title
stringlengths 22
123
| content
stringlengths 70
2.22k
⌀ |
---|---|
main-dhuundtaa-huun-jise-vo-jahaan-nahiin-miltaa-kaifi-azmi-ghazals |
میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا
نئی زمین نیا آسماں نہیں ملتا
نئی زمین نیا آسماں بھی مل جائے
نئے بشر کا کہیں کچھ نشاں نہیں ملتا
وہ تیغ مل گئی جس سے ہوا ہے قتل مرا
کسی کے ہاتھ کا اس پر نشاں نہیں ملتا
وہ میرا گاؤں ہے وہ میرے گاؤں کے چولھے
کہ جن میں شعلے تو شعلے دھواں نہیں ملتا
جو اک خدا نہیں ملتا تو اتنا ماتم کیوں
یہاں تو کوئی مرا ہم زباں نہیں ملتا
کھڑا ہوں کب سے میں چہروں کے ایک جنگل میں
تمہارے چہرے کا کچھ بھی یہاں نہیں ملتا |
haath-aa-kar-lagaa-gayaa-koii-kaifi-azmi-ghazals |
ہاتھ آ کر لگا گیا کوئی
میرا چھپر اٹھا گیا کوئی
لگ گیا اک مشین میں میں بھی
شہر میں لے کے آ گیا کوئی
میں کھڑا تھا کہ پیٹھ پر میری
اشتہار اک لگا گیا کوئی
یہ صدی دھوپ کو ترستی ہے
جیسے سورج کو کھا گیا کوئی
ایسی مہنگائی ہے کہ چہرہ بھی
بیچ کے اپنا کھا گیا کوئی
اب وہ ارمان ہیں نہ وہ سپنے
سب کبوتر اڑا گیا کوئی
وہ گئے جب سے ایسا لگتا ہے
چھوٹا موٹا خدا گیا کوئی
میرا بچپن بھی ساتھ لے آیا
گاؤں سے جب بھی آ گیا کوئی |
kyaa-jaane-kis-kii-pyaas-bujhaane-kidhar-gaiin-kaifi-azmi-ghazals |
کیا جانے کس کی پیاس بجھانے کدھر گئیں
اس سر پہ جھوم کے جو گھٹائیں گزر گئیں
دیوانہ پوچھتا ہے یہ لہروں سے بار بار
کچھ بستیاں یہاں تھیں بتاؤ کدھر گئیں
اب جس طرف سے چاہے گزر جائے کارواں
ویرانیاں تو سب مرے دل میں اتر گئیں
پیمانہ ٹوٹنے کا کوئی غم نہیں مجھے
غم ہے تو یہ کہ چاندنی راتیں بکھر گئیں
پایا بھی ان کو کھو بھی دیا چپ بھی ہو رہے
اک مختصر سی رات میں صدیاں گزر گئیں |
shor-yuunhii-na-parindon-ne-machaayaa-hogaa-kaifi-azmi-ghazals |
شور یوں ہی نہ پرندوں نے مچایا ہوگا
کوئی جنگل کی طرف شہر سے آیا ہوگا
پیڑ کے کاٹنے والوں کو یہ معلوم تو تھا
جسم جل جائیں گے جب سر پہ نہ سایہ ہوگا
بانیٔ جشن بہاراں نے یہ سوچا بھی نہیں
کس نے کانٹوں کو لہو اپنا پلایا ہوگا
بجلی کے تار پہ بیٹھا ہوا ہنستا پنچھی
سوچتا ہے کہ وہ جنگل تو پرایا ہوگا
اپنے جنگل سے جو گھبرا کے اڑے تھے پیاسے
ہر سراب ان کو سمندر نظر آیا ہوگا |
khaar-o-khas-to-uthen-raasta-to-chale-kaifi-azmi-ghazals |
خار و خس تو اٹھیں راستہ تو چلے
میں اگر تھک گیا قافلہ تو چلے
چاند سورج بزرگوں کے نقش قدم
خیر بجھنے دو ان کو ہوا تو چلے
حاکم شہر یہ بھی کوئی شہر ہے
مسجدیں بند ہیں مے کدہ تو چلے
اس کو مذہب کہو یا سیاست کہو
خودکشی کا ہنر تم سکھا تو چلے
اتنی لاشیں میں کیسے اٹھا پاؤں گا
آپ اینٹوں کی حرمت بچا تو چلے
بیلچے لاؤ کھولو زمیں کی تہیں
میں کہاں دفن ہوں کچھ پتا تو چلے |
itnaa-to-zindagii-men-kisii-ke-khalal-pade-kaifi-azmi-ghazals |
اتنا تو زندگی میں کسی کے خلل پڑے
ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کل پڑے
جس طرح ہنس رہا ہوں میں پی پی کے گرم اشک
یوں دوسرا ہنسے تو کلیجہ نکل پڑے
اک تم کہ تم کو فکر نشیب و فراز ہے
اک ہم کہ چل پڑے تو بہرحال چل پڑے
ساقی سبھی کو ہے غم تشنہ لبی مگر
مے ہے اسی کی نام پہ جس کے ابل پڑے
مدت کے بعد اس نے جو کی لطف کی نگاہ
جی خوش تو ہو گیا مگر آنسو نکل پڑے |
tum-itnaa-jo-muskuraa-rahe-ho-kaifi-azmi-ghazals |
تم اتنا جو مسکرا رہے ہو
کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو
آنکھوں میں نمی ہنسی لبوں پر
کیا حال ہے کیا دکھا رہے ہو
بن جائیں گے زہر پیتے پیتے
یہ اشک جو پیتے جا رہے ہو
جن زخموں کو وقت بھر چلا ہے
تم کیوں انہیں چھیڑے جا رہے ہو
ریکھاؤں کا کھیل ہے مقدر
ریکھاؤں سے مات کھا رہے ہو |
laaii-phir-ek-lagzish-e-mastaana-tere-shahr-men-kaifi-azmi-ghazals |
لائی پھر اک لغزش مستانہ تیرے شہر میں
پھر بنیں گی مسجدیں مے خانہ تیرے شہر میں
آج پھر ٹوٹیں گی تیرے گھر کی نازک کھڑکیاں
آج پھر دیکھا گیا دیوانہ تیرے شہر میں
جرم ہے تیری گلی سے سر جھکا کر لوٹنا
کفر ہے پتھراؤ سے گھبرانا تیرے شہر میں
شاہ نامے لکھے ہیں کھنڈرات کی ہر اینٹ پر
ہر جگہ ہے دفن اک افسانہ تیرے شہر میں
کچھ کنیزیں جو حریم ناز میں ہیں باریاب
مانگتی ہیں جان و دل نذرانہ تیرے شہر میں
ننگی سڑکوں پر بھٹک کر دیکھ جب مرتی ہے رات
رینگتا ہے ہر طرف ویرانہ تیرے شہر میں |
vo-bhii-saraahne-lage-arbaab-e-fan-ke-baad-kaifi-azmi-ghazals |
وہ بھی سراہنے لگے ارباب فن کے بعد
داد سخن ملی مجھے ترک سخن کے بعد
دیوانہ وار چاند سے آگے نکل گئے
ٹھہرا نہ دل کہیں بھی تری انجمن کے بعد
ہونٹوں کو سی کے دیکھیے پچھتائیے گا آپ
ہنگامے جاگ اٹھتے ہیں اکثر گھٹن کے بعد
غربت کی ٹھنڈی چھاؤں میں یاد آئی اس کی دھوپ
قدر وطن ہوئی ہمیں ترک وطن کے بعد
اعلان حق میں خطرۂ دار و رسن تو ہے
لیکن سوال یہ ہے کہ دار و رسن کے بعد
انساں کی خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں
دو گز زمیں بھی چاہئے دو گز کفن کے بعد |
jhukii-jhukii-sii-nazar-be-qaraar-hai-ki-nahiin-kaifi-azmi-ghazals |
جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں
دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں
تو اپنے دل کی جواں دھڑکنوں کو گن کے بتا
مری طرح ترا دل بے قرار ہے کہ نہیں
وہ پل کہ جس میں محبت جوان ہوتی ہے
اس ایک پل کا تجھے انتظار ہے کہ نہیں
تری امید پہ ٹھکرا رہا ہوں دنیا کو
تجھے بھی اپنے پہ یہ اعتبار ہے کہ نہیں |
sunaa-karo-mirii-jaan-in-se-un-se-afsaane-kaifi-azmi-ghazals |
سنا کرو مری جاں ان سے ان سے افسانے
سب اجنبی ہیں یہاں کون کس کو پہچانے
یہاں سے جلد گزر جاؤ قافلے والو
ہیں میری پیاس کے پھونکے ہوئے یہ ویرانے
مرے جنون پرستش سے تنگ آ گئے لوگ
سنا ہے بند کیے جا رہے ہیں بت خانے
جہاں سے پچھلے پہر کوئی تشنہ کام اٹھا
وہیں پہ توڑے ہیں یاروں نے آج پیمانے
بہار آئے تو میرا سلام کہہ دینا
مجھے تو آج طلب کر لیا ہے صحرا نے
ہوا ہے حکم کہ کیفیؔ کو سنگسار کرو
مسیح بیٹھے ہیں چھپ کے کہاں خدا جانے |
kii-hai-koii-hasiin-khataa-har-khataa-ke-saath-kaifi-azmi-ghazals |
کی ہے کوئی حسین خطا ہر خطا کے ساتھ
تھوڑا سا پیار بھی مجھے دے دو سزا کے ساتھ
گر ڈوبنا ہی اپنا مقدر ہے تو سنو
ڈوبیں گے ہم ضرور مگر ناخدا کے ساتھ
منزل سے وہ بھی دور تھا اور ہم بھی دور تھے
ہم نے بھی دھول اڑائی بہت رہ نما کے ساتھ
رقص صبا کے جشن میں ہم تم بھی ناچتے
اے کاش تم بھی آ گئے ہوتے صبا کے ساتھ
اکیسویں صدی کی طرف ہم چلے تو ہیں
فتنے بھی جاگ اٹھے ہیں آواز پا کے ساتھ
ایسا لگا غریبی کی ریکھا سے ہوں بلند
پوچھا کسی نے حال کچھ ایسی ادا کے ساتھ |
kahiin-se-laut-ke-ham-ladkhadaae-hain-kyaa-kyaa-kaifi-azmi-ghazals |
کہیں سے لوٹ کے ہم لڑکھڑائے ہیں کیا کیا
ستارے زیر قدم رات آئے ہیں کیا کیا
نشیب ہستی سے افسوس ہم ابھر نہ سکے
فراز دار سے پیغام آئے ہیں کیا کیا
جب اس نے ہار کے خنجر زمیں پہ پھینک دیا
تمام زخم جگر مسکرائے ہیں کیا کیا
چھٹا جہاں سے اس آواز کا گھنا بادل
وہیں سے دھوپ نے تلوے جلائے ہیں کیا کیا
اٹھا کے سر مجھے اتنا تو دیکھ لینے دے
کہ قتل گاہ میں دیوانے آئے ہیں کیا کیا
کہیں اندھیرے سے مانوس ہو نہ جائے ادب
چراغ تیز ہوا نے بجھائے ہیں کیا کیا |
patthar-ke-khudaa-vahaan-bhii-paae-kaifi-azmi-ghazals |
پتھر کے خدا وہاں بھی پائے
ہم چاند سے آج لوٹ آئے
دیواریں تو ہر طرف کھڑی ہیں
کیا ہو گئے مہربان سائے
جنگل کی ہوائیں آ رہی ہیں
کاغذ کا یہ شہر اڑ نہ جائے
لیلیٰ نے نیا جنم لیا ہے
ہے قیس کوئی جو دل لگائے
ہے آج زمیں کا غسل صحت
جس دل میں ہو جتنا خون لائے
صحرا صحرا لہو کے خیمے
پھر پیاسے لب فرات آئے |
jo-vo-mire-na-rahe-main-bhii-kab-kisii-kaa-rahaa-kaifi-azmi-ghazals-1 |
جو وہ مرے نہ رہے میں بھی کب کسی کا رہا
بچھڑ کے ان سے سلیقہ نہ زندگی کا رہا
لبوں سے اڑ گیا جگنو کی طرح نام اس کا
سہارا اب مرے گھر میں نہ روشنی کا رہا
گزرنے کو تو ہزاروں ہی قافلے گزرے
زمیں پہ نقش قدم بس کسی کسی کا رہا |
aaj-sochaa-to-aansuu-bhar-aae-kaifi-azmi-ghazals-1 |
آج سوچا تو آنسو بھر آئے
مدتیں ہو گئیں مسکرائے
ہر قدم پر ادھر مڑ کے دیکھا
ان کی محفل سے ہم اٹھ تو آئے
رہ گئی زندگی درد بن کے
درد دل میں چھپائے چھپائے
دل کی نازک رگیں ٹوٹتی ہیں
یاد اتنا بھی کوئی نہ آئے |
milne-kii-tarah-mujh-se-vo-pal-bhar-nahiin-miltaa-naseer-turabi-ghazals |
ملنے کی طرح مجھ سے وہ پل بھر نہیں ملتا
دل اس سے ملا جس سے مقدر نہیں ملتا
یہ راہ تمنا ہے یہاں دیکھ کے چلنا
اس راہ میں سر ملتے ہیں پتھر نہیں ملتا
ہم رنگیٔ موسم کے طلب گار نہ ہوتے
سایہ بھی تو قامت کے برابر نہیں ملتا
کہنے کو غم ہجر بڑا دشمن جاں ہے
پر دوست بھی اس دوست سے بہتر نہیں ملتا
کچھ روز نصیرؔ آؤ چلو گھر میں رہا جائے
لوگوں کو یہ شکوہ ہے کہ گھر پر نہیں ملتا |
vo-ham-safar-thaa-magar-us-se-ham-navaaii-na-thii-naseer-turabi-ghazals |
وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا ملال
شب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی
محبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھا
شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی
عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی
بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل
غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی
کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن
صدا تو آئی تھی لیکن کوئی دہائی نہ تھی
کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت
کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی
عجیب ہوتی ہے راہ سخن بھی دیکھ نصیرؔ
وہاں بھی آ گئے آخر، جہاں رسائی نہ تھی |
is-kadii-dhuup-men-saaya-kar-ke-naseer-turabi-ghazals |
