lang
stringclasses
5 values
text
stringlengths
1
2.47k
ur_Arab
کی فیصد زیادہ تھی۔ تاہم، عراق جنگوں، محاصروں اور عدم تحفظ کی وجہ سے تعلیم کو بہت نقصان پہنچا ہے، کیونکہ ناخواندگی کی شرح اب عراق میں جدید تعلیم کی تاریخ میں بے مثال سطح پر پہنچ چکی ہے۔ موجودہ عراقی حکومت اپنے سالانہ بجٹ کا 10% تعلیم کے لیے مختص کرنے کے بعد اس بحران کو دور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ عراق کے ماحولیاتی اعدادوشمار کے مطابق، 2012 میں آبادی کی شرح خواندگی 79.5% تھی، جب کہ ناخواندگی کی شرح 20.5% تھی. ابتدائی مرحلہ یہ گریڈ ایک سے گریڈ چھ تک چھ درجات پر مشتمل ہے اور چھ سال تک رہتا ہے۔ 6 سال کی عمر میں بچے کی رجسٹریشن لازمی ہے۔ انٹرمیڈیٹ مرحلہ یہ ابتدائی مرحلے کے بعد ہے اور 3 سال پر مشتمل ہے (پہلا انٹرمیڈیٹ ہے۔ . دوسرا اوسط ہے۔ . تیسری اوسط)۔ مڈل سکول یہ چوتھی تیاری کی جماعت سے شروع ہوتی ہے اور 3 مراحل (چوتھی، پانچویں اور چھٹی تیاری) پر مشتمل ہوتی ہے۔ چوتھی جماعت میں، طالب علم سائنسی یا ادبی علوم کا انتخاب کرتا ہے۔ اعلی تعلیم اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے عراق میں بہت سی یونیورسٹیاں ہیں جن میں سب سے اہم بغداد، موصل، بصرہ، انبار اور دیگر میں ہیں۔2003 عیسوی کے بعد عراق میں بہت سے کالج اور یونیورسٹیاں کھلی اور ترقی کی گئیں اور یونیورسٹی کی درجہ بندی کے مطابق نیٹ ورک ، ۔ اکتوبر 2015 کے مطابق بغداد یونیورسٹی عراق میں پہلے نمبر پر ہے۔ (عالمی سطح پر 1812 ویں نمبر پر)، دیالہ یونیورسٹی دوسرے نمبر پر (عالمی سطح پر 3514 ویں نمبر پر)، اور یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی تیسرے نمبر پر (عالمی سطح پر 4051 نمبر پر)۔ عراق کے شہر بیرونی روابط عراقی سرکاری ویب سائٹ عراق برائے فروخت۔ یو ٹیوب
ur_Arab
جمہوریہ فرانس یا فرانس ایک خود مختار ریاست ہے جس کی عمل داری میں مغربی یورپ کا میٹروپولیٹن فرانس اور سمندر پار واقع متعدد علاقے اور عمل داریاں شامل ہیں۔ فرانس کا میٹروپولیٹن خطہ بحیرہ روم سے رودبار انگلستان اور بحیرہ شمال تک نیز دریائے رائن سے بحر اوقیانوس تک پھیلا ہوا ہے، جبکہ سمندر پار علاقوں میں جنوبی امریکا کا فرانسیسی گیانا اور بحر الکاہل و بحر ہند میں واقع متعدد جزائر شامل ہیں۔ ملک کے 18 خطوں (جن میں سے پانچ سمندر پار واقع ہیں) کا مکمل رقبہ 643,801 مربع کلومیٹر (248,573 مربع میل) ہے جس کی مجموعی آبادی (جون 2018ء کے مطابق) 67.26 ملین (چھ کروڑ اکہتر لاکھ چھیاسی ہزار چھ سو اڑتیس) نفوس پر مشتمل ہے۔ فرانس ایک وحدانی نیم صدارتی جمہوریہ ہے جس کا دار الحکومت پیرس ہے۔ یہ فرانس کا سب سے بڑا شہر اور ملک کا اہم ترین ثقافتی و اقتصادی مرکز ہے۔ دیگر اہم شہروں میں مارسئی، لیون، لیل، نیس، تولوز اور بورڈو قابل ذکر ہیں۔ وہ خطہ جو اس وقت میٹروپولیٹن فرانس کہلاتا ہے، آہنی دور میں اس جگہ سیلٹک قوم سے تعلق رکھنے والے گال آباد تھے۔ روم نے 51 ق م میں اس خطہ پر قبضہ کیا جو 476ء تک برقرار رہا۔ بعد ازاں جرمانی فرانک یہاں آئے اور انہوں نے مملکت فرانس کی بنیاد رکھی۔ عہد وسطیٰ کے اواخر میں فرانس نے جنگ صد سالہ (1337ء تا 1453ء) میں فتح حاصل کی جس کے بعد فرانس ایک بڑی یورپی طاقت بن کر ابھرا۔ نشاۃ ثانیہ کے وقت فرانسیسی ثقافت پروان چڑھی اور ایک عالمی استعماری سلطنت کی ابتدا ہوئی جو بیسویں صدی عیسوی تک دنیا کی دوسری عظیم ترین سلطنت سمجھی جاتی تھی۔ سولہویں صدی عیسوی میں کاتھولک اور پروٹسٹنٹ کے درمیان میں مذہبی جنگیں عروج پر تھیں اور یہ پوری صدی انہی جنگوں کے نام رہی، تاہم لوئی چودہواں کے زیر اقتدار فرانس یورپ کی غالب تمدنی، سیاسی اور فوجی طاقت بن گیا۔ اٹھارویں صدی عیسوی کے اواخر میں عظیم الشان انقلاب فرانس رونما ہوا جس نے مطلق العنان شہنشاہی کا خاتمہ کرکے عہد جدید کے اولین جمہوریہ کی بنیاد رکھی اور حقوق انسانی کے اعلامیہ کا مسودہ پیش کیا جو بعد میں اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے منشور کا محرک بنا۔ ان
ur_Arab
یسویں صدی عیسوی میں نپولین نے مسند اقتدار سنبھالنے کے بعد فرانسیسی سلطنت اول قائم کی۔ نپولین کے عہد میں لڑی جانے والی جنگوں نے پورے بر اعظم یورپ کو خاصا متاثر کیا۔ اس سلطنت کے زوال کے بعد فرانس سخت بد نظمی اور انتشار کا شکار رہا، بالآخر سنہ 1870ء میں فرانسیسی جمہوریہ سوم کی بنیاد پڑی۔ فرانس پہلی جنگ عظیم میں شامل تھا جس میں اسے معاہدہ ورسائے کی شکل میں فتح نصیب ہوئی، نیز وہ دوسری جنگ عظیم میں بھی متحدہ طاقتوں کے ساتھ تھا لیکن 1940ء میں محوری طاقتوں نے اس پر قبضہ کر لیا جس سے سنہ 1944ء میں فرانس کو آزادی ملی اور فرانسیسی جمہوریہ چہارم کا قیام عمل میں آیا لیکن یہ جنگ الجزائر کی وقت تحلیل ہو گیا۔ سنہ 1958ء میں چارلس ڈیگال نے فرانسیسی جمہوریہ پنجم کی بنیاد رکھی جو اب تک موجود ہے۔ سنہ 1960ء کی دہائی میں الجزائر اور تقریباً تمام نو آبادیاں فرانسیسی استعمار سے آزاد ہوئیں لیکن فرانس سے ان کے اقتصادی اور فوجی روابط اب بھی خاصے مستحکم ہیں۔ فرانس سینکڑوں برس سے فلسفہ، طبیعی علوم اور فنون لطیفہ کا عالمی مرکز رہا ہے۔ وہاں یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ مقامات بکثرت موجود ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے ہر سال تقریباً 83 ملین غیر ملکی سیاح آتے ہیں۔ فرانس ایک ترقی یافتہ ملک ہے جو خام ملکی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کی ساتویں اور مساوی قوت خرید کے لحاظ سے نویں بڑی معیشت سمجھا جاتا ہے۔ مجموعی خانگی دولت کے حساب سے فرانس دنیا کا چوتھا مالدار ترین ملک ہے۔ نیز تعلیم، نگہداشت صحت، متوقع زندگی اور انسانی ترقی کے میدانوں میں بھی فرانس کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ اقوام متحدہ کی سیکوریٹی کونسل میں حق استرداد حاصل ہونے کی بنا پر اسے دنیا کی عظیم طاقت اور باضابطہ جوہری قوت کا حامل ملک سمجھا جاتا ہے۔ ساتھ ہی یورو زون اور یورپی اتحاد کے سربرآوردہ ممالک میں اس کا شمار ہے۔ نیز وہ نیٹو، انجمن اقتصادی تعاون و ترقی، عالمی تجارتی ادارہ اور فرانسیسی بین الاقوامی تنظیم کا بھی رکن رکین ہے۔ اشتقاقیات لفظ "فرانس" لاطینی زبان کے لفظ "فرانکیا" سے ماخوذ ہے جو ابتدا میں پوری فرانکیا سلطنت کے لیے استعمال ہوتا تھا، اس کے معنی ہیں "فرانک کا وطن"۔ آج بھی یورپ کی بہت سی زبانوں میں جدید فرانس کا تقریباً یہی نام رائج ہے، چنانچہ اطالوی اور ہسپانو
ur_Arab
ی میں فرانسیا، جرمن میں فرانکریخ اور ولندیزی میں فرانک ریک کہا جاتا ہے اور ان سب ناموں کا ماخذ وہی مذکورہ تاریخی پس منظر ہے۔ لفظ "فرانک" کی ابتدا کے متعلق متعدد نظریات بیان کیے جاتے ہیں۔ ایڈورڈ گبن اور جیکب گرم کے پیشرووں کا خیال تھا کہ اس لفظ کا تعلق انگریزی لفظ "فرینک" (frank یعنی آزاد) سے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گال کی فتوحات کے بعد فرانک ہی تھے جو محصولات سے آزاد رہے، اسی لیے انہیں فرانک کہا جانے لگا۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ لفظ "فرانک" ابتدائی جرمنی زبان کے لفظ frankon سے مشتق ہے جس کے معنی چھوٹے نیزے یا برچھی کے ہیں اور چونکہ فرانک قوم نیزہ افگنی میں معروف تھی، اس لیے وہ فرانک مشہور ہوئے۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ فرانکوں کے استعمال کی بنا پر ان ہتھیاروں کا یہ نام پڑا، نہ کہ ہتھیاروں کے استعمال سے اس قوم کا نام فرانک ہوا۔ تاریخ ماقبل تاریخ (چھٹی صدی ق م سے قبل) موجودہ فرانس میں انسانی زندگی کے آثار اٹھارہ لاکھ برس سے پائے جاتے ہیں۔ ماضی میں یہاں انسانی آبادی کو ناخوشگوار اور بدلتے موسموں کا سامنا رہا جن میں سخت برفانی دور بھی آئے۔ یہاں ابتدائی انسانی انواع خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتی اور شکار کرکے اپنی غذا کا انتظام کرتی تھیں۔ فرانس میں بالائی قدیم سنگی دور کے منقش غاروں کی بڑی تعداد موجود ہے جن میں مشہور ترین اور محفوظ ترین غار لاسکو ہے جو اندازہً 18000 ق م کی ہے۔ برفانی دور کے اختتام (10000 ق م) کے وقت اس خطے کی آب و ہوا معتدل ہو گئی اور اندازہً سات ہزار ق م سے مغربی یورپ کا یہ حصہ نئے سنگی دور میں داخل ہوا اور اس کے باشندوں نے خانہ بدوشی ترک کر کے مستقل سکونت اختیار کی۔ آبادیاتی اور زراعتی ترقی کے بعد چوتھے اور تیسرے ہزارے کے درمیان میں فلزیات کا ظہور ہوا۔ ابتدا میں یہ لوگ سونا، تانبا اور کانسی کو استعمال کرتے رہے، بعد میں لوہے کا انکشاف ہوا۔ آج بھی فرانس میں نئے سنگی دور میں تعمیر شدہ متعدد سنگی عمارتیں موجود ہیں جن میں انتہائی کثیف کارناک پتھروں کا مقام خاصا مشہور ہے۔ یہ مقام اندازہً 3300 ق م کا ہے۔ عہد قدیم (چھٹی صدی ق م سے پانچویں صدی عیسوی تک) 600 ق م میں فوکائیا سے تعلق رکھنے والے ایونی یونانیوں نے بح
ur_Arab
یرہ روم کے ساحل پر مسالیا نامی نوآبادی قائم کی جہاں اس وقت مارسئی شہر آباد ہے، اس لحاظ سے مارسئی فرانس کا سب سے قدیم شہر سمجھا جاتا ہے۔ اسی اثنا میں کچھ سیلٹک قبائل فرانس کے بعض حصوں میں داخل ہوئے جو پانچویں صدی سے تیسری صدی ق م تک آہستہ آہستہ پورے فرانس پر قابض ہو گئے۔ ان کے مقبوضہ علاقوں کی سرحدیں دریائے رائن، بحر اوقیانوس، کوہ پائرینیس اور بحر متوسط پر محیط تھیں۔ موجودہ فرانس کی سرحدیں بھی تقریباً یہی ہیں جن میں سیلٹک گال آباد تھے۔ گال کے عہد میں یہ خطہ انتہائی خوش حال اور متمول تھا اور اس کا انتہائی جنوبی علاقہ یونانی اور رومی تہذیب و معاشیات سے بے حد متاثر تھا۔ 125 ق م کے آس پاس ملک گال کے جنوبی علاقہ کو رومیوں نے فتح کر لیا جو اسے ہمیشہ پرووِنشیا نوسٹرا (یعنی ہمارا خطہ) کہا کرتے تھے، موجودہ فرانس میں بھی یہ خطہ پروونس کہلاتا ہے۔ بعد ازاں 52 ق م میں جولیس سیزر نے گال کے سربراہ ورسنگے ٹورکس کی قیادت میں اٹھنے والی بغاوت کی لہر کو کچل کر ملک گال کے بقیہ حصوں کو بھی فتح کر لیا۔ آگستس نے گال کو رومی ریاستوں میں تقسیم کیا۔ اس گال رومی عہد میں متعدد شہر آباد ہوئے جن میں لوگدونوم (موجودہ لیون) قابل ذکر ہے، یہ شہر گالوں کا دار الحکومت سمجھا جاتا ہے۔ ان شہروں کو ٹھیٹھ رومی طرز میں تعمیر کیا گیا تھا جن میں ایک بڑی بیٹھک یا چوپال، تھیٹر، سرکس، ایمفی تھیٹر اور گرم حمام ہوا کرتے تھے۔ جلد ہی گال رومی نو آبادکاروں میں گھل مل گئے اور ان کی ثقافت و تمدن نیز ان کی زبان کو اختیار کر لیا۔ بعد میں ان دونوں کی زبانوں کے اشتراک سے فرانسیسی زبان پیدا ہوئی۔ نیز رومی کثرت پرستی گال کی بت پرستی میں مل کر امتزاج ضدین کا نمونہ بن گئی۔ ملک گال کی قلعہ بند سرحدوں پر بربری قبائل کے حملوں کی وجہ سے 250ء سے 280ء کی دہائی تک رومی گال زبردست بحران کا شکار رہے۔ چوتھی صدی عیسوی میں اس خطے کی صورت حال میں انقلاب آیا، یہ وہ عہد تھا جب رومی گال پھر سے بیدار ہوئے اور خوش حالی ان کا مقدر بنی۔ 312ء میں قسطنطین اعظم نے مسیحیت اختیار کر لی جس
ur_Arab
