title
stringlengths 22
123
| content
stringlengths 70
2.22k
⌀ |
---|---|
ab-khushii-hai-na-koii-dard-rulaane-vaalaa-nida-fazli-ghazals |
اب خوشی ہے نہ کوئی درد رلانے والا
ہم نے اپنا لیا ہر رنگ زمانے والا
ایک بے چہرہ سی امید ہے چہرہ چہرہ
جس طرف دیکھیے آنے کو ہے آنے والا
اس کو رخصت تو کیا تھا مجھے معلوم نہ تھا
سارا گھر لے گیا گھر چھوڑ کے جانے والا
دور کے چاند کو ڈھونڈو نہ کسی آنچل میں
یہ اجالا نہیں آنگن میں سمانے والا
اک مسافر کے سفر جیسی ہے سب کی دنیا
کوئی جلدی میں کوئی دیر سے جانے والا |
insaan-hain-haivaan-yahaan-bhii-hai-vahaan-bhii-nida-fazli-ghazals |
انسان میں حیوان یہاں بھی ہے وہاں بھی
اللہ نگہبان یہاں بھی ہے وہاں بھی
خوں خوار درندوں کے فقط نام الگ ہیں
ہر شہر بیابان یہاں بھی ہے وہاں بھی
ہندو بھی سکوں سے ہے مسلماں بھی سکوں سے
انسان پریشان یہاں بھی ہے وہاں بھی
رحمان کی رحمت ہو کہ بھگوان کی مورت
ہر کھیل کا میدان یہاں بھی ہے وہاں بھی
اٹھتا ہے دل و جاں سے دھواں دونوں طرف ہی
یہ میرؔ کا دیوان یہاں بھی ہے وہاں بھی |
us-ke-dushman-hain-bahut-aadmii-achchhaa-hogaa-nida-fazli-ghazals |
اس کے دشمن ہیں بہت آدمی اچھا ہوگا
وہ بھی میری ہی طرح شہر میں تنہا ہوگا
اتنا سچ بول کہ ہونٹوں کا تبسم نہ بجھے
روشنی ختم نہ کر آگے اندھیرا ہوگا
پیاس جس نہر سے ٹکرائی وہ بنجر نکلی
جس کو پیچھے کہیں چھوڑ آئے وہ دریا ہوگا
مرے بارے میں کوئی رائے تو ہوگی اس کی
اس نے مجھ کو بھی کبھی توڑ کے دیکھا ہوگا
ایک محفل میں کئی محفلیں ہوتی ہیں شریک
جس کو بھی پاس سے دیکھو گے اکیلا ہوگا |
har-ek-baat-ko-chup-chaap-kyuun-sunaa-jaae-nida-fazli-ghazals |
ہر ایک بات کو چپ چاپ کیوں سنا جائے
کبھی تو حوصلہ کر کے نہیں کہا جائے
تمہارا گھر بھی اسی شہر کے حصار میں ہے
لگی ہے آگ کہاں کیوں پتہ کیا جائے
جدا ہے ہیر سے رانجھا کئی زمانوں سے
نئے سرے سے کہانی کو پھر لکھا جائے
کہا گیا ہے ستاروں کو چھونا مشکل ہے
یہ کتنا سچ ہے کبھی تجربہ کیا جائے
کتابیں یوں تو بہت سی ہیں میرے بارے میں
کبھی اکیلے میں خود کو بھی پڑھ لیا جائے |
tanhaa-tanhaa-dukh-jhelenge-mahfil-mahfil-gaaenge-nida-fazli-ghazals |
تنہا تنہا دکھ جھیلیں گے محفل محفل گائیں گے
جب تک آنسو پاس رہیں گے تب تک گیت سنائیں گے
تم جو سوچو وہ تم جانو ہم تو اپنی کہتے ہیں
دیر نہ کرنا گھر آنے میں ورنہ گھر کھو جائیں گے
بچوں کے چھوٹے ہاتھوں کو چاند ستارے چھونے دو
چار کتابیں پڑھ کر یہ بھی ہم جیسے ہو جائیں گے
اچھی صورت والے سارے پتھر دل ہوں ممکن ہے
ہم تو اس دن رائے دیں گے جس دن دھوکا کھائیں گے
کن راہوں سے سفر ہے آساں کون سا رستہ مشکل ہے
ہم بھی جب تھک کر بیٹھیں گے اوروں کو سمجھائیں گے |
mohabbat-men-vafaadaarii-se-bachiye-nida-fazli-ghazals |
محبت میں وفاداری سے بچئے
جہاں تک ہو اداکاری سے بچئے
ہر اک صورت بھلی لگتی ہے کچھ دن
لہو کی شعبدہ کاری سے بچئے
شرافت آدمیت درد مندی
بڑے شہروں میں بیماری سے بچئے
ضروری کیا ہر اک محفل میں بیٹھیں
تکلف کی روا داری سے بچئے
بنا پیروں کے سر چلتے نہیں ہیں
بزرگوں کی سمجھ داری سے بچئے |
har-ek-ghar-men-diyaa-bhii-jale-anaaj-bhii-ho-nida-fazli-ghazals |
ہر ایک گھر میں دیا بھی جلے اناج بھی ہو
اگر نہ ہو کہیں ایسا تو احتجاج بھی ہو
رہے گی وعدوں میں کب تک اسیر خوشحالی
ہر ایک بار ہی کل کیوں کبھی تو آج بھی ہو
نہ کرتے شور شرابہ تو اور کیا کرتے
تمہارے شہر میں کچھ اور کام کاج بھی ہو
حکومتوں کو بدلنا تو کچھ محال نہیں
حکومتیں جو بدلتا ہے وہ سماج بھی ہو
بدل رہے ہیں کئی آدمی درندوں میں
مرض پرانا ہے اس کا نیا علاج بھی ہو
اکیلے غم سے نئی شاعری نہیں ہوتی
زبان میرؔ میں غالبؔ کا امتزاج بھی ہو |
man-bai-raagii-tan-anuuraagii-qadam-qadam-dushvaarii-hai-nida-fazli-ghazals |
من بیراگی تن انوراگی قدم قدم دشواری ہے
جیون جینا سہل نہ جانو بہت بڑی فن کاری ہے
اوروں جیسے ہو کر بھی ہم با عزت ہیں بستی میں
کچھ لوگوں کا سیدھا پن ہے کچھ اپنی عیاری ہے
جب جب موسم جھوما ہم نے کپڑے پھاڑے شور کیا
ہر موسم شائستہ رہنا کوری دنیا داری ہے
عیب نہیں ہے اس میں کوئی لال پری نہ پھول کلی
یہ مت پوچھو وہ اچھا ہے یا اچھی ناداری ہے
جو چہرہ دیکھا وہ توڑا نگر نگر ویران کیے
پہلے اوروں سے نا خوش تھے اب خود سے بے زاری ہے |
har-taraf-har-jagah-be-shumaar-aadmii-nida-fazli-ghazals |
ہر طرف ہر جگہ بے شمار آدمی
پھر بھی تنہائیوں کا شکار آدمی
صبح سے شام تک بوجھ ڈھوتا ہوا
اپنی ہی لاش کا خود مزار آدمی
ہر طرف بھاگتے دوڑتے راستے
ہر طرف آدمی کا شکار آدمی
روز جیتا ہوا روز مرتا ہوا
ہر نئے دن نیا انتظار آدمی
گھر کی دہلیز سے گیہوں کے کھیت تک
چلتا پھرتا کوئی کاروبار آدمی
زندگی کا مقدر سفر در سفر
آخری سانس تک بے قرار آدمی |
munh-kii-baat-sune-har-koii-dil-ke-dard-ko-jaane-kaun-nida-fazli-ghazals |
منہ کی بات سنے ہر کوئی دل کے درد کو جانے کون
آوازوں کے بازاروں میں خاموشی پہچانے کون
صدیوں صدیوں وہی تماشہ رستہ رستہ لمبی کھوج
لیکن جب ہم مل جاتے ہیں کھو جاتا ہے جانے کون
وہ میری پرچھائیں ہے یا میں اس کا آئینہ ہوں
میرے ہی گھر میں رہتا ہے مجھ جیسا ہی جانے کون
جانے کیا کیا بول رہا تھا سرحد پیار کتابیں خون
کل میری نیندوں میں چھپ کر جاگ رہا تھا جانے کون
کرن کرن الساتا سورج پلک پلک کھلتی نیندیں
دھیمے دھیمے بکھر رہا ہے ذرہ ذرہ جانے کون |
har-ghadii-khud-se-ulajhnaa-hai-muqaddar-meraa-nida-fazli-ghazals |
ہر گھڑی خود سے الجھنا ہے مقدر میرا
میں ہی کشتی ہوں مجھی میں ہے سمندر میرا
کس سے پوچھوں کہ کہاں گم ہوں کئی برسوں سے
ہر جگہ ڈھونڈھتا پھرتا ہے مجھے گھر میرا
ایک سے ہو گئے موسموں کے چہرے سارے
میری آنکھوں سے کہیں کھو گیا منظر میرا
مدتیں بیت گئیں خواب سہانا دیکھے
جاگتا رہتا ہے ہر نیند میں بستر میرا
آئنہ دیکھ کے نکلا تھا میں گھر سے باہر
آج تک ہاتھ میں محفوظ ہے پتھر میرا |
dhuup-men-niklo-ghataaon-men-nahaa-kar-dekho-nida-fazli-ghazals |
دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو
زندگی کیا ہے کتابوں کو ہٹا کر دیکھو
صرف آنکھوں سے ہی دنیا نہیں دیکھی جاتی
دل کی دھڑکن کو بھی بینائی بنا کر دیکھو
پتھروں میں بھی زباں ہوتی ہے دل ہوتے ہیں
اپنے گھر کے در و دیوار سجا کر دیکھو
وہ ستارہ ہے چمکنے دو یوں ہی آنکھوں میں
کیا ضروری ہے اسے جسم بنا کر دیکھو
فاصلہ نظروں کا دھوکہ بھی تو ہو سکتا ہے
وہ ملے یا نہ ملے ہاتھ بڑھا کر دیکھو |
besan-kii-saundhii-rotii-par-khattii-chatnii-jaisii-maan-nida-fazli-ghazals |
بیسن کی سوندھی روٹی پر کھٹی چٹنی جیسی ماں
یاد آتی ہے! چوکا باسن چمٹا پھکنی جیسی ماں
بانس کی کھری کھاٹ کے اوپر ہر آہٹ پر کان دھرے
آدھی سوئی آدھی جاگی تھکی دوپہری جیسی ماں
چڑیوں کی چہکار میں گونجے رادھا موہن علی علی
مرغے کی آواز سے بجتی گھر کی کنڈی جیسی ماں
بیوی بیٹی بہن پڑوسن تھوڑی تھوڑی سی سب میں
دن بھر اک رسی کے اوپر چلتی نٹنی جیسی ماں
بانٹ کے اپنا چہرہ ماتھا آنکھیں جانے کہاں گئی
پھٹے پرانے اک البم میں چنچل لڑکی جیسی ماں |
duniyaa-jise-kahte-hain-jaaduu-kaa-khilaunaa-hai-nida-fazli-ghazals |
دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے
مل جائے تو مٹی ہے کھو جائے تو سونا ہے
اچھا سا کوئی موسم تنہا سا کوئی عالم
ہر وقت کا رونا تو بے کار کا رونا ہے
برسات کا بادل تو دیوانہ ہے کیا جانے
کس راہ سے بچنا ہے کس چھت کو بھگونا ہے
یہ وقت جو تیرا ہے یہ وقت جو میرا ہے
ہر گام پہ پہرا ہے پھر بھی اسے کھونا ہے
غم ہو کہ خوشی دونوں کچھ دور کے ساتھی ہیں
پھر رستہ ہی رستہ ہے ہنسنا ہے نہ رونا ہے
آوارہ مزاجی نے پھیلا دیا آنگن کو
آکاش کی چادر ہے دھرتی کا بچھونا ہے |
us-ko-kho-dene-kaa-ehsaas-to-kam-baaqii-hai-nida-fazli-ghazals |
اس کو کھو دینے کا احساس تو کم باقی ہے
جو ہوا وہ نہ ہوا ہوتا یہ غم باقی ہے
اب نہ وہ چھت ہے نہ وہ زینہ نہ انگور کی بیل
صرف اک اس کو بھلانے کی قسم باقی ہے
میں نے پوچھا تھا سبب پیڑ کے گر جانے کا
اٹھ کے مالی نے کہا اس کی قلم باقی ہے
جنگ کے فیصلے میداں میں کہاں ہوتے ہیں
جب تلک حافظے باقی ہیں علم باقی ہے
تھک کے گرتا ہے ہرن صرف شکاری کے لیے
جسم گھائل ہے مگر آنکھوں میں رم باقی ہے |
jab-se-qariib-ho-ke-chale-zindagii-se-ham-nida-fazli-ghazals |
جب سے قریب ہو کے چلے زندگی سے ہم
خود اپنے آئنے کو لگے اجنبی سے ہم
کچھ دور چل کے راستے سب ایک سے لگے
ملنے گئے کسی سے مل آئے کسی سے ہم
اچھے برے کے فرق نے بستی اجاڑ دی
مجبور ہو کے ملنے لگے ہر کسی سے ہم
شائستہ محفلوں کی فضاؤں میں زہر تھا
زندہ بچے ہیں ذہن کی آوارگی سے ہم
اچھی بھلی تھی دنیا گزارے کے واسطے
الجھے ہوئے ہیں اپنی ہی خود آگہی سے ہم
جنگل میں دور تک کوئی دشمن نہ کوئی دوست