اس کڑی دھوپ میں سایہ کر کے
تو کہاں ہے مجھے تنہا کر کے
میں تو ارزاں تھا خدا کی مانند
کون گزرا مرا سودا کر کے
تیرگی ٹوٹ پڑی ہے مجھ پر
میں پشیماں ہوں اجالا کر کے
لے گیا چھین کے آنکھیں میری
مجھ سے کیوں وعدۂ فردا کر کے
لو ارادوں کی بڑھا دی شب نے
دن گیا جب مجھے پسپا کر کے
کاش یہ آئینۂ ہجر و وصال
ٹوٹ جائے مجھے اندھا کر کے
ہر طرف سچ کی دہائی ہے نصیرؔ
شعر لکھتے رہو سچا کر کے |
tujhe-kyaa-khabar-mire-be-khabar-miraa-silsila-koii-aur-hai-naseer-turabi-ghazals-3 |
تجھے کیا خبر مرے بے خبر مرا سلسلہ کوئی اور ہے
جو مجھی کو مجھ سے بہم کرے وہ گریز پا کوئی اور ہے
مرے موسموں کے بھی طور تھے مرے برگ و بار ہی اور تھے
مگر اب روش ہے الگ کوئی مگر اب ہوا کوئی اور ہے
یہی شہر شہر قرار ہے تو دل شکستہ کی خیر ہو
مری آس ہے کسی اور سے مجھے پوچھتا کوئی اور ہے
یہ وہ ماجرائے فراق ہے جو محبتوں سے نہ کھل سکا
کہ محبتوں ہی کے درمیاں سبب جفا کوئی اور ہے
ہیں محبتوں کی امانتیں یہی ہجرتیں یہی قربتیں
دیے بام و در کسی اور نے تو رہا بسا کوئی اور ہے
یہ فضا کے رنگ کھلے کھلے اسی پیش و پس کے ہیں سلسلے
ابھی خوش نوا کوئی اور تھا ابھی پر کشا کوئی اور ہے
دل زود رنج نہ کر گلہ کسی گرم و سرد رقیب کا
رخ ناسزا تو ہے روبرو پس ناسزا کوئی اور ہے
بہت آئے ہمدم و چارہ گر جو نمود و نام کے ہو گئے
جو زوال غم کا بھی غم کرے وہ خوش آشنا کوئی اور ہے
یہ نصیرؔ شام سپردگی کی اداس اداس سی روشنی
بہ کنار گل ذرا دیکھنا یہ تمہی ہو یا کوئی اور ہے |
marham-e-vaqt-na-ejaaz-e-masiihaaii-hai-naseer-turabi-ghazals |
مرہم وقت نہ اعجاز مسیحائی ہے
زندگی روز نئے زخم کی گہرائی ہے
پھر مرے گھر کی فضاؤں میں ہوا سناٹا
پھر در و بام سے اندیشۂ گویائی ہے
تجھ سے بچھڑوں تو کوئی پھول نہ مہکے مجھ میں
دیکھ کیا کرب ہے کیا ذات کی سچائی ہے
تیرا منشا ترے لہجے کی دھنک میں دیکھا
تری آواز بھی شاید تری انگڑائی ہے
کچھ عجب گردش پرکار سفر رکھتا ہوں
دو قدم مجھ سے بھی آگے مری رسوائی ہے
کچھ تو یہ ہے کہ مری راہ جدا ہے تجھ سے
اور کچھ قرض بھی مجھ پر تری تنہائی ہے
کس لیے مجھ سے گریزاں ہے مرے سامنے تو
کیا تری راہ میں حائل مری بینائی ہے
وہ ستارے جو چمکتے ہیں ترے آنگن میں
ان ستاروں سے تو اپنی بھی شناسائی ہے
جس کو اک عمر غزل سے کیا منسوب نصیرؔ
اس کو پرکھا تو کھلا قافیہ پیمائی ہے |
diyaa-saa-dil-ke-kharaabe-men-jal-rahaa-hai-miyaan-naseer-turabi-ghazals |
دیا سا دل کے خرابے میں جل رہا ہے میاں
دیے کے گرد کوئی عکس چل رہا ہے میاں
یہ روح رقص چراغاں ہے اپنے حلقے میں
یہ جسم سایہ ہے اور سایہ ڈھل رہا میاں
یہ آنکھ پردہ ہے اک گردش تحیر کا
یہ دل نہیں ہے بگولہ اچھل رہا ہے میاں
کبھی کسی کا گزرنا کبھی ٹھہر جانا
مرے سکوت میں کیا کیا خلل رہا ہے میاں
کسی کی راہ میں افلاک زیر پا ہوتے
یہاں تو پاؤں سے صحرا نکل رہا ہے میاں
ہجوم شوخ میں یہ دل ہی بے غرض نکلا
چلو کوئی تو حریفانہ چل رہا ہے میاں
تجھے ابھی سے پڑی ہے کہ فیصلہ ہو جائے
نہ جانے کب سے یہاں وقت ٹل رہا ہے میاں
طبیعتوں ہی کے ملنے سے تھا مزہ باقی
سو وہ مزہ بھی کہاں آج کل رہا ہے میاں
غموں کی فصل میں جس غم کو رائیگاں سمجھیں
خوشی تو یہ ہے کہ وہ غم بھی پھل رہا ہے میاں
لکھا نصیرؔ نے ہر رنگ میں سفید و سیاہ
مگر جو حرف لہو میں مچل رہا ہے میاں |
sukuut-e-shaam-se-ghabraa-na-jaae-aakhir-tuu-naseer-turabi-ghazals |
سکوت شام سے گھبرا نہ جائے آخر تو
مرے دیار سے گزری جو اے کرن پھر تو
لباس جاں میں نہیں شعلگی کا رنگ مگر
جھلس رہا ہے مرے ساتھ کیوں بظاہر تو
وفائے وعدہ و پیماں کا اعتبار بھی کیا
کہ میں تو صاحب ایماں ہوں اور منکر تو
مرے وجود میں اک بے زباں سمندر ہے
اتر کے دیکھ سفینے سے میری خاطر تو
میں شاخ سبز نہیں محرم صبا بھی نہیں
مرے فریب میں کیوں آ گیا ہے طائر تو
اسی امید پہ جلتے ہیں راستوں میں چراغ
کبھی تو لوٹ کے آئے گا اے مسافر تو |
main-bhii-ai-kaash-kabhii-mauj-e-sabaa-ho-jaauun-naseer-turabi-ghazals |
میں بھی اے کاش کبھی موج صبا ہو جاؤں
اس توقع پہ کہ خود سے بھی جدا ہو جاؤں
ابر اٹھے تو سمٹ جاؤں تری آنکھوں میں
دھوپ نکلے تو ترے سر کی ردا ہو جاؤں
آج کی رات اجالے مرے ہمسایہ ہیں
آج کی رات جو سو لوں تو نیا ہو جاؤں
اب یہی سوچ لیا دل میں کہ منزل کے بغیر
گھر پلٹ آؤں تو میں آبلہ پا ہو جاؤں
پھول کی طرح مہکتا ہوں تری یاد کے ساتھ
یہ الگ بات کہ میں تجھ سے خفا ہو جاؤں
جس کے کوچے میں برستے رہے پتھر مجھ پر
اس کے ہاتھوں کے لیے رنگ حنا ہو جاؤں
آرزو یہ ہے کہ تقدیس ہنر کی خاطر
تیرے ہونٹوں پہ رہوں حمد و ثنا ہو جاؤں
مرحلہ اپنی پرستش کا ہو درپیش تو میں
اپنے ہی سامنے مائل بہ دعا ہو جاؤں
تیشۂ وقت بتائے کہ تعارف کے لیے
کن پہاڑوں کی بلندی پہ کھڑا ہو جاؤں
ہائے وہ لوگ کہ میں جن کا پجاری ہوں نصیرؔ
ہائے وہ لوگ کہ میں جن کا خدا ہو جاؤں |
rache-base-hue-lamhon-se-jab-hisaab-huaa-naseer-turabi-ghazals |
رچے بسے ہوئے لمحوں سے جب حساب ہوا
گئے دنوں کی رتوں کا زیاں ثواب ہوا
گزر گیا تو پس موج بے کناری تھی
ٹھہر گیا تو وہ دریا مجھے سراب ہوا
سپردگی کے تقاضے کہاں کہاں سے پڑھوں
ہنر کے باب میں پیکر ترا کتاب ہوا
ہر آرزو مری آنکھوں کی روشنی ٹھہری
چراغ سوچ میں گم ہیں یہ کیا عذاب ہوا
کچھ اجنبی سے لگے آشنا دریچے بھی
کرن کرن جو اجالوں کا احتساب ہوا
وہ یخ مزاج رہا فاصلوں کے رشتوں سے
مگر گلے سے لگایا تو آب آب ہوا
وہ پیڑ جس کے تلے روح گنگناتی تھی
اسی کی چھاؤں سے اب مجھ کو اجتناب ہوا
ان آندھیوں میں کسے مہلت قیام یہاں
کہ ایک خیمۂ جاں تھا سو بے طناب ہوا
صلیب سنگ ہو یا پیرہن کے رنگ نصیرؔ
ہمارے نام سے کیا کیا نہ انتساب ہوا |
dard-kii-dhuup-se-chehre-ko-nikhar-jaanaa-thaa-naseer-turabi-ghazals |
درد کی دھوپ سے چہرے کو نکھر جانا تھا
آئنہ دیکھنے والے تجھے مر جانا تھا
راہ میں ایسے نقوش کف پا بھی آئے
میں نے دانستہ جنہیں گرد سفر جانا تھا
وہم و ادراک کے ہر موڑ پہ سوچا میں نے
تو کہاں ہے مرے ہم راہ اگر جانا تھا
آگہی زخم نظارہ نہ بنی تھی جب تک
میں نے ہر شخص کو محبوب نظر جانا تھا
قربتیں ریت کی دیوار ہیں گر سکتی ہیں
مجھ کو خود اپنے ہی سائے میں ٹھہر جانا تھا
تو کہ وہ تیز ہوا جس کی تمنا بے سود
میں کہ وہ خاک جسے خود ہی بکھر جانا تھا
آنکھ ویران سہی پھر بھی اندھیروں کو نصیرؔ
روشنی بن کے مرے دل میں اتر جانا تھا |
ham-rahii-kii-baat-mat-kar-imtihaan-ho-jaaegaa-naseer-turabi-ghazals |
ہمرہی کی بات مت کر امتحاں ہو جائے گا
ہم سبک ہو جائیں گے تجھ کو گراں ہو جائے گا
جب بہار آ کر گزر جائے گی اے سرو بہار
ایک رنگ اپنا بھی پیوند خزاں ہو جائے گا
ساعت ترک تعلق بھی قریب آ ہی گئی
کیا یہ اپنا سب تعلق رائیگاں ہو جائے گا
یہ ہوا سارے چراغوں کو اڑا لے جائے گی
رات ڈھلنے تک یہاں سب کچھ دھواں ہو جائے گا
شاخ دل پھر سے ہری ہونے لگی دیکھو نصیرؔ
ایسا لگتا ہے کسی کا آشیاں ہو جائے گا |
misl-e-sahraa-hai-rifaaqat-kaa-chaman-bhii-ab-ke-naseer-turabi-ghazals |
مثل صحرا ہے رفاقت کا چمن بھی اب کے
جل بجھا اپنے ہی شعلوں میں بدن بھی اب کے
خار و خس ہوں تو شرر خیزیاں دیکھوں پھر سے
آنکھ لے آئی ہے اک ایسی کرن بھی اب کے
ہم تو وہ پھول جو شاخوں پہ یہ سوچیں پہروں
کیوں صبا بھول گئی اپنا چلن بھی اب کے
منزلوں تک نظر آتا ہے شکستوں کا غبار
ساتھ دیتی نہیں ایسے میں تھکن بھی اب کے
منسلک ایک ہی رشتے میں نہ ہو جائے کہیں
ترے ماتھے ترے بستر کی شکن بھی اب کے
بے گناہی کے لبادے کو اتارو بھی نصیرؔ
راس آ جائے اگر جرم سخن بھی اب کے |
sabaa-kaa-narm-saa-jhonkaa-bhii-taaziyaana-huaa-naseer-turabi-ghazals-1 |
صبا کا نرم سا جھونکا بھی تازیانہ ہوا
یہ وار مجھ پہ ہوا بھی تو غائبانہ ہوا
اسی نے مجھ پہ اٹھائے ہیں سنگ جس کے لیے
میں پاش پاش ہوا گھر نگار خانہ ہوا
جھلس رہا تھا بدن گرمئ نفس سے مگر
ترے خیال کا خورشید شامیانہ ہوا
خود اپنے ہجر کی خواہش مجھے عزیز رہی
یہ تیرے وصل کا قصہ تو اک بہانہ ہوا
خدا کی سرد مزاجی سما گئی مجھ میں
مری تلاش کا سودا پیمبرانہ ہوا
میں اک شجر کی طرح رہگزر میں ٹھہرا ہوں
تھکن اتار کے تو کس طرف روانہ ہوا
وہ شخص جس کے لیے شعر کہہ رہا ہوں نصیرؔ
غزل سنائے ہوئے اس کو اک زمانہ ہوا |
koii-aavaaz-na-aahat-na-khayaal-aise-men-naseer-turabi-ghazals |
کوئی آواز نہ آہٹ نہ خیال ایسے میں
رات مہکی ہے مگر جی ہے نڈھال ایسے میں
میرے اطراف تو گرتی ہوئی دیواریں ہیں
سایۂ عمر رواں مجھ کو سنبھال ایسے میں
جب بھی چڑھتے ہوئے دریا میں سفینہ اترا
یاد آیا ترے لہجے کا کمال ایسے میں
آنکھ کھلتی ہے تو سب خواب بکھر جاتے ہیں
سوچتا ہوں کہ بچھا دوں کوئی جال ایسے میں
مدتوں بعد اگر سامنے آئے ہم تم
دھندلے دھندلے سے ملیں گے خد و خال ایسے میں
ہجر کے پھول میں ہے درد کی باسی خوشبو
موسم وصل کوئی تازہ ملال ایسے میں |
dekh-lete-hain-ab-us-baam-ko-aate-jaate-naseer-turabi-ghazals |
دیکھ لیتے ہیں اب اس بام کو آتے جاتے
یہ بھی آزار چلا جائے گا جاتے جاتے
دل کے سب نقش تھے ہاتھوں کی لکیروں جیسے
نقش پا ہوتے تو ممکن تھا مٹاتے جاتے
تھی کبھی راہ جو ہمراہ گزرنے والی
اب حذر ہوتا ہے اس راہ سے آتے جاتے
شہر بے مہر! کبھی ہم کو بھی مہلت دیتا
اک دیا ہم بھی کسی رخ سے جلاتے جاتے
پارۂ ابر گریزاں تھے کہ موسم اپنے
دور بھی رہتے مگر پاس بھی آتے جاتے
ہر گھڑی ایک جدا غم ہے جدائی اس کی
غم کی میعاد بھی وہ لے گیا جاتے جاتے
اس کے کوچے میں بھی ہو، راہ سے بے راہ نصیرؔ
اتنے آئے تھے تو آواز لگاتے جاتے |
injiil-e-raftagaan-kii-hadiison-ke-saath-huun-naseer-turabi-ghazals |
انجیل رفتگاں کی حدیثوں کے ساتھ ہوں
عیسیٰ نفس ہوں اور صلیبوں کے ساتھ ہوں
پابند رنگ و نقش ہوں تصویر کی طرح
میں بے حجاب اپنے حجابوں کے ساتھ ہوں
اوراق آرزو پہ بہ عنوان جاں کنی