کے بعد پوری رومی سلطنت میں مسیحی (جو اب تک سخت عقوبتوں اور مصائب سے دوچار تھے) بہت تیزی سے پھیلے۔ لیکن پانچویں صدی عیسوی کے آغاز میں بربر حملے پھر شروع ہو گئے جن کی بنا پر متعدد جرمنی قبائل مثلاً وندال، سوئبی اور الان نے دریائے رائن عبور کرکے گال، ہسپانیہ اور زوال پزیر رومی سلطنت کے دوسرے حصوں میں بود و باش اختیار کی۔ اوائل عہد وسطیٰ (پانچویں صدی عیسوی سے دسویں صدی عیسوی تک) عہد قدیم کے ختم ہونے کے بعد قدیم گال متعدد جرمنی مملکتوں اور گال رومی عمل داری میں تقسیم ہو گیا، موخر الذکر گال رومی عمل داری مملکت سیاغریوس کے نام سے معروف ہوئی۔ اسی اثنا میں سیلٹک بریطون برطانیہ کی اینگلو سیکسن نوآبادی سے ارموریکا کے مغربی حصے میں اٹھ آئے اور ان کے آباد ہونے کے بعد جزیرہ نما ارموریکا کو بریتانیہ کہا جانے لگا۔نیز اس خطے میں دوبارہ سیلٹک تمدن و ثقافت پروان چڑھے اور چھوٹی چھوٹی مملکتیں وجود میں آئیں۔ بت پرست فرانک (جن کے نام فرانک سے "فرانسی" نام مشتق ہے) اصلاً ملک گال کے شمالی حصے میں آباد تھے، لیکن انہوں نے کلوویس اول کی زیر قیادت شمالی اور وسطی گال کی بیشتر مملکتوں کو زیر نگین کر لیا۔ سنہ 498ء میں کلوویس اول نے کاتھولک مسیحیت اختیار کر لی۔ سلطنت روم کے زوال کے بعد کلوویس پہلا فاتح تھا جس نے آریوسیت کی بجائے مسیحیت قبول کی۔ قبول مذہب کے بعد پاپائے روم نے فرانس کو "کلیسیا کی سب سے بڑی بیٹی" (فرانسیسی: La fille aînée de l'Église) کے لقب اور فرانسیسی بادشاہوں کو "مسیحی بادشاہ" (فرانسیسی: Rex Christianissimus) کے خطاب سے نوازا۔ اسی تبدیلی مذہب کے بعد فرانکوں نے مسیحی گال رومن ثقافت کو اپنا لیا اور ملک گال بتدریج فرانکیا (فرانکستان) میں تبدیل ہو گیا۔ نیز جرمن فرانکوں نے رومنی زبانیں بھی اختیار کر لیں، بجز شمالی گال کے جہاں رومی نو آبادیاں زیادہ گنجان نہیں تھیں؛ بلکہ اس خطے میں جرمن زبانوں کا ظہور ہوا۔ کلوویس نے پیرس کو اپنا دار الحکومت بنایا اور خاندان میروونجئین کی بنیاد رکھی، لیکن
ur_Arab
کلوویس کی وفات کے بعد یہ مملکت قائم نہیں رہ سکی۔ فرانکوں نے پوری سرزمین کو نجی جائداد سمجھ کر اسے ورثا میں تقسیم کر دیا اور یوں مملکت کلوویس کے حصے بخرے کرنے کے بعد چار مملکتیں وجود میں آئیں، پیرس، اوغلیوں، سواسون اور رمس۔ آخری میروونجئین بادشاہ محض کٹھ پتلی تھے اور ان کے پردے میں اصل حکمران ناظم محل ہوا کرتا تھا۔ انہی ناظموں میں سے ایک ناظم شارل مارٹل فرانکی مملکتوں میں بڑا معزز اور طاقت ور سمجھا جاتا تھا۔ اسی نے معرکہ بلاط الشہداء میں مسلمان فوجوں کو سخت ہزیمت دی تھی جس کے بعد بنو امیہ کے دور میں مسلمان جزیرہ آئبریا میں کبھی نہیں آئے۔ اس کے فرزند پیپن مختصر نے کمزور میروونجئین سے فرانکیا کا تخت حاصل کیا اور خاندان کیرولنجین کی بنیاد رکھی۔ پیپن کے بیٹے شارلیمین نے فرانکی مملکتوں کو متحد کرکے ایک وسیع و عریض سلطنت قائم کی جو مغربی اور وسطی یورپ پر محیط تھی۔ پوپ لیو سوم نے اسے مقدس شہنشاہ روم قرار دیا اور یوں حکومت فرانس کے کاتھولک کلیسیا سے مضبوط، طویل اور تاریخی تعلقات قائم ہوئے۔ نیز شارلیمین نے مغربی رومی سلطنت اور اس کی ثقافت و تمدن کے احیا کی بھی کوشش کی۔ شارلیمین کے بیٹے لوئی اول (814ء – 840ء) نے بھی اپنے عہد حکومت میں سلطنت کو متحد رکھا لیکن اس کی وفات کے بعد سلطنت متحد نہ رہ سکی۔ سنہ 843ء میں معاہدہ وردون کے تحت یہ سلطنت لوئی کے تین بیٹوں میں تقسیم ہو گئی؛ مشرقی فرانکیا لوئی جرمن کے پاس، وسطی فرانکیا لوتھر اول کے پاس اور مغربی فرانکیا شارل گنجے کے پاس چلے گئے۔ مغربی فرانکیا کے متعلق یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہ وہی خطہ ہے جہاں آج ملک فرانس موجود ہے۔ نویں اور دسویں صدی عیسوی میں فرانس پر وائکنگ کے متعدد حملے ہوئے جن کے نتیجے میں فرانس کی مرکزیت ختم ہو گئی۔ شرفا اور امرا کے خطاب اور جائدادیں موروثی قرار پائیں اور بادشاہ مزید مذہبی رنگ میں رنگ گئے۔ اس انتشار نے فرانس میں جاگیردارانہ نظام کو جنم دیا۔ بسا اوقات بادشاہ کے ماتحت جاگیردار اتنے طاقت ور ہو جاتے تھے کہ وہ خود بادشاہ کے لیے خطرہ بن جاتے۔ مثلاً 1066ء ميں
ur_Arab
معرکہ ہیسٹنگز کے بعد ولیم فاتح نے اپنے القاب میں "شاہ انگلستان" کا اضافہ کر لیا جس کے بعد اس کا رتبہ شاہ فرانس کے برابر ہو گیا۔ اس صورت حال نے تناؤ میں مزید اضافہ کیا۔ جغرافيہ فرانس کے چند علاقے سمندر پار شمالی و جنوبی امریکا، بحر الکاہل اور بحر ہند میں بھی واقع ہیں۔ یورپ میں فرانس کے ہمسایہ ممالک ہیں بلجیم، لگزمبرگ(لوگسام بورغ)، جرمنی، سوئٹزرلینڈ، اٹلی، مناکو، انڈورا(اندورا) اور اسپین۔ یورپ کے باہر فرانس کی سرحدیں برازیل، سورینام اور نیدرلینڈز سے ملتی ہیں۔ رياست اور سياست فرانس ایک متحدہ، نیم صدارتی، جمہوری ریاست ہے۔ فرانس کی بنیادیں اس کے آئین اور "آدمی اور شہری کے حقوق کا اعلان" ہیں۔ فرانس ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہے۔ فرانس یورپی یونین کے بانی ارکان میں سے ہے اور رقبے کے لحاظ سے اس کا سب سے بڑا رکن ہے۔ فرانس نیٹو کے بانی ارکان میں سے بھی ہے۔ فرانس اقوام متحدہ کے بانی ارکان میں سے بھی ہے اور سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے۔ فرانس دنیا کی سات ایٹمی طاقتوں میں سے ایک ہے۔ مذہب فرانس میں ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے سے کیتھولک مذہب ایک غالب مذہب رہا ہے، حالانکہ آج اس پر اتنا فعال طور پر عمل نہیں کیا جاتا جتنا پہلے تھا۔ فرانس میں 47,000 مذہبی عمارتوں میں سے 94% رومن کیتھولک ہیں۔ Institut Montaigne اور Institut français d'opinion publique (IFOP) کے 2016 میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق، فرانس کی کل آبادی کا 51.1% عیسائی تھا، 39.6% کا کوئی مذہب نہیں تھا (الحاد یا agnosticism)، 5.6% مسلمان تھے، 5% دوسرے عقائد کے پیروکار تھے، اور باقی 0.4% اپنے عقیدے کے بارے میں غیر فیصلہ کن تھے۔ فرانس میں مسلمانوں کی تعداد کے اندازے بڑے پیمانے پر مختلف ہیں۔ 2003 میں، فرانسیسی وزارت داخلہ نے اندازہ لگایا کہ مسلم پس منظر کے لوگوں کی کل تعداد 5 سے 6 ملین (8-10%) کے درمیان ہے۔ فرانس میں موجودہ یہودی کمیونٹی یورپ میں سب سے بڑی اور اسرائیل اور ریاستہائے متحدہ کے بعد دنیا میں تیسری سب سے بڑی ہے، جس کی تعداد 480,000 اور 600,000 کے درمیان ہے، جو کہ 2016 تک آبادی کا تقریباً 0.8% ہے۔ فہرست متعلقہ مضامین فرانس فہرست متعلقہ مضامین فرانس فرانس 1792ء میں قائم ہونے والے
ur_Arab
ممالک اور علاقے آزاد خیال جمہوریتیں اتحاد بحیرہ روم کے رکن ممالک افریقی ممالک اقوام متحدہ کے رکن ممالک الپائنی ممالک اوقیانوسی ممالک بحر اوقیانوس کے کنارے واقع ممالک بحر ہند کے ممالک بحیرہ روم کے ممالک جمہوریتیں جنوب مغربی یورپی ممالک جی 20 اقوام جی 20 ممالک فرانسیسی بین الاقوامی تنظیم کے رکن ممالک فرانسیسی زبان بولنے والے ممالک اور علاقہ جات کیریبین ممالک گروہ 8 کے ممالک مجلس یورپ کے رکن ممالک مغربی یورپ مغربی یورپی ممالک نیٹو کے رکن ممالک یورپ میں 1792ء کی تاسیسات یورپی اتحاد کے رکن ممالک یورپی ممالک دو براعظموں میں واقع ممالک علامت کیپشن یا ٹائپ پیرامیٹرز کے ساتھ خانہ معلومات ملک یا خانہ معلومات سابقہ ملک استعمال کرنے والے صفحات جی 7 اقوام ویکی ڈیٹا سے مطابقت رکھنے والی مختصر تفصیل
ur_Arab
اتوار کو عربی میں يوم الاحد یعنی پہلا دن کہا جاتا ہے۔ قديم مصری، يہودی اور ہندوستانی حساب سے یہ پہلا دن ہے۔ یورپ، امریکا اور دنیا کے کئی ممالک میں اتوار کو چھٹی ہوتی ہے۔ اتوار مسیحیت کے ماننے والوں کے مطابق عموماً مقدس دن سمجھا جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے پاکستان میں اتوار کے روز ہفتہ وار چھٹی ہوا کرتی تھی، بعد میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے جمعہ کے دن ہفتہ وار چھٹی کر دی، ایک طویل عرصے کے بعد میاں محمد نواز شریف کی حکومت نے پھر سے اتوار کو چھٹی کر دی اور تاحال پاکستان میں اتوار کی ہفتہ وار چھٹی جاری ہے۔ اتوار مسیحی تہوار اور مقدس ایام مشرقی مسیحی لطوریا ہفتہ کے دن کامنز زمرہ جس کا ربط ویکی ڈیٹا پر ہے ویکی ڈیٹا سے مطابقت رکھنے والی مختصر تفصیل
ur_Arab
منگل اسلامی حساب سے ہفتے کا تيسرا دن، يورپی و امريکی حساب سے دوسرا اور يہودی اور قديم مصری حساب سے تيسرا دن ہے۔ منگل ہفتہ کے دن ویکی ڈیٹا سے مطابقت رکھنے والی مختصر تفصیل
ur_Arab
بُدھ(انگریزی: Wednesday) يورپی و امريکی حساب سے تيسرا اور يہودی اور قديم مصری حساب سے چوتھا دن ہے۔ بدھ (دن) روزہ داری مسیحی تہوار اور مقدس ایام مشرقی مسیحی لطوریا ہفتہ کے دن ویکی ڈیٹا سے مطابقت رکھنے والی مختصر تفصیل
ur_Arab
جمعرات اسلامی حساب سے ہفتے کا پانچواں دن، يورپی و امريکی حساب سے چوتھا اور يہودی اور قديم مصری حساب سے پانچواں دن ہے۔ جمعرات مسیحی تہوار اور مقدس ایام مشرقی مسیحی لطوریا ہفتہ کے دن کامنز زمرہ جس کا ربط ویکی ڈیٹا پر ہے ویکی ڈیٹا سے مطابقت رکھنے والی مختصر تفصیل
ur_Arab
جمعہ اسلامی حساب سے ہفتے کاساتواں دن، يورپی و امريکی حساب سے پانچواں اور يہودی اور قديم مصری حساب سے چھٹا دن ہے۔ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِىُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ رُمْحِ بْنِ الْمُهَاجِرِ قَالاَ أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ح وَحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا لَيْثٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « إِذَا أَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْتِىَ الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ ». حدیث نبویؐ حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میں سے کوئی جمعہ (کی نماز) کے لیے آئے تو اسے چاہیے کہ غسل کرے۔ اسلام میں جمعہ کی اہمیت دین اسلام میں جمعہ کو سید الایام یعنی دنوں کا سردار کہا گیا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کے ہاں اس کو جمعۃ المبارک بھی کہا اور لکھا جاتا ہے۔ جمعہ مسیحی تہوار اور مقدس ایام مشرقی مسیحی لطوریا ہفتہ کے دن ویکی ڈیٹا سے مطابقت رکھنے والی مختصر تفصیل
ur_Arab
ہفتہ اسلامی حساب سے ہفتے کا آخری دن، يورپی و امريکی حساب سے چھٹا اور يہودی اور قديم مصری حساب سے آخری دن ہے۔ ہفتہ مشرقی مسیحی لطوریا موت کی رسومات ہفتہ کے دن ویکی ڈیٹا سے مطابقت رکھنے والی مختصر تفصیل
ur_Arab
زبان یا لسان ربط کا ایک ذریعہ جسے معلومات کا تبادلہ کرنے کے لیے استعمال کیاجاتا ہے۔ معلومات کا تبادلہ تحریری طور پر٬ اشاروں سے ، اشتہارات یا بصری مواد کے استعمال سے ، علامتوں کے استعمال سے یا براہ راست کلام سے ممکن ہیں۔ انسانوں کے علاوہ مختلف جاندار آپس میں تبادلہ معلومات کرتے ہیں مگر زبان سے عموماً وہ نظام لیا جاتا ہے جس کے ذریعے انسان ایک دوسرے سے تبادلۂ معلومات و خیالات کرتے ہیں۔ دنیا میں اس وقت بھی ہزاروں مختلف زبانوں کا وجود ہے جن میں سے کئی بڑی تیزی سے ناپید ہو رہی ہیں۔ مختلف زبانوں کی تخلیق و ترقی کا تجزیہ لسانیات کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ عام طور پر زبانیں معاشرے کی ضرورت اور ماحول کے اعتبار سے ظہور پزیر ہوتی اور برقرار رہتی ہیں لیکن زبانیں مصنوعی بھی ہوتی ہیں مثلاً اسپیرانتو اور وہ زبانیں جو کمپیوٹر (Computers) میں استعمال ہوتی ہیں۔ چیکوسلوواکیہ کی ایک مثل ہے کہ ایک نئی زبان سیکھو اور ایک نئی روح حاصل کرو: Learn a new language and get a new soul. یہ ایک حقیقت ہے کہ زبان کا بہت گہرا تعلق انسان کے ذہنی ارتقا سے ہے۔ اگرچہ زیادہ زبان جاننا بذات خود انسانی ارتقا کے لیے ضروری نہیں لیکن انسانی ارتقا کا تجربہ وہی لوگ کرتے ہیں جو ایک سے زیادہ زبانیں جانتے ہوں۔ مصر کے مشہور ادیب ڈاکٹر احمد امین نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں لکھاہے کہ پہلے میں صرف اپنی مادری زبان (عربی) جانتا تھا۔ اس کے بعد میں نے انگریزی سیکھنا شروع کیا۔ غیر معمولی محنت کے بعد میں نے یہ استعداد پیدا کرلی کہ میں انگریزی کتب پڑھ کر سمجھ سکوں۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب میں انگریزی سیکھ چکا تو مجھے ایسا محسوس ہوا گویا پہلے میں صرف ایک آنکھ رکھتا تھا اور اب میں دو آنکھ والا ہو گیا۔ یہ اللہ کا فضل ہے کہ میں اپنی مادری زبان کے علاوہ دوسری زبانیں سیکھنے کا موقع پاسکا۔ میں کم وبیش 5 زبانیں جانتاہوں: اردو، عربی، فارسی،انگریزی ،ہندی۔ اگر میں صرف اپنی مادری زبان ہی جانتا تو یقیناً معرفت کے بہت سے دروازے مجھ پر بند رہتے۔ زبان کے اقسام اور حیثیتیں زبان مادری زبان دوسری زبان سرکاری زبان دفتری زبان قومی زبان رابطہ کی زبان تحریری زبان اشاراتی زبان علامتی زبان متعلقہ مضامین لسانیات زبانوں کی فہرست فہرست ممالک بلحاظ بولی جانے والی زبانیں بیرونی روابط کیا دنیا کی ساری زبانیں ایک زبان سے نکلی ہیں؟ انسانی ابلاغیات بنیادی موضوع کے مقالہ جات زبان
