lang
stringclasses
5 values
text
stringlengths
1
2.47k
ur_Arab
ہا وارث تھا تخت سلطنت پر بٹھا دیا گیا، اعیان واکابرملک نے باہم متفق ومتحد ہوکر کام کرنے کا ارادہ کیا، تمام قلعے اور بفوجی چھاؤنیوں کو مستحکم کر دیا گیا، اسی کے ساتھ کوشش کی گئی کہ مسلمانوں کے مفتوحہ مقامات میں بغاوت پھیلائی جائے، ان انتظامات سے سلطنت ایران میں نئی زندگی پیدا ہو گئی اور تمام مفتوحہ مقامات مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئے، مثنی مجبور ہوکر عرب کی سرحد میں ہٹ آئے اور ربیعہ اور مضر کے قبائل کو جو اطراف عراق میں پھیلے ہوئے تھے، ایک تاریخ معین تک علم اسلامی کے نیچے جمع ہونے کے لیے طلب کیا، نیز دربار خلافت کو اہل فارس کی تیاریوں سے مفصل طور پر مطلع کیا۔ عمر نے ایرانیوں کی تیاریوں کا حال سن کر حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو جو بڑے رتبہ کے صحابی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں تھے، بیس ہزار مجاہدین کے ساتھ مہم عراق کی تکمیل پر مامور کیا، اس فوج کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ اس میں تقریباً سترہ صحابی تھے جو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ بدر میں جوہر شجاعت دکھا چکے تھے، تین سو وہ تھے جو فتح مکہ میں موجود تھے اور سات سو ایسے تھے جو خود صحابی نہ تھے ؛لیکن ان کی اولاد ہونے کا فخر رکھتے تھے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے شراف پہنچ کر پڑاؤ کیا، مثنی آٹھ ہزار آدمیوں کے ساتھ مقام ذی قار میں اس عظیم الشان کمک کا انتظار کر رہے تھے کہ اس اثناء میں ان کا انتقال ہو گیا، اس لیے ان کے بھائی مغنی شراف آکر حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے ملے اور مثنی نے جو ضروری مشورے دیے تھے ان سے بیان کیے۔ عمر نے ایام جاہلیت میں نواح عراق کی سیاحت کی تھی اور وہ اس سرزمین کے چپہ چپہ سے واقف تھے اس لیے انہوں نے خاص طور پر ہدایت کردی تھی کہ فوج کا جہاں پڑاؤ ہو وہاں کے مفصل حالات لکھ کر آپ کے پاس بھیجے جائیں؛چنانچہ سعد بن ابی وقاص ؓ نے اس مقام کا نقشہ، لشکر کا پھیلاؤ، فرودگاہ کی حالت اور رسد کی کیفیت سے ان کو اطلاع دی، اس کے جواب میں دربار خلافت سے ایک مفصل بیان آیا جس میں فوج کی نقل وحرکت حملہ کا بندوبست، لشکر کی ترتیب اور فوج کی تقسیم کے متعلق ہدایتیں درج تھیں، اسی کے
ur_Arab
ساتھ حکم دیا گیا کہ شراف سے بڑھ کر قادسیہ کو میدان کا رزار قراردیں اور اس طرح مورچے جمائیں کہ فارس کی زمین سامنے ہو اور عرب کا پہاڑ حفاظت کا کام دے۔ حضرت سعد ؓ نے دربار خلافت کی ہدایت کے مطابق شراف سے بڑھ کر قادسیہ میں مورچہ جمایا اور نعمان بن مقرن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ چودہ نامور اشخاص کو منتخب کر کے دربار ایران میں سفیر بنا کر بھیجا کہ شاہ ایران اور اس کے رفقا کو اسلام کی ترغیب دیں ؛لیکن جو لوگ دولت و حکومت کے نشہ میں مخمور تھے، وہ خانہ بدوش عرب اور ان کے مذہب کو کب خاطر میں لاتے چنانچہ سفارت گئی اور ناکام واپس آئی۔ اس واقعہ کے بعد کئی مہینے تک دونوں طرف سے سکوت رہا، رستم ساٹھ ہزار کے فوج کے ساتھ ساباط میں پڑا تھا اور یزدگرد کی تاکید کے باوجود جنگ سے جی چرا رہا تھا اور مسلمان آس پاس کے دیہات پر چڑھ جاتے تھے اور رسد کے مویشی وغیرہ حاصل کر لاتے تھے جب اس حالت نے طول کھینچا مجبور ہوکر رستم کو مقابلہ کے لیے بڑھنا پڑا، اور ایرانی فوجیں ساباط سے نکل کر قادسیہ کے میدان میں خیمہ زن ہوئیں۔ رستم قادسیہ میں پہنچ کر بھی جنگ کو ٹالنے کی کوشش کرتا رہا اور مدتوں سفراء کی آمدورفت اور نامہ وپیام کا سلسلہ جاری رکھا ؛لیکن مسلمانوں کا آخری اور قطعی جواب یہ ہوتا تھا کہ اگر اسلام یا جزیہ منظور نہیں ہے تو تلوار سے فیصلہ ہوگا، رستم جب مصالحت کی تمام تدبیروں سے مایوس ہو گیا تو سخت برہم ہوا اور قسم کھا کر کہا"آفتاب کی قسم!اب میں تمام عربوں کو ویران کردوں گا۔" . قادسیہ کی فیصلہ کن جنگ اورغضب ناک ہوکر فوج کو کمر بندی کا حکم دے دیااورخود تمام رات جنگی تیاریوں میں مصروف رہا ،صبح کے وقت قادسیہ کا میدان عجمی سپاہیوں سے آدمیوں کا جنگل نظر آنے لگا جس کے پیچھے پیچھے ہاتھیوں کے کالے کالے پہاڑ عجیب خوفناک سماں پیدا کر رہے تھے۔ دوسری طرف مجاہدین اسلام کا لشکرِ جرار صف بستہ کھڑا تھا،اللہ اکبر کے نعروں سے جنگ شروع ہوئی،دن بھر ہنگامہ محشر برپا رہا، شام کو جب تاریکی چھاگئی تو دونوں حریف اپنے اپنے خیموں میں واپس آئے، قادسیہ کا یہ پہلا معرکہ تھا اور عربی میں
ur_Arab
اس کو یوم الارماث کہتے ہیں۔ قادسیہ کی دوسری جنگ معرکہ اغواث کے نام سے مشہور ہے، اس معرکہ میں مہم شام کی چھ ہزار فوج عین جنگ کے وقت پہنچی اور عمر کے قاصد بھی جن کے ساتھ بیش قیمت تحائف تھے عین جنگ کے موقع پر پہنچے اور پکارکرکہا"امیر المومنین نے یہ انعام ان کے لیے بھیجا ہے جو اس کا حق ادا کریں"اس نے مسلمانوں کے جوش و خروش کو اور بھی بھڑکا دیا تمام دن جنگ ہوتی رہی شام تک مسلمان دو ہزار اور ایرانی دس ہزار مقتول ومجروح ہوئے ؛لیکن فتح و شکست کا کچھ فیصلہ نہ ہوا۔ تیسرا معرکہ یوم العماس کے نام سے مشہور ہے، اس میں مسلمانوں نے سب سے پہلے کوہ پیکر ہاتھیوں سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی، کیونکہ ایرانیوں کے مقابلہ میں مجاہدین اسلام کو ہمیشہ اس کالی آندھی سے نقصان پہنچا تھا، اگرچہ قعقاع نے اونٹوں پر سیاہ جھول ڈال کر ہاتھی کا جواب ایجاد کر لیا تھا، تاہم یہ کالے دیو جس طرف جھک پڑتے تھے صف کی صف پس جاتی تھی، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ضخم وسلم وغیرہ پارسی نومسلموں سے اس سیاہ بلا کے متعلق مشورہ طلب کیا، انہوں نے کہا کہ ان کی آنکھیں اور سونڈ بیکار کردیئے جائیں، سعد ؓ نے قعقاع ؓ، جمال اور ربیع کو اس خدمت پر مامور کیا، ان لوگوں نے ہاتھیوں کو نرغے میں لے لیا اور برچھے مار مار کر آنکھیں بیکار کر دیں، قعقاع ؓ نے آگے بڑھ کر پیل سفید کی سونڈ پر ایسی تلوار ماری کہ مستک الگ ہو گئی، جھر جھری لے کر بھاگا، اس کا بھاگنا تھا کہ تمام ہاتھی اس کے پیچھے ہولئے، اس طرح دم کے دم میں یہ سیاہ بادل چھٹ گیا۔ اب بہادروں کو حوصلہ افزائی کا موقع ملا، دن بھر ہنگامہ کار زار گرم رہا، رات کے وقت بھی اس کا سلسلہ جاری رہا اور اس زور کارن پڑا کہ نعروں کی گرج سے زمین دہل اٹھتی تھی، اسی مناسبت سے اس رات کو لیلۃ الہریر کہتے ہیں، رستم پامردی اور استقلال کے ساتھ مقابلہ کرتا رہا؛لیکن آخر میں زخموں سے چور ہوکر بھاگ نکلا اور ایک نہر میں کود پڑاکہ تیر کر نکل جائے گا، بلال نامی ایک مسلمان سپاہی نے تعاقب کیا اور ٹانگ
ur_Arab
یں پکڑ کر نہر سے باہر کھینچ لایا اور تلوار سے کام تمام کر دیا، رستم کی زندگی کے ساتھ سلطنت ایران کی قسمت کا بھی فیصلہ ہو گیا، ایرانی سپاہیوں کے پاؤں اکھڑ گئے، مسلمانوں نے دور تک تعاقب کرکے ہزاروں لاشیں میدان میں بچھا دیں۔ قادسیہ کے معرکوں نے خاندان کسریٰ کی قسمت کاآخری فیصلہ کر دیا، درفش کاریانی ہمیشہ کے لیے سرنگوں ہو گیا اور اسلامی حلم نہایت شان وشوکت کے ساتھ ایران کی سرزمین پر لہرانے لگا، مسلمانوں نے قادسیہ سے بڑھ کر آسانی کے ساتھ بابل، کوثی، بہرہ شیر اورخود نوشیروانی دار الحکومت مدائن پر قبضہ کر لیا، ایرانیوں نے مدائن سے نکل کر جلولا کو اپنا فوجی مرکز قرار دیا، اس دوران میں رستم کے بھائی خرندانے حسن تدبیر سے ایک زبردست فوج جمع کرلی، سعد نے ہاشم بن عتبہ کو جلولا کی تسخیر پر مامور کیا، جلولا چونکہ نہایت مستحکم مقام تھا، اس لیے مہینوں کے محاصرہ کے بعد مفتوح ہوا، یہاں سے قعقاع ؓ کی سپردگی میں ایک جمعیت حلوان کی طرف بڑھی اور خسرووشنوم کو شکست دے کر شہر پر قابض ہو گیا۔ قعقاع ؓ حلوان میں قیام کیا اور عام منادی کرادی کہ جو لوگ اسلام یا جزیہ قبول کر لیں گے وہ مامون و محفوظ رہیں گے، اس منادی پر بہت سے امرا اور رؤسا برضاورغبت اسلام میں آگئے یہ عراق کی آخری فتح تھی،کیونکہ یہاں اس کی حد ختم ہو جاتی ہے۔ تسخیر عراق کے بعد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی دلی خواہش تھی کہ جنگ کا سلسلہ منقطع ہوجائے اور وہ فرمایا کرتے تھے کہ" کاش!ہمارے اور فارس کے درمیان میں آگ کا پہاڑ ہوتا کہ نہ وہ ہم پر حملہ کرسکتے نہ ہم ان پر چڑھ سکتے"لیکن ایرانیوں کو عراق سے نکل جانے کے بعد کسی طرح چین نہیں آتا تھا؛چنانچہ یزد گرد نے معرکہ جلول کے بعد مرو کو مرکزبناکر نئےسرے سے حکومت کے ٹھاٹھ لگائے اورتمام ملک میں فرامین ونقیب بھیج کر لوگوں کو عربوں کی مقاومت پر آمادہ کیا۔ یز گرد کے فرامین نے تمام ممالک میں آگ لگادی اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ آدمیوں کا ٹڈی دل قم میں آکر مجتمع ہوا، یزدگرد نے مروان شاہ کو سرلشکر مقرر کرکے نہاد
ur_Arab
ندکی طرف روانہ کیا، اس معرکہ میں درفش کاویانی جس کو عجم نہایت متبرک سمجھتے تھے، فال نیک کے خیال سے نکالا گیا اور جب مروان شاہ روانہ ہوا تو یہ مبارک پھر یرا اس پر سایہ کرتا جاتا تھا۔ ایرانیوں کی ان تیاریوں کا حال سن کر عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نعمان بن مقرن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تیس ہزار کی جمعیت کے ساتھ اس ایرانی طوفان کو آگے بڑھنے سے روکنے کا حکم دیا نہاوند کے قریب دونوں کی فوجیں سرگرم پیکار ہوئیں اور اس زورکا رن پڑا کہ قادسیہ کے بعد ایسی خونزیز جنگ کوئی نہیں ہوئی تھی، یہاں تک کہ اس جنگ میں خود اسلامی سپہ سالار نعمانی ؓ شہید ہو گئے، ان کے بعد ان کے بھائی نعیم بن مقرن نے علم ہاتھ میں لے کر بدستور جنگ جاری رکھی اور رات ہوتے ہوتے عجمیوں کے پاؤں اکھڑ گئے، مسلمانوں نے ہمدان تک تعاقب کیا، اس لڑائی میں تقریباً تین ہزار عجمی کھیت رہے، نتائج کے لحاظ سے مسلمانوں نے اس کا نام "فتح الفتوح" رکھا، فیروز جس کے ہاتھ سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت مقدر تھی، اسی لڑائی میں گرفتار ہوا تھا۔ عام لشکر کشی واقعہ نہاوند کے بعد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خیال پیدا ہوا کہ جب تک تخت کیانی کا وارث ایران کی سر زمین پر موجود ہے، بغاوت اور جنگ کا فتنہ فرونہ ہوگا، اس بنا پر عام لشکر کشی کا ارادہ کیا اور اپنے ہاتھ سے متعدد علم تیار کرکے مشہور افسروں کو دیے اور انہیں خاص خاص ممالک کی طرف روانہ کیا، چنانچہ 21ھ میں یہ سب غازیان اسلام اپنے اپنے متعینہ ممالک کی طرف روانہ ہو گئے اور نہایت جوش و خروش سے حملہ کرکے تمام ممالک کو اسلام کا زیرنگیں کردیا اور صرف ڈیڑھ دو برس کے عرصہ میں کسریٰ کی حکومت نیست ونابود ہو گئی۔ خاندان کیانی کا آخری تاجدار ایران سے بھاگ کر خاقان کے دربار میں پہنچا، خاقان نے اس کی بڑی عزت وتوقیر کی اورایک فوج گراں کے ساتھ یزد گرد کو ہمراہ لے کر خراسان کی طرف بڑھا اور خاقان نے احنف بن قیس کے مقابلہ میں صف آرائی کی ؛لیکن صفائی کے دوہی ہاتھ نے اس کے عزم واستقلال کو متزلز ل کر دیا اور اس کے ذہن نشین ہو گیا کہ ایسے بہادروں کو چھیڑنا مصلحت نہیں؛چنانچہ اسی وقت کوچ کا حکم دے دیا
ur_Arab
اور اپنے حدود میں واپس چلا گیا۔ یزد گرد کوخاقان کے واپس جانے کی خبر ملی تو مایوس ہوکر خزانہ اور جواہرات ساتھ لیے ترکستان کا عزم کیا، درباریوں نے دیکھا کہ ملک کی دولت ہاتھ سے نکلی جاتی ہے تو روکا ، اس نے نہ مانا تو مقابلہ کرکے تمام مال واسباب ایک ایک کرکے چھین لیا، یزد گرد بے سروسامان خاقان کے پاس پہنچا اور خدا تعالی کی نافرمانی کے باعث مدتوں فرغانہ کی گلیوں میں خاک چھانتا رہا۔ "اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَاءُoوَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُo بِیَدِکَ الْخَیْرُ" "خدایا تو ہی ملکوں کا مالک ہے جس کو چاہتا ہے ملک دیتا ہے جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے، جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے ذلت دیتا ہے، ساری بھلائیاں تیرے ہی ہاتھ میں ہیں۔" احنف بن قیس نے بارگاہِ خلافت میں نامۂ فتح روانہ کیا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام آدمیوں کو جمع کرکے یہ مژدہ جانفزا سنایا اور ایک مؤثر تقریر کی، آخر میں فرمایا کہ آج مجوسیوں کی سلطنت برباد ہو گئی اور اب وہ کسی طرح اسلام کو نقصان نہیں پہنچا سکتے؛لیکن اگر تم بھی صراط مستقیم پر قائم نہ رہے تو خدا تعالی تم سے بھی حکومت چھین کر دوسروں کو دے دیگا۔ فتوحاتِ شام ممالک شام میں سے اجنادین ، بصریٰ اور دوسرے چھوٹے چھوٹے مقامات عہد صدیقی رضی اللہ عنہ میں فتح ہوچکے تھے، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسند آرائے خلافت ہوئے تو دمشق محاصرہ کی حالت میں تھا، خالد بن ولید سیف اللہ ؓ نے رجب 14ھ میں اپنے حسن تدبیر سے اس کو مسخر کر لیا۔ رومی دمشق کی شکست سے سخت برہم ہوئے اور ہرطرف سے فوجیں جمع کرکے مقام بیسان میں مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے جمع ہوئے، مسلمانوں نے ان کے سامنے فحل میں پڑ
ur_Arab
اؤڈالا، عیسائیوں کی درخواست پر معاذ بن جبل ؓ سفیر بن کر گئے؛لیکن مصالحت کی کوئی صورت نہ نکلی، آخر کار ذوقعدہ 14ھ میں فحل کے میدان میں نہایت خونزیز معرکے پیش آئےخصوصاً آخری معرکہ نہایت سخت تھا، بالآخر یہ میدان بھی مسلمانوں کے ہاتھ رہاغنیم کے پاؤں اکھڑ گئے اور مسلمان اردن کے تمام شہر اور مقامات پر قابض ہو گئے، رعایا ذمی قراردی گئی اور ہرجگہ اعلان کر دیا گیاکہ"مقتولین کی جان ومال، زمین، مکانات، گرجے اور عبادت گاہیں سب محفوظ ہیں" دمشق اور اردن مفتوح ہو جانے کے بعد مسلمانوں نے حمص کا رخ کیا،راہ میں بعلبک، حماۃ ، شیراز اور معرۃ النعمان فتح کرتے ہوئے حمص پہنچے اور اس کا محاصرہ کر لیا، حمص والوں نے ایک مدت تک مدافعت کرنے کے بعد مصالحت کرلی سپہ سالار اعظم ابو عبیدہ بن الجراح ؓ نے عبادہ ابن صامت رضی اللہ عنہ کو وہاں متعین کرکے لاذقیہ کا رخ کیا اور ایک خاص تدبیر سے اس کے مستحکم قلعوں پر قبضہ کر لیا۔ حمص کی فتح کے بعد اسلامی فوجوں نے ہر قل کے پایہ تخت انطاکیہ کا رخ کیا ؛لیکن بارگاہ خلافت سے حکم پہنچا کہ اس سال آگے بڑھنے کا ارادہ نہ کیاجائے، اس لیے فوجیں واپس آگئیں۔ ، میدان یرموک اور شام کی قسمت کا فیصلہ دمشق ، حمص اور لاذقیہ کی پیہم اور متواتر ہزیمتوں نے قیصر کو سخت برہم کر دیا اور وہ نہایت جوش و خروش کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے اپنی شہنشاہی کا پورا زور صرف کرنے پر آمادہ ہوگیا اور انطاکیہ میں فوجوں کا ایک طوفان امنڈآیا، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ نے اس طوفان کو روکنے کے لیے افسروں کے مشورہ سے تمام ممالک مفتوحہ کو خالی کرکے دمشق میں اپنی قوت مجمتع کی اور ذمیوں سے جو کچھ جزیہ وصول کیا گیا تھا سب واپس کر دیا گیا، کیونکہ اب مسلمان ان کی حفاظت کرنے سے مجبور تھے اس واقعہ کا عیسائیوں اور یہودیوں پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ روتے تھے اور جوش کے ساتھ کہتے تھے کہ خدا تم کو جلد واپس لائے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مفتوحہ مقامات سے
ur_Arab
مسلمانوں کے ہٹ آنے کی خبر ملی تو پہلے وہ بہت رنجیدہ ہوئے ؛لیکن جب معلوم ہوا کہ تمام افسروں کی یہی رائے تھی تو فی الجملہ تسلی ہو گئی اور فرمایا خداکی اسی میں مصلحت ہوگی، سعید بن عامر ؓ کو ایک ہزار کی جمعیت کے ساتھ مدد کے لیے روانہ کیا اور قاصد کو ہدایت کی کہ خود ایک صف میں جاکر زبانی یہ پیغام پہنچانا: "الاعمر یقرئک الاسلام ویقول لکم یا اھل السلام اصدقوااللقاء وشدو اعلیہم مثداللیوث ولیکونوااھون علیکم من الذر فاناقد علمنا انکم علیہم منصورون" ترجمہ: اے برادران اسلام! عمر بن خطاب ؓ نے بعد سلام کے تم کو یہ پیغام دیا ہے کہ پوری سرگرمی کے ساتھ جنگ کرو اور دشمنوں پر شیروں کی طرح اس طرح حملہ آور ہو کہ وہ تم کو چیونٹیوں سے زیادہ حقیر معلوم ہوں، ہم کو یقین کامل ہے کہ خدا کی نصرت تمہارے ساتھ ہے اور آخر فتح تمہارے ہاتھ ہے" اردن کی حدود میں یرموک کا میدان ضروریات جنگ کے لحاظ سے نہایت باموقع تھا، اس لیے ا س اہم معرکہ کے لیے اسی میدان کو منتخب کیا گیا، رومیوں کی تعداد دولاکھ تھی، اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کی تعداد صرف تیس بتیس ہزار تھی؛لیکن سب کے سب یگانۂ روز گار تھے، اس فوج کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ تقریباً ایک ہزار ایسے بزرگ تھے جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جمال مبارک دیکھا تھا، سو وہ تھے جو غزوہ بدر میں حضور خیر الانام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمرکاب رہ چکے تھے، عام مجاہدین بھی ایسے قبائل سے تعلق رکھتے تھے جو اپنی شجاعت اورسپہ گری میں نظیر نہیں رکھتے تھے۔ یرموک کا پہلا معرکہ بے نتیجہ رہا، پانچویں رجب المرجب 15ھ کو دوسرا معرکہ پیش آیا، رومیوں کے جوش کا یہ عالم تھا کہ تیس ہزار آدمیوں نے پاؤں میں بیڑیاں پہن لی تھیں کہ بھاگنے کا خیال تک نہ آئے، ہزاروں پادری اوربشپ ہاتھوں میں صلیب لیے آگے آگے تھے اور حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا نام لے کر جوش دلاتے تھے، اس جوش واہتمام کے ساتھ رومیوں نے حملہ کیا، فریقین میں بڑی خونریز جنگ ہوئی ؛لیکن انجام کار مسلمانوں کی ثابت قدمی اور پامردی کے آگے ان کے پاؤں اکھڑ گئے،
ur_Arab
تقریباً ایک لاکھ عیسائی کھیت رہے اور مسلمان کل تین ہزار کام آئے، قیصر کو اس ہزیمت کی خبر ملی تو حسرت وافسوس کے ساتھ شام کو الوداع کہہ کر قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہو گیا، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مژدہ فتح سنا تو اسی وقت سجدہ میں گرکر خداکا شکر اداکیا۔ فتح یرموک کے بعد اسلامی فوجیں تمام اطراف ملک میں پھیل گئیں اور قنسرین،انطاکیہ،جومہ، سرمین، توزی، قورس ، تل غرار، ولوک، رعیان وغیرہ چھوٹے چھوٹے مقامات نہایت آسانی کے ساتھ فتح ہو گئے۔ بیت المقدس فسلطین کی مہم پر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ مامور ہوئے تھے، انہوں نے نابلس، لد ، عمواس، بیت جبرین وغیرہ پر قبضہ کر کے 6ھ میں بیت المقدس کا محاصرہ کیا، اس اثناء میں حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ بھی اس مہم سے فارغ ہوکر ان سے مل گئے، بیت المقدس کے عیسائیوں نے کچھ دنوں کی مدافعت کے بعد مصالحت پر آمادگی ظاہر کی اور اپنے اطمینان کے لیے یہ خواہش ظاہر کی کہ امیر المومنین خود یہاں آکر اپنے ہاتھ سے معاہدہ لکھیں، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی خبردی گئی، انہوں نے اکابر صحابہ ؓ سے مشورہ کرکے حضرت علی بن ابی طالب ؓ کو نائب مقرر کیا اور رجب 16ھ میں مدینہ سے روانہ ہوئے۔ بیت المقدس کا سفر حضرت عمرؓ بن خطاب کا یہ سفر نہایت سادگی سے ہوا، مقام جابیہ میں افسروں نے استقبال کیا اور دیر تک قیام کرکے بیت المقدس کا معاہدہ صلح ترتیب دیا، پھر وہاں سے روانہ ہوکر بیت المقدس میں داخل ہوئے،پہلے مسجد میں تشریف لے گئے پھر عیسائیوں کے گرجا کی سیر کی، نماز کا وقت ہوا تو عیسائیوں نے گرجا میں نمازپڑھنے کی اجازت دی ؛لیکن حضرت عمرؓ بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس خیال سے کہ آئندہ نسلیں اس کو حجت قراردے کر مسیحی معبدوں میں دست اندازی نہ کریں، باہر نکل کر نماز پڑھی، بیت المقدس سے واپسی کے وقت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام ملک کا دورہ کیا، سرحدوں کا معائنہ کرکے ملک کی حفاظت کا انتظام کیا اور بخیر وخوبی مدینہ واپس تشریف لائے۔ متفرق معرکے اور فتوحات بیت المقدس کی فتح کے بعد بھی متفرق معرکہ پیش آئے،
ur_Arab
اہل جزیرہ کی مستعدی اورہر قل کی اعانت عیسائیوں نے دوبارہ حمص پر قبضہ کی کوشش کی ؛لیکن ناکام رہے، فلسطین کے اضلاع میں قیساریہ نہایت آباد اور پر رونق شہر تھا، 13ھ میں عمرو بن العاص ؓ نے اس پر چڑھائی کی، 18ھ ء تک متواتر حملوں کے باوجود فتح نہ ہو سکا، آخر 18ھ کے اخیر میں امیر معاویہ ؓ نے ایک یہودی کی مدد سے قلعہ پر قبضہ کر لیا اور شہر پر اسلامی پرچم لہرانے لگا، جزیرہ پر 16ھ میں عبد اللہ بن الغنم نے فوج کشی کی، تکریت کا ایک مہینہ تک محاصرہ رہا اور چوبیس دفعہ حملے ہوئے، آخر میں حسن تدبیر سے مسخر ہوا، باقی علاقوں کو عیاض بن غنم نے فتح کیا، اسی طرح 16ھ میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے خوزستان پر حملہ کیا، 17ھ میں وہ معزول ہوئے اور ان کی جگہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ مقرر ہوئے، انہوں نے نئے سروسامان سے حملہ کیا اور اہواز، مناذر، سوس، رامہرز کو فتح کرتے ہوئے خوزستان کے صدر مقام شوستر کا رخ کیا، یہ نہایت مستحکم اور قلعہ بند مقام تھا؛لیکن ایک شخص کی راہنمائی سے مسلمانوں نے تہ خانہ کی راہ سے گھس کر اس کو مسخر کر لیا، یہاں کا سردار ہر مزان گرفتار ہوکر مدینہ بھیجا گیا، وہاں پہنچ کر اس نے اسلام قبول کیا، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت خوش ہوئے، خاص مدینہ میں رہنے کی جازت دی اور دو ہزار سالانہ مقرر کر دیا۔ . فتوحات مصر حضرت عمرو بن عاص ؓ نے بہ اصرار فاروق اعظم ؓ سے اجازت لے کر چار ہزار فوج کے ساتھ مصر پر حملہ کیا اور فرما، بلیبس، ام ونین وغیرہ کو فتح کرتے ہوئے فسطاط کے قلعہ کا محاصرہ کر لیا اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو امدادی فوج کے لیے لکھا، انہوں نے دس ہزار فوج اور چار افسر بھیجے، زبیر بن العوام ؓ، عبادہ بن صامت ؓ، مقداد بن عمرو ؓ، سلمہ بن مخلد ؓ، حضرت عمرو بن العاص ؓ نے حضرت زبیرؓ بن عوام کو ان رتبہ کے لحاظ سے افسر بنایا سات مہینے کے بعد حضرت زبیر بن عوام ؓ کی غیر معمولی شجاعت سے قلعہ مسخر ہوا اور وہاں سے فوجیں اسک
ur_Arab
ندریہ کی طرف بڑھیں، مقام کربوں میں ایک سخت جنگ ہوئی، یہاں بھی عیسائیوں کو شکست ہوئی اور مسلمانوں نے اسکندریہ پہنچ کر دم لیا اور چند دنوں کے محاصرہ کے بعد اس کو بھی فتح کر لیا، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مژدۂ فتح سنا تو سجدہ میں گرپڑے اور خدا کا شکر اداکیا۔فتح اسکندریہ کے بعد تمام مصر پر اسلام کا سکہ بیٹھ گیا اور بہت سے قبطی برضاو رغبت حلقہ بگوشہ اسلام ہوئے۔ شہادت مغیرہ بن شعبہ ؓ کے ایک پارسی غلام فیروز نامی نے جس کی کنیت ابولولو تھی، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اپنے آقا کے بھاری محصول مقرر کرنے کی شکایت کی، شکایت بے جا تھی، اس لیے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے توجہ نہ کی، اس پر وہ اتنا ناراض ہوا کہ صبح کی نماز میں خنجر لے کر اچانک حملہ کر دیا اور متواتر چھ وار کیے، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے صدمے سے گر پڑے، اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی۔ یہ ایسا زخم کاری تھا کہ اس سے آپ جانبر نہ ہو سکے، لوگوں کے اصرار سے چھ اشخاص کو منصب خلافت کے لیے نامزد کیا کہ ان میں سے کسی ایک کو جس پر باقی پانچوں کا اتفاق ہو جائے اس منصب کے لیے منتخب کر لیا جائے، ان لوگوں کے نام یہ ہیں، علی بن ابی طالب ؓ، عثمان بن عفان ؓ، زبیر بن عوام ؓ، طلحہ بن عبیداللہ ؓ، سعد بن ابی وقاص ؓ، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ، اس مرحلہ سے فارغ ہونے کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو میں دفن ہونے کی جازت لی۔ اس کے بعد مہاجرین انصار، اعراب اور اہل ذمہ کے حقوق کی طرف توجہ دلائی اور اپنے بیٹے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو وصیت کی کہ مجھ پر جس قدر قرض ہو اگر وہ میرے متروکہ مال سے ادا ہو سکے تو بہتر ہے، ورنہ خاندان عدی سے درخواست کرنا اور اگر ان سے نہ ہو سکے تو کل قریش سے ؛لیکن قریش کے سوا اورکسی کو تکلیف نہ دینا۔ سیدنا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر بدھ کے روز حملہ کیا گیا، اور جمعرات کے روز جان بحق نوش کرگئے۔ ابن اثیرؒ کے مطابق "سیدنا حضرت عمر بن
ur_Arab
خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ہوگئی تھی ، 26 ذوالحجه کو حملہ ہوا حملے کے بعد 29 ذوالحجۃ تک ذندہ رہے اور 1 محرم الحرام کو وفات پائی اور دفنایا گیا " نظام خلافت اسلام میں خلافت کا سلسلہ گو حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہد سے شروع ہوا اور ان کے قلیل زمانہ خلافت میں بھی بڑے بڑے کام انجام پائے ؛لیکن منتظم اور باقاعدہ حکومت کا آغاز عمر بن خطاب کے عہد سے ہوا، انہوں نے نہ صرف قیصر وکسریٰ کی وسیع سلطنتوں کو اسلام کے ممالک محروسہ میں شامل کیا؛بلکہ حکومت و سلطنت کا باقاعدہ نظام بھی قائم کیا اوراس کو اس قدر ترقی دی کہ حکومت کے جس قدر ضروری شعبے ہیں، سب ان کے عہد میں وجود پزیر ہوچکے تھے؛لیکن قبل اس کے کہ ہم نظام حکومت کی تفصیل بیان کریں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس حکومت کی ترکیب اور ساخت کیا تھی؟ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت جمہوری طرز حکومت سے مشابہ تھی، یعنی تمام ملکی و قومی مسائل مجلس شوریٰ میں پیش ہوکر طے پاتے تھے، اس مجلس میں مہاجرین و انصار ؓ کے منتخب اور اکابر اہل الرائے شریک ہوتے تھے اوربحث ومباحثہ کے بعد اتفاق آراء یا کثرت رائے سے تمام امور کا فیصلہ کرتے تھے، مجلس کے ممتاز اور مشہور ارکان یہ ہیں: حضرت عثمان ؓ، حضرت علی ؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ، حضرت معاذ بن جبل ؓ، حضرت ابی بن کعب ؓ، حضرت زید بن ثابت ؓ۔ مجلس شوریٰ کے علاوہ ایک مجلس عام بھی تھی جس میں مہاجرین و انصار کے علاوہ تمام سرداران قبائل شریک ہوتے تھے، یہ مجلس نہایت اہم امور کے پیش آنے پر طلب کی جاتی تھی، ورنہ روز مرہ کے کاروبار میں مجلس شوریٰ کا فیصلہ کافی ہوتا تھا، ان دونوں مجلسوں کے سوا ایک تیسری مجلس بھی تھی جس کو ہم مجلس خاص کہتے ہیں، اس میں صرف مہاجرین صحابہ شریک ہوتے تھے۔ مجلس شوریٰ کے انعقاد کا عام طریقہ یہ تھا کہ منادی"الصلاۃ جامعۃ" کا اعلان کرتا تھا لوگ مسجد میں جمع ہو جاتے تھے، اس کے بعد ہر ایک کی رائے دریافت کرتے تھے، جمہوری حکومت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہر شخص کو اپنے حقوق کی حفاظت اور اپنی رائے کے علانیہ اظہار کا موقع دیا جائے، حاکم کے اختیارات محدود ہوں اوراس کے طریق عمل پر ہر شخص کو نکتہ چینی کا حق ہو، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت ان تمام امور
ur_Arab
کی جامع تھی، ہرشخص آزادی کے ساتھ اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا تھا اور خلیفہ وقت اختیارات کے متعلق خود حضرت عمؓر نے متعدد موقعوں پر تصریح کر دی تھی کہ حکومت کے لحاظ سے ان کی کیا حیثیت ہے، نمونہ کے لیے ایک تقریر کے چند فقرے درج ذیل ہیں: "وإنما أنا ومالكم كولي اليتيم إن استغنيت استعففت، وإن افتقرت أكلت بالمعروف، لكم علي أيها الناس خصال فخذوني بها، لكم علي أن لا أجتبي شيئا من خراجكم و مما أفاء اللہ عليكم إلا من وجهہ لكم علي إِذَا وقع فِي يدي أن لا يخرج مني إلا فِي حقہ ومالكم علي أن أزيد أعطياتكم وأرزاقكم إن شاء اللہ وأسد ثغوركم، ولكم علي أن لا ألقيكم فِي المهالك" "مجھ کو تمہارے مال میں اسی طرح حق ہے جس طرح یتیم کے مال میں اس کے مربی کا ہوتا ہے، اگر میں دولتمندہوں گا تو کچھ نہ لوں گا اور اگر صاحب حاجت ہوں گا تو اندازہ سے کھانے کے لیے لوں گا، صاحبو! میرے اوپر تمہارے متعدد حقوق ہیں جن کا تم کو مجھ سے مواخذہ کرنا چاہیے، ایک یہ کہ ملک کا خراج اور مال غنیمت بے جاطورپر صرف نہ ہونے پائے، ایک یہ کہ تمہارے روزینے بڑھاؤں اورتمہاری سرحدوں کو محفوظ رکھوں اور یہ کہ تم کو خطروں میں نہ ڈالوں مذکورہ بالاتقریر صرف دلفریب خیالات کی نمائش نہ تھی ؛بلکہ عمر بن خطاب نہایت سختی کے ساتھ اس پر عامل بھی تھے، واقعات اس کی حرف بحرف تصدیق کرتے ہیں، ایک دفعہ حضرت حفصہ ؓ آپ کی صاحبزادی اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ یہ خبر سن کر کہ مال غنیمت آیا ہے حضرت عمر بن خطاب کے پاس آئیں اور کہا کہ امیر المومنین !میں ذوالقربی میں سے ہوں، اس لیے اس مال میں سے مجھ کو بھی عنایت کیجئے،حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ" بے شک تم میرے خاص مال میں حق رکھتی ہو؛لیکن یہ تو عام مسلمانوں کا مال ہے، افسوس ہے کہ تم نے اپنے باپ کو دھوکا دینا چاہا، وہ بے چاری خفیف ہوکر چلی گئیں، ایک دفعہ خود بیمار پڑے لوگوں نے علاج میں شہد تجویز کیا، بیت المال میں شہد