مانوس ہو چلے ہیں مگر بمبئی سے ہم |
kabhii-kisii-ko-mukammal-jahaan-nahiin-miltaa-nida-fazli-ghazals |
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا
تمام شہر میں ایسا نہیں خلوص نہ ہو
جہاں امید ہو اس کی وہاں نہیں ملتا
کہاں چراغ جلائیں کہاں گلاب رکھیں
چھتیں تو ملتی ہیں لیکن مکاں نہیں ملتا
یہ کیا عذاب ہے سب اپنے آپ میں گم ہیں
زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا
چراغ جلتے ہی بینائی بجھنے لگتی ہے
خود اپنے گھر میں ہی گھر کا نشاں نہیں ملتا |
ghar-se-nikle-to-ho-sochaa-bhii-kidhar-jaaoge-nida-fazli-ghazals |
گھر سے نکلے تو ہو سوچا بھی کدھر جاؤ گے
ہر طرف تیز ہوائیں ہیں بکھر جاؤ گے
اتنا آساں نہیں لفظوں پہ بھروسا کرنا
گھر کی دہلیز پکارے گی جدھر جاؤ گے
شام ہوتے ہی سمٹ جائیں گے سارے رستے
بہتے دریا سے جہاں ہو گے ٹھہر جاؤ گے
ہر نئے شہر میں کچھ راتیں کڑی ہوتی ہیں
چھت سے دیواریں جدا ہوں گی تو ڈر جاؤ گے
پہلے ہر چیز نظر آئے گی بے معنی سی
اور پھر اپنی ہی نظروں سے اتر جاؤ گے |
kath-putlii-hai-yaa-jiivan-hai-jiite-jaao-socho-mat-nida-fazli-ghazals |
کٹھ پتلی ہے یا جیون ہے جیتے جاؤ سوچو مت
سوچ سے ہی ساری الجھن ہے جیتے جاؤ سوچو مت
لکھا ہوا کردار کہانی میں ہی چلتا پھرتا ہے
کبھی ہے دوری کبھی ملن ہے جیتے جاؤ سوچو مت
ناچ سکو تو ناچو جب تھک جاؤ تو آرام کرو
ٹیڑھا کیوں گھر کا آنگن ہے جیتے جاؤ سوچو مت
ہر مذہب کا ایک ہی کہنا جیسا مالک رکھے رہنا
جب تک سانسوں کا بندھن ہے جیتے جاؤ سوچو مت
گھوم رہے ہیں بازاروں میں سرمایوں کے آتش دان
کس بھٹی میں کون ایندھن ہے جیتے جاؤ سوچو مت |
safar-men-dhuup-to-hogii-jo-chal-sako-to-chalo-nida-fazli-ghazals |
سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو
سبھی ہیں بھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو
کسی کے واسطے راہیں کہاں بدلتی ہیں
تم اپنے آپ کو خود ہی بدل سکو تو چلو
یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا
مجھے گرا کے اگر تم سنبھل سکو تو چلو
کہیں نہیں کوئی سورج دھواں دھواں ہے فضا
خود اپنے آپ سے باہر نکل سکو تو چلو
یہی ہے زندگی کچھ خواب چند امیدیں
انہیں کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو |
kuchh-tabiiat-hii-milii-thii-aisii-chain-se-jiine-kii-suurat-na-huii-nida-fazli-ghazals |
کچھ طبیعت ہی ملی تھی ایسی چین سے جینے کی صورت نہ ہوئی
جس کو چاہا اسے اپنا نہ سکے جو ملا اس سے محبت نہ ہوئی
جس سے جب تک ملے دل ہی سے ملے دل جو بدلا تو فسانہ بدلا
رسم دنیا کو نبھانے کے لیے ہم سے رشتوں کی تجارت نہ ہوئی
دور سے تھا وہ کئی چہروں میں پاس سے کوئی بھی ویسا نہ لگا
بے وفائی بھی اسی کا تھا چلن پھر کسی سے یہ شکایت نہ ہوئی
چھوڑ کر گھر کو کہیں جانے سے گھر میں رہنے کی عبادت تھی بڑی
جھوٹ مشہور ہوا راجا کا سچ کی سنسار میں شہرت نہ ہوئی
وقت روٹھا رہا بچے کی طرح راہ میں کوئی کھلونا نہ ملا
دوستی کی تو نبھائی نہ گئی دشمنی میں بھی عداوت نہ ہوئی |
girjaa-men-mandiron-men-azaanon-men-bat-gayaa-nida-fazli-ghazals |
گرجا میں مندروں میں اذانوں میں بٹ گیا
ہوتے ہی صبح آدمی خانوں میں بٹ گیا
اک عشق نام کا جو پرندہ خلا میں تھا
اترا جو شہر میں تو دکانوں میں بٹ گیا
پہلے تلاشا کھیت پھر دریا کی کھوج کی
باقی کا وقت گیہوں کے دانوں میں بٹ گیا
جب تک تھا آسمان میں سورج سبھی کا تھا
پھر یوں ہوا وہ چند مکانوں میں بٹ گیا
ہیں تاک میں شکاری نشانہ ہیں بستیاں
عالم تمام چند مچانوں میں بٹ گیا
خبروں نے کی مصوری خبریں غزل بنیں
زندہ لہو تو تیر کمانوں میں بٹ گیا |
dil-men-na-ho-jurat-to-mohabbat-nahiin-miltii-nida-fazli-ghazals |
دل میں نہ ہو جرأت تو محبت نہیں ملتی
خیرات میں اتنی بڑی دولت نہیں ملتی
کچھ لوگ یوں ہی شہر میں ہم سے بھی خفا ہیں
ہر ایک سے اپنی بھی طبیعت نہیں ملتی
دیکھا ہے جسے میں نے کوئی اور تھا شاید
وہ کون تھا جس سے تری صورت نہیں ملتی
ہنستے ہوئے چہروں سے ہے بازار کی زینت
رونے کی یہاں ویسے بھی فرصت نہیں ملتی
نکلا کرو یہ شمع لیے گھر سے بھی باہر
کمرے میں سجانے کو مصیبت نہیں ملتی |
aanii-jaanii-har-mohabbat-hai-chalo-yuun-hii-sahii-nida-fazli-ghazals |
آنی جانی ہر محبت ہے چلو یوں ہی سہی
جب تلک ہے خوبصورت ہے چلو یوں ہی سہی
ہم کہاں کے دیوتا ہیں بے وفا وہ ہیں تو کیا
گھر میں کوئی گھر کی زینت ہے چلو یوں ہی سہی
وہ نہیں تو کوئی تو ہوگا کہیں اس کی طرح
جسم میں جب تک حرارت ہے چلو یوں ہی سہی
میلے ہو جاتے ہیں رشتے بھی لباسوں کی طرح
دوستی ہر دن کی محنت ہے چلو یوں ہی سہی
بھول تھی اپنی فرشتہ آدمی میں ڈھونڈنا
آدمی میں آدمیت ہے چلو یوں ہی سہی
جیسی ہونی چاہئے تھی ویسی تو دنیا نہیں
دنیا داری بھی ضرورت ہے چلو یوں ہی سہی |
na-jaane-kaun-saa-manzar-nazar-men-rahtaa-hai-nida-fazli-ghazals |
نہ جانے کون سا منظر نظر میں رہتا ہے
تمام عمر مسافر سفر میں رہتا ہے
لڑائی دیکھے ہوئے دشمنوں سے ممکن ہے
مگر وہ خوف جو دیوار و در میں رہتا ہے
خدا تو مالک و مختار ہے کہیں بھی رہے
کبھی بشر میں کبھی جانور میں رہتا ہے
عجیب دور ہے یہ طے شدہ نہیں کچھ بھی
نہ چاند شب میں نہ سورج سحر میں رہتا ہے
جو ملنا چاہو تو مجھ سے ملو کہیں باہر
وہ کوئی اور ہے جو میرے گھر میں رہتا ہے
بدلنا چاہو تو دنیا بدل بھی سکتی ہے
عجب فتور سا ہر وقت سر میں رہتا ہے |
koii-hinduu-koii-muslim-koii-iisaaii-hai-nida-fazli-ghazals |
کوئی ہندو کوئی مسلم کوئی عیسائی ہے
سب نے انسان نہ بننے کی قسم کھائی ہے
اتنی خوں خار نہ تھیں پہلے عبادت گاہیں
یہ عقیدے ہیں کہ انسان کی تنہائی ہے
تین چوتھائی سے زائد ہیں جو آبادی میں
ان کے ہی واسطے ہر بھوک ہے مہنگائی ہے
دیکھے کب تلک باقی رہے سج دھج اس کی
آج جس چہرہ سے تصویر اتروائی ہے
اب نظر آتا نہیں کچھ بھی دکانوں کے سوا
اب نہ بادل ہیں نہ چڑیاں ہیں نہ پروائی ہے |
apnaa-gam-le-ke-kahiin-aur-na-jaayaa-jaae-nida-fazli-ghazals |
اپنا غم لے کے کہیں اور نہ جایا جائے
گھر میں بکھری ہوئی چیزوں کو سجایا جائے
جن چراغوں کو ہواؤں کا کوئی خوف نہیں
ان چراغوں کو ہواؤں سے بچایا جائے
خود کشی کرنے کی ہمت نہیں ہوتی سب میں
اور کچھ دن ابھی اوروں کو ستایا جائے
باغ میں جانے کے آداب ہوا کرتے ہیں
کسی تتلی کو نہ پھولوں سے اڑایا جائے
کیا ہوا شہر کو کچھ بھی تو دکھائی دے کہیں
یوں کیا جائے کبھی خود کو رلایا جائے
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کر لیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے |
aaegaa-koii-chal-ke-khizaan-se-bahaar-men-nida-fazli-ghazals |
آئے گا کوئی چل کے خزاں سے بہار میں
صدیاں گزر گئی ہیں اسی انتظار میں
چھڑتے ہی ساز بزم میں کوئی نہ تھا کہیں
وہ کون تھا جو بول رہا تھا ستار میں
یہ اور بات ہے کوئی مہکے کوئی چبھے
گلشن تو جتنا گل میں ہے اتنا ہے خار میں
اپنی طرح سے دنیا بدلنے کے واسطے
میرا ہی ایک گھر ہے مرے اختیار میں
تشنہ لبی نے ریت کو دریا بنا دیا
پانی کہاں تھا ورنہ کسی ریگ زار میں
مصروف گورکن کو بھی شاید پتہ نہیں
وہ خود کھڑا ہوا ہے قضا کی قطار میں |
ye-kaisii-kashmakash-hai-zindagii-men-nida-fazli-ghazals |
یہ کیسی کشمکش ہے زندگی میں
کسی کو ڈھونڈتے ہیں ہم کسی میں
جو کھو جاتا ہے مل کر زندگی میں
غزل ہے نام اس کا شاعری میں
نکل آتے ہیں آنسو ہنستے ہنستے
یہ کس غم کی کسک ہے ہر خوشی میں
کہیں چہرہ کہیں آنکھیں کہیں لب
ہمیشہ ایک ملتا ہے کئی میں
چمکتی ہے اندھیروں میں خموشی
ستارے ٹوٹتے ہیں رات ہی میں
سلگتی ریت میں پانی کہاں تھا
کوئی بادل چھپا تھا تشنگی میں
بہت مشکل ہے بنجارہ مجازی
سلیقہ چاہیے آوارگی میں |
ek-hii-dhartii-ham-sab-kaa-ghar-jitnaa-teraa-utnaa-meraa-nida-fazli-ghazals |
ایک ہی دھرتی ہم سب کا گھر جتنا تیرا اتنا میرا
دکھ سکھ کا یہ جنتر منتر جتنا تیرا اتنا میرا
گیہوں چاول بانٹنے والے جھوٹا تولیں تو کیا بولیں
یوں تو سب کچھ اندر باہر جتنا تیرا اتنا میرا
ہر جیون کی وہی وراثت آنسو سپنا چاہت محنت
سانسوں کا ہر بوجھ برابر جتنا تیرا اتنا میرا
سانسیں جتنی موجیں اتنی سب کی اپنی اپنی گنتی
صدیوں کا اتہاس سمندر جتنا تیرا اتنا میرا
خوشیوں کے بٹوارے تک ہی اونچے نیچے آگے پیچھے
دنیا کے مٹ جانے کا ڈر جتنا تیرا اتنا میرا |
din-saliiqe-se-ugaa-raat-thikaane-se-rahii-nida-fazli-ghazals |
دن سلیقے سے اگا رات ٹھکانے سے رہی
دوستی اپنی بھی کچھ روز زمانے سے رہی
چند لمحوں کو ہی بنتی ہیں مصور آنکھیں
زندگی روز تو تصویر بنانے سے رہی
اس اندھیرے میں تو ٹھوکر ہی اجالا دے گی
رات جنگل میں کوئی شمع جلانے سے رہی
فاصلہ چاند بنا دیتا ہے ہر پتھر کو
دور کی روشنی نزدیک تو آنے سے رہی
شہر میں سب کو کہاں ملتی ہے رونے کی جگہ
اپنی عزت بھی یہاں ہنسنے ہنسانے سے رہی |
dariyaa-ho-yaa-pahaad-ho-takraanaa-chaahiye-nida-fazli-ghazals |