ur_Arab
یں صوتی مضامین لسان لسانیات ویکی ڈیٹا سے مطابقت رکھنے والی مختصر تفصیل
ur_Arab
مصری (ضدابہام) عرب جمہوریہ مصر یا مصر، (قبطی زبان: Khēmi)، بر اعظم افریقا کے شمال مغرب اور بر اعظم ایشیا کے سنائی جزیرہ نما میں واقع ایک ملک ہے۔ مصر کا رقبہ 1،001،450 مربع کلو میٹر ہے۔ مصر کی سرحدوں کو دیکھا جائے تو شمال مشرق میں غزہ پٹی اور اسرائیل، مشرق میں خلیج عقبہ اور بحیرہ احمر، جنوب میں سوڈان، مغرب میں لیبیا اور شمال میں بحیرہ روم ہیں۔ خلیج عقبہ کے اس طرف اردن، بحر احمر کے اس طرف سعودی عرب اور بحیرہ روم کے دوسری جانب یونان، ترکی اور قبرص ہیں حالانکہ ان میں سے کسی کے ساتھ بھی مصر کی زمینی سرحد نہیں ملتی ہے۔ کسی بھی ملک کے مقابلے میں مصر کی تاریخ سب سے پرانی اور طویل ہے اور اس کی تاریخی ابتدا 6 تا 4 ملنیا قبل مسیح مانی جاتی ہے۔ مصر کو گہوارہ ثقافت بھی مانا جاتا ہے۔ قدیم مصر میں کتابے، زراعت، شہرکاری، تنظیم اور مرکزی حکومت کے آثار ملتے ہیں۔ مصر میں دنیا کے قدیم ترین یادگار عمارتیں موجود ہیں جو مصر کی قدیم وراثت، تہذیب، فن اور تقافت کی گواہی دیتی ہیں۔ ان میں اہرامات جیزہ، ابوالہول، ممفس، مصر، طیبہ اور وادی ملوک شامل ہیں۔ ان مقامات پر اکثر سائنداں اور محققین تحقیق و ریسرچ میں سرگرداں نطر آتے ہیں اور مصر کی قدیم روایات اور تاریی حقائق سے آشکارا کرتے ہیں۔ مصر کی قدیم تہذیب ہی وہاں کی قومی علامت ہے جسے بعد میں یونانی قوم، فارس، قدیم روم، عرب قوم، ترکی عثمانی اور دیگر اقوام نے متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ قدیم مصر مسیحیت کا ایک بڑا مرکز تھا لیکن 7ویں صدی میں مسلمانوں نے یہاں اپنے قدم جمانے شروع کیے اور مصر مکمل طور سے مسلم اکثریت ملک بن گیا مگر عیسائی بھی وہاں موجود رہے گوکہ اقلیت میں تھے۔ 16ویں صدی تا 20ویں صدی کے آغاز تک مصر پر بیرونی طاقتوں کے حکومت کی۔ شروع میں سلطنت عثمانیہ اور بعد میں سلطنت برطانیہ نے مصر کو اپنی حکومت کا حصہ بنایا۔ جدید مصر کا آغاز 1922ء سے ہوا جب مصر کو برطانیہ سے آزادی ملی مگر آزادیکے بعد وہاں بادشاہت قائم ہو گئی۔ البتہ اب بھی وہاں برطانوی فرج کا غلبہ تھا اور کئی مصریوں کا کہنا ہے کہ بادشاہت دراصل برطانیہ کی ایک چال تھی تاکہ مصر ان کی کالونی کا حصہ بنا رہے۔ مصری انقلاب، 1952ء میں مصریوں نے برطانوی فوج اور
ur_Arab
افسروں کو اپنے ملک سے بھگا دیا اور اس طرح مصر سے برطانیہ کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ برطانوی نہر سوئز کا قومیانہ کیا گیا اور شاہ فاروق اول کو مع اہل خانہ ملک بدر کر دیا گیا۔ اس طرح مصر ایک جمہوری ملک بن گیا۔ 1958ء میں جمہوریہ سوریہ کے ساتھ مل کر متحدہ عرب جمہوریہ کی بنیاد ڈالی گئی مگر 1961ء میں اسے تحلیل کرنا پرا۔ 20ویں صدی کے نصف آخر میں مصر میں سماجی اور مذہبی اتار چڑھاو دیکھنے کو ملا جس کی وجہ سیاسی عدم استحکام کی صورت حال پیدا ہو گئی اور اسی دوران میں 1948ء میں اسرائیل کے ساتھ تنازع، 1956ء میں سوئز بحران، 1967ء میں روزہ جنگ اور 1973ء میں جنگ یوم کپور جیسے نا خوشگوار واقعات رونما ہوئے۔ مصر نے 1967ء تک غزہ پٹی پر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ 1978ء میں مصر نے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ پر دستخط کیے اور غزہ پٹی سے اپنا قبضہ واپس لے لیا اور ساتھ اسرائیل کو ایک ملک کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔ ملک میں بدستور سیاسی ہنگامہ جاری رہا اور بے امنی کو دور دورہ رہا۔ 2011ء میں پھر ایک انقلاب برپا ہوا اور مصر کی سیاست میں زبردست تبدیلی آئی۔ اسی دوران مصر دہشت گردی کی زد میں رہا اور معاشی مسائل سے بھی دوچار رہا۔ مصر کی موجودہ حکومت بین صدارتی جمہوریہ ہے اور مصر کے موجودہ صدر عبدالفتاح السیسی ہیں۔ سیاست میں انہیں آمریت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مصر کا سرکاری مذہب اسلام ہے اور سرکاری زبان عربی ہے۔ مصر کی کل آبادی تقریباً 95 ملین ہے اور اس طرح یہ شمالی افریقا، مشرق وسطی اور عرب دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ نائیجیریا اور ایتھوپیا کے بعد بر اعظم افریقا کا تیسرا برا آبادی والا ملک ہے اور دنیا بھر میں بلحاظ آبادی اس کا نمبر 15واں ہے۔ ملک کی زیادہ تر آبادی دریائے نیل کے کنارے بسی ہے۔ ملک یا زیادہ تر زمینی حصہ صحرائے اعظم پر مشتمل ہے جو تقریباً ناقابل آباد ہے۔ کثیر آبادی والے علاقوں میں قاہرہ، اسکندریہ اور دریائے نیل کے جزیرے ہیں۔ مصر کی خود مختار ریاست شمالی افریقا، مشرق وسطی اور عالم اسلام میں ایک مضبوط حکومت مانی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں مصر ایک اوسط درجہ کی طاقتور حکومت ہے۔ مصر کی معیشت مشرق وسطی کی بڑی معیشتوں میں شمار کی جاتی ہے اور 21ویں صدی میں اس کے دنیا کی بڑی معیشتوں میں شمار ہونے کا امکان ہے۔ 2016ء میں جنوبی افریقا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے مصر نائیجیریا کے بعد افریقا کی سب سے بڑی معیش بن
ur_Arab
گیا۔ مصر مندرجہ ذیل تنظیموں کا بانی/شرک بانی اور رکن ہے؛ اقوام متحدہ غیر وابستہ ممالک کی تحریک عرب لیگ افریقی ممالک کی تحریک تنظیم تعاون اسلامی نام مصر (بکسر المیم) " (; "") is the کلاسیکی عربی خالص کلاسیکی عربی کا لفظ ہے اور قرآن میں بھی اسی نام سے پکارا گیا ہے۔ اس کا یہی نام زماہ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ البتہ مصری عربی میں " (; ) (بفتح المیم) کہتے ہیں۔ فہرست متعلقہ مضامین مصر فہرست متعلقہ مضامین مصر مزید دیکھیے شمس_الدین_سخاوی جمہوریہ مصر (1953–1958) متحدہ عرب جمہوریہ فہرست مصری صدور ابن میسر مصری نوال السعداوی
ur_Arab
علامہ شبلی نعمانی کی پیدائش اعظم گڑھ ضلع کے ایک گاؤں بندول جیراج پور میں4 /جون 1857ء کو ہوئی تھی- ابتدائی تعلیم گھر ہی پر مولوی فاروق چریاکوٹی سے حاصل کی- 1876ء میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔ وکالت کا امتحان بھی پاس کیا اور وکالت بھی کی مگر اس پیشہ سے دلچسپی نہ ہونے کے سبب ترک کر دی۔ علی گڑھ گئے تو سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی، چنانچہ فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہیں سے شبلی نے علمی و تحقیقی زندگی کا آغاز کیا۔ پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی سیکھی۔ 1892ء میں روم اور شام کا سفر کیا۔ 1898ء میں ملازمت ترک کرکے اعظم گڑھ آ گئے۔ 1913ء میں دار المصنفین کی بنیاد ڈالی۔ 1914ء میں انتقال ہوا۔ ابتدائی زندگی شبلی نعمانی کی پیدائش ایک مسلمان راجپوت گھرانے میں ہوئی۔ ان کے دادا شیوراج سنگھ جو کہ بیس النسل تھے، نے کئی دہائیوں قبل حبیب اللہ اور مقیمہ خاتون کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ ان کا نام ایک صوفی بزرگ، ابو بکر شبلی کے نام پر "شبلی" رکھا گیا، جو کہ [[جنید بغدادی] کے شاگرد تھے۔ بعد میں انہوں نے اپنے نام میں "نعمانی" کا اضافہ کر لیا۔ اگرچہ ان کے چھوٹے بھائی تعلیم کے لیے لندن، انگلینڈ گئے (اور بعد میں واپس آئے، وہ ایک بیرسٹر کی حیثیت سے الہ آباد ہائی کورٹ میں ملازم تھے)، لیکن شبلی نعمانی نے روایتی اسلامی تعلیم حاصل کی۔ ان کے استاد کا نام مولانا فاروق چڑیا کوٹی تھا، جو کہ ایک منطقی عالم اور سر سید احمد خان کے خلاف کھل کر کلام کرنے والے مخالفین میں شامل تھے۔ اس سے ان کا علی گڑھ اور سر سید کے ساتھ تعلق کی وجہ معلوم ہوتی ہے۔ چڑیا کوٹ سے تعلق خاص اہمیت رکھتا ہے، ڈیویڈ لیلی ویلڈ کہتا ہے کہ "چڑیا کوٹ علماء کی ایک منفرد عقلیت پسند اور فلسفی مکاتب کا مرکز تھا، جس نے معتزلہ الہیات، شروعاتی عرب یونانی سائنس اور فلسفے کی ترقی کے ساتھ ساتھ سنسکرت اور عبرانی جیسی زبانوں کا علم حاصل کیا۔" اس لیے نعمانی کے پاس علی گڑھ کی طرف متوجہ اور دور ہونے کی وجوہات تھیں۔ حتی کہ علی گڑھ میں فارسی اور عربی کے استاد کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد بھی، انھوں نے کالج میں فکری ماحول کو ہمیشہ مایوس کن پایا، اور آخر کار علی گڑھ چھوڑ دیا کیوں کہ انھیں یہ غیر سازگار معلوم ہوا، حالانکہ انھوں نے 1898ء میں
ur_Arab
سر سید کی وفات کے بعد تک رسمی طور پر کالج سے استعفا نہیں دیا تھا۔ شبلی مشرق وسطیٰ میں شبلی نعمانی نے علی گڑھ میں سولہ سال تک فارسی اور عربی زبان کی تدریس کی، جہاں ان کی ملاقات تھامس آرنلڈ اور دیگر برطانوی اسکالرز سے ہوئی جن سے انہوں نے جدید مغربی نظریات اور افکار سمجھنے کا آغاز کیا۔ انہوں نے 1892ء میں تھامس آرنلڈ کے ساتھ سلطنت عثمانیہ بشمول شام، ترکی اور مصر اور مشرق وسطیٰ کے دیگر مقامات کا سفر کیا اور وہاں کے معاشروں کا براہ راست اور عملی تجربہ حاصل کیا۔ قسطنطنیہ میں انہوں نے سلطان عبد الحمید ثانی سے تمغہ حاصل کیا۔ ان کی علمی و ادبی قابلیت نے ایک طرف تھامس آرنلڈ کو ان سے متاثر کیا، تو دوسری طرف وہ خود تھامس آرنلڈ سے کافی حد تک متاثر ہوئے اور اس سے ان کے خیالات میں جدید نظریات شامل ہوتے ہیں۔ قاہرہ میں ان کی ملاقات معروف اسلامی اسکالر محمد عبدہ (1849-1905) سے ہوئی۔ حیدرآباد اور لکھنؤ میں 1898ء میں سر سید احمد خان کی وفات کے بعد، انہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی کو باضابطہ چھوڑ کر ریاست حیدر آباد کے محکمہ تعلیم میں مشیر بن گئے۔ انہوں نے حیدر آباد کے تعلیمی نظام میں بہت سی اصلاحات کا آغاز کیا۔ ان کی پالیسی سے حیدرآباد کی عثمانیہ یونیورسٹی نے اردو کو ذریعہ تعلیم کے طور پر اپنایا۔ اس سے پہلے ہندوستان کی کسی اور یونیورسٹی نے اعلیٰ تعلیم میں کسی مقامی زبان کو ذریعہ تعلیم کے طور پر اختیار نہیں کیا تھا۔ ندوۃ العلما لکھنؤ میں شبلی نعمانی کا مزاج تعلیمی اصلاحات و انقلاب کا تھا، چنانچہ اس عہد کی اصلاح تعلیم کے لیے اٹھنے والی سب سے مؤثر تحریک ندوۃ العلما سے اول دن سے منسلک اور متحرک، یہاں تک کہ ان کے بنیادی فکری بانیان میں سے ہوئے۔ 1905ء میں، وہ حیدرآباد چھوڑ کر دار العلوم ندوۃ العلما منتقل ہو گئے، وہاں انھوں نے تدریس و تعلیم اور نصاب میں اصلاحات کا آغاز کیا۔ وہ پانچ سال تک اس میں رہے، لیکن علماء کا روایتی طبقہ ان کی اصلاحات و انقلاب کی وجہ سے ان کے خلاف ہو گیا، بالآخر انہیں 1913ء لکھنؤ چھوڑنا پڑا اور اپنے آبائی وطن اعظم گڑھ چلے گئے۔ دارالمصنفین کا قیام علامہ شبلی نعمانی، یورپ کے طرز پر اردو زبان میں ایک تحقیقی اکیڈمی قائم کرنا چاہتے تھے، جہاں سے محقق علما مصنفین کو تیار کیا جائے اور وہاں سے اسلام اور مسلمانوں پر تحقیقی کام ہو۔ پہلے پہل علامہ شبلی وہ دار المصنفین
ur_Arab
کو ندوہ کے احاطہ میں قائم کرنا چاہتے تھے لیکن وہ اس وقت ایسا نہ کر سکے اور انھیں دار العلوم چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ چنانچہ انہوں نے اس کے لیے اپنا بنگلہ اور آم کے باغ کو وقف کر دیا اور اپنے خاندان کے افراد اور رشتہ داروں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دی اور انھیں راضی کر لیا۔ انہوں نے اپنے شاگردوں اور دیگر نامور افراد کو خطوط لکھا اور ان سے تعاون طلب کیا۔ بالآخر ان کے شاگردوں نے خاص طور سے سید سلیمان ندوی نے اپنے استاذ کا یہ خواب پورا کیا اور اعظم گڑھ میں دار المصنفین قائم کیا۔ ادارے کا پہلا افتتاحی اجلاس علامہ کی وفات کے تین دن کے اندر 21 نومبر 1914ء کو ہوا۔ علمی تعارف شبلی کا شمار اردو تنقید کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی شخصیت اردو دنیا میں بطورشاعر، مورخ، سوانح نگار اورسیرت نگار کی حیثیت سے بھی مسلم ہے۔ شبلی کے تنقیدی نظریات و افکار مختلف مقالات اور تصانیف میں بکھرے ہوئے ہیں لیکن یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کو شاعری اور شاعری کی تنقید سے خاص انسیت تھی۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ شاعری اور اس کے دیگر لوازمات سے متعلق اپنے نظریات کو مفصل طور سے "شعرالعجم" میں پیش کیا بلکہ عملی تنقید کے نمونے "موازنۂ انیس و دبیر" میں پیش کیے۔ یہاں شبلی کی جانب داری یا غیر جانب داری سے مجھے سروکار نہیں بلکہ اصول و نظریے سے بحث درکار ہے۔ "موازنے" میں مرثیہ نگاری کے فن پر اصولی بحث کے علاوہ فصاحت، بلاغت، تشبیہ و استعارے اور دیگر صنعتوں کی تعریف و توضیح اور اس کے مختلف پہلوؤں پر بھی شبلی نے روشنی ڈالی ہے، جس سے ہمیں ان کے تنقیدی شعور کا اندازہ ہوتا ہے۔ شبلی کے نظریۂ تنقید کو سمجھنے کے لیے ان کی مذکورہ دونوں کتابیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں یعنی "شعرالعجم" اور موازنۂ انیس و دبیر۔ انہوں نے "شعرالعجم" کی چوتھی اور پانچویں جلدمیں شاعری، شعر کی حقیقت اور ماہیت، لفظ و معنیٰ اور لفظوں کی نوعیتوں پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس لحاظ سے ان کی یہ تصنیف خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہے ،کیوں کہ انہیں میں انہوں نے اردو کی جملہ کلاسیکی اصناف شاعری کا محاکمہ کیا ہے۔ اردو کی شعری تنقید کو سمجھنے کے لیے ہم