ur_Arab
موجود تھا ؛لیکن بلا اجازت نہیں لے سکتے تھے، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جا کر لوگوں سے کہا کہ" اگر آپ اجازت دیں تو تھوڑا سا شہد لے لوں" ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں جب عمر کی احتیاط کا یہ حال تھا تو ظاہر ہے کہ مہمات امور میں وہ کسی قدر محتاط ہوں گے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو احکام پر نکتہ چینی کرنے کی ایسی عام آزادی دی تھی کہ معمولی سے معمولی آدمیوں کو خود خلیفۂ وقت پر اعتراض کرنے میں باک نہیں ہوتا تھا، ایک موقع پر ایک شخص نے کئی بار عمر کو مخاطب کرکے کہا"اتق اللہ یاعمر"حاضرین میں سے ایک شخص نے اس کو روکنا چاہا، عمر بن خطاب نے فرمایا"نہیں کہنے دو، اگریہ لوگ نہ کہیں گے تو یہ بے مصرف ہیں اورہم نہ مانیں تو ہم"یہ آزادی صرف مردوں تک محدود نہ تھی؛بلکہ عورتیں بھی مردوں کے قدم بہ قدم تھیں۔ ایک دفعہ عمر مہر کی مقدار کے متعلق تقریر فرما رہے تھے، ایک عورت نے اثنا ئے تقریر ٹوک دیا اور کہا"اتق اللہ یاعمر!"یعنی اے عمر ؓ !خدا سے ڈر!اس کا اعتراض صحیح تھا عمر نے اعتراف کے طورپر کہا کہ ایک عورت بھی عمر ؓ سے زیادہ جانتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ آزادی اور مساوات کی یہی عام ہوا تھی جس نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کو اس درجہ کامیاب کیا اور مسلمانوں کو جوش استقلال اور عزم و ثبات کا مجسم پتلا بنادیا۔ خلافت فاروقی رضی اللّٰہ عنہ کی ترکیب اور ساخت بیان کرنے کے بعد اب ہم انتظامات ملکی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور دکھانا چاہتے ہیں کہ فاروق اعظم نے اپنے عہد مبارک میں خلافت اسلامیہ کو کس درجہ منظم اور باقاعدہ بنادیا تھا اور کس طرح حکومت کی ہرشاخ کو مستقل محکمہ کی صورت میں قائم کر دیا تھا۔ نظام حکومت کے سلسلہ میں سب سے پہلا کام ملک کا صوبوں اور ضلعوں میں تقسیم ہے، اسلام میں سب سے پہلے حضرت عمرؓ نے اس کی ابتدا کی اور تمام ممالک مفتوحہ کو آٹھ صوبوں پر تقسیم کیا، مکہ، مدینہ منورہ ، جزیرہ، بصرہ ، کوفہ، مصر، فلسطین، ان صوبوں کے علاوہ تین صوبے اور تھے، خراسان، آذر بائیجان، فارس، ہر صوبہ میں مفصلہ ذیل بڑے بڑے عہدہ دار رہتے تھے، والی یعنی حاکم صوبہ، کاتب یعنی میر منشی، کاتب دیوان یعنی فوجی محکمہ کا میر منشی،
ur_Arab
صاحب الخراج عینی کلکٹر، صاحب احداث یعنی افسر پولیس، صاحب بیت المال، یعنی افسر خزانہ، قاضی یعنی جج چنانچہ کوفہ میں عمار بن یاسر ؓ والی، عثمان بن حنیف ؓ کلکٹر، عبد اللہ بن مسعود ؓ افسر خزانہ، شریح ؓ قاضی اور عبد اللہ بن خزاعی کاتب دیوان تھے۔ بڑے بڑے عہدہ داروں کا انتخاب عموماً مجلس شوریٰ میں ہوتا تھا، عمر کسی لائق راستباز اورمتدین شخص کا نام پیش کرتے تھے، اور چونکہ عمر میں جوہر شناسی کا مادہ فطرتا تھا اس لیے ارباب مجلس عموما ان کے حسن انتخاب کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس شخص کے تقرر پر اتفاق رائے کرلیتے تھے؛چنانچہ نہاوند کی عظیم الشان مہم کے لیے نعمان بن مقرن کا اسی طریقہ سے انتخاب ہوا تھا۔ احتساب خلیفہ وقت کا سب سے بڑا فرض حکام کی نگرانی اور قوم کے اخلاق و عادات کی حفاظت ہے، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس فرض کو نہایت اہتمام کے ساتھ انجام دیتے تھے، وہ اپنے ہر عامل سے عہد لیتے تھے کہ ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہوگا، باریک کپڑے نہ پہنے گا، چھنا ہوا آٹانہ کھائے گا، دروازہ پر دربان نہ رکھے گا، اہل حاجت کے لیے دروازہ ہمیشہ کھلا رکھے گا ، اسی کے ساتھ اس کے مال و اسباب کی فہرست تیار کرا کے محفوظ رکھتے تھے اور جب کسی عامل کی مالی حالت میں غیر معمولی اضافہ کا علم ہوتا تھا تو جائزہ لے کر آدھا مال بٹا لیتے تھے اور بیت المال میں داخل کر دیتے تھے، ایک دفعہ بہت سے عمال اس بلا میں مبتلا ہوئے، خالد بن صعق نے اشعار کے ذریعہ سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی، انہوں نے سب کی املاک کا جائز ہ لے کر آدھا آدھا مال بٹا لیا اور بیت المال میں داخل کر لیا ، موسم حج میں اعلان عام تھا جس عامل سے کسی کو شکایت ہو وہ فورا بارگاہ خلافت میں پیش کرے، چنانچہ ذراذرا سی شکایتیں پیش ہوتی تھیں اور تحقیقات کے بعد اس کا تدارک کیا جاتا تھا۔ ایک دفعہ ایک شخص نے شکایت کی کہ آپ کے فلاں عامل نے مجھ کو بے قصور کوڑے مارے ہیں، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مستغیث کو حکم دیا کہ وہ مجمع عام میں اس عامل کو کوڑے لگائے، حضرت عمروبن العاص ؓ نے التجا کی کہ عمال پر یہ امر گراں ہوگا، عمر نے فرمایا کہ یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ میں ملزم سے انتقام نہ لوں،
ur_Arab
عمرو بن العاص ؓ نے منت سماجت کرکے مستغیث کو راضی کیا کہ ایک ایک تازیا نے کے عوض دو دو اشرفیاں لے کر اپنے حق سے باز آئے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اپنی جانبازی اور شجاعت کے لحاظ سے تاج اسلام کے گوہر شاہوار اور اپنے زمانہ کے نہایت ذی عزت اور صاحب اثر بزرگ تھے محض اس لیے معزول کر دیے گئے کہ انہوں نے ایک شخص کو انعام دیا تھا، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خبر ہوئی تو انہوں نے حضرت ابو عبیدہ ؓ سپہ سالار اعظم کو لکھا کہ خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ انعام اپنی گرہ سے دیا تو اسراف کیا اور بیت المال سے دیا تو خیانت کی، دونوں صورت میں وہ معزولی کے قابل ہیں۔ حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بصرہ کے گورنر تھے، شکایتیں گزریں کہ انہوں نے اسیران جنگ میں سے 60 رئیس زادے منتخب کرکے اپنے لیے رکھ چھوڑے ہیں اور کاروبار حکومت زیاد بن سفیان کے سپرد کررکھا ہے اور یہ کہ ان کے پاس ایک لونڈی ہے جس کو نہایت اعلیٰ درجہ کی غذا بہم پہنچائی جاتی ہے جو عام مسلمانوں کو میسر نہیں آسکتی،حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مواخذہ کیا تو انہوں نے دو اعتراضوں کا جواب تشفی بخش دیا، لیکن تیسری شکایت کا کچھ جواب نہ دے سکے؛چنانچہ لونڈی ان کے پاس سے لے لی گئی۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے کوفہ میں ایک محل تعمیر کرایا جس میں دیوڑھی بھی تھی، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس خیال سے کہ اہل حاجت کو رکاؤ ہوگا محمد بن مسلمہ ؓ کو حکم دیا کہ جاکر ڈیوڑھی میں آگ لگادیں ؛چنانچہ اس حکم کی تعمیل ہوئی اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ خاموشی سے دیکھتے رہے۔ عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ عامل مصر کی نسبت شکایت پہنچی کہ وہ باریک کپڑے پہنتے ہیں اور ان کے دروازہ پر دربان مقرر ہے، عمر نے محمد بن مسلمہ ؓ کو تحقیقات پر مامور کیا، محمد بن مسلمہ ؓ نے مصر پہنچ کر دیکھا تو واقعی دروازہ پر دربان تھا اور عیاض باریک کپڑے پہنے ہوئے تھے، اس ہیئت اور لباس کے ساتھ لے کر مدینہ آئے، عمر بن خطاب
ur_Arab
نے ان کا باریک کپڑا اتراوادیا اور بالوں کا کرتا پہنا کر جنگل میں بکری چرانے کا حکم دیا، عیاض ؓ کو انکار کی مجال نہ تھی، مگر بار بار کہتے تھے، اس سے مرجانا بہتر ہے، عمر بن خطاب نے فرمایا کہ یہ تو تمہارا آبائی پیشہ ہے، اس میں عار کیوں ہے؟ عیاض نے دل سے توبہ کی اور جب تک زندہ رہے اپنے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے۔ حکام کے علاوہ عام مسلمانوں کی اخلاقی اور مذہبی نگرانی کا خاص اہتمام تھا، عمر جس طرح خود اسلامی اخلاق کا مجسم نمونہ تھے، چاہتے تھے کہ اسی طرح تمام قوم مکارم اخلاق سے آراستہ ہو جائے، انہوں نے عرب جیسی فخار قوم سے فخر وغرور کی تمام علامتیں مٹادیں، یہاں تک کہ آقا اورنوکر کی تمیز باقی نہ رہنے دی، ایک دن صفوان بن امیہ نے ان کے سامنے ایک خوان پیش کیا، عمر بن خطاب نے فقیروں اور غلاموں کو ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا اور فرمایا کہ خدا ان لوگوں پر لعنت کرے جن کو غلاموں کے ساتھ کھانے میں عار آتا ہے۔ ایک دفعہ حضرت ابی بن کعب ؓ جو بڑے رتبہ کے صحابی تھے، مجلس سے اٹھتے تو لوگ ادب اور تعظیم کے خیال سے ساتھ ساتھ چلتے اتفاق سے عمر بن خطاب آنکلے، یہ حالت دیکھ کر ابی بن کعب ؓ کودرہ لگایا، ان کو نہایت تعجب ہوا اور کہا خیر تو ہے؟ عمر بن خطاب نے فرمایا: اوما تری فتنۃ للمتبوع ومذلۃ للتابع۔ "تمہیں معلوم نہیں ہے کہ یہ امر متبوع کے لیے فتنہ اور تابع کے لیے ذلت ہے"۔ شعر و شاعری کے ذریعہ ہجوو بدگوئی عرب کا عام مذاق تھا، عمر بن خطاب نے نہایت سختی سے اس کو بند کر دیا، حطیہ اس زمانہ کا مشہور ہجو گوئی شاعر تھا، عمر نے اس کو قید کر دیا اورآخر اس شرط پر رہا کیا کہ پھر کسی کی ہجو نہیں لکھے گا، ہواپرستی، رندی اور آوارگی کی نہایت شدت سے روک تھا م کی، شعرا کو عشقیہ اشعار میں عورتوں کا نام لینے سے قطعی طور پر منع کر دیا، شراب خوری کی سزا سخت کردی، چالیس درے سے اسی درے کر دیے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کا بڑا خیال تھا کہ لوگ عیش پرست
ur_Arab
ی اور تنعم کی زندگی میں مبتلا ہو کر سادگی کے جوہر سے خالی نہ ہو جائیں، افسروں کو خاص طور پر عیسائیوں اور پارسیوں کے لباس اور طرز معاشرت کے اختیا ر کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے، سفر شام میں مسلمان افسروں کے بدن پر حریر دیباکے حلے اور پر تکلف قبائیں دیکھ کر اس قدر خفا ہوئے کہ ان کو سنگریزے مارے اور فرمایا تم اس وضع میں میرا استقبال کرتے ہو۔ مسلمانوں کو اخلاق ذمیمہ سے باز رکھنے کے ساتھ ساتھ مکارم اخلاق کی بھی خاص طور پر تعلیم دی، مساوات اور عزت نفس کا خاص خیال رکھتے تھے اور تمام عمال کو ہدایت تھی کہ مسلمانوں کو مارانہ کریں اس سے وہ ذلیل ہو جائیں گے۔ ملکی نظم و نسق شام و ایران فتح ہوا تو لوگوں کی رائے ہوئی کہ مفتوحہ علاقے امرائے فوج کی جاگیر میں دے دیے جائیں، حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کہتے تھے کہ جن کی تلواروں نے ملک فتح کیا ہے ان ہی کا قبضہ بھی حق ہے، حضرت بلال ؓ کو اس قدر اصرار تھا کہ عمر بن خطاب نے دق ہو کر فرمایا"اللہم اکفنی بلالا" لیکن خود عمر کی رائے تھی کہ زمین حکومت کی ملک اور باشندوں کے قبضہ میں رہنے دی جائے، حضرت علی ؓ، حضرت عثمان ؓ، اور حضرت طلحہ ؓ بھی عمر کے ہم آہنگ تھے، غرض مجلس عام میں مسئلہ پیش ہوا اور بحث ومباحثہ کے بعد فاروق اعظم ؓ کی رائے پر فیصلہ ہوا۔ عراق کی پیمائش کرائی، قابل زراعت اراضی کا بندوبست کیا، عشرو خراج کا طریقہ قائم کیا، عشرکا طریقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانہ میں جاری ہوچکا تھا ؛لیکن خراج کا طریقہ اس قدر منضبط نہیں ہوا تھا، اسی طرح شام و مصر میں بھی لگان تشحیص کیا ؛لیکن وہاں کا قانون ملکی حالات کے لحاظ سے عراق سے مختلف تھا، تجارت پر عشر یعنی چنگی لگائی گئی، اسلام میں یہ خاص عمر کی ایجاد ہے اور اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ مسلمان جو غیر ممالک میں تجارت کے لیے جاتے تھے ان کو دس فیصد ٹیکس دینا پڑتا تھا، عمر کو معلوم ہوا تو انہوں نے بھی غیر ملکی مال پر ٹیکس لگا دیا، اسی طرح تجارتی گھوڑوں پر بھی زکوٰۃ خاص عمر کے حکم سے قائم کی ورنہ گھوڑے مستثنی تھے، اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ نعوذ باللہ عمر نے رسول اللہ صلی اللہ
ur_Arab
علیہ وسلم کی مخالفت کی ؛بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو الفاظ فرمائے تھے اس سے بظاہر سواری کے گھوڑے مفہوم ہوتے ہیں، اس لیے تجارت کے گھوڑے مستثنی کرنے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ حضرت عمر بن خطاب نے تمام ملک میں مردم شمار کرائی، اضلاع میں باقاعدہ عدالتیں قائم کیں، محکمۂ قضا کے لیے اصول و قوانین بنائے، قاضیوں کی بیش قرار تنخواہیں مقرر کیں تاکہ یہ لوگ رشوت ستانی سے محفوظ رہیں؛چنانچہ سلمان ؓ، ربیعہ ؓ اور قاضی شریح ؓ کی تنخواہیں پانچ پانچ سو درہم ماہانہ تھی۔ اور امیر معاویہ ؓ کی تنخواہ ایک ہزار دینار تھی، حل طلب مسائل کے لیے شعبہ افتاء قائم کیا، حضرت علی ؓ، حضرت عثمان ؓ، حضرت معاذ بن جبل ؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ، حضرت ابی بن کعب ؓ، حضرت زید بن ثابت ؓ اور حضرت ابودرداءؓ اس شعبے کے ممتاز رکن تھے۔ ملک میں امن وامان قائم رکھنے کے لیے عمر نے احداث یعنی پولیس کا محکمہ قائم کیا، اس کے افسر کا نام "صاحب الاحداث" تھا، حضرت ابوہریرہ ؓ کو بحرین کا صاحب الاحداث بنا دیا تو ان کو خاص طور پر ہدایت کی کہ امن وامان قائم رکھنے کے علاوہ احتساب کی خدمت بھی انجام دیں، احتساب کے متعلق جو کام ہیں، مثلاً دکان دار ناپ تول میں کمی نہ کریں، کوئی شخص شاہراہ پر مکان نہ بنائے، جانوروں پر زیادہ بوجھ نہ لادا جائے، شراب علانیہ نہ بکنے پائے، اس قبیل کے اور بہت سے امور کی نگرانی کا جن کا تعلق پبلک مفاد اور احترام شریعت سے تھا اور پورا انتظام تھا اور صاحبان احداث (افسران پولیس) اس خدمت کو انجام دیتے تھے۔ عہد فاروقی رضی اللہ عنہ سے پہلے عرب میں جیل خانوں کا نام ونشان نہ تھا، عمر بن خطاب نے اول مکہ معظمہ میں صفوان بن امیہ کا مکان چار ہزار درہم پر خریدکر اس کو جیل خانہ بنایا، پھر اور اضلا ع میں بھی جیل خانے بنوائے، جلاوطنی کی سزا بھی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہی کی ایجاد ہے؛چنانچہ ابو محجن ثقفی کو بار بار شراب پینے کے جرم میں ایک جزیرہ میں جلاوطن کر دیا تھا۔ . بیت المال خلافت فاروقی سے پہلے مستقل خزانہ کاوجود نہ تھا ؛بلکہ جو کچھ آتا
ur_Arab
اسی وقت تقسیم کر دیا جاتا تھا، ابن سعد کی ایک روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ایک مکان بیت المال کے لیے خاص کر لیا تھا ؛لیکن وہ ہمیشہ بند پڑا رہتا تھا اور اس میں کچھ داخل کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی؛چنانچہ ان کی وفات کے وقت بیت المال کا جائزہ لیا گیا تو صرف ایک درہم نکلا۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے تقریبا 15ھ میں ایک مستقبل خزانہ کی ضرورت محسوس کی اور مجلسِ شوریٰ کی منظوری کے بعد مدینہ منورہ میں بہت بڑا خزانہ قائم کیا، دار الخلافہ کے علاوہ تمام اضلاع اورصوبہ جات میں بھی اس کی شاخیں قائم کی گئیں اور ہر جگہ اس محکمہ کے جدا گانہ افسر مقرر ہوئے، مثلاً اصفہان میں خالد بن حارث ؓ اور کوفہ میں عبد اللہ بن مسعود خزانہ کے افسر تھے، صوبہ جات اوراضلاع کے بیت المال میں مختلف آمدنیوں کی جو رقم آتی تھی وہ وہاں کے سالانہ مصارف کے بعد اختتام سال پر صدر خزانہ یعنی مدینہ منورہ کے بیت المال میں منتقل کردی جاتی تھی، صدر بیت المال کی وسعت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ دار الخلافہ کے باشندوں کی جو تنخواہیں اور وظائف مقرر تھے، صرف اس کی تعداد تین کروڑ درہم تھی، بیت المال کے حساب کتاب کے لیے مختلف رجسٹرڈ بنوائے، اس وقت تک کسی مستقل سنہ کا عرب میں رواج نہ تھا، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 16ھ میں سنہ ہجری ایجاد کرکے یہ کمی بھی پوری کردی۔ تعمیرات اسلام کا دائرہ حکومت جس قدر وسیع ہوتا گیا، اسی قدر تعمیرات کا کام بھی بڑھتا گیا،حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں اس کے لیے کوئی مستقل صیغہ نہ تھا تاہم صوبہ جات کے عمال اور حکام کی نگرانی میں تعمیرات کا کام نہایت منتظم اور وسیع طور پر جاری تھا، ہر جگہ حکام کے بود وباش کے لیے سرکاری عمارتیں تیار ہوئیں، رفاہ عام کے لیے سڑک،پل اور مسجدیں تعمیر کی گئیں، فوجی ضروریات کے لحاظ سے قلعے چھاؤنیاں اوربارکیں تعمیر ہوئیں، مسافروں کے لیے مہمان خانے بنائے گئے، خزانہ کی حفاظت کے لیے بیت المال کی عمارتیں تیار ہوئیں، عمر تعمیرات کے باب میں نہایت کفایت شعار تھے ؛لیکن بیت المال کی عمارتیں عموما ًشاندار اور مستحکم بنواتے تھے؛چنانچہ کوفہ کے بیت المال کو روزبہ نامی ایک مشہور مجوسی معمار
ur_Arab
نے بنایا تھا اور اس میں خسروان فارس کی عمارت کا مسالحۃ استعمال کیا گیا تھا۔ مکہ معظمہ اورمدینہ منورہ میں جو خاص تعلق ہے اس کے لحاظ سے ضروری تھا کہ ان دونوں شہروں کے درمیان میں راستہ سہل اور آرام دہ بنایا جائے، عمر بن خطاب نے17ھ میں اس کی طرف توجہ کی اور مدینہ سے لے کر مکہ معظمہ تک ہر ہر منزل پر چوکیاں،سرائیں اور چشمے تیار کرائے۔ترقی زراعت کے لیے تمام ملک میں نہریں کھدوائی گئیں،بعض نہریں ایسی تھیں جن کا تعلق زراعت سے نہ تھا، مثلاً نہر ابی موسیٰ جو محض بصرہ والوں کے لیے شیریں پانی بہم پہنچانے کے خیال سے دجلہ کو کاٹ کر لائی گئی تھی، یہ نہر نو میل لمبی تھی، اسی طرح نہر معقل جس کی نسبت عربی ضرب المثل ہے اذاجاء نھر اللہ بطل نھرا لمعقل، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ گورنر کوفہ نے بھی ایک نہر تیار کرائی جو سعد بن عمرو بن حرام کے نام سے مشہور ہوئی، اس سلسلہ میں سب سے بڑی اور فائدہ رساں وہ نہر تھی جو نہر امیر المومنین کے نام سے مشہور ہوئی جس کے ذریعہ سے دریائے نیل کو بحیرہ قلزم سے ملادیا گیاتھا۔ مستعمرات مسلمان جب عرب کی گھاٹیوں سے نکل کر شام و ایران کے چمن زار میں پہنچے تو انکو یہ ممالک ایسے خوش آئند نظر آئے کہ انہوں نے وطن کو خیر باد کہہ کر یہیں طرح اقامت ڈال دی اور نہایت کثر ت سے نوآبادیاں قائم کیں،حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں جو شہر آباد ہوئے ان کی ایک اجمالی فہرست درج ذیل ہے۔ بصرہ 14ھ میں عتبہ بن غزوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم سے اس شہر کو بسایا تھا، ابتدا میں صرف آٹھ سو آدمیوں نے یہاں سکونت اختیار کی ؛لیکن اس کی آبادی بہت جلد ترقی کر گئی،یہاں تک کہ زیاد بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد امارت میں صرف ان لوگوں کی تعداد جن کے نام فوجی اندراج میں درج تھے اسی ہزار اور ان کی آل و اولاد کی ایک لاکھ بیس ہزار تھی ، بصرہ اپنی علمی خصوصیات کے لحاظ سے مدتوں مسلمانوں کا مایہ ناز شہر رہا ہے۔ کوفہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی
ur_Arab
اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم سے عراق کے قدیم عرب فرمانروا نعمان بن منذر کے پایہ تخت کو آباد کیااوراس میں چالیس ہزار آدمیوں کی آبادی کے لائق مکانات بنوائے گئے، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس شہر کے بسانے میں غیر معمولی دلچسپی تھی، شہر کے نقشہ کے متعلق خود ایک یادداشت لکھ بھیجی، اس میں حکم تھا کہ شارع ہائے عام چالیس چالیس ہاتھ چوڑی رکھی جائیں، اس سے کم کی مقدار 30 ، 30 ہاتھ اور 20 ، 20 ہاتھ سے کم نہ ہو، جامع مسجد کی عمارت اس قدر وسیع بنائی گئی تھی کہ اس میں چالیس ہزار آدمی آسانی سے نماز ادا کرسکتے تھے، مسجد کے سامنے دو سو ہاتھ لمبا ایک وسیع سائبان تھا جو سنگ رخام کے ستونوں پر قائم کیا گیا تھا، یہ شہر عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کے عہد میں اس عظمت و شان کو پہنچ چکا تھا کہ وہ اس کو راس اسلام فرمایا کرتے تھے، علمی حیثیت سے بھی ہمیشہ ممتاز رہا ہے، امام نخعی، حماد، امام ابو حنیفہ اور امام شعبی رحمہ اللہ علیہما اسی معدن کے لعل و گوہر تھے۔ فسطاط دریائے نیل اور جبل مقطم کے درمیان میں ایک کف دست میدان تھا، عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فاتح مصر نے اثنائے جنگ میں یہاں پڑاؤ کیا، اتفاق سے ایک کبوتر نے ان کے خیمہ میں گھونسلا بنالیا، عمرو بن العاص ؓ نے کوچ کے وقت قصدا اس خیمہ کو چھوڑ دیا کہ اس مہمان کو تکلیف نہ ہو مصر کی تسخیر کے بعد انہوں نے عمرکے حکم سے اسی میدان میں ایک شہر آباد کیا، چونکہ خیمہ کو عربی میں فسطاط کہتے ہیں، اس لیے اس شہر کا نام فسطاط قرار پایا، فسطاط نے بہت جلد ترقی کرلی اور پورے مصر کا صدر مقام ہو گیا، چوتھی صدی کا ایک سیاح ان الفاظ میں اس شہر کے عروج وکمال کا نقشہ کھینچتا ہے: "یہ شہر بغداد کا ناسخ، مغرب کا خزانہ اور اسلام کا فخر ہے، دنیائے اسلام میں یہاں سے زیادہ کسی جامع مسجد میں علمی مجلسیں نہیں ہوتی ہیں، نہ یہاں سے زیادہ کبھی ساحل پر جہاز لنگر انداز ہوتے ہیں۔" موصل یہ پہلے ایک گاؤں کی حیثیت رکھتا تھا،حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو ایک عظیم الشان شہر بنادیا۔ ہرثمہ بن عرفجہ نے بنیاد رکھی اور ایک جامع مسجد تیار کرائی اور چونکہ یہ مشرق ومغرب
ur_Arab
کو آپس میں ملاتا ہے اس لیے اس کا نام موصل رکھا گیا۔ جیزہ فتح اسکندریہ کے بعد عمرو بن العاص ؓ اس خیال سے کہ رومی دریا کی سمت سے حملہ نہ کرنے پائیں، تھوڑی سی فوج لب ساحل مقرر کر دی تھی، ان لوگوں کو دریا کا منظر ایسا پسند آگیا کہ وہاں سے ہٹنا پسند نہ کیا ، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کی حفاظت کے لیے 21ھ میں ایک قلعہ تعمیر کرادیا اور اس وقت سے یہاں ایک مستقل نوآبادی کی صورت پیدا ہو گئی۔ <ref> فوجی انتظامات اسلام جب رومن امپائر سے بھی زیادہ وسیع سلطنت کا مالک ہو گیا اور قیصر و کسریٰ کے عظیم الشان ممالک اس کا ورثہ بن گئے تو اس کو ایک منتظم اور فوجی سسٹم کی ضرورت محسوس ہوئی، 15ھ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس کی طرف توجہ کی اور تمام ملک کو فوجی بنانا چاہا ؛لیکن ابتدا میں ایسی تعلیم ممکن نہ تھی اس لیے پہلے قریش و انصار سے آغاز کیا اور مخرمہ بن نوفل ؓ، جبیر بن مطعم ؓ، عقیل بن ابی طالب ؓ کے متعلق یہ خدمت سپرد کی کہ وہ قریش وانصار کا ایک رجسٹر تیار کریں جس میں ہر شخص کا نام و نسب تفصیل سے درج ہوا اس ہدایت کے مطابق رجسٹر تیار ہوا اور حسب حیثیت تنخواہیں اور ان کی بیوی بچوں کے گزارے کے لیے وظائف مقرر ہوئے مہاجرین اور انصار کی بیویوں کی تنخواہ 200 سے 400 درہم تک اوراہل بدر کی اولاد ذکور کی تنخواہ دو دو ہزار درہم سالانہ مقرر ہوئی، اس موقع پر یہ امر خاص طور پر قابل لحاظ ہے کہ جن لوگوں کی جتنی تنخواہیں مقرر ہوئیں اتنی ہی ان کے غلاموں کی بھی مقرر ہوئیں، اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ فاروق اعظم نے مساوات کا کیسا سبق سکھایا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد اس نظام کو قریش وانصار سے وسعت دے کر تمام قبائل عرب میں عام کر دیا، پورے ملک کی مردم شماری کی گئی اور ہر ایک عربی نسل کی علی قدر مراتب تنخواہ مقرر ہوئی، یہاں تک کہ شیر خوار بچوں کے لیے وظائف کا قاعدہ جاری کیا گیا، گویا عرب کا ہر ایک بچہ اپنے یوم ولادت ہی سے اسلامی فوج کا ایک سپاہی تصور کر لیا جاتا تھا، ہر سپاہی کو تنخواہ کے علاوہ کھانا اور کپڑا بھی ملتا تھا، تنخواہ کی تقسیم کا طریقہ یہ تھا کہ ہر قبیلہ میں ایک عریف ہوتا تھا، اسی طرح ہر دس سپاہی پر ایک افسر
ur_Arab
ہوتا تھا جن کو امرا الاعشار کہتے ہیں، تنخواہیں عریف کو دی جاتی تھیں وہ امرائے عشار کی معرفت فوج میں تقسیم کرتا تھا، ایک ایک عریف کے متعلق ایک ایک لاکھ درہم کی تقسیم تھی، کوفہ اور بصرہ میں سو عریف تھے جن کے ذریعہ سے ایک کروڑ کی رقم تقسیم ہوتی تھی، حسن خدمت اور کار گزاری کے لحاظ سے سپاہیوں اور افسروں کی تنخواہوں میں وقتا فوقتا اضافہ بھی ہوتا رہتا تھا؛چنانچہ زہرہ، عصمہ، اور ضبی وغیرہ نے قادسیہ میں غیر معمولی جانبازی کا اظہا رکیا تھا، اس صلہ میں ان کی تنخواہیں دو دو ہزار سے اڑھائی اڑھائی ہزار کردی گئیں۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فوج کی تربیت کا بہت خیال تھا، انہوں نے نہایت تاکیدی احکام جاری کیے تھے کہ ممالک مفتوحہ میں کوئی شخص زراعت یا تجارت کا شغل اختیار نہ کرنے پائے، کیونکہ اس سے ان کے سپاہیانہ جوہر کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا، سرد اور گرم ممالک پر حملہ کرتے وقت موسم کا بھی کا خاص خیال رکھا جاتا تھا کہ فوج کی صحت اور تندرستی کو نقصان نہ پہنچے۔ قواعد کے متعلق چار چیزوں کے سیکھنے کی سخت تاکید تھی، تیرنا، گھوڑے دوڑانا، تیر لگانا اور ننگے پاؤں چلنا، ہر چار مہینے کے بعد سپاہیوں کو وطن جاکر اپنے اہل و عیال سے ملنے کے لیے رخصت دی جاتی تھی، جفا کشی کے خیال سے حکم تھا کہ اہل فوج رکاب کے سہارے سے سوار نہ ہوں، نرم کپڑے نہ پہنیں، دھوپ سے بچیں حماموں میں نہ نہائیں۔ موسم بہار میں فوجیں عموما سرسبز و شاداب مقامات میں بھیج دی جاتی تھیں، بارکوں اور چھاؤنیوں کے بنانے میں آب و ہوا کی خوبی کا لحاظ رکھا جاتا تھا، کوچ کی حالت میں حکم تھا کہ فوج جمعہ کے دن مقام کرے اور ایک شب وروز قیام رکھے کہ لوگ دم لیں، غرض عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تیرہ سو برس پیشتر فوجی تربیت کے لیے اعلیٰ اصول وضع کر دیے تھے کہ آج بھی اصولی حیثیت سے اس پر کچھ اضافہ نہیں کیا جا سکتا۔ حسب ذیل مقامات کو فوجی مرکز قرار دیا تھا، مدینہ، کوفہ، بصرہ، موصل، فسطاط، دمشق، حمص، اردن، فلسطین، ان مقام کے علاوہ تمام اضلاع میں فوجی بارکیں اور
ur_Arab
چھاؤنیاں تھیں،جہاں تھوڑی تھوڑی فوج ہمیشہ متعین رہتی تھی۔ فوج میں حسب ذیل عہدے دار لازمی طور پر رہتے تھے، خزانچی، محاسب، مترجم، طبیب، جراح، اور جاسوس جو غنیم کی نقل وحرکت کی خبریں بہم پہنچایا کرتے تھے، یہ خدمت زیادہ تر ذمیوں سے لی جاتی تھی چنانچہ قیساریہ کے محاصرہ میں یوسف نامی یہودی نے جاسوسی کی خدمت انجام دی تھی،اسی طرح عراق میں بعض وفادار مجوسی اپنی خوشی سےاس خدمت کو انجام دیتے تھے، تاریخ طبری میں ہے: وکانت تکون لعمرالعیون فی کل جیش "ہر فوج میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جاسوس رہتے تھے۔" آلات جنگ میں تیغ وسنان کے علاوہ قلعہ شکنی کے لیے منجنیق اور دبابہ بھی ساتھ رہتا تھا چنانچہ دمشق کے محاصروں میں منجنیقوں کا استعمال ہواتھا۔ فوج حسب ذیل شعبوں میں منقسم تھی، مقدمہ، قلب، میمنہ، میسرہ، ساقہ، طلیعہ، سفرمینا، روایعنی عقبی گارد، شترسوار، سوار، پیادہ، تیر انداز گھوڑوں کی پرورش و پرداخت کا بھی نہایت اہتمام تھا، ہر مرکز میں چار ہزار گھوڑے ہر وقت سازو سامان سے لیس رہتے تھے، موسم بہار میں تمام گھوڑے سر سبز و شاداب مقامات پر بھیج دیے جاتے تھے، خود مدینہ کے قریب ایک چراگاہ تیار کرائی، اوراپنے ایک غلام کو اس کی حفاظت اور نگرانی کے لیے مقرر کیا تھا، گھوڑوں کی رانوں پر داغ سے"جیش فی سبیل اللہ"نقش کیا جاتا تھا۔ عرب کی تلوار اپنی فتوحات میں کبھی غیروں کی ممنون احسان نہیں ہوئی ؛لیکن حریف اقوام کو خود ان ہی کے ہم قوموں سے لڑانا فن جنگ کا ایک بڑا اصول ہے، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو نہایت خوبی سے برتا، صدہا عجمی، یونانی اور رومی بہادروں نے اسلامی فوج میں داخل ہوکر مسلمانوں کے دوش بدوش نہایت وفاداری کے ساتھ خود اپنی قوموں سے جنگ کی، قادسیہ کے معرکہ میں دوران میں جنگ ہی میں ایرانیوں کی چار ہزار افواج حلقہ اسلام میں آگئی اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو اسلامی فوج میں شامل کر لیا اور ان کی تنخواہیں مقرر کر دیں، یرموک کے معرکہ میں رومیوں کے
ur_Arab