میں بے نشاں سی چند لکیروں کے ساتھ ہوں
شاید یہ انتظار کی لو فیصلہ کرے
میں اپنے ساتھ ہوں کہ دریچوں کے ساتھ ہوں
تو فتح مند میرا تراشا ہوا صنم
میں بت تراش اپنی شکستوں کے ساتھ ہوں
موج صبا کی زد پہ سر رہ گزار شوق
میں بھی نصیرؔ گھر کے چراغوں کے ساتھ ہوں |
ishq-e-laa-mahduud-jab-tak-rahnumaa-hotaa-nahiin-jigar-moradabadi-ghazals |
عشق لا محدود جب تک رہنما ہوتا نہیں
زندگی سے زندگی کا حق ادا ہوتا نہیں
بے کراں ہوتا نہیں بے انتہا ہوتا نہیں
قطرہ جب تک بڑھ کے قلزم آشنا ہوتا نہیں
اس سے بڑھ کر دوست کوئی دوسرا ہوتا نہیں
سب جدا ہو جائیں لیکن غم جدا ہوتا نہیں
زندگی اک حادثہ ہے اور کیسا حادثہ
موت سے بھی ختم جس کا سلسلہ ہوتا نہیں
کون یہ ناصح کو سمجھائے بہ طرز دل نشیں
عشق صادق ہو تو غم بھی بے مزا ہوتا نہیں
درد سے معمور ہوتی جا رہی ہے کائنات
اک دل انساں مگر درد آشنا ہوتا نہیں
میرے عرض غم پہ وہ کہنا کسی کا ہائے ہائے
شکوۂ غم شیوۂ اہل وفا ہوتا نہیں
اس مقام قرب تک اب عشق پہنچا ہی جہاں
دیدہ و دل کا بھی اکثر واسطا ہوتا نہیں
ہر قدم کے ساتھ منزل لیکن اس کا کیا علاج
عشق ہی کم بخت منزل آشنا ہوتا نہیں
اللہ اللہ یہ کمال اور ارتباط حسن و عشق
فاصلے ہوں لاکھ دل سے دل جدا ہوتا نہیں
کیا قیامت ہے کہ اس دور ترقی میں جگرؔ
آدمی سے آدمی کا حق ادا ہوتا نہیں |
ab-to-ye-bhii-nahiin-rahaa-ehsaas-jigar-moradabadi-ghazals |
اب تو یہ بھی نہیں رہا احساس
درد ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
عشق جب تک نہ کر چکے رسوا
آدمی کام کا نہیں ہوتا
ٹوٹ پڑتا ہے دفعتاً جو عشق
بیشتر دیر پا نہیں ہوتا
وہ بھی ہوتا ہے ایک وقت کہ جب
ماسوا ماسوا نہیں ہوتا
ہائے کیا ہو گیا طبیعت کو
غم بھی راحت فزا نہیں ہوتا
دل ہمارا ہے یا تمہارا ہے
ہم سے یہ فیصلہ نہیں ہوتا
جس پہ تیری نظر نہیں ہوتی
اس کی جانب خدا نہیں ہوتا
میں کہ بے زار عمر بھر کے لیے
دل کہ دم بھر جدا نہیں ہوتا
وہ ہمارے قریب ہوتے ہیں
جب ہمارا پتا نہیں ہوتا
دل کو کیا کیا سکون ہوتا ہے
جب کوئی آسرا نہیں ہوتا
ہو کے اک بار سامنا ان سے
پھر کبھی سامنا نہیں ہوتا |
jo-ab-bhii-na-takliif-farmaaiyegaa-jigar-moradabadi-ghazals |
جو اب بھی نہ تکلیف فرمائیے گا
تو بس ہاتھ ملتے ہی رہ جائیے گا
نگاہوں سے چھپ کر کہاں جائیے گا
جہاں جائیے گا ہمیں پائیے گا
مرا جب برا حال سن پائیے گا
خراماں خراماں چلے آئیے گا
مٹا کر ہمیں آپ پچھتائیے گا
کمی کوئی محسوس فرمائیے گا
نہیں کھیل ناصح جنوں کی حقیقت
سمجھ لیجئے گا تو سمجھائیے گا
ہمیں بھی یہ اب دیکھنا ہے کہ ہم پر
کہاں تک توجہ نہ فرمائیے گا
ستم عشق میں آپ آساں نہ سمجھیں
تڑپ جائیے گا جو تڑپائیے گا
یہ دل ہے اسے دل ہی بس رہنے دیجے
کرم کیجئے گا تو پچھتائیے گا
کہیں چپ رہی ہے زبان محبت
نہ فرمائیے گا تو فرمائیے گا
بھلانا ہمارا مبارک مبارک
مگر شرط یہ ہے نہ یاد آئیے گا
ہمیں بھی نہ اب چین آئے گا جب تک
ان آنکھوں میں آنسو نہ بھر لائیے گا
ترا جذبۂ شوق ہے بے حقیقت
ذرا پھر تو ارشاد فرمائیے گا
ہمیں جب نہ ہوں گے تو کیا رنگ محفل
کسے دیکھ کر آپ شرمایئے گا
یہ مانا کہ دے کر ہمیں رنج فرقت
مداوائے فرقت نہ فرمائیے گا
محبت محبت ہی رہتی ہے لیکن
کہاں تک طبیعت کو بہلایئے گا
نہ ہوگا ہمارا ہی آغوش خالی
کچھ اپنا بھی پہلو تہی پائیے گا
جنوں کی جگرؔ کوئی حد بھی ہے آخر
کہاں تک کسی پر ستم ڈھایئے گا |
kiyaa-taajjub-ki-mirii-ruuh-e-ravaan-tak-pahunche-jigar-moradabadi-ghazals |
کیا تعجب کہ مری روح رواں تک پہنچے
پہلے کوئی مرے نغموں کی زباں تک پہنچے
جب ہر اک شورش غم ضبط فغاں تک پہنچے
پھر خدا جانے یہ ہنگامہ کہاں تک پہنچے
آنکھ تک دل سے نہ آئے نہ زباں تک پہنچے
بات جس کی ہے اسی آفت جاں تک پہنچے
تو جہاں پر تھا بہت پہلے وہیں آج بھی ہے
دیکھ رندان خوش انفاس کہاں تک پہنچے
جو زمانے کو برا کہتے ہیں خود ہیں وہ برے
کاش یہ بات ترے گوش گراں تک پہنچے
بڑھ کے رندوں نے قدم حضرت واعظ کے لیے
گرتے پڑتے جو در پیر مغاں تک پہنچے
تو مرے حال پریشاں پہ بہت طنز نہ کر
اپنے گیسو بھی ذرا دیکھ کہاں تک پہنچے
ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
عشق کی چوٹ دکھانے میں کہیں آتی ہے
کچھ اشارے تھے کہ جو لفظ و بیاں تک پہنچے
جلوے بیتاب تھے جو پردۂ فطرت میں جگرؔ
خود تڑپ کر مری چشم نگراں تک پہنچے |
vo-jo-ruuthen-yuun-manaanaa-chaahiye-jigar-moradabadi-ghazals |
وہ جو روٹھیں یوں منانا چاہیئے
زندگی سے روٹھ جانا چاہیئے
ہمت قاتل بڑھانا چاہیئے
زیر خنجر مسکرانا چاہیئے
زندگی ہے نام جہد و جنگ کا
موت کیا ہے بھول جانا چاہیئے
ہے انہیں دھوکوں سے دل کی زندگی
جو حسیں دھوکا ہو کھانا چاہیئے
لذتیں ہیں دشمن اوج کمال
کلفتوں سے جی لگانا چاہیئے
ان سے ملنے کو تو کیا کہئے جگرؔ
خود سے ملنے کو زمانا چاہیئے |
allaah-agar-taufiiq-na-de-insaan-ke-bas-kaa-kaam-nahiin-jigar-moradabadi-ghazals |
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں
یہ تو نے کہا کیا اے ناداں فیاضی قدرت عام نہیں
تو فکر و نظر تو پیدا کر کیا چیز ہے جو انعام نہیں
یارب یہ مقام عشق ہے کیا گو دیدہ و دل ناکام نہیں
تسکین ہے اور تسکین نہیں آرام ہے اور آرام نہیں
کیوں مست شراب عیش و طرب تکلیف توجہ فرمائیں
آواز شکست دل ہی تو ہے آواز شکست جام نہیں
آنا ہے جو بزم جاناں میں پندار خودی کو توڑ کے آ
اے ہوش و خرد کے دیوانے یاں ہوش و خرد کا کام نہیں
زاہد نے کچھ اس انداز سے پی ساقی کی نگاہیں پڑنے لگیں
مے کش یہی اب تک سمجھے تھے شائستہ دور جام نہیں
عشق اور گوارا خود کر لے بے شرط شکست فاش اپنی
دل کی بھی کچھ ان کے سازش ہے تنہا یہ نظر کا کام نہیں
سب جس کو اسیری کہتے ہیں وہ تو ہے امیری ہی لیکن
وہ کون سی آزادی ہے یہاں جو آپ خود اپنا دام نہیں |
dil-ko-sukuun-ruuh-ko-aaraam-aa-gayaa-jigar-moradabadi-ghazals |
دل کو سکون روح کو آرام آ گیا
موت آ گئی کہ دوست کا پیغام آ گیا
جب کوئی ذکر گردش آیام آ گیا
بے اختیار لب پہ ترا نام آ گیا
غم میں بھی ہے سرور وہ ہنگام آ گیا
شاید کہ دور بادۂ گلفام آ گیا
دیوانگی ہو عقل ہو امید ہو کہ یاس
اپنا وہی ہے وقت پہ جو کام آ گیا
دل کے معاملات میں ناصح شکست کیا
سو بار حسن پر بھی یہ الزام آ گیا
صیاد شادماں ہے مگر یہ تو سوچ لے
میں آ گیا کہ سایہ تہ دام آ گیا
دل کو نہ پوچھ معرکۂ حسن و عشق میں
کیا جانیے غریب کہاں کام آ گیا
یہ کیا مقام عشق ہے ظالم کہ ان دنوں
اکثر ترے بغیر بھی آرام آ گیا
احباب مجھ سے قطع تعلق کریں جگرؔ
اب آفتاب زیست لب بام آ گیا |
sharmaa-gae-lajaa-gae-daaman-chhudaa-gae-jigar-moradabadi-ghazals |
شرما گئے لجا گئے دامن چھڑا گئے
اے عشق مرحبا وہ یہاں تک تو آ گئے
دل پر ہزار طرح کے اوہام چھا گئے
یہ تم نے کیا کیا مری دنیا میں آ گئے
سب کچھ لٹا کے راہ محبت میں اہل دل
خوش ہیں کہ جیسے دولت کونین پا گئے
صحن چمن کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا
وہ آ گئے تو ساری بہاروں پہ چھا گئے
عقل و جنوں میں سب کی تھیں راہیں جدا جدا
ہر پھر کے لیکن ایک ہی منزل پہ آ گئے
اب کیا کروں میں فطرت ناکام عشق کو
جتنے تھے حادثات مجھے راس آ گئے |
ham-ko-mitaa-sake-ye-zamaane-men-dam-nahiin-jigar-moradabadi-ghazals |
ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں
بے فائدہ الم نہیں بے کار غم نہیں
توفیق دے خدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں
میری زباں پہ شکوۂ اہل ستم نہیں
مجھ کو جگا دیا یہی احسان کم نہیں
یا رب ہجوم درد کو دے اور وسعتیں
دامن تو کیا ابھی مری آنکھیں بھی نم نہیں
شکوہ تو ایک چھیڑ ہے لیکن حقیقتاً
تیرا ستم بھی تیری عنایت سے کم نہیں
اب عشق اس مقام پہ ہے جستجو نورد
سایہ نہیں جہاں کوئی نقش قدم نہیں
ملتا ہے کیوں مزہ ستم روزگار میں
تیرا کرم بھی خود جو شریک ستم نہیں
مرگ جگرؔ پہ کیوں تری آنکھیں ہیں اشک ریز
اک سانحہ سہی مگر اتنا اہم نہیں |
aadmii-aadmii-se-miltaa-hai-jigar-moradabadi-ghazals |
آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے
وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے
آج کیا بات ہے کہ پھولوں کا
رنگ تیری ہنسی سے ملتا ہے
سلسلہ فتنۂ قیامت کا
تیری خوش قامتی سے ملتا ہے
مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے
کاروبار جہاں سنورتے ہیں
ہوش جب بے خودی سے ملتا ہے
روح کو بھی مزا محبت کا
دل کی ہم سائیگی سے ملتا ہے |
mohabbat-men-ye-kyaa-maqaam-aa-rahe-hain-jigar-moradabadi-ghazals |
محبت میں یہ کیا مقام آ رہے ہیں
کہ منزل پہ ہیں اور چلے جا رہے ہیں
یہ کہہ کہہ کے ہم دل کو بہلا رہے ہیں
وہ اب چل چکے ہیں وہ اب آ رہے ہیں
وہ از خود ہی نادم ہوئے جا رہے ہیں
خدا جانے کیا کیا خیال آ رہے ہیں
ہمارے ہی دل سے مزے ان کے پوچھو
وہ دھوکے جو دانستہ ہم کھا رہے ہیں
جفا کرنے والوں کو کیا ہو گیا ہے
وفا کر کے بھی ہم تو شرما رہے ہیں
وہ عالم ہے اب یارو اغیار کیسے
ہمیں اپنے دشمن ہوئے جا رہے ہیں
مزاج گرامی کی ہو خیر یارب
کئی دن سے اکثر وہ یاد آ رہے ہیں |
us-kii-nazron-men-intikhaab-huaa-jigar-moradabadi-ghazals |
اس کی نظروں میں انتخاب ہوا
دل عجب حسن سے خراب ہوا
عشق کا سحر کامیاب ہوا
میں ترا تو مرا جواب ہوا
ہر نفس موج اضطراب ہوا
زندگی کیا ہوئی عذاب ہوا
جذبۂ شوق کامیاب ہوا
آج مجھ سے انہیں حجاب ہوا
میں بنوں کس لیے نہ مست شراب
کیوں مجسم کوئی شباب ہوا
نگۂ ناز لے خبر ورنہ
درد محبوب اضطراب ہوا
میری بربادیاں درست مگر
تو بتا کیا تجھے ثواب ہوا
عین قربت بھی عین فرقت بھی
ہائے وہ قطرہ جو حباب ہوا
مستیاں ہر طرف ہیں آوارہ
کون غارت گر شراب ہوا
دل کو چھونا نہ اے نسیم کرم
اب یہ دل روکش حباب ہوا
عشق بے امتیاز کے ہاتھوں
حسن خود بھی شکست یاب ہوا
جب وہ آئے تو پیشتر سب سے
میری آنکھوں کو اذن خواب ہوا
دل کی ہر چیز جگمگا اٹھی
آج شاید وہ بے نقاب ہوا