ur_Arab
اردو والوں کے لیے یہ کتابیں نوادر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کیوں کہ انہیں دونوں میں مندرجہ بالا تمام امور کی صراحت و وضاحت انہوں نے پیش کی ہے۔ "شعرالعجم" کی چوتھی جلد کی ابتدا ہی میں فرماتے ہیں کہ" جو بحثیں اگلے حصوں میں نا تمام رہ گئی تھیں، ان کو اب تفصیل سے لکھتا ہوں۔ یہ حصہ تین فصلوں پر منقسم ہے:1۔ شاعری کی حقیقت اور ماہیت، 2۔ فارسی شاعری کی عام تاریخ اور تمدن اور دیگر اسباب کا اثر اور 3۔ تقریظ و تنقید۔ دراصل شعرالعجم شبلی کی وہ کتاب ہے،جس میں انہوں نے اپنے خیالات بالخصوص فنِ شاعری کے بارے میں اپنے مطالعے، مشاہدے اور تجربے کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ شاعری کے اصلی عناصر، تاریخ اور شعر کا فرق، شاعری اور واقعہ نگاری کا فرق جیسے مسائل پر مدلل بحث کی ہے تاکہ شاعری کے جملہ معاملات واضح ہو جائیں۔ اس کے لیے وہ لفظ اور معنیٰ کی بھی بحث کرتے ہیں اور ان کی مختلف نوعیتوں کو پیش بھی کرتے ہیں۔ وہ شاعری کو ذوقی اور وجدانی شے کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شاعری کی جامع تعریف پیش کرنا آسان نہیں بلکہ مختلف ذریعوں سے اور مختلف انداز میں اس حقیقت کا ادراک ہو سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں: " شاعری چونکہ وجدانی اور ذوقی چیز ہے، اس لیے اس کی جامع و مانع تعریف چند الفاظ میں نہیں کی جا سکتی اِس بنا پر مختلف طریقوں سے اس کی حقیقت کا سمجھانا زیادہ مفید ہوگا کہ ان سب کے مجموعہ سے شاعری کا ایک صحیح نقشہ پیش نظر ہو جائے۔" شبلی نے مختلف مثالوں سے شاعری کی اہمیت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے نزدیک شاعری کا منبع ادراک نہیں بلکہ احساس ہے۔ اس کے بعد وہ ادراک اور احساس کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ: خدا نے انسان کو مختلف اعضا اور مختلف قوتیں دی ہیں۔ ان میں سے دو قوتیں تمام افعال اور ارادات کا سر چشمہ ہیں، ادراک اور احساس، ادراک کا کام اشیا کا معلوم کرنا اور استدلال اور استنباط سے کام لینا ہے۔ ہر قسم کی ایجادات، تحقیقات، انکشافات اور تمام علوم و فنون اسی کے نتائج عمل ہیں۔ احساس کا کام کسی چیز کا ادراک کرنا یا کسی مسئلے کا حل کرنا یا کسی بات پر غور کرنا اور سوچنا نہیں ہے۔ اس کا کام صرف یہ ہے کہ جب کوئی موثر واقعہ پیش آتا ہے تو وہ متاثر
ur_Arab
ہو جاتا ہے، غم کی حالت میں صدمہ ہوتا ہے، خوشی کی حالت میں سرور ہوتا ہے، حیرت انگیز بات پر تعجب ہوتا ہے، یہی قوت جس کو انفعال یا فیلنگ سے تعبیر کر سکتے ہیں شاعری کا دوسرا نام ہے، یعنی یہی احساس جب الفاظ کا جامہ پہن لیتا ہے تو شعر بن جاتا ہے۔" شبلی کے شاعری سے متعلق یہ بنیادی خیالات ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان متاثر ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مختلف واقعات اس پر اثر کرتے ہیں اور اس طرح اس پر مختلف کیفیات طاری ہوتی ہیں۔ ان کے نزدیک یہ کم و بیش ایک ایسی کیفیت ہے جو شیر کو گرجنے، مور کو چنگھاڑنے، کوئل کو کوکنے، مور کو ناچنے اور سانپ کو لہرانے پر مجبور کرتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شاعری میں جذبات کی اہمیت کے قائل ہیں۔ جذبات کے بغیر شاعری کا وجود نہیں ہوتا اور وہ جذبات سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہیجان اور ہنگامہ برپا کرنا نہیں بلکہ جذبات میں زندگی اور جولانی پیدا کرنا ہے۔ شبلی کے نزدیک شاعری کے لیے جذبات ضروری ہیں۔ شبلی کے تصور کے اعتبار سے تمام عالم ایک شعر ہے۔ زندگی میں ہر جگہ شاعری بکھری پڑی ہے اور جہاں شاعری موجود ہے وہاں زندگی ہے۔ ایک یورپین مصنف کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ "ہر چیز جو دل پر استعجاب یا حیرت یا جوش اور کسی قسم کا اثر پیدا کرتی ہے، شعر ہے ۔" اس بناپر فلک نیلگوں، نجمِ درخشاں، نسیم سحر، تبسم گل، خرام صبا، نالہ بلبل، ویرانی دشت، شادابی چمن، غرض تمام عالم شعر ہے" اور ساری زندگی میں یہ شعریت پائی جاتی ہے۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شبلی کے تنقیدی نظریات شاعری کے جمالیاتی پہلو پر زور دیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر سید عبد اللہ "اشاراتِ تنقید" میں لکھتے ہیں کہ: "یہ تو ظاہر ہے کہ شبلی کی تنقید میں اجتماعی اور عمرانی نقطہ نظر بھی ہے مگر اس کے باوجود ان کا مزاج، جمالیاتی اور تاثراتی رویے کی طرف خاص جھکاؤ رکھتا ہے۔" شبلی کے نزدیک شاعری تمام فنونِ لطیفہ میں بلند تر حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ تاثر کے لحاظ سے بہت سی چیزیں مثلاً موسیقی، مصوری، صنعت گری وغیرہ اہم ہیں مگر شاعری کی اثر انگیزی کی حد سب سے زیادہ وسیع ہے۔ شاعری کے سلسلے میں وہ محاکات کا ذکر کرتے ہیں اور پھراس
ur_Arab
کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: "محاکات کے معنیٰ کسی چیز یا کسی حالت کا اس طرح ادا کرنا ہے کہ اس شے کی تصویر آنکھوں میں پھر جائے۔ تصویر اور محاکات میں یہ فرق ہے کہ تصویر میں اگرچہ مادی اشیا کے علاوہ حالات یا جذبات کی بھی تصویر کھینچی جا سکتی ہے۔ ۔۔ تاہم تصویر ہر جگہ محاکات کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ سینکڑوں گوناگوں حالات و واقعات تصور کی دسترس سے باہر ہیں۔" وہ صرف محاکات کی تعریف ہی پر بس نہیں کرتے بلکہ محاکات کن کن چیزوں سے قائم ہوتی ہے۔ اس کی بھی تفصیل بیان کرتے ہیں۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے تخیل، جدت ادا اورالفاظ کی نوعیت، کیفیت اور اثر کی بات کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک لفظ جسم ہیں اور مضمون روح ہے۔ اس مسئلے پر اہل فن کے دو گروہ ہیں ایک لفظ کو ترجیح دیتا ہے اور دوسرا معنیٰ کو۔ شبلی کا زور لفظ پر زیادہ ہے۔ لفظ اور معنی کی بحث میں لفظوں کی اقسام اور ان کی نوعیت کی صراحت کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں : "الفاظ متعدد قسم کے ہوتے ہیں، بعض نازک، لطیف، شستہ، صاف، رواں اور شیریں اور بعض پر شوکت، متین، بلند، پہلی قسم کے الفاظ عشق و محبت کے مضامین ادا کرنے کے لییموزوں ہیں، عشق اور محبت انسان کے لطیف اور نازک جذبات ہیں، اس لیے ان کے ادا کرنے کے لیے لفظ بھی اسی قسم کے ہونے چاہئیں۔" لفظ اور معنیٰ کی بحث نہایت دلچسپ ہے۔ فصیح اورمانوس الفاظ کا اثر، سادگی ادا، جملوں کے اجزا کی ترکیب پر اپنی آرا کا اظہار کرتے ہوئے شبلی اس کے اثر کی بھی بات کرتے ہیں۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ خیال یا مضمون کتنا ہی عمدہ کیوں نہ ہو اگر لفظ عمدہ نہیں ہوں گے تو خیال کا اثر جاتا رہے گا۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ آب زم زم کی مثال کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں۔ اگر آپ کو کوئی گندے پیالے میں آبِ زم زم پینے کو دے تو آپ آبِ زم زم کے تقدس کی وجہ سے پانی تو پی لیں گے لیکن آپ کی طبیعت میلی ہو جائے گی۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس مثال میں پیالہ لفظ کی نمائندگی کر رہا ہے اور پانی مضمون کی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خیال کی عمدگی کے ساتھ ساتھ الفاظ کا عمدہ ہونا بھی ضروری ہے۔ شبلی نے اردو کی تمام کلاسیکی اصناف کا جائزہ لیا ہے اور اس پر اپنی رائے
ur_Arab
قائم کی ہے۔ ان کا نقطۂ نظر تاثراتی اور جمالیاتی نظر آتا ہے لیکن شاعری کی دوسری خوبیوں پر بھی ان کی نگاہ رہتی ہے۔ موازنۂ انیس و دبیر میں انہوں نے شاعری کی صنعتوں کی جس طرح تشریح پیش کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس لیے جس صنعت کے ضمن میں انہوں نے جو شعر نقل کیے ہیں۔ ہم آج بھی اس کے حصار سے کلی طور سے باہر نہیں نکل سکے ہیں۔ اردو کی نظریاتی تنقید کو فروغ دینے اور اسے ایک مثبت سمت دینے میں شبلی اور الطاف حسین حالی نہایت اہم ہیں۔ انہیں کی بدولت اردو تنقید کا چراغ روشن سے روشن تر ہوا۔ مشہور تصانیف الفاروق سوانح مولانا روم علم الکلام المامون موازنہ دبیر و انیس شعر العجم مقالات شبلی سیرت النعمان سیرت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم الغزالی سفر نامہ روم و مصر و شام شبلی کی آپ بیتی مرتبہ ڈاکٹر خالد ندیم (دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ) اردو ترجمہ مکاتیب شبلی از ڈاکٹر خالد ندیم (دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ) شروع میں شبلی اپنے خاندانی اثر کے مطابق مذہبی لحاظ سے مضبوط فکر کے حامل ہوا کرتے تھے پھر سر سیّد احمد خان کی قائم شدہ علی گڑھ یونیورسٹی سے تعلق کے بعد شبلی وسيع النظرہوگئے۔
ur_Arab
جون گريگورين سال کا چھٹا مہینا ہے۔ شمالی نصف کرہ میں اس مہينے ميں گرمی کا موسم ہوتا ہے۔ اس کا نام قدیم روم کی دیوی یا خدا جونو (Juno) کے نام پر رکھا گیا جسے قدیم رومی ریاست کی حفاظت کی دیوی یا خدا مانتے تھے۔ 21 جون سال کا سب سے لمبا دن ہوتا ہے۔ * مہینے کامنز زمرہ جس کا ربط ویکی ڈیٹا پر ہے ویکی ڈیٹا سے مطابقت رکھنے والی مختصر تفصیل
ur_Arab
ستمبر گريگورين تقویمی سال کا نواں مہينہ ہے۔153 سال قبل مسیح سے پہلے یہ ساتواں مہینہ تھآ جس سے اس کا نام پڑا کیونکہ لاطینی زبان میں سپتم (septem) کا مطلب 'ساتواں' کے ہوتے ہیں۔ شمالی نصف کرہ میں اس مہينے ميں گرمیوں کا موسم ختم ہوتا ہے اور خزاں کا موسم شروع ہوتا ہے۔ * مہینے ویکی ڈیٹا سے مطابقت رکھنے والی مختصر تفصیل
ur_Arab
مولوی رحمت اللہ کیرانوی اسلام اور اہل سنت کے بڑے پاسبانوں میں سے تھے۔ جس زمانے میں ہزاروں یورپی مشنری، انگریز کی پشت پناہی میں ہندوستان کے مسلمانوں کو مسیحی بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے، مولوی رحمت اللہ اور ان کے ساتھی مناظروں، تقریروں اور پمفلٹوں کے ذریعے اسلامی عقائد کے دفاع میں مصروف تھے۔ 1270ھ بمطابق 1854ء یعنی جنگ آزادی سے تین سال قبل رحمت اللہ کیرانوی نے آگرہ میں پیش آنے والے ایک معرکہ کے مناظرہ میں مسیحیت کے مشہور مبلغ پادری فینڈر بحث کی۔ جنگ آزادی 1857ء میں کیرانوی صوفی شیخ حاجی امداد اللہ (مہاجر مکی) کی قیادت میں انگریز کے ساتھ قصبہ تھانہ بھون میں انگریز کے خلاف جہاد میں شامل ہوئے اور شاملی کے بڑے معارکہ میں بھی شریک ہوئے۔ انگریز کی فتح کے بعد کیرانوی دیگر مجاہدین کی طرح ہجرت کرکے حجاز چلے گئے۔ یہاں آپ نے پادری فنڈر کی کتاب میزان الحق کا جواب اظہار الحق تحریر فرمایا۔ حجاز سے سلطان ترکی کے بلانے پر قسطنطنیہ (حالیہ استنبول) گئے اور وہاں مسیحیوں سے مناظرے کیے، وہاں سے اظہار الحق شائع بھی ہوئی۔ قسطنطنیہ کے مناظروں اور اظہار الحق کے متعلق مشہور مستشرق گارسان وتاسی کے مقالات میں ہے؛ مکہ میں کیرانوی نے، ایک نیک خاتون بیگم صولت النساء کے فراہم کردہ عطیے سے ایک مدرسہ مدرسہ صولتیہ قائم کیا جو حجاز مقدس میں اصول میں اہل سنت اور فروع میں حنفی فقہ پر چلنے والوں کا نمائندہ ادارہ ہے۔ سوانح 1:- مجاھد اسلام مولانا رحمت اللہ کیرانوی /مولانا اسیرادروی (فی الاردیۃ) 2:- آثار رحمت /امداد صابری (فی الاردیۃ) 3:- ذکرو فکر دہلی کا مولانا رحمت اللہ کیرانوی نمبر (فی الاردیۃ) 4؛- رحمہ اللہ الهندي ركن الحرمين الشريفين /محمد مصطفى خميس (فی العربیۃ) 5. دراسة العقائد النّصرانيّة: منهجيّة ابن تيميّة ورحمت اللہ الهنديّ للأستاذ محمّد اللاّفي(فی العربیۃ) 6. ایک مجاہد مولانا رحمت اللہ کیرانوی /ہندی 7. مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور ان کے معاصرین: از حکیم محمود احمد ظفر سیالکوٹی تصانیف 1. إ