لشکر کا مشہور سپاہی عین حالت جنگ میں مسلمان ہو گیا اور مسلمانوں کے دوش بدوش لڑکر شہید ہوا۔ . مذہبی خدمات مذہبی خدمات کے سلسلہ میں سب سے بڑا کام اشاعت اسلام ہے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اس میں بہت انہماک تھا ؛لیکن تلوار کے زور سے نہیں؛بلکہ اخلاق کی قوت سے انہوں نے اپنے غلام کو اسلام کی دعوت دی، اس نے باوجود ترغیب وہدایت کے انکار کیا تو فرمایا لا اکراہ فی الدین یعنی مذہب میں جبر نہیں، حکام کو ہدایت تھی کہ جنگ سے پہلے لوگوں کے سامنے محاسن اسلام پیش کر کے ان کو شریعت عزا کی دعوت دی جائے، اس کے علاوہ انہوں نے تمام مسلمانوں کو اپنی تربیت اور ارشاد سے اسلامی اخلاق کا مجسم نمونہ بنادیا تھا، وہ جس طرف گزر جاتے تھے لوگ ان کے اخلاقی تفوق کو دیکھ کر خود بخود اسلام کے گرویدہ ہو جاتے تھے، رومی سفیر اسلامی کیمپ میں آیا تو سالار فوج کی سادگی اور بے تکلفی دیکھ کر خودبخود اس کا دل اسلام کی طرف کھینچ گیا اور وہ مسلمان ہو گیا، مصر کا ایک رئیس مسلمانوں کے حالات ہی سن کر اسلام کا گرویدہ ہو گیا اور دوہزار کی جمعیت کے ساتھ مسلمان ہو گیا۔ وہ عربی قبائل جو عراق وشام میں آباد ہو گئے تھے، نسبتا آسانی کے ساتھ اسلام کی جانب مائل کیے جا سکتے تھے، عمر کو ان لوگوں میں تبلیغ کا خاص خیال تھا چنانچہ اکثر قبائل معمولی کوشش سے حلقہ بگوش اسلام ہو گئے، مسلمانوں کے فتوحات کی بوالعجبی نے بھی بہت سے لوگوں کو اسلام کی صداقت کا یقین دلادیا؛چنانچہ معرکہ قادسیہ کے بعد دیلیم کی چارہزار عجمی فوج نے خوشی سے اسلام قبول کر لیا، ، اسی طرح فتح جلولا کے بعد بہت سے رؤسا برضاورغبت مسلمان ہو گئے جن میں بعض کے نام یہ ہیں: جمیل بن بصہیری، بسطام بن نرسی، رفیل، فیروزان، (ایضا فتح جلولا) عراق کی طرح شام ومصر میں بھی کثرت سے لوگ مسلمان ہوئے؛چنانچہ شہر فسطاط میں ایک بڑا محلہ نو مسلموں کا تھا غرض عمر کے عہد میں نہایت کثرت سے اسلام پھیلا، اس سے بھی بڑ ھ کر یہ کہ آپ دین حنیف کی آئندہ کے لیے راستہ صاف کرگئے۔ اشاعت اسلام کے بعد سب سے بڑا کام خود مسلمانوں کی مذہبی تعلیم وتلقین اور شعار اسلامی کی ترویج تھی، اس کے متعلق عمر کے مساعی
ur_Arab
کا سلسلہ حضرت ابوبکر ؓ ہی کے عہد سے شروع ہوتا ہے، قرآن مجید جو اساس اسلام ہے عمر بن خطاب ہی کے اصرار سے کتابی صورت میں عہد صدیقی میں مرتب کیا گیا تھا، اس کے بعد انہوں نے اپنے عہد میں اس کے درس وتدریس کا رواج دیا، معلمین اور حفاظ اور مؤذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں، حضرت عبادہ بن الصامت ؓ، حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابوالدردا کو جو حفاظ قرآن اور صحابۂ کبار میں سے تھے، قرآن مجید کی تعلیم دینے کے لیے ملک شام میں روانہ کیا، قرآن مجید کو صحت کے ساتھ پڑھنے اور پڑھانے کے لیے تاکیدی احکام روانہ کیے ابن الانباری کی روایت کے مطابق ایک حکم نامہ کے الفاظ یہ ہیں تعلموا اعراب القران کما تعلمون حفظہ، غرض عمر کی مساعی جمیلہ سے قرآن کی تعلیم ایسی عام ہو گئی تھی کہ ناظرہ خوانوں کا تو شمار ہی نہیں، حافظوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی تھی، حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے ایک خط کے جواب میں لکھا تھا کہ صرف میری فوج میں تین سو حفاظ ہیں۔ اصول اسلام میں قرآن کے بعد حدیث کا رتبہ ہے، عمر نے اس کے متعلق جو خدمات انجام دیں ان کی تفصیل یہ ہے: احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو نقل کرا کے حکام کے پاس روانہ کیا کہ عام طور پر اس کی اشاعت ہو، مشاہیر صحابہ کو مختلف ممالک میں حدیث کی تعلیم کے لیے بھیجا؛چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کو ایک جماعت کے ساتھ کوفہ روانہ کیا، عبد اللہ بن مغفل، عمران بن حسین اور معقل بن یسار ؓ کو بصرہ بھیجا، حضرت عبادہ بن الصامت ؓ اور حضرت ابوالدردا ؓ کو شام روانہ کیا، اگرچہ محدثین کے نزدیک تمام صحابہ عدول ہیں؛لیکن عمر اس نکتہ سے واقف تھے کہ جو چیزیں خصائص بشری ہیں، ان سے کوئی زمانہ مستثنیٰ نہیں ہوسکتا ؛چنانچہ انہوں نے روایت قبول کرنے میں نہایت چھان بین اور احتیاط سے کام لیا، ایک دفعہ آپ کسی کام میں مشغول تھے، حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ آئے اور تین دفعہ سلام کرکے واپس چلے گئے، عمر بن خطاب کام سے فارغ ہوئے تو ابو موسیٰ ؓ کو بلا کر دریافت کیا کہ تم واپس کیوں چلے گئے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تین دفعہ اجازت مانگو اگر اس پر بھی نہ
ur_Arab
ملے تو واپس چلے جاؤ، عمر بن خطاب نے فرمایا، اس روایت کا ثبوت دو ورنہ میں تم کو سزا دو گا، حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے حضرت سعید ؓ کو شہادت میں پیش کیا، اسی طرح سقط یعنی کسی عورت کا حمل ضائع کردینے کے مسئلہ میں مغیرہ ؓ نے حدیث روایت کی تو عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شہادت طلب کی جب محمد بن مسلمہ ؓ نے تصدیق کی تو انہوں نے تسلیم کیا، حضرت عباس ؓ کے مقدمہ میں ایک حدیث پیش کی گئی تو عمر نے تائید ثبوت طلب کیا، جب لوگوں نے تصدیق کی تو فرمایا مجھ کو تم سے بدگمانی نہ تھی ؛بلکہ اپنا اطمینان مقصود تھا۔ عمر لوگوں کو کثرت روایت سے بھی نہایت سختی کے ساتھ منع فرماتے تھے؛چنانچہ جب قرظہ بن کعب کو عراق کی طرف روانہ کیا تو خود دور تک ساتھ گئے اور سمجھا یا کہ دیکھو تم ایسے ملک میں جاتے ہو جہاں قرآن کی آواز گونچ رہی ہے، ایسا نہ ہو کہ ان کی توجہ کو قرآن سے ہٹاکر احادیث کی طرف مبذول کردو، حضرت ابوہریرہ ؓ بڑے حافظ حدیث تھے اس لیے وہ روایتیں بھی کثرت سے بیان کرتے تھے، ایک دفعہ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ آپ عمر کے عہد میں اس طرح روایت کرتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ اگر اس زمانہ میں ایسا کرتا تو درے کھاتا، حدیث کے بعد فقہ کا درجہ ہے، عمر بن خطاب خود بالمشافہہ اپنے خطبوں اور تقریروں میں مسائل فقہیہ بیان کرتے تھے اور دور دراز ممالک کے حکام فقہی مسائل لکھ کر بھیجتے تھے، مختلف فیہ مسائل کو صحابہ ؓ کے مجمع میں پیش کرا کے طے کراتے تھے، اضلاع میں عمال اور افسروں کی تقرری میں عالم اور فقیہ ہونے کا خاص خیال رکھا جاتا تھا، تمام ممالک محروسہ میں فقہا مقرر کیے تھے جو احکام مذہبی کی تعلیم دیتے تھے اور حسب بیان ابن جوزی عمر بن خطاب نے فقہا کی بیش قرار تنخواہیں مقرر کی تھیں، اس سے پہلے فقہا اور معلمین کو تنخواہ دینے کا رواج نہ تھا، غرض یہ کہ فاروق اعظم ؓ کے عہد میں مذہبی تعلیم کا ایک مرتب اور منظم سلسلہ قائم ہو گیا تھا جس کی تفصیل کے لیے اس اجمال میں گنجائش نہیں۔ عملی انتظامات کی طرف بھی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بڑی توجہ کی، تمام ممالک محروسہ میں کثرت سے مسجدیں تعمیر کرائیں، امام اور مؤذن مقرر
ur_Arab
کیے، حرم محترم کی عمارت ناکافی تھی،17ھ میں اس کو وسیع کیا، غلاف کعبہ کے لیے نطع کی بجائے قباطی کا رواج دیا جو نہایت عمدہ کپڑا ہوتا ہے اور مصر میں بنایاجاتا ہے، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہایت وسعت دی، پہلے اس کا طول سو گز تھا انہوں نے بڑھا کر 140 گز کر دیا، عرض میں بھی 20 گز کا اضافہ ہوا، مسجد کے ساتھ ایک گوشہ چبوترا بنوا دیا جس کو بات چیت کرنا یا شعر پڑھنا ہو تو یہاں چلا آئے، مسجدوں میں روشنی اور فرش کا انتظام بھی عمر کے عہد سے ہی ہوا، حجاج کی راحت و آسائش کا بھی پورا انتظام تھا، ہر سال خود حج کے لیے جاتے تھے اور خبر گیری کی خدمت انجام دیتے تھے۔ متفرق انتظامات ملکی، فوجی اور مذہبی انتظامات کا ایک اجمالی خاکہ درج کرنے کےبعد اب ہم ان متفرق انتظامات کا تذکرہ کرتےہیں جوکسی خاص عنوان کے تحت نہیں آتے۔ 18ھ میں عرب میں قحط پڑا، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس مصیبت کو کم کرنے میں جو سرگرمی ظاہر کی وہ ہمیشہ یادگار زمانہ رہے گی، بیت المال کا تمام نقد وجنس صرف کر دیا، تمام صوبوں سے غلہ منگوایا اور انتظام کے ساتھ قحط زدوں میں تقسیم کیالا وارث بچوں کو دودھ پلانے اور پرورش پرداخت کا انتظام کیا، غرباء و مساکین کے روز ینے مقرر کیے اور منبر پر اس کا اعلان فرمایا: انی فرضت لکل نفس مسلمۃ فی شہر مادی حنطۃ و قسطی خل۔ میں نے ہر مسلمان کے لیے فی ماہ دو مد گیہوں اور دو قسط سرکہ مقرر کیا۔" اس پر ایک شخص نے کہا کہ کیا غلام کے لیے بھی؟ فرمایا ہاں غلام کے لیے بھی، لیکن اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ عمر اس نکتہ سے بے خبر تھے کہ اس طرح مفت خوری سے لوگ کاہل ہو جائیں گے، درحقیقت انہوں نے ان ہی لوگوں کے روزینے مقرر کیے تھے جو یا تو فوجی خدمت کے لائق تھے یا ضعف کے باعث کسب معاش سے معذور تھے، ملکی حالات سے واقفیت کے لیے ملک کے ہر حصے میں پرچہ نویس اور واقعہ نگار مقرر کیے تھے جن کے ذریعہ سے ہر جزئی واقع کی اطلاع ہوجاتی تھی، مورّخ طبری لکھتے ہیں: وکان عمر لایخفی علیہ شی فی علمہ کتب الیہ من العراق یخرج من خرج ومن الشام بجائز
ur_Arab
ۃ من اجیزبھا "عمر بن خطاب پر کوئی بات مخفی نہیں رہتی تھی، عراق میں جن لوگوں نے خروج کیا اورشام میں جن لوگوں کو انعام دیے گئے سب ہی ان کو لکھا جاتا تھا۔" محکمہ خبر رسانی کی سرگرمی کا اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ نعمان بن عدی حاکم میسان نے عیش وعشرت میں مبتلا ہوکر اپنی بی بی کو ایک خط لکھا جس میں یہ شعر بھی تھا۔ لعل امیر المومنین یسوءہ تنادمنابالجوسق المتھدم غالبا امیر المومنین برا مانیں گے کہ ہم لوگ محلوں میں رندان صحبت رکھتے ہیں اس محکمہ کو میاں بیوی کے راز ونیاز کی بھی خبر ہو گئی، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نعمان کو معزول کرکے لکھا کہ"ہاں مجھ کو تمہاری یہ حرکت ناگوار ہوئی" . عدل و انصاف خلافت فاروقی کا سب سے نمایاں وصف عدل و انصاف ہے، ان کے عہد میں کبھی سرمو بھی انصاف سے تجاوز نہیں ہوا، شاہ و گدا، شریف و رزیل، عزیزو یگانہ سب کے لیے ایک ہی قانون تھا، ایک دفعہ عمرو بن العاص ؓ کے بیٹے عبد اللہ بن عمرو بن العاص نے ایک شخص کو بے وجہ مارا، حضرت عمرؓ نے اسی مضروب سے ان کے کوڑے لگوائے، عمرو بن العاص ؓ بھی موجود تھے، دونوں باپ بیٹے خاموشی سے عبرت کا تماشہ دیکھتے رہے اورکچھ نہ کہا جبلہ بن ایہم رئیس شام نے کعبہ کے طواف میں ایک شخص کو طمانچہ مارا، اس نے بھی برابر کا جواب دیا، جبلہ نے حضرت عمر بن خطاب سے شکایت کی تو انہوں نے جواب دیا کہ جیسا کیا ویسا پایا جبلہ کو اس جواب سے حیرت ہوئی اور مرتد ہوکر قسطنطنیہ بھاگ گیا۔ عمر نے لوگوں کی تنخواہیں مقرر کیں تو اسامہ بن زید ؓ کی تنخواہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب غلام حضرت زید ؓ کے فرزند تھے، اپنے بیٹے عبد اللہ سے زیادہ مقرر کی، عبد اللہ نے عذر کیا کہ واللہ اسامہ بن زید ؓ کسی بات میں ہم سے فائق نہیں ہیں، حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا کہ ہاں! لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسامہ ؓ کو تجھ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ فاروقی عدل وانصاف کا دائرہ صرف مسلمانوں تک محدود نہ تھا ؛بلکہ ان کا دیوان عدل مسلمان، یہودی، عیسائی سب کے لیے یکساں تھا، قبیلۂ بکر بن وائل
ur_Arab
کے ایک شخص نے حیرہ کے ایک عیسائی کو مار ڈالا،حضرت عمر بن خطاب نے لکھا کہ قاتل مقتول کے ورثاء کے حوالہ کر دیا جائے؛چنانچہ وہ شخص مقتول کے وارث کو جس کانام حنین تھا سپرد کیا گیا اور اس نے اس کو مقتول عزیز کے بدلہ میں قتل کر دیا۔ عمر نے ایک ضعیف شخص کو گداگری کرتے دیکھا، پوچھا"تو بھیک مانگتا ہے؟ اس نے کہا مجھ پر جزیہ لگایا گیا ہے، حالانکہ میں بالکل مفلس ہوں"، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے اپنے گھر لے آئے اور کچھ نقد دے کر مہتمم بیت المال کو لکھا کہ اس قسم کے ذمی مساکین کے لیے بھی وظیفہ مقرر کر دیا جائے، واللہ! یہ انصاف نہیں ہے کہ ان کی جوانی سے ہم متمتع ہوں اور بڑھاپے میں ان کی خبر گیری نہ کریں"۔ عربسوس کے عیسائیوں کو ان کی متواتر بغاوتوں کے باعث جلاوطن کیا گیا، مگر اس طرح کہ ان کی املاک کی دو چند قیمت دی گئی، نجران کے عیسائیوں کو جلاوطن کیا گیا تو ان کے ساتھ بھی اچھا سلوک کیا گیا۔ علم و فضل اسلام سے قبل عرب میں لکھنے پڑھنے کا چنداں رواج نہ تھا؛چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو قبیلہ قریش میں صرف سترہ آدمی ایسے تھے جو لکھنا جانتے تھے، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی زمانہ میں لکھنا اور پڑھنا سیکھ لیا تھا، حضرت عمر بن خطاب کے فرامین خطوط توقیعات اور خطبے اب تک کتابوں میں محفوظ ہیں، ان سے ان کی قوت تحریر، برجستگی کلام اور زور تحریر کا اندازہ ہوسکتا ہے، بیعت خلافت کے بعد جو خطبہ دیا اس کے چند فقرے یہ ہیں: اللہم انی غلیظ فلینی، اللہم انی ضعیف فقونی الاوان العرب جمل انف وقد اعطیت خطامہ الاوانی حاملہ علی المحجۃ " اے خدا میں سخت ہوں تو مجھ کو نرم کر، میں کمزور ہوں مجھ کو قوت دے، ہاں عرب والے سرکش اونٹ ہیں جن کی مہار میرے ہاتھ میں دیدی گئی ہے ؛لیکن میں ان کو راستہ پر چلا کر چھوڑوں گا۔" قوت تحریر کا اندازہ اس خط سے ہوسکتا ہے جو حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کے نام لکھا گیا تھا، اس کے چند فقرے یہ ہیں: اما بعد فان القوۃ فی العمل ان لا توخروا عمل الیوم لغد
ur_Arab
فانکم اذا فعلتم ذلک قدارکت علیکم اعما لکم فلم تدروا ایھاتا خذون فاضعتم "اما بعد! مضبوطی عمل کی یہ ہے کہ آج کا کام کل پر نہ اٹھا رکھو، ایسا کروگے تو تمہارے بہت سے کام جمع ہو جائیں گے، پھر پریشان ہو جاؤگے کہ کس کو کریں اور کس کو چھوڑیں، اس طرح کچھ بھی نہ ہو سکے گا۔" شاعری کا خاص ذوق تھا اور شعرائے عرب کے کلام پر تنقیدی نگاہ رکھتے تھے، مشاہیر میں سے زہیر کے کلام کو سب سے زیادہ پسند کرتے تھے، کبھی کبھی خود بھی شعر کہتے تھے، ( ابوعلی الحسن بن رشیق نے کتاب العمدہ میں ان کے اشعار نقل کیے ہیں) لیکن اس کی طرف زیادہ شغل نہ تھا۔ فصاحت وبلاغت کا یہ حال تھا کہ ان کے بہت سے مقولے ضرب المثال بن گئے جو آج بھی عربی ادب کی جان ہیں، علم الانساب میں بھی ید طولی ٰ حاصل تھا، یہ علم کئی پشتوں سے ان کے خاندان میں چلا آتا تھا، ان کے والد خطاب مشہور نساب تھے، جاحظ نے لکھا ہے کہ جب وہ انساب کے متعلق کچھ بیان کرتے تھے تو اپنے باپ کا حوالہ دیتے تھے، معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ پہنچ کر عبرانی زبان بھی انہوں نے سیکھ لی تھی، مسند دارمی میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ توریت کا نسخہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور پڑھنا شروع کیا، وہ پڑھتے جاتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیر ہوتا جاتا ہے، اس سے قیاس ہوتا ہے کہ عبرانی زبان سے اس قدر واقف ہو گئے تھے کہ توریت کو خود پڑھ سکتے تھے۔ عمر فطرۃ ذہین، طباع اور صائب الرائے تھے، اصابت رائے کی اس سے زیادہ اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ ان کی بہت سی رائیں مذہبی احکام بن گئیں، اذان کا طریقہ ان کی رائے کے موافق ہوا، اسیران بدر کے متعلق جو رائے انہوں نے دی وحی الہی نے اسی کی تائید کی، شراب کی حرمت، ازواج مطہرات ؓ کے پردہ اور مقام ابراہیم کو مصلےٰ بنانے کے متعلق عمر نے نزول وحی سے پہلے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو رائے دی تھی۔ آپ کو بارگاہ نبوت میں جو خاص تقرب حاصل تھا، اس کے لحاظ سے قدرۃ ان کو شرعی احکام اور عقائد سے واقف ہونے کا زیادہ موقع ملا، طبیعت نکتہ رس واقع ہوئی تھی اس
ur_Arab
لیے آئندہ نسلوں کے لیے اجتہاد اور استنباط مسائل کی وسیع شاہراہ قائم کردی، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی شرعی مسائل پر غور و فکر کیا کرتے تھے اور جب کوئی مسئلہ خلاف عقل معلوم ہوتا تو اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کرتے تھے، سفر میں قصر کا حکم دے دیا گیا تھا؛لیکن جب راستے مامون ہو گئے تو عمر بن خطاب نے دریافت کیا کہ اب سفر میں یہ حکم کیوں باقی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ خدا کا انعام ہے۔"مسائل دریافت کرنے میں مطلقاً پس وپیش نہیں کرتے تھے اور جب تک تشفی نہ ہوجاتی ایک ہی مسئلہ کو باربار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتے تھے، کلالہ کے مسئلہ کو جو نہایت دقیق اورمختلف فیہ مسئلہ ہے، بار بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سورۂ نساء کی آخری آیت تمہارے لیے کافی ہے۔ نہایت غوروتوجہ کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کرتے تھے، ہر ایک آیت پر مجتہدانہ حیثیت سے نگاہ ڈالتے تھے، ایک دن صحابہ ؓ کے مجمع میں اس آیت کے معنی پوچھے اَیَوَدُّ اَحَدُکُمْ اَنْ تَکُوْنَ لَہٗ جَنَّۃٌ لوگوں نے کہا واللہ اعلم، حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے کہا کہ اس میں ایک کام کرنے والے کی تمثیل ہے، چونکہ جواب ناتمام تھا،حضرت عمر بن خطاب نے اس پر قناعت نہ کی ؛لیکن عبد اللہ بن عباس ؓ اس سے زیادہ نہ بتا سکے عمر نے فرمایا: یہ اس آدمی کی مثال ہے جس کو خدا نے دولت و نعمت دی کہ خدا کی بندگی بجا لاے مگراس نے نافرمانی کی، تو اس کے اچھے اعمال بھی برباد کردیے جائیں گے۔ قرآن مجید سے استدلال میں بڑی مہارت رکھتے تھے، عراق کی فتح کے بعد یہ بحث پیدا ہوئی کہ ممالک مفتوحہ مجاہدین کی ملکیت اور وہاں کے باشندے ان کے غلام ہیں عمر کا خیال تھا کہ مقام مفتوحہ کسی شخص یا ایک بہت سے مخصوص اشخاص کی ملکیت نہیں ہیں ؛بلکہ وقف عام ہیں اور استدلال میں یہ آیت پیش کی، وَمَا اَفَاء اللہُ علی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَھْلِ الْقُر
ur_Arab
ْیٰ بالآخر سب نے اس کی تائید کی اور اسی پر فیصلہ ہوا، عمر کی مرفوع روایات کی تعداد سترسے زیادہ نہیں ہے؛لیکن اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ صرف اس قدر احادیث سے واقف تھے، درحقیقت انہوں نے اپنے عہد خلافت میں جس قدر احکام صادر فرمائے ہیں وہ سب احادیث ہی کے ماخوذ ہیں، یہ دوسری بات ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہیں لیا ہے اور نام نہ لینے کی وجہ یہ تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی قول کو منسوب کرنے میں نہایت محتاط تھے جب تک کے ہر لفظ پر یقین نہ ہوتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح بیان فرمائی ہے اس وقت تک ہرگز ہر گز زبان سے قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لفظ نہیں نکالتے تھے، یہی وجہ تھی کہ وہ خود بھی بہت کم احادیث روایت کرتے تھے اور دوسروں کو بھی کثرت روایت سے روکتے تھے، علامہ ذہبی عمرکے حالات میں لکھتے ہیں: وقد کان عمر من دجلہ یخطیٔ الصاحب علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یامرہم ان یقلوالروایۃ من نبیہم اور عمر بن خطاب اس ڈر سے کہ صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرنے میں غلطی نہ کریں ان کو حکم دیتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کم روایت کریں محدث کا سب سے بڑا فرض روایات کی تحقیق وتنقید اورجرح وتعدیل ہے، اگرچہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے بھی اپنے عہد میں روایت کے قبول کرنے میں ثبوت اور شہادت کا لحاظ رکھا؛لیکن عمر کو اس میں بہت زیادہ غلو تھا اور جب تک روایت و درایت دونوں حیثیت سے اس کا ثبوت نہ پہنچتا، قبول نہ کرتے، اس کی مثالیں تفصیل کے ساتھ مذہبی خدمات کے سلسلہ میں مذکور ہوچکی ہیں، اس لیے یہاں اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ فقہ کا سلسلہ بھی درحقیقت عمرکا ہی ساختہ پرداختہ ہے ان سے اس قدر فقہی مسائل منقول ہیں کہ اگر جمع کیے جائیں تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے، استنباط احکام اورتفریع مسائل کے لیے بھی انہوں نے ایک شاہراہ قائم کردی تھی، مختلف فیہ مسائل کے طے کرنے کے لیے اجماع صحابہ جس کثرت سے عمرکے عہد میں ہوا پھر نہیں ہوا۔ اخلاق حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا حقیقی مقصد دنیا کو برگزیدہ اور پسندیدہ اخلاق کی تعلیم دینا تھا، جیسا کہ خود ارشاد فرمایا
ur_Arab
بعثت لا تم مکارم الاخلاق، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو براہ راست اس سر چشمہ اخلاق سے سیراب ہونے کا موقع ملا تھا اس لیے اس مقدس جماعت کا ہر فرد اسلامی اخلاق کا مجسم نمونہ تھا؛لیکن عمر کو بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جو تقرب حاصل تھا اس کے لحاظ سے ان کو زیادہ حصہ ملا، وہ محاسن و محامد کی مجسم تصویر تھے ان کے آئینہ اخلاق میں خلوص، انقطاع الی اللہ، لذایذ دنیا سے اجتناب حفظ لسان حق پرستی، راست گوئی، تواضع اورسادگی کا عکس سب سے زیادہ نمایاں نظر آتا ہے، یہ اوصاف آپ میں ایسے راسخ تھے کہ جو شخص آپ کی صحبت میں رہتا تھا، وہ بھی کم وبیش متاثر ہوکر اسی قالب میں ڈھل جاتا تھا، مسور بن مخرمہ ؓ کا بیان ہے کہ ہم اس غرض سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہتے تھے کہ ان سے پرہیز گاری وتقویٰ سیکھیں، عہد فاروقی کے افسروں اور عہدیداروں کے حالات کا بغور مطالعہ کرو، تم کو معلوم ہوگا کہ وہ سب ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ خوف خدا اخلاق کی پختگی اور استواری کا اصلی سر چشمہ خشئیت الہی اورخداوند جل وعلا جبروت وعظمت کا غیر متزلزل تیقن ہے، جو دل خشوع وخضوع اورخوف خداوندی سے خالی ہے اس کی حقیقت ایک مضغۂ گوشت سے زیادہ نہیں، عمر بن خطاب خشوع و خضوع کے ساتھ رات بھر نمازیں پڑھتے، صبح ہونے کے قریب گھر والوں کو جگاتے اور یہ آیت پڑھتے:وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَيْهَا، نمازمیں عموماً ایسی سورتیں پڑھتے جن میں قیامت کا ذکر یا خدا کی عظمت کا جلال کا بیان ہوتا اور اس قدر متاثر ہوتے کہ روتے روتے ہچکی بندھ جاتی، حضرت عبد اللہ بن شداد ؓ کا بیان ہے کہ میں باوجود یکہ پچھلی صف میں رہتا تھا ؛لیکن حضرت عمرؓ یہ آیت اِنَّمَا اَشکُوْبِثَیْ وَحُزْنِیْ پڑھکر اس زور سے روتے تھے کہ میں رونے کی آواز سنتا تھا۔ حضرت امام حسن ؓ کا بیان
ur_Arab
ہے کہ ایک دفعہ عمر نماز پڑھ رہے تھے جب اس پر پہنچے:اِنَّ عَذابَ ربک لواقع مالہ من دافع "یہ تیرے رب کا عذاب یقینی ہوکر رہنے والا ہے اس کو کوئی دفع کرنے والا نہیں"تو بہت متاثر ہوئے اورروتے روتے آنکھیں سوج گئیں، اسی طرح ایک دفعہ اس آیت پر: وَإِذَا أُلْقُوا مِنْهَا مَكَانًا ضَيِّقًا مُقَرَّنِينَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُورًااس قدرخضوع وخشوع طاری ہواکہ اگر کوئی ان کے حال سے ناواقف شخص دیکھ لیتا تو یہ سمجھتا کہ اسی حالت میں روح پرواز کرجائے گی، رقت قلب اور عبرت پذیری کا یہ عالم تھا کہ ایک روز صبح کی نماز میں سورۂ یوسف شروع کی اور جب اس آیت پر پہنچے وَابیَضَّتْ عَیْنَاہُ مِنَ الْحُزْنِ فَھُوَ کَظِیْمٌ، (یوسف)تو زارو قطار رونے لگے، یہاں تک کہ قرآن مجید ختم کرکے رکوع پر مجبور ہو گئے۔ قیامت کے مواخذہ سے بہت ڈرتے تھے اور ہر وقت اس کاخیال رہتا تھا، صحیح بخاری میں ہے کہ ایک دفعہ ایک صحابی سے کہا کہ "تم کو یہ پسند ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسلام لائے، ہجرت کی، جہاد اور نیک اعمال کیے، اس کے بدلہ میں دوزخ سے بچ جائیں اور عذاب وثواب برابر ہو جائے، بولے خدا کی قسم نہیں، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی روزے رکھے، نمازیں پڑھیں، بہت سے نیک کام کیے اور ہمارے ہاتھ پر بہت سے لوگ اسلام لائے ہم کو ان اعمال سے بڑی بڑی توقعات ہیں، عمر نے فرمایا اس ذات کی قسم!جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھے تو یہی غنیمت معلوم ہوتا ہے کہ عذاب سے بچ جائیں اور نیکی اور بدی برابر ہو جائیں۔ ایک بار راہ میں پڑا ایک تنکا اٹھا لیا اور کہا کاش میں بھی خش و خاشاک ہوتا، کاش! کاش میں پیدا ہی نہ کیا جاتا، کاش میری ماں مجھے نہ جنتی۔ غرض عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دل ہر لمحہ خوف خداوندی سے لرزاں
ur_Arab
وترساں رہتا تھا، آپ فرماتے کہ اگر آسمان سے ندا آئے کہ ایک آدمی کے سوا تمام دنیا کے لوگ جنتی ہیں تب بھی مواخذہ کا خوف زائل نہ ہوگا کہ شاید وہ بد قسمت انسان میں ہی ہوں۔ حب رسول اور اتباع سنت تہذیب نفس اور اخلاق حمیدہ سے مزین ہونے کے لیے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اپنے دل میں مبدء خلق عظیم یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خالص محبت اوراتباع سنت کا صحیح جذبہ پیداکرے جو دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے خالی اور جو قدم اسوۂ حسنہ کا جادۂ مستقیم سے منحرف ہے وہ کبھی سعادت کونین کی نعمت سے متمتع نہیں ہوسکتا، ایک دفعہ عمر بن خطاب نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا کہ اپنی جان کے سوا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام دنیا سے زیادہ محبوب ہیں، ارشاد ہوا، عمر میری محبت اپنی جان سے بھی زیادہ ہونی چاہیے،عمر نے کہا اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ آپ جمال نبوت کے سچے شیدائی تھے، ان کو اس راہ میں جان ومال اولاد اور عزیز و اقارب کی قربانی سے بھی دریغ نہ تھا، عاصی بن ہشام جو عمر کا ماموں تھا، معرکۂ بدر میں خود ان کے ہاتھ سے مارا گیا، اسی طرح جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات ؓ سے ناراض ہوکر علیحدگی اخیتار کرلی تو حضرت عمرؓ نے یہ خبر سن کر حاضر خدمت ہونا چاہا، جب باربار اذن طلب کرنے پر بھی اجازت نہ ملی تو پکار کر کہا"خداکی قسم !میں حفصہ رضی اللہ عنہا کی سفارش کے لیے نہیں آیا ہوں، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں تو اس کی گردن ماردوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی محبت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو ان کو کسی طرح اس کا یقین نہیں آتا تھا، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حالت وارفتگی میں قسمیں کھا کر اعلان کرتے تھے جس کی زبان سے نکلے گا کہ میرا محبوب آقا دنیا سے اُٹھ گیا اس کا سر توڑدوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب کبھی عہد مبارک یاد آجاتا تورقت طاری ہوجاتی اور روتے روتے بیتاب ہو جاتے، ایک دفعہ سفرِ شام کے موقع پر حضرت بلال ؓ نے مسجد اقصیٰ میں
ur_Arab
اذان دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد تازہ ہو گئی اور اس قدر روئے کہ ہچکی بندھ گئی۔ یہ فطری امر ہے کہ محبوب کا عزیز بھی عزیز ہوتا ہےاس بناپر جن لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں عزیز رکھتے تھے، عمر بن خطاب نے اپنے ایام خلافت میں ان کا خاص خیال رکھا؛ چنانچہ جب آپ نے صحابہ ؓ کے وظائف مقرر کیے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب غلام زید بن حارثہ کے فرزند اسامہ بن زید کی تنخواہ اپنے بیٹے عبد اللہ سے زیادہ مقرر کی، عبد اللہ نے عذر کیا تو آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسامہ کو تجھ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔اسی طرح جب فتح مدائن کے بعد مال غنیمت آیا تو عمر نے حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین ؓ کو ہزار ہزار درہم مرحمت فرمائے اور اپنے بیٹے عبد اللہ کو صرف پانچ سو دیئے، حضرت عبد اللہ ؓ نے عذر کیا اور کہا کہ جب یہ دونوں بچے تھے، اس وقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معرکوں میں پیش پیش رہا ہوں، عمر نہ کہا ہاں ؛لیکن ان کے بزرگوں کا جو رتبہ ہے وہ تیرے باپ دادا کا نہیں ہے۔ ازواج ِمطہرات ؓ کے مرتبہ، ان کے احترام اور آرام و آسائش کا خاص لحاظ رکھتے تھے ۔چنانچہ ان کی تنخواہیں سب سے زیادہ بارہ ہزار مقرر کیں، 63ھ میں جب امیر الحجاج بن کر گئے تو ازواج مطہرات کو بھی نہایت ادب واحترام کے ساتھ ہمراہ لے گئے، حضرت عثمان ؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کو سواریوں کے ساتھ کر دیا تھا، یہ لوگ آگے پیچھے چلتے تھے اورکسی کو سواریوں کے قریب نہیں آنے دیتے تھے، ازواج مطہرات ؓ منزل پر حضرت عمرؓ کے ساتھ قیام کرتی تھیں اور حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کسی کو قیام گاہ کے متصل آنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ عمر بن خطاب کے دستور عمل کا سب سے زریں صفحہ اتباع سنت تھا، وہ خور ونوش،لباس وضع، نشست و برخاست غرض ہر چیز میں اسوۂ حسنہ کو پیش نظر رکھتے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ فقر وفاقہ سے بسر کی تھی، اس لیے عمر نے روم وایران کی شہنشاہی ملنے کے بعد بھی فقر وفاقہ کی زندگی کا ساتھ نہ چھوڑا، ایک دفعہ حضرت حفصہ ؓ نے کہا کہ