دور ہنگامۂ نشاط نہ پوچھ
اب وہ سب کچھ خیال و خواب ہوا
تو نے جس اشک پر نظر ڈالی
جوش کھا کر وہی شراب ہوا
ستم خاص یار کی ہے قسم
کرم یار بے حساب ہوا |
laakhon-men-intikhaab-ke-qaabil-banaa-diyaa-jigar-moradabadi-ghazals |
لاکھوں میں انتخاب کے قابل بنا دیا
جس دل کو تم نے دیکھ لیا دل بنا دیا
ہر چند کر دیا مجھے برباد عشق نے
لیکن انہیں تو شیفتۂ دل بنا دیا
پہلے کہاں یہ ناز تھے یہ عشوہ و ادا
دل کو دعائیں دو تمہیں قاتل بنا دیا |
ai-husn-e-yaar-sharm-ye-kyaa-inqalaab-hai-jigar-moradabadi-ghazals |
اے حسن یار شرم یہ کیا انقلاب ہے
تجھ سے زیادہ درد ترا کامیاب ہے
عاشق کی بے دلی کا تغافل نہیں جواب
اس کا بس ایک جوش محبت جواب ہے
تیری عنایتیں کہ نہیں نذر جاں قبول
تیری نوازشیں کہ زمانہ خراب ہے
اے حسن اپنی حوصلہ افزائیاں تو دیکھ
مانا کہ چشم شوق بہت بے حجاب ہے
میں عشق بے نیاز ہوں تم حسن بے پناہ
میرا جواب ہے نہ تمہارا جواب ہے
مے خانہ ہے اسی کا یہ دنیا اسی کی ہے
جس تشنہ لب کے ہاتھ میں جام شراب ہے
اس سے دل تباہ کی روداد کیا کہوں
جو یہ نہ سن سکے کہ زمانہ خراب ہے
اے محتسب نہ پھینک مرے محتسب نہ پھینک
ظالم شراب ہے ارے ظالم شراب ہے
اپنے حدود سے نہ بڑھے کوئی عشق میں
جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے
وہ لاکھ سامنے ہوں مگر اس کا کیا علاج
دل مانتا نہیں کہ نظر کامیاب ہے
میری نگاہ شوق بھی کچھ کم نہیں مگر
پھر بھی ترا شباب ترا ہی شباب ہے
مانوس اعتبار کرم کیوں کیا مجھے
اب ہر خطائے شوق اسی کا جواب ہے
میں اس کا آئینہ ہوں وہ ہے میرا آئینہ
میری نظر سے اس کی نظر کامیاب ہے
تنہائی فراق کے قربان جائیے
میں ہوں خیال یار ہے چشم پر آب ہے
سرمایۂ فراق جگرؔ آہ کچھ نہ پوچھ
اب جان ہے سو اپنے لیے خود عذاب ہے |
sabhii-andaaz-e-husn-pyaare-hain-jigar-moradabadi-ghazals |
سبھی انداز حسن پیارے ہیں
ہم مگر سادگی کے مارے ہیں
اس کی راتوں کا انتقام نہ پوچھ
جس نے ہنس ہنس کے دن گزارے ہیں
اے سہاروں کی زندگی والو
کتنے انسان بے سہارے ہیں
لالہ و گل سے تجھ کو کیا نسبت
نا مکمل سے استعارے ہیں
ہم تو اب ڈوب کر ہی ابھریں گے
وہ رہیں شاد جو کنارے ہیں
شب فرقت بھی جگمگا اٹھی
اشک غم ہیں کہ ماہ پارے ہیں
آتش عشق وہ جہنم ہے
جس میں فردوس کے نظارے ہیں
وہ ہمیں ہیں کہ جن کے ہاتھوں نے
گیسوئے زندگی سنوارے ہیں
حسن کی بے نیازیوں پہ نہ جا
بے اشارے بھی کچھ اشارے ہیں |
dil-gayaa-raunaq-e-hayaat-gaii-jigar-moradabadi-ghazals |
دل گیا رونق حیات گئی
غم گیا ساری کائنات گئی
دل دھڑکتے ہی پھر گئی وہ نظر
لب تک آئی نہ تھی کہ بات گئی
دن کا کیا ذکر تیرہ بختوں میں
ایک رات آئی ایک رات گئی
تیری باتوں سے آج تو واعظ
وہ جو تھی خواہش نجات گئی
ان کے بہلائے بھی نہ بہلا دل
رائیگاں سعئ التفات گئی
مرگ عاشق تو کچھ نہیں لیکن
اک مسیحا نفس کی بات گئی
اب جنوں آپ ہے گریباں گیر
اب وہ رسم تکلفات گئی
ہم نے بھی وضع غم بدل ڈالی
جب سے وہ طرز التفات گئی
ترک الفت بہت بجا ناصح
لیکن اس تک اگر یہ بات گئی
ہاں مزے لوٹ لے جوانی کے
پھر نہ آئے گی یہ جو رات گئی
ہاں یہ سرشاریاں جوانی کی
آنکھ جھپکی ہی تھی کہ رات گئی
جلوۂ ذات اے معاذ اللہ
تاب آئینۂ صفات گئی
نہیں ملتا مزاج دل ہم سے
غالباً دور تک یہ بات گئی
قید ہستی سے کب نجات جگرؔ
موت آئی اگر حیات گئی |
tabiiat-in-dinon-begaana-e-gam-hotii-jaatii-hai-jigar-moradabadi-ghazals |
طبیعت ان دنوں بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے
مرے حصے کی گویا ہر خوشی کم ہوتی جاتی ہے
سحر ہونے کو ہے بیدار شبنم ہوتی جاتی ہے
خوشی منجملہ و اسباب ماتم ہوتی جاتی ہے
قیامت کیا یہ اے حسن دو عالم ہوتی جاتی ہے
کہ محفل تو وہی ہے دل کشی کم ہوتی جاتی ہے
وہی مے خانہ و صہبا وہی ساغر وہی شیشہ
مگر آواز نوشا نوش مدھم ہوتی جاتی ہے
وہی ہیں شاہد و ساقی مگر دل بجھتا جاتا ہے
وہی ہے شمع لیکن روشنی کم ہوتی جاتی ہے
وہی شورش ہے لیکن جیسے موج تہ نشیں کوئی
وہی دل ہے مگر آواز مدھم ہوتی جاتی ہے
وہی ہے زندگی لیکن جگرؔ یہ حال ہے اپنا
کہ جیسے زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے |
fikr-e-manzil-hai-na-hosh-e-jaada-e-manzil-mujhe-jigar-moradabadi-ghazals |
فکر منزل ہے نہ ہوش جادۂ منزل مجھے
جا رہا ہوں جس طرف لے جا رہا ہے دل مجھے
اب زباں بھی دے ادائے شکر کے قابل مجھے
درد بخشا ہے اگر تو نے بجائے دل مجھے
یوں تڑپ کر دل نے تڑپایا سر محفل مجھے
اس کو قاتل کہنے والے کہہ اٹھے قاتل مجھے
اب کدھر جاؤں بتا اے جذبۂ کامل مجھے
ہر طرف سے آج آتی ہے صدائے دل مجھے
روک سکتی ہو تو بڑھ کر روک لے منزل مجھے
ہر طرف سے آج آتی ہے صدائے دل مجھے
جان دی کہ حشر تک میں ہوں مری تنہائیاں
ہاں مبارک فرصت نظارۂ قاتل مجھے
ہر اشارے پر ہے پھر بھی گردن تسلیم خم
جانتا ہوں صاف دھوکے دے رہا ہے دل مجھے
جا بھی اے ناصح کہاں کا سود اور کیسا زیاں
عشق نے سمجھا دیا ہے عشق کا حاصل مجھے
میں ازل سے صبح محشر تک فروزاں ہی رہا
حسن سمجھا تھا چراغ کشتۂ محفل مجھے
خون دل رگ رگ میں جم کر رہ گیا اس وہم سے
بڑھ کے سینے سے نہ لپٹا لے مرا قاتل مجھے
کیسا قطرہ کیسا دریا کس کا طوفاں کس کی موج
تو جو چاہے تو ڈبو دے خشکئ ساحل مجھے
پھونک دے اے غیرت سوز محبت پھونک دے
اب سمجھتی ہیں وہ نظریں رحم کے قابل مجھے
توڑ کر بیٹھا ہوں راہ شوق میں پائے طلب
دیکھنا ہے جذبۂ بے تابئ منزل مجھے
اے ہجوم ناامیدی شاد باش و زندہ باش
تو نے سب سے کر دیا بیگانہ و غافل مجھے
درد محرومی سہی احساس ناکامی سہی
اس نے سمجھا تو بہر صورت کسی قابل مجھے
یہ بھی کیا منظر ہے بڑھتے ہیں نہ رکتے ہیں قدم
تک رہا ہوں دور سے منزل کو میں منزل مجھے |
tujhii-se-ibtidaa-hai-tuu-hii-ik-din-intihaa-hogaa-jigar-moradabadi-ghazals |
تجھی سے ابتدا ہے تو ہی اک دن انتہا ہوگا
صدائے ساز ہوگی اور نہ ساز بے صدا ہوگا
ہمیں معلوم ہے ہم سے سنو محشر میں کیا ہوگا
سب اس کو دیکھتے ہوں گے وہ ہم کو دیکھتا ہوگا
سر محشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہوگا
در جنت نہ وا ہوگا در رحمت تو وا ہوگا
جہنم ہو کہ جنت جو بھی ہوگا فیصلہ ہوگا
یہ کیا کم ہے ہمارا اور ان کا سامنا ہوگا
ازل ہو یا ابد دونوں اسیر زلف حضرت ہیں
جدھر نظریں اٹھاؤ گے یہی اک سلسلا ہوگا
یہ نسبت عشق کی بے رنگ لائے رہ نہیں سکتی
جو محبوب خدا کا ہے وہ محبوب خدا ہوگا
اسی امید پر ہم طالبان درد جیتے ہیں
خوشا درد دے کہ تیرا اور درد لا دوا ہوگا
نگاہ قہر پر بھی جان و دل سب کھوئے بیٹھا ہے
نگاہ مہر عاشق پر اگر ہوگی تو کیا ہوگا
سیانا بھیج دے گا ہم کو محشر سے جہنم میں
مگر جو دل پہ گزرے گی وہ دل ہی جانتا ہوگا
سمجھتا کیا ہے تو دیوانگان عشق کو زاہد
یہ ہو جائیں گے جس جانب اسی جانب خدا ہوگا
جگرؔ کا ہاتھ ہوگا حشر میں اور دامن حضرت
شکایت ہو کہ شکوہ جو بھی ہوگا برملا ہوگا |
yaadash-ba-khair-jab-vo-tasavvur-men-aa-gayaa-jigar-moradabadi-ghazals |
یادش بخیر جب وہ تصور میں آ گیا
شعر و شباب و حسن کا دریا بہا گیا
جب عشق اپنے مرکز اصلی پہ آ گیا
خود بن گیا حسین دو عالم پہ چھا گیا
جو دل کا راز تھا اسے کچھ دل ہی پا گیا
وہ کر سکے بیاں نہ ہمیں سے کہا گیا
ناصح فسانہ اپنا ہنسی میں اڑا گیا
خوش فکر تھا کہ صاف یہ پہلو بچا گیا
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل
ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا
دل بن گیا نگاہ نگہ بن گئی زباں
آج اک سکوت شوق قیامت ہی ڈھا گیا
میرا کمال شعر بس اتنا ہے اے جگرؔ
وہ مجھ پہ چھا گئے میں زمانے پہ چھا گیا |
ye-hai-mai-kada-yahaan-rind-hain-yahaan-sab-kaa-saaqii-imaam-hai-jigar-moradabadi-ghazals |
یہ ہے مے کدہ یہاں رند ہیں یہاں سب کا ساقی امام ہے
یہ حرم نہیں ہے اے شیخ جی یہاں پارسائی حرام ہے
جو ذرا سی پی کے بہک گیا اسے میکدے سے نکال دو
یہاں تنگ نظر کا گزر نہیں یہاں اہل ظرف کا کام ہے
کوئی مست ہے کوئی تشنہ لب تو کسی کے ہاتھ میں جام ہے
مگر اس پہ کوئی کرے بھی کیا یہ تو میکدے کا نظام ہے
یہ جناب شیخ کا فلسفہ ہے عجیب سارے جہان سے
جو وہاں پیو تو حلال ہے جو یہاں پیو تو حرام ہے
اسی کائنات میں اے جگرؔ کوئی انقلاب اٹھے گا پھر
کہ بلند ہو کے بھی آدمی ابھی خواہشوں کا غلام ہے |
aayaa-na-raas-naala-e-dil-kaa-asar-mujhe-jigar-moradabadi-ghazals |
آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر مجھے
اب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے
دل لے کے مجھ سے دیتے ہو داغ جگر مجھے
یہ بات بھولنے کی نہیں عمر بھر مجھے
ہر سو دکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے
کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے
ملتی نہیں ہے لذت درد جگر مجھے
بھولی ہوئی نہ ہو نگہ فتنہ گر مجھے
ڈالا ہے بے خودی نے عجب راہ پر مجھے
آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں آتا نظر مجھے
کرنا ہے آج حضرت ناصح سے سامنا
مل جائے دو گھڑی کو تمہاری نظر مجھے
مستانہ کر رہا ہوں رہ عاشقی کو طے
لے جائے جذب شوق مرا اب جدھر مجھے
ڈرتا ہوں جلوۂ رخ جاناں کو دیکھ کر
اپنا بنا نہ لے کہیں میری نظر مجھے
یکساں ہے حسن و عشق کی سر مستیوں کا رنگ
ان کی خبر انہیں ہے نہ میری خبر مجھے
مرنا ہے ان کے پاؤں پہ رکھ کر سر نیاز
کرنا ہے آج قصۂ غم مختصر مجھے
سینے سے دل عزیز ہے دل سے ہو تم عزیز
سب سے مگر عزیز ہے تیری نظر مجھے
میں دور ہوں تو روئے سخن مجھ سے کس لیے
تم پاس ہو تو کیوں نہیں آتے نظر مجھے
کیا جانئے قفس میں رہے کیا معاملہ
اب تک تو ہیں عزیز مرے بال و پر مجھے |
dil-men-kisii-ke-raah-kiye-jaa-rahaa-huun-main-jigar-moradabadi-ghazals |
دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں
کتنا حسیں گناہ کئے جا رہا ہوں میں
دنیائے دل تباہ کئے جا رہا ہوں میں
صرف نگاہ و آہ کئے جا رہا ہوں میں