دریا ہو یا پہاڑ ہو ٹکرانا چاہئے
جب تک نہ سانس ٹوٹے جیے جانا چاہئے
یوں تو قدم قدم پہ ہے دیوار سامنے
کوئی نہ ہو تو خود سے الجھ جانا چاہئے
جھکتی ہوئی نظر ہو کہ سمٹا ہوا بدن
ہر رس بھری گھٹا کو برس جانا چاہئے
چوراہے باغ بلڈنگیں سب شہر تو نہیں
کچھ ایسے ویسے لوگوں سے یارانا چاہئے
اپنی تلاش اپنی نظر اپنا تجربہ
رستہ ہو چاہے صاف بھٹک جانا چاہئے
چپ چپ مکان راستے گم سم نڈھال وقت
اس شہر کے لیے کوئی دیوانا چاہئے
بجلی کا قمقمہ نہ ہو کالا دھواں تو ہو
یہ بھی اگر نہیں ہو تو بجھ جانا چاہئے |
gar-khaamushii-se-faaeda-ikhfaa-e-haal-hai-mirza-ghalib-ghazals |
گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے
کس کو سناؤں حسرت اظہار کا گلہ
دل فرد جمع و خرچ زباں ہائے لال ہے
کس پردہ میں ہے آئنہ پرداز اے خدا
رحمت کہ عذر خواہ لب بے سوال ہے
ہے ہے خدا نخواستہ وہ اور دشمنی
اے شوق منفعل یہ تجھے کیا خیال ہے
مشکیں لباس کعبہ علی کے قدم سے جان
ناف زمین ہے نہ کہ ناف غزال ہے
وحشت پہ میری عرصۂ آفاق تنگ تھا
دریا زمین کو عرق انفعال ہے
ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسدؔ
عالم تمام حلقۂ دام خیال ہے
پہلو تہی نہ کر غم و اندوہ سے اسدؔ
دل وقف درد کر کہ فقیروں کا مال ہے |
shabnam-ba-gul-e-laala-na-khaalii-z-adaa-hai-mirza-ghalib-ghazals |
شبنم بہ گل لالہ نہ خالی ز ادا ہے
داغ دل بے درد نظر گاہ حیا ہے
دل خوں شدۂ کشمکش حسرت دیدار
آئینہ بہ دست بت بد مست حنا ہے
شعلے سے نہ ہوتی ہوس شعلہ نے جو کی
جی کس قدر افسردگی دل پہ جلا ہے
تمثال میں تیری ہے وہ شوخی کہ بہ صد ذوق
آئینہ بہ انداز گل آغوش کشا ہے
قمری کف خاکستر و بلبل قفس رنگ
اے نالہ نشان جگر سوختہ کیا ہے
خو نے تری افسردہ کیا وحشت دل کو
معشوقی و بے حوصلگی طرفہ بلا ہے
مجبوری و دعواۓ گرفتاری الفت
دست تۂ سنگ آمدہ پیمان وفا ہے
معلوم ہوا حال شہیدان گزشتہ
تیغ ستم آئینۂ تصویر نما ہے
اے پرتو خورشید جہاں تاب ادھر بھی
سائے کی طرح ہم پہ عجب وقت پڑا ہے
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یا رب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے
بیگانگی خلق سے بیدل نہ ہو غالبؔ
کوئی نہیں تیرا تو مری جان خدا ہے |
jis-bazm-men-tuu-naaz-se-guftaar-men-aave-mirza-ghalib-ghazals |
جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
جاں کالبد صورت دیوار میں آوے
سایہ کی طرح ساتھ پھریں سرو و صنوبر
تو اس قد دل کش سے جو گلزار میں آوے
تب ناز گراں مایگی اشک بجا ہے
جب لخت جگر دیدۂ خوں بار میں آوے
دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستم گر
کچھ تجھ کو مزا بھی مرے آزار میں آوے
اس چشم فسوں گر کا اگر پائے اشارہ
طوطی کی طرح آئینہ گفتار میں آوے
کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یا رب
اک آبلہ پا وادی پر خار میں آوے
مر جاؤں نہ کیوں رشک سے جب وہ تن نازک
آغوش خم حلقۂ زنار میں آوے
غارت گر ناموس نہ ہو گر ہوس زر
کیوں شاہد گل باغ سے بازار میں آوے
تب چاک گریباں کا مزا ہے دل نالاں
جب اک نفس الجھا ہوا ہر تار میں آوے
آتشکدہ ہے سینہ مرا راز نہاں سے
اے واے اگر معرض اظہار میں آوے
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے |
kal-ke-liye-kar-aaj-na-khissat-sharaab-men-mirza-ghalib-ghazals |
کل کے لیے کر آج نہ خست شراب میں
یہ سوء ظن ہے ساقی کوثر کے باب میں
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں
جاں کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دم سماع
گر وہ صدا سمائی ہے چنگ و رباب میں
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
اتنا ہی مجھ کو اپنی حقیقت سے بعد ہے
جتنا کہ وہم غیر سے ہوں پیچ و تاب میں
اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
ہے مشتمل نمود صور پر وجود بحر
یاں کیا دھرا ہے قطرہ و موج و حباب میں
شرم اک ادائے ناز ہے اپنے ہی سے سہی
ہیں کتنے بے حجاب کہ ہیں یوں حجاب میں
آرایش جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیش نظر ہے آئنہ دایم نقاب میں
ہے غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں
غالبؔ ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست
مشغول حق ہوں بندگی بو تراب میں |
hairaan-huun-dil-ko-rouun-ki-piituun-jigar-ko-main-mirza-ghalib-ghazals |
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
چھوڑا نہ رشک نے کہ ترے گھر کا نام لوں
ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ جاؤں کدھر کو میں
جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار
اے کاش جانتا نہ ترے رہگزر کو میں
ہے کیا جو کس کے باندھئے میری بلا ڈرے
کیا جانتا نہیں ہوں تمہاری کمر کو میں
لو وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بے ننگ و نام ہے
یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں
خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار
کیا پوجتا ہوں اس بت بیداد گر کو میں
پھر بے خودی میں بھول گیا راہ کوئے یار
جاتا وگرنہ ایک دن اپنی خبر کو میں
اپنے پہ کر رہا ہوں قیاس اہل دہر کا
سمجھا ہوں دل پذیر متاع ہنر کو میں
غالبؔ خدا کرے کہ سوار سمند ناز
دیکھوں علی بہادر عالی گہر کو میں |
masjid-ke-zer-e-saaya-kharaabaat-chaahiye-mirza-ghalib-ghazals |
مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے
بھوں پاس آنکھ قبلۂ حاجات چاہیے
عاشق ہوئے ہیں آپ بھی ایک اور شخص پر
آخر ستم کی کچھ تو مکافات چاہیے
دے داد اے فلک دل حسرت پرست کی
ہاں کچھ نہ کچھ تلافئ مافات چاہیے
سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے
مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے
نشوونما ہے اصل سے غالبؔ فروع کو
خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے
ہے رنگ لالہ و گل و نسریں جدا جدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے
سر پائے خم پہ چاہیے ہنگام بے خودی
رو سوئے قبلہ وقت مناجات چاہیے
یعنی بہ حسب گردش پیمانۂ صفات
عارف ہمیشہ مست مے ذات چاہیے |
jahaan-teraa-naqsh-e-qadam-dekhte-hain-mirza-ghalib-ghazals |
جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں
دل آشفتگاں خال کنج دہن کے
سویدا میں سیر عدم دیکھتے ہیں
ترے سرو قامت سے اک قد آدم
قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں
تماشا کہ اے محو آئینہ داری
تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں
سراغ تف نالہ لے داغ دل سے
کہ شب رو کا نقش قدم دیکھتے ہیں
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
کسو کو زخود رستہ کم دیکھتے ہیں
کہ آہو کو پابند رم دیکھتے ہیں
خط لخت دل یک قلم دیکھتے ہیں
مژہ کو جواہر رقم دیکھتے ہیں |
donon-jahaan-de-ke-vo-samjhe-ye-khush-rahaa-mirza-ghalib-ghazals |
دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں
تھک تھک کے ہر مقام پہ دو چار رہ گئے
تیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیا کریں
کیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواہ بزم میں
ہو غم ہی جاں گداز تو غم خوار کیا کریں |
dar-khur-e-qahr-o-gazab-jab-koii-ham-saa-na-huaa-mirza-ghalib-ghazals |
در خور قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں کہ ہم
الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا
سب کو مقبول ہے دعویٰ تری یکتائی کا
روبرو کوئی بت آئنہ سیما نہ ہوا
کم نہیں نازش ہم نامی چشم خوباں
تیرا بیمار برا کیا ہے گر اچھا نہ ہوا
سینہ کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا
خاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا
نام کا میرے ہے جو دکھ کہ کسی کو نہ ملا
کام میں میرے ہے جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا
ہر بن مو سے دم ذکر نہ ٹپکے خوں ناب
حمزہ کا قصہ ہوا عشق کا چرچا نہ ہوا
قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا
تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا |
phir-is-andaaz-se-bahaar-aaii-mirza-ghalib-ghazals |
پھر اس انداز سے بہار آئی
کہ ہوئے مہر و مہ تماشائی
دیکھو اے ساکنان خطۂ خاک
اس کو کہتے ہیں عالم آرائی
کہ زمیں ہو گئی ہے سر تا سر
روکش سطح چرخ مینائی
سبزہ کو جب کہیں جگہ نہ ملی
بن گیا روئے آب پر کائی
سبزہ و گل کے دیکھنے کے لیے
چشم نرگس کو دی ہے بینائی
ہے ہوا میں شراب کی تاثیر
بادہ نوشی ہے بادہ پیمائی
کیوں نہ دنیا کو ہو خوشی غالبؔ
شاہ دیں دار نے شفا پائی |
vaan-pahunch-kar-jo-gash-aataa-pae-ham-hai-ham-ko-mirza-ghalib-ghazals |
واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو
صد رہ آہنگ زمیں بوس قدم ہے ہم کو
دل کو میں اور مجھے دل محو وفا رکھتا ہے