ur_Arab
اب خدا نے مرفہ الحالی عطا فرمائی ہے اس لیے آپ کو نرم لباس اورنفیس غذا سے پرہیز نہ کرنا چاہیے، عمر نے کہا، جان پدر!تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عسرت اور تنگ حالی کو بھول گئیں، خداکی قسم !میں اپنے آقا کے نقش قدم پر چلوں گا کہ آخرت کی فراغت اور خوشحالی نصیب ہو، اس کے بعد دیر تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عسرت کا تذکرہ کرتے رہے، یہاں تک کہ حضرت حفصہ ؓ بے تاب ہوکر رونے لگیں۔ ایک دفعہ یزید بن ابی سفیان کے ساتھ شریک طعام ہوئے، معمولی کھانے کے بعد دسترخوان پر جب عمدہ کھانے لائے گئے تو عمر نے ہاتھ کھنچ لیا اور کہا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں عمر ؓ کی جان ہے اگر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روش سے ہٹ جاؤ گے تو خدا تم کو جادۂ مستقیم سے منحرف کر دے گا۔ اسلام میں شعائر اللہ کی تعظیم کا حکم ہے اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کو بوسہ دیاہے، حضرت عمرؓ کو اپنے زمانہ خلافت میں جب اس کا موقع پیش آیا تو اس خیال سے کہ ایسا نہ ہو کہ پتھر کو بوسہ دینے سے کبھی مسلمانوں کو یہ دھوکا ہوکہ اس میں بھی الہی شان ہے حجراسود کو بوسہ تو دیا؛لیکن اس کے سامنے کھڑے ہوکر کہا: إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ "میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع، اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیتے نہ دیکھتا تو تجھے ہرگز بوسہ نہ دیتا۔" اسی طرح طواف میں رمل کا حکم مشرکین عرب کے دلوں پر رعب ڈالنے کی مصلحت پر مبنی تھا اس لیے جب خدا نے ان کو ہلاک کر دیا تو عمر بن خطاب کو خیا ل ہوا کہ اب رمل سے کیا فائدہ ہے
ur_Arab
مگر پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یادگار کو ترک کرنے پر جرأت نہ ہوئی۔ ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوجو کام جس طرح کرتے دیکھا اسی طرح وہ بھی عمل پیرا ہوں، ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ میں دو رکعت نماز پڑھی تھی، عمر نے جب اس طرف سے گزرتے تو اس جگہ دو رکعت نماز ادا کرلیتے تھے، ایک شخص نے پوچھا یہ نماز کیسی ہے؟آپ نے فرمایا کہ میں نے یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا ہے، یہ کوشش صرف اپنی ذات تک محدود نہ تھی؛بلکہ وہ چاہتے تھے کہ ہر شخص کا دل اتباع سنت کے جذبہ سے معمور ہو جائے۔ ایک دفعہ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا، عمر نے عین خطبہ کی حالت میں اس کی طرف دیکھا اور کہا آنے کا یہ کیا وقت ہے؟ انہوں نے کہا کہ بازار سے آرہا تھا کہ اذان سنی، وضو کرکے فوراً حاضر ہوا، حضرت عمرؓ نے فرمایا"وضو پر کیوں اکتفا کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (جمعہ کو)غسل کا حکم دیا کرتے تھے۔ زہد و قناعت دنیا طلبی اور حرص تمام بد اخلاقیوں کی بنیاد ہے، عمر بن خطاب کو اس سے طبعی نفرت تھی، یہاں تک کہ خود ان کے ہم مرتبہ معاصرین کو اعتراف تھاکہ وہ زہدوقناعت کے میدان میں سب سے آگے ہیں، حضرت طلحہ ؓ کا بیان ہے: قدامتِ اسلام اور ہجرت کے لحاظ سے بہت سے لوگوں کو عمر بن الخطاب پر فوقیت حاصل ہے؛لیکن زہد وقناعت میں وہ سب سے بڑے ہوئے ہیں، صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عمرکو کچھ دینا چاہتے تو وہ عرض کرتے کہ مجھ سے زیادہ حاجت مند لوگ موجود ہیں جو اس عطیہ کے زیادہ مستحق ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے کہ اس کو لے لو، پھر تمہیں اختیار ہے کہ اپنے پاس رکھویا صدقہ کر دو، انسان کو اگر بے طلب مل جائے تو لے لینا چاہیے۔ عمر بن خطاب کا جسم کبھی نرم اور ملائم کپڑے سے مس نہیں ہوا، بدن پر بارہ بارہ پیوند کا کرتا، سر پر پھٹا ہوا عمامہ اور پاؤں میں پھٹی ہوئی جوتیاں ہوتی تھیں، اسی حالت میں وہ قیصر وکسریٰ کے سفیروں سے ملتے تھے اور وفود کو باریاب کرتے تھے، مسلمانوں کو شرم آتی تھی، مگر اقلیم
ur_Arab
زہد کے شہنشاہ کے آگے کون زبان کھولتا، ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ اورحضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا، امیرالمومنین ! اب خدا نے مرفہ الحال کیا ہے، بادشاہوں کے سفراء اور عرب کے وفود آتے رہتے ہیں، اس لیے آپ کو اپنے طرز معاشرت میں تغیر کرنا چاہیے، عمر بن خطاب نے کہا، افسوس تم دونوں امہات المومنین ہوکر دنیا طلبی کی ترغیب دیتی ہو، عائشہؓ! تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حالت کو بھول گئیں کہ تمہارے گھر میں صرف ایک کپڑا تھا جس کو دن کو بچھاتے اور رات کو اوڑھتے تھے، حفصہؓ !تم کو یاد نہیں ہے کہ ایک دفعہ تم نے فرش کو دہرا کرکے بچھادیا تھا، اس کی نرمی کے باعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر سوتے رہے۔ بلال ؓ نے اذان دی تو آنکھ کھلی اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا حفصۃ ماذا ضعت ثنیت المھاد حتی ذھب بی النوم الی الصباح مالی وللدنیا ومالی شغلتمو نی بین الفراش "حفصہ رضی اللہ عنہا تم نے یہ کیا کیا فرش کو دہرا کر دیا کہ میں صبح تک سوتا رہا مجھے دنیاوی راحت سے کیا تعلق ہے؟ اور فرش کی نرمی کی وجہ سے تو نے مجھے غافل کر دیا۔" ایک دفعہ گزی کا کرتا ایک شخص کو دھونے اور پیوند لگانے کے لیے دیا اس نے اس کے ساتھ ایک نرم کپڑے کا کرتا پیش کیا، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس کو واپس کر دیا اور اپنا کرتا لے کر کہا اس میں پسینہ خوب جذب ہوتا ہے۔ کپڑا عموماً گرمی میں بنواتے تھے اور پھٹ جاتا تو پیوند لگاتے چلے جاتے، حضرت حفصہ ؓ نے اس کے متعلق گفتگو کی تو فرمایا، مسلمانوں کے مال میں اس سے زیادہ تصرف نہیں کر سکتا، ایک دفعہ دیر تک گھر میں رہے، باہر آئے تو لوگ انتظار کر رہے تھے، معلوم ہوا کہ پہننے کو کپڑے نہ تھے اس لیے ان ہی کپڑوں کو دھوکر سوکھنے کو ڈال دیا تھا، خشک ہوئے تو وہی پہن کر باہر نکلے۔ غذا بھی عموماً نہایت سادہ ہوتی تھی ، معمولاً روٹی اور روغن زیتون دسترخوان پر ہوتا تھا،روٹی گیہوں کی ہوتی تھی ؛لیکن آٹا چھانا نہیں جاتا تھا، مہمان یا سفراء آتے تھے تو کھانے کی ان کو تکلیف ہوتی تھی
ur_Arab
کیونکہ وہ ایسی سادی اور معمولی غذا کے عادی نہیں ہوتے تھے،حفص بن ابی العاص ؓ اکثر کھانے کے وقت موجود ہوتے تھے ؛لیکن شریک نہیں ہوتے تھے، ایک دفعہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے وجہ پوچھی تو کہا کہ آپ کے دستر خوان پر ایسی سادہ اور معمولی غذا ہوتی ہے کہ ہم لوگ اپنے لذیذ اور نفیس کھانوں پر اس کو ترجیح نہیں دے سکتے، عمر بن خطاب نے کہا، کیا تم یہ سمجھتے ہوکہ میں قیمتی اور لذیذ کھانا کھانے کی مقدرت نہیں رکھتا؟ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اگر قیامت کا خوف نہ ہوتا تو میں بھی تم لوگوں کی طرح دنیاوی عیش و عشرت کا دلدادہ ہوتا۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہر شخص کو اپنی طرح زہد اور سادگی کی حالت میں دیکھنا چاہتے تھے، وقتاً فوقتاً اپنے عمال اور احکام کو ہدایت کرتے رہتے تھے کہ رومیوں اور عجمیوں کی طرز معاشرت نہ اختیار کریں، سفر شام میں جب انہوں نےافسروں کو اس وضع میں دیکھا کہ بدن پر حریر ودیبا کے حلے اورپر تکلف قبائیں ہیں اور وہ اپنی زرق برق پوشاک اور ظاہری شان و شوکت سے عجمی معلوم ہوتے ہیں تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس قدر غصہ آیا کہ گھوڑے سے اتر پڑے اور سنگریزے اٹھا کر ان پر پھینکے اور فرمایا کہ اس قدر جلد تم نے عجمی عادتیں اخیتار کر لیں، اسی طرح ایک دفعہ ایک شخص جس کو انہوں نے یمن کا عامل مقرر کیا تھا، اس صورت سے ملنے آیا کہ لباس فاخرہ زیب تن کیے ہوئے تھے اور بالوں میں خوب تیل پڑا ہواتھا، اس وضع کو دیکھ کر عمر نہایت ناراض ہوئے اور وہ کپڑے اتروا کر موٹا جھوٹا کپڑا پہنایا۔ احنف بن قیس ایک جماعت کے ساتھ عراق کی ایک مہم پر روانہ کیے گئے، وہ وہاں سے کامیاب ہوکر تزک و احتشام کے ساتھ واپس آئے تو عمر نے ان کے زرق برق پوشاک دیکھ کر منہ پھیر لیا، وہ لوگ امیر المومنین کو برہم دیکھ کر دربار سے اٹھ آئے اور عرب کی سادہ پوشاک زیب تن کرکے پھر حاضر خدمت ہوئے، عمر اس لباس میں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فرد اً فرداً ہر ایک سے بغلگیر ہوئے۔ قناعت کا یہ حال تھا کہ اپنے زمانہ خلافت میں چند برس تک مسلمانوں کے مال سے ایک خر مہرہ
ur_Arab
نہیں لیا حالانکہ فقر و فاقہ سے حالت تباہ تھی، صحابہ ؓ نے ان کی عسرت اور تنگدستی کو دیکھ کر اس قدر تنخواہ مقرر کردی جو معمولی خوراک اور لباس کے لیے کافی ہو ؛لیکن شہنشاہ قناعت نے اس شرط پر قبول کیا کہ جب تک ضرورت ہے لوں گا اور جب میری مالی حالت درست ہو جائے گی، کچھ نہ لوں گا، فرمایا کرتے تھے کہ میرا حق مسلمانوں کے مال میں اسی قدر ہے جس قدر یتیم کے مال میں ولی کا ہوتا ہے، میں اپنی ذات پراس سے زیادہ نہیں صرف کرسکتا جس قدر خلافت سے پہلے اپنے مال میں سے صرف کرتا تھا، ایک دفعہ ربیع بن زیاد حارثی نے کہا امیر المومنین ! آپ کو خدا نے جو مرتبہ بخشا ہے اس کے لحاظ سے آپ دنیا میں سب سے زیادہ عیش و نشاط کی زندگی کے مستحق ہیں، عمر نہایت خفا ہوئے اور فرمایا میں قوم کا امین ہوں، امانت میں خیانت کب جائز ہے، ایک دفعہ عتبہ بن فرقد شریک طعام تھے اور ابلا ہوا گوشت اورسوکھی روٹی کے ٹکڑے زبردستی حلق سے فروکر رہے تھے عمر بن خطاب نے کہا اگر تم سے نہیں کھا یا جاتا تو نہ کھاؤ، عتبہ ؓ سے نہ رہا گیا، کہنے لگے امیر المومنین! اگر آپ اپنے کھانے پہننے میں کچھ زیادہ صرف کریں گے تو اس سے مسلمانوں کا مال کم نہ ہو جائے گا، حضرت عمرؓ نے کہا، افسوس تم مجھے دنیاوی عیش و تنعم کی ترغیب دیتے ہو۔ اپنے وسیع کنبہ کے لیے بیت المال سے صرف دو درہم روزانہ لیتے تھے اور تکلیف و عسرت کے ساتھ بسر کرتے تھے، ایک دفعہ حج میں اسی درہم صرف ہو گئے تو اس کا افسوس ہوا اور اسے اسراف تصور کیا، کپڑے پھٹ جاتے تھے ؛لیکن اس خیال سے کہ بیت المال پر بار نہ پڑے اسی میں پیوند پر پیوند لگاتے جاتے تھے، حضرت امام حسن ؓ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ عمرجمعہ کے روز خطبہ دے رہے تھے، میں نے شمار کیا تو ان کے تہبند پر بارہ پیوند لگے ہوئے تھے، انس بن مالک ؓ کا بیان ہے کہ میں نے زمانہ خلافت میں دیکھا کہ ان کے کرتا کے مونڈے پر تہ بہ تہ پیوند لگے ہوئے ہیں، غرض فاروق اعظم ؓ نے زہد و قناعت کا جو نمونہ پیش کیا، دنیا کی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ ان کی عظمت وشان کے تاج پر زہد و
ur_Arab
قناعت ہی کا طرہ زیب دیتا ہے۔ خلافت کے بارگراں نے حضرت عمرؓ کو بہت زیادہ محتاط بنادیا تھا کیونکہ اس وقت ان کی معمولی بے احتیاطی اور فرو گذاشت قوم کے لیے صدہا خرابیوں کا باعث ہو سکتی تھی اور مشکوک طبائع ان کی ذرا سی لغزش سے طرح طرح کے افسانے اختراع کرسکتے تھے، عمر نے اپنے قبیلہ کے لوگوں کو کبھی ملکی عہدے نہیں دئے کہ اس میں جانبداری پائی جاتی تھی، عمال وحکام کے تحائف واپس کر دیتے اور اس سختی سے چشم نمائی کرتے کہ پھر کسی کو جرأت نہ ہوتی، ایک دفعہ حضرت ابو موسی اشعری ؓ نے آپ کی زوجہ عاتکہ بنت زید ؓ کے پاس ہدیۃً ایک نفیس چادر بھیجی، عمر نے دیکھا تو ابو موسیٰ اشعری ؓ کو بلاکر کہا مجھے اس کی ضرورت نہیں، اسی طرح ایک دفعہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے بیت المال کا جائزہ لیا تو وہاں صرف ایک درہم موجود تھا، انہوں نے اس خیال سے کہ یہ یہاں کیوں پڑا رہے، اٹھا کر عمر کے بیٹے کو دیدیا، حضرت عمرؓ کو معلوم ہوا تو انہوں نے درہم واپس لے کر بیت المال میں داخل کر دیا اور ابو موسیٰ اشعری ؓ کو بلاکر فرمایا کہ افسوس تم کو مدینہ میں آل عمر ؓ کے سوا اور کوئی کمزور نظر نہ آیا، تم چاہتے ہو کہ قیامت کے دن تمام امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالبہ میری گردن پر ہو۔ فتح شام کے بعد قیصر و روم سے دوستانہ مراسم ہو گئے تھے اور خط کتابت رہتی تھی، ایک دفعہ ام کلثوم ؓ(عمر کی زوجہ) نے قیصر کی حرم کے پاس تحفہ کے طور پر عطر کی چند شیشیاں بھیجیں، اس نے اس کے جواب میں شیشیوں کو جواہرات سے بھر کر بھیجا، عمر کو معلوم ہوا تو فرمایا کہ گو عطر تمہارا تھا؛لیکن قاصد جولے کر گیا وہ سرکاری تھا اور اس کے مصارف عام آمدنی سے ادا کیے گئے تھے؛چنانچہ جواہرات لے کر بیت المال میں داخل کر دیے اور ان کو کچھ معاوضہ دے دیا، اسی طرح ایک بازار میں ایک فربہ اونٹ فروخت ہوتے دیکھا، دریافت سے معلوم ہوا کہ آپ کے بیٹے عبد اللہ ؓ کا ہے، ان سے پوچھا کہ یہ اونٹ کیسا ہے؟انہوں نے کہا میں نے اس کو خرید کر سرکاری چرا گاہ مین بھیج دیا تھا اور اب کچھ فربہ ہو گیا ہے تو فروخت
ur_Arab
کرنا چاہتا ہوں، عمر نے فرمایا چونکہ یہ سرکاری چراگاہ میں فربہ ہوا ہے اس لیے تم صرف راس المال کے مستحق ہو، اور بقیہ قیمت لے کر بیت المال میں داخل کردی، خلافت سے پہلے آپ تجارت کرتے تھے، بیت المال سے وظیفہ مقرر ہونے سے بیشتر تک کچھ دنوں زمانہ خلافت میں بھی یہ مشغلہ جاری تھا، ایک دفعہ شام کی طرف مال بھیجنا چاہا، روپیہ کی ضرورت ہوئی تو حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے قرض طلب کیا، انہوں نے کہا، آپ امیر المومنین ہیں، بیت المال سے اس قدر رقم قرض لے سکتے ہیں، عمر نے فرمایا کہ بیت المال سے نہیں لوں گا، کیونکہ اگر ادا کرنے سے پہلے مرجاؤں گا تو تم لوگ میرے ورثاء سے مطالبہ نہ کروگے اور یہ بار میرے سررہ جائے گا، اس لیے چاہتا ہوں کہ کسی ایسے شخص سے لوں جو میرے متروکہ سے وصول کرنے پر مجبور ہو۔ ایک دفعہ بیمار ہوئے طبیبوں نے شہد تجویز کیا، بیت المال میں شہد موجود تھا؛ لیکن قلب متقی بغیر مسلمانوں کی اجازت کے لینے پر راضی نہ تھا؛چنانچہ اسی حالت میں مسجد میں تشریف لائے اور مسلمانوں کو جمع کر کے اجازت طلب کی، جب لوگوں نے اجازت دے دی تو استعمال فرمایا، بحرین سے مال غنیمت میں مشک وعنبر آیا اس کو مسلمانوں میں تقسیم کرنے کے لیے کسی ایسے شخص کی تلاش ہوئی جس کو عطریات کے وزن میں دستگاہ ہو، عمر کی بیوی عاتکہ بنت زید ؓ نے کہا میں اس کام کو کرسکتی ہوں، حضرت عمرؓ نے کہا تم سے یہ کام نہیں لوں گا، کیونکہ مجھے خوف ہے کہ تمہاری انگلیوں میں جو کچھ لگ جائیگا اسے اپنے جسم پر لگاؤ گی اور اس طرح عام مسلمانوں سے زیادہ میرے حصہ میں آجائے گا۔ ابو موسیٰ اشعری ؓ نے عراق سے زیورات بھیجے، اس وقت آپ کی گود میں آپ کی سب سے محبوب یتیم بھتیجی اسماء بنت زید ؓ کھیل رہی تھی، اس نے ایک انگوٹھی ہاتھ میں لے لی، عمر نے بلطائف الحیل اس سے لے کر زیورات میں ملا دی اور لوگوں سے کہا کہ اس لڑکی کو میرے پاس سے لے جاؤ، اسی طرح عبد اللہ بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے معرکۂ جلولا کے بعد زیورات بھیجے تو آپ کے ایک بیٹے نے ایک انگوٹھی کی درخواست کی، عمر اس سوال پر خفا ہوئے اور کچھ نہ دیا۔ ایک دفعہ حضرت حفصہ ؓ یہ
ur_Arab
سن کر کہ مال غنیمت آیا ہوا ہے، عمر کے پاس آئیں اورکہا امیر المومنین! اس میں میرا حق مجھ کو عنایت کیجئے، میں ذوالقربی میں سے ہوں، عمر بن خطاب نے کہانور نظر تیرا حق میرے خاص مال میں ہے، یہ تو غنیمت کا مال ہے، افسوس ہے کہ تونے اپنے باپ کو دھوکا دینا چاہا، وہ بیچاری خفیف ہوکر چلی گئیں۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی تمنا تھی کہ اپنے محبوب آقا حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں مدفون ہوں، حضرت عائشہ ؓ نے اجازت دیدی تھی، مگر خیال یہ تھا کہ شاید خلافت کے رعب نے انہیں مجبور کیاہو، اس لیے اپنے صاحبزادے کو وصیت فرمائی کہ مرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر اجازت لی جائے، اگر اذن ہو توخیر ورنہ عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا، اس طرح وفات کے بعد بھی فاروق اعظم ؓ نے ورع وتقویٰ کا بدیع المثال نمونہ پیش کیا، ؓ۔ ، . . تواضع حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت و شان اور رعب و داب کا ایک طرف تو یہ حال تھا کہ محض نام سے قیصر و کسریٰ کے ایوان حکومت میں لرزہ پیدا ہو جاتا تھا، دوسری طرف تواضع اور خاکساری کا یہ عالم تھا کہ کاندھے پر مشک رکھ کر بیوہ عورتوں کے لیے پانی بھرتے تھے، مجاہدین کی بیویوں کا بازار سے سودا سلف خرید کر لا دیتے تھے، پھر اس حالت میں تھک کر مسجد کے گوشہ میں فرش خاک پر لیٹ جاتے تھے۔ ایک دفعہ اپنے ایام خلافت میں سر پر چادر ڈال کر باہر نکلے، ایک غلام کو گدھے پر سوار جاتے دیکھا چونکہ تھک گئے تھے اس لیے اپنے ساتھ بٹھا لینے کی درخواست کی ، اس کے لیے اس سے زیادہ کیا شرف ہو سکتا ہے، فوراً اتر پڑا اور سواری کے لیے اپنا گدھا پیش کیا، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا اپنی وجہ سے تمہیں تکلیف نہیں دے سکتا تم جس طرح سوار تھے سوار رہو میں تمہارے پیچھے بیٹھ لوں گا، غرض اسی حالت میں مدینہ کی گلیوں میں داخل ہوئے، لوگ امیرالمومنین عمر بن خطاب کو ایک غلام کے پیچھے دیکھتے تھے اور تعجب کرتے تھے۔ آپ کو بارہا سفر کا اتفاق ہوا ؛لیکن خیمہ و خرگاہ کبھی ساتھ نہیں رہا، درخت کا سایہ شامیانہ اور فرش خاک بستر تھا، سفر شام کے موقع پر مسلمانوں نے اس خیال سے کہ عیس
ur_Arab
ائی امیر المومنین کے معمولی لباس اور بے سرو سامانی کو دیکھ کر اپنے دل میں کیا کہیں گے؟ سواری کے لیے ترکی گھوڑا اور پہننے کے لیے قیمتی لباس پیش کیا، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ خدانے ہم کو جو عزت دی ہے وہ اسلام کی عزت ہے اور ہمارے لیے یہی بس ہے۔ ایک دن صدقہ کے اونٹوں کے بدن پر تیل مل رہے تھے، ایک شخص نے کہا امیر المومنین ! عمر بن خطاب یہ کام کسی غلام سے لیا ہوتا ؟ بولے مجھ سے بڑھ کر کون غلام ہو سکتا ہے؟ جو شخص مسلمانوں کا والی ہے وہ ان کا غلام بھی ہے۔ تشدد و ترحم عمر کی تند مزاجی کے افسانے نہایت کثرت سے مشہور ہیں اور ایک حد تک وہ صحیح بھی ہیں؛لیکن یہ قیاس صحیح نہیں ہے کہ قدرت نے ان کو لطف اور رحمدلی سے ناآشنا رکھا تھا، اصل یہ ہے کہ ان کا غیظ و غضب بھی خدا کے لیے تھا اور لطف و رحم بھی اسی کے لیے، جیسا کہ ایک موقع پر خود ارشاد فرمایا تھا: واللہ لقد لان قلبي في اللہ حتى لهو ألين من الزبد ولقد اشتد قلبي في اللہ حتى لهو أشد من الحجر۔"واللہ!میرادل خدا کے بارے میں نرم ہوتا ہے تو جھاگ سے بھی نرم ہوجاتا ہے اور سخت ہوتا ہے تو پتھر سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے۔" مثال کے طورپر چند واقعات درج ذیل ہیں جس سے اندازہ ہوگا کہ حضرت عمر بن خطاب کا غصہ اور لطف و رحم محض خدا کے لیے تھا، ذاتیات کو مطلقاً دخل نہ تھا۔ غزوۂ بدر میں کافروں نے بنو ہاشم کو مسلمانوں سے لڑنے پر مجبور کیا تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ عباس ؓ کہیں نظر آئیں تو ان کو قتل نہ کرنا، ابو حذیفہ ؓ کی زبان سے نکل گیا کہ بنوہاشم میں کیا خصوصیت ہے؟ اگر عباس ؓ سے مقابلہ ہو گیا تو ضرور مزہ چکھاؤں گا، عمر یہ گستاخی دیکھ کر آپے سے باہر ہو گئے اور کہا اجازت دیجئے کہ میں اس کا سر اُڑا دوں۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ؓ بڑے رتبہ کے صحابی تھے، یہ خود ہجرت کرکے مدینہ چلے آئے تھے؛لیکن ان کے اہل و عیال مکہ میں تھے، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کا قصد فرمایا تو حاطب بن ابی بلت
ur_Arab
عہ ؓ نے اپنے اہل و عیال کی حفاظت کے خیال سے اپنے بعض مشرک دوستوں کو اس کی اطلاع دیدی، حضرت عمرؓ کو معلوم ہوا تو برا فروختہ ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اجازت دیجئے کہ اس کو قتل کر دوں۔ اسی طرح خویصرہ نے ایک دفعہ گستاخانہ کہا"محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)عدل کر"عمر غصے سے بےتاب ہو گئے اور اس کو قتل کردینا چاہا؛لیکن رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا۔ غرض اسی قسم کے متعدد واقعات ہیں جن سے اگر تم مزاج کی سختی کا اندازہ کرسکتے ہو تو دوسری طرف للہیت کا بھی اعتراف کرنا پڑے گا۔ ایام خلافت میں جو سختیاں ظاہو ہوئیں وہ اصولِ سیاست کے لحاظ سے نہایت ضروری تھیں، حضرت خالد بن ولید ؓ کی معزولی، حکام سے سختی کے ساتھ بازپرس، مذہبی پابندی کے لیے تنبیہ وتعزیر اور اسی قسم کے تمام امور عمر کے فرائض منصبی میں داخل تھے، اس لیے انہوں نے جو کچھ کیا وہ منصب خلافت کی حیثیت سے ان پر واجب تھا، ورنہ ان کا دل لطف ومحبت کے شریفانہ جذبات سے خالی نہ تھا ؛بلکہ وہ جس قدر مذہبی اور انتظامی معاملات میں سختی اور تشدد کرتے تھے، ہمدردی کے موقعوں پر اس سے زیادہ لطف ورحم کا برتاؤ کرتے تھے، خدا کی ذی عقل مخلوق میں غلاموں سے زیادہ قابل رحم حالت کسی کی نہیں ہوگی، حضرت عمرؓ نے عنان خلافت ہاتھ میں لینے کے ساتھ تمام عربی غلاموں کو آزاد کرا دیا، اوریہ قانون بنادیا کہ اہل عرب کبھی کسی کے غلام نہیں ہوسکتے، کنزالعمال میں بہ تصریح ان کا قول مذکور ہے کہ "لا تسترق عربی" یعنی عربی غلام نہیں ہوسکتے، عام غلاموں کا آزاد کرانا بہت مشکل تھا تاہم ان کے حق میں بہت سی مراعات قائم کیں، مجاہدین کی تنخواہیں مقرر ہوئیں تو آقا کے ساتھ اسی قدر ان کے غلام کی تنخواہ مقرر ہوئی، اکثر غلاموں کو بلاکر ساتھ کھانا کھلاتے، ایک شخص نے دعوت کی تو محض اس وجہ سے برا فروختہ ہوکر آٹھ گئے کہ اس نے دسترخوان پر اپنے غلام کو نہیں بٹھایا تھا، آپ اکثر حاضرین کو سنا کر کہتے تھے کہ جو لوگ غلاموں کو اپنے ساتھ کھانا کھلانا عار سمجھتے ہیں، خدا ان پر لعنت بھیجتا ہے غلاموں کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ وہ اپنے عزیز و اقارب
ur_Arab
سے جدا ہو جاتے تھے، عمر نے حکم دیا کہ کوئی غلام اپنے اعزہ سے جدانہ کیاجائے۔ 18ھ میں جب عرب میں قحط پڑا اس وقت عمر بن خطاب کی بے قراری قابل دید تھی، دور دراز ممالک سے غلہ منگواکر تقسیم کیا، گوشت گھی اور دوسری مرغوب غذائیں ترک کر دیں، اپنے لڑکے کے ہاتھ میں خربوزہ دیکھ کر خفا ہوئے کہ قوم فاقہ مست ہے اور تو تفکہات سے لطف اٹھاتا ہے، غرض !جب تک قحط رہا، عمر نے ہر قسم کے عیش و لطف سے اجتناب رکھا۔ عراق عجم کے معرکہ میں نعمان بن مقرن اوردوسرے بہت سے مسلمان شہید ہوئے، عمر پر ان کی شہادت کا اتنا اثر تھا کہ زار وقطار روتے تھے، مال غنیمت آیا تو غصہ سے واپس کر دیا کہ مجاہدین اور شہداء کے ورثا میں تقسیم کر دیا جائے۔ تم نے انتظامات کے سلسلہ میں پڑھا ہوگا کہ عمرنے اپنے عہد میں ہر جگہ لنگر خانے، مسافر خانے اور یتیم خانے بنوائے تھے، غرباء مساکین اور مجبور و ناچار آدمیوں کے روز ینے مقرر کر دیے تھے، کیا یہ تمام امور لطف وترحم کے دائرہ سے باہر ہیں۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ذمیوں اور کافروں کے ساتھ جس رحمدلی اور لطف کا سلوک کیا آج مسلمان، مسلمان سے نہیں کرتے، زندگی کے آخری لمحے تک ذمیوں کا خیال رہا، وفات کے وقت وصیت میں ذمیوں کے حقوق پر خاص زوردیا۔ عفو اس لطف و ترحم کی بنا پر عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ عفو اور درگزر سے بھی کام لیتے تھے، ایک دفعہ حر بن قیس اور عینیہ بن حصن حاضر خدمت ہوئے، عینیہ نے کہا آپ انصاف سے حکومت نہیں کرتے،عمر بن خطاب اس گستاخی پر بہت غضبناک ہوئے، حربن قیس نے کہا امیر المومنین! قرآن مجید میں آیا ہے"خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِين " یہ شخص جاہل ہے اس کی بات کاخیال نہ کیجئے، اس گفتگو سے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا غصہ بالکل ٹھنڈا پڑ گیا۔ رفاہِ عام عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فری
ur_Arab
ضۂ خلافت کی حیثیت سے رفاہ عام اور بنی نوع انسان کی بہبودی کے جو کام کیے اس کی تفصیل گزرچکی ہے، ذاتی حیثیت سے بھی ان کا ہرلمحہ خلق اللہ کی نفع رسانی کے لیے وقف تھا، ان کا معمول تھا کہ مجاہدین کے گھروں پر جاتے اور عورتوں سے پوچھ کر بازار سے سودا سلف لا دیتے تھے، مقام جنگ سے قاصد آتا تو اہل فوج کے خطوط ان کے گھروں میں پہنچا آتے اور جس گھر میں کوئی لکھا پڑھا نہ ہوتا خود ہی چوکھٹ پر بیٹھ جاتے اور گھر والے جو کچھ لکھا تے لکھ دیتے، راتوں کو عموماً گشت کرتے کہ عام آبادی کا حال معلوم ہو، ایک دفعہ گشت کرتے ہوئے مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر مقام حرار پہنچے، دیکھا کہ ایک عورت پکار رہی ہے اور دو تین بچے رو رہے ہیں، پاس جاکر حقیقت حال دریافت کی، عورت نے کہا بچے بھوک سے تڑپ رہے ہیں، میں نے ان کے بہلانے کو خالی ہانڈی چڑھا دی ہے،عمر بن خطاب اسی وقت مدینہ آئے اور آٹا، گھی، گوشت اور کھجوریں لے چلے، عمر بن خطاب کے غلام اسلم نے کہا میں لیے چلتا ہوں، فرمایا، ہاں قیامت میں تم میرا بار نہیں اٹھاؤ گے اور خود ہی سب سامان لے کر عورت کے پاس گئے، اس نے پکانے کا انتظام کیا، حضرت عمرؓ دیکھتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔ ایک دفعہ کچھ لوگ شہر کے باہر اترے، عمر نے عبدالرحمن بن عوف ؓ کو ساتھ لیا اور کہا مجھ کو ان کے متعلق مدینہ منورہ کے چوروں کا ڈر لگا ہوا ہے، چلو ہم دونوں چل کر پہرہ دیں؛چنانچہ دونوں آدمی رات بھر پہرہ دیتے رہے۔ ایک دفعہ رات کو گشت کر رہے تھے کہ ایک بدو کے خیمہ سے رونے کی آواز آئی، دریافت سے معلو ہوا کہ بدو کی عورت دردزہ میں مبتلا ہے، حضرت عمرؓ گھر آئے اور اپنی بیوی ام کلثوم ؓ کو ساتھ لیکر بدو کے خیمہ گئے، تھوڑی دیر کے بعد بچہ پیدا ہوا، ام کلثوم ؓ نے پکار کر کہا اے امیر المومنین !اپنے دوست کو مبارکباددیجئے، بد وامیر المومنین کا لفظ سن کو چونک پڑا، عمر نے کہا کچھ خیال نہ کرو، کل میرے پاس آنا، بچہ کی تنخواہ مقرر کردوں گا۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنی غیر معمولی مصروفیات میں سے بھی مجبور، بیکس اور اپاہج آدمیوں کی خدمت گزاری کے لیے وقت نکال لیتے تھے، مدینہ
ur_Arab
سے اکثر نابینا اور ضعیف اشخاص فاروق اعظم ؓ کی خدمت گزاری کے ممنون تھے، خلوص کا یہ عالم تھا کہ خود ان لوگوں کو خبر بھی نہ تھی کہ یہ فرشتہ رحمت کون ہے؟ حضرت طلحہ ؓ کا بیان ہے کہ ایک روز علی الصبح امیر المومنین کو ایک جھونپڑے میں جاتے دیکھا، خیال ہوا کہ فاروق اعظم کا کیا کام ؟دریافت سے معلوم ہوا کہ اس میں ایک نابینا ضعیفہ رہتی ہے اور وہ روز اس کی خبر گیری کے لیے جایا کرتے ہیں۔ خدا کی راہ میں دینا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بہت زیادہ دولتمند نہ تھے، تاہم انہوں نے جو کچھ خدا کی راہ میں صرف کیا وہ ان کی حیثیت سے بہت زیادہ تھا، 9ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کی تیاری کی تو اکثر صحابہ نے ضروریات جنگ کے لیے بڑی بڑی رقمیں پیش کیں، عمر نے اس موقع پر اپنے مال واسباب میں سے آدھا لے کر پیش کیا۔ یہود بنی حارثہ سے آپ کو ایک زمین ملی تھی اس کوخداکی راہ میں وقف کر دیا اسی طریقہ سے خیبر میں ایک بہترین سیر حاصل قطعۂ اراضی ملا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ مجھے ایک قطعہ زمین ملا ہے جس سے بہتر میرے پاس کوئی جائداد نہیں ہے، آپ کا کیا ارشاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وقف کر دو؛چنانچہ حسب ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم فقراء اعزہ، مسافر، غلام اور جہاد کے لیے وقف کر دیا۔ ایک دفعہ ایک اعرابی نے نہایت رقت انگیز اشعار سنائے اور دست سوال دراز کیا، حضرت عمرؓ متاثر ہوکر بہت روئے اور کرتا اتار کر دے دیا۔ مساوات کا خیال عہد فاروقی میں شاہ گدا، امیروغریب، مفلس و مالدار سب ایک حال میں نظر آتے تھے، عمال کو تاکیدی حکم تھا کہ کسی طرح کا امتیاز ونمودا تیار نہ کریں، عمر نے خود ذاتی حیثیت سے بھی مساوات اپنا خاص شعار بنایا تھا، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنی معاشرت نہایت سادہ رکھی تھی، تعظیم وتکریم کو دل سے ناپسند کرتے تھے، ایک دفعہ کسی نے کہا، میں آپ پر قربان فرمایا ایسا نہ کہو، اس سے تمہار نفس ذلیل ہو جائے گا، اسی طرح زید بن ثابت ؓ قاضی مدینہ کی عدالت میں مدعا علیہ کی حیثیت سے گئے تو انہوں نے تعظیم کے لیے جگہ خالی کردی، عمر نے کہا تم نے اس