فرد عمل سیاہ کئے جا رہا ہوں میں
رحمت کو بے پناہ کئے جا رہا ہوں میں
ایسی بھی اک نگاہ کئے جا رہا ہوں میں
ذروں کو مہر و ماہ کئے جا رہا ہوں میں
مجھ سے لگے ہیں عشق کی عظمت کو چار چاند
خود حسن کو گواہ کئے جا رہا ہوں میں
دفتر ہے ایک معنئ بے لفظ و صوت کا
سادہ سی جو نگاہ کئے جا رہا ہوں میں
آگے قدم بڑھائیں جنہیں سوجھتا نہیں
روشن چراغ راہ کئے جا رہا ہوں میں
معصومئ جمال کو بھی جن پہ رشک ہے
ایسے بھی کچھ گناہ کئے جا رہا ہوں میں
تنقید حسن مصلحت خاص عشق ہے
یہ جرم گاہ گاہ کئے جا رہا ہوں میں
اٹھتی نہیں ہے آنکھ مگر اس کے روبرو
نادیدہ اک نگاہ کئے جا رہا ہوں میں
گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نباہ کئے جا رہا ہوں میں
یوں زندگی گزار رہا ہوں ترے بغیر
جیسے کوئی گناہ کئے جا رہا ہوں میں
مجھ سے ادا ہوا ہے جگرؔ جستجو کا حق
ہر ذرے کو گواہ کئے جا رہا ہوں میں |
aankhon-kaa-thaa-qusuur-na-dil-kaa-qusuur-thaa-jigar-moradabadi-ghazals |
آنکھوں کا تھا قصور نہ دل کا قصور تھا
آیا جو میرے سامنے میرا غرور تھا
تاریک مثل آہ جو آنکھوں کا نور تھا
کیا صبح ہی سے شام بلا کا ظہور تھا
وہ تھے نہ مجھ سے دور نہ میں ان سے دور تھا
آتا نہ تھا نظر تو نظر کا قصور تھا
ہر وقت اک خمار تھا ہر دم سرور تھا
بوتل بغل میں تھی کہ دل ناصبور تھا
کوئی تو دردمند دل ناصبور تھا
مانا کہ تم نہ تھے کوئی تم سا ضرور تھا
لگتے ہی ٹھیس ٹوٹ گیا ساز آرزو
ملتے ہی آنکھ شیشۂ دل چور چور تھا
ایسا کہاں بہار میں رنگینیوں کا جوش
شامل کسی کا خون تمنا ضرور تھا
ساقی کی چشم مست کا کیا کیجیے بیان
اتنا سرور تھا کہ مجھے بھی سرور تھا
پلٹی جو راستے ہی سے اے آہ نامراد
یہ تو بتا کہ باب اثر کتنی دور تھا
جس دل کو تم نے لطف سے اپنا بنا لیا
اس دل میں اک چھپا ہوا نشتر ضرور تھا
اس چشم مے فروش سے کوئی نہ بچ سکا
سب کو بقدر حوصلۂ دل سرور تھا
دیکھا تھا کل جگرؔ کو سر راہ مے کدہ
اس درجہ پی گیا تھا کہ نشے میں چور تھا |
shab-e-firaaq-hai-aur-niind-aaii-jaatii-hai-jigar-moradabadi-ghazals |
شب فراق ہے اور نیند آئی جاتی ہے
کچھ اس میں ان کی توجہ بھی پائی جاتی ہے
یہ عمر عشق یوں ہی کیا گنوائی جاتی ہے
حیات زندہ حقیقت بنائی جاتی ہے
بنا بنا کے جو دنیا مٹائی جاتی ہے
ضرور کوئی کمی ہے کہ پائی جاتی ہے
ہمیں پہ عشق کی تہمت لگائی جاتی ہے
مگر یہ شرم جو چہرے پہ چھائی جاتی ہے
خدا کرے کہ حقیقت میں زندگی بن جائے
وہ زندگی جو زباں تک ہی پائی جاتی ہے
گناہ گار کے دل سے نہ بچ کے چل زاہد
یہیں کہیں تری جنت بھی پائی جاتی ہے
نہ سوز عشق نہ برق جمال پر الزام
دلوں میں آگ خوشی سے لگائی جاتی ہے
کچھ ایسے بھی تو ہیں رندان پاک باز جگرؔ
کہ جن کو بے مئے و ساغر پلائی جاتی ہے |
nazar-milaa-ke-mire-paas-aa-ke-luut-liyaa-jigar-moradabadi-ghazals |
نظر ملا کے مرے پاس آ کے لوٹ لیا
نظر ہٹی تھی کہ پھر مسکرا کے لوٹ لیا
شکست حسن کا جلوہ دکھا کے لوٹ لیا
نگاہ نیچی کئے سر جھکا کے لوٹ لیا
دہائی ہے مرے اللہ کی دہائی ہے
کسی نے مجھ سے بھی مجھ کو چھپا کے لوٹ لیا
سلام اس پہ کہ جس نے اٹھا کے پردۂ دل
مجھی میں رہ کے مجھی میں سما کے لوٹ لیا
انہیں کے دل سے کوئی اس کی عظمتیں پوچھے
وہ ایک دل جسے سب کچھ لٹا کے لوٹ لیا
یہاں تو خود تری ہستی ہے عشق کو درکار
وہ اور ہوں گے جنہیں مسکرا کے لوٹ لیا
خوشا وہ جان جسے دی گئی امانت عشق
رہے وہ دل جسے اپنا بنا کے لوٹ لیا
نگاہ ڈال دی جس پر حسین آنکھوں نے
اسے بھی حسن مجسم بنا کے لوٹ لیا
بڑے وہ آئے دل و جاں کے لوٹنے والے
نظر سے چھیڑ دیا گدگدا کے لوٹ لیا
رہا خراب محبت ہی وہ جسے تو نے
خود اپنا درد محبت دکھا کے لوٹ لیا
کوئی یہ لوٹ تو دیکھے کہ اس نے جب چاہا
تمام ہستئ دل کو جگا کے لوٹ لیا
کرشما سازی حسن ازل ارے توبہ
مرا ہی آئینہ مجھ کو دکھا کے لوٹ لیا
نہ لٹتے ہم مگر ان مست انکھڑیوں نے جگرؔ
نظر بچاتے ہوئے ڈبڈبا کے لوٹ لیا |
kaam-aakhir-jazba-e-be-ikhtiyaar-aa-hii-gayaa-jigar-moradabadi-ghazals |
کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا
دل کچھ اس صورت سے تڑپا ان کو پیار آ ہی گیا
جب نگاہیں اٹھ گئیں اللہ ری معراج شوق
دیکھتا کیا ہوں وہ جان انتظار آ ہی گیا
ہائے یہ حسن تصور کا فریب رنگ و بو
میں یہ سمجھا جیسے وہ جان بہار آ ہی گیا
ہاں سزا دے اے خدائے عشق اے توفیق غم
پھر زبان بے ادب پر ذکر یار آ ہی گیا
اس طرح خوش ہوں کسی کے وعدۂ فردا پہ میں
در حقیقت جیسے مجھ کو اعتبار آ ہی گیا
ہائے کافر دل کی یہ کافر جنوں انگیزیاں
تم کو پیار آئے نہ آئے مجھ کو پیار آ ہی گیا
درد نے کروٹ ہی بدلی تھی کہ دل کی آڑ سے
دفعتاً پردہ اٹھا اور پردہ دار آ ہی گیا
دل نے اک نالہ کیا آج اس طرح دیوانہ وار
بال بکھرائے کوئی مستانہ وار آ ہی گیا
جان ہی دے دی جگرؔ نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا |
ishq-ko-be-naqaab-honaa-thaa-jigar-moradabadi-ghazals |
عشق کو بے نقاب ہونا تھا
آپ اپنا جواب ہونا تھا
مست جام شراب ہونا تھا
بے خود اضطراب ہونا تھا
تیری آنکھوں کا کچھ قصور نہیں
ہاں مجھی کو خراب ہونا تھا
آؤ مل جاؤ مسکرا کے گلے
ہو چکا جو عتاب ہونا تھا
کوچۂ عشق میں نکل آیا
جس کو خانہ خراب ہونا تھا
مست جام شراب خاک ہوتے
غرق جام شراب ہونا تھا
دل کہ جس پر ہیں نقش رنگارنگ
اس کو سادہ کتاب ہونا تھا
ہم نے ناکامیوں کو ڈھونڈ لیا
آخرش کامیاب ہونا تھا
ہائے وہ لمحۂ سکوں کہ جسے
محشر اضطراب ہونا تھا
نگۂ یار خود تڑپ اٹھتی
شرط اول خراب ہونا تھا
کیوں نہ ہوتا ستم بھی بے پایاں
کرم بے حساب ہونا تھا
کیوں نظر حیرتوں میں ڈوب گئی
موج صد اضطراب ہونا تھا
ہو چکا روز اولیں ہی جگرؔ
جس کو جتنا خراب ہونا تھا |
kasrat-men-bhii-vahdat-kaa-tamaashaa-nazar-aayaa-jigar-moradabadi-ghazals |
کثرت میں بھی وحدت کا تماشا نظر آیا
جس رنگ میں دیکھا تجھے یکتا نظر آیا
جب اس رخ پر نور کا جلوہ نظر آیا
کعبہ نظر آیا نہ کلیسا نظر آیا
یہ حسن یہ شوخی یہ کرشمہ یہ ادائیں
دنیا نظر آئی مجھے تو کیا نظر آیا
اک سرخوشی عشق ہے اک بے خودیٔ شوق
آنکھوں کو خدا جانے مری کیا نظر آیا
جب دیکھ نہ سکتے تھے تو دریا بھی تھا قطرہ
جب آنکھ کھلی قطرہ بھی دریا نظر آیا
قربان تری شان عنایت کے دل و جاں
اس کم نگہی پر مجھے کیا کیا نظر آیا
ہر رنگ ترے رنگ میں ڈوبا ہوا نکلا
ہر نقش ترا نقش کف پا نظر آیا
آنکھوں نے دکھا دی جو ترے غم کی حقیقت
عالم مجھے سارا تہ و بالا نظر آیا
ہر جلوے کو دیکھا ترے جلووں سے منور
ہر بزم میں تو انجمن آرا نظر آیا |
ye-misraa-kaash-naqsh-e-har-dar-o-diivaar-ho-jaae-jigar-moradabadi-ghazals |
یہ مصرع کاش نقش ہر در و دیوار ہو جائے
جسے جینا ہو مرنے کے لیے تیار ہو جائے
وہی مے خوار ہے جو اس طرح مے خوار ہو جائے
کہ شیشہ توڑ دے اور بے پیے سرشار ہو جائے
دل انساں اگر شائستہ اسرار ہو جائے
لب خاموش فطرت ہی لب گفتار ہو جائے
ہر اک بے کار سی ہستی بروئے کار ہو جائے
جنوں کی روح خوابیدہ اگر بیدار ہو جائے
سنا ہے حشر میں ہر آنکھ اسے بے پردہ دیکھے گی
مجھے ڈر ہے نہ توہین جمال یار ہو جائے
حریم ناز میں اس کی رسائی ہو تو کیوں کر ہو
کہ جو آسودہ زیر سایۂ دیوار ہو جائے
معاذ اللہ اس کی واردات غم معاذ اللہ
چمن جس کا وطن ہو اور چمن بے زار ہو جائے
یہی ہے زندگی تو زندگی سے خودکشی اچھی
کہ انساں عالم انسانیت پر بار ہو جائے
اک ایسی شان پیدا کر کہ باطل تھرتھرا اٹھے
نظر تلوار بن جائے نفس جھنکار ہو جائے
یہ روز و شب یہ صبح و شام یہ بستی یہ ویرانہ
سبھی بیدار ہیں انساں اگر بیدار ہو جائے |
duniyaa-ke-sitam-yaad-na-apnii-hii-vafaa-yaad-jigar-moradabadi-ghazals |
دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد
میں شکوہ بلب تھا مجھے یہ بھی نہ رہا یاد
شاید کہ مرے بھولنے والے نے کیا یاد
چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے
اب تک ہے وہ اک نغمۂ بے ساز و صدا یاد
جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرم نوازش
اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد
کیا جانئے کیا ہو گیا ارباب جنوں کو
مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد
مدت ہوئی اک حادثۂ عشق کو لیکن
اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد
ہاں ہاں تجھے کیا کام مری شدت غم سے
ہاں ہاں نہیں مجھ کو ترے دامن کی ہوا یاد
میں ترک رہ و رسم جنوں کر ہی چکا تھا
کیوں آ گئی ایسے میں تری لغزش پا یاد
کیا لطف کہ میں اپنا پتہ آپ بتاؤں
کیجے کوئی بھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد |
kuchh-is-adaa-se-aaj-vo-pahluu-nashiin-rahe-jigar-moradabadi-ghazals |
کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے
جب تک ہمارے پاس رہے ہم نہیں رہے
ایمان و کفر اور نہ دنیا و دیں رہے
اے عشق شاد باش کہ تنہا ہمیں رہے
عالم جب ایک حال پہ قائم نہیں رہے
کیا خاک اعتبار نگاہ یقیں رہے
میری زباں پہ شکوہ درد آفریں رہے
شاید مرے حواس ٹھکانے نہیں رہے
جب تک الٰہی جسم میں جان حزیں رہے
نظریں مری جوان رہیں دل حسیں رہے
یارب کسی کے راز محبت کی خیر ہو
دست جنوں رہے نہ رہے آستیں رہے
تا چند جوش عشق میں دل کی حفاظتیں
میری بلا سے اب وہ جنونی کہیں رہے
جا اور کوئی ضبط کی دنیا تلاش کر
اے عشق ہم تو اب ترے قابل نہیں رہے
مجھ کو نہیں قبول دو عالم کی وسعتیں
قسمت میں کوئے یار کی دو گز زمیں رہے
اے عشق نالہ کش تری غیرت کو کیا ہوا
ہے ہے عرق عرق وہ تن نازنیں رہے
درد و غم فراق کے یہ سخت مرحلے
حیراں ہوں میں کہ پھر بھی تم اتنے حسیں رہے
اللہ رے چشم یار کی معجز بیانیاں
ہر اک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے
ظالم اٹھا تو پردۂ وہم و گمان و فکر
کیا سامنے وہ مرحلہ ہائے یقیں رہے
ذات و صفات حسن کا عالم نظر میں ہے
محدود سجدہ کیا مرا ذوق جبیں رہے
کس درد سے کسی نے کہا آج بزم میں
اچھا یہ ہے وہ ننگ محبت یہیں رہے