ur_Arab
ظهار الحق ت: ملكاوي (فی العربیۃ) 2. مختصر اظہار الحق (فی الاردیۃ) 3. بائبل سے قرآن تک /اظہار الحق کا اردو ترجمہ مع تشریح و تحقیق (3 جلدیں) 4. عیسائیت ؟ یہ کتاب اظہار الحق کا جامع اختصار ہے جسے عرب عالم ڈاکٹر ملکاوی نے مرتب کیا اور اردو ترجمہ مولانا صفی الرحمن مبارکپوری نے کیا ہے 5. اظہار الحق انگریزی ترجمہ 6. التنبيهات فى إثبات الاحتياج إلى البعثة والحشر (فی العربیۃ) 7. احسن الاحادیث فی ابطال التثلیث (فی الاردیۃ) 8. ازالۃ الاوھام اردو ترجمہ (2) 9. بشرية المسيح ونبوة محمد صلى اللہ عليہ وسلم في نصوص كتب العهدين القسم الثانی للمناظرۃ الکبری بین الامام العلامۃ العبقری الشیخ رحمت اللہ الکیرانوی و المسیحی فندر (فی العربیۃ) 10. اعجاز عیسوی (فی الاردیۃ) 11. ازالۃ الشکوک /تحقیق و تسہیل:- مولانا عتیق احمد بستوی (4 جلدیں) (فی الاردیۃ) 12. المناظرة التقريرية بين الشيخ رحمت اللہ الهندي والقسيس بفندر (فی العربیۃ) 13. مناظرۃ الہند الکبریٰ (فی العربیۃ)سبھی کتب کا یکجا آرکائیو لنکبھی دستیاب ہے،
ur_Arab
نومبر گريگورين سال کا گيارہواں مہينہ ہے۔ پرانی رومی تقویم میں یہ نواں مہینہ ہوتا تھا چنانچہ اسے نومبر کہا جاتا تھا۔ نوم (novem) لاطینی زبان میں 'نو' (9) کو کہا جاتا ہے۔۔ شمالی نصف کرہ میں اس مہينے ميں خزاں کا موسم ہوتا ہے۔ نومبر کے واقعات امریکا میں نومبر کی چوتھی جمعرات کو تھینکس گونگ ڈے منایا جاتا ہے۔ امریکا میں 11 نومبر کو ویٹیرنز ڈے منایا جاتا ہے۔ کینیڈا میں 11 نومبر کو ریمیمبرنس ڈے منایا جاتا ہے۔ * مہینے کامنز زمرہ جس کا ربط ویکی ڈیٹا پر ہے ویکی ڈیٹا سے مطابقت رکھنے والی مختصر تفصیل
ur_Arab
مئی گريگورين سال کا پانچواں مہينہ ہے۔ شمالی نصف کرہ میں اس مہينے ميں بہار کا موسم ہوتا ہے۔ اس کا نام قدیم یونان کی دیوی مائیا (انگریزی:Maia، یونانی:Μαῖα) کے نام پر رکھا گیا جو یونان اور روم میں زمین اور عورت کی زرخیزی کی دیوی یا خدا سمجھی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ اسے پہاڑوں کی دیوی یا خدا بھی سمجھا جاتا تھا۔ * مہینے کامنز زمرہ جس کا ربط ویکی ڈیٹا پر ہے ویکی ڈیٹا سے مطابقت رکھنے والی مختصر تفصیل
ur_Arab
اکتوبر گريگورين سال کا دسواں مہينہ ہے۔ پرانی رومی تقویم میں یہ آٹھواں مہینہ ہوتا تھا چنانچہ اسے اکتوبر کہا جاتا تھا اکتو (octo) یونانی زبان میں آٹھ کو کہا جاتا ہے۔ شمالی نصف کرہ میں اس مہينے ميں خزاں کا موسم ہوتا ہے * مہینے کامنز زمرہ جس کا ربط ویکی ڈیٹا پر ہے ویکی ڈیٹا سے مطابقت رکھنے والی مختصر تفصیل
ur_Arab
جنوری گريگورين سال کا پہلا مہینہ ہے۔ شمالی نصف کرہ میں اس مہينے ميں سردی کا موسم ہوتا ہے جبکہ جنوبی نصف کرہ میں گرمیوں کا۔ قدیم زمانہ میں یہ سال کا گیارہواں مہینہ شمار ہوتا تھا۔ نام اس مہینے کا نام قدیم روم کے دروازوں اور راستوں کے دیوتا ”جینس“ یا ”جانوس“ (Janus) کے نام پر رکھا گیا، وہ دیوتا دروازوں اور راستوں کی نگہبانی کرتا تھا۔ اسی سے مشتق ایک اور لفظ Janitor کا مطلب بھی دربان ہوتا ہے۔ وفات 1940ء – تبسم کاشمیری، پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز نقاد، محقق، شاعر،ناول نگار، ادبی مورخ اور اُردو ادب کی تاریخ، ابتدا سے 1857ء تک کے مصنف ہیں۔ </font></td></tr></table> * مہینے ویکی ڈیٹا سے مطابقت رکھنے والی مختصر تفصیل
ur_Arab
فروری گريگورين سال کا دوسرا مہينہ ہے۔ شمالی نصف کرہ میں اس مہينے ميں سردی کا موسم ہوتا ہے جبکہ جنوبی نصف کرہ میں گرمیوں کا۔ فروری قدیم زمانہ میں سال کا آخری مہینہ ہوتا تھا اور اس میں سال کے باقی بچ جانے والے دن رکھے گئے اسی لیے اس میں کم دن ہیں۔ اس مہینہ کا نام قدیم زمانہ روم میں پاکیزگی (februum) پر رکھا گیا کیونکہ اس سال کے آخری مہینہ میں بہار شروع ہونے سے پہلے ایک میلہ لگتا تھا جس میں پاکیزگی اور صفائی حاصل کرنے کے لیے مختلف رسومات ادا کی جاتی تھیں۔ * مہینے ویکی ڈیٹا سے مطابقت رکھنے والی مختصر تفصیل
ur_Arab
مارچ گريگورين سال کا تيسرا مہينہ ہے۔ شمالی نصف کرہ میں اس مہينے ميں سردی کا موسم ختم ہوتا ہے اور بہار کا آغاز ہوتا ہے جبکہ جنوبی نصف کرہ میں خزاں کا آغاز ہے۔ قدیم روم میں یہ سال کا پہلا مہینہ ہوتا تھا۔ اس کا نام قدیم روم کے جنگ کے دیوتا مارس کے نام پر رکھا گیا تھا۔ مارس کو جنگ کا دیوتا خیال کیا جاتا تھا اور یہ بھی خیال کیا جاتا تھا کہ وہ اپنے بیٹوں Romulus and Remus کے ساتھ مل کر کھیتی باڑی کی نگہبانی کرتا ہے یو مارس دیوتا کے مہینے (مارچ)میں ہی کھیتی باڑی اور جنگ کا آغاز ہوا کرتا تھا۔ غالباً 153 قبل مسیح تک مارچ کا مہینہ ہی رومن کیلنڈر کا پہلا مہینہ تسلیم کیا جاتا رہا۔ اور یوں مارچ کے پہلے پندرہ دنوں کے درمیان مختلف مذہبی تہوار منا کر نئے سال کو خوش آمدید کہا جاتا رہا۔ * مہینے کامنز زمرہ جس کا ربط ویکی ڈیٹا پر ہے ویکی ڈیٹا سے مطابقت رکھنے والی مختصر تفصیل
ur_Arab
اگست گريگورين سال کا آٹھواں مہينہ ہے۔ شمالی نصف کرہ میں اس مہينے ميں گرمیوں کا موسم ہوتا ہے۔ قدیم زمانے میں یہ سال کا چھٹا مہینہ تھا اور اسے سیکستیلیس (Sextilis) یعنی چھٹا کہتے تھے۔ مگر اس کا نام جولئین تقویم کی ابتدا کے وقت 450 قبل مسیح میں اگست رکھا گیا جو اصل میں روم کے پہلے بادشاہ آگستس (Augustus) کے نام پر تھا۔ * مہینے کامنز زمرہ جس کا ربط ویکی ڈیٹا پر ہے آگستس ویکی ڈیٹا سے مطابقت رکھنے والی مختصر تفصیل
ur_Arab
عیسیٰ ابن مریم ( عربی: عِيسَى ٱبْنُ مَرْيَمَ) ' تورات کے مطابق عیسیٰ ابن مریم ' کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بنی اسرائیل سے خدا کے آخری نبی اور رسول ہیں اور بنی اسرائیل ( Banī Isra'īl ) کی رہنمائی کے لیے انجیل نامی کتاب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کیے گئے مسیحا ہیں ۔ قرآن میں، یسوع کو المسیح ( al-Masīḥ ) کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ جو معجزانہ طور پر ایک کنواری سے پیدا ہوئے، اپنے شاگردوں کے ساتھ معجزات دیکھاتے تھے،اور اللہ نے معجزانہ طور پر ان کو بچایا زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ یہودی مذہبی اسٹیبلشمنٹ نے مسترد کر دیا ہے، لیکن صلیب پر مرنے کے طور پر نہیں (اور نہ ہی دوبارہ زندہ کیے جانے پر) ، بلکہ جیسا کہ خدا نے ان کو معجزانہ طور پر بچایا اور آسمان پر زندہ اٹھا لیا۔ قرآن واضح طور پر اور بار بار اس خیال کو مسترد کرتا ہے کہ عیسیٰ کو ( یہودی یا رومی ) حکام نے نہ قتل کیا تھا اور نہ ہی وہ مصلوب کیے گے تھے۔ قرآن نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عظیم ترین نبیوں میں شمار کیا ہے اور ان کا ذکر مختلف القابات سے کیا ہے۔ عیسیٰ کی نبوت سے پہلے یحییٰ کی نبوت ہے اور محمد کی جانشینی ہے، جن کے بعد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ عیسیٰ نے احمد کا نام استعمال کرکے پیشین گوئی کی تھی۔ یسوع مسیح کے بارے میں اسلام میں مختلف قسم کی متغیر تشریحات موجود ہیں۔ قرآن کی مرکزی دھارے کی تشریحات میں آرتھوڈوکس عیسائی فلسفہ الہی ہائپوسٹاسس کے بارے میں کرسٹولوجی کے نظریاتی تصورات کا فقدان ہے، اس لیے بہت سے لوگوں کے لیے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن مسیح کو مسترد کرتا ہے کیونکہ یسوع مسیح کی الوہیت کے نظریے کے مسیحی نقطہ نظر میں ایک یہودی مسیحی خدا کے اوتار ہونے کے ناطے انسان، یا انسانی جسم میں خدا کے لفظی بیٹے کے طور پر، جیسا کہ یہ ظاہری طور پر متعدد آیات میں یسوع کے خدا کے طور پر الہامی انسانیت کے نظریے کی تردید کرتا ہے، اور اس بات پر بھی تاکید کرتا ہے کہ یسوع مسیح نے ذاتی طور پر خدا ( خدا باپ ) ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ
ur_Arab
علیہ السلام کے اصل پیغام ( taḥrīf ) میں ان کے زندہ ہونے کے بعد تبدیلی کی گئی تھی۔ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توحید پر زور دیا گیا ہے۔ اسلام میں تمام انبیاء کی طرح، عیسیٰ کو بھی رسول کہا جاتا ہے، جیسا کہ انہوں نے تبلیغ کی کہ ان کے پیروکاروں کو ' صراط المستقیم ' اختیار کرنا چاہیے۔ اسلامی روایت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بہت سارے معجزات سے منسوب کیا گیا ہے۔ روایتی اسلامی تعلیمات میں، یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عیسیٰ مسیح امام مہدی کے ساتھ دوسری آمد میں مسیح الدجال ('جھوٹا مسیح') کو قتل کرنے کے لیے واپس آئیں گے، جس کے بعد قدیم قبائل یاجوج ماجوج ( Yaʾjūj Maʾjūj ) کے ساتھ۔ منتشر ہو جائیں گے. ان مخلوقات کے معجزانہ طور پر فنا ہونے کے بعد، امام مہدی اور عیسیٰ علیہ السلام پوری دنیا پر حکومت کریں گے، امن و انصاف قائم کریں گے، اور 40 سال کی حکومت کے بعد وفات پا جائیں گے۔ کچھ مسلمانوں کا خیال ہے کہ پھر اسے مدینہ میں سبز گنبد کے چوتھے محفوظ مقبرے میں محمد کے ساتھ دفن کیا جائے گا۔ یہ احادیث پر مبنی روایات سے متعلق غیر مستند روایات ہیں۔ عمران و حنہ حضرت زکریااور یحییٰ (علیہما السلام) کے حالات میں گزر چکا ہے۔کہ بنی اسرائیل میں عمران (مسیحیت کے مطابق مریم کے والد کا نام یہویاقیم تھا) ایک عابد و زاہد شخص تھے اور اسی زہد و عبادت کی وجہ سے نماز کی امامت بھی ان ہی کے سپرد تھی اور ان کی بیوی حنہ بھی بہت پارسا اور عابدہ تھیں اور اپنی نیکی کی وجہ سے وہ دونوں بنی اسرائیل میں بہت محبوب و مقبول تھے۔ محمد بن اسحاقؒ صاحب مغازی نے عمران کا نسب نامہ اس طرح بیان کیا ہے : عمران بن یاشم بن میشا بن حزقیا بن احریق بن موثم بن عزازیا بن امصیا بن یاوش بن احریہو بن یازم بن یہفاشاط بن ایشا بن ایان بن رحبعم (رحبعام) بن سلیمان بن داؤد (علیہما السلام)۔ اور حافظ ابن عساکر نے ان ناموں کے علاوہ دوسرے نام بیان کئے ہیں اور ان دونوں بیانات میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے تاہم اس پر تمام علمائے انساب کا اتفاق ہے کہ عمران حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں اور ح
ur_Arab
نہ بنت فاقوذ بن قبیل بھی داؤد (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں۔ عمران صاحب اولاد نہیں تھے اور ان کی بیوی حنہ بہت زیادہ متمنی تھیں کہ ان کے اولاد ہو ‘ وہ اس کے لیے درگاہ الٰہی میں دست بدعا اور قبولیت دعاء کے لیے ہر وقت منتظر رہتی تھیں۔ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حنہ صحن مکان میں چہل قدمی کر رہی تھیں ‘ دیکھا کہ ایک پرندہ اپنے بچہ کو بھرا رہا ہے ‘ حنہ کے دل پر یہ دیکھ کر سخت چوٹ لگی اور اولاد کی تمنا نے بہت جوش مارا اور حالت اضطراب میں بارگاہ الٰہی میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے اور عرض کیا : ” پروردگار ! اسی طرح مجھ کو بھی اولاد عطا کر کہ وہ ہماری آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بنے۔ “ دل سے نکلی ہوئی دعا نے قبولیت کا جامہ پہنا اور حنہ نے چند روز بعد محسوس کیا کہ وہ حاملہ ہے حنہ کو اس احساس سے اس درجہ مسرت ہوئی کہ انھوں نے نذر مان لی کہ جو بچہ پیدا ہوگا اس کو ہیکل (مسجد اقصیٰ ) کی خدمت کے لیے وقف کر دوں گی۔ بنی اسرائیل کی مذہبی رسوم میں سے یہ رسم بہت مقدس سمجھی جاتی تھی کہ وہ اپنی اولاد کو ہیکل کی خدمت کے لیے وقف کریں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے عمران کی بیوی حنہ کی دعاء کو شرف قبولیت بخشا اور وہ مسرت و شادمانی کے ساتھ امید بر آنے کی گھڑی کا انتظار کرنے لگیں۔بشر بن اسحاق کہتے ہیں کہ حنہ ابھی حاملہ ہی تھیں کہ ان کے شوہر عمران کا انتقال ہوگیا۔ مریم (علیہا السلام) کی ولادت جب مدت حمل پوری ہوگئی اور ولادت کا وقت آپہنچا تو حنہ کو معلوم ہوا کہ ان کے بطن سے لڑکی پیدا ہوئی ہے ‘جہاں تک اولاد کا تعلق ہے حنہ کے لیے یہ لڑکی بھی لڑکے سے کم نہ تھی مگر ان کو یہ افسوس ضرور ہوا کہ میں نے جو نذر مانی تھی وہ پوری نہیں ہو سکے گی ‘اس لیے کہ لڑکی کس طرح مقدس ہیکل کی خدمت کرسکے گی ؟ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے افسوس کو یہ کہہ کر بدل دیا کہ ہم نے تیری لڑکی کو ہی قبول کیا اور اس کی وجہ سے تمہارا خاندان بھی معزز اور مبارک قرار پایا ‘ حنہ نے لڑکی کا نام مریم رکھا ‘ سریانی میں اس کے معنی خادم کے ہیں ‘ چونکہ یہ ہیکل کی خدمت کے لیے وقف کردی گئیں اس لیے یہ نام موزوں سمجھا گیا۔ قرآن عزیز نے اس واقعہ