ur_Arab
مقدمہ میں یہ پہلی ناانصافی کی، یہ کہہ کر اپنے فریق کے برابر بیٹھ گئے۔ آپ کا مقولہ تھا کہ میں اگر عیش وتنعم کی زندگی بسر کروں اور لوگ مصیبت و افلاس میں رہیں تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا، سفر شام میں نفیس و لذیز کھانے پیش کیے گئے تو پوچھا کہ تمام مسلمانوں کو بھی یہ ایوان نعمت میسر ہیں؟ لوگوں نے کہا ہر شخص کے لیے کس طرح ممکن ہے؟فرمایا، تو پھر مجھے بھی اس کی حاجت نہیں۔ خلافت کی حیثیت سے فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جاہ وجلال کا سکہ تمام دنیا پر بیٹھا ہوا تھا ؛لیکن مساوات کا یہ عالم تھا کہ قیصروکسریٰ کے سفراء آتے تھے تو انہیں یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ شاہ کون ہے؟درحقیقت حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خود نمونہ بن کر مسلمانوں کو مساوات کا ایسا درس دیا تھا کہ حاکم ومحکوم، اور آقا وغلام کے سارے امتیازات اُٹھ گئے تھے۔ غیرت حضرت عمرؓ بالطبع غیور واقع ہوئے تھے، یہاں تک کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی غیرت کا پاس و لحاظ کرتے تھے، صحیح مسلم، ترمذی اور صحاح کی تقریباً سب کتابوں میں باختلاف الفاظ مروی ہے کہ معراج کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےجنت میں ایک عالیشان طلائی قصر ملاحظہ فرمایا جو فاروق اعظم ؓ کے لیے مخصوص تھا اس کے اندر صرف اس وجہ سے تشریف نہیں لے گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی غیر ت کا حال معلوم تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر سے اس کا ذکر فرمایا تو وہ روکر کہنے لگے" أَعَلَيْكَ أَغَارُ يَا رَسُولَ اللَّهِ" (کیا میں آپ کے مقابلہ میں غیرت کروں گا یا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم۔ آیت حجاب نازل ہونے سے پہلے عرب میں پردہ کا رواج نہ تھا یہاں تک کہ خود ازواج مطہرات ؓ پردہ نہیں کرتی تھیں، حضرت عمرؓ کی غیرت اس بے حجابی کو نہایت ناپسند کرتی تھی، باربار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتجی ہوئے کہ آپ ازواجِ مطہرات ؓ کو پردہ کا حکم دیں اس خواہش کے بعد ہی آیت حجاب نازل ہوئی۔ آپ کی غیرت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ جب آپ کو خبر ملی مسلمان عورتیں حماموں میں عیس
ur_Arab
ائی عورتوں کے سامنے بے پردہ نہاتی ہیں تو تحریری حکم جاری کیا کہ مسلمان عورت کا غیر مذہب والی عورت کے سامنے بے پردہ ہونا جائز نہیں۔ خانگی زندگی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اولادو ازواج سے محبت تھی، مگر اس قدر نہیں کہ خالق ومخلوق کے تعلقات میں فتنہ ثابت ہو، اہل خاندان سے بھی بہت زیادہ شغف نہ تھا، البتہ زید ؓ سے جو حقیقی بھائی تھے، نہایت الفت رکھتے تھے جب وہ یمامہ کی جنگ میں شہید ہوئے تو نہایت قلق ہوا، فرمایا کرتے تھے کہ جب یمامہ کی طرف سے ہوا چلتی ہے تو مجھ کو زید کی خوشبو آتی ہے، زید نے اسماء نامی ایک لڑکی چھوڑی تھی اس کو بہت پیار کرتے تھے۔ مکہ سے ہجرت کرکے آئے تو مدینہ سے دومیل کے فاصلہ پر عوالی میں رہتے تھے ؛لیکن خلافت کے بعد خاص مدینہ میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے متصل سکونت اختیار کی، چونکہ وفات کے وقت وصیت کردی تھی کہ مکان فروخت کرکہ قرض اداکیا جائے، اس لیے یہ مکان فروخت کر دیا گیا اور عرصہ دراز تک دارالقضا ءکے نام سے مشہور رہا۔ حصول معاش کا اعلیٰ ذیعہ تجارت تھا، مدینہ پہنچ کر زراعت بھی شروع کی تھی ؛لیکن خلافت کے بارگراں نے انہیں ذاتی مشاغل سے روک دیا تو ان کی عسرت کو دیکھ کر صحابہ نے اس قدر تنخواہ مقرر کردی جو معمولی خوراک اورلباس کے لیے کافی ہو، 15ھ میں لوگوں کے وظیفے مقرر ہوئے تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے بھی پانچ ہزار درہم۔ سالانہ وظیفہ مقرر ہوا۔ (یہ وظیفہ بھی خلافت کی خصوصیت کی وجہ سے نہ تھا ؛بلکہ تمام بدری صحابیوں کا وظیفہ پانچ پانچ ہزار تھا، غذا اور لباس حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ غذا نہایت سادہ تھی یعنی صرف روٹی اور روغن زیتون پر گزارہ تھا کبھی کبھی گوشت دودھ، ترکاری اور سرکہ بھی دسترخوان پر ہوتا تھا ، لباس بھی نہایت معمولی ہوتا تھا بیشتر صرف قمیص پہنتے تھے، اکثر عمامہ باندھتے تھے، جوتی قدیم عربی وضع کی ہوتی تھی۔ حلیہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حلیہ مبارک یہ تھا، رنگ گندم گوں، سر چندلا، رخسارے کم گوشت، ڈاڑھی گھنی اور مونچھیں بڑی بڑی، قد نہایت طویل، یہاں تک کہ سینکڑوں کے مجمع میں کھڑے ہوں تو سب سے سر بلند نظر آئیں
ur_Arab
۔ ازواج و اولاد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مختلف اوقات میں متعدد نکاح کیے ، ان کے ازواج کی تفصیل یہ ہیں: زینب ہم شیرِ عثمان بن مظعون یہ مکہ میں مسلمان ہوکر مریں۔ قریبہ بنت میۃ المخزومی، مشرکہ ہونے کے باعث انھیں طلاق دی دی تھی۔ ملکیہ بنت جرول، مشرکہ ہونے کی وجہ سے ان کو بھی طلاق دیدی۔ عاتکہ بنت زید، ان کا نکاح پہلے عبد اللہ بن ابی بکر ؓ سے ہوا تھا، پھر حضرت عمرؓ کے نکاح میں آئیں ام کلثوم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی اور حضرت فاطمہ ؓ کی نور دیدہ تھیں، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خاندا نِ نبوت سے تعلق پیدا کرنے کے لیے 17ھ میں چالیس ہزار مہر پر نکاح کیا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی اولاد میں حضرت حفصہ ؓ اس لحاظ سے سب سے ممتاز ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواج مطہرات میں داخل تھیں، عمر نے اپنی کنیت بھی ان ہی کے نام پر رکھی تھی، اولاد مذکور کے نام یہ ہیں: عبد اللہ عاصم ابوشحمہ عبدالرحمن زید محیر ان سب میں عبد اللہ، عبید اللہ اور عاصم اپنے علم و فضل اور مخصوص اوصاف کے لحاظ سے نہایت مشہور ہیں۔ واقعات وہ ایک حاکم تھے۔ وہ ایک مرتبہ وہ مسجد میں منبر رسول پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہو گیا اور کہا کہ اے عمر ہم تیرا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتاؤ گے کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے وہ بیت المال سے لوگوں میں تقسیم ہونے والے اس حصے سے زیادہ ہے جو دوسروں کو ملا تھا۔ تو عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ مجمع میں میرا بیٹا عبد اللّٰہ موجود ہے، عبد اللہ بن عمر کھڑے ہو گئے۔ عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ بیٹا بتاؤ کہ تیرا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں قیامت تک اس منبر پر نہیں چڑھوں گا۔ عبداللّٰہ نے بتایا کہ بابا کو جو کپڑا ملا تھا وہ بہت ہی کم تھا اس سے ان کا پورا کپڑا نہیں بن سکتا تھا۔ اور ان کے پاس جو پہننے کے لباس تھا وہ بہت خستہ حال ہو چکا تھا۔ اس لیے میں نے اپنا کپڑا اپنے والد کو دے دیا۔ ابن سعد فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دن
ur_Arab
امیر المؤمنین کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک کنیز گذری۔ بعض کہنے لگے یہ باندی کی ہے۔ آ پ ( عمر) نے فرمایا کہ امیر المؤمنین کو کیا حق ہے وہ خدا کے مال میں سے باندی رکھے۔ میرے لیے صرف دو جوڑے کپڑے ایک گرمی کا اور دوسرا جاڑے کا اور اوسط درجے کا کھانا بیت المال سے لینا جائز ہے۔ باقی میری وہی حیثیت ہے جو ایک عام مسلمان کی ہے۔ جب آپ کسی بزرگ کو عامل بنا کر بھیجتے تھے تو یہ شرائط سنا دیتے تھے : گھوڑے پر کبھی مت سوار ہونا۔ عمدہ کھانا نہ کھانا۔ باریک کپڑا نہ پہننا۔ حاجت مندوں کی داد رسی کرنا۔ اگر اس کے خلاف ہوتا تو سزائیں دیتے۔ عادات عمر علی سے بھی دیگر صحابہ کی طرح مشورہ کرتے چنانچہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق عمر بن خطاب کی شہادت کے بعد جب علی ابن ابی طالب آئے تو فرمایا میں اس کے نامہ اعمال کے ساتھ اللہ سے ملوں۔ حدیث میں ذکر ان 10 صحابہ کرام م اجمعین کا ذکر عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ: عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عثمان رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں، علی رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، طلحہ رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، زبیر رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عبدالرحمن رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، سعد رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں، سعید رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، ابوعبیدہ رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں۔ فضائل اہل بیت سے مروی فضائل ٌ* علی سے روایت ہے کہ [أن عمر لیقول القول فینزل القرآن بتصدیقہ }}(بے شک عمر فاروق البتہ جب کوئی کہتے ہیں تو قرآن اُن کی بات کی تصدیق کے لیے نازل ہوتا ہے )* فضل بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا [عمر معنی وأنا مع عمر، والحق بعدی مع عمر حیث کان ]}}(میں عمر() کے ساتھ ہوں اور عمر ( ) میرے ساتھ ہیں اور حق میرے بعد عمر () کے ساتھ ہو گا)* ابن عباس سے روایت ہے کہ
ur_Arab
رسول اکرم صلى الله عليه وسلم[ نظر رسول اللہ -صلى اللہ عليہ وسلم- إلى عمر ذات يوم وتبسم، فقال: "يابن الخطاب، أتدري لم تبسمت إليك?" قال: اللہ ورسولہ أعلم، قال: "إن اللہ -عز وجل- نظر إليك بالشفقة والرحمة ليلة عرفة، وجعلك مفتاح الإسلام]}} ( رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے عمر فاروق کی طرف دیکھ کر تبسم فرمایا اور فرمایا اے ابن خطاب !کیا آپ جانتے ہیں کہ میں نے آپ کی طرف دیکھ کر تبسم کیوں فرمایا تو عمرفاروق عرض کی اللہ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم بہتر جانتے ہیں آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :اللہ تعالی نے آپ کی طرف عرفہ کی رات رحمت اور شفقت سے نظر فرمائی اور آپ کو مفتاح اسلام (اسلام کی چابی) بنایا )* علی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کو فرماتے ہوئے سنا "عمر بن الخطاب سراج أهل الجنة"( عمر فاروق اہل جنت کے سردار ہیں )جب عمر فاروق تک یہ بات پہنچی تو آپ ایک جماعت کے ساتھ علی کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ کیا آپ نے رسول اکرم صلى الله عليه وسلم سے سُنا ہے کہ عمر فاروق اہل جنت کے چراغ ہیں علی جواب دیا جی ہاں عمر فاروق نے فرمایا آپ مجھے یہ تحریر لکھ دیں تو علی نے لکھا ("بسم اللہ الرحمن الرحيم: هذا ما ضمن علي بن أبي طالب لعمر بن الخطاب عن رسول اللہ -صلى اللہ عليہ وسلم- عن جبريل عن اللہ تعالى أن عمر بن الخطاب سراج أهل الجنة" عمر فاروق نے یہ تحریر لے کر اپنی اولاد میں سے ایک بیٹا کو دی اور فرمایا (إذا أنا مت وغسلتموني وكفنتموني فأدرجوا هذہ معي في كفني حتى ألقى بها ربي، فلما أصيب غسل وكفن وأدرجت مع في كفنہ ودفن)جب میرا وصال ہو جائے تو مجھے غسل وکفن دینا اور پھر یہ تحریر میرے کفن میں ڈال دینا یہاں تک میں اپنے رب سے ملاقات کروں جب آپ وصال فرما گئے تو آپ کو غسل اور کفن دیا گیا اور آپ کے کفن میں وہ تحریر رکھ کر دفن کر دیا گیا۔}}* کثیر ابو اسماعیل سے روایت ہے کہ میں نے نے ابو جعفر محمد بن علی سے ابو بکر اور عمر فاروق کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا[ بُغْضُ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ نِفَاقٌ، وَب
ur_Arab
ُغْضُ الْأَنْصَارِ نِفَاقٌ۔ يَا كَثِيرُ مَنْ شَكَّ فِيهِمَا، فَقَدْ شَكَّ فِي السُّنَّةِ]}}( ابوبکر، عمر فاروق اور انصار کا بغض نفاق ہے۔ اے کثیر جس نے ان دونوں حضرات کے بارے میں شک کیا اس نے سنت میں شک کیا )* ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا [اللَّهمّ أعزّ الإسلام بأبي جهل بن هشام أو بعمر بن الخطّاب]}}(اے اللہ اسلام کو ابو جہل بن ھشام یا عمر بن خطاب کے ذریعے عزت دے)تو عمر فاروق نے صبح کی اور رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کے پاس آ گئے۔* ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: " وَزِيرَايَ مِنْ أَهْلِ السَّمَاءِ جِبْرِيلُ وَمِيكَائِيلُ، وَوَزِيرَايَ مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ "}}* علی سے روایت ہے [ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، فَقَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا عَلِيُّ، هَذَانِ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ، إِلا النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ "، ثُمَّ قَالَ ل
ur_Arab
ِي: " يَا عَلِيُّ، لا تُخْبِرْهُمَا ]}}کہ میں نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے ساتھ تھا پس ابو بکر وعمر م تشریف لائے تو نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے مجھ سے کہا اے علی () یہ دونوں اہل جنت کے اولین وآخرین کے بوڑھی عمر والوں کے سردار ہیں انبیاومرسلین کے علاوہ پھر مجھے کہا کہ اے علی، تم ان دونوں کو اس بات کی خبر نہ دینا۔* ابن عباس سے فرماتے ہیں [أَكْثِرُوا ذِكْرَ عُمَرَ، فَإِنَّكُمْ إِذَا ذَكَرْتُمُوهُ ذَكَرْتُمُ الْعَدْلَ، وَإِنْ ذَكَرْتُمُ الْعَدْلَ ذَكَرْتُمُ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى]}} عمر فاروق کا کثرت کے ساتھ ذکر کیا کرو جب تم ان کا ذکر کرتے ہوتو تم عدل کا ذکر کرتے ہو اور جب تم عدل کا ذکر کرتے ہو تو تم اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہو۔ عمر بن خطاب اور اقوالِ عالَم مزید دیکھیے عمر سیریز (ویڈیوز) ابوبکر صدیق عثمان بن عفان علی ابن ابی طالب
ur_Arab
عراق ایشیا کا ایک اہم عرب اور مسلمان ملک ہے۔ یہ قدیم میسوپوٹیمیا (مابین النھرین)، قدیم شام کے کچھ صحرائی علاقوں اور مزید کچھ علاقوں پر مشتمل ہے۔ تیل کے ذخائر میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کے جنوب میں کویت اور سعودی عرب، مغرب میں اردن، شمال مغرب میں شام، شمال میں ترکی اور مشرق میں ایران (کردستان علاقہ) ہے۔ اسے ایک محدود سمندری رسائی بھی حاصل ہے جو خلیج فارس کے ساحل ام قصر پر ہے۔ جو بصرہ سے قریب ہے۔ عراق دنیا کے قدیم ترین ممالک میں شامل ہے جس نے کئی تہذیبوں کو جنم دیا ہے۔ فلسطین کی طرح اسے انبیا کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا تعلق اسی علاقے سے تھا اور بروایتے حضرت آدم علیہ السلام نے بھی اس کے شہر قرنہ کو اپنا وطن بنایا تھا۔ 2003ء میں اس پر امریکا نے قبضہ کر لیا تھا جو تا حال جاری ہے البتہ ایک برائے نام حکومت قائم ہے۔ اس کی غالب اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے البتہ کافی تعداد میں مسیحی بھی ہیں۔ اس کا دار الحکومت بغداد ہے جو اس کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس کے علاوہ نجف، کوفہ، بصرہ، کربلا، سامرا، موصل اور کرکوک اس کے مشہور شہر ہیں۔ دریائے دجلہ اور فرات اس کے مشہور دریا ہیں۔ ان کے درمیان میں کی وادی انتہائی زرخیز ہے اور اس میں سات سے نوہزار سال سے بھی پرانے آثار ملتے ہیں۔ سمیری، اکادی، اسیریا اور بابل کی تہذیبیں اسی علاقے میں پروان چڑھیں اور فنا ہوئیں۔ 2020 میں جمہوریہ عراق کی آبادی کا تخمینہ تقریباً 40,150,000 افراد لگایا گیا تھا، جس میں مردوں کی آبادی (50.50%) اور خواتین کی آبادی (49.5%)ہے۔ آبادی کا تناسب 75% سے 80% عراقی عرب اور 15% کرد ہیں، جب کہ بقیہ (5%-10%) آشوری ، ترکمان اور دیگر اقلیتیں ہیں۔ عراق کی اکثریتی آبادی کا مذہب اسلام ہے ، اور یہ آبادی کا 95% ہیں۔ مذہبی اقلیتیں آبادی کا 5% ہیں، جن میں سے زیادہ تر کلڈین عیسائی ہیں۔ دیگر مذاہب جیسے مانڈیازم ، یزیدی، یہودیت ، یارسانی ، اور بہائی ہیں۔ عراق کی نسلوں کا تعلق عرب، کرد ، ترکمان ، کلدین، فیلی کرد ، یزیدی، شاباک، یارسانی، یہودی ، عراقی سرکاسی ، عراقی آرمینیائی ، کاول
ur_Arab
یہ (عراقی روما)، بہائی اور دیگر ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق میں پیدا ہوئے، اور یہ بہت سے انبیاء کی سرزمین ہے جیسے یونس، حزقیل، دانیال، عزیر ، نحم ، حنینہ (عربی میں حنین) ، آدم ، نوح ، ہود، صالح ، ذوالکفل ، سلیمان، اور ایوب وغیرہ، اور مسلمانوں کے بہت سے امام جن میں جیسے کہ امام علی ، امام حسین ، ان کے بھائی عباس بن علی ، محمد بن حسن مہدی عبد القادر جیلانی ، امام ابو حنیفہ النعمان ، اور بہت سے مزارات موجود ہیں۔ جغرافیائی طور پر، خلیج عرب دنیا کے لیے عراق کا واحد سمندری راستہ ہے، کیونکہ عراق کے سمندری ساحل کی لمبائی تقریباً 58 کلومیٹر ہے، اور بصرہ میں ام قصر کی بندرگاہ خلیج کو نظر انداز کرنے والی عراقی بندرگاہوں میں سے ایک اہم ترین بندرگاہ ہے۔ دجلہ اور فرات کے دریا شمالی عراق سے اس کے جنوب میں گزرتے ہیں، جو میسوپوٹیمیا پر دنیا کے پہلے تہذیبی مراکز کے ظہور کی بنیاد تھے، جو پوری تاریخ میں اور 8000 سال کے عرصے کے دوران پیدا ہوئے۔ میسوپوٹیمیا کی تہذیب کی طرف سے تیار کردہ مصنوعات میں سمیری باشندوں کے خطوط کی ایجاد تھی۔ اور بنی نوع انسان کی تاریخ میں پہلے تحریری قوانین کا نفاذ، جس میں تاریخی ذرائع میں ضابطہ حمورابی کے نام سے جانا جاتا ہے، اور یہ امکان ہے کہ عراق میں دنیا کا پہلا عجائب گھر تھا۔ عجائب گھر 530 قبل مسیح کا ہے۔ مختصر تاریخ قبل از تاریخ عراق قدیم ترین انسانوں کی رہائش گاہ تھی۔ طوفانِ نوح یہیں پر آیا تھا۔ عراق سے ملنے والے آثارِ قدیمہ ثابت کرتے ہیں کہ زمانہ قبل از تاریخ میں بھی یہاں کے لوگ باقاعدہ زبان، ثقافت اور مذہب رکھتے تھے۔ عراق کے شمال مشرق میں شانیدر کے غاروں سے ملنے والے نیاندرتھال انسان کے ڈھانچوں سے، جو پچاس سے ساٹھ ہزار سال پرانے ہیں، یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ بولنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور رسومات ادا کیا کرتے تھے مثلاً اپنے مردے پھولوں کے ساتھ دفناتے تھے۔ زمانہ قدیم عراق کو پہلی انسانی تہذیب کی آماجگاہ سمجھا جاتا ہے۔ عراق کا قدیم نام میسوپوٹیمیا ہے۔ مگر یہ وہ نام ہے جو یونانیوں نے انہیں دیا تھا جس کا مطلب یونانی زبان میں ،دریاووں کے درمیان، کے ہیں چونکہ یہ تہذیب دریائے
ur_Arab
دجلہ اور دریائے فرات کے درمیان میں پروان چڑھی۔ اسے ہم تہذیب مابین النھرین یا بلاد الرافدين کہتے ہیں۔ یہ علاقہ سمیریا، اکادی، اسیریائی، کلدانی، ساسانی اور بابل کی تہذیبوں کا مرکز تھا جو پانچ ہزار سال قبل از مسیح باقی دنیا میں بھی نفوذ کر گیا۔ انھوں نے دینا کو لکھنا سکھایا اور ابتدائی ریاضیات، فلسفہ اور سائنسی علوم کے اصول دیے۔ اکادی سلطنت لبنان کے ساحلوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ لبنان وہ علاقہ ہے جس نے ابتدائی حروف بنائے اور سمندری جہاز رانی کی ابتدا کی۔ اکادیوں کے بعد سمیریوں اور اس کے بعد بابل کی تہذیب نے فروغ پایا۔ بابل کی تہذیب میں حمورابی کی بادشاہت میں انھوں نے دنیا کو شہریت کے ابتدائی قوانین دیے۔ چھٹی صدی قبل مسیح میں یہ علاقہ اگلے چار سو سال کے لیے سائرس اعظم کی سلطنتِ فارس کا حصہ بن گیا۔ جس کے بعد سکندر اعظم نے یہ علاقہ فتح کیا جو دو سو سال کے لیے یونانی سلطنت کے زیرِنگیں رہا۔ سکندر کے بعد ایرانیوں نے ساتویں صدی عیسوی تک راج کیا۔ خلافت راشدہ خلافت راشدہ میں عراق ساسانی سلطنت کا حصہ تھی۔ سلطنت، اسلامی خلافت کی سرحدوں تک شروع ہوئی جسے اسلامی فتح فارس کہا جاتا ہے، اور اس کا آغاز سلطنت کے سیاسی اور اقتصادی مرکز عراق پر مسلمانوں کے حملے کی فتوحات سے ہوا سنہ 11 ہجری بمطابق 633 عیسوی میں خالد بن الولید کی قیادت میں عراق پر حملہ کیا اور فتح حاصل کی ۔ اس فتح کے بعد خالد بن الولید کو رومی محاذ پر بھیجا گیا تو مسلمانوں پر فارسیوں نے حملہ کیا جس کی وجہ سے انہیں نقصان اٹھانا پڑا۔ خلیفہ دوم سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں فتوحات کی دوسری لہر سعد ابن ابی وقاص کی قیادت میں سنہ 14 ہجری بمطابق 636 عیسوی میں شروع ہوئی، چنانچہ فیصلہ کن فتح سنہ 636 عیسوی میں جنگ قادسیہ کی صورت میں ہوئی اور سعد ابن ابی وقاص نے عراق پر حکومت کی۔ خلیفہ عمر بن الخطاب کے دور میں بصرہ اور کوفہ شہر تعمیر ہوئے۔ جنگ جمل کے بعد، امام علی نے خلافت کے دارالحکومت کو مدینہ سے کوفہ منتقل کر دیا کیونکہ اس وقت اسلامی ریاست کی سرزمین کے وسط میں یہ مقام تھا۔ اور عراق کا انتظام ان گورنروں کے زیر انتظام رہا جو مدینہ میں خلیفہ کے ذریعہ مقرر کیے گئے تھے، یہاں
ur_Arab
تک کہ چوتھے خلیفہ علی بن ابی طالب کے قتل سے پہلے، جنہوں نے کوفہ کو اپنا دارالخلافہ بنا لیا تھا۔ اموی ریاست اموی ریاست یا اموی خلافت ( 41-132 ہجری / 662-750 AD ) اسلام کی تاریخ میں دوسری خلافت تھی، اور اسلام کی تاریخ کی سب سے بڑی ریاست تھی۔ بنو امیہ کے خاندان نے 41 ہجری (662 ء) سے 132 ہجری (750 ء) تک حکومت کی، اور ریاست کا دارالحکومت موجودہ جمہوریہ شام کے شہر دمشق میں تھا۔معاویہ بن ابی سفیان کے دور میں سیاسی سطح پر سب سے نمایاں تبدیلی یہ تھی کہ انہوں نے ریاست کے دارالحکومت کو کوفہ سے دمشق منتقل کر دیا (جب علی نے اسے مدینہ سے کوفہ منتقل کیا تھا) اور اس سے کچھ لوگ ناراض ہوئے۔ عراق اور حجاز کے ریاست نے ان کے دور حکومت میں استحکام اور خوشحالی کے دور کا مشاہدہ بھی کیا اور طویل وقفے کے بعد فتوحات کی پیروی کی ۔ اموی خاندان کے دوران عراق رونما ہونے والے اہم ترین واقعات میں سے یہ ہیں: کربلا میں الطف کا واقعہ جو تین دن پر محیط تھا اور اس کا اختتام 10 سنہ 61 ہجری کو ہوا جو کہ 12 اکتوبر 680ء کے مطابق ہے۔ محمد بن عبداللہ ، جنہیں مسلمانوں نے جنگ کے خاتمے کے بعد "شہداء کا آقا" کہنا شروع کیا، اور ان کے ساتھ ان کے اہل خانہ اور ساتھی، اور اموی خلیفہ یزید بن معاویہ کی فوج تھی۔ جس کے نتیجے میں حسین اور ان کے ساتھی شہید ہو گئے۔ اور اہل عراق نے حجاز کے لوگوں کے ساتھ عبد اللہ بن زبیر کے خلیفہ کی بیعت کی، پھر اس کے بعد مختار الثقفی نے سنہ 66 ہجری میں بنی امیہ کے خلاف انقلاب کا اعلان کیا اور اس کے قاتلوں کے ایک گروہ کو قتل کر دیا۔ امام حسین جو کوفہ اور دیگر جگہوں پر تھے، جیسے عمر بن سعد اور شمر ابن ذی الجوشن اور دیگر، اور کوفہ میں حکومت پر قبضہ کیا اور نعرہ بلند کیا۔ "اوہ، حسین کا بدلہ" اور عراق میں علوی ریاست بنانے کا ارادہ کر رہا تھا، اور خلیفہ کے دور میں مصعب بن زبیر کی فوج کے ہاتھوں سنہ 67 ہجری میں کوفہ میں مارا گیا۔ عبد الملک بن مروان جس نے سنہ 71 ہجری میں "جنگ دیر الجثیق" میں کامیابی کے بعد عراق کا مینڈیٹ دوبارہ حاصل کیا۔ اور عبد الملک بن مروان نے
ur_Arab
عبد اللہ بن زبیر کے خلاف جنگ میں کامیابی کے بعد حجاج بن یوسف کو عراق اور مشرق کا گورنر بنا کر بھیجا ۔ عراق میں بنی امیہ کی حکمرانی انقلابات سے مشروط تھی، جس میں زید بن علی بن الحسین کا خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے خلاف سنہ 121 ہجری میں انقلاب بھی شامل تھا، ، اور عراق میں بنی امیہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ اموی خلیفہ مروان بن محمد کی عبد اللہ بن علی عباسی کی قیادت میں عباسی فوجوں کے حق میں ہارنے کے بعد 132 ہجری (750 عیسوی) میں جمادی الآخرہ کے مہینے میں عظیم زب کی جنگ ہوئی ۔ عباسی خلافت عباسی ریاست ، اسلامی حکمران خاندانوں میں سے دوسری۔ عباسی امویوں کو اقتدار سے ہٹانے اور خود کو خلافت سے الگ کرنے میں کامیاب ہو گئے، اور انہوں نے اس حکمران خاندان کو ختم کر دیا اور اس کے بیٹوں کا پیچھا کیا یہاں تک کہ ان میں سے اکثر کو ختم کر دیا، اور صرف ان لوگوں کو بچایا گیا جو اندلس میں پناہ مانگتے تھے۔ عباسی ریاست کا قیام پیغمبر اسلام کے سب سے چھوٹے چچا محمد بن عبداللہ، یعنی العباس بن عبد المطلب کے خاندان کی اولاد نے کیا تھا۔ یہ ریاست دمشق کے شہر سے کوفہ تک تھی۔ پھر انبار ، اس سے پہلے کہ انہوں نے بغداد شہر کو اپنا دارالحکومت بنایا، اور بغداد تین صدیوں تک ترقی کرتا رہا، اور دنیا کا سب سے بڑا اور خوبصورت شہر بن گیا، خاص طور پر خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں، جس کا نام بغداد تھا۔ ہزار راتوں کے ناولوں سے وابستہ تھا اور ایک رات اور باقی عالمی ادب میں لیکن اس کا ستارہ پوری طرح عباسی ریاست کے غروب آفتاب کے آغاز کے ساتھ ہی مدھم ہونا شروع ہو گیا۔ عباسی ریاست کے انہدام کی وجوہات مختلف تھیں، خاص طور پر: اس دور میں مختلف عوامی اور مذہبی تحریکوں کا ابھرنا۔ ان ٹیموں اور عباسی حکمرانوں کے درمیان جھگڑے کا مرکز " خلافت " یا مسلمانوں کی قیادت تھی۔ علیحدگی پسند تحریکوں کے پھیلاؤ کی حوصلہ افزائی کرنے والے اندرونی عوامل میں عباسی ریاست کے علاقے میں توسیع بھی تھی، کیونکہ اس وقت دارالحکومت اور ریاست کے کچھ حصوں کے درمیان فاصلہ اور نقل و حمل کی دشواریوں نے دور دراز ممالک کے گورنروں کو اپنے اختیارات سے تجاوز کر دیا تھا۔ اور اپنی علیحدگی پسند تحریک کو روکنے کے لیے خلافت کے دار الحکومت سے آنے والی فوجوں سے خوفزدہ ہوئے بغیر اپنی ریاستوں کے معاملات میں خودمختار
ur_Arab
ہو گئے۔جو اس وقت تک نہیں پہنچی جب تک کہ بہت دیر ہو چکی تھی، اور عباسی ریاست کی سب سے نمایاں علیحدگی پسند تحریکوں میں سے ایک: مطالعہ تحریک، اضلاع کی تحریک ، اور فاطمی تحریک ۔ عباسی ریاست کی حکمرانی کے دوران، ہمدانیوں نے موصل پر قبضہ کر لیا اور اس پر (890 AD-1004 AD) تک حکومت کی، اس طرح ہمدانی ریاست قائم ہوئی۔ بغداد میں عباسی حکومت کا خاتمہ سنہ 656 ہجری / 1258 عیسوی میں ہوا جب ہلاکو خان تاتاری اس شہر پر حملہ کیا۔ منگول حملہ اور اس کا نتیجہ 1257 میں منگول کمانڈر ہلاکو خان نے بغداد پر قبضہ کرنے کے لیے منگول سلطنت کی بڑی تعداد میں فوجیں جمع کرنا شروع کیں۔ اسلامی خلافت کے دارالحکومت میں پہنچنے پر، ہلاکو نے عباسی خلیفہ المستسم باللہ سے ہتھیار ڈالنے کو کہا، لیکن خلیفہ نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا، جس سے ہلاکو ناراض ہوا، چنانچہ اس نے دارالحکومت کو تباہ کرنے کا حکم دیا۔ جو مزاحمت کی حوصلہ شکنی کی منگول حکمت عملی سے مطابقت رکھتا ہے، اور بغداد مکمل طور پر تباہ ہو گیا، اور اندازے کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 200,000 سے لے کر ایک ملین تک ہے۔ ہلاکو کی نسطوری بیوی ڈوکوز خاتون کی مداخلت سے مقامی عیسائی آبادی کو کسی نے پریشان نہیں کیا۔ بیت الحکمت لائبریری کو جلانے کے علاوہ، جو اس وقت کی سب سے بڑی سائنسی، ادبی اور فنی لائبریری سمجھی جاتی تھی، کیونکہ اس میں لاتعداد قیمتی کتابیں اور آثار قدیمہ کے انمول دستاویزات موجود تھے۔ کچھ مورخین کا خیال ہے کہ منگول حملے نے زرعی نظام کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا جس نے میسوپوٹیمیا کو ہزاروں سالوں تک پھلتا پھولتا رکھا۔ تاہم، دوسرے مورخین نے نشاندہی کی کہ زرعی شعبے کے زوال کی بنیادی وجہ مٹی کی کھاری ہے۔ منگولوں کے حملے کے بعد، جلائر نے عراق پر حکومت کی، اور سال 1401 میں امیر تیمور نے عراق پر حملہ کیا، اور اس کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بعد بغداد کو تباہ کر دیا، اور تباہی کے نتیجے میں تقریباً 20،000 بے دفاع باشندے مارے گئے۔ تیمرلین نے ہر سپاہی کو مقتولین کے دو سروں کے ساتھ اس کے پاس واپس آنے کا حکم دیا (اور سپاہیوں