سر دادگان عشق و محبت کی کیا کمی
قاتل کی تیغ تیز خدا کی زمیں رہے
اس عشق کی تلافئ مافات دیکھنا
رونے کی حسرتیں ہیں جب آنسو نہیں رہے |
ik-lafz-e-mohabbat-kaa-adnaa-ye-fasaanaa-hai-jigar-moradabadi-ghazals |
اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانا ہے
سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانا ہے
یہ کس کا تصور ہے یہ کس کا فسانا ہے
جو اشک ہے آنکھوں میں تسبیح کا دانا ہے
دل سنگ ملامت کا ہر چند نشانا ہے
دل پھر بھی مرا دل ہے دل ہی تو زمانا ہے
ہم عشق کے ماروں کا اتنا ہی فسانا ہے
رونے کو نہیں کوئی ہنسنے کو زمانا ہے
وہ اور وفا دشمن مانیں گے نہ مانا ہے
سب دل کی شرارت ہے آنکھوں کا بہانا ہے
شاعر ہوں میں شاعر ہوں میرا ہی زمانا ہے
فطرت مرا آئینا قدرت مرا شانا ہے
جو ان پہ گزرتی ہے کس نے اسے جانا ہے
اپنی ہی مصیبت ہے اپنا ہی فسانا ہے
کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانا ہے
آغاز محبت ہے آنا ہے نہ جانا ہے
اشکوں کی حکومت ہے آہوں کا زمانا ہے
آنکھوں میں نمی سی ہے چپ چپ سے وہ بیٹھے ہیں
نازک سی نگاہوں میں نازک سا فسانا ہے
ہم درد بہ دل نالاں وہ دست بہ دل حیراں
اے عشق تو کیا ظالم تیرا ہی زمانا ہے
یا وہ تھے خفا ہم سے یا ہم ہیں خفا ان سے
کل ان کا زمانہ تھا آج اپنا زمانا ہے
اے عشق جنوں پیشہ ہاں عشق جنوں پیشہ
آج ایک ستم گر کو ہنس ہنس کے رلانا ہے
تھوڑی سی اجازت بھی اے بزم گہ ہستی
آ نکلے ہیں دم بھر کو رونا ہے رلانا ہے
یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
خود حسن و شباب ان کا کیا کم ہے رقیب اپنا
جب دیکھیے اب وہ ہیں آئینہ ہے شانا ہے
تصویر کے دو رخ ہیں جاں اور غم جاناں
اک نقش چھپانا ہے اک نقش دکھانا ہے
یہ حسن و جمال ان کا یہ عشق و شباب اپنا
جینے کی تمنا ہے مرنے کا زمانا ہے
مجھ کو اسی دھن میں ہے ہر لحظہ بسر کرنا
اب آئے وہ اب آئے لازم انہیں آنا ہے
خودداری و محرومی محرومی و خودداری
اب دل کو خدا رکھے اب دل کا زمانا ہے
اشکوں کے تبسم میں آہوں کے ترنم میں
معصوم محبت کا معصوم فسانا ہے
آنسو تو بہت سے ہیں آنکھوں میں جگرؔ لیکن
بندھ جائے سو موتی ہے رہ جائے سو دانا ہے |
baraabar-se-bach-kar-guzar-jaane-vaale-jigar-moradabadi-ghazals |
برابر سے بچ کر گزر جانے والے
یہ نالے نہیں بے اثر جانے والے
نہیں جانتے کچھ کہ جانا کہاں ہے
چلے جا رہے ہیں مگر جانے والے
مرے دل کی بیتابیاں بھی لیے جا
دبے پاؤں منہ پھیر کر جانے والے
ترے اک اشارے پہ ساکت کھڑے ہیں
نہیں کہہ کے سب سے گزر جانے والے
محبت میں ہم تو جیے ہیں جئیں گے
وہ ہوں گے کوئی اور مر جانے والے |
be-kaif-dil-hai-aur-jiye-jaa-rahaa-huun-main-jigar-moradabadi-ghazals |
بے کیف دل ہے اور جیے جا رہا ہوں میں
خالی ہے شیشہ اور پیے جا رہا ہوں میں
پیہم جو آہ آہ کیے جا رہا ہوں میں
دولت ہے غم زکوٰۃ دئیے جا رہا ہوں میں
مجبوری کمال محبت تو دیکھنا
جینا نہیں قبول جیے جا رہا ہوں میں
وہ دل کہاں ہے اب کہ جسے پیار کیجیے
مجبوریاں ہیں ساتھ دئیے جا رہا ہوں میں
رخصت ہوئی شباب کے ہم راہ زندگی
کہنے کی بات ہے کہ جیے جا رہا ہوں میں
پہلے شراب زیست تھی اب زیست ہے شراب
کوئی پلا رہا ہے پیے جا رہا ہوں میں |
ishq-men-laa-javaab-hain-ham-log-jigar-moradabadi-ghazals |
عشق میں لا جواب ہیں ہم لوگ
ماہتاب آفتاب ہیں ہم لوگ
گرچہ اہل شراب ہیں ہم لوگ
یہ نہ سمجھو خراب ہیں ہم لوگ
شام سے آ گئے جو پینے پر
صبح تک آفتاب ہیں ہم لوگ
ہم کو دعوائے عشق بازی ہے
مستحق عذاب ہیں ہم لوگ
ناز کرتی ہے خانہ ویرانی
ایسے خانہ خراب ہیں ہم لوگ
ہم نہیں جانتے خزاں کیا ہے
کشتگان شباب ہیں ہم لوگ
تو ہمارا جواب ہے تنہا
اور تیرا جواب ہیں ہم لوگ
تو ہے دریائے حسن و محبوبی
شکل موج و حباب ہیں ہم لوگ
گو سراپا حجاب ہیں پھر بھی
تیرے رخ کی نقاب ہیں ہم لوگ
خوب ہم جانتے ہیں اپنی قدر
تیرے نا کامیاب ہیں ہم لوگ
ہم سے غفلت نہ ہو تو پھر کیا ہو
رہرو ملک خواب ہیں ہم لوگ
جانتا بھی ہے اس کو تو واعظ
جس کے مست و خراب ہیں ہم لوگ
ہم پہ نازل ہوا صحیفۂ عشق
صاحبان کتاب ہیں ہم لوگ
ہر حقیقت سے جو گزر جائیں
وہ صداقت مآب ہیں ہم لوگ
جب ملی آنکھ ہوش کھو بیٹھے
کتنے حاضر جواب ہیں ہم لوگ
ہم سے پوچھو جگرؔ کی سر مستی
محرم آں جناب ہیں ہم لوگ |
shaaer-e-fitrat-huun-jab-bhii-fikr-farmaataa-huun-main-jigar-moradabadi-ghazals |
شاعر فطرت ہوں جب بھی فکر فرماتا ہوں میں
روح بن کر ذرے ذرے میں سما جاتا ہوں میں
آ کہ تجھ بن اس طرح اے دوست گھبراتا ہوں میں
جیسے ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں میں
جس قدر افسانۂ ہستی کو دہراتا ہوں میں
اور بھی بیگانۂ ہستی ہوا جاتا ہوں میں
جب مکان و لا مکاں سب سے گزر جاتا ہوں میں
اللہ اللہ تجھ کو خود اپنی جگہ پاتا ہوں میں
تیری صورت کا جو آئینہ اسے پاتا ہوں میں
اپنے دل پر آپ کیا کیا ناز فرماتا ہوں میں
یک بہ یک گھبرا کے جتنی دور ہٹ آتا ہوں میں
اور بھی اس شوخ کو نزدیک تر پاتا ہوں میں
میری ہستی شوق پیہم میری فطرت اضطراب
کوئی منزل ہو مگر گزرا چلا جاتا ہوں میں
ہائے ری مجبوریاں ترک محبت کے لیے
مجھ کو سمجھاتے ہیں وہ اور ان کو سمجھاتا ہوں میں
میری ہمت دیکھنا میری طبیعت دیکھنا
جو سلجھ جاتی ہے گتھی پھر سے الجھاتا ہوں میں
حسن کو کیا دشمنی ہے عشق کو کیا بیر ہے
اپنے ہی قدموں کی خود ہی ٹھوکریں کھاتا ہوں میں
تیری محفل تیرے جلوے پھر تقاضا کیا ضرور
لے اٹھا جاتا ہوں ظالم لے چلا جاتا ہوں میں
تا کجا یہ پردہ داری ہائے عشق و لاف حسن
ہاں سنبھل جائیں دو عالم ہوش میں آتا ہوں میں
میری خاطر اب وہ تکلیف تجلی کیوں کریں
اپنی گرد شوق میں خود ہی چھپا جاتا ہوں میں
دل مجسم شعر و نغمہ وہ سراپا رنگ و بو
کیا فضائیں ہیں کہ جن میں حل ہوا جاتا ہوں میں
تا کجا ضبط محبت تا کجا درد فراق
رحم کر مجھ پر کہ تیرا راز کہلاتا ہوں میں
واہ رے شوق شہادت کوئے قاتل کی طرف
گنگناتا رقص کرتا جھومتا جاتا ہوں میں
یا وہ صورت خود جہان رنگ و بو محکوم تھا
یا یہ عالم اپنے سائے سے دبا جاتا ہوں میں
دیکھنا اس عشق کی یہ طرفہ کاری دیکھنا
وہ جفا کرتے ہیں مجھ پر اور شرماتا ہوں میں
ایک دل ہے اور طوفان حوادث اے جگرؔ
ایک شیشہ ہے کہ ہر پتھر سے ٹکراتا ہوں میں |
aankhon-men-bas-ke-dil-men-samaa-kar-chale-gae-jigar-moradabadi-ghazals |
آنکھوں میں بس کے دل میں سما کر چلے گئے
خوابیدہ زندگی تھی جگا کر چلے گئے
حسن ازل کی شان دکھا کر چلے گئے
اک واقعہ سا یاد دلا کر چلے گئے
چہرے تک آستین وہ لا کر چلے گئے
کیا راز تھا کہ جس کو چھپا کر چلے گئے
رگ رگ میں اس طرح وہ سما کر چلے گئے
جیسے مجھی کو مجھ سے چرا کر چلے گئے
میری حیات عشق کو دے کر جنون شوق
مجھ کو تمام ہوش بنا کر چلے گئے
سمجھا کے پستیاں مرے اوج کمال کی
اپنی بلندیاں وہ دکھا کر چلے گئے
اپنے فروغ حسن کی دکھلا کے وسعتیں
میرے حدود شوق بڑھا کر چلے گئے
ہر شے کو میری خاطر ناشاد کے لیے
آئینۂ جمال بنا کر چلے گئے
آئے تھے دل کی پیاس بجھانے کے واسطے
اک آگ سی وہ اور لگا کر چلے گئے
آئے تھے چشم شوق کی حسرت نکالنے
سر تا قدم نگاہ بنا کر چلے گئے
اب کاروبار عشق سے فرصت مجھے کہاں
کونین کا وہ درد بڑھا کر چلے گئے
شکر کرم کے ساتھ یہ شکوہ بھی ہو قبول
اپنا سا کیوں نہ مجھ کو بنا کر چلے گئے
لب تھرتھرا کے رہ گئے لیکن وہ اے جگرؔ
جاتے ہوئے نگاہ ملا کر چلے گئے |
kabhii-shaakh-o-sabza-o-barg-par-kabhii-guncha-o-gul-o-khaar-par-jigar-moradabadi-ghazals |
کبھی شاخ و سبزہ و برگ پر کبھی غنچہ و گل و خار پر
میں چمن میں چاہے جہاں رہوں مرا حق ہے فصل بہار پر
مجھے دیں نہ غیظ میں دھمکیاں گریں لاکھ بار یہ بجلیاں
مری سلطنت یہ ہی آشیاں مری ملکیت یہ ہی چار پر
جنہیں کہئے عشق کی وسعتیں جو ہیں خاص حسن کی عظمتیں
یہ اسی کے قلب سے پوچھئے جسے فخر ہو غم یار پر
مرے اشک خوں کی بہار ہے کہ مرقع غم یار ہے
مری شاعری بھی نثار ہے مری چشم سحر نگار پر
عجب انقلاب زمانہ ہے مرا مختصر سا فسانہ ہے
یہی اب جو بار ہے دوش پر یہی سر تھا زانوئے یار پر
یہ کمال عشق کی سازشیں یہ جمال حسن کی نازشیں
یہ عنایتیں یہ نوازشیں مری ایک مشت غبار پر
مری سمت سے اسے اے صبا یہ پیام آخر غم سنا
ابھی دیکھنا ہو تو دیکھ جا کہ خزاں ہے اپنی بہار پر
یہ فریب جلوہ ہے سر بسر مجھے ڈر یہ ہے دل بے خبر
کہیں جم نہ جائے تری نظر انہیں چند نقش و نگار پر
میں رہین درد سہی مگر مجھے اور چاہئے کیا جگرؔ
غم یار ہے مرا شیفتہ میں فریفتہ غم یار پر |
koii-ye-kah-de-gulshan-gulshan-jigar-moradabadi-ghazals |
کوئی یہ کہہ دے گلشن گلشن
لاکھ بلائیں ایک نشیمن
قاتل رہبر قاتل رہزن
دل سا دوست نہ دل سا دشمن
پھول کھلے ہیں گلشن گلشن
لیکن اپنا اپنا دامن
عشق ہے پیارے کھیل نہیں ہے
عشق ہے کار شیشہ و آہن
خیر مزاج حسن کی یارب
تیز بہت ہے دل کی دھڑکن
آ کہ نہ جانے تجھ بن کب سے
روح ہے لاشہ جسم ہے مدفن
آج نہ جانے راز یہ کیا ہے
ہجر کی رات اور اتنی روشن
عمریں بیتیں صدیاں گزریں
ہے وہی اب تک عشق کا بچپن
تجھ سا حسیں اور خون محبت
وہم ہے شاید سرخی دامن
برق حوادث اللہ اللہ
جھوم رہی ہے شاخ نشیمن
تو نے سلجھ کر گیسوئے جاناں
اور بڑھا دی شوق کی الجھن
رحمت ہوگی طالب عصیاں
رشک کرے گی پاکئ دامن
دل کہ مجسم آئینہ ساماں
اور وہ ظالم آئینہ دشمن
بیٹھے ہم ہر بزم میں لیکن
جھاڑ کے اٹھے اپنا دامن
ہستئ شاعر اللہ اللہ
حسن کی منزل عشق کا مسکن
رنگیں فطرت سادہ طبیعت
فرش نشیں اور عرش نشیمن
کام ادھورا اور آزادی
نام بڑے اور تھوڑے درشن
شمع ہے لیکن دھندھلی دھندھلی
سایا ہے لیکن روشن روشن
کانٹوں کا بھی حق ہے کچھ آخر
کون چھڑائے اپنا دامن
چلتی پھرتی چھاؤں ہے پیارے
کس کا صحرا کیسا گلشن |
jo-tuufaanon-men-palte-jaa-rahe-hain-jigar-moradabadi-ghazals |
جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں
وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں
نکھرتا آ رہا ہے رنگ گلشن
خس و خاشاک جلتے جا رہے ہیں
وہیں میں خاک اڑتی دیکھتا ہوں
جہاں چشمے ابلتے جا رہے ہیں
چراغ دیر و کعبہ اللہ اللہ
ہوا کی ضد پہ جلتے جا رہے ہیں
شباب و حسن میں بحث آ پڑی ہے
نئے پہلو نکلتے جا رہے ہیں |
aaj-kyaa-haal-hai-yaarab-sar-e-mahfil-meraa-jigar-moradabadi-ghazals |
آج کیا حال ہے یا رب سر محفل میرا
کہ نکالے لیے جاتا ہے کوئی دل میرا
سوز غم دیکھ نہ برباد ہو حاصل میرا
دل کی تصویر ہے ہر آئینۂ دل میرا
صبح تک ہجر میں کیا جانیے کیا ہوتا ہے
شام ہی سے مرے قابو میں نہیں دل میرا
مل گئی عشق میں ایذا طلبی سے راحت
غم ہے اب جان مری درد ہے اب دل میرا
پایا جاتا ہے تری شوخیٔ رفتار کا رنگ
کاش پہلو میں دھڑکتا ہی رہے دل میرا
ہائے اس مرد کی قسمت جو ہوا دل کا شریک
ہائے اس دل کا مقدر جو بنا دل میرا
کچھ کھٹکتا تو ہے پہلو میں مرے رہ رہ کر
اب خدا جانے تری یاد ہے یا دل میرا |
sab-pe-tuu-mehrbaan-hai-pyaare-jigar-moradabadi-ghazals |
سب پہ تو مہربان ہے پیارے
کچھ ہمارا بھی دھیان ہے پیارے
آ کہ تجھ بن بہت دنوں سے یہ دل
ایک سونا مکان ہے پیارے
تو جہاں ناز سے قدم رکھ دے
وہ زمین آسمان ہے پیارے
مختصر ہے یہ شوق کی روداد
ہر نفس داستان ہے پیارے
اپنے جی میں ذرا تو کر انصاف
کب سے نامہربان ہے پیارے
صبر ٹوٹے ہوئے دلوں کا نہ لے
تو یوں ہی دھان پان ہے پیارے
ہم سے جو ہو سکا سو کر گزرے
اب ترا امتحان ہے پیارے
مجھ میں تجھ میں تو کوئی فرق نہیں
عشق کیوں درمیان ہے پیارے
کیا کہے حال دل غریب جگرؔ
ٹوٹی پھوٹی زبان ہے پیارے |
vo-adaa-e-dilbarii-ho-ki-navaa-e-aashiqaana-jigar-moradabadi-ghazals |
وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ
یہ ترا جمال کامل یہ شباب کا زمانہ
دل دشمناں سلامت دل دوستاں نشانہ
کبھی حسن کی طبیعت نہ بدل سکا زمانہ
وہی ناز بے نیازی وہی شان خسروانہ
میں ہوں اس مقام پر اب کہ فراق و وصل کیسے
مرا عشق بھی کہانی ترا حسن بھی فسانہ
مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے
مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ
ترے عشق کی کرامت یہ اگر نہیں تو کیا ہے
کبھی بے ادب نہ گزرا مرے پاس سے زمانہ
تری دوری و حضوری کا یہ ہے عجیب عالم
ابھی زندگی حقیقت ابھی زندگی فسانہ
مرے ہم صفیر بلبل مرا تیرا ساتھ ہی کیا
میں ضمیر دشت و دریا تو اسیر آشیانہ
میں وہ صاف ہی نہ کہہ دوں جو ہے فرق مجھ میں تجھ میں
ترا درد درد تنہا مرا غم غم زمانہ
ترے دل کے ٹوٹنے پر ہے کسی کو ناز کیا کیا
تجھے اے جگرؔ مبارک یہ شکست فاتحانہ |
use-haal-o-qaal-se-vaasta-na-garaz-maqaam-o-qayaam-se-jigar-moradabadi-ghazals |
اسے حال و قال سے واسطہ نہ غرض مقام و قیام سے
جسے کوئی نسبت خاص ہو ترے حسن برق خرام سے
مجھے دے رہے ہیں تسلیاں وہ ہر ایک تازہ پیام سے
کبھی آ کے منظر عام پر کبھی ہٹ کے منظر عام سے
کیوں کیا رہا جو مقابلہ خطرات گام بہ گام سے
سر بام عشق تمام تک رہ شوق نیم تمام سے
نہ غرض کسی سے نہ واسطہ مجھے کام اپنے ہی کام سے
ترے ذکر سے تری فکر سے تری یاد سے ترے نام سے
مرے ساقیا مرے ساقیا تجھے مرحبا تجھے مرحبا
تو پلائے جا تو پلائے جا اسی چشم جام بہ جام سے
تری صبح عیش ہے کیا بلا تجھے اے فلک جو ہو حوصلہ
کبھی کر لے آ کے مقابلہ غم ہجر یار کی شام سے
مجھے یوں نہ خاک میں تو ملا میں اگرچہ ہوں ترا نقش پا
ترے جلوے کی ہے بقا مرے شوق نام بہ نام سے
تری چشم مست کو کیا کہوں کہ نظر نظر ہے فسوں فسوں
یہ تمام ہوش یہ سب جنوں اسی ایک گردش جام سے
یہ کتاب دل کی ہیں آیتیں میں بتاؤں کیا جو ہیں نسبتیں
مرے سجدہ ہائے دوام کو ترے نقش ہائے خرام سے
مجھے چاہیئے وہی ساقیا جو برس چلے جو چھلک چلے
ترے حسن شیشہ بدست سے تری چشم بادہ بہ جام سے
جو اٹھا ہے درد اٹھا کرے کوئی خاک اس سے گلا کرے
جسے ضد ہو حسن کے ذکر سے جسے چڑھ ہو عشق کے نام سے
وہیں چشم حور پھڑک گئی ابھی پی نہ تھی کہ بہک گئی
کبھی یک بیک جو چھلک گئی کسی رند مست کے جام سے
تو ہزار عذر کرے مگر ہمیں رشک ہے اور ہی کچھ جگرؔ
تری اضطراب نگاہ سے ترے احتیاط کلام سے |
daastaan-e-gam-e-dil-un-ko-sunaaii-na-gaii-jigar-moradabadi-ghazals |
داستان غم دل ان کو سنائی نہ گئی
بات بگڑی تھی کچھ ایسی کہ بنائی نہ گئی
سب کو ہم بھول گئے جوش جنوں میں لیکن
اک تری یاد تھی ایسی جو بھلائی نہ گئی
عشق پر کچھ نہ چلا دیدۂ تر کا قابو
اس نے جو آگ لگا دی وہ بجھائی نہ گئی
پڑ گیا حسن رخ یار کا پرتو جس پر
خاک میں مل کے بھی اس دل کی صفائی نہ گئی
کیا اٹھائے گی صبا خاک مری اس در سے
یہ قیامت تو خود ان سے بھی اٹھائی نہ گئی |
jehl-e-khirad-ne-din-ye-dikhaae-jigar-moradabadi-ghazals |
جہل خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
ہائے وہ کیونکر دل بہلائے
غم بھی جس کو راس نہ آئے
ضد پر عشق اگر آ جائے
پانی چھڑکے آگ لگائے
دل پہ کچھ ایسا وقت پڑا ہے
بھاگے لیکن راہ نہ پائے
کیسا مجاز اور کیسی حقیقت
اپنے ہی جلوے اپنے ہی سائے
جھوٹی ہے ہر ایک مسرت
روح اگر تسکین نہ پائے
کار زمانہ جتنا جتنا
بنتا جائے بگڑتا جائے
ضبط محبت شرط محبت
جی ہے کہ ظالم امڈا آئے
حسن وہی ہے حسن جو ظالم
ہاتھ لگائے ہاتھ نہ آئے
نغمہ وہی ہے نغمہ کہ جس کو
روح سنے اور روح سنائے
راہ جنوں آسان ہوئی ہے
زلف و مژہ کے سائے سائے |
kyaa-baraabar-kaa-mohabbat-men-asar-hotaa-hai-jigar-moradabadi-ghazals |
کیا برابر کا محبت میں اثر ہوتا ہے
دل ادھر ہوتا ہے ظالم نہ ادھر ہوتا ہے
ہم نے کیا کچھ نہ کیا دیدۂ دل کی خاطر
لوگ کہتے ہیں دعاؤں میں اثر ہوتا ہے
دل تو یوں دل سے ملایا کہ نہ رکھا میرا
اب نظر کے لیے کیا حکم نظر ہوتا ہے
میں گنہ گار جنوں میں نے یہ مانا لیکن
کچھ ادھر سے بھی تقاضائے نظر ہوتا ہے
کون دیکھے اسے بیتاب محبت اے دل
تو وہ نالے ہی نہ کر جن میں اثر ہوتا ہے |
tire-jamaal-e-haqiiqat-kii-taab-hii-na-huii-jigar-moradabadi-ghazals |
ترے جمال حقیقت کی تاب ہی نہ ہوئی
ہزار بار نگہ کی مگر کبھی نہ ہوئی
تری خوشی سے اگر غم میں بھی خوشی نہ ہوئی
وہ زندگی تو محبت کی زندگی نہ ہوئی
کہاں وہ شوخ ملاقات خود سے بھی نہ ہوئی
بس ایک بار ہوئی اور پھر کبھی نہ ہوئی
وہ ہم ہیں اہل محبت کہ جان سے دل سے
بہت بخار اٹھے آنکھ شبنمی نہ ہوئی
ٹھہر ٹھہر دل بے تاب پیار تو کر لوں
اب اس کے بعد ملاقات پھر ہوئی نہ ہوئی
مرے خیال سے بھی آہ مجھ کو بعد رہا
ہزار طرح سے چاہا برابری نہ ہوئی
ہم اپنی رندی و طاعت پہ خاک ناز کریں
قبول حضرت سلطاں ہوئی ہوئی نہ ہوئی
کوئی بڑھے نہ بڑھے ہم تو جان دیتے ہیں
پھر ایسی چشم توجہ ہوئی ہوئی نہ ہوئی
تمام حرف و حکایت تمام دیدہ و دل
اس اہتمام پہ بھی شرح عاشقی نہ ہوئی
فسردہ خاطرئ عشق اے معاذ اللہ
خیال یار سے بھی کچھ شگفتگی نہ ہوئی
تری نگاہ کرم کو بھی آزما دیکھا
اذیتوں میں نہ ہونی تھی کچھ کمی نہ ہوئی
کسی کی مست نگاہی نے ہاتھ تھام لیا
شریک حال جہاں میری بے خودی نہ ہوئی
صبا یہ ان سے ہمارا پیام کہہ دینا
گئے ہو جب سے یہاں صبح و شام ہی نہ ہوئی
وہ کچھ سہی نہ سہی پھر بھی زاہد ناداں
بڑے بڑوں سے محبت میں کافری نہ ہوئی
ادھر سے بھی ہے سوا کچھ ادھر کی مجبوری
کہ ہم نے آہ تو کی ان سے آہ بھی نہ ہوئی
خیال یار سلامت تجھے خدا رکھے
ترے بغیر کبھی گھر میں روشنی نہ ہوئی
گئے تھے ہم بھی جگرؔ جلوہ گاہ جاناں میں
وہ پوچھتے ہی رہے ہم سے بات بھی نہ ہوئی |
agar-na-zohra-jabiinon-ke-darmiyaan-guzre-jigar-moradabadi-ghazals |
اگر نہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گزرے
تو پھر یہ کیسے کٹے زندگی کہاں گزرے
جو تیرے عارض و گیسو کے درمیاں گزرے
کبھی کبھی وہی لمحے بلائے جاں گزرے
مجھے یہ وہم رہا مدتوں کہ جرأت شوق
کہیں نہ خاطر معصوم پر گراں گزرے
ہر اک مقام محبت بہت ہی دل کش تھا
مگر ہم اہل محبت کشاں کشاں گزرے
جنوں کے سخت مراحل بھی تیری یاد کے ساتھ
حسیں حسیں نظر آئے جواں جواں گزرے
مری نظر سے تری جستجو کے صدقے میں
یہ اک جہاں ہی نہیں سینکڑوں جہاں گزرے
ہجوم جلوہ میں پرواز شوق کیا کہنا
کہ جیسے روح ستاروں کے درمیاں گزرے
خطا معاف زمانے سے بد گماں ہو کر
تری وفا پہ بھی کیا کیا ہمیں گماں گزرے
مجھے تھا شکوۂ ہجراں کہ یہ ہوا محسوس
مرے قریب سے ہو کر وہ نا گہاں گزرے
رہ وفا میں اک ایسا مقام بھی آیا
کہ ہم خود اپنی طرف سے بھی بد گماں گزرے
خلوص جس میں ہو شامل وہ دور عشق و ہوس
نہ رائیگاں کبھی گزرا نہ رائیگاں گزرے
اسی کو کہتے ہیں جنت اسی کو دوزخ بھی
وہ زندگی جو حسینوں کے درمیاں گزرے
بہت حسین مناظر بھی حسن فطرت کے
نہ جانے آج طبیعت پہ کیوں گراں گزرے
وہ جن کے سائے سے بھی بجلیاں لرزتی تھیں
مری نظر سے کچھ ایسے بھی آشیاں گزرے
مرا تو فرض چمن بندی جہاں ہے فقط
مری بلا سے بہار آئے یا خزاں گزرے
کہاں کا حسن کہ خود عشق کو خبر نہ ہوئی
رہ طلب میں کچھ ایسے بھی امتحاں گزرے
بھری بہار میں تاراجی چمن مت پوچھ
خدا کرے نہ پھر آنکھوں سے وہ سماں گزرے
کوئی نہ دیکھ سکا جن کو وہ دلوں کے سوا
معاملات کچھ ایسے بھی درمیاں گزرے
کبھی کبھی تو اسی ایک مشت خاک کے گرد
طواف کرتے ہوئے ہفت آسماں گزرے
بہت حسین سہی صحبتیں گلوں کی مگر
وہ زندگی ہے جو کانٹوں کے درمیاں گزرے
ابھی سے تجھ کو بہت ناگوار ہیں ہمدم
وہ حادثات جو اب تک رواں دواں گزرے
جنہیں کہ دیدۂ شاعر ہی دیکھ سکتا ہے
وہ انقلاب ترے سامنے کہاں گزرے
بہت عزیز ہے مجھ کو انہیں کیا یاد جگرؔ
وہ حادثات محبت جو نا گہاں گزرے |
do-chaar-gaam-raah-ko-hamvaar-dekhnaa-nida-fazli-ghazals |
دو چار گام راہ کو ہموار دیکھنا
پھر ہر قدم پہ اک نئی دیوار دیکھنا
آنکھوں کی روشنی سے ہے ہر سنگ آئینہ
ہر آئنہ میں خود کو گنہ گار دیکھنا
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
میداں کی ہار جیت تو قسمت کی بات ہے
ٹوٹی ہے کس کے ہاتھ میں تلوار دیکھنا
دریا کے اس کنارے ستارے بھی پھول بھی
دریا چڑھا ہوا ہو تو اس پار دیکھنا