ur_Arab
کو معجزانہ اختصار کے ساتھ اس طرح بیان کیا ہے : { اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰٓی اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰھِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ۔ ذُرِّیَّۃً بَعْضُھَا مِنْم بَعْضٍ وَ اللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔ اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔ فَلَمَّا وَضَعَتْھَا قَالَتْ رَبِّ اِنِّیْ وَضَعْتُھَآ اُنْثٰی وَ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَ لَیْسَ الذَّکَرُ کَالْاُنْثٰی وَ اِنِّیْ سَمَّیْتُھَا مَرْیَمَ وَ اِنِّیْٓ اُعِیْذُھَا بِکَ وَ ذُرِّیَّتَھَا مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ فَتَقَبَّلَھَا رَبُّھَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَّ اَنْبَتَھَا نَبَ
ur_Arab
اتًا حَسَنًا وَّ کَفَّلَھَا زَکَرِیَّا } ” بے شک اللہ نے آدم اور نوح اور آل ابراہیم اور آل عمران کو کو (اپنے اپنے زمانہ میں) جہان والوں پر بزرگی عطا فرمائی (ان میں سے ) بعض بعض کی ذریت ہیں اور اللہ سننے والا ‘ جاننے والا ہے۔ (وہ وقت یاد کرو) جب عمران کی بیوی نے کہا ” خدایا ! میں نے نذر مان لی ہے کہ میرے پیٹ میں جو (بچہ) ہے۔ وہ تیری راہ میں آزاد ہے پس تو اس کو میری جانب سے قبول فرما۔ بے شک تو سننے والا ‘ جاننے والا ہے۔ “ پھر جب اس نے جنا تو کہنے لگی ” پروردگار ! میرے لڑکی پیدا ہوئی ہے اللہ خوب جانتا ہے جو اس نے جنا ہے اور لڑکا اور لڑکی یکساں نہیں ہیں (یعنی ہیکل کی خدمت لڑکی نہیں کرسکتی لڑکا کرسکتا ہے) اور میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے ‘اور میں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان الرجیم کے فتنہ سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ پس مریم کو اس کے پروردگار نے بہت اچھی طرح قبول فرمایا اور اس کی نشوونما اچھے طریق پر کی اور زکریاکو اس کا نگران کار بنایا۔ “ عمران حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے والد کا نام بھی ہے اور حضرت مریم (علیہا السلام) کے والد کا بھی ‘ یہاں والد مریم (علیہا السلام) مراد ہیں۔ حضرت مریم (علیہا السلام) جب سن شعور کو پہنچیں اور یہ سوال پیدا ہوا کہ مقدس ہیکل کی یہ امانت کس کے سپرد کی جائے تو کاہنوں 2 ؎ میں سے ہر ایک نے یہ خواہش ظاہر کی کہ اس مقدس امانت کا کفیل مجھ کو بنایا جائے مگر اس امانت کی نگرانی کا اہل حضرت زکریاسے زیادہ کوئی نہ تھا ‘ اس لیے کہ وہ مریم (علیہا السلام) کی خالہ ایشاع (الیشیع) کے شوہر بھی تھے اور مقدس ہیکل کے معزز کاہن اور خدائے برتر کے نبی بھی تھے ‘ اس لیے سب سے پہلے انھوں نے اپنا نام پیش کیا مگر جب سب کاہنوں نے یہی خواہش ظاہر کی اور باہمی کشمکش کا اندیشہ ہونے لگا تو آپس میں طے پایا کہ قرعہ اندازی کے ذریعہ اس کا فیصلہ کرلیا جائے۔ اور بقول روایات بنی اسرائیل تین مرتبہ قرعہ اندازی کی گئی وہ دریا میں اپنے (پورے) ڈالتے مگر قرعہ کی شرط کے مطابق ہر مرتبہ زکریا
ur_Arab
(علیہ السلام) ہی کا نام نکلتا ‘ کاہنوں نے جب یہ دیکھا کہ اس معاملہ میں زکریا(علیہ السلام) کے ساتھ تائید غیبی ہے تو انھوں نے بخوشی اس فیصلہ کے سامنے سر تسلیم خم کردیا اور اس طرح یہ ” سعید امانت “ حضرت زکریا(علیہ السلام) کے سپرد کردی گئی۔ کاہن سے وہ مقدس ہستیاں مراد ہیں جو ہیکل میں مذہبی رسوم ادا کرتی اور خدمت ہیکل پر مامور تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ مریم (علیہا السلام) کی کفالت کا یہ معاملہ اس لیے پیش آیا کہ وہ یتیم تھیں اور مردوں میں سے کوئی ان کا کفیل نہیں تھا اور بعض کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں قحط کا بہت زور تھا اس لیے کفالت کا سوال پیدا ہوا۔ لیکن یہ دونوں باتیں اگر نہ بھی ہوتیں تب بھی کفالت کا سوال اپنی جگہ پھر بھی باقی رہتا۔اس لیے کہ مریم (علیہا السلام) اپنی والدہ کی نذر کے مطابق ” نذر ہیکل “ ہوچکی تھیں اور چونکہ لڑکی تھیں اس لیے از بس ضروری تھا کہ وہ کسی مرد نیک کی کفالت میں اس خدمت کو انجام دیتیں۔ غرض زکریا(علیہ السلام) نے حضرت مریم (علیہا السلام) کے صنفی احترامات کا لحاظ رکھتے ہوئے ہیکل کے قریب ایک حجرہ ان کے لیے مخصوص کردیا تاکہ وہ دن میں وہاں رہ کر عبادت الٰہی سے بہرہ ور ہوں اور جب رات آتی تو ان کو اپنے مکان پر ان کی خالہ ایشاع کے پاس لے جاتے اور وہ وہیں شب بسر کرتیں۔ مولانا آزاد ترجمان القرآن میں لکھتے ہیں : ” قرآن میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ظہور کا ذکر زیادہ تفصیل کے ساتھ دو جگہ کیا گیا ہے ‘ یہاں اور سورة آل عمران کی آیات 35۔ 63 میں ‘ یہاں یہ ذکر حضرت زکریا(علیہ السلام) کی دعا اور حضرت یحییٰ کی پیدائش کے بیان سے شروع ہوا ہے اور انا جیل اربعہ میں سے سینٹ لوقا کی انجیل ٹھیک ٹھیک اسی طرح یہ تذکرہ شروع کرتی ہے۔ لیکن سورة آل عمران میں یہ تذکرہ اس سے بھی پیشتر کے ایک واقعہ سے شروع ہوتا ہے ‘ یعنی حضرت مریم کی پیدائش اور ہیکل میں پرورش پانے کے واقعہ سے اور اس بارہ میں چاروں انجیلیں خاموش ہیں لیکن انیسویں صدی میں متروک اناجیل کا جو نسخہ ویٹیکان کے کتب خانہ سے برآمد ہوااس نے حضرت مریم (علیہا السلام) کی پیدائش کا یہ مفقود ٹکڑا مہیا کردیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے
ur_Arab
کہ کم از کم چوتھی صدی کے اوائل تک سرگذشت کا یہ ٹکڑا بھی اسی طرح الہامی یقین کیا جاتا تھا جس طرح بقیہ ٹکڑے یقین کئے جاتے ہیں۔ “ حنہ اور الیشبع ابن کثیر فرماتے ہیں کہ جمہور کا قول یہ ہے کہ ایشاع (الیشیع) مریم (علیہا السلام) کی ہمشیرہ تھیں اور حدیث معراج میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عیسیٰ اور یحییٰ (علیہما السلام) کے متعلق یہ فرما کر ” وَھُمَا اِبْنَا خَالَۃٍ “ جو رشتہ ظاہر فرمایا ہے اس سے بھی جمہور کے قول کی تائید ہوتی ہے۔ لیکن جمہور کا یہ قول قرآن عزیز اور تاریخ دونوں کے خلاف ہے اس لیے کہ قرآن نے مریم (علیہا السلام) کی ولادت کے واقعہ کو جس اسلوب کے ساتھ بیان کیا ہے وہ صاف بتارہا ہے کہ عمران اور حنہ حضرت مریم (علیہا السلام) کی ولادت سے قبل اولاد سے قطعاً محروم تھیں یہی وجہ ہے کہ حنہ نے مریم (علیہا السلام) کی ولادت پر یہ نہیں کہا ” خدایا ! میرے تو پہلے بھی ایک لڑکی موجود تھی ‘ اب تونے دوبارہ بھی لڑکی ہی عطا فرمائی “ بلکہ درگاہ الٰہی میں یہ عرض کیا کہ جس شکل میں میری دعا تونے قبول فرمائی ہے اس کو حسب وعدہ تیری نذر کیسے کروں نیز توراۃ اور بنی اسرائیل کی تاریخ سے بھی کہیں یہ ثابت نہیں کہ عمران اور حنہ کے مریم (علیہا السلام) کے ماسوا کوئی اور اولاد بھی تھی بلکہ اس کے برعکس تاریخ یہود اور اسرائیلیات کا مشہور قول یہ ہے کہ الیشاع مریم (علیہا السلام) کی خالہ تھیں۔ دراصل جمہور کی جانب منسوب یہ قول صرف حدیث معراج کے مسطورہ بالا جملہ کے پیش نظر ظہور میں آیا ہے حالانکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ” وَھُمَا اِبْنَا خَالَۃٍ “ ” وہ دونوں خالہ زاد بھائی ہیں “ مجاز متعارف کی شکل میں ہے یعنی آپ نے بہ طریق توسع والدہ کی خالہ کو عیسیٰ (علیہ السلام) کی خالہ فرمایا ہے اور اس قسم کا توسع عام بول چال میں شائع و ذائع ہے۔ علاوہ ازیں ابن کثیر ؒ کا اس کو ” قول جمہور “ کہنا بھی محل نظر ہے اس لیے کہ محمد بن اسحاق ‘ اسحاق بن بشر ‘
ur_Arab
ابن عساکر ‘ ابن جریر اور ابن حجر رحمہم اللہ جیسے جلیل القدر اصحاب حدیث و سیر کا رجحان اس جانب ہے کہ ایشاع حنہ کی ہمشیرہ اور مریم (علیہا السلام) کی خالہ ہیں ‘ حنہ کی بیٹی نہیں ہیں۔ مریم (علیہا السلام) کا زہد وتقویٰ مریم (علیہا السلام) شب و روز عبادت الٰہی میں رہتیں اور جب خدمت ہیکل کے لیے ان کی نوبت آتی تو اس کو بھی بخوبی انجام دیتی تھیں حتیٰ کہ ان کا زہد وتقویٰ بنی اسرائیل میں ضرب المثل بن گیا اور ان کی زہادت و عبادت کی مثالیں دی جانے لگیں۔ مقبولیت خداوندی زکریا(علیہ السلام) مریم (علیہا السلام) کی ضروری نگہداشت کے سلسلہ میں کبھی کبھی ان کے حجرہ میں تشریف لے جایا کرتے تھے لیکن ان کو یہ بات عجیب نظر آتی کہ جب وہ خلوت کدہ میں داخل ہوتے تو مریم (علیہا السلام) کے پاس اکثر بےموسم کے تازہ پھل موجود پاتے۔ یہ تفصیل اگرچہ تفسیری روایات سے ماخوذ ہے اور آیت میں صرف لفظ ” رِزِق “ آیا ہے لیکن آیت سے بصراحت ثابت ہوتا ہے کہ مریم کا یہ رزق انسانی دادودہش کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ بطور کرامت من جانب اللہ تھا۔ آخر زکریا(علیہ السلام) سے رہا نہ گیا اور انھوں نے دریافت کیا : مریم تیرے پاس یہ بےموسم پھل کہاں سے آتے ہیں ؟ مریم (علیہا السلام) نے فرمایا : ” یہ میرے پروردگار کا فضل و کرم ہے ‘ وہ جس کو چاہتا ہے بےگمان رزق پہنچاتا ہے۔“ حضرت زکریا(علیہ السلام) نے یہ سنا تو سمجھ گئے کہ خدا کے یہاں مریم (علیہا السلام) کا خاص مقام اور مرتبہ ہے اور ساتھ ہی بےموسم تازہ پھلوں کے واقعہ نے دل میں تمنا پیدا کردی کہ جس خدا برتر نے اپنی قدرت کاملہ سے یہ پھل بےموسم پیدا کردیئے ‘وہ میرے بڑھاپے اور بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود مجھ کو بےموسم پھل (بیٹا) عطا نہ کرے گا ؟ یہ سوچ کر انھوں نے خشوع و خضوع کے ساتھ بارگاہ ربانی میں دعا کی اور وہاں سے شرف قبولیت کا مژدہ عطا ہوا : { وَ کَفَّلَھَا زَکَرِیَّا کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْھَا ز
ur_Arab
َکَرِیَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَھَا رِزْقًا قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ ھٰذَا قَالَتْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ } ” اور اس (مریم) کی کفالت زکریانے کی ‘ جب اس (مریم) کے پاس زکریاداخل ہوتے تو اس کے پاس کھانے کی چیزیں رکھی پاتے۔ زکریانے کہا : ” اے مریم ! یہ تیرے پاس کہاں سے آئیں “ مریم نے کہا ” یہ اللہ کے پاس سے آئی ہیں ‘ بلاشبہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے بےگمان رزق دیتا ہے۔ “ مریم (علیہا السلام) اسی طرح ایک عرصہ تک اپنے مقدس مشاغل کے ساتھ پاک زندگی بسر کرتی رہیں اور مقدس ہیکل کا سب سے مقدس مجاور حضرت زکریا(علیہ السلام) بھی ان کے زہد وتقویٰ سے بےحد متاثر تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی عظمت اور جلالت قدر کو اور زیادہ بلند کیا اور فرشتوں کے ذریعہ ان کو برگزیدہ بارگاہ الٰہی ہونے کی یہ بشارت سنائی : { وَ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰکِ وَ طَھَّرَکِ وَ اصْطَفٰکِ عَلٰی نِسَآئِ الْعٰلَمِیْنَ۔ یٰمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَ اسْجُدِیْ وَ ارْکَعِیْ مَعَ الرّٰکِعِیْنَ } ” (اے پیغمبر وہ وقت یاد کیجئے) جب فرشتوں نے کہا : اے مریم ! بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تجھ کو بزرگی دی
ur_Arab