ur_Arab
کے اس سے خوف کی وجہ سے، انہوں نے بغداد میں داخل ہونے سے پہلے ان قیدیوں کو مار ڈالا کہ جب وہ اس کے پاس آئے تو اسے سر دکھائے)۔ اور تیموری ریاست سے اس کا الحاق۔ پندرہویں صدی میں، قرہ قویونلو کے قبائل نے عراق پر اپنا کنٹرول بڑھانے میں کامیاب ہو گئے، کیونکہ ان کے رہنما بہرام خواجہ نے موصل شہر پر اپنا کنٹرول بڑھایا، اور پھر اس کے بیٹے یوسف بن قرہ محمد، پیرام کا پوتا، ایران میں تبریز کے قریب جلیری فوج کو شکست دینے میں کامیاب ہوا، اور اس نے عراق پر قبضہ کر لیا، اور کالی بھیڑوں کی حکمرانی 1467 عیسوی میں دوسرے ترک قبائل یعنی سفید بھیڑوں کے بعد ختم ہو گئی۔ عراق پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے، کیونکہ ان کے امیر حسن قسون نے بلیک شیپ قبائل کی فوج کو شکست دی اور انہیں عراق سے نکال دیا۔ صفوی ریاست صفویوں، شاہوں کے خاندان نے 1501-1785 عیسوی میں فارس ( ایران ) پر حکومت کی اور 1509 میں شاہ اسماعیل صفوی کی قیادت میں بغداد پر قبضہ کر لیا۔ صفویوں کے زیر تسلط رہا یہاں تک کہ 1535 میں عثمانیوں نے اسے ان سے چھین لیا، لیکن صفویوں نے جلد ہی 1624 عیسوی میں اس پر قبضہ کر لیا، اور جب شاہ کی فوج داخل ہوئی تو اس میں قتل عام ہوا ، اور یہ باقی رہا۔ صفوی حکومت کے تحت 1638 عیسوی تک، جب عثمانی سلطان مراد چہارم نے 1638 عیسوی میں اس میں داخلہ لیا۔ سلطنت عثمانیہ صفوی ریاست نے سفید بھیڑوں کی ریاست کو شکست دی جو عراق، ایران، آذربائیجان، آرمینیا، ترکی کے کچھ حصوں، ترکمانستان اور جارجیا پر حکومت کر رہی تھیں اور عراق مختصر مدت کے لیے صفویوں کے ماتحت ہو گیا، یعنی 1508ء کے عرصے میں۔ ، پھر انہوں نے عثمانیوں کے ساتھ جنگ چالدران میں اپنی شکست کے بعد 1514ء سے آہستہ آہستہ عراق کو کھو دیا یہاں تک کہ انہوں نے 1533ء میں اپنی تمام سرزمین عراق کو کھو دیا، پھر 1623-1638 کے درمیان عراق کو دوبارہ فتح کیا۔ سترہویں صدی تک سلطنت عثمانیہ کی طاقت ایک طرف صفوی ریاست اور دوسری طرف یورپی ممالک کے ساتھ بار بار تنازعات کی وجہ سے ختم ہو گئی اور اپنی ریاستوں پر اس کا کنٹرول کمزور ہو گیا۔ جزیرہ نما عرب میں نجد سے خانہ بدوشوں کی آمد سے آبادی میں اضافہ ہوا۔ اور آباد علاقوں پر بدویوں کے
ur_Arab
چھاپوں کو روکنا ناممکن ہو گیا۔ زیادہ تر ہجرتیں وسطی اور جنوبی علاقوں کی طرف تھیں، خاص طور پر وہ جو دریائے فرات سے متصل ہیں، یعنی انبار سے بصرہ تک۔ 1747-1831 کے درمیانی عرصے کے دوران، ادیگی قوم نسل کے مملوک افسروں نے عراق پر حکومت کی وہ عثمانی سبلائم پورٹ سے خود مختاری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے قبائلی بغاوتوں کو کچل دیا، ینی چری فورس کے اختیارات کو محدود کیا، امن بحال کیا، اور ایک پروگرام متعارف کرایا۔ معیشت اور فوجی نظام کو جدید بنانا۔ 1831ء میں، عثمانیوں نے مملوک حکومت کا تختہ الٹنے اور عراق پر براہ راست کنٹرول مسلط کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ بیسویں صدی کے اوائل میں عراق کی آبادی پچاس لاکھ سے کم تھی۔ اور عراق میں عثمانی سلطنت کے اختتام پر، اس نے قتل عام کیا جسے سیفو قتل عام کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے آشوری قتل عام یا شامی قتل عام بھی کہا جاتا ہے، جو کہ سلطنت عثمانیہ کی باقاعدہ افواج کی مدد سے شروع کی جانے والی جنگی کارروائیوں کا ایک سلسلہ ہے۔ نیم باقاعدہ مسلح گروہوں کا جنہوں نے پہلی عالمی جنگ کے دوران اور اس کے بعد آشوری قوم کے شہریوں کو نشانہ بنایا۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں ان میں سے ہزاروں افراد ہلاک ہوئے، اور دیگر موجودہ ترکیہ کے جنوب مشرق اور شمال مغربی ایران میں اپنے اصل رہائش کے علاقوں سے بے گھر ہو گئے۔ ان میں سے کچھ عراق میں آباد ہوئے۔ پہلی جنگ عظیم، برطانوی مینڈیٹ اور کنونشنز عراق تین ریاستوں سے قائم ہوا: بغداد ، بصرہ اور موصل، جو سابقہ سلطنت عثمانیہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ عراق پر عثمانی حکومت پہلی جنگ عظیم تک جاری رہی، جب عثمانیوں نے جرمنی اور مرکزی طاقتوں کا ساتھ دیا۔ جنگ کا اعلان کرنے کے بعد، میسوپوٹیمیا مہم میں انگریزوں نے 92,000 فوجیوں کو کھو دیا۔ عثمانی نقصانات معلوم نہیں تھے، لیکن برطانوی افواج نے عثمانی فوج سے 45,000 قیدیوں کو پکڑ لیا۔ برطانوی فوج 11 مارچ 1917ء کو بغداد میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئی۔ 1918ء کے آخر تک اس خطے میں 410,000 برطانوی فوجی تعینات تھے، جن میں سے 112,000 جنگی فوجیں تھیں۔ 1916 میں، برطانیہ اور فرانس نے سائیکس پیکو معاہدہ کے تحت پہلی جنگ عظیم کے بعد مغربی ایشیا کی تقسیم کا منصوبہ پیش کیا۔ جنگ کے بعد، جمعیت اقوام نے میسوپوٹیمیا کی ریاستوں (یعنی بغداد، بصرہ اور م
ur_Arab
وصل ) کو برطانیہ سے نوازا۔ 11 نومبر 1920ء کو عراق برطانوی کنٹرول میں لیگ آف نیشنز کا مینڈیٹ بن گیا۔ برطانوی مسلح افواج نے قبضے کے خلاف عرب اور کردوں کی بغاوتوں کو کچل دیا۔ ان انقلابات میں سب سے نمایاں: بیس کی دہائی کا انقلاب اور شام میں دیر الزور کا انقلاب، جو موصل اور تکریت تک پھیلا ہوا محافظہ الانبار اور کرد علاقوں میں شیخ محمود الحفید کا انقلاب شام تھا۔ مارچ 1921ء میں، قاہرہ کانفرنس، جس کی صدارت چرچل نے کی، مشرق وسطیٰ میں استحکام کے لیے منعقد ہوئی۔ جہاں فیصل کو تنصیب کی تصدیق کے لیے ریفرنڈم کرانے کی سفارش کے ساتھ عراق کا بادشاہ نامزد کیا گیا اور فیصل کو 23 اگست 1921ء کو باضابطہ طور پر بادشاہ کا تاج پہنایا گیا۔ جنرل اسمبلی کی طرف سے آئین کے مسودے پر بحث میں ایک ماہ کا عرصہ لگا، اور معمولی ترامیم کے بعد اسے جولائی 1924ء میں منظور کر لیا گیا۔ نامیاتی قانون (جیسا کہ آئین کہا جاتا تھا) 21 مارچ 1925ء کو بادشاہ کے دستخط کے فوراً بعد نافذ ہوا۔ آئین نے ایک آئینی بادشاہت، ایک پارلیمانی حکومت اور دو قانون ساز ایوانوں کی منظوری دی۔ دونوں کونسلیں ایک منتخب پارلیمنٹ اور مقرر کردہ قابل ذکر کونسلوں پر مشتمل تھیں۔ پارلیمنٹ کے ممبران ہر چار سال بعد آزادانہ انتخابات میں منتخب ہوتے تھے۔ پہلی پارلیمنٹ کا اجلاس 1925ء میں ہوا۔ 1958ء میں بادشاہت کے خاتمے سے پہلے دس عام انتخابات ہوئے۔ اس عرصے میں 50 سے زائد حکومتوں کا قیام نظام کے عدم استحکام کی عکاسی کرتا ہے۔ عراق اور برطانیہ کے درمیان 1926 اور 1927 کے دوران یکے بعد دیگرے معاہدے ہوئے اور 1929ء میں برطانیہ نے عراق کو مطلع کیا کہ وہ اسے 1932 میں آزادی دے گا ۔ 30 جون 1930ء کو ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ اس معاہدے نے عراق اور برطانیہ کے درمیان ایک مضبوط اتحاد کے قیام کی منظوری دی تھی، جس میں "خارجہ پالیسی سے متعلق تمام معاملات میں دونوں فریقوں کے درمیان مکمل اور واضح مشاورت کی منظوری دی گئی تھی جو ان کے مشترکہ مفادات کو متاثر کر سکتے ہیں۔" عراق نظم و نسق اور داخلی سلامتی کا انتظام کرتا ہے اور برطانیہ کی حمایت سے غیر ملکی جارحیت کے خلاف اپنا دفاع کرتا ہے۔ برطانیہ نے اپنے یونٹوں کو بصرہ کے قریب اور فرات کے قریب حبانیہ میں فضائی فوجی اڈوں کے لیے جگہیں دیں۔اس معاہدے کی مدت پچیس سال تھی، اور اگر عراق لیگ آف نیشنز میں داخل ہوتا ہے تو یہ موثر ہوگا۔ 3 اکتوبر
ur_Arab
1932ء کو عراق ایک آزاد ملک کے طور پر لیگ آف نیشنز میں داخل ہوا۔ زمانہ جدید جنگ عظیم اول کے دوران میں برطانیہ نے اس پر قبضہ کر لیا۔ بعد میں فرانس اور برطانیہ نے بندر بانٹ کر کے مشرق وسطی کے حصے بخرے کیے۔ 1932ء میں انگریزوں نے اسے آزادی دی اور حکومت شریف مکہ کے بھائی امیر فیصل کو ترکوں کے خلاف جنگ لڑنے کے معاوضے کے طور پر دی۔ مگر عراق میں برطانیہ کے فوجی اڈے برقرار رہے اور اصل طاقت اسی کے پاس تھی۔ جنگ عظیم دوم کے بعد امریکا کا اثر اس خطے میں بڑھنا شروع ہو گیا۔ 1956ء میں عراق، پاکستان، ترکی، ایران، امریکا اور برطانیہ کے درمیان میں معاہدہ بغداد ہوا جو مصر کے جمال عبدالناصر اور شام کے خلاف ایک محاذ بن گیا۔ اس پر جمال عبدالناصر نے عراقی بادشاہت کے خلاف آواز اٹھائی جس کا اثر عراق میں بھی ہوا۔ 14 جولائی 1958ء کو بریگیڈئیر جنرل عبدالکریم قاسم اور کرنل عبدالسلام عارف کی قیادت میں عراقی فوج نے انقلاب برپا کیا اور عراقی بادشاہت کا خاتمہ کر دیا۔ انھوں نے عراق کو جمہوریہ قرار دیا اور معاہدہ بغداد کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ بریگیڈئیر جنرل عبدالکریم قاسم اور کرنل عبدالسلام عارف میں بعد میں اختلافات پیدا ہو گئے کیونکہ کرنل عبدالسلام عارف مصر کے ساتھ گہرے تعلقات کے حامی تھے مگر بریگیڈئیر جنرل عبدالکریم قاسم ایسا نہیں چاہتے تھے۔ اس وقت کرنل عبدالسلام عارف کو فارغ کر دیا گیا۔ 1963ء میں ایک اور فوجی بغاوت میں بعث پارٹی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور کرنل عبدالسلام عارف کو صدر بنا دیا گیا۔ یہ وہی پارٹی ہے جس کے رکن صدام حسین بعد میں صدر بن گئے۔ درمیان میں کچھ وقت کے لیے اقتدار بعث پارٹی کے ہاتھ سے نکل گیا مگر انھوں نے دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ 1968ء میں تیل کی برطانوی کمپنی کو فارغ کر کے ایک فرانسیسی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کر لیا گیا۔ مگر بعد میں تیل کی صنعت کو قومیا لیا گیا۔ یہی وہ دور ہے جس میں عراق نے کچھ اقتصادی ترقی کی۔ جو پہلے برطانوی لوٹ کھسوٹ کے ساتھ ممکن نہیں تھی۔ بعث پارٹی کے صدام حسین کی حکومت 2003ء تک قائم رہی جس کے بعد امریکا نے عراق پر قبضہ کر لیا۔ صدام حسین کے زمانے میں ایران کے ساتھ ایک طویل وقت (ایران عراق جنگ) لڑی گئی جس میں عراق کو سعودی عرب اور امریکا کی آشیر باد حاصل تھی۔ مگر جب صدام حسین نے کویت پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو سعودی عرب اور امریکا نے اس کے خلاف جنگ لڑی۔ اس جنگ میں
ur_Arab
امریکا نے ترکی اور سعودی عرب کا علاقہ عراق کے خلاف استعمال کیا۔ کویت پر عراق کا قبضہ چھڑا لیا گیا مگر اس کے بعد بھی امریکا کے عزائم جاری رہے حتیٰ کہ امریکا نے مارچ 2003ء میں ایک اور جنگ (جنگ عراق 2003ء) میں عراق پر قبضہ کر لیا۔ صدام حسین کا دور حکومت صدام حسین عبد المجید التکریتی ، جن کا تعلق البیضات قبیلے سے ہے (28 اپریل 1937 - 30 دسمبر 2006) 1979 عیسوی سے 9 اپریل تک جمہوریہ عراق کے چوتھے صدر 2003 AD ، اور عراقی جمہوریہ کے پانچویں ریپبلکن گورنر، اور 1975ء اور 1979ء کے درمیان عراقی جمہوریہ کے نائب صدر رہے۔ اس کا نام 17 جولائی 1968ء کے انقلاب میں بعث پارٹی کی بغاوت کے دوران سامنے آیا، جس نے عرب قوم پرست نظریات، اقتصادی شہری کاری، اور سوشلزم کو اپنانے پر زور دیا۔ صدام نے حکومت اور مسلح افواج کے متضاد شعبوں کی باگ ڈور ایسے وقت میں سنبھالی تھی جب بہت سی تنظیموں کا خیال تھا کہ وہ حکومت کا تختہ الٹنے کے قابل ہیں۔ عراق کے لیے ایک منظم ترقیاتی پالیسی کے نتیجے میں ستر کی دہائی میں عراقی معیشت میں تیزی سے اضافہ ہوا، اس کے علاوہ اس وقت تیل کی قیمتوں میں بڑی تیزی کے نتیجے میں حاصل ہونے والے وسائل بھی۔ 1968ء میں بعث پارٹی کے عراق میں اقتدار سنبھالنے کے بعد، صدام نے سنی اور شیعہ فرقوں اور عربوں ، کردوں اور دیگر کے درمیان استحکام حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یہ صدام کی رائے میں تھا کہ جس ملک میں فرقہ واریت اور تفریق پھیلی ہوئی ہو وہاں کی مضبوط اور مستحکم قیادت کو جبر کی پالیسی کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ معیار زندگی کو بلند کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ صدام کے عراق کے صدر بننے کے فوراً بعد، اس نے 22 جولائی 1979ء کو بغداد کے ہال آف مولے میں بعث پارٹی کے رہنماؤں کو جمع کیا۔ اس نے انہیں غداری قرار دیا، اور انہیں میٹنگ روم کے باہر اور حاضرین کے سامنے فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے ایک ایک کر کے پھانسی کا سامنا کرنا پڑا۔ 1980 میں، عراق نے ایران کے ساتھ جنگ شروع کر دی ، اور 2 اگست 1990 کو صدام نے کویت پر حملہ کر دیا ۔ جس کی وجہ سے 1991ء میں دوسری خلیجی جنگ شروع ہوئی۔ دوسری خلیجی جنگ کے فوراً بعد عراق کے جنوب اور شمال میں ایک بغاوت برپا ہوئی جسے شعبان بغاوت کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس کا آغاز تیسرے مارچ 1991
ur_Arab
ء کو ہوا ۔ یہ ناکہ بندی 6 اگست 1990ء کو کویت پر حملے کے چار دن بعد شروع ہوئی اور سلامتی کونسل نے عراق کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگانا جاری رکھیں اور عراق پر نوے کی دہائی کے دوران اپنی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا، جس میں 1993ء میں ایک سازش کا الزام عائد کیا گیا۔ عراق پر ناکہ بندی کے سنگین نتائج برآمد ہوئے، کیونکہ اس سے ملک کی معیشت تباہ ہوئی، صحت اور تعلیمی سطح میں گراوٹ آئی اور خوراک اور ادویات کی کمی کی وجہ سے انسانی تباہی ہوئی۔ عراق نے سلامتی کونسل کی قراردادوں 706 اور 712 کو مسترد کر دیا ہے، جو عراق کو انسانی امداد کے بدلے تیل فروخت کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔ لیکن عراق نے بعد میں رضامندی ظاہر کی، اور سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 986 کے مطابق انسانی امداد اس کو منتقل کر دی گئی، جس نے خوراک کے لیے تیل کے پروگرام کی منظوری دی۔ 18 فروری 1999 کو، اپریل 1999 کے آخر تک، صدام حسین کی سربراہی میں عراقی حکومت کے ہاتھوں جناب محمد صادق الصدر کے قتل کے نتیجے میں ایک بغاوت ہوئی، اور محاذ آرائیاں ہوئیں۔ امریکی قبضہ اور اس کے بعد آج کل عراق میں ایک برائے نام حکومت قائم ہے جو 30 جنوری 2005ء کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی مگر امریکی قبضہ جاری ہے اور اصل طاقت اسی کے پاس ہے۔ تیل کی عراقی دولت کو برطانیہ اور امریکا دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ یہ دور ایک خون آلود دور کے طور پر یاد کیا جائے گا کیونکہ ان چند سالوں میں اتنی عراقی عوام قتل ہوئی ہے جو پچھلے پچاس سال میں نہیں ہوئی۔ عراق کے سابق صدر صدام حسین کو امریکی کی زیرِنگیں حکومت نے پھانسی دے دی ہے جس سے فرقہ وارانہ فساد میں اضافہ ہوا ہے۔ استعماری طاقتیں سنی، شیعہ اور کرد مسلمانوں میں اختلافات کو ہوا دے رہے ہیں جس کا منطقی نتیجہ عراق کی تقسیم کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکا کی نظریں ایران اور پاکستان پر لگی ہوئی ہیں جو اس وقت ھر طرف سے امریکی افواج یا ان کی ساتھی حکومتوں کے درمیان میں گھری ہوئی ہیں۔ اس سے مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ ایک بار پھر بدلنے کا امکان ہے۔ موجودہ عراق شہری بدامنی نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا جو جولائی 2018ء میں بغداد اور نجف سے شروع ہوا اور ستمبر 2019ء کے آخر میں دوسرے صوبوں تک پھیل گیا کیونکہ بدعنوانی، بے روزگاری اور عوامی خدمت کی ناکامی کے خلاف احتجاجی مارچ پرتشدد ہو گئے۔ انتظامیہ کے خاتمے اور عراق میں ایرانی
ur_Arab
مداخلت کے خاتمے کے مطالبات میں اضافے سے پہلے 16 سال بدعنوانی، بے روزگاری اور عوامی خدمات میں نا اہلی کے خلاف یکم اکتوبر 2019ء کو دوبارہ احتجاج اور مظاہرے شروع ہوئے ۔ بعض صورتوں میں، عراقی حکومت نے ضرورت سے زیادہ سختی کا جواب دیا ہے، جس کے نتیجے میں 12 دسمبر 2019ء تک 500 سے زیادہ اموات ہوئیں۔ 27 دسمبر 2019ء کو عراق میں K1 بیس پر 30 سے زیادہ میزائلوں سے حملہ کیا گیا جس میں ایک امریکی شہری ٹھیکیدار ہلاک اور دیگر زخمی ہوئے۔ امریکہ نے ایرانی حمایت یافتہ کتائب حزب اللہ تنظیم کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس مہینے کے آخر میں، 27 دسمبر کو ہونے والے کتائب حملے کے جواب میں ، امریکہ نے عراق اور شام میں کتائب حزب اللہ کے پانچ مقامات پر بمباری کی ۔ عراقی ذرائع کے مطابق تنظیم کے کم از کم 25 جنگجو مارے گئے۔ 31 دسمبر 2019ء کو امریکی فضائی حملوں میں ہلاک ہونے والے کتائب حزب اللہ کے ارکان کے جنازے کے بعد درجنوں عراقی شیعہ ملیشیا اور ان کے حامیوں نے بغداد کے گرین زون کی طرف مارچ کیا اور امریکی سفارت خانے کے احاطے کا گھیراؤ کیا ۔ مظاہرین نے بیریئر کا دروازہ توڑ دیا، استقبالیہ جگہ کو آگ لگا دی، امریکہ مخالف پوسٹرز چھوڑے اور امریکہ مخالف نعرے لکھے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر حملے کے ماسٹر مائنڈ کا الزام عائد کیا ہے۔ 3 جنوری 2020ء کو، امریکہ اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان، امریکہ نے بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب سفر کرنے والے ایک قافلے پر ڈرون حملہ کیا، جس میں ایرانی میجر جنرل اور پاسداران انقلاب اور قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی ہلاک ہو گئے۔ ایران میں دوسری سب سے زیادہ بااثر شخصیت؛ ابو مہدی المہندس ، عراقی پاپولر موبلائزیشن فورسز کے ڈپٹی کمانڈر، چار سینئر ایرانی افسران، اور چار عراقی افسران بھی مارے گئے۔ اکتوبر 2019ء میں عراق بھر میں شروع ہونے والے مہینوں کے مظاہروں اور وزیر اعظم عادل عبد المہدی اور ان کی حکومت کے استعفیٰ کے بعد، مصطفیٰ الکاظمی وزارت عظمیٰ کے لیے اہم دعویدار بن گئے۔ 9 اپریل 2020 کو صدر برہم صالح نے انہیں وزیر اعظم مقرر کیا، صرف 10 ہفتوں میں ملک کی قیادت کے لیے منتخب ہونے والے تیسرے شخص تھے۔ سرکاری ٹی وی نے اطلاع دی ہے کہ کاظمی کو صدر بر
ur_Arab
ہم صالح نے نامزد کیا تھا، جس کے فوراً بعد سابق وزیر اعظم نامزد، عدنان الزرفی نے حکومت کو منظور کرنے کے لیے خاطر خواہ حمایت حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد دستبرداری کا اعلان کیا۔ نومبر 2021ء میں، عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی ایک ناکام قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے۔ 30 نومبر 2021ء کو، شیعہ رہنما مقتدا الصدر کی زیر قیادت سیاسی بلاک، سدرسٹ تحریک نے اکتوبر کے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی تصدیق کی تھی، جس میں پارلیمنٹ کی 329 نشستوں میں سے کل 73 نشستیں تھیں۔ پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد الحلبوسی کی قیادت میں تقدم پارٹی نے 37 نشستیں حاصل کیں۔ سابق وزیر اعظم نوری المالکی کی قیادت میں اسٹیٹ آف لاء پارٹی نے پارلیمنٹ میں 33 نشستیں حاصل کیں۔ جہاں تک فتح الائنس کا تعلق ہے، جس کے اہم اجزاء ایران کے حمایت یافتہ دھڑے ہیں، اس نے عوامی حمایت کھونے کے بعد صرف 17 نشستیں حاصل کیں۔ کے ڈی پی نے 31 نشستیں حاصل کیں، اور پیٹریاٹک یونین آف کردستان نے 18 نشستیں حاصل کیں۔ عجم اتحاد نے 12 نشستیں حاصل کیں، امتداد موومنٹ اور نیو جنریشن موومنٹ کو نو نشستیں، اور آزاد ارکان پارلیمنٹ کو 40 نشستیں حاصل ہوئیں۔ جہاں تک اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کا تعلق ہے، بابلبن تحریک نے عیسائیوں کے لیے مختص 5 نشستوں میں سے 4 نشستیں حاصل کیں، جب کہ ایک آزاد امیدوار نے ایک نشست جیتی۔ یزیدی موومنٹ فار ریفارم اینڈ پروگریس نے ایک یزیدی سیٹ جیت لی۔ جغرافیہ عراق کا کل رقبہ 168,743 مربع میل (437,072 مربع کلو میٹر) ہے۔ اس کا زیادہ تر علاقہ صحرائی ہے مگر دریائے دجلہ اور دریائے فرات کے درمیان میں کا علاقہ انتہائی زرخیز ہے۔ اس علاقے کو میسوپوٹیمیابلادالرافدين یا مابین النھرین کہتے ہیں۔ زیادہ تر شہر انہی دو دریاؤں کے کناروں پر آباد ہیں۔ عراق کا ساحلِ سمندر خلیجِ فارس کے ساتھ بہت تھوڑا ہے جو ام قصر کہلاتا ہے اور بصرہ کے پاس ہے۔ عراق عرب کی آخری سرزمین کہلائی جا سکتی ہے کیونکہ اس کے بعد ایران اور پاکستان ہیں۔ عراق کے ایک طرف کویت ہے جو کسی زمانے میں عراق ہی کا حصہ تھا۔ ایک طرف شام ہے اور ایک طرف سعودی عرب۔ عراق کو اپنے تیل کے ذخائر کی
ur_Arab
وجہ سے بہت اہمیت حاصل ہے جو دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ عراق میں خشک گرمیوں کا موسم آتا ہے جس میں بادل تک نہیں آتے مگر سردیوں میں کچھ بارش ہوتی ہے۔ عراق کے شمال میں کچھ پہاڑی علاقے بھی ہیں۔ مگر اس کا سب سے بڑا صوبہ (محافظۃ الانبار) جو سعودی عرب کے ساتھ لگتا ہے مکمل طور پر صحرائی ہے۔ جمہوریہ عراق براعظم ایشیا کے جنوب مغرب میں واقع ہے، لہذا یہ مشرق وسطی کے علاقے میں واقع ہے۔ یہ عرب دنیا کا شمال مشرقی حصہ بناتا ہے۔ اس کی سرحدیں شمال میں ترکیہ ، مشرق میں ایران ، مغرب میں شام ، اردن اور سعودی عرب اور جنوب میں کویت اور سعودی عرب سے ملتی ہیں ۔ یہ عرض البلد 29° 5' اور 37° 22' N، اور عرض البلد 38° 45' اور 48° 45' E کے درمیان پھیلا ہوا ہے۔ عراق بنیادی طور پر ایک صحرائی ملک ہے، اور اسے صحرائے عرب اور صحرائے شام کا حصہ سمجھا جاتا ہے ، دریائے دجلہ جو ایک دوسرے کے ساتھ ملتے ہیں ، اور اس سے دو بڑے دریا گزرتے ہیں، دجلہ اور فرات ۔ عراق کے علاقے۔, اور دونوں دریاؤں میں بہت سی معاون ندیاں ہیں جو عراق کی سرحدوں کے باہر سے آتی ہیں، سوائے عظیم معاون دریا کے، جو ایک عراقی معاون دریا ہے۔ پانی کا ایک جسم جسے شط العرب کہا جاتا ہے، جو بدلے میں خلیج فارس میں خالی ہو جاتا ہے، اور عراق کے بیشتر بڑے شہر ان دو دریاؤں کو نظر انداز کرتے ہیں، جیسے نینویٰ ، بیجی ، بغداد ، رمادی ، عمارہ ، ناصریہ اور بصرہ ۔ جہاں تک عراق کے شمال کا تعلق ہے، اس پر پہاڑوں کا غلبہ ہے، اور اس کا سب سے اونچا مقام 3611 میٹر (11847 فٹ) اونچائی ہے، جو کوہ شیخا در کی چوٹی ہے ، جس کا مطلب ہے (سیاہ خیمہ)۔ عراق کے پہاڑ دو زنجیروں پر مشتمل ہیں: ترکی کے ساتھ سلسلہ کوہ طوروس سلسلہ، اور ایران کے ساتھ زگروس پہاڑی سلسلہ۔ اور اندرونی طور پر عراق میں، حمرین کی پہاڑیوں کے اندر پہاڑیاں اور پہاڑ ہیں، اسی طرح مغربی عراق میں ایک سطح مرتفع ہے جسے مغربی سطح مرتفع کہا جاتا ہے، اور عراق کا ایک مختصر ساحل ہے جس سے 58 کلومیٹر (36 میل) عرب نظر آتے ہیں۔ خلیج مزید برآں، عراق میں مصنوعی جھیلیں ہیں، جن میں سب سے اہم ثرثار جھیل ، الر
ur_Arab
زازہ جھیل ، اور صوا جھیل جیسی قدرتی جھیلیں ہیں، جو المثنا گورنری میں صحرائے شام کے وسط میں واقع ہیں۔ عراق کے جنوبی گورنریٹس میں کئی دلدل بھی ہیں جن میں سے سب سے اہم حوثی دلدل اور حمار دلدل ہیں۔ رقبہ عراق کا کل رقبہ (علاقائی پانیوں کے ساتھ)، 20 اکتوبر 2009 کو عراقی حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق، کل 435,052 مربع کلومیٹر ہے، جس میں سے 434,128 مربع کلومیٹر زمینی رقبہ (99.8%)، اور 924 مربع کلومیٹر علاقائی پانیوں کا رقبہ ہے (0.2%)۔ کتاب حقائق عالم ویب سائٹ کے اعدادوشمار کے مطابق عراق رقبہ 438,317 کلومیٹر 2 ہے۔ پانی زمینی رقبہ کا 0.29% ہے، یعنی پانی کا رقبہ 950 km2 ہے۔ جہاں تک عراق کی سرحدوں کی لمبائی کا تعلق ہے، یہ کل 3,809 مربع کلومیٹر ہے۔ ترکی کے ساتھ یہ 367 مربع کلومیٹر، ایران کے ساتھ 1599 مربع کلومیٹر، کویت کے ساتھ 254 مربع کلومیٹر، سعودی عرب کے ساتھ 811 مربع کلومیٹر، اردن کے ساتھ 179 مربع کلومیٹر، اور شام کے ساتھ 599 مربع کلومیٹر ہے۔ تلچھٹ کا میدان تلچھٹ کا میدان عراق کے ایک چوتھائی رقبے پر، یا 132,000 کلومیٹر 2 کے برابر ہے، اور ایک مستطیل کی شکل میں پھیلا ہوا ہے (650 کلومیٹر لمبا اور 250 کلومیٹر چوڑا)، اور دریائے دجلہ پر بلاد شہر کے درمیان پھیلا ہوا ہے۔ اور شمال کی طرف سے دریائے فرات پر بلیک پہاڑی کے علاقے میں رمادی کا شہر، اور مشرق سے ایرانی سرحد۔ اور مغرب کی طرف سے صحرائی سطح مرتفع، اور اس میں دلدل اور جھیلیں شامل ہیں، جیسا کہ میدانی علاقوں کے ساتھ دلدل اور جھیلیں بنتی ہیں۔ یہ ملک کے رقبے کا 30.5%ہے۔ صحرائی سطح مرتفع یہ مغربی عراق میں واقع ہے اور ملک کا تقریباً نصف رقبہ یا 198,000 مربع کلومیٹر پر محیط ہے، اور اس کی اونچائی (100-1000) میٹر کے درمیان ہے، اور اس میں جزیرہ فرات بھی شامل ہے۔ عراق کے ریگستان 38.7 فیصد ہیں۔ پہاڑی علاقہ پہاڑی علاقہ عراق کے شمالی اور شمال مشرقی حصے میں واقع ہے اور مغرب اور مشرق میں شام، ترکی اور ایران کے ساتھ اپنی مشترکہ سرحد
ur_Arab
وں تک پھیلا ہوا ہے۔ ہموار علاقہ یہ جنوب میں نچلے میدانوں اور عراق کے شمال اور شمال مشرق میں بلند پہاڑوں کے درمیان ایک عبوری خطہ ہے۔یہ پہاڑی علاقے کے رقبے کے 50% سے بھی کم یا (67,000 مربع کلومیٹر ) پر قابض ہے۔ 42,000 مربع کلومیٹر ) پہاڑی علاقے سے باہر ہے، اور اس کی اونچائی (100-1200) میٹر، اور پہاڑی علاقے کے اندر 25،000 کلومیٹر 2 ، اور اس کی اونچائی (200-450) میٹر تک ہے، اور لہراتی خطہ 9.7 تک ہے۔ جزیرے عراق میں دریائی جزیرے ہیں جن میں سب سے اہم یہ ہیں: گورنری الانبار میں دو جزیرے الوس اور جبہ ، بغداد میں ام الخنظیر کا جزیرہ، ام الرصاص کے جزائر، ام الببی اور سنباد۔ بصرہ میں شط العرب اور بصرہ میں خور الزبیر کے داخلی راستے پر واقع جزیرہ حجام اور جزیرہ مجنون جو کہ ایک مصنوعی جزیرہ ہے جس سے تیل کی پائپ لائنیں بصرہ میں قرنہ میں گزرتی ہیں۔ دریائے دجلہ اور فرات میں بہت سے جزیرے ہیں۔ موسم پورے عراق میں اوسط درجہ حرارت جولائی اور اگست میں 48 ° C (118.4 ° F ) سے لے کر جنوری میں انجماد سے نیچے تک ہوتا ہے۔ زیادہ تر بارش دسمبر اور اپریل کے درمیان ہوتی ہے، جس کی اوسط سالانہ 100 اور 180 ملی میٹر (3.9 اور 7.1 انچ) کے درمیان ہوتی ہے۔ شمالی عراق کے پہاڑی علاقے میں وسطی اور جنوبی علاقوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔ تقریباً 90% سالانہ بارش نومبر اور اپریل کے درمیان اور خاص طور پر دسمبر اور مارچ کے درمیان ہوتی ہے۔ جہاں تک باقی مہینوں کا تعلق ہے، خاص طور پر اعلی درجہ حرارت جیسے جون ، جولائی اور اگست ، خشک ہوتے ہیں۔ موسم سرما کا کم از کم درجہ حرارت شمالی، شمال مشرقی دامن، اور مغربی صحرا میں قریب انجماد (صبح سے پہلے) سے لے کر 2 سے 3 °C (35.6–37.4 °F) اور 4 سے 5 °C (39.2 °C) تک ہوتا ہے۔ 41 ڈگری فارن ہائیٹ)، جنوبی عراق کے اللووی میدانی علاقوں میں۔ یہ مغربی صحرا، شمال مشرق میں تقریباً 16 °C (60.8 °F) کی زیادہ سے زیادہ اوسط اور جنوب میں 17 °C (62.6 °F) تک بڑھ جاتا ہے۔ گرمیوں میں، کم سے کم درجہ حرارت، تقریباً 27
ur_Arab
سے 34 °C (80.6 سے 93.2 °F) اور زیادہ سے زیادہ تقریباً 42 سے 47 °C (107.6 اور 116.6 °F) تک بڑھ جاتا ہے، کچھ دنوں میں 50 درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تھا۔ ڈگری سیلسیس اور زیادہ۔ رات کا درجہ حرارت بعض اوقات انجماد سے نیچے گر جاتا ہے، اور انبار گورنریٹ کے مغربی صحرا میں رتبہ میں درجہ حرارت -14 °C (6.8 °F) ریکارڈ کیا گیا ہے۔ گرمی کے مہینوں میں درجہ حرارت 49 °C (120.2 °F) سے زیادہ ہونے کے ساتھ نمی کا امکان زیادہ ہوتا ہے، اور کئی اسٹیشنوں پر 53 °C (127.4 °F) سے زیادہ کا ریکارڈ ہوتا ہے۔ عراق کی آب و ہوا تین اقسام میں تقسیم ہے: بحیرہ روم کی آب و ہوا : ملک کے شمال مشرق میں پہاڑی علاقے میں غالب ہے، اور اس کی خاصیت اس کی سرد سردیوں سے ہوتی ہے، جہاں پہاڑی چوٹیوں پر برف پڑتی ہے، اور بارش کی مقدار سالانہ 400-1000 ملی میٹر کے درمیان ہوتی ہے۔ اپنے بہت سے ریزورٹس کے لیے مشہور ہوا، جیسے کہ صلاح الدین، شکلوا، حج عمران، سارسنگ، اور دیگر۔ میدانی آب و ہوا : پہاڑی شمالی علاقے اور جنوب میں گرم صحرائی آب و ہوا کے درمیان ایک عبوری آب و ہوا ہے۔ یہ زیادہ تر غیر منقولہ علاقے کی حدود میں واقع ہے۔ اس کی سالانہ بارش 200-400 ملی میٹر کے درمیان ہوتی ہے، اور یہ مقدار موسمی موسم کے لیے کافی ہے۔ گرم صحرائی آب و ہوا : یہ تلچھٹ کے میدان اور مغربی سطح مرتفع میں موجود ہے، اور اس میں عراق کا 70% علاقہ شامل ہے۔ اس کی سالانہ بارش 50-200 ملی میٹر کے درمیان ہوتی ہے۔ اس کی خصوصیت رات اور دن، گرمیوں اور موسم گرما کے درمیان ایک بڑی تھرمل رینج ہے۔ موسم سرما، اور گرم موسم۔ اس کا درجہ حرارت نقطہ انجماد سے اوپر رہتا ہے سوائے چند راتوں کے۔ قدرتی وسائل عراق پچھلی صدی کے ساٹھ کی دہائی کے آغاز میں پانی کے مسائل سے دوچار ہوا جب ترکی نے دجلہ اور فرات پر 22 ڈیم بنانے کے مقصد سے جنوب مشرقی اناطولیہ کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا اور یہ بحران 2008 عیسوی کی خشک سالی میں مزید خراب ہونے تک جاری رہا۔ 19 ستمبر 2009 کو ترکی اور شام اور عراق کے درمیان دجلہ اور فرات کے طاسوں میں پانی کی ترسیل اور پانی کی سطح کے لیے مشترکہ نگرانی کے مراکز کے قیام سے متعلق ایک مفاہمت کی
ur_Arab
یادداشت پر دستخط کیے گئے۔ ترکی نے فرات کے حصے میں بھی اضافہ کیا۔ دریا 450 سے 500 کیوبک سینٹی میٹر تک، اور عراق نے مہینوں کے بعد ترکی کے ساتھ تیل کی تجارت کرنے اور بدلے میں ترکی کے ساتھ سرحد پر کرد ملیشیا کے کام کو روکنے میں مدد کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ الیسو ڈیم ، جس کا کام 2015 عیسوی میں شروع ہونے کی امید ہے۔ ترکی میں دجلہ، عراق اور ترکی کے درمیان سیاسی تنازعہ کی نمائندگی کرتا ہے، اور عراق کے پاس زمینی پانی کا ایک بڑا ذخیرہ بھی ہے۔ تیل : عراق، خاص طور پر بصرہ اور کرکوک کے صوبوں میں، تیل سے مالا مال علاقہ ہے۔ 2015 کے اندازوں کے مطابق، عراق تقریباً 30 لاکھ بیرل یومیہ پیدا کرتا ہے، اور 2015 کے اگست کے مہینے میں برآمد کی جانے والی مقدار 93,700,000 بیرل تھی ، اور یہ تیل کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کے ممالک میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ 31 دسمبر 2014 کو قدرتی گیس : 2008 کے اندازوں کے مطابق عراق تقریباً 15 بلین کیوبک میٹر پیدا کرتا ہے اور اس مقدار کے ساتھ قدرتی گیس کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کے ممالک میں بتیسویں نمبر پر ہے۔ عراق کے قدرتی گیس کے ذخائر، 2008ء کے اندازوں کے مطابق، تقریباً 3000 بلین کیوبک میٹر ہیں، اور اس مقدار کے ساتھ قدرتی گیس کے ثابت شدہ ذخائر کے لحاظ سے دنیا کے ممالک میں دسویں نمبر پر ہے۔ مویشی : عراقی وزارت زراعت کے سال 2008 کے اعدادوشمار کے مطابق، کل (2,552,113) گائے کے سر، (7,722,375) بھیڑوں کے سر، (1,474,845) بکریوں کے سر، (285,537) سروں کے سر ہیں۔ ، اور (58,293) اونٹوں کے سر (اونٹ) زرعی دولت : عراق میں 2013 عیسوی میں کاشت کی گئی اراضی 19,794,742 دونم تھی جبکہ قابل کاشت اراضی 51,616,179 دونم تھی (عراق میں ایک 2500 مربع میٹر کے برابر ہے) 2013 عیسوی کے لیے کردستان کے علاقے کے تین گورنروں کو چھوڑ کر، مجموعی طور پر (1,043,489 دونم (عراقی دونم 2,500 مربع میٹر کے برابر ہے))، گندم کی پیداوار (4,178,379) ٹن، گندم کی پیداوار جو (1,003,198) ٹن ہے، پیلی مکئی کی پیداوار (831,345)
ur_Arab
ٹن ہے، اور کھجور کے درختوں کی تعداد (سوائے کردستان اور موصل کے تین گورنروں کے) کھجور کے درختوں کی تعداد (15,968,660) ہے، اور اس کی پیداوار (676111) ہے۔ حکومت اور سیاست سیاسی نظام عراق میں 1968ء سے 2003ء تک عرب سوشلسٹ بعث پارٹی کی حکومت رہی اور 1979ء میں صدام حسین صدر کے عہدے پر فائز ہوئے اور امریکی قیادت میں حملے کے نتیجے میں ان کی معزولی کے بعد 2003ء تک صدر رہے۔ . 15 اکتوبر 2005 کو، 63 فیصد سے زیادہ اہل عراقیوں نے نئے آئین کو قبول کرنے یا مسترد کرنے پر ووٹ دیا۔ 25 اکتوبر کو، ریفرنڈم کو اپنایا گیا اور آئین کو 78 فیصد کی اکثریت سے منظور کیا گیا، جس کی حمایت ملک کے علاقوں کے درمیان مختلف تھی۔ نئے آئین کو شیعوں اور کردوں میں زبردست حمایت حاصل تھی، لیکن سنی عربوں نے اسے بھاری اکثریت سے مسترد کر دیا تھا۔ آئین کو سنی عرب اکثریت کے ساتھ تین صوبوں نے مسترد کر دیا: ( صلاح الدین نے مخالفت میں 82 فیصد، نینوا میں 55 فیصد کے ساتھ، اور الانبار نے 97 فیصد کے خلاف)۔ آئین کی شقوں کے مطابق نئی حکومت کے انتخاب کے لیے ملک میں 15 دسمبر کو نئے ملک گیر پارلیمانی انتخابات ہوئے۔ عراق کے تین اہم نسلی اور مذہبی گروہوں کی بھاری اکثریت نے نسلی بنیادوں پر ووٹ دیا، اور یہ ووٹ ایک نسلی مردم شماری میں بدل گیا، جو کہ ایک مسابقتی انتخابات سے زیادہ ہے، اور اس نے نسلی بنیادوں پر ملک کی تقسیم کی راہ ہموار کی۔ عراق میں نسلی اقلیتوں کا مرکب ہے جیسے کرد، اسوری، مندائیت ، عراقی ترکمان ، شاباک اور خانہ بدوش۔ ان گروہوں کو عراق کی پوری تاریخ میں عرب اکثریتی آبادی کے برابر درجہ حاصل نہیں ہے۔ 1990-1991 میں خلیجی جنگ کے بعد "نو فلائی زونز" کے قیام کے بعد سے کردوں کے لیے صورتحال بدل گئی ہے کیونکہ انہیں ایک خودمختار علاقہ ملا ہے۔ یہ خاص طور پر ترکی کے ساتھ کشیدگی کا باعث تھا۔ عراق سیاسی اور مالی بدعنوانی کا شکار ہے، اور 2008 میں الجزیرہ ٹی وی نے رپورٹ کیا کہ عراقی تیل کی آمدنی کا 13 بلین ڈالر امریکہ کے پاس ہے، جس میں سے 2.6 بلین ڈالر مکمل طور پر ضائع ہو چکے ہیں اور اس کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ 17 نومبر 2008 کو، ریاستہائے متحدہ اور عراق نے ایک وسیع اسٹریٹجک معاہدے کے حصے کے طور پر، فورسز کے معاہدے پر اتفاق
ur_Arab
کیا۔ اس معاہدے میں کہا گیا ہے کہ "حکومت عراق" امریکی افواج سے درخواست کرتی ہے کہ وہ عراق میں "سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنے" کے لیے عارضی طور پر رہیں، اور یہ کہ عراق کو امریکی فوجی ٹھیکیداروں اور اہلکاروں پر اختیار حاصل ہے جب وہ امریکی اڈوں یا ڈیوٹی پر نہ ہوں۔ 12 فروری 2009 کو، عراق باضابطہ طور پر کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن کے 186 ویں مسلسل دستخط کنندگان میں سے ایک بن گیا۔ اس معاہدے کی شقوں کے مطابق عراق اس کا ایک فریق ہے اور اسے اپنے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے کا اعلان کرنا چاہیے۔ اس کے دیر سے الحاق کی وجہ سے، عراق واحد فریق ہے جو کیمیائی ہتھیاروں کی تباہی کے لیے وقت کی حد سے مستثنیٰ ہے، اور اس کے پاس عراق کے الحاق کی منفرد نوعیت کو حل کرنے کے لیے ترقی کے مخصوص معیارات ہیں۔ 31 اگست 2010 کو امریکی افواج نے عراق میں اپنا جنگی مشن ختم کر دیا۔ اور 15 دسمبر 2011 کو باضابطہ طور پر جنگ کے خاتمے کا اعلان کیا اور 18 دسمبر 2011 کی صبح امریکی افواج سرحد پار کویت کے لیے روانہ ہوگئیں۔ اگست 2014 میں، حیدر العبادی کو نوری المالکی کی جگہ عراق کا وزیر اعظم مقرر کیا گیا تھا، جو عراقی وزیر اعظم کے طور پر تیسری مدت کے لیے کوشاں تھے۔ انتظامی ڈھانچہ عراق سرکاری طور پر 18 صوبوں اور 19 ڈی فیکٹو صوبوں پر مشتمل ہے، اور ایک خطہ عراق کا کردستان علاقہ ہے، جس میں اربیل ، دہوک ، سلیمانیہ اور حلبجا کے صوبے شامل ہیں۔ صوبوں کو اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے اور عراق میں 118 اضلاع ہیں جن کو اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے اور عراق میں 393 اضلاع ہیں۔ کردستان کا علاقہ عراق کے اندر واحد قانونی طور پر متعین خطہ ہے اور اس کی اپنی حکومت اور اپنی سرکاری افواج ہیں۔ تل عفر، میدان نینویٰ، فلوجہ اور تز خرماتو کو اضلاع سے گورنری میں تبدیل کرنے کی تجویز ہے۔ آبادی سنہ 2016 عیسوی میں عراق کی کل آبادی کا تخمینہ تقریباً 37,547,686 لگایا گیا ہے اور 1867 عیسوی میں عراق کی آبادی چند ایک کو چھوڑ کر ایک کروڑ چوتھائی سے زیادہ نہیں تھی۔ 2003 کی جنگ کے بعد آبادی میں اضافے کے بعد حکومت نے اعلان کیا کہ عراق کی آبادی 35 ملین تک پہنچ گئی ہے۔ عراق میں 2013 عیسوی کے لیے شہری آبادی کا فیصد آبادی کا 69.4% تھا عراق پر قبضے کے
ur_Arab
بعد بے ترتیب غیر رسمی رہائش کا رجحان سامنے آیا اور یہ اب بھی بڑھ رہا ہے جب تک کہ عراق میں غیر رسمی بستیاں 1552 تک پہنچ گئیں۔ 2015 میں وزارت منصوبہ بندی کے اعلان کے مطابق غیر رسمی علاقے، جن میں 20 لاکھ 50 ہزار لوگ رہتے ہیں۔ زبانیں عربی اکثریت کی زبان ہے، کرد زبان تقریباً 10% - 15% بولی جاتی ہے، ترکمان، ترک زبان کی ایک مقامی بولی اور آشوریوں کی آرامی زبان اور دیگر تقریباً 5% بولی جاتی ہیں لوگوں کے. چھوٹی اقلیتی زبانوں میں منڈیان ، کرمانجی ، شباکیہ، آرمینیائی ، سرکیسیئن اور فارسی شامل ہیں۔ یہ بولیاں اور زبانیں 25,000 سے 100,000 کے درمیان بولی جاتی ہیں۔ چیچنیا اور جارجیا سے تعلق رکھنے والی دوسری زبانیں اور دیگر کاکیشین زبانوں کے بولنے والے بھی ہوسکتے ہیں۔ عربی، کرد، فارسی، اور جنوبی آذری عربی حروف تہجی کے مختلف ورژن میں لکھے گئے ہیں۔ نیا آرامی سریانی حروف تہجی میں لکھا جاتا ہے، اور آرمینیائی کو آرمینیائی حروف تہجی میں لکھا جاتا ہے۔ 2003 میں حملے سے پہلے عربی واحد سرکاری زبان تھی۔ تاہم عراق کے نئے آئین نے جون 2004 میں عربی زبان اور کرد زبان کو دو سرکاری زبانوں کے طور پر منظور کیا تھا جب کہ عراقی آئین شامی زبان اور ترکمان زبان کو محل وقوع کے مطابق علاقائی زبانوں کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، کوئی بھی علاقہ یا گورنریٹ دوسری سرکاری زبانوں کا اعلان کر سکتا ہے اگر عوامی ریفرنڈم میں آبادی کی اکثریت کی طرف سے منظوری دی جائے۔ مذاہب عراق میں شیعوں اور سنیوں کے تناسب کے بارے میں ایک " تنازعہ " ہے، کیونکہ دونوں فرقے آبادی کی عام مردم شماری پر انحصار کیے بغیر اکثریت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جس میں آزاد ادارے حصہ لیتے ہیں ۔ میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، تقریباً 97۔ آبادی کا % ذرائع کے مطابق، آبادی کا 60-65% شیعہ ہیں اور 32-37% سنی ہیں، اور دیگر ذرائع بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ شیعوں کی فیصد 51.4 ہے ، اور دوسرے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت کا فیصد 58.8 فیصد ہے۔ کردوں کے ساتھ، ایسے ذرائع کا ذکر ہے کہ عراق میں سنی اور شیعوں کی تعداد قریب اور متوازن ہے۔ عیسائی، صابی ، اور یزیدی تقریباً 3% بنتے ہیں، جن میں بہائی مذہب کے پیروکاروں اور
ur_Arab
یارسنیوں کی معمولی موجودگی ہے، اور یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد عراق میں یہودیوں کی آبادی 4% سے زیادہ تھی، لیکن اسرائیل کے قیام کے بعد فرہود کے واقعات اور بادشاہت کی طرف سے ان کی جبری ہجرت نے ان کی تعداد تقریباً 100,000 افراد تک کم کر دی۔ 2018 میں عراق میں یہودیوں کی تعداد کا تخمینہ دس لگایا گیا تھا، جن میں سے اپنے شناختی کارڈ میں اپنا مذہب تبدیل کر کے دوسرے مذہب میں شامل ہو گئے تھے۔ تعطیلات ہر ہفتے کے جمعہ اور ہفتہ کو سرکاری محکموں میں سرکاری تعطیل تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، 12 دیگر سرکاری تعطیلات ہیں، جو یہ ہیں: سیکورٹی وزارت داخلہ داخلی سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے ذمہ دار ہے، اور وزارت داخلہ کے لیے اس کے قوانین کے ذریعے متعین فرائض کا مقصد عام طور پر جمہوریہ عراق کے لیے داخلی سلامتی کے تحفظ، امن عامہ کو مستحکم کرنے اور ریاست کی عمومی پالیسی کو نافذ کرنا ہے۔ آئینی حقوق کا تحفظ، اور خاص طور پر لوگوں کی زندگیوں اور آزادیوں اور سرکاری و نجی فنڈز کی حفاظت اور کسی بھی خطرے سے اس کی حفاظت کو یقینی بنانا جس سے اسے خطرہ لاحق ہو، جرائم کے کمیشن کو روکنا، مجرموں کے خلاف قانونی اقدامات کرنا، اور مکمل قانون سازی کے لیے کوشش کرنا ہے۔ ۔حشد الشعبی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف (جو وزیر اعظم حیدر العبادی ہیں) کے دفتر کے ماتحت ہیں۔ اس کا تخمینہ (60 ملین امریکی ڈالر) عراقی بجٹ سے ہے جو سال 2015 عیسوی کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ فوج فوج جمہوریہ عراق کی باقاعدہ فورس ہے، اور اس کی شاخیں زمینی قوت ، بحری فوج اور فضائیہ پر مشتمل ہیں۔ عراقی فوج کی تاریخ سنہ 1921 سے ہے ، جب عراق کے برطانوی مینڈیٹ کے دوران مسلح افواج کے پہلے یونٹ قائم کیے گئے تھے ، جب امام موسیٰ کاظم رجمنٹ تشکیل دی گئی تھی اور مسلح افواج کی کمان نے اپنا جنرل ہیڈ کوارٹر بغداد میں لے لیا، اس کے بعد 1931ء میں عراقی فضائیہ کی تشکیل ہوئی، پھر 1937ء میں عراقی بحریہ کی تشکیل ہوئی اور ایران کے خاتمے کے ساتھ ہی فوج کی تعداد اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ عراق جنگ ، اس کے ارکان کی تعداد 1,00,0000 تک پہنچ گئی۔ 1990 عیسوی تک عراقی فوج 56 ڈویژنوں تک بڑھ چکی تھی جس کی وجہ سے عراقی فوج عرب دنیا میں پہلے اور دنیا کی فوجوں میں پانچویں نمبر پر آ گئی۔ کو
ur_Arab
یت پر حملے کے بعد ریپبلکن گارڈ فورسز کے علاوہ زمینی فورس 23 ڈویژنوں تک سکڑ گئی۔ 2003 میں عراق پر امریکی حملے کے بعد عراق کے سول ایڈمنسٹریٹر پال بریمر نے عراقی فوج کو تحلیل کرنے کا فیصلہ جاری کیا۔ فوج کو دوبارہ تشکیل دیا گیا اور دوبارہ مسلح کیا گیا۔ نئی عراقی فوج کے لیے یہ منصوبہ بنایا گیا تھا کہ وہ صرف تین ڈویژنوں پر مشتمل ہو، جس کے بعد یہ تعداد بڑھ کر چودہ ڈویژن ہو گئی، اور توقع ہے کہ یہ 20 ڈویژنوں تک پہنچ جائے گی۔ 13 نومبر 2015 کو (گلوبل فائر پاور) کے مطابق عراقی فوج دنیا میں 112 ویں نمبر پر ہے۔ عراقی مسلح افواج کی تمام شاخیں عراقی وزارت دفاع کے اختیار کے تابع ہیں، جس کا انتظام وزیر دفاع خالد العبیدی کرتے ہیں، اور مسلح افواج کے کمانڈر انچیف عراقی وزیر اعظم حیدر العبیدی ہیں۔ -عبادی ، اور آرمی کے چیف آف اسٹاف عثمان الغنیمی ہیں۔ عراقی فوج نے بہت سی جنگوں میں حصہ لیا، بشمول : اینگلو-عراقی جنگ ، 1948 کی جنگ ، پہلی عراقی کرد جنگ ، 1967 کی جنگ، اکتوبر 1973 کی جنگ ، عراق-ایرانی جنگ ، کویت پر حملہ ، دوسری خلیجی جنگ ، اور تیسری خلیجی جنگ ۔ فوج نے 2003 عیسوی کے بعد دیگر تمام عراقی مسلح افواج کے ساتھ بھی حصہ لیا۔عراق کے اندر بہت سی لڑائیوں کے ساتھ، بشمول عراقی بغاوت اور انبار کی جھڑپیں ، 2014ء میں موصل کی لڑائی ، اور اس وقت داعش کے خلاف جاری جنگ میں حصہ لیا۔ بری فوج عراقی فوج کئی آپریشن کمانڈز پر مشتمل ہے، اور عراقی یونٹس کا انتظام مشترکہ آپریشنز کمانڈ کے ذریعے کیا جاتا ہے، جب کہ زمینی فورس کمانڈ براہ راست فوج کے ڈویژنوں کا انتظام نہیں کرتی ہے۔ عراقی فوج کو 14 ڈویژنوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو کہ بدلے میں 56 بریگیڈز یا 185 لڑاکا بٹالین میں تقسیم ہیں۔2010 میں جنگی بٹالینز کی تعداد 197 تک پہنچ گئی۔ ہر ڈویژن کو چار بریگیڈز، ایک انجینئرنگ رجمنٹ اور ایک آرٹلری رجمنٹ میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بحری فوج بحریہ کے پاس تقریباً 5,000 ملاح اور میرینز ہیں، جو فروری 2011 تک 5 سکواڈرن اور دو میرین بٹالین پر مشتمل ایک آپریشن ہیڈ کوارٹر کو رپورٹ کرتے ہیں۔
ur_Arab
فضا ئیہ فضائیہ کے پاس اس وقت چار F-16 فائٹنگ فالکن ، 12 Sukhoi Su-25 ، 2 Aero L-159 Alka، 13 Mil Mi-35 ہیلی کاپٹر ، 23 Mil Mi-28 ہیلی کاپٹر، اور 60 Mil Mi ہیلی کاپٹر ہیں۔ -17 ، درجنوں ہوائی جہاز، اور نقل و حمل اور تربیت کے لیے ہیلی کاپٹرموجود ہیں۔ معیشت عراق کی معیشت بین الاقوامی لوٹ کھسوٹ کی ایک اعلیٰ داستان ہے۔ معیشت تیل کے ارد گرد گھومتی ہے۔ تیل کی دولت کو پہلے تو برطانوی کمپنیوں نے خوب لوٹا۔ بعث پارٹی کی ابتدائی حکومت میں عراق برطانوی کمپنیوں سے جان چھڑا کر فرانسیسی چنگل میں پھنس گئے۔ مگر بعد میں بعث پارٹی کی دوسری حکومت نے تیل کی صنعت کو قومیا لیا اور عراق نے کچھ عرصہ ترقی کی۔ عالمی طاقتوں نے عراق کو ایران سے ایک لمبی جنگ میں پھنسا کر خوب برباد کیا۔ اس کی ساری دولت اس جنگ کی نذر ہو گئی۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے عراق کو بے تحاشا اسلحہ بیچا۔ حتیٰ کہ عراق کے بیرونی قرضے ایک سو بیس ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔ ایران سے جنگ بندی کے بعد تیل کی صنعت میں کچھ بہتری آئی مگر زیادہ وسائل تیل کی صنعت کی بحالی اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوتی رہی جس کی وجہ سے عراق خاطر خواہ ترقی نہ کرسکا۔ اس موقع پر عراق نے عالمی طاقتوں کے جال میں آ کر کویت پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جس کا نتیجہ اسے ایک اور جنگ اور بین الاقوامی پابندیوں کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ اس سے عراق کی معیشت تباہ ہو گئی۔ ایک دہائی کی مسلسل پابندیوں سے عراق کمزور ہو گیا تو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے کیمیائی ہتھیاروں کا بہانہ کر کے امریکا نے 2003ء میں عراق پر قبضہ کر لیا۔ اگرچہ پیرس کلب کے ممالک نے 33 ارب ڈالر کے قرضے معاف کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔ مگر اس سے عراق کے ایک سو بیس ارب ڈالر کے قرضوں میں کوئی خاص کمی نہیں آتی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جنگ اور خانہ جنگی کے ممکنہ خاتمے کے بعد بھی عراق کو اپنی نئے سرے سے تعمیر اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے عالمی طاقتوں اور اداروں پر انحصار کرنا پڑے گا اور مستقبل قریب میں عراق میں معاشی ترقی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ عراق کی تعمیرِ نو کے نوے فی صد ٹھیکے امریکی کمپنیوں اور باقی برطانوی اور کچھ فرانسیسی اور اطالوی کمپنیوں کو مل رہے ہیں جو مہنگا کام کرنے میں مشہور ہیں اور یوں لوٹ کھس
ur_Arab
وٹ کا ایک اور در کھل گیا ہے۔ عراقی معیشت کا مکمل انحصار تیل کے شعبے پر ہے، عراق کی کل آمدنی کا 95% ہارڈ کرنسی سے آتا ہے۔ پہلی خلیجی جنگ میں ایک اندازے کے مطابق 100 بلین ڈالر کا نقصان ہوا، اور جنگ کے خاتمے کے بعد عراق قرضوں کے بوجھ تلے دب گیا۔ 6 اگست 1990 سے 21 اپریل 2003 تک عراق پر اقتصادی ناکہ بندی کی۔ پال بریمر ، اور یونیفائیڈ کولیشن اتھارٹی کی آمد کے بعد، اتھارٹی نے عراق میں نجی شعبے کی حوصلہ افزائی اور نفاذ کے لیے فیصلے کیے، یا جسے نجکاری کہا جاتا ہے، خاص طور پر تیل کے شعبے میں، اور پال بریمر نے اس کی مکمل ملکیت کی اجازت دی۔ غیر عراقی کمپنیوں نے عراق میں اپنے مفادات کے لیے ان غیر ملکی کمپنیوں پر ٹیکس عائد کیا جس کا فیصد 15 فیصد ہے، لیکن ان اقتصادی منصوبوں اور فیصلوں پر ان حکومتوں نے عمل نہیں کیا جو متحدہ اتحادی اتھارٹی کے بعد آئیں، جو کہ بالترتیب گورننگ کونسل ہیں۔ عراق میں ، عراقی عبوری حکومت ، اور عراقی عبوری حکومت ۔ نجکاری کے یہ فیصلے 2006 میں نافذ ہونے والے ہیں۔ سلامتی کی صورتحال میں بہتری اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے پہلے مرحلے کے ساتھ، اس سے اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں مدد ملی، خاص طور پر توانائی، تعمیرات اور خوردہ شعبوں میں۔ تاہم، طویل مدت میں اقتصادی اور مالیاتی بہتری، اور معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کا انحصار بنیادی طور پر حکومت کی جانب سے سیاسی اصلاحات کی منظوری اور عراق کے تیل کے وسیع ذخائر کی ترقی پر ہے۔ اگرچہ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے عراق کو 2010 سے بڑھتی ہوئی دلچسپی کے ساتھ دیکھا ہے، لیکن ان میں سے اکثر کو اب بھی منصوبوں کے لیے زمین کے حصول میں مشکلات اور دیگر ریگولیٹری رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ 2013 عیسوی میں اندرون ملک مچھلیوں کی پکڑنے کی مقدار 105,168 ٹن تھی، جب کہ سمندری مچھلی 5,314 ٹن تھی۔ عراقی پانیوں میں داخل ہونے والی نقل مکانی کرنے والی مچھلیوں کی مقدار اور اقسام سے متعلق وجوہات کی بنا پر پکڑنے کی مقدار ہر سال نمایاں طور پر مختلف ہوتی ہے۔ اور جو خلیج عرب میں موسمی اتار چڑھاو پر منحصر ہے 2002 میں عراقی کردستان میں کل 112,000 مکعب میٹر لکڑی کی کٹائی کی گئی اور تقریباً نصف رقم بطور ایندھن استعمال کی گئی۔ عراق کی کان کنی کی صنعت نسبتاً کم مقدار میں فاسفیٹ (
ur_Arab
عکاشات میں)، نمک اور سلفر ( موصل کے قریب) کے اخراج تک محدود تھی۔ ستر کی دہائی میں ایک نتیجہ خیز دور سے، کان کنی ایران عراق جنگ (1980-1988)، اقتصادی ناکہ بندی کی پابندیوں اور 2003 میں اقتصادی بحران کی وجہ سے رکاوٹ بنی تھی۔ سال 2012 عیسوی میں عراق میں بے روزگاری کی شرح 15 سال سے کم ہوگئی۔ عمر اور اس سے زیادہ 11.9٪ تک پہنچ گئی۔ سرکاری کرنسی دینار عراق کی سرکاری کرنسی ہے، اور اسے عراق کے مرکزی بینک کے ذریعے جاری کیا جاتا ہے۔ دینار کو 1,000 فائلوں میں تقسیم کیا گیا ہے، لیکن بیسویں صدی کے میں مہنگائی کی اونچی شرح سکوں کو ترک کرنے کا سبب بنی، جو فائلوں میں بنائے جاتے تھے، کیونکہ وہ اب گردش سے باہر ہیں۔ جہاں تک عراقی کرنسی کے فرقوں کا تعلق ہے، وہ 250 دینار، 500، 1,000، 5,000، اور 10,000 سے 25,000 دینار تک شروع کریں اور سنٹرل بینک آف عراق نے نومبر 2015 میں 50,000 ہزار دینار (امریکی ڈالر کے برابر) کی ایک نئی کرنسی متعارف کرانے کے ارادے کا اشارہ کیا۔ نیا عراقی دینار 2003 میں اتحادی افواج کے حملے کے بعد، کولیشن پروویژنل اتھارٹی نے 15 اکتوبر 2003 سے 15 جنوری 2004 تک ایک نیا عراقی دینار جاری کیا، کیونکہ نئی کرنسی برطانیہ کے ڈیلارکس پریس میں چھپی تھی، اور اس کی پرنٹنگ اچھی خاصیت کی تھی۔ جعل سازی مشکل تھی، اور اسے پورے عراق میں استعمال کیا گیا، بشمول شمالی عراق کے کردستان کے علاقے ، اور کرنسی کے تبادلے کا عمل ہوا، کیونکہ عراق یا چین میں چھپنے والے ہر دینار کو ایک نئے عراقی دینار سے بدل دیا گیا، جبکہ عراقی سوئٹزرلینڈ میں چھپنے والے دینار کی جگہ 150 جدید دینار لے لیے گئے۔ تیل اور توانائی عراقی معیشت کا بہت زیادہ انحصار تیل پر ہے۔ اس کی معیشت سب سے پہلے تیل ہے، لیکن باقی عرب خلیجی ممالک کی طرح تیل ہی واحد وسیلہ نہیں ہے، اور عراق اوپیک کے بانی ممالک میں سے ایک ہے، اور اس کی صنعت کا آغاز 1925 میں ہوا ۔ بابا گرگر فیلڈ میں پیداوار شروع ہوئی۔ کرکوک میں، اور اس تاریخ کے دو سال بعد، 1972 میں عراقی صدر احمد حسن البکر کے دور میں تیل کو عراقی قومیا دیا گیا۔ قومیانے سے پہلے، آپریٹنگ تیل کی رعایتی کمپنیوں نے عراق کو اس کی پیداوار کو محدود کرکے اور عالمی منڈیوں میں اپنا حصہ کم کرکے سزا
ur_Arab
دینے کی پالیسی پر عمل کیا، خاص طور پر 14 جولائی 1958 کے انقلاب اور 1961 کے قانون نمبر 80 کے نفاذ کے بعد، براہ راست سرمایہ کاری کا قانون۔ 1989 میں عراقی تیل کی کل آمدنی 14.5 بلین ڈالر تھی، جو برآمدی آمدنی کا 99 فیصد تھی۔ 1990 میں جاری ہونے والی مردم شماری کے مطابق، عراقی برآمدات کی مالیت 10.535 بلین ڈالر تھی، جس میں سے 99.5 فیصد تیل اور توانائی کے ذرائع سے آتا تھا، جس میں امریکی درآمدات کا حصہ (28٪) تھا۔ 1990 سے عراق پر عائد پابندیوں کے باوجود، 1996 میں تیل کی برآمدات صرف 269 ملین ڈالر تھیں، یا عراق کی 950 ملین ڈالر کی برآمدات کا ایک تہائی حصہ تھیں۔ تاہم، عراقی تیل کی برآمدات (سفید + سیاہ) کی کل آمدنی کا تخمینہ سال 2000 میں 20 بلین ڈالر سے زیادہ لگایا گیا تھا، اور تیل کی پیداوار، عراق پر امریکی حملے سے پہلے، 20 لاکھ بیرل یومیہ سے کم نہیں تھی، اور اس کی ریفائننگ کی صلاحیت 500 ہزار بیرل یومیہ سے تجاوز کرگئی، سب سے زیادہ تیل ریفائنریوں کے ذریعے، جو سال 2000 میں (عرب دنیا کے تمام ممالک کے مقابلے) 12 ریفائنریز تک پہنچ گئی۔ لیکن 2001 تک یہ واپس آگئی اور اس کی مالیت 15.14 بلین ڈالر تک پہنچ گئی۔ کل برآمدات میں سے 15.94 بلین ڈالر کی رقم ہے۔ اگست 2015 میں پیداوار 3 ملین بیرل سے زیادہ تک پہنچ گئی۔ عراق کے تیل کے ذخائر عراق کے تیل کے ثابت شدہ ذخائر تقریباً 140 بلین بیرل ہیں، کیونکہ عراق کے تیل کے ذخائر دنیا میں وینزویلا ، سعودی عرب ، کینیڈا اور ایران کے بعد پانچویں نمبر پر ہیں۔ عراقی ایٹمی پروگرام عراقی جوہری پروگرام کا آغاز 17 اگست 1959ء کو عراق اور سوویت یونین کے درمیان ایک جوہری ری ایکٹر کی تعمیر کے لیے مفاہمت کے ساتھ ہوا، اور ایک جوہری پروگرام تیار کیا گیا اور یہ عراقی سوویت مفاہمت کا حصہ ہے ، اور 1968ء میں ایک تحقیقی ری ایکٹر (آئی آر ٹی-2000 سوویت یونین کی طرف سے دیا گیا) کے قریب تابکار آاسوٹوپس پیدا کرنے کے قابل متعدد سہولیات کے ساتھ بنایا گیا تھا اور ء میں صدام نے ماسکو کا دورہ کیا اور اسے تعمیر کرنے کے لیے کہا۔ ایک جدید ایٹمی پلانٹ، لیکن سوویت یونین نے یہ شرط رکھی کہ یہ پلانٹ بین الاقوامی جوہری
ur_Arab
توانائی ایجنسی کے کنٹرول میں ہو، لیکن عراق نے انکار کر دیا، اور پھر اسی سال اپریل کی 15 تاریخ کو دونوں فریقوں کے درمیان تعاون کے معاہدے پر دستخط ہوئے، اور اس معاہدے کو 1959 کے معاہدے کی پیروی سمجھا جاتا ہے ، اور چھ ماہ کے بعد، فرانس نے 72 کلوگرام یورینیم 93 فیصد کے درجے پر فروخت کرنے پر رضامندی ظاہر کی ، اور اس کے کنٹرول کے بغیر ایک جوہری پلانٹ بنانے پر اتفاق کیا۔ ستر کی دہائی کے آغاز میں صدام نے خفیہ جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کے قیام کا حکم دیا ، اور سال 1976 عیسوی میں عراق نے (Osiris) ماڈل کا ایک جوہری ری ایکٹر خریدا ، اور یہ ری ایکٹر تھا۔ پرامن جوہری تحقیق کے مقاصد کے لیے بنایا گیا ، اور عراقی اور فرانسیسی ماہرین نے اسے برقرار رکھا۔لیکن اسرائیل نے عراق کے مقاصد پر شک کیا، اور کہا کہ اسے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، اور جون 1981 کو اسرائیل نے حملہ کر دیا۔ F-16s کے ایک سکواڈرن کے ساتھ اچانک ری ایکٹر اور F-15 Eagles کی مدد سے، جسے سینائی اڈے سے لانچ کیا گیا (جو اس وقت اسرائیلی کنٹرول میں تھا)، اور مملکت سعودی عرب کی سرزمینوں سے ہوتا ہوا اور عراق تک، اور بغداد سے 17 کلومیٹر جنوب مشرق میں زیر تعمیر نیوکلیئر ری ایکٹر (جس کا نام تموز 1 اور تموز 2 ہے) کو تباہ کر دیا۔ صحت عراق کی صحت اس کی ہنگامہ خیز جدید تاریخ کے دوران اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے۔ پچھلی دہائی کے دوران، صدام حسین کی حکومت نے صحت عامہ کی مالی امداد میں 90 فیصد کمی کی، اور صحت کی دیکھ بھال ڈرامائی طور پر بگڑ گئی۔ اس عرصے کے دوران، زچگی کی شرح اموات میں تقریباً تین گنا اضافہ ہوا، اور طبی کارکنوں کی تنخواہوں میں ڈرامائی کمی واقع ہوئی۔ طبی آلات، جو 1980 کی دہائی میں مشرق وسطیٰ کے بہترین آلات میں سے تھے، ابتر ہو چکے ہیں۔ صورتحال سنگین تھی، خاص طور پر جنوب میں، جہاں غذائی قلت عام تھی، اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں 1990ء میں عام تھیں۔ میں عراق میں ٹائیفائیڈ ، ہیضہ ، ملیریا اور تپ دق کے واقعات اسی طرح کے ممالک کے مقابلے زیادہ تھے۔ 2003 کے تنازعے نے عراق کے ایک اندازے کے مطابق 12 فیصد ہسپتالوں اور دو صحت کی لیبارٹریوں کو تباہ کر دیا۔ 2004 میں کچھ بہتری آئی۔ بین الاقوامی فنڈنگ کے ذریعے
ur_Arab
، تقریباً 240 ہسپتال اور 1,200 بنیادی صحت کی دیکھ بھال کے مراکز کام کر چکے ہیں، کچھ طبی مواد کی کمی کو کم کیا گیا ہے، طبی عملے کو تربیت دی گئی ہے، اور بچوں کو بڑے پیمانے پر ویکسین پلائی گئی ہے۔ جہاں تک عراقی اسپتالوں میں صحت سے بچاؤ کے اقدامات کا تعلق ہے، وہ طبی سطح پر اب بھی تسلی بخش نہیں ہیں، اور تربیت یافتہ اہلکاروں اور ادویات کی کمی ہے، اور دہشت گردی کے شکار علاقوں میں صحت کی دیکھ بھال اب بھی بڑی حد تک دستیاب نہیں ہے۔ 2005 میں، ہر 10,000 عراقی شہریوں میں ہسپتال کے 15 بستر، 6.3 ڈاکٹر اور 11 نرسیں تھیں۔ 2006 میں، صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات کے لیے قومی بجٹ سے US$1.5 بلین مختص کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ 1990 کی دہائی کے آخر میں بچوں کی اموات کی شرح دوگنی سے بھی زیادہ ہو گئی۔ نوے کی دہائی کے آخر اور نئے ہزاریے کے آغاز میں کینسر اور ذیابیطس سے اموات کی شرح اور پیچیدگیوں میں اضافہ ہوا، جس کی وجہ نوے کی دہائی میں ان دونوں بیماریوں کی تشخیص اور علاج کی شرح میں کمی ہے۔ 2003ء میں صحت کی سہولیات، صفائی ستھرائی اور پانی کی جراثیم کشی کے بنیادی ڈھانچے کے گرنے سے ہیضہ، پیچش اور ٹائیفائیڈ بخار کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ غذائیت کی کمی اور بچپن کی بیماریاں (جیسے دمہ، ایڈز، خون کی کمی وغیرہ)، جو 1990 کی دہائی کے آخر میں نمایاں طور پر بڑھیں، پھیلتی رہیں۔ 2006 میں، عراق میں ایچ آئی وی / ایڈز کے تقریباً 73 فیصد کیسز خون کی منتقلی سے پیدا ہوئے، اور 16 فیصد کیسز جنسی تعلقات کی وجہ سے تھے۔ بغداد میں ایڈز ریسرچ سینٹر، جہاں زیادہ تر کیسز کی تشخیص ہوئی تھی، عراق داخل ہونے والے غیر ملکیوں کے لیے مفت علاج اور لازمی ٹیسٹ کی پیشکش کرتا ہے۔ اکتوبر 2005 AD اور جنوری / جنوری 2006 AD کے درمیان کی مدت کے لئے، انفیکشن کے 26 نئے کیسز ریکارڈ کیے گئے، جس سے سرکاری طور پر 1986 AD سے ایڈز کے 261 کیسز سامنے آئے ، اور سال 2015 میں، ہیضے کے کیسز۔ بغداد میں ابو غریب کے علاقے میں ریکارڈ کیے گئے تھے پھر، ہیضے کے دیگر کیسز عراق کے دیگر گورنریٹس میں رپورٹ ہوئے۔ 2013 میں وائرل ہیپاٹائٹس کے انفیکشن کی اقسام (E, D,
ur_Arab
C, B, A) کی تعداد 29,059 تک پہنچ گئی۔ عراق میں سال 2013 کے لیے سرکاری اسپتالوں کی تعداد (242) تھی، جب کہ نجی (نجی) اسپتال (111)، مشہور طبی کلینک کی تعداد (340)، اور بنیادی صحت کی دیکھ بھال کے مراکز کی تعداد (2,622) تھی۔ ) سیاحت سیاحت ان شعبوں میں سے ایک ہے جو پچھلی صدی کے اسی کی دہائی سے عراق میں کشیدگی کے ادوار سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ جہاں سیاحت عراقی قومی پیداوار کا بہت کم حصہ دیتی ہے۔ جہاں تک کردستان کے شمالی علاقوں کا تعلق ہے، سیاحت کی نقل و حرکت بہت بہتر ہے، کیونکہ 2011 کے پہلے چھ ماہ کے دوران اندرون ملک سیاحوں کی کل تعداد 392,000 سیاحوں سے زیادہ تھی، اور اسی عرصے کے لیے 2010 کے مقابلے میں، وہاں سیاحوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ہوٹلوں اور سیاحتی رہائش کے احاطے اور سال 2013 عیسوی کے لیے عراق میں مہمانوں کی تعداد (کردستان کے علاقے کو چھوڑ کر) (1267) سہولیات اور (6321105) مہمانوں تک پہنچ گئی، جن میں سے سب سے بڑی سہولت کربلا میں ہے (577) مہمانوں کی تعداد کے لحاظ سے سب سے زیادہ قدامت پسند، جو کہ (3115149) مہمانوں کے تھے، اور سب سے کم میسان (5) سہولیات میں ہے، جبکہ بغداد میں 288 سیاحتی سہولیات اور (1,494,269) مہمان ہیں، جبکہ انبار میں کوئی بھی نہیں ہے۔ ہوٹل یا کمپلیکس، اور مہمانوں کی سب سے کم تعداد المتھنہ میں (2927) مہمانوں کے ساتھ ریکارڈ کی گئی۔ مذہبی سیاحت عراق ابراہیمی مذاہب کے بہت سے اہم مقامات اور مزارات کے لیے مشہور ہے۔ مثال کے طور پر شہر اُر جس میں تورات کے مطابق ابراہیم پیدا ہوئے تھے، اور یہودیوں ، عیسائیوں اور مسلمانوں کے عقائد کے مطابق انبیاء دانیال، حزقیل اور یونس ) کی قبریں بھی ہیں۔ شمالی عراق میں بہت سی قدیم خانقاہیں اور گرجا گھر ہیں، جن میں سالانہ ہزاروں لوگ آتے ہیں۔ جیسا کہ سینٹ میٹی کی خانقاہ اور سینٹ بہنم اور سینٹ سارہ کی خانقاہ وغیرہ۔ مسلمانوں کے بہت سی مساجد اور مزارات بھی ہیں جہاں ملکی اور غیر ملکی خاص طور پر عرب خلیجی ممالک، ایران ، ہندوستان اور پاکستان سے سیاح آتے ہیں۔ درج ذیل فہرستوں میں سب سے اہم مذہبی مقامات کی فہرست دی گئی ہے، لیکن ان سب کی نہیں: مزارات نجف میں امام علی بن ابی طالب کا مزار کربلا میں حضرت
ur_Arab
امام حسین اور ان کے بھائی حضرت عباس علمدار کے مزارات حرم الحسینی کے اندر شہداء کا مزار ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو جنگ الطف میں امام حسین کے ساتھ اپنے اہل و عیال اور ساتھیوں کے ساتھ شہید ہوئے تھے اور وہ ایک ہی مزار میں مدفون ہیں۔ بغداد کے مسجد کاظمیہ میں امام موسیٰ کاظم اور محمد الجواد تقی کی قبر سامرہ میں امام علی نقی اور حسن العسکری کی قبر بغداد میں امام ابو حنیفہ النعمان کی قبر شیخ عبد القادر الجیلانی کا مزار بغداد میں ہے بغداد میں شیخ معروف کرخی کا مقبرہ مقامات امام علی کا گھر جسے امارت کا گھر کہا جاتا ہے، نجف میں کوفہ مسجد کے باہر ہے کربلا میں بہت سے مزارات اور مزارات ہیں جن میں: زینبیہ کا مزار، امام مہدی کا مزار، اخراس بن کاظم کا مزار کوفہ شہر میں امام مہدی کا مزار بابل کے صوبے میں سبزیوں کے لیے دو مزار ہللا میں حضرت ذوالکفلی کا روضہ امام علی کا مزار (سورج کی واپسی کا منظر) شیعہ عقیدہ کے مطابق مساجد اور جامعات ام القراء مسجد یہ ان جدید اور بڑی مساجد میں سے ایک ہے جو بغداد میں سابق صدر صدام حسین کے دور میں تعمیر کی گئی تھیں۔اسے ام الماریک مسجد کہا جاتا تھا جو دوسری خلیجی جنگ کا سرکاری نام تھا۔ ام التبل مسجد اس کا نام آج کی مسجد ابن تیمیہ ہے۔اسے ام الطبل مسجد کہا جاتا ہے اور اسے 1388ھ/1968ء میں کھولا گیا۔یہ بغداد کی جدید مساجد میں سے ایک ہے۔یہ مسجد کے مضافات میں واقع ہے۔ یرموک کا علاقہ البیضاء شہر کی طرف ہے۔ یہ بغداد بین الاقوامی ہوائی اڈے کی طرف جانے والی شاہراہ سے قریب ترین مسجد ہے۔ الاحمدیہ مسجد یہ بغداد کی قدیم مساجد میں سے ایک ہے، یہ المیدان اسکوائر کے مشرق میں، المرادیہ مسجد کے قریب روسفہ کے پہلو میں واقع ہے۔ اسے احمد پاشا الکتخدہ نے تعمیر کروایا تھا، جو اس کے نائب تھے۔ سلیمان پاشا الکبیر 1211ھ / 1796ء میں۔ سرائے مسجد یا حسن پاشا مسجد، جسے بادشاہ کی مسجد بھی کہا جاتا ہے، روسفہ کی طرف واقع بغداد کی مشہور تاریخی مساجد میں سے ایک ہے۔یہ 692ھ/1293ء میں تعمیر کی گئی۔ نجف کی کوفہ مسجد ، اور اس میں امام علی کا منبر جس میں وہ صبح کی نماز پڑھتے
ur_Arab
ہوئے شہید ہو گئے تھے۔ وہ جگہ جہاں وہ نماز ادا کرتے تھے، اب اسے امام علی کا مزار کہا جاتا ہے۔ قدم امام علی مسجد (مسجد بصرہ) یہ مسجد نبوی کے بعد اسلام میں تعمیر ہونے والی دوسری مسجد ہے، جیسا کہ یہ 14 ہجری میں تعمیر کی گئی تھی۔ نجف میں السہلہ مسجد ماضی میں، السہلہ مسجد کو (البیر) مسجد، (مسجد عبدالقیس) اور (بنی ظفر) مسجد کہا جاتا تھا، یہ مسجد کوفہ کے شمال مغربی جانب واقع ہے۔ قدیم شہر موصل کے شمال مشرقی جانب واقع امام عون الدین (ابن الحسن) کا مزار، عمر ابن الخطاب کے دور میں 16 ہجری – 637 عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی اہم یادگاروں میں سے کچھ باقی نہیں بچا سوائے محراب کے سینہ اور اس کے اوپر محراب کے، جو النوری مسجد میں نصب تھا۔ الحنانہ مسجد ، وہ جگہ ہے جہاں کربلا میں سنہ 61 ہجری میں شہادت کے بعد آل حسین (ع) کے جلوس کے گزرنے کے دوران الحسین کے سر کو ان کے اہل خانہ کے ساتھ رکھا گیا تھا۔ کوفہ تک پہنچا اور یہ جگہ نماز کے لیے مسجد بن گئی۔ خلافت مسجد بغداد کے شورجہ ضلع میں خلافت سٹریٹ کے وسط میں واقع ہے۔مذکورہ بالا مسجد عباسی خلیفہ المکتفی نے خدا میں سال (289-295ھ / 902-908 عیسوی) میں تعمیر کی تھی۔ النوری مسجد موصل شہر کے مرکز میں واقع ہے اور اسے 566-568 عیسوی میں قائم کیا گیا تھا۔مسجد کا سب سے نمایاں باقی ماندہ اس کا مینار ہے جو 52-54 میٹر بلند ہے۔ حضرت دانیال کی مسجد، جو کہ ایک قبر پر بنائی گئی ایک مسجد ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ حضرت دانیال علیہ السلام کا جسم موجود ہے۔یہ مسجد عراق کے شہر کرکوک میں کرکوک قلعہ کے اندر واقع ہے۔ حضرت یونس اور پیغمبر کی چادر کا مزار دریائے دجلہ کے شمال مشرقی جانب حضرت یونس علیہ السلام کی پہاڑی کے اوپر واقع ہے۔ مسلمانوں کا سب سے مشہور قبرستان درج ذیل مشہور قبرستان ہیں۔ وادی امن یہ ایک قبرستان ہے جس کی طرف کچھ انبیاء کے مزارات جیسے آدم ، نوح ، ہود اور صالح سے منسوب ہیں ادھمیہ قبرستان کادھیمیہ قبرستان (قریش کا عظیم قبرستان) شیخ معروف قبرستان شاہی قبرستان کیتھیڈرل، گرجا گھر اور خانقاہیں درج ذیل عیسائیوں کے کیتھیڈرل،
ur_Arab
گرجا گھر اور خانقاہیں ہیں۔ مار ایلیا خانقاہ عراق کی سب سے قدیم خانقاہ ہے جو چھٹی صدی عیسوی کی ہے۔ مر متی کی خانقاہ موصل میں العوس کے علاقے میں واقع ہے، جسے کلاک ڈسٹرکٹ (اس کے ساتھ واقع کلاک ٹاور کے نسبت سے) کہا جاتا ہے۔ مار بہنم خانقاہ موصل کے شمال مشرق میں اس سے پانچ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ مار اوراہا کی خانقاہ نینویٰ گورنری میں موصل کے شمال میں بتنایا قصبے میں واقع ہے۔ ہماری لیڈی آف ڈیلیورینس چرچ بغداد میں۔ کرکوک میں الحمرا کلڈین کیتھولک چرچ۔ مارٹوم چرچ، موصل کے جنوب مشرق میں۔ یہودی عبادت گاہیں اور مزارات یہودیوں کی عظیم عبادت گاہ بغداد میں واقع ہے اور موجودہ وقت میں یہ ایک میوزیم ہے۔ بغداد میں میر تویج مندر اور اس کے بند یا کھلے ہونے کے بارے میں متضاد اطلاعات تھیں۔ بابل میں گوبر ٹوڈ کا مندر، جو بند ہے۔ موصل کے شہر القوش میں نبی نہم کا مزار۔ عراق کے دیگر صوبوں میں بھی مندر موجود ہیں لیکن وہ یا تو بند ہیں یا ویران ہیں۔ کردستان میں کرد یہودیوں کی تعداد کا تخمینہ 400 سے 730 یہودی خاندانوں کے درمیان ہے، اور وہاں یہودی عبادت گاہوں کی بحالی کے لیے کارروائیاں جاری ہیں، اور وزارت اوقاف میں یہودیوں کا ایک نمائندہ مقرر کیا گیا ہے۔ صابیوں کے علم کے گھر بغداد، کوت، ہللا، دیوانیہ، کرکوک، سلیمانیہ، موصل اور دیگر میں صابین کی عبادت گاہیں ہیں جنہیں ( منڈی یا علم کا گھر) کہا جاتا ہے، ان میں سب سے اہم یہ ہیں: منڈیان ہاؤس آف نالج (ہیڈ کوارٹر) بغداد میں القادسیہ کے پڑوس میںہے۔ یہ فروری 2014ء میں کھولا گیا۔ یہ منڈیان ہاؤس آف نالج کے قریب منڈی سبین یزیدی مندر لعلش النوریانی مندر یزیدیوں کا مرکزی مذہبی مندر وادی لالش (جس کا مطلب خاموشی کی وادی ہے) میں واقع ہے۔یہ موصل شہر سے تقریباً 60 کلومیٹر شمال مغرب میں عین سیفنی یا شاخیان کے قریب پہاڑی علاقے میں واقع ہے۔ جہاں لالش النوری ہیکل اور شیخ عدے ابن مسافر کا مقبرہ مذہب کے پیروکار
ur_Arab
وں کے لیے مقدس ہے۔یہ دنیا میں یزیدی مذہب کی روحانی کونسل کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ تاریخی سیاحتی مقامات سب سے اہم یادگاروں میں ٹاور آف بابل ، اشتر گیٹ ، زیگورات ، شہر ہاترا ، ایوان خسرو ، مالویہ ، مستنصریہ اسکول ، شیرین محل اور بہت سے دوسرے شامل ہیں۔ عراق کو چوتھی صدی قبل مسیح سے قدیم ترین انسانی تہذیبوں کا ماخذ سمجھا جاتا ہے۔ جہاں عراق میں سمیری اور اکادین کے اثرات اب بھی پھیلے ہوئے ہیں۔ بابل کے صوبے میں تاریخی شہر بابل کے باقی کھنڈرات اور دیواریں بھی شامل ہیں۔ عراقی میوزیم میں عراق پر متواتر تہذیبوں کے اثرات کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے اور یہ دنیا کے بہترین آثار قدیمہ کے ذخیرے پر مشتمل ہے۔قابل ذکر ہے کہ عراقی میوزیم کو اس ملک پر امریکی حملے کے آغاز کے ساتھ ہی لوٹ لیا گیا تھا۔ مارچ 2003 میں تب سے، حفاظتی خدشات اور ان کی بحالی کی خاطر، بابلی، آشوری اور سمیری تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے اس کے باقی ماندہ اور بحال شدہ نوادرات کو ظاہر کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔ شمالی گورنری بہت سے الگ الگ آشوری یادگاروں کی موجودگی کے لیے بھی مشہور ہیں، جیسے کہ موصل میں نینویٰ کی دیواریں، نمرود میں آشوری بادشاہوں کے محلات ، بلاوات ، اور شرقات کے قریب اسوری کا تاریخی شہر وغیرہ ۔مسلمانوں نے بہت سی ثقافتی اور تعمیراتی عمارتیں تعمیر کیں ، جیسے المستنصریہ اسکول اور ملاویہ آف سامرا ، اور دیگر شامل ہیں۔ ماحولیاتی سیاحت اور تفریح عراق اپنے متنوع سیاحتی ماحول کے لیے مشہور ہے، جہاں ایکو ٹورازم عراق میں عوامی سیاحت کا ایک بڑا حصہ بناتا ہے۔کچھ عرصہ پہلے تک، تیسری خلیجی جنگ شروع ہونے سے پہلے، عراق ماحولیاتی سیاحوں کی توجہ کا مرکز تھا جو مختلف ممالک سے آتے تھے۔ دنیا خصوصاً پڑوسی ممالک پرندوں کے شکار میں اپنے مشاغل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے، بالخصوص فالکنری شکار، یہ شوق جو عراق میں بیسویں صدی کے آغاز میں عراقی شکاریوں کے ہاتھوں ملک کے وسطی اور جنوبی علاقوں میں شروع ہوا، اور بغداد کے تفریحی علاقوں میں سے: الزوراء پارک ، اور بغداد کا سیاحتی جزیرہ ، اور عراق میں کئی جھیلیں اور دلدل ہیں، جہاں اسے ایک سیاحتی مقام سمجھا جاتا ہے، بشمول: حبانیہ جھیل ،
ur_Arab
دکن جھیل ، دربندیخان جھیل ثرثار جھیل ۔ شمالی عراق بھی اپنی متنوع نوعیت سے مالا مال علاقہ ہے جہاں ریزورٹس، بشمول صلاح الدین ریزورٹ اور دیگروغیرہ ہیں۔ سیاحتی اور ماحولیاتی مقامات کی تصاویر نقل و حمل عراق میں نقل و حمل میں ریلوے، ہائی ویز، آبی گزرگاہیں (سمندر اور دریا)، پائپ لائنیں، بندرگاہیں اور بندرگاہیں اور ہوائی اڈے شامل ہیں۔ ہوائی نقل و حمل 1999ء کے اعداد و شمار کے مطابق، عراق میں کل 113 چھوٹے، درمیانے اور بڑے ہوائی اڈے ہیں، جن میں سے کچھ فوجی ہوائی اڈے ہیں، باقی شہری ہوائی اڈے ہیں، اور ان میں سے کچھ ہوائی اڈوں پر کچے رن وے ہیں، اور کچھ صرف ہیلی کاپٹروں کے لیے موزوں ہیں۔ بغداد بین الاقوامی ہوائی اڈہ بصرہ بین الاقوامی ہوائی اڈہ اربیل بین الاقوامی ہوائی اڈہ کربلا بین الاقوامی ہوائی اڈہ موصل بین الاقوامی ہوائی اڈہ نجف بین الاقوامی ہوائی اڈہ سلیمانیہ بین الاقوامی ہوائی اڈہ ناصریہ ہوائی اڈہ ریلوے عراق میں برطانیہ کی موجودگی کے دوران گزشتہ صدی کے آغاز سے ریلوے عراق میں داخل ہوئی اور ریلوے نیٹ ورک کی لائنیں جنوبی عراق سے شمال تک پھیلی ہوئی ہیں۔ عراق نے بہت سے نیٹ ورک لائنوں، مسافروں اور مال بردار انجنوں کی تجدید، ترقی اور ترقی شروع کر دی ہے اور عراق میں ریلوے نیٹ ورک کی لمبائی 2272 کلومیٹر ہے۔عراق نے حال ہی میں کچھ پڑوسی ممالک سے منسلک کرنے کے لیے ریلوے نیٹ ورک کو وسعت دینا شروع کیا ہے، جس کی قیادت ترکی، بغداد میٹرو پروجیکٹ کے علاوہ، یہ عراق میں اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ ہے۔ عراقی جمہوریہ ریلوے بغداد میٹرو بغداد سینٹرل ریلوے سٹیشن مقال ریلوے اسٹیشن شاہراہیں 1996ء کے اندازوں کے مطابق، عراق میں مرکزی سڑکوں کی کل لمبائی تقریباً 45,550 کلومیٹر ہے، جن میں سے 38,400 کلومیٹر پکی سڑکیں ہیں، اور 7,150 کلومیٹر کچی ہیں۔ اور عراق میں دنیا کی سب سے بڑی سڑک بغداد سے شام (الولید) تک کی سڑک ہے۔ آبی گزر گاہیں شط العرب کو عراق کی سب سے اہم آبی گزرگاہوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے لیکن شط العرب کے بعض حصوں میں اس کی گہرائی ناک
ur_Arab
افی ہونے کی وجہ سے بحری جہاز رانی کے قابل نہیں ہے۔شط العرب کے تقریباً 1,000 کلومیٹر طویل بحری جہازوں کا استعمال کرتے ہوئے بحری سفر کے قابل ہے۔ بحری جہاز، اور سمندر پر عراق تک کافی رسائی نہ ہونا سب سے اہم وجوہات میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے پہلی خلیجی جنگ شروع ہوئی، اور بصرہ کی بندرگاہ اور ام قصر کی بندرگاہ کو عراق کی اہم ترین بندرگاہوں میں شمار کیا جاتا ہے، اور دوسری چھوٹی بندرگاہیں ہیں جیسے کہ خر الزبیر کی بندرگاہ اور خر الامایا کی بندرگاہ۔ 1999 کے اعداد و شمار کے مطابق، عراق کے پاس 13 بڑے آئل ٹینکرز، 14 کارگو جہاز، اور ایک مسافر بردار جہاز تھا۔ اب تک عراق میں دریا کی نقل و حمل بہت کم فاصلے کے لیے اور ذاتی پیمانے پر استعمال ہوتی ہے۔ بصرہ خلیج فارس پر واقع عراق کا واحد صوبہ ہے اور اس کی بندرگاہیں ہیں: ابو فلوس پورٹ ام قصر بندرگاہ فاؤ بندرگاہ بصرہ تیل کی بندرگاہ خور الامایا تیل کی بندرگاہ بصرہ بندرگاہ ثقافت موسیقی اور گانا عراق میں موسیقی کی تاریخ خود عراق کی طرح پرانی دوروں میں واپس چلی جاتی ہے، اور موسیقی دنیا کے قدیم ترین ہارپ ( سومیری ہارپ ) سے لے کر لیوٹ کی ایجاد تک، اور پانچویں تار کو شامل کرنے تک، متعدد ادوار میں تیار ہوئی ہے۔ اس کے لیے، مختلف عراقی تال اور مقام تک۔ عراقی موسیقی نے بیسویں صدی کے آغاز میں دو بھائیوں صالح الکویتی اور داؤد الکویتی کے ہاتھوں نمایاں ترقی کی اور اس صدی کے چالیس کے عشرے میں خواتین گلوکاروں کی تعداد تقریباً چالیس گلوکاروں تک پہنچ گئی، تب عراقی موسیقی کی پہچان تھی۔ اس کے بعد بہت سے موسیقار جنہوں نے عراقی گیت کو تقویت بخشی، جیسے: طالب غالی، حامد البصری ، طارق الشبلی، مفید النصیح۔ ، جعفر الخفاف ، طالب القرگولی ، اور دیگر وغیرہ ہیں۔ ادب، شاعری اور فن جدید عراقی ادب عراق کی سیاسی تاریخ سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔ 1970 کی دہائی کے آخر میں، صدام حسین کی حکومت نے عراق میں ممتاز ادیبوں کو ایک اپارٹمنٹ، ایک کار اور سال میں ایک اشاعت کی ضمانت فراہم کی۔ بدلے میں، مصنف سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ حکمران بعث پارٹی کی حمایت کریں گے۔ اور ایران عراق جنگ کے لیے پروپیگنڈا کیا، بلکہ کئی ادیبوں اور مصنفین کو
ur_Arab
جلاوطنی کا انتخاب کرنے پر اکسایا۔ مصنف نجم ولی کے مطابق، اس عرصے کے دوران، "جن لوگوں نے لکھنا بند کرنے کا انتخاب کیا انہیں بھی کچھ ایسا لکھنا پڑا جس سے آمر کو غصہ نہ آئے، کیونکہ خاموشی کو جرم سمجھا جاتا تھا۔" بیسویں صدی کے آخر کے مصنفین میں سے: سعدی یوسف ، فادل العزوی ، مشین الرملی، صلاح الحمدانی، اور فتح شیرکو۔عراق کو عرب ادیبوں میں "شاعروں اور شاعروں کا ملک" یا " شاعروں کا ملک" کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں شاعروں کی بڑی تعداد ہے، اور عراق فن کے میدانوں میں بہت سے بڑے ناموں سے بھرا ہوا ہے۔ اور ادب۔ جدید دور، عبد الوہاب البیطی ، محمد مہدی الجواہری ، نازک الملائکہ ، احمد مطر ، بدر شاکر الصیاب ، جمیل صدیقی الزہاوی، معروف الروسفی ، عبد ال -رزاق عبد الواحد ، اور پلاسٹک کے فنکاروں، مصوروں اور مجسمہ سازوں میں: رفعت الجدیرجی ، زاہا حدید ، لیلیٰ العطار ، محمود صابری، جواد سلیم، شاکر حسن السعید ، اور محمد غنی حکمت شامل ہیں۔ عراقی داستانی ورثہ عراق اپنے داستانی ورثے سے مالا مال ہے، کیونکہ اسے ناولوں کے لیے زرخیز زمین سمجھا جاتا ہے جو پوری دنیا میں مشہور ہوئے۔ ان کہانیوں کا کئی بین الاقوامی زبانوں میں ترجمہ ہوا، اور دوسرے لوگ انھیں جانتے تھے۔ رزمیہ گلگامش الف لیلہ و لیلہ سندباد جہازی الہ دین علی بابا اور چالیس چور کھیل عراق میں کھیل مختلف ہوتے ہیں، اور عراقی حکومت اس میدان میں خاص طور پر فٹ بال، تائیکوانڈو ، فائیو اے سائیڈ ، باسکٹ بال، ایتھلیٹکس ، شطرنج اور باکسنگ میں بہت دلچسپی ظاہر کرتی ہے۔ شکار اور اسکیئنگ کے علاوہ یہ تمام کھیل لوگوں میں اچھی طرح پھیلے ہیں جو عام طور پر موسمی ہوتے ہیں اور شمالی عراق کے پہاڑی علاقوں تک محدود ہوتے ہیں۔ عراقی ریاست بھی معذوروں کے کھیل میں بہت دلچسپی ظاہر کرتی ہے، اور خصوصی ضروریات کے ساتھ کھیلوں کی ٹیموں نے بہت سے مقامی، عرب اور بین الاقوامی چیمپئن شپ اور تمغے حاصل کیے ہیں۔ عراق فٹ بال ایسوسی ایشن الجدریہ ایکوسٹرین کلب عراقی ہنٹنگ کلب بصرہ انٹرنیشنل اسٹیڈیم فٹ بال فٹ بال عراق میں
ur_Arab
سب سے مشہور کھیل ہے۔ عراق فٹ بال ایسوسی ایشن کا باضابطہ قیام 1948ء میں ہوا، اور دو سال بعد 1950ء میں فیفا میں شمولیت کا عمل مکمل ہوا۔ اور ایشیائی فٹ بال کنفیڈریشن میں شامل ہونے میں 1971ء تک کا وقت لگا۔ عراقی فٹ بال ٹیم کے لیے مختلف سطحوں پر فٹ بال کے بہت سے کارنامے ہیں۔ براعظمی سطح پر، عراقی قومی ٹیم 2007ء میں ایک بار ایشین فٹ بال نیشن کپ ٹائٹل جیتنے میں کامیاب رہی۔ علاقائی سطح پر، عراقی ٹیم مسلسل 4 بار عرب کپ چیمپئن شپ جیتنے میں کامیاب ہوئی: 1964- گلف کپ چیمپئن شپ جیتنے کے علاوہ 1966-1985-1988۔ 3 بار 1979-1984-1988۔ عراقی انڈر 19 ٹیم نے اپنی تاریخ میں 5 بار ایشین یوتھ چیمپئن شپ بھی جیتی ، سال یہ تھے: 1975-1977 – 1978-1988 –2000۔ جہاں تک عراقی فٹ بال کی تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی ہے، یہ میکسیکو میں 1986ء فیفا عالمی کپ کے فائنل میں پہنچنا تھا اور 2007ء میں ایشین نیشنز کپ جیتا تھا 2004 کے سمر اولمپکس میں چوتھی پوزیشن حاصل کرنے کے علاوہ بہترین کامیابی کے طور پر۔ ایشیائی فٹ بال کی تاریخ میں 1982ء میں ہندوستان میں منعقد ہونے والے ایشیائی کھیل کا طلائی تمغہ جیتنے کے علاوہ، فیفا انڈر 20 ورلڈ میں ان کا چوتھا مقام تھا۔ عراق نے 2009ء میں جنوبی افریقہ میں ہونے والے کنفیڈریشن کپ میں کھیلنے کے لیے کوالیفائی کیا۔ عراقی پولیس ٹیم نے 1971ء میں عراقی کلبوں کے لیے اے ایف سی چیمپئنز لیگ تقریباً حاصل کر لی تھی، لیکن اسرائیلی ٹیم مکابی تل ابیب کے خلاف فائنل میچ میں سیاسی وجوہات کی بنا پر دستبرداری کے بعد یہ دوسرے نمبر پر رہی۔ 1931ء میں پہلا عراقی کلب قائم ہوا جو کہ ایئر فورس کلب ہے۔ عراقی فٹ بال کلب عراق میں 110 رجسٹرڈ کلب ہیں ، اور ایئر فورس کلب کو قدیم ترین کلبوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، جس کی بنیاد 1931ء میں رکھی گئی تھی، اور مینا کلب ، جس کی بنیاد اسی سال رکھی گئی تھی، اور پولیس کلب ، جس کی بنیاد 1932ء میں رکھی گئی تھی اور 1937ء میں ریلوے کلب، جس کا نام بعد میں بدل کر ٹرانسپورٹیشن کلب، اور پھر الزوراء کلب رکھ دیا گیا۔ یہ کلب صرف فٹ بال ، یا مختلف کھیلوں کے
ur_Arab
کلبوں کے لیے وقف ہونے سے مختلف ہیں۔ فن تعمیر میسوپوٹیمیا کا فن تعمیر کئی مختلف ثقافتوں پر محیط ہے، اور یہ دسویں صدی قبل مسیح سے لے کر آٹھویں صدی قبل مسیح تک، جب پہلی مستقل تعمیرات تعمیر کی گئی تھیں، ایک عرصے پر محیط ہے۔ عراقی تعمیراتی کامیابیوں میں شہری منصوبہ بندی کی ترقی، صحن کے گھر کا ڈیزائن، اور زیگورات کی تعمیر شامل ہیں۔ عراقی فن تعمیر بھی اس تاریخ کے بعد آنے والی تمام تہذیبوں سے متاثر تھا، بشمول رومی، ایرانی اور دیگر تہذیبیں۔ اور جب خلفائے راشدین کے دور میں عراق فتح ہوا تو عراق میں اسلامی فن تعمیر کا آغاز ہوا اور اسلامی فن تعمیر کے عناصر کو مینار، گنبد، صحن، مسجد، محراب وغیرہ سے ممتاز کیا گیا۔ سامرا مسجد ، جو عباسی دور میں قائم ہوئی تھی اور اس کی بادشاہت، سامرا بادشاہت کو عراق میں اسلامی فن تعمیر کا نمونہ سمجھا جاتا ہے، اسی طرح عراقی فن تعمیر کی خصوصیت چناچیل تھی، جو بیسویں صدی کے آغاز تک جاری رہی، اور عراق کو موصلی فن تعمیر سے بھی ممتاز کیا گیا تھا، جس کے بعد عراق عصری فن تعمیر سے متاثر ہوا جو دنیا میں پھیل گیا، حالانکہ عصری کاموں میں سے کچھ میں عراقی فن تعمیر کی خصوصیات موجود ہیں، جیسے بغداد ٹاوروغیرہ۔ پکوان عراق میں بہت سے مشہور پکوان، ان کے اجزاء اور تیاری کے طریقے ہیں۔ عراقی پکوان عراق میں جغرافیائی علاقے کے لحاظ سے ماحول اور اس کے وسائل میں تبدیلی کی وجہ سے مختلف ہیں۔ عراق کے مشہور پکوان درج ذیل ہیں: المصگوف : یہ ایک مشہور بغدادی کھانا ہے، جس کی تیاری کا ایک خاص طریقہ ہے، جیسا کہ مچھلی کو بھون کر لکڑی کی لاٹھیوں پر لٹکایا جاتا ہے۔ چاول اور قیمہ : یہ جنوبی اور وسطی عراق میں ایک مشہور کھانا ہے، خاص طور پر مذہبی مواقع پر (دسویں محرم)، اور یہ چاول کے ساتھ چھلکے اور گوشت پر مشتمل ہوتا ہے۔ عراقی کباب عربی کباب جیسا ہی ہے لیکن اس کا ذائقہ الگ ہے۔کباب کی ایک اور قسم ہے جسے رگ کباب کہتے ہیں۔ ڈولما : اسے کچھ ممالک میں سٹفڈ کہا جاتا ہے، اور یہ اس کے اجزاء کے تنوع کی وجہ سے نمایاں ہے۔ بریانی : یہ گلف کبسا کھانے کی طرح ہے، جس میں چاول کچھ گری دار میوے جیسے پستے ، بادام
ur_Arab
، نیز کٹے ہوئے گوشت کے ساتھ ملائے جاتے ہیں اور اس کے لیے ایک خاص قسم کا مصالحہ اور مسالا استعمال کیا جاتا ہے۔ باجا : یہ ایک مشہور کھانا ہے جس میں بھیڑ کے بچے کی ٹانگوں کے ساتھ سر کا گوشت ہوتا ہے جسے ابال کر روٹی اور چاول کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ دلیمی تھریڈ ، جو دوسرے عرب ممالک میں بھی پایا جاتا ہے کوزی پھلیاں اور انڈے عجائب گھر عراق کی ثقافتی، تاریخی اور قدرتی دولت کی وجہ سے عراق میں بہت سے عجائب گھر موجود ہیں۔ہر شہر میں متعدد تاریخی اور قدرتی عجائب گھر ہیں۔ سب سے مشہور عجائب گھر ہیں: عراق میوزیم، بغداد بغدادی میوزیم، بغداد بغداد نیچرل ہسٹری میوزیم بغداد فائن آرٹ میوزیم ناصریہ میوزیم سمارا عجائب گھر موصل عجائب گھر کرد ثقافتی عجائب گھر اربیل تہذیب عجائب گھر کرد ٹیکسٹائل عجائب گھر، اربیل تکریت عجائب گھر سلیمانیہ عجائب گھر کربلا میں امام حسین عجائب گھر انگلڈی میوزیم - نینوا، جس میں نابو نِد کی بیٹی شہزادی انگلڈی شامل ہیں (یہ ممکنہ طور پر دنیا کا پہلا عجائب گھر ہوگا اور تقریباً 530 قبل مسیح کا ہے) اُر، دھی قر میں ہے۔ بصرہ عجائب گھر ٹی وی ڈرامہ اور سینما چالیس کی دہائی میں، شاہ فیصل دوم کے دور میں، حقیقی عراقی سنیما کا آغاز ہوا، کیونکہ بغداد میں برطانوی اور فرانسیسی فنانسرز کے تعاون سے فلم پروڈکشن کمپنیاں قائم کی گئیں۔ بغداد اسٹوڈیو کی بنیاد 1948ء میں رکھی گئی تھی۔ پروڈکشن اکثر خالصتاً تجارتی ہوتی تھی، اور فلمیں نرم رومانوی موضوعات پر مرکوز ہوتی تھیں، جن میں گانے اور رقص کے بہت سے حصے اور کہانیاں ، چھوٹے دیہاتوں میں سیٹ لگائے جاتے تھے۔ فلم (عالیہ اور عصام) 1948ء میں تیار کی جانے والی پہلی عراقی فلم ہے۔ 1955ء میں، حیدر العمر نے مشہور رومیو اور جولیٹ کی کہانی سے ملتا جلتا عراقی ناول فتنہ و حسن تیار کیا۔ 1959ء میں اس نے عراقی سنیما کے لیے پہلا سرکاری ادارہ سینما اینڈ تھیٹر اتھارٹی قائم کیا، لیکن اس نے ساٹھ کی دہائی کے دوسرے نصف تک پروڈکشن شروع نہیں کی۔ سینما اور تھیٹر اتھارٹی کی طرف سے پیش کی جانے والی فلمیں
ur_Arab
اس دور میں انقلاب کے واقعات سے متعلق دستاویزی فلمیں تھیں اور یہ صورتحال 1966ء تک جاری رہی۔ ( الجابی ) فلم کے ہدایت کار جعفر علی تھے ، اور اس کی نمائندگی اسد عبدالرزاق ، وداد، فوزیہ الشاندی اور جعفر السعدی نے کی۔ 1979 میں صدام حسین کے اقتدار میں آنے سے عراقی سنیما کو قدرے مختلف سمت میں دھکیل دیا۔ عراق اور ایران کے درمیان جنگ نے قومی وسائل اور فلم پروڈکشن کو محدود کر دیا۔ 1981ء میں، حکومت نے مصری ہدایت کار صلاح ابو سیف کو القدسیہ کی ہدایت کاری کا کام سونپا، یہ ایک مہاکاوی فلم ہے جو 636ء میں القدسیہ کی جنگ میں فارسیوں پر عربوں کی فتح کی کہانی بیان کرتی ہے۔ محمد شکری جمیل نے فلم ( دی گریٹ ایشو ) کی ہدایت کاری کی تھی، جس میں برطانوی اداکار اولیور ریڈ نے کرنل لیچ مین کا کردار ادا کیا تھا، جو بیسویں انقلاب میں مارا گیا تھا۔ 1980 میں، ایک 6 گھنٹے طویل فلم تیار کی گئی تھی، جس میں صدر صدام حسین کی سوانح عمری پر بات کی گئی تھی، جو کہ فلم (دی لانگ ڈیز) ہے، اور یہ فلم صدام حسین کے وزیراعظم عبدالکریم قاسم کے قتل کی ناکام کوشش میں شرکت کے بارے میں بات کرتی ہے۔ پھر فرار ہو کر تکریت واپس آ گئے۔ فلم کے ہدایت کار مصری فنکار توفیق صالح ہیں۔ صدام حسین کا کردار اس کے کزن اور داماد صدام کامل نے ادا کیا تھا۔ 1990ء میں کویت کی جنگ کے بعد عراق پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی گئیں، جس نے ہدایت کاروں کی نئی نسل کے ابھرنے کے باوجود اس ملک میں سنیما کا کام مشکل بنا دیا۔ نوے کی دہائی کے نمایاں کاموں میں 1993ء میں ریلیز ہونے والی فلم غازی بن فیصل تھی۔ 2003ء میں تیسری خلیجی جنگ کے بعد، ڈرامائی اور دستاویزی فلموں کا ایک نیا انداز سامنے آیا، جو طویل اور مختصر فلموں کے درمیان مختلف تھا ، اور سنیما کی تیاری کے آزاد طرز پر انحصار کرتا تھا۔ تعلیم عراق میں تعلیم کا عمل عراقی وزارت تعلیم کے زیر انتظام ہے۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق 1991ء میں دوسری خلیجی جنگ سے پہلے کے عرصے میں عراق میں ایک ایسا تعلیمی نظام موجود تھا جو خطے میں سب سے بہتر سمجھا جاتا تھا۔ اسی طرح گزشتہ صدی کے ستر اور اسی کی دہائی میں جب حکومت نے ناخواندگی کو تقریباً مکمل طور پر ختم کر دیا تھا، پڑھنے لکھنے کے اہل (خواندگی)