کس قدر ذوق گرفتاری ہم ہے ہم کو
ضعف سے نقش پئے مور ہے طوق گردن
ترے کوچے سے کہاں طاقت رم ہے ہم کو
جان کر کیجے تغافل کہ کچھ امید بھی ہو
یہ نگاہ غلط انداز تو سم ہے ہم کو
رشک ہم طرحی و درد اثر بانگ حزیں
نالۂ مرغ سحر تیغ دو دم ہے ہم کو
سر اڑانے کے جو وعدے کو مکرر چاہا
ہنس کے بولے کہ ترے سر کی قسم ہے ہم کو
دل کے خوں کرنے کی کیا وجہ ولیکن ناچار
پاس بے رونقی دیدہ اہم ہے ہم کو
تم وہ نازک کہ خموشی کو فغاں کہتے ہو
ہم وہ عاجز کہ تغافل بھی ستم ہے ہم کو
لکھنؤ آنے کا باعث نہیں کھلتا یعنی
ہوس سیر و تماشا سو وہ کم ہے ہم کو
مقطع سلسلۂ شوق نہیں ہے یہ شہر
عزم سیر نجف و طوف حرم ہے ہم کو
لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالبؔ
جادۂ رہ کشش کاف کرم ہے ہم کو
ابر روتا ہے کہ بزم طرب آمادہ کرو
برق ہنستی ہے کہ فرصت کوئی دم ہے ہم کو
طاقت رنج سفر بھی نہیں پاتے اتنی
ہجر یاراں وطن کا بھی الم ہے ہم کو
لائی ہے معتمد الدولہ بہادر کی امید
جادۂ رہ کشش کاف کرم ہے ہم کو |
rahm-kar-zaalim-ki-kyaa-buud-e-charaag-e-kushta-hai-mirza-ghalib-ghazals |
رحم کر ظالم کہ کیا بود چراغ کشتہ ہے
نبض بیمار وفا دود چراغ کشتہ ہے
دل لگی کی آرزو بے چین رکھتی ہے ہمیں
ورنہ یاں بے رونقی سود چراغ کشتہ ہے
نشۂ مے بے چمن دود چراغ کشتہ ہے
جام داغ شعلہ اندود چراغ کشتہ ہے
داغ ربط ہم ہیں اہل باغ گر گل ہو شہید
لالہ چشم حسرت آلود چراغ کشتہ ہے
شور ہے کس بزم کی عرض جراحت خانہ کا
صبح یک بزم نمک سود چراغ کشتہ ہے |
gaii-vo-baat-ki-ho-guftuguu-to-kyuunkar-ho-mirza-ghalib-ghazals |
گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیونکر ہو
کہے سے کچھ نہ ہوا پھر کہو تو کیونکر ہو
ہمارے ذہن میں اس فکر کا ہے نام وصال
کہ گر نہ ہو تو کہاں جائیں ہو تو کیونکر ہو
ادب ہے اور یہی کشمکش تو کیا کیجے
حیا ہے اور یہی گو مگو تو کیونکر ہو
تمہیں کہو کہ گزارا صنم پرستوں کا
بتوں کی ہو اگر ایسی ہی خو تو کیونکر ہو
الجھتے ہو تم اگر دیکھتے ہو آئینہ
جو تم سے شہر میں ہوں ایک دو تو کیونکر ہو
جسے نصیب ہو روز سیاہ میرا سا
وہ شخص دن نہ کہے رات کو تو کیونکر ہو
ہمیں پھر ان سے امید اور انہیں ہماری قدر
ہماری بات ہی پوچھیں نہ وہ تو کیونکر ہو
غلط نہ تھا ہمیں خط پر گماں تسلی کا
نہ مانے دیدۂ دیدار جو تو کیونکر ہو
بتاؤ اس مژہ کو دیکھ کر کہ مجھ کو قرار
وہ نیش ہو رگ جاں میں فرو تو کیونکر ہو
مجھے جنوں نہیں غالبؔ ولے بقول حضور
فراق یار میں تسکین ہو تو کیونکر ہو |
har-qadam-duurii-e-manzil-hai-numaayaan-mujh-se-mirza-ghalib-ghazals |
ہر قدم دورئ منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے
درس عنوان تماشا بہ تغافل خوشتر
ہے نگہ رشتۂ شیرازۂ مژگاں مجھ سے
وحشت آتش دل سے شب تنہائی میں
صورت دود رہا سایہ گریزاں مجھ سے
غم عشاق نہ ہو سادگی آموز بتاں
کس قدر خانۂ آئینہ ہے ویراں مجھ سے
اثر آبلہ سے جادۂ صحرائے جنوں
صورت رشتۂ گوہر ہے چراغاں مجھ سے
بے خودی بستر تمہید فراغت ہو جو
پر ہے سائے کی طرح میرا شبستاں مجھ سے
شوق دیدار میں گر تو مجھے گردن مارے
ہو نگہ مثل گل شمع پریشاں مجھ سے
بیکسی ہائے شب ہجر کی وحشت ہے ہے
سایہ خورشید قیامت میں ہے پنہاں مجھ سے
گردش ساغر صد جلوۂ رنگیں تجھ سے
آئنہ داریٔ یک دیدۂ حیراں مجھ سے
نگہ گرم سے ایک آگ ٹپکتی ہے اسدؔ
ہے چراغاں خس و خاشاک گلستاں مجھ سے
بستن عہد محبت ہمہ نادانی تھا
چشم نکشودہ رہا عقدۂ پیماں مجھ سے
آتش افروزی یک شعلۂ ایما تجھ سے
چشمک آرائی صد شہر چراغاں مجھ سے |
dil-e-naadaan-tujhe-huaa-kyaa-hai-mirza-ghalib-ghazals |
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے
شکن زلف عنبریں کیوں ہے
نگہ چشم سرمہ سا کیا ہے
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
ہاں بھلا کر ترا بھلا ہوگا
اور درویش کی صدا کیا ہے
جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دعا کیا ہے
میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے |
raundii-huii-hai-kaukaba-e-shahryaar-kii-mirza-ghalib-ghazals |
روندی ہوئی ہے کوکبۂ شہریار کی
اترائے کیوں نہ خاک سر رہ گزار کی
جب اس کے دیکھنے کے لیے آئیں بادشاہ
لوگوں میں کیوں نمود نہ ہو لالہ زار کی
بھوکے نہیں ہیں سیر گلستاں کے ہم ولے
کیونکر نہ کھائیے کہ ہوا ہے بہار کی |
hariif-e-matlab-e-mushkil-nahiin-fusuun-e-niyaaz-mirza-ghalib-ghazals |
حریف مطلب مشکل نہیں فسون نیاز
دعا قبول ہو یا رب کہ عمر خضر دراز
نہ ہو بہ ہرزہ بیاباں نورد وہم وجود
ہنوز تیرے تصور میں ہے نشیب و فراز
وصال جلوہ تماشا ہے پر دماغ کہاں
کہ دیجے آئنۂ انتظار کو پرداز
ہر ایک ذرۂ عاشق ہے آفتاب پرست
گئی نہ خاک ہوئے پر ہواۓ جلوۂ ناز
نہ پوچھ وسعت مے خانۂ جنوں غالبؔ
جہاں یہ کاسۂ گردوں ہے ایک خاک انداز
فریب صنعت ایجاد کا تماشا دیکھ
نگاہ عکس فروش و خیال آئنہ ساز
ز بسکہ جلوۂ صییاد حیرت آرا ہے
اڑی ہے صفحۂ خاطر سے صورت پرواز
ہجوم فکر سے دل مثل موج لرزے ہے
کہ شیشہ نازک و صہبائے آبگینہ گداز
اسدؔ سے ترک وفا کا گماں وہ معنی ہے
کہ کھینچیے پر طائر سے صورت پرواز
ہنوز اے اثر دید ننگ رسوائی
نگاہ فتنہ خرام و در دو عالم باز |
ghar-hamaaraa-jo-na-rote-bhii-to-viiraan-hotaa-mirza-ghalib-ghazals |
گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا
تنگئ دل کا گلہ کیا یہ وہ کافر دل ہے
کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پریشاں ہوتا
باد یک عمر ورع بار تو دیتا بارے
کاش رضواں ہی در یار کا درباں ہوتا |
zamaana-sakht-kam-aazaar-hai-ba-jaan-e-asad-mirza-ghalib-ghazals |
زمانہ سخت کم آزار ہے بہ جان اسدؔ
وگرنہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے ہیں
تن بہ بند ہوس در ندادہ رکھتے ہیں
دل ز کار جہاں اوفتادہ رکھتے ہیں
تمیز زشتی و نیکی میں لاکھ باتیں ہیں
بہ عکس آئنہ یک فرد سادہ رکھتے ہیں
بہ رنگ سایہ ہمیں بندگی میں ہے تسلیم
کہ داغ دل بہ جبین کشادہ رکھتے ہیں
بہ زاہداں رگ گردن ہے رشتۂ زنار
سر بہ پاۓ بت نا نہادہ رکھتے ہیں
معاف بے ہودہ گوئی ہیں ناصحان عزیز
دل بہ دست نگارے ندادہ رکھتے ہیں
بہ رنگ سبزہ عزیزان بد زباں یک دست
ہزار تیغ بہ زہر آب دادہ رکھتے ہیں
ادب نے سونپی ہمیں سرمہ سائی حیرت
ز بن بستہ و چشم کشادہ رکھتے ہیں |
hai-vasl-hijr-aalam-e-tamkiin-o-zabt-men-mirza-ghalib-ghazals |
ہے وصل ہجر عالم تمکین و ضبط میں
معشوق شوخ و عاشق دیوانہ چاہیے
اس لب سے مل ہی جائے گا بوسہ کبھی تو ہاں
شوق فضول و جرأت رندانہ چاہیے
عاشق نقاب جلوۂ جانانہ چاہیے
فانوس شمع کو پر پروانہ چاہیے |
us-bazm-men-mujhe-nahiin-bantii-hayaa-kiye-mirza-ghalib-ghazals |
اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہوا کیے
دل ہی تو ہے سیاست درباں سے ڈر گیا
میں اور جاؤں در سے ترے بن صدا کیے
رکھتا پھروں ہوں خرقہ و سجادہ رہن مے
مدت ہوئی ہے دعوت آب و ہوا کیے
بے صرفہ ہی گزرتی ہے ہو گرچہ عمر خضر
حضرت بھی کل کہیں گے کہ ہم کیا کیا کیے
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
کس روز تہمتیں نہ تراشا کیے عدو
کس دن ہمارے سر پہ نہ آرے چلا کیے
صحبت میں غیر کی نہ پڑی ہو کہیں یہ خو
دینے لگا ہے بوسہ بغیر التجا کیے
ضد کی ہے اور بات مگر خو بری نہیں
بھولے سے اس نے سیکڑوں وعدے وفا کیے
غالبؔ تمہیں کہو کہ ملے گا جواب کیا
مانا کہ تم کہا کیے اور وہ سنا کیے |
chaahiye-achchhon-ko-jitnaa-chaahiye-mirza-ghalib-ghazals |
چاہیے اچھوں کو جتنا چاہیے
یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے
صحبت رنداں سے واجب ہے حذر
جائے مے اپنے کو کھینچا چاہیے
چاہنے کو تیرے کیا سمجھا تھا دل
بارے اب اس سے بھی سمجھا چاہیے
چاک مت کر جیب بے ایام گل
کچھ ادھر کا بھی اشارا چاہیے
دوستی کا پردہ ہے بیگانگی
منہ چھپانا ہم سے چھوڑا چاہیے
دشمنی نے میری کھویا غیر کو
کس قدر دشمن ہے دیکھا چاہیے
اپنی رسوائی میں کیا چلتی ہے سعی
یار ہی ہنگامہ آرا چاہیے
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے
غافل ان مہ طلعتوں کے واسطے
چاہنے والا بھی اچھا چاہیے
چاہتے ہیں خوب رویوں کو اسدؔ
آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے |
hai-bazm-e-butaan-men-sukhan-aazurda-labon-se-mirza-ghalib-ghazals |
ہے بزم بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
تنگ آئے ہیں ہم ایسے خوشامد طلبوں سے
ہے دور قدح وجہ پریشانی صہبا
یک بار لگا دو خم مے میرے لبوں سے
رندان در مے کدہ گستاخ ہیں زاہد
زنہار نہ ہونا طرف ان بے ادبوں سے
بیداد وفا دیکھ کہ جاتی رہی آخر
ہر چند مری جان کو تھا ربط لبوں سے
کیا پوچھے ہے بر خود غلطیہائے عزیزاں
خواری کو بھی اک عار ہے عالی نسبوں سے
گو تم کو رضا جوئی اغیار ہے لیکن
جاتی ہے ملاقات کب ایسے سببوں سے
مت پوچھ اسدؔ وعدۂ کم فرصتیٔ زیست