اور پاک کیا اور دنیا کی عورتوں پر تجھ کو برگزیدہ کیا ‘ اے مریم ! اپنے پروردگار کے سامنے جھک جا اور سجدہ ریز ہوجا اور نماز پڑھنے والوں کے ساتھ نماز ادا کر۔ “ { وَ مَا کُنْتَ لَدَیْھِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَھُمْ اَیُّھُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمَ وَ مَا کُنْتَ لَدَیْھِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ } ” اور تم اس وقت ان کاہنوں کے پاس موجود نہ تھے جب وہ اپنی قلموں (پوروں) کو قرعہ اندازی کے لیے ڈال رہے تھے کہ مریم کی کفالت کون کرے اور تم اس وقت (بھی) موجود نہ تھے جب وہ اس کی کفالت کے بارے میں آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ “ حضرت مریم (علیہا السلام) جبکہ نہایت مرتاض ‘ عابد و زاہد اور تقویٰ و طہارت میں ضرب المثل تھیں اور جبکہ عنقریب ان کو جلیل القدر پیغمبر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ہونے کا شرف بھی حاصل ہونے والا تھا تو من جانب اللہ ان کی تقدیس و تطہیر کا یہ اعلان بلاشبہ حق بہ حقدار رسید کا مصداق ہے ‘تاہم علمی اور تاریخی اعتبار سے بلکہ خود قرآن و حدیث کے مفہوم کے لحاظ سے یہ مسئلہ قابل توجہ ہے کہ آیت { وَ اصْطَفٰکِ عَلٰی نِسَآئِ الْعٰلَمِیْنَ } کی مراد کیا ہے اور کیا درحقیقت حضرت مریم (علیہا السلام) کو بغیر کسی استثناء کے کائنات کی تمام عورتوں پر برتری اور فضیلت حاصل ہے ؟ اور یہی نہیں بلکہ اس آیت فضیلت نے مریم (علیہا السلام) کی ذات سے متعلق علمائے سلف میں چند اہم مسائل کو زیر بحث بنادیا ہے مثلاً کیا عورت نبی ہوسکتی ہے ؟ ! کیا حضرت مریم (علیہا السلام) نبی تھیں ؟ " اگر نبی نہیں تھیں تو آیت کے جملہ { وَاصْطَفٰکِ عَلٰی نِسَائِ الْعَالَمِیْنَ } کا مطلب کیا ہے ؟ کیا عورت نبی
ur_Arab
ہوسکتی ہے، محمد بن اسحاق شیخ ابو الحسن اشعریؒ ‘ قرطبی ؒ‘ ابن حزم ؒ(نور اللہ مرقدہم) اس جانب مائل ہیں کہ عورت نبی ہوسکتی ہے بلکہ ابن حزم ؒتو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت حواؑ ‘ سارہؑ ‘ ہاجرہ ؑ‘ ام موسیٰ ؑ‘ آسیہ اور مریم (علیہن السلام) یہ سب نبی تھیں ‘ اور محمد بن اسحاقؒ کہتے ہیں کہ اکثر فقہا اس کے قائل ہیں کہ عورت نبی ہوسکتی ہے اور قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ مریم (علیہا السلام) نبی تھیں۔ ان حضرات کے اقوال کے برعکس خواجہ حسن بصری ‘ امام الحرمین شیخ عبدالعزیز اور قاضی عیاض (نور اللہ مرقدہم) کا رجحان اس جانب ہے کہ عورت نبی نہیں ہوسکتی اور اس لیے مریم (علیہا السلام) بھی نبی نہیں تھیں۔ قاضی عیاض اور ابن کثیر یہ بھی کہتے ہیں کہ جمہور کا مسلک یہی ہے اور امام الحرمین تو اجماع تک دعویٰ کرتے ہیں۔ جو علماء یہ فرماتے ہیں کہ عورت نبی نہیں بن سکتی وہ اپنی دلیل میں اس آیت کو پیش کرتے ہیں : { وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ } ” اور تم سے پہلے ہم نے نہیں بھیجے مگر مرد کہ وحی بھیجتے تھے ہم ان کی طرف “ اور خصوصیت کے ساتھ حضرت مریم (علیہا السلام) کی نبوت کے انکار پر یہ دلیل دیتے ہیں کہ قرآن عزیز نے ان کو ” صِدِّیْقَہ “ کہا ہے ‘ سورة مائدہ میں ہے : { مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّارَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ وَ اُمُّہٗ صِدِّیْقَۃٌ} ” بس ابن مریم تو ایک پیغمبر ہیں جن سے پہلے اور بھی پیغمبر گزر چکے ہیں اور ان کی والدہ صدیقہ تھیں۔ “ اور سورة نساء میں قرآن عزیز نے ” مُنْعَمْ عَلَیْہِمْ “ کی جو فہرست دی ہے وہ اس کے
ur_Arab
لیے نص قطعی ہے کہ ” صِدِّیْقِیَتْ “ کا درجہ ” نبوت “ سے کم اور نازل ہے۔اور جو حضرات عورت کے نبی ہونے کے قائل ہیں وہ فرماتے ہیں کہ قرآن عزیز نے حضرت سارہ ‘ ام موسیٰ اور حضرت مریم علیہن السلام کے متعلق جن واقعات کا اظہار کیا ہے ان میں بصراحت موجود ہے کہ ان پر خدا کے فرشتے وحی لے کر نازل ہوئے اور ان کو منجانب اللہ بشارات سے سرفراز فرمایا اور ان تک اپنی معرفت اور عبادت کا حکم پہنچایا ‘ چنانچہ حضرت سارہ کے لیے سورة ہود اور سورة الذاریات میں اور ام موسیٰ کے لیے سورة قصص میں اور مریم (علیہا السلام) کے لیے آل عمران اور سورة مریم میں بواسطہ ملائکہ اور بلاواسطہ خطاب الٰہی موجود ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ان مقامات پر وحی کے لغوی معنی (وجدانی ہدایت یا مخفی اشارہ) کے نہیں ہیں جیسا کہ آیت : { وَ اَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ } میں شہد کی مکھی کے لیے وحی کا اطلاق کیا گیا ہے۔ اور خصوصیت کے ساتھ حضرت مریم (علیہا السلام) کے نبی ہونے کی یہ واضح دلیل ہے کہ سورة مریم میں ان کا ذکر اسی اسلوب کے ساتھ کیا گیا ہے جس طریقہ پر دیگر انبیاء و رسل کا تذکرہ کیا ہے ‘ مثلاً : { وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ مُوْسٰٓی } (مریم : 19/51) { وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ } (مریم : 19/54) { وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ مَرْیَمَ } (مریم : 19/16) { وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِدْرِیْسَ } (مریم : 19/56) { وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِبْرٰھِیْمَ } (مریم : 19/41) { فَاَرْسَلْنَآ اِلَیْھَا رُوْحَنَا }
ur_Arab
(مریم : 19/17) ہم نے مریم ؑ کی جانب اپنے فرشتہ جبرائیل کو بھیجا “ یا مثلاً { قَالَ اِنَّمَآ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ } ” میں بلاشبہ تیرے پروردگار کی جانب سے پیغامبر ہوں “ نیز آل عمران میں مریم (علیہا السلام) کو ملائکۃ اللہ نے جس طرح خدا کی جناب سے پیغامبر بن کر خطاب کیا ہے وہ بھی اس دعویٰ کی روشن دلیل ہے۔ اور مریم (علیہا السلام) کے ” صدیقہ “ ہونے سے متعلق جو سوال ہے اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر قرآن نے حضرت مریم (علیہا السلام) کو ” صدیقہ “ کہا ہے تو یہ لقب ان کی شان نبوت کے اسی طرح منافی نہیں ہے جس طرح حضرت یوسف (علیہ السلام) کے مسلم نبی ہونے کے باوجود آیت یُوْسُفُ اَیُّھَا الصِّدِّیْقُ میں ان کا صدیق ہونا ان کے نبی ہونے کو مانع نہیں ہے بلکہ ذکرپاک مقامی خصوصیت کی بنا پر مذکور ہوا ہے ‘ کیونکہ جو ” نبی “ ہے وہ بہرحال ” صدیق “ ضرور ہے البتہ اس کا عکس ضروری نہیں ہے۔ ان علمائے اسلام کی ترجمانی جس تفصیل کے ساتھ ” کتاب الفصل “ میں مشہور محدث ابن حزم ؒ نے کی ہے اس تفصیل و قوت کے ساتھ دوسری جگہ نظر سے نہیں گزری اس لیے سطور ذیل میں اس پورے مضمون کا ترجمہ لائق مطالعہ ہے : نبوۃ النساء اور ابن حزمؒ یہ فصل ایسے مسئلہ کے متعلق ہے جس پر ہمارے زمانہ میں قرطبہ (اندلس) میں شدید اختلاف بپا ہوا ‘ علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ عورت نبی نہیں ہوسکتی اور جو ایسا کہتا ہے کہ عورت نبی نہیں ہوسکتی ہے وہ ایک نئی بدعت ایجاد کرتا ہے اور دوسری جماعت قائل ہے کہ عورت نبی ہوسکتی ہے اور نبی ہوئی ہیں ‘ اور ان دونوں سے الگ تیسری جماعت کا مسلک توقف ہے اور وہ اثبات و نفی دونوں باتوں میں سکوت کو پسند کرتے ہیں۔ مگر جو حضرات عورت سے متعلق منصب نبوت کا انکار کرتے ہیں ان کے پاس اس انکار کی کوئی دلیل نظر نہیں آتی البتہ بعض حضرات نے اپنے اختلاف کی بنیاد اس آیت کو بنایا ہے : { وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْ
ur_Arab
ٓ اِلَیْھِمْ } میں کہتاہوں کہ اس بارے میں کس کو اختلاف ہے اور کس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ عورت کو ہدایت خلق کے لیے رسول بناکر بھیجتا ہے یا اس نے کسی عورت کو ” رسول “ بنایا ہے ‘ بحث رسالت کے مسئلہ میں نہیں ہے بلکہ نبوت میں ہے ‘ پس طلب حق کے لیے ضروری ہے کہ اول یہ غور کیا جائے کہ لغت عرب میں لفظ ” نبوت “ کے کیا معنی ہیں ؟ تو ہم اس لفظ کو ” اِنْبَائِ “ سے ماخوذ پاتے ہیں جس کے معنی ” اطلاع دینا “ ہیں ‘پس نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ کسی معاملہ کے ہونے سے قبل بذریعہ وحی اطلاع دے یا کسی بھی بات کے لیے اس کی جانب وحی نازل فرمائے وہ شخص مذہبی اصطلاح میں بلاشبہ ” نبی “ ہے۔ آپ اس مقام پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وحی کے معنی اس الہام کے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے کسی مخلوق کی سرشت میں ودیعت کردیا ہے جیسا کہ شہد کی مکھی کے متعلق خدائے برحق کا ارشاد ہے۔ { وَ اَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ } اور نہ وحی کے معنی ظن اور وہم کے لے سکتے ہیں اس لیے کہ ان دونوں کو ” علم یقین “ سمجھنا (جو وحی کا قدرتی نتیجہ ہے) مجنوں کے سوا اور کسی کا کام نہیں ہے۔ نہ یہاں وہ معنی مراد ہوسکتے ہیں جو ” باب کہانت “ سے تعلق رکھتے ہیں یعنی یہ کہ شیاطین آسمانی باتوں کو سننے اور چرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان پر شہاب ثاقب کے ذریعہ رجم کیا جاتا ہے اور جس کے متعلق قرآن یہ کہتا ہے : { شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا } کیونکہ یہ ” باب کہانت “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت باسعادت کے وقت سے مسدود ہوگیا۔ اور نہ اس جگہ وحی کے معنی نجوم کے تجربات علمیہ سے تعلق رکھتے ہیں جو خود انسانوں کے با
ur_Arab
ہم سیکھنے اور سکھانے سے حاصل ہوجایا کرتے ہیں اور نہ اس کے معنی رؤیا (خواب) کے ہوسکتے ہیں۔جن کے سچ یا جھوٹ ہونے کا کوئی علم نہیں ہے بلکہ ان تمام معانی سے جدا ” وحی بمعنی نبوت “ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے قصد اور ارادہ سے ایک شخص کو ایسے امور کی اطلاع دے جن کو وہ پہلے سے نہیں جانتا اور مسطورہ بالا ذرائع علم سے الگ یہ امور حقیقت ثابتہ بن کر اس شخص پر اس طرح منکشف ہوجائیں گویا آنکھوں سے دیکھ رہا ہے اور اللہ تعالیٰ اس علم خاص کے ذریعہ اس شخص کو بغیر کسی محنت و کسب کے بداہۃً ایسا صحیح یقین عطا کر دے کہ وہ ان امور کو اس طرح معلوم کرلے جس طرح وہ حواس اور بداہت عقل کے ذریعہ حاصل کرلیا کرتا ہے اور اس کو کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اور خدا کی یہ وحی یا تو اس طرح ہوتی ہے کہ فرشتہ آ کر اس شخص کو خدا کا پیغام سناتا ہے اور یا اس طرح کہ اللہ تعالیٰ براہ راست اس سے خطاب کرتا ہے۔ پس اگر ان حضرات کے نزدیک جو عورت کے نبی ہونے کا انکار کرتے ہیں نبوت کے معنی یہ نہیں ہیں ‘ تو وہ ہم کو سمجھائیں کہ آخر نبوت کے معنی ہیں کیا ؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کے ماسوا اور کوئی معنی بیان ہی نہیں کرسکتے۔ اور جب کہ نبوت کے معنی وہی ہیں جو ہم نے بیان کئے۔ تو اب قرآن کے ان مقامات کو بغور مطالعہ کیجئے جہاں یہ مذکور ہے کہ اللہ عزوجل نے عورتوں کے پاس فرشتوں کو بھیجا اور فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان عورتوں کو ” وحی حق “ سے مطلع کیا چنانچہ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ام اسحاق (سارہ ؑ) کو اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کی بشارت سنائی ‘ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : { وَ امْرَاَتُہٗ قَآئِمَۃٌ فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْنٰھَا بِاِسْحٰقَلا وَ مِنْ وَّرَآئِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ۔ قَالَتْ یٰوَیْلَتٰٓی ئَاَلِدُ وَ اَنَا عَجُوْ
ur_Arab