اچھی نہیں ہے شہر کے رستوں سے دوستی
آنگن میں پھیل جائے نہ بازار دیکھنا |
be-naam-saa-ye-dard-thahar-kyuun-nahiin-jaataa-nida-fazli-ghazals |
بے نام سا یہ درد ٹھہر کیوں نہیں جاتا
جو بیت گیا ہے وہ گزر کیوں نہیں جاتا
سب کچھ تو ہے کیا ڈھونڈھتی رہتی ہیں نگاہیں
کیا بات ہے میں وقت پے گھر کیوں نہیں جاتا
وہ ایک ہی چہرہ تو نہیں سارے جہاں میں
جو دور ہے وہ دل سے اتر کیوں نہیں جاتا
میں اپنی ہی الجھی ہوئی راہوں کا تماشہ
جاتے ہیں جدھر سب میں ادھر کیوں نہیں جاتا
وہ خواب جو برسوں سے نہ چہرہ نہ بدن ہے
وہ خواب ہواؤں میں بکھر کیوں نہیں جاتا |
garaj-baras-pyaasii-dhartii-phir-paanii-de-maulaa-nida-fazli-ghazals |
گرج برس پیاسی دھرتی پر پھر پانی دے مولا
چڑیوں کو دانے بچوں کو گڑ دھانی دے مولا
دو اور دو کا جوڑ ہمیشہ چار کہاں ہوتا ہے
سوچ سمجھ والوں کو تھوڑی نادانی دے مولا
پھر روشن کر زہر کا پیالہ چمکا نئی صلیبیں
جھوٹوں کی دنیا میں سچ کو تابانی دے مولا
پھر مورت سے باہر آ کر چاروں اور بکھر جا
پھر مندر کو کوئی میراؔ دیوانی دے مولا
تیرے ہوتے کوئی کس کی جان کا دشمن کیوں ہو
جینے والوں کو مرنے کی آسانی دے مولا |
mutthii-bhar-logon-ke-haathon-men-laakhon-kii-taqdiiren-hain-nida-fazli-ghazals |
مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھوں میں لاکھوں کی تقدیریں ہیں
جدا جدا ہیں دھرم علاقے ایک سی لیکن زنجیریں ہیں
آج اور کل کی بات نہیں ہے صدیوں کی تاریخ یہی ہے
ہر آنگن میں خواب ہیں لیکن چند گھروں میں تعبیریں ہیں
جب بھی کوئی تخت سجا ہے میرا تیرا خون بہا ہے
درباروں کی شان و شوکت میدانوں کی شمشیریں ہیں
ہر جنگل کی ایک کہانی وہ ہی بھینٹ وہی قربانی
گونگی بہری ساری بھیڑیں چرواہوں کی جاگیریں ہیں |
kabhii-kabhii-yuun-bhii-ham-ne-apne-jii-ko-bahlaayaa-hai-nida-fazli-ghazals |
کبھی کبھی یوں بھی ہم نے اپنے جی کو بہلایا ہے
جن باتوں کو خود نہیں سمجھے اوروں کو سمجھایا ہے
ہم سے پوچھو عزت والوں کی عزت کا حال کبھی
ہم نے بھی اک شہر میں رہ کر تھوڑا نام کمایا ہے
اس کو بھولے برسوں گزرے لیکن آج نہ جانے کیوں
آنگن میں ہنستے بچوں کو بے کارن دھمکایا ہے
اس بستی سے چھٹ کر یوں تو ہر چہرہ کو یاد کیا
جس سے تھوڑی سی ان بن تھی وہ اکثر یاد آیا ہے
کوئی ملا تو ہاتھ ملایا کہیں گئے تو باتیں کیں
گھر سے باہر جب بھی نکلے دن بھر بوجھ اٹھایا ہے |
achchhii-nahiin-ye-khaamushii-shikva-karo-gila-karo-nida-fazli-ghazals |
اچھی نہیں یہ خامشی شکوہ کرو گلہ کرو
یوں بھی نہ کر سکو تو پھر گھر میں خدا خدا کرو
شہرت بھی اس کے ساتھ ہے دولت بھی اس کے ہاتھ ہے
خود سے بھی وہ ملے کبھی اس کے لیے دعا کرو
دیکھو یہ شہر ہے عجب دل بھی نہیں ہے کم غضب
شام کو گھر جو آؤں میں تھوڑا سا سج لیا کرو
دل میں جسے بساؤ تم چاند اسے بناؤ تم
وہ جو کہے پڑھا کرو جو نہ کہے سنا کرو
میری نشست پہ بھی کل آئے گا کوئی دوسرا
تم بھی بنا کے راستہ میرے لیے جگہ کرو |
yaqiin-chaand-pe-suuraj-men-e-tibaar-bhii-rakh-nida-fazli-ghazals |
یقین چاند پہ سورج میں اعتبار بھی رکھ
مگر نگاہ میں تھوڑا سا انتظار بھی رکھ
خدا کے ہاتھ میں مت سونپ سارے کاموں کو
بدلتے وقت پہ کچھ اپنا اختیار بھی رکھ
یہ ہی لہو ہے شہادت یہ ہی لہو پانی
خزاں نصیب سہی ذہن میں بہار بھی رکھ
گھروں کے طاقوں میں گلدستے یوں نہیں سجتے
جہاں ہیں پھول وہیں آس پاس خار بھی رکھ
پہاڑ گونجیں ندی گائے یہ ضروری ہے
سفر کہیں کا ہو دل میں کسی کا پیار بھی رکھ |
jise-dekhte-hii-khumaarii-lage-nida-fazli-ghazals |
جسے دیکھتے ہی خماری لگے
اسے عمر ساری ہماری لگے
اجالا سا ہے اس کے چاروں طرف
وہ نازک بدن پاؤں بھاری لگے
وہ سسرال سے آئی ہے مائکے
اسے جتنا دیکھو وہ پیاری لگے
حسین صورتیں اور بھی ہیں مگر
وہ سب سیکڑوں میں ہزاری لگے
چلو اس طرح سے سجائیں اسے
یہ دنیا ہماری تمہاری لگے
اسے دیکھنا شعر گوئی کا فن
اسے سوچنا دین داری لگے |
dekhaa-huaa-saa-kuchh-hai-to-sochaa-huaa-saa-kuchh-nida-fazli-ghazals |
دیکھا ہوا سا کچھ ہے تو سوچا ہوا سا کچھ
ہر وقت میرے ساتھ ہے الجھا ہوا سا کچھ
ہوتا ہے یوں بھی راستہ کھلتا نہیں کہیں
جنگل سا پھیل جاتا ہے کھویا ہوا سا کچھ
ساحل کی گیلی ریت پر بچوں کے کھیل سا
ہر لمحہ مجھ میں بنتا بکھرتا ہوا سا کچھ
فرصت نے آج گھر کو سجایا کچھ اس طرح
ہر شے سے مسکراتا ہے روتا ہوا سا کچھ
دھندلی سی ایک یاد کسی قبر کا دیا
اور میرے آس پاس چمکتا ہوا سا کچھ |
nazdiikiyon-men-duur-kaa-manzar-talaash-kar-nida-fazli-ghazals |
نزدیکیوں میں دور کا منظر تلاش کر
جو ہاتھ میں نہیں ہے وہ پتھر تلاش کر
سورج کے ارد گرد بھٹکنے سے فائدہ
دریا ہوا ہے گم تو سمندر تلاش کر
تاریخ میں محل بھی ہے حاکم بھی تخت بھی
گمنام جو ہوئے ہیں وہ لشکر تلاش کر
رہتا نہیں ہے کچھ بھی یہاں ایک سا سدا
دروازہ گھر کا کھول کے پھر گھر تلاش کر
کوشش بھی کر امید بھی رکھ راستہ بھی چن
پھر اس کے بعد تھوڑا مقدر تلاش کر |
koshish-ke-baavajuud-ye-ilzaam-rah-gayaa-nida-fazli-ghazals |
کوشش کے باوجود یہ الزام رہ گیا
ہر کام میں ہمیشہ کوئی کام رہ گیا
چھوٹی تھی عمر اور فسانہ طویل تھا
آغاز ہی لکھا گیا انجام رہ گیا
اٹھ اٹھ کے مسجدوں سے نمازی چلے گئے
دہشت گروں کے ہاتھ میں اسلام رہ گیا
اس کا قصور یہ تھا بہت سوچتا تھا وہ
وہ کامیاب ہو کے بھی ناکام رہ گیا
اب کیا بتائیں کون تھا کیا تھا وہ ایک شخص
گنتی کے چار حرفوں کا جو نام رہ گیا |
jo-ho-ik-baar-vo-har-baar-ho-aisaa-nahiin-hotaa-nida-fazli-ghazals |
جو ہو اک بار وہ ہر بار ہو ایسا نہیں ہوتا
ہمیشہ ایک ہی سے پیار ہو ایسا نہیں ہوتا
ہر اک کشتی کا اپنا تجربہ ہوتا ہے دریا میں
سفر میں روز ہی منجدھار ہو ایسا نہیں ہوتا
کہانی میں تو کرداروں کو جو چاہے بنا دیجے
حقیقت بھی کہانی کار ہو ایسا نہیں ہوتا
کہیں تو کوئی ہوگا جس کو اپنی بھی ضرورت ہو
ہر اک بازی میں دل کی ہار ہو ایسا نہیں ہوتا
سکھا دیتی ہیں چلنا ٹھوکریں بھی راہگیروں کو
کوئی رستہ سدا دشوار ہو ایسا نہیں ہوتا |
kuchh-bhii-bachaa-na-kahne-ko-har-baat-ho-gaii-nida-fazli-ghazals |
کچھ بھی بچا نہ کہنے کو ہر بات ہو گئی
آؤ کہیں شراب پئیں رات ہو گئی
پھر یوں ہوا کہ وقت کا پانسہ پلٹ گیا
امید جیت کی تھی مگر مات ہو گئی
سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا
کھڑکی کے پردے کھینچ دیے رات ہو گئی
وہ آدمی تھا کتنا بھلا کتنا پرخلوص
اس سے بھی آج لیجے ملاقات ہو گئی
رستے میں وہ ملا تھا میں بچ کر گزر گیا
اس کی پھٹی قمیص مرے ساتھ ہو گئی
نقشہ اٹھا کے کوئی نیا شہر ڈھونڈیئے
اس شہر میں تو سب سے ملاقات ہو گئی |
apnii-marzii-se-kahaan-apne-safar-ke-ham-hain-nida-fazli-ghazals |
اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں
رخ ہواؤں کا جدھر کا ہے ادھر کے ہم ہیں
پہلے ہر چیز تھی اپنی مگر اب لگتا ہے
اپنے ہی گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں
وقت کے ساتھ ہے مٹی کا سفر صدیوں سے
کس کو معلوم کہاں کے ہیں کدھر کے ہم ہیں
چلتے رہتے ہیں کہ چلنا ہے مسافر کا نصیب
سوچتے رہتے ہیں کس راہ گزر کے ہم ہیں
ہم وہاں ہیں جہاں کچھ بھی نہیں رستہ نہ دیار
اپنے ہی کھوئے ہوئے شام و سحر کے ہم ہیں
گنتیوں میں ہی گنے جاتے ہیں ہر دور میں ہم
ہر قلم کار کی بے نام خبر کے ہم ہیں |
hosh-vaalon-ko-khabar-kyaa-be-khudii-kyaa-chiiz-hai-nida-fazli-ghazals |
ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے
ان سے نظریں کیا ملیں روشن فضائیں ہو گئیں
آج جانا پیار کی جادوگری کیا چیز ہے
بکھری زلفوں نے سکھائی موسموں کو شاعری
جھکتی آنکھوں نے بتایا مے کشی کیا چیز ہے
ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی
اور وہ سمجھے نہیں یہ خاموشی کیا چیز ہے |
aaj-zaraa-fursat-paaii-thii-aaj-use-phir-yaad-kiyaa-nida-fazli-ghazals-3 |
آج ذرا فرصت پائی تھی آج اسے پھر یاد کیا
بند گلی کے آخری گھر کو کھول کے پھر آباد کیا
کھول کے کھڑکی چاند ہنسا پھر چاند نے دونوں ہاتھوں سے
رنگ اڑائے پھول کھلائے چڑیوں کو آزاد کیا
بڑے بڑے غم کھڑے ہوئے تھے رستہ روکے راہوں میں
چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے ہی ہم نے دل کو شاد کیا
بات بہت معمولی سی تھی الجھ گئی تکراروں میں
ایک ذرا سی ضد نے آخر دونوں کو برباد کیا
داناؤں کی بات نہ مانی کام آئی نادانی ہی
سنا ہوا کو پڑھا ندی کو موسم کو استاد کیا |
raat-ke-baad-nae-din-kii-sahar-aaegii-nida-fazli-ghazals |
رات کے بعد نئے دن کی سحر آئے گی
دن نہیں بدلے گا تاریخ بدل جائے گی
ہنستے ہنستے کبھی تھک جاؤ تو چھپ کے رو لو
یہ ہنسی بھیگ کے کچھ اور چمک جائے گی
جگمگاتی ہوئی سڑکوں پہ اکیلے نہ پھرو
شام آئے گی کسی موڑ پہ ڈس جائے گی
اور کچھ دیر یوں ہی جنگ سیاست مذہب
اور تھک جاؤ ابھی نیند کہاں آئے گی
میری غربت کو شرافت کا ابھی نام نہ دے
وقت بدلا تو تری رائے بدل جائے گی
وقت ندیوں کو اچھالے کہ اڑائے پربت
عمر کا کام گزرنا ہے گزر جائے گی |
main-apne-ikhtiyaar-men-huun-bhii-nahiin-bhii-huun-nida-fazli-ghazals |
میں اپنے اختیار میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں
دنیا کے کاروبار میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں
تیری ہی جستجو میں لگا ہے کبھی کبھی
میں تیرے انتظار میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں
فہرست مرنے والوں کی قاتل کے پاس ہے
میں اپنے ہی مزار میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں
اوروں کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ نہیں
اک میں ہی اس دیار میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں
مجھ سے ہی ہے ہر ایک سیاست کا اعتبار
پھر بھی کسی شمار میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں |
Subsets and Splits