دو دن بھی جو کاٹے تو قیامت تعبوں سے |
na-gul-e-nagma-huun-na-parda-e-saaz-mirza-ghalib-ghazals |
نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز
تو اور آرائش خم کاکل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز
لاف تمکیں فریب سادہ دلی
ہم ہیں اور راز ہائے سینہ گداز
ہوں گرفتار الفت صیاد
ورنہ باقی ہے طاقت پرواز
وہ بھی دن ہو کہ اس ستم گر سے
ناز کھینچوں بجائے حسرت ناز
نہیں دل میں مرے وہ قطرۂ خوں
جس سے مژگاں ہوئی نہ ہو گلباز
اے ترا غمزہ یک قلم انگیز
اے ترا ظلم سر بہ سر انداز
تو ہوا جلوہ گر مبارک ہو
ریزش سجدۂ جبین نیاز
مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا
میں غریب اور تو غریب نواز
اسدؔ اللہ خاں تمام ہوا
اے دریغا وہ رند شاہد باز |
saraapaa-rehn-e-ishq-o-naa-guziir-e-ulfat-e-hastii-mirza-ghalib-ghazals |
سراپا رہن عشق و نا گزیر الفت ہستی
عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا
بقدر ظرف ہے ساقی خمار تشنہ کامی بھی
جو تو دریاۓ مے ہے تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا
ز بس خوں گشتۂ رشک وفا تھا وہم بسمل کا
چرایا زخم ہائے دل نے پانی تیغ قاتل کا
نگاۂ چشم حاسد وام لے اے ذوق خود بینی
تماشائی ہوں وحدت خانۂ آئینۂ دل کا
شرر فرصت نگہ سامان یک عالم چراغاں ہے
بہ قدر رنگ یاں گردش میں ہے پیمانہ محفل کا
سراسر تاختن کو شش جہت یک عرصہ جولاں تھا
ہوا واماندگی سے رہ رواں کی فرق منزل کا
مجھے راہ سخن میں خوف گم راہی نہیں غالب
عصاۓ خضر صحراۓ سخن ہے خامہ بے دل کا |
koii-din-gar-zindagaanii-aur-hai-mirza-ghalib-ghazals |
کوئی دن گر زندگانی اور ہے
اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے
آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں
سوز غم ہائے نہانی اور ہے
بارہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیں
پر کچھ اب کے سرگرانی اور ہے
دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر
کچھ تو پیغام زبانی اور ہے
قاطع اعمار ہے اکثر نجوم
وہ بلائے آسمانی اور ہے
ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام
ایک مرگ ناگہانی اور ہے |
sataaish-gar-hai-zaahid-is-qadar-jis-baag-e-rizvaan-kaa-mirza-ghalib-ghazals |
ستائش گر ہے زاہد اس قدر جس باغ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاق نسیاں کا
بیاں کیا کیجیے بیداد کاوش ہائے مژگاں کا
کہ ہر یک قطرۂ خوں دانہ ہے تسبیح مرجاں کا
نہ آئی سطوت قاتل بھی مانع میرے نالوں کو
لیا دانتوں میں جو تنکا ہوا ریشہ نیستاں کا
دکھاؤں گا تماشا دی اگر فرصت زمانے نے
مرا ہر داغ دل اک تخم ہے سرو چراغاں کا
کیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے
کرے جو پرتو خورشید عالم شبنمستاں کا
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا
اگا ہے گھر میں ہر سو سبزہ ویرانی تماشا کر
مدار اب کھودنے پر گھاس کے ہے میرے درباں کا
خموشی میں نہاں خوں گشتہ لاکھوں آرزوئیں ہیں
چراغ مردہ ہوں میں بے زباں گور غریباں کا
ہنوز اک پرتو نقش خیال یار باقی ہے
دل افسردہ گویا حجرہ ہے یوسف کے زنداں کا
بغل میں غیر کی آج آپ سوتے ہیں کہیں ورنہ
سبب کیا خواب میں آ کر تبسم ہائے پنہاں کا
نہیں معلوم کس کس کا لہو پانی ہوا ہوگا
قیامت ہے سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا
نظر میں ہے ہماری جادۂ راہ فنا غالبؔ
کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں کا |
rashk-kahtaa-hai-ki-us-kaa-gair-se-ikhlaas-haif-mirza-ghalib-ghazals |
رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف
عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا
ذرہ ذرہ ساغر مے خانۂ نیرنگ ہے
گردش مجنوں بہ چشمک ہائے لیلیٰ آشنا
شوق ہے ساماں طراز نازش ارباب عجز
ذرہ صحرا دست گاہ و قطرہ دریا آشنا
میں اور ایک آفت کا ٹکڑا وہ دل وحشی کہ ہے
عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا
شکوہ سنج رشک ہم دیگر نہ رہنا چاہیے
میرا زانو مونس اور آئینہ تیرا آشنا
کوہ کن نقاش یک تمثال شیریں تھا اسدؔ
سنگ سے سر مار کر ہووے نہ پیدا آشنا
خود پرستی سے رہے باہم دگر نا آشنا
بیکسی میری شریک آئینہ تیرا آشنا
آتش موئے دماغ شوق ہے تیرا تپاک
ورنہ ہم کس کے ہیں اے داغ تمنا آشنا
جوہر آئینہ جز رمز سر مژگاں نہیں
آشنا کی ہم دگر سمجھے ہے ایما آشنا
ربط یک شیرازۂ وحشت ہیں اجزائے بہار
سبزہ بیگانہ صبا آوارہ گل نا آشنا
بے دماغی شکوہ سنج رشک ہم دیگر نہیں
یار تیرا جام مے خمیازہ میرا آشنا |
rone-se-aur-ishq-men-bebaak-ho-gae-mirza-ghalib-ghazals |
رونے سے اور عشق میں بے باک ہو گئے
دھوئے گئے ہم اتنے کہ بس پاک ہو گئے
صرف بہائے مے ہوئے آلات مے کشی
تھے یہ ہی دو حساب سو یوں پاک ہو گئے
رسوائے دہر گو ہوئے آوارگی سے تم
بارے طبیعتوں کے تو چالاک ہو گئے
کہتا ہے کون نالۂ بلبل کو بے اثر
پردے میں گل کے لاکھ جگر چاک ہو گئے
پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہل شوق کا
آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے
کرنے گئے تھے اس سے تغافل کا ہم گلہ
کی ایک ہی نگاہ کہ بس خاک ہو گئے
اس رنگ سے اٹھائی کل اس نے اسدؔ کی نعش
دشمن بھی جس کو دیکھ کے غم ناک ہو گئے |
saadgii-par-us-kii-mar-jaane-kii-hasrat-dil-men-hai-mirza-ghalib-ghazals |
سادگی پر اس کی مر جانے کی حسرت دل میں ہے
بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کف قاتل میں ہے
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے باایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
بس ہجوم ناامیدی خاک میں مل جائے گی
یہ جو اک لذت ہماری سعیٔ بے حاصل میں ہے
رنج رہ کیوں کھینچیے واماندگی کو عشق ہے
اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم منزل میں ہے
جلوہ زار آتش دوزخ ہمارا دل سہی
فتنۂ شور قیامت کس کے آب و گل میں ہے
ہے دل شوریدۂ غالبؔ طلسم پیچ و تاب
رحم کر اپنی تمنا پر کہ کس مشکل میں ہے |
dhamkii-men-mar-gayaa-jo-na-baab-e-nabard-thaa-mirza-ghalib-ghazals |
دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا
عشق نبرد پیشہ طلب گار مرد تھا
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا
تالیف نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں
مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا
دل تا جگر کہ ساحل دریائے خوں ہے اب
اس رہ گزر میں جلوۂ گل آگے گرد تھا
جاتی ہے کوئی کشمکش اندوہ عشق کی
دل بھی اگر گیا تو وہی دل کا درد تھا
احباب چارہ سازی وحشت نہ کر سکے
زنداں میں بھی خیال بیاباں نورد تھا
یہ لاش بے کفن اسدؔ خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا |
gam-khaane-men-buudaa-dil-e-naakaam-bahut-hai-mirza-ghalib-ghazals |
غم کھانے میں بودا دل ناکام بہت ہے
یہ رنج کہ کم ہے مئے گلفام بہت ہے
کہتے ہوئے ساقی سے حیا آتی ہے ورنہ
ہے یوں کہ مجھے درد تہ جام بہت ہے
نے تیر کماں میں ہے نہ صیاد کمیں میں
گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے
کیا زہد کو مانوں کہ نہ ہو گرچہ ریائی
پاداش عمل کی طمع خام بہت ہے
ہیں اہل خرد کس روش خاص پہ نازاں
پابستگی رسم و رہ عام بہت ہے
زمزم ہی پہ چھوڑو مجھے کیا طوف حرم سے
آلودہ بہ مے جامۂ احرام بہت ہے
ہے قہر گر اب بھی نہ بنے بات کہ ان کو
انکار نہیں اور مجھے ابرام بہت ہے
خوں ہو کے جگر آنکھ سے ٹپکا نہیں اے مرگ
رہنے دے مجھے یاں کہ ابھی کام بہت ہے
ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالبؔ کو نہ جانے
شاعر تو وہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے |
haasil-se-haath-dho-baith-ai-aarzuu-khiraamii-mirza-ghalib-ghazals |
حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
دل جوش گریہ میں ہے ڈوبی ہوئی اسامی
اس شمع کی طرح سے جس کو کوئی بجھا دے
میں بھی جلے ہوؤں میں ہوں داغ نا تمامی
کرتے ہو شکوہ کس کا تم اور بے وفائی
سر پیٹتے ہیں اپنا ہم اور نیک نامی
صد رنگ گل کترنا در پردہ قتل کرنا
تیغ ادا نہیں ہے پابند بے نیامی
طرف سخن نہیں ہے مجھ سے خدا نہ کردہ
ہے نامہ بر کو اس سے دعوائے ہم کلامی
طاقت فسانۂ باد اندیشہ شعلہ ایجاد
اے غم ہنوز آتش اے دل ہنوز خامی
ہر چند عمر گزری آزردگی میں لیکن
ہے شرح شوق کو بھی جوں شکوہ ناتمامی
ہے یاس میں اسدؔ کو ساقی سے بھی فراغت
دریا سے خشک گزرے مستوں کی تشنہ کامی |
maze-jahaan-ke-apnii-nazar-men-khaak-nahiin-mirza-ghalib-ghazals |
مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں
سواے خون جگر سو جگر میں خاک نہیں
مگر غبار ہوے پر ہوا اڑا لے جاے
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں
یہ کس بہشت شمائل کی آمد آمد ہے
کہ غیر جلوۂ گل رہ گزر میں خاک نہیں
بھلا اسے نہ سہی کچھ مجھی کو رحم آتا
اثر مرے نفس بے اثر میں خاک نہیں
خیال جلوۂ گل سے خراب ہیں میکش
شراب خانہ کے دیوار و در میں خاک نہیں
ہوا ہوں عشق کی غارتگری سے شرمندہ
سواے حسرت تعمیر گھر میں خاک نہیں
ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسدؔ
کھلا کہ فائدہ عرض ہنر میں خاک نہیں |
miltii-hai-khuu-e-yaar-se-naar-iltihaab-men-mirza-ghalib-ghazals |
ملتی ہے خوئے یار سے نار التہاب میں
کافر ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عذاب میں
کب سے ہوں کیا بتاؤں جہان خراب میں
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں
تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر
آنے کا عہد کر گئے آئے جو خواب میں
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دور جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
جو منکر وفا ہو فریب اس پہ کیا چلے
کیوں بد گماں ہوں دوست سے دشمن کے باب میں
میں مضطرب ہوں وصل میں خوف رقیب سے
ڈالا ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں
میں اور حظ وصل خدا ساز بات ہے
جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں
ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نقاب کے
ہے اک شکن پڑی ہوئی طرف نقاب میں
لاکھوں لگاؤ ایک چرانا نگاہ کا
لاکھوں بناؤ ایک بگڑنا عتاب میں
وہ نالہ دل میں خس کے برابر جگہ نہ پائے
جس نالہ سے شگاف پڑے آفتاب میں
وہ سحر مدعا طلبی میں نہ کام آئے
جس سحر سے سفینہ رواں ہو سراب میں
غالبؔ چھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روز ابر و شب ماہتاب میں |
ishq-taasiir-se-naumiid-nahiin-mirza-ghalib-ghazals |
عشق تاثیر سے نومید نہیں
جاں سپاری شجر بید نہیں
سلطنت دست بدست آئی ہے
جام مے خاتم جمشید نہیں
ہے تجلی تری سامان وجود
ذرہ بے پرتو خورشید نہیں
راز معشوق نہ رسوا ہو جائے
ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں
گردش رنگ طرب سے ڈر ہے
غم محرومئ جاوید نہیں
کہتے ہیں جیتے ہیں امید پہ لوگ
ہم کو جینے کی بھی امید نہیں |
manzuur-thii-ye-shakl-tajallii-ko-nuur-kii-mirza-ghalib-ghazals |
منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی
قسمت کھلی ترے قد و رخ سے ظہور کی
اک خونچکاں کفن میں کروڑوں بناؤ ہیں
پڑتی ہے آنکھ تیرے شہیدوں پہ حور کی
واعظ نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمہاری شراب طہور کی
لڑتا ہے مجھ سے حشر میں قاتل کہ کیوں اٹھا
گویا ابھی سنی نہیں آواز صور کی
آمد بہار کی ہے جو بلبل ہے نغمہ سنج
اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی
گو واں نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبے سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی
گرمی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر
کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی
غالبؔ گر اس سفر میں مجھے ساتھ لے چلیں
حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی |
qatra-e-mai-bas-ki-hairat-se-nafas-parvar-huaa-mirza-ghalib-ghazals |
قطرۂ مے بسکہ حیرت سے نفس پرور ہوا
خط جام مے سراسر رشتۂ گوہر ہوا
اعتبار عشق کی خانہ خرابی دیکھنا
غیر نے کی آہ لیکن وہ خفا مجھ پر ہوا
گرمیٔ دولت ہوئی آتش زن نام نکو
خانۂ خاتم میں یاقوت نگیں اختر ہوا
نشہ میں گم کردہ راہ آیا وہ مست فتنہ خو
آج رنگ رفتہ دور گردش ساغر ہوا
درد سے در پردہ دی مژگاں سیاہاں نے شکست
ریزہ ریزہ استخواں کا پوست میں نشتر ہوا
زہد گردیدن ہے گرد خانہ ہائے منعماں
دانۂ تسبیح سے میں مہرہ در ششدر ہوا
اے بہ ضبط حال نا افسردگاں جوش جنوں
نشۂ مے ہے اگر یک پردہ نازک تر ہوا
اس چمن میں ریشہ داری جس نے سر کھینچا اسدؔ
تر زبان لفظ عام ساقیٔ کوثر ہوا |
faarig-mujhe-na-jaan-ki-maanind-e-subh-o-mehr-mirza-ghalib-ghazals |
فارغ مجھے نہ جان کہ مانند صبح و مہر
ہے داغ عشق زینت جیب کفن ہنوز
ہے ناز مفلساں زر از دست رفتہ پر
ہوں گل فروش شوخی داغ کہن ہنوز
مے خانۂ جگر میں یہاں خاک بھی نہیں
خمیازہ کھینچے ہے بت بے داد فن ہنوز
جوں جادہ سر بہ کوئے تمناۓ بے دلی
زنجیر پا ہے رشتۂ حب الوطن ہنوز |
gulshan-men-bandobast-ba-rang-e-digar-hai-aaj-mirza-ghalib-ghazals |
گلشن میں بندوبست بہ رنگ دگر ہے آج
قمری کا طوق حلقۂ بیرون در ہے آج
آتا ہے ایک پارۂ دل ہر فغاں کے ساتھ
تار نفس کمند شکار اثر ہے آج
اے عافیت کنارہ کر اے انتظام چل
سیلاب گریہ درپئے دیوار و در ہے آج
معزولیٔ تپش ہوئی افراط انتظار
چشم کشادہ حلقۂ بیرون در ہے آج
حیرت فروش صد نگرانی ہے اضطرار
سر رشتہ چاک جیب کا تار نظر ہے آج
ہوں داغ نیم رنگیٔ شام وصال یار
نور چراغ بزم سے جوش سحر ہے آج
کرتی ہے عاجزیٔ سفر سوختن تمام
پیراہن خسک میں غبار شرر ہے آج
تا صبح ہے بہ منزل مقصد رسیدنی
دود چراغ خانہ غبار سفر ہے آج
دور اوفتادۂ چمن فکر ہے اسدؔ
مرغ خیال بلبل بے بال و پر ہے آج |
juz-qais-aur-koii-na-aayaa-ba-ruu-e-kaar-mirza-ghalib-ghazals |
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
صحرا مگر بہ تنگی چشم حسود تھا
آشفتگی نے نقش سویدا کیا درست
ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا
لیتا ہوں مکتب غم دل میں سبق ہنوز
لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا
ڈھانپا کفن نے داغ عیوب برہنگی
میں ورنہ ہر لباس میں ننگ وجود تھا
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسدؔ
سرگشتۂ خمار رسوم و قیود تھا
عالم جہاں بہ عرض بساط وجود تھا
جوں صبح چاک جیب مجھے تار و پود تھا
بازی خور فریب ہے اہل نظر کا ذوق
ہنگامہ گرم حیرت بود و نبود تھا
عالم طلسم شہر خموشی ہے سربسر
یا میں غریب کشور گفت و شنود تھا
تنگی رفیق رہ تھی عدم یا وجود تھا
میرا سفر بہ طالع چشم حسود تھا
تو یک جہاں قماش ہوس جمع کر کہ میں
حیرت متاع عالم نقصان و سود تھا
گردش محیط ظلم رہا جس قدر فلک
میں پائمال غمزۂ چشم کبود تھا
پوچھا تھا گرچہ یار نے احوال دل مگر
کس کو دماغ منت گفت و شنود تھا
خور شبنم آشنا نہ ہوا ورنہ میں اسدؔ
سر تا قدم گزارش ذوق سجود تھا |
lab-e-khushk-dar-tishnagii-murdagaan-kaa-mirza-ghalib-ghazals |
لب خشک در تشنگی مردگاں کا
زیارت کدہ ہوں دل آزردگاں کا
ہمہ ناامیدی ہمہ بد گمانی
میں دل ہوں فریب وفا خوردگاں کا
شگفتن کمیں گاۂ تقریب جوئی
تصور ہوں بے موجب آزردگاں کا
غریب ستم دیدۂ باز گشتن
سخن ہوں سخن بر لب آوردگاں کا
سراپا یک آئینہ دار شکستن
ارادہ ہوں یک عالم افسردگاں کا
بہ صورت تکلف بہ معنی تأسف
اسدؔ میں تبسم ہوں پژمردگاں کا |
laraztaa-hai-miraa-dil-zahmat-e-mehr-e-darakhshaan-par-mirza-ghalib-ghazals |
لرزتا ہے مرا دل زحمت مہر درخشاں پر
میں ہوں وہ قطرۂ شبنم کہ ہو خار بیاباں پر
نہ چھوڑی حضرت یوسف نے یاں بھی خانہ آرائی
سفیدی دیدۂ یعقوب کی پھرتی ہے زنداں پر
فنا تعلیم درس بے خودی ہوں اس زمانے سے
کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوار دبستاں پر
فراغت کس قدر رہتی مجھے تشویش مرہم سے
بہم گر صلح کرتے پارہ ہائے دل نمکداں پر
نہیں اقلیم الفت میں کوئی طورمار ناز ایسا
کہ پشت چشم سے جس کی نہ ہووے مہر عنواں پر
مجھے اب دیکھ کر ابر شفق آلودہ یاد آیا
کہ فرقت میں تری آتش برستی تھی گلستاں پر
بجز پرواز شوق ناز کیا باقی رہا ہوگا
قیامت اک ہوائے تند ہے خاک شہیداں پر
نہ لڑ ناصح سے غالبؔ کیا ہوا گر اس نے شدت کی
ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے گریباں پر
دل خونیں جگر بے صبر و فیض عشق مستغنی
الٰہی یک قیامت خاور آ ٹوٹے بدخشاں پر
اسدؔ اے بے تحمل عربدہ بیجا ہے ناصح سے
کہ آخر بے کسوں کا زور چلتا ہے گریباں پر |
aa-ki-mirii-jaan-ko-qaraar-nahiin-hai-mirza-ghalib-ghazals |
آ کہ مری جان کو قرار نہیں ہے
طاقت بیداد انتظار نہیں ہے
دیتے ہیں جنت حیات دہر کے بدلے
نشہ بہ اندازۂ خمار نہیں ہے
گریہ نکالے ہے تیری بزم سے مجھ کو
ہائے کہ رونے پہ اختیار نہیں ہے
ہم سے عبث ہے گمان رنجش خاطر
خاک میں عشاق کی غبار نہیں ہے
دل سے اٹھا لطف جلوہ ہائے معانی
غیر گل آئینۂ بہار نہیں ہے
قتل کا میرے کیا ہے عہد تو بارے
وائے اگر عہد استوار نہیں ہے
تو نے قسم مے کشی کی کھائی ہے غالبؔ
تیری قسم کا کچھ اعتبار نہیں ہے |
naqsh-fariyaadii-hai-kis-kii-shokhi-e-tahriir-kaa-mirza-ghalib-ghazals |
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
جذبۂ بے اختیار شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
بسکہ ہوں غالبؔ اسیری میں بھی آتش زیر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
آتشیں پا ہوں گداز وحشت زنداں نہ پوچھ
موئے آتش دیدہ ہے ہر حلقہ یاں زنجیر کا
شوخیٔ نیرنگ صید وحشت طاؤس ہے
دام سبزہ میں ہے پرواز چمن تسخیر کا
لذت ایجاد ناز افسون عرض ذوق قتل
نعل آتش میں ہے تیغ یار سے نخچیر کا
خشت پشت دست عجز و قالب آغوش وداع
پر ہوا ہے سیل سے پیمانہ کس تعمیر کا
وحشت خواب عدم شور تماشا ہے اسدؔ
جو مزہ جوہر نہیں آئینۂ تعبیر کا |
mund-gaiin-kholte-hii-kholte-aankhen-gaalib-mirza-ghalib-ghazals |
مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالبؔ
یار لائے مری بالیں پہ اسے پر کس وقت |
muzhda-ai-zauq-e-asiirii-ki-nazar-aataa-hai-mirza-ghalib-ghazals |
مژدہ اے ذوق اسیری کہ نظر آتا ہے
دام خالی قفس مرغ گرفتار کے پاس
جگر تشنۂ آزار تسلی نہ ہوا
جوئے خوں ہم نے بہائی بن ہر خار کے پاس
مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں ہے ہے
خوب وقت آئے تم اس عاشق بیمار کے پاس
میں بھی رک رک کے نہ مرتا جو زباں کے بدلے
دشنہ اک تیز سا ہوتا مرے غم خوار کے پاس
دہن شیر میں جا بیٹھے لیکن اے دل
نہ کھڑے ہو جیے خوبان دل آزار کے پاس
دیکھ کر تجھ کو چمن بسکہ نمو کرتا ہے
خود بہ خود پہنچے ہے گل گوشۂ دستار کے پاس
مر گیا پھوڑ کے سر غالبؔ وحشی ہے ہے
بیٹھنا اس کا وہ آ کر تری دیوار کے پاس |
na-hogaa-yak-bayaabaan-maandgii-se-zauq-kam-meraa-mirza-ghalib-ghazals |
نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا
حباب موجۂ رفتار ہے نقش قدم میرا
محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے
کہ موج بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا
رہ خوابیدہ تھی گردن کش یک درس آگاہی
زمیں کو سیلئ استاد ہے نقش قدم میرا
سراغ آوارۂ عرض دو عالم شور محشر ہوں
پرافشاں ہے غبار آں سوئے صحرائے عدم میرا
ہوائے صبح یک عالم گریباں چاکی گل ہے
دہان زخم پیدا کر اگر کھاتا ہے غم میرا
نہ ہو وحشت کش درس سراب سطر آگاہی
میں گرد راہ ہوں بے مدعا ہے پیچ و خم میرا
اسدؔ وحشت پرست گوشۂ تنہائی دل ہے
برنگ موج مے خمیازۂ ساغر ہے رم میرا |
daaim-padaa-huaa-tire-dar-par-nahiin-huun-main-mirza-ghalib-ghazals |
دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں
کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جاے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں
یارب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے
لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں
کس واسطے عزیز نہیں جانتے مجھے
لعل و زمرد و زر و گوہر نہیں ہوں میں
رکھتے ہو تم قدم مری آنکھوں سے کیوں دریغ
رتبے میں مہر و ماہ سے کم تر نہیں ہوں میں
کرتے ہو مجھ کو منع قدم بوس کس لیے
کیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہوں میں
غالبؔ وظیفہ خوار ہو دو شاہ کو دعا
وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں |
jaada-e-rah-khur-ko-vaqt-e-shaam-hai-taar-e-shuaaa-mirza-ghalib-ghazals |
جادۂ رہ خور کو وقت شام ہے تار شعاع
چرخ وا کرتا ہے ماہ نو سے آغوش وداع
شمع سے ہے بزم انگشت تحیر در دہن
شعلۂ آواز خوباں پر بہ ہنگام سماع
جوں پر طاؤس جوہر تختہ مشق رنگ ہے
بسکہ ہے وہ قبلۂ آئینہ محو اختراع
رنجش حیرت سرشتاں سینہ صافی پیشکش
جوہر آئینہ ہے یاں گرد میدان نزاع
چار سوئے دہر میں بازار غفلت گرم ہے
عقل کے نقصاں سے اٹھتا ہے خیال انتفاع
آشنا غالبؔ نہیں ہیں درد دل کے آشنا
ورنہ کس کو میرے افسانے کی تاب استماع |
shauq-har-rang-raqiib-e-sar-o-saamaan-niklaa-mirza-ghalib-ghazals |
شوق ہر رنگ رقیب سر و ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
زخم نے داد نہ دی تنگئ دل کی یا رب
تیر بھی سینۂ بسمل سے پرافشاں نکلا
بوئے گل نالۂ دل دود چراغ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
دل حسرت زدہ تھا مائدۂ لذت درد
کام یاروں کا بہ قدر لب و دنداں نکلا
تھی نوآموز فنا ہمت دشوار پسند
سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا
دل میں پھر گریہ نے اک شور اٹھایا غالبؔ
آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سو طوفاں نکلا
کارخانے سے جنوں کے بھی میں عریاں نکلا
میری قسمت کا نہ ایک آدھ گریباں نکلا
ساغر جلوۂ سرشار ہے ہر ذرۂ خاک
شوق دیدار بلا آئنہ ساماں نکلا
کچھ کھٹکتا تھا مرے سینے میں لیکن آخر
جس کو دل کہتے تھے سو تیر کا پیکاں نکلا
کس قدر خاک ہوا ہے دل مجنوں یا رب
نقش ہر ذرہ سویداۓ بیاباں نکلا
شور رسوائی دل دیکھ کہ یک نالۂ شوق
لاکھ پردے میں چھپا پر وہی عریاں نکلا
شوخیٔ رنگ حنا خون وفا سے کب تک
آخر اے عہد شکن تو بھی پشیماں نکلا
جوہر ایجاد خط سبز ہے خود بینیٔ حسن
جو نہ دیکھا تھا سو آئینے میں پنہاں نکلا
میں بھی معذور جنوں ہوں اسدؔ اے خانہ خراب
پیشوا لینے مجھے گھر سے بیاباں نکلا |
koii-ummiid-bar-nahiin-aatii-mirza-ghalib-ghazals |
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گر نہیں آتی
داغ دل گر نظر نہیں آتا
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
کعبہ کس منہ سے جاوگے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی |
aamad-e-khat-se-huaa-hai-sard-jo-baazaar-e-dost-mirza-ghalib-ghazals |
آمد خط سے ہوا ہے سرد جو بازار دوست
دود شمع کشتہ تھا شاید خط رخسار دوست
اے دل ناعاقبت اندیش ضبط شوق کر
کون لا سکتا ہے تاب جلوۂ دیدار دوست
خانہ ویراں سازی حیرت تماشا کیجیے
صورت نقش قدم ہوں رفتۂ رفتار دوست
عشق میں بیداد رشک غیر نے مارا مجھے
کشتۂ دشمن ہوں آخر گرچہ تھا بیمار دوست
چشم ما روشن کہ اس بے درد کا دل شاد ہے
دیدۂ پر خوں ہمارا ساغر سرشار دوست
غیر یوں کرتا ہے میری پرسش اس کے ہجر میں
بے تکلف دوست ہو جیسے کوئی غم خوار دوست
تاکہ میں جانوں کہ ہے اس کی رسائی واں تلک
مجھ کو دیتا ہے پیام وعدۂ دیدار دوست
جب کہ میں کرتا ہوں اپنا شکوۂ ضعف دماغ
سر کرے ہے وہ حدیث زلف عنبر بار دوست
چپکے چپکے مجھ کو روتے دیکھ پاتا ہے اگر
ہنس کے کرتا ہے بیان شوخی گفتار دوست
مہربانی ہائے دشمن کی شکایت کیجیے
تا بیاں کیجے سپاس لذت آزار دوست
یہ غزل اپنی مجھے جی سے پسند آتی ہے آپ
ہے ردیف شعر میں غالبؔ ز بس تکرار دوست
چشم بند خلق جز تمثال خود بینی نہیں
آئنہ ہے قالب خشت در و دیوار دوست
برق خرمن زار گوہر ہے نگاہ تیز یاں
اشک ہو جاتے ہیں خشک از گرمیٔ رفتار دوست
ہے سوا نیزے پہ اس کے قامت نوخیز سے
آفتاب صبح محشر ہے گل دستار دوست
اے عدوئے مصلحت چند بہ ضبط افسردہ رہ
کردنی ہے جمع تاب شوق دیدار دوست
لغزشت مستانہ و جوش تماشا ہے اسدؔ
آتش مے سے بہار گرمیٔ بازار دوست |
khatar-hai-rishta-e-ulfat-rag-e-gardan-na-ho-jaave-mirza-ghalib-ghazals |
خطر ہے رشتۂ الفت رگ گردن نہ ہو جاوے
غرور دوستی آفت ہے تو دشمن نہ ہو جاوے
سمجھ اس فصل میں کوتاہی نشو و نما غالبؔ
اگر گل سرو کے قامت پہ پیراہن نہ ہو جاوے |
vo-mirii-chiin-e-jabiin-se-gam-e-pinhaan-samjhaa-mirza-ghalib-ghazals |
وہ مری چین جبیں سے غم پنہاں سمجھا
راز مکتوب بہ بے ربطی عنواں سمجھا
یک الف بیش نہیں صیقل آئینہ ہنوز
چاک کرتا ہوں میں جب سے کہ گریباں سمجھا
شرح اسباب گرفتاری خاطر مت پوچھ
اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زنداں سمجھا
بد گمانی نے نہ چاہا اسے سرگرم خرام
رخ پہ ہر قطرہ عرق دیدۂ حیراں سمجھا
عجز سے اپنے یہ جانا کہ وہ بد خو ہوگا
نبض خس سے تپش شعلۂ سوزاں سمجھا
سفر عشق میں کی ضعف نے راحت طلبی
ہر قدم سائے کو میں اپنے شبستاں سمجھا
تھا گریزاں مژۂ یار سے دل تا دم مرگ
دفع پیکان قضا اس قدر آساں سمجھا
دل دیا جان کے کیوں اس کو وفادار اسدؔ
غلطی کی کہ جو کافر کو مسلماں سمجھا
ہم نے وحشت کدۂ بزم جہاں میں جوں شمع
شعلۂ عشق کو اپنا سر و ساماں سمجھا |
kii-vafaa-ham-se-to-gair-is-ko-jafaa-kahte-hain-mirza-ghalib-ghazals |
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
آج ہم اپنی پریشانی خاطر ان سے
کہنے جاتے تو ہیں پر دیکھیے کیا کہتے ہیں
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ ربا کہتے ہیں
دل میں آ جاے ہے ہوتی ہے جو فرصت غش سے
اور پھر کون سے نالے کو رسا کہتے ہیں
ہے پرے سرحد ادراک سے اپنا مسجود
قبلے کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیں
پائے افگار پہ جب سے تجھے رحم آیا ہے
خار رہ کو ترے ہم مہر گیا کہتے ہیں
اک شرر دل میں ہے اس سے کوئی گھبرائے گا کیا
آگ مطلوب ہے ہم کو جو ہوا کہتے ہیں
دیکھیے لاتی ہے اس شوخ کی نخوت کیا رنگ
اس کی ہر بات پہ ہم نام خدا کہتے ہیں
وحشتؔ و شیفتہؔ اب مرثیہ کہویں شاید
مر گیا غالبؔ آشفتہ نوا کہتے ہیں |
siimaab-pusht-garmi-e-aaiina-de-hai-ham-mirza-ghalib-ghazals |
سیماب پشت گرمی آئینہ دے ہے ہم
حیراں کیے ہوئے ہیں دل بے قرار کے
آغوش گل کشودہ براۓ وداع ہے
اے عندلیب چل کہ چلے دن بہار کے
یوں بعد ضبط اشک پھروں گرد یار کے
پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے
بعد از وداع یار بہ خوں در تپیدہ ہیں
نقش قدم ہیں ہم کف پاۓ نگار کے
ہم مشق فکر وصل و غم ہجر سے اسدؔ
لائق نہیں رہے ہیں غم روزگار کے |