زٌ وَّ ھٰذَا بَعْلِیْ شَیْخًا اِنَّ ھٰذَا لَشَیْئٌ عَجِیْبٌ۔ قَالُوْٓا اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ رَحْمَتُ اللّٰہِ وَ بَرَکٰتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِ } ان آیات میں فرشتوں نے ام اسحاق کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اسحاق اور ان کے بعد یعقوب (علیہما السلام) کی بشارت سنائی ہے اور سارہ [ کے تعجب پر یہ کہہ کر دوبارہ خطاب کیا ہے { اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ } تو یہ کیسے ممکن ہے کہ والدہ اسحاق (سارہ [) نبی تو نہ ہوں اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعہ اس طرح ان سے خطاب کرے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جبرائیل فرشتہ کو مریم (ام عیسیٰ ) کے پاس بھیجتا ہے اور ان کو مخاطب کرکے یہ کہتا ہے : { قَالَ اِنَّمَآ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِاَھَبَ لَکِ غُلٰمًا زَکِیًّا } تو یہ ” وحی حقیقی “ کے ذریعہ نبوت نہیں تو اور کیا ہے ؟ اور کیا اس آیت میں صاف طور پر نہیں کہا گیا ہے کہ مریم (علیہا السلام) کے پاس جبرائیل (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی جانب سے پیامبر بن کر آئے ؟ نیز زکریا(علیہ السلام) جب مریم (علیہا السلام) کے حجرہ میں آئے تو ان کے پاس اللہ تعالیٰ کا غیب سے دیا ہوا رزق پاتے تھے۔ اور انھوں نے اسی رزق کو دیکھ کر بارگاہ الٰہی میں صاحب فضیلت لڑکا پیدا ہونے کی دعا کی تھی ‘ اسی طرح ہم موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے معاملہ میں دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی نازل فرمائی کہ تم اپنے اس بچہ کو دریا میں ڈال دو اور ساتھ ہی ان کو اطلاع دی کہ
ur_Arab
میں اس کو تمہاری جانب واپس کروں گا اور اس کو ” نبی مرسل “ بناؤں گا ‘ پس کون شک کرسکتا ہے کہ یہ ” نبوت “ کا معاملہ نہیں ہے۔معمولی عقل و شعور رکھنے والا آدمی بھی بآسانی یہ سمجھ سکتا ہے کہ اگر موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کا یہ عمل اللہ کے عطاکردہ شرف نبوت سے وابستہ نہ ہوتا اور محض خواب کی بناء پر یا دل میں پیدا شدہ وسوسہ کی وجہ سے وہ ایسا کرتیں تو ان کا یہ عمل نہایت ہی مجنونانہ اور متہورانہ ہوتا اور اگر آج ہم میں سے کوئی ایسا کر بیٹھے تو ہمارا یہ عمل یا گناہ قرار پائے گا اور یا ہم کو مجنوں اور پاگل کہا جائے گا اور علاج کے لیے پاگل خانہ بھیج دیا جائے گا ‘ یہ ایک ایسی صاف اور واضح بات ہے جس میں شک و شبہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تب یہ کہنا قطعاً درست ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کا موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا میں ڈال دینا اسی طرح وحی الٰہی کی بناء پر تھا جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے رویا (خواب) میں اپنے بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) کا ذبح کرنا بذریعہ وحی معلوم کرلیا تھا۔ اس لیے کہ اگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نبی نہ ہوتے اور ان کے ساتھ وحی الٰہی کا سلسلہ وابستہ نہ ہوتا اور پھر وہ یہ عمل محض ایک خواب یا نفس میں پیدا شدہ ظن کی وجہ سے کر گزرتے تو ہر شخص ان کے اس عمل کو یا گناہ سمجھتا یا انتہائی جنون یقین کرتا تو اب بغیر کسی تردد کے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ام موسیٰ ؑ نبی تھیں۔ علاوہ ازیں حضرت مریم (علیہا السلام) کی نبوت پر ایک یہ دلیل بھی پیش کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورة مریم میں ان کا ذکرانبیاء (علیہم السلام) کے زمرہ میں کیا ہے اور اس کے بعد ارشاد فرمایا ہے : { اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنْ ذُرِّیَّۃِ اٰدَمَق وَ مِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ } ” یہی ہیں وہ انبیاء آدم کی نسل سے
ur_Arab
اور ان میں جن کو ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا جن پر اللہ کا انعام و اکرام ہوا۔ “ تو آیت کے اس عموم میں مریم (علیہا السلام) کی تخصیص کرکے ان کو انبیاء کی فہرست میں سے الگ کرلینا کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتا۔ رہی یہ بات کہ قرآن نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مریم (علیہا السلام) کے لیے یہ کہا ” وَاُمُّہٗ صِدِّیْقَۃٌ“ تو یہ لقب ان کی نبوت کے لیے اسی طرح مانع نہیں جس طرح حضرت یوسف (علیہ السلام) کے نبی اور رسول ہونے کے لیے یہ آیت مانع نہیں ” یُوْسُفُ اَیُّھَا الصِّدِّیْقُ “ اور یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ (وباللّٰہ التوفیق) اب حضرت سارہ ‘ حضرت مریم ‘ حضرت ام موسیٰ علیہن السلام کے مسئلہ نبوت کے ساتھ فرعون کی بیوی (آسیہ) کو بھی شامل کرلیجئے ‘ اس لیے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ( (کَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ کَثِیْرٌ وَلَمْ یَکْمُلْ مِنَ النِّسَائِ اِلَّا مَرْیَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَ آِسَیُۃ بِنْتُ مَزَاحِمٍ اِمْرَائَۃُ فِرْعَوْنَ (اَوْکَمَا قَالَ (علیہ السلام)) بخاری میں الفاظ حدیث یہ ہیں : ( (قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کمل من الرجال کثیر ولم یکمل من النساء الا آسیۃ امرأۃ فرعون و مریم بنت عمران وان فضل عائشۃ علی النساء کفضل الثرید علی سائر الطعام)) ” یعنی مردوں میں سے تو بہت آدمی کامل ہوئے ہیں مگر عورتوں میں سے صرف دو ہی کامل ہوئیں : مریم بنت عمران اور آسیہ بنت مزاحم زوجہ فرعون۔ “ اور واضح رہے کہ مردوں میں یہ درجہ کمال بعض رسولوں ہی کو حاصل ہوا ہے اور اگرچہ ان کے علاوہ انبیاء و رسل بھی درجہ نبوت و رسالت پر مامور
ur_Arab
ہیں لیکن ان مرسلین کاملین کے درجہ سے نازل ہیں ‘ اس لیے حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن عورتوں کو منصب نبوت سے سرفراز فرمایا ہے۔ ان میں صرف دو عورتوں کو ہی درجہ کمال تک پہنچنے کی فضیلت حاصل ہے کیونکہ حدیث میں جس درجہ کمال کا ذکر ہو رہا ہے جو ہستی بھی اس درجہ سے نازل ہے وہ کامل نہیں ہے۔ بہرحال اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ اگرچہ بعض عورتیں بہ نص قرآن نبی ہیں لیکن ان میں سے ان دو عورتوں کو بھی درجہ کمال حاصل ہوا ہے۔ درجات کے اس فرق کو خود قرآن نے اس طرح بیان کیا ہے : { تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ } نبی کا خواب بھی وحی ہوتا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ایک حدیث میں ایسا ہی فرمایا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کامل اس کو کہا جاتا ہے جس کی نوع میں سے کوئی دوسرا اس کا ہمسر نہ ہو ‘ پس مردوں میں سے ایسے کامل خدا کے چند ہی رسول ہوئے ہیں جن کی ہمسری دوسرے انبیاء و رسل کو عطا نہیں ہوئی اور بلاشبہ ان ہی کاملین میں سے ہمارے پیغمبر ” محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ اور ” ابراہیم ؑ “ ہیں۔جن کے متعلق نصوص (قرآن و حدیث) نے ان فضائل کمال کا اظہار کیا ہے جو دوسرے انبیاء و رسل کو حاصل نہیں ہیں ‘ البتہ اسی طرح عورتوں میں سے وہی درجہ کمال کو پہنچی ہیں جن کا ذکر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حدیث میں کیا ہے۔ “ ابن حزم ؒ کے اس طویل مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر وحی کے ان معانی کو نظر انداز کرکے ” جن کا اطلاق بلحاظ عموم لغت جبلت یا نفس میں ظن و وہم کے درجہ کا القاء والہام پر ہوتا ہے “ وہ اصطلاحی معنی لیے ہیں جن کو قرآن نے انبیاء و رسل کے لیے مخصوص کیا ہے۔ تو اس کی دو صورتیں ہیں ایک وہ (وحی) جس کا منشاء مخلوق خدا کی رشد و ہدایت اور تعلیم اوامرو نواہی سے ہو۔ اور دوسری یہ کہ خدائے تعالیٰ کسی شخص سے براہ راست یا فرشتہ کے واسطہ سے اس قسم کا خطاب کرے کہ جس سے بشارات دینا ‘ کسی ہونے والے واقعہ کی ہونے سے قبل اطلاع دینا ‘ یا خاص اس کی ذات کے لیے کوئی
ur_Arab
امر و نہی فرمانا مقصود ہو ‘اب اگر پہلی صورت ہے تو یہ ” نبوۃ مع الرسالۃ “ ہے۔( یہاں نبی اور رسول کے اس فرق کو نظر انداز کردیا گیا ہے ‘ جو علم کلام کی خاص اصطلاح ہے کیونکہ قرآن کثرت کے ساتھ نبی اور رسول کو مرادف معنی میں استعمال کرتا ہے۔) اور بالاتفاق سب کے نزدیک یہ درجہ صرف مردوں کے ساتھ ہی مخصوص ہے جیسا کہ سورة النحل کی آیت سے واضح ہے اور اس مسئلہ میں قطعاً دورائے نہیں ہیں۔ اور اگر وحی الٰہی کی دوسری شکل ہے تو ابن حزم اور ان کے مویدین علماء کی رائے میں یہ بھی نبوت ہی کی ایک قسم ہے۔ کیونکہ قرآن عزیز نے سورة شورٰی میں انبیاء (علیہم السلام) پر نزول وحی کے جو طریقے بیان کئے ہیں وہ اس وحی پر بھی صادق آتے ہیں۔ سورة شورٰی میں ہے : { وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَایِٔ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوحِیَ بِاِذْنِہٖ مَا یَشَائُط اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ} ” اور کسی انسان کے لیے یہ صورت ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے (بالمشافہہ) گفتگو کرے مگر یا وحی کے ذریعہ یا پس پردہ کلام کے ذریعہ اور یا اس صورت سے کہ اللہ کسی فرشتہ کو پیغامبر بنا کر بھیجے ! اور اس کی اجازت سے جس کو کہ وہ چاہے اس بشر کو وحی لا کر سنا دے بلاشبہ وہ بلند وبالا حکمت والا ہے۔ “ اور جبکہ قرآن نے وحی کی اس دوسری قسم کا اطلاق بہ نص صریح حضرت مریم ‘ حضرت سارہ ‘ حضرت ام موسیٰ اور حضرت آسیہ (علیہن السلام) پر کیا ہے جیسا کہ سورة ہود ‘ قصص اور مریم سے ظاہر ہوتا ہے تو ان مقدس عورتوں پر ” نبی کا اطلاق “ قطعاًصحیح ہے اور اس کو بدعت کہنا سر تا سر غلط ہے۔ ابن حزم (رح) کے مؤید علماء نے اس سلسلہ میں پیدا ہونے والے اس شبہ کا جواب بھی دیا ہے کہ قرآن
ur_Arab
نے جس طرح صاف الفاظ میں مرد انبیاء کو نبی اور رسول کہا ہے اس طرح ان عورتوں میں سے کسی کو نہیں کہا “ جواب کا حاصل یہ ہے کہ جبکہ ” نبوۃ مع الرسالۃ “ جو مردوں کے لیے ہی مخصوص ہے کائنات انسانی کی رشد و ہدایت اور تعلیم و تبلیغ نوع انسانی سے متعلق ہوتی ہے۔ تو اس کا قدرتی تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو اس شرف سے ممتاز فرمایا ہے اس کے متعلق وہ صاف صاف اعلان کرے کہ وہ خدا کا بھیجا ہوا نبی اور رسول ہے ‘ تاکہ امت پر اس کی دعوت و تبلیغ کا قبول کرنا لازم ہوجائے اور خدا کی حجت پوری ہو اور چونکہ نبوت کی وہ قسم جس کا اطلاق عورتوں پر بھی ہوتا ہے خاص اس ہستی سے وابستہ ہوتی ہے جس کو یہ شرف ملا ہے تو اس کے متعلق صرف یہی اظہار کردینا کافی ہے کہ جو ” وحی من اللہ “ انبیاء و رسل کے لیے ہی مخصوص ہے اس سے ان چند عورتوں کو بھی مشرف کیا گیا ہے۔ عورتوں کی نبوت کے اثبات و انکار کے علاوہ تیسری رائے ان علماء کی ہے جو اس مسئلہ میں ” سکوت اور توقف “ کو ترجیح دیتے ہیں ان میں شیخ تقی الدین سبکی ؒ نمایاں حیثیت رکھتے ہیں ‘ فتح الباری میں ان کا یہ قول مذکور ہے : ( (قَالَ السَّبُکِیُّ اُخْتُلِفَ فِیْ ھَذِہٖ الْمَسْئَلَۃِ وَلَمْ یَصِحَّ عِنْدِیْ فِیْ ذَلِکَ شَیْئٌ الخ) ) ” سبکی فرماتے ہیں اس مسئلہ میں علماء کی آراء مختلف ہیں اور میرے نزدیک اس بارے میں اثباتاً یانفیاً کوئی بات ثابت نہیں ہے۔ “ کیا حضرت مریم (علیہا السلام) نبی ہیں ؟ اس تفصیل سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کی نبوت کے انکار پر امام الحرمین کا دعوائے اجماع صحیح نہیں ہے نیز یہ بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ فہرست انبیاء میں مسطورہ بالا دوسری مقدس عورتوں کے مقابلہ میں حضرت مریم (علیہا السلام) کی نبوت کے متعلق قرآنی نصوص زیادہ واضح ہیں ‘یہی وجہ ہے کہ امام شعرانی ‘ ابن حزم اور قرطبی (رحمہم اللہ) کے درمیان مریم (علیہا السلام) کے علاوہ نبی ات کی فہرست کے بارے میں خاصہ اختلاف نظر آتا ہے اور حضرت مریم (علیہا السلام) کی نبوت کے متعلق تمام مثبتین نبوت
ur_Arab
کا اتفاق ہے۔ ہم کو ابن کثیر ؒ کے اس دعویٰ سے بھی اختلاف ہے کہ جمہور انکار کی جانب ہیں ‘ البتہ اکثریت غالباً سکوت اور توقف کو پسند کرتی ہے۔ آیت { وَاصْطَفَاکِ عَلٰی نِسَآئِ الْعَالَمِیْنَ } کا مطلب جو علماء عورتوں میں نبوت کے قائل ہیں اور حضرت مریم (علیہا السلام) کو نبی تسلیم کرتے ہیں ‘ ان کے مسلک کے مطابق تو آیت { وَاصْطَفٰکِ عَلٰی نِسَائِ الْعَالَمِیْنَ } کا مطلب صاف اور واضح ہے وہ یہ کہ حضرت مریم (علیہا السلام) کو کائنات کی تمام عورتوں پر فضیلت حاصل ہے ‘جو عورتیں نبی نہیں ہیں ان پر اس لیے کہ مریم (علیہا السلام) نبی ہیں اور جو عورتