع اور مدبر تھا دربار میں طلب کرکے وزیر جنگ بنایا اور تمام اہل فارس کو اتحاد و اتفاق پر آمادہ کیا، نیز مذہبی حمیت کا جوش دلا کر نئی روح پیدا کردی، اس طرح دولت کیانی نے پھر وہی قوت پیدا کرلی جو ہر مزپرویز کے زمانہ میں اس کو حاصل تھی۔ رستم نے حضرت ابو عبیدہ ؓ کے پہنچنے سے پہلے ہی اضلاع فرات میں غدر کرا دیا اور جو مقامات مسلمانوں کے قبضہ میں آ چکے تھے وہ ان کے قبضہ سے نکل گئے، پوران وخت نے ایک اور زبردست فوج رستم کی اعانت کے لیے تیار کی اور نرسی و جابان کو سپہ سالار مقرر کیا یہ دونوں دو راستوں سے روانہ ہوئے، جابان کی فوج نماز ق پہنچ کر ابوعبیدہ بن جراح ؓ کی فوج سے بر سر پیکار ہوئی اور بری طرح شکست کھا کر بھاگی، ایرانی فوج کے مشہور افسر جوشن شاہ اور مروان شاہ مارے گئے، جابان گرفتار ہوا مگر اس حیلہ سے بچ گیا جس شخص نے اس کو گرفتار کیا تھا وہ پہچانتا نہ تھا، جابان نے اس سے کہا کہ میں بڑھاپے میں تمہارے کس کام کاہوں، معاوضے میں دو غلام لے لو اور مجھے چھوڑ دو، اس نے منظور کر لیا، بعد کو معلوم ہوا کہ یہ جابان تھا،لوگوں نے غل مچایا کہ ایسے دشمن کو چھوڑنا نہیں چاہیے ؛لیکن ابو عبیدہ ؓ نے کہا کہ اسلام میں بدعہدی جائز نہیں۔ ابو عبیدہ بن الجراح ؓ نے جابان کو شکست دینے کے بعد سقاطیہ میں نرسی کی فوج گراں کو بھی شکست دی، اس کا اثریہ ہوا کہ قرب وجوار کے تمام رؤسا خود بخود مطیع ہو گئے،نرسی وجابان کی ہزیمت سن کر رستم نے مر |
ur_Arab | وان شاہ کو چار ہزار کی جمعیت کے ساتھ ابو عبیدہ بن الجراح ؓ کے مقابلہ میں روانہ کیا، ابوعبیدہ ؓ نے فوجی افسروں کے شدید اختلاف کے باوجود فرات سے پار اتر کر غنیم سے نبرد آزمائی کی چونکہ اس پار کا میدان تنگ اور ناہموار تھا، نیز عربی دلاورں کے لیے ایران کے کوہ پیکر ہاتھیوں سے یہ پہلا مقابلہ تھا، اس لیے مسلمانوں کو سخت ہزیمت ہوئی اور نوہزارفوج میں سے صرف تین ہزار باقی بچی۔ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس شکست نے نہایت برافروختہ کیا، انہوں نے اپنے پرجوش خطبوں سے تمام قبائل عرب میں آگ لگادی، ان کے جوش کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ نمرو تغلب کے سرداروں نے جو مذہباً عیسائی تھے اپنے قبائل کے مسلمانوں کے ساتھ شرکت کی اور کہا کہ آج عرب وعجم کا مقابلہ ہے، اس قومی معرکہ میں ہم بھی قوم کے ساتھ ہیں، غرض عمرؓ بن خطاب ایک فوج گراں کے ساتھ جریر بجلی کو میدان رزم کی طرف روانہ کیا، یہاں مثنیٰ نے بھی سرحد کے عربی قبائل کو جوش دلا کر ایک زبردست فوج تیار کرلی تھی۔ پوران وخت نے ان تیاروں کا حال سنا تو اپنی فوج خاصہ میں سے بارہ ہزار جنگ آزما بہادر منتخب کرکے مہران بن مہرویہ کے ساتھ مجاہدین کے مقابلہ کے لیے روانہ کیے حیرہ کے قریب دونوں حریف صف آرا ہوئے، ایک شدید جنگ کے بعد عجمیوں میں بھگدڑ پڑگئی، مہران بن تغلب کے ایک نوجوان کے ہاتھ سے مارا گیا، مثنی نے پل کا راستہ روک دیا اور اتنے آدمیوں کو تہ تیغ کیا کہ کشتوں کے پشتے لگ گئے، اس فتح کے بعد مسلمان عراق کے تمام علاقوں میں پھیل گئے۔ حیرہ کے کچھ فاصلہ پر جہاں آج بغداد آباد ہے وہاں اسی زمانہ میں بہت بڑا بازار لگتا تھا، مثنی نے عین بازار کے دن حملہ کیا بازاری جان بچا کر بھاگ گئے اور بے شمار دولت مسلمانوں کے ہاتھ آئی، اسی طرح قرب وجوار کے مقامات میں مسلمانوں کی پیش قدمی شروع ہو گئی، سورا، کسکر، صراۃ اور فلالیح وغیرہ پر اسلامی پھر یرا لہرانے لگا، پایہ تخت ایران میں یہ خبریں پہنچیں تو ایران قوم میں بڑا جوش وخروش پیدا ہو گیا، حکومت کا نظام بالکل بدل دیا، پوران وخت معزول کی گئی، یزد گرد جو سولہ سالہ نوجوان اور خاندان کیانی کا تن |
Subsets and Splits
No community queries yet
The top public SQL queries from the community will appear here once available.