sad-jalva-ruu-ba-ruu-hai-jo-mizhgaan-uthaaiye-mirza-ghalib-ghazals |
صد جلوہ رو بہ رو ہے جو مژگاں اٹھائیے
طاقت کہاں کہ دید کا احساں اٹھائیے
ہے سنگ پر برات معاش جنون عشق
یعنی ہنوز منت طفلاں اٹھائیے
دیوار بار منت مزدر سے ہے خم
اے خانماں خراب نہ احساں اٹھائیے
یا میرے زخم رشک کو رسوا نہ کیجیے
یا پردۂ تبسم پنہاں اٹھائیے
ہستی فریب نامۂ موج سراب ہے
یک عمر ناز شوخی عنواں اٹھائیے |
dost-gam-khvaarii-men-merii-saii-farmaavenge-kyaa-mirza-ghalib-ghazals |
دوست غم خواری میں میری سعی فرماویں گے کیا
زخم کے بھرتے تلک ناخن نہ بڑھ جاویں گے کیا
بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک
ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرماویں گے کیا
حضرت ناصح گر آویں دیدہ و دل فرش راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھاویں گے کیا
آج واں تیغ و کفن باندھے ہوے جاتا ہوں میں
عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لاویں گے کیا
گر کیا ناصح نے ہم کو قید اچھا یوں سہی
یہ جنون عشق کے انداز چھٹ جاویں گے کیا
خانہ زاد زلف ہیں زنجیر سے بھاگیں گے کیوں
ہیں گرفتار وفا زنداں سے گھبراویں گے کیا
ہے اب اس معمورہ میں قحط غم الفت اسدؔ
ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں کھاویں گے کیا |
arz-e-niyaaz-e-ishq-ke-qaabil-nahiin-rahaa-mirza-ghalib-ghazals |
عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
جاتا ہوں داغ حسرت ہستی لیے ہوئے
ہوں شمع کشتہ در خور محفل نہیں رہا
مرنے کی اے دل اور ہی تدبیر کر کہ میں
شایان دست و بازوئے قاتل نہیں رہا
برروئے شش جہت در آئینہ باز ہے
یاں امتیاز ناقص و کامل نہیں رہا
وا کر دیے ہیں شوق نے بند نقاب حسن
غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا
گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
دل سے ہوائے کشت وفا مٹ گئی کہ واں
حاصل سوائے حسرت حاصل نہیں رہا
بیداد عشق سے نہیں ڈرتا مگر اسدؔ
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
ہر چند میں ہوں طوطی شیریں سخن ولے
آئینہ آہ میرے مقابل نہیں رہا
جاں داد گاں کا حوصلہ فرصت گداز ہے
یاں عرصۂ طپیدن بسمل نہیں رہا
ہوں قطرہ زن بہ وادیٔ حسرت شبانہ روز
جز تار اشک جادۂ منزل نہیں رہا
اے آہ میری خاطر وابستہ کے سوا
دنیا میں کوئی عقدۂ مشکل نہیں رہا
انداز نالہ یاد ہیں سب مجھ کو پر اسدؔ
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا |
bazm-e-shaahanshaah-men-ashaar-kaa-daftar-khulaa-mirza-ghalib-ghazals |
بزم شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
رکھیو یا رب یہ در گنجینۂ گوہر کھلا
شب ہوئی پھر انجم رخشندہ کا منظر کھلا
اس تکلف سے کہ گویا بت کدے کا در کھلا
گرچہ ہوں دیوانہ پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب
آستیں میں دشنہ پنہاں ہاتھ میں نشتر کھلا
گو نہ سمجھوں اس کی باتیں گو نہ پاؤں اس کا بھید
پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا
ہے خیال حسن میں حسن عمل کا سا خیال
خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا
منہ نہ کھلنے پر ہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں
زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے منہ پر کھلا
در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا
جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا
کیوں اندھیری ہے شب غم ہے بلاؤں کا نزول
آج ادھر ہی کو رہے گا دیدۂ اختر کھلا
کیا رہوں غربت میں خوش جب ہو حوادث کا یہ حال
نامہ لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا
اس کی امت میں ہوں میں میرے رہیں کیوں کام بند
واسطے جس شہہ کے غالبؔ گنبد بے در کھلا |
kyuun-na-ho-chashm-e-butaan-mahv-e-tagaaful-kyuun-na-ho-mirza-ghalib-ghazals |
کیوں نہ ہو چشم بتاں محو تغافل کیوں نہ ہو
یعنی اس بیمار کو نظارے سے پرہیز ہے
مرتے مرتے دیکھنے کی آرزو رہ جائے گی
وائے ناکامی کہ اس کافر کا خنجر تیز ہے
عارض گل دیکھ روئے یار یاد آیا اسدؔ
جوشش فصل بہاری اشتیاق انگیز ہے |
jis-zakhm-kii-ho-saktii-ho-tadbiir-rafuu-kii-mirza-ghalib-ghazals |
جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
لکھ دیجیو یا رب اسے قسمت میں عدو کی
اچھا ہے سر انگشت حنائی کا تصور
دل میں نظر آتی تو ہے اک بوند لہو کی
کیوں ڈرتے ہو عشاق کی بے حوصلگی سے
یاں تو کوئی سنتا نہیں فریاد کسو کی
دشنے نے کبھی منہ نہ لگایا ہو جگر کو
خنجر نے کبھی بات نہ پوچھی ہو گلو کی
صد حیف وہ ناکام کہ اک عمر سے غالبؔ
حسرت میں رہے ایک بت عربدہ جو کی
گو زندگی زاہد بے چارہ عبث ہے
اتنا ہے کہ رہتی تو ہے تدبیر وضو کی
اب بے خبراں میرے لب زخم جگر پر
بخیہ جسے کہتے ہو شکایت ہے رفو کی |
vaarasta-us-se-hain-ki-mohabbat-hii-kyuun-na-ho-mirza-ghalib-ghazals |
وارستہ اس سے ہیں کہ محبت ہی کیوں نہ ہو
کیجے ہمارے ساتھ عداوت ہی کیوں نہ ہو
چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے رنگ اختلاط کا
ہے دل پہ بار نقش محبت ہی کیوں نہ ہو
ہے مجھ کو تجھ سے تذکرۂ غیر کا گلہ
ہر چند بر سبیل شکایت ہی کیوں نہ ہو
پیدا ہوئی ہے کہتے ہیں ہر درد کی دوا
یوں ہو تو چارۂ غم الفت ہی کیوں نہ ہو
ڈالا نہ بے کسی نے کسی سے معاملہ
اپنے سے کھینچتا ہوں خجالت ہی کیوں نہ ہو
ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو
ہنگامۂ زبونی ہمت ہے انفعال
حاصل نہ کیجے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو
وارستگی بہانۂ بیگانگی نہیں
اپنے سے کر نہ غیر سے وحشت ہی کیوں نہ ہو
مٹتا ہے فوت فرصت ہستی کا غم کوئی
عمر عزیز صرف عبادت ہی کیوں نہ ہو
اس فتنہ خو کے در سے اب اٹھتے نہیں اسدؔ
اس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو |
mahram-nahiin-hai-tuu-hii-navaa-haa-e-raaz-kaa-mirza-ghalib-ghazals |
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا
رنگ شکستہ صبح بہار نظارہ ہے
یہ وقت ہے شگفتن گل ہائے ناز کا
تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز
میں اور دکھ تری مژہ ہائے دراز کا
صرفہ ہے ضبط آہ میں میرا وگرنہ میں
طعمہ ہوں ایک ہی نفس جاں گداز کا
ہیں بسکہ جوش بادہ سے شیشے اچھل رہے
ہر گوشۂ بساط ہے سر شیشہ باز کا
کاوش کا دل کرے ہے تقاضا کہ ہے ہنوز
ناخن پہ قرض اس گرہ نیم باز کا
تاراج کاوش غم ہجراں ہوا اسدؔ
سینہ کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا |
aah-ko-chaahiye-ik-umr-asar-hote-tak-mirza-ghalib-ghazals |
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہوتے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک
دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہوتے تک
عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہوتے تک
تا قیامت شب فرقت میں گزر جائے گی عمر
سات دن ہم پہ بھی بھاری ہیں سحر ہوتے تک
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک
پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہوتے تک
یک نظر بیش نہیں فرصت ہستی غافل
گرمیٔ بزم ہے اک رقص شرر ہوتے تک
غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہوتے تک |
bisaat-e-ijz-men-thaa-ek-dil-yak-qatra-khuun-vo-bhii-mirza-ghalib-ghazals |
بساط عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
سو رہتا ہے بہ انداز چکیدن سرنگوں وہ بھی
رہے اس شوخ سے آزردہ ہم چندے تکلف سے
تکلف بر طرف تھا ایک انداز جنوں وہ بھی
خیال مرگ کب تسکیں دل آزردہ کو بخشے
مرے دام تمنا میں ہے اک صید زبوں وہ بھی
نہ کرتا کاش نالہ مجھ کو کیا معلوم تھا ہمدم
کہ ہوگا باعث افزائش درد دروں وہ بھی
نہ اتنا برش تیغ جفا پر ناز فرماؤ
مرے دریائے بے تابی میں ہے اک موج خوں وہ بھی
مئے عشرت کی خواہش ساقی گردوں سے کیا کیجے
لیے بیٹھا ہے اک دو چار جام واژ گوں وہ بھی
مرے دل میں ہے غالبؔ شوق وصل و شکوۂ ہجراں
خدا وہ دن کرے جو اس سے میں یہ بھی کہوں وہ بھی
مجھے معلوم ہے جو تو نے میرے حق میں سوچا ہے
کہیں ہو جائے جلد اے گردش گردون دوں وہ بھی
نظر راحت پہ میری کر نہ وعدہ شب کے آنے کا
کہ میری خواب بندی کے لیے ہوگا فسوں وہ بھی |
az-mehr-taa-ba-zarra-dil-o-dil-hai-aaina-mirza-ghalib-ghazals |
از مہر تا بہ ذرہ دل و دل ہے آئنہ
طوطی کو شش جہت سے مقابل ہے آئنہ
حیرت ہجوم لذت غلطانیٔ تپش
سیماب بالش و کمر دل ہے آئنہ
غفلت بہ بال جوہر شمشیر پرفشاں
یاں پشت چشم شوخیٔ قاتل ہے آئنہ
حیرت نگاہ برق تماشا بہار شوخ
در پردۂ ہوا پر بسمل ہے آئنہ
یاں رہ گئے ہیں ناخن تدبیر ٹوٹ کر
جوہر طلسم عقدۂ مشکل ہے آئنہ
ہم زانوئے تأمل و ہم جلوہ گاہ گل
آئینہ بند خلوت و محفل ہے آئنہ
دل کار گاہ فکر و اسدؔ بے نوائے دل
یاں سنگ آستانۂ بیدلؔ ہے آئنہ |
Subsets and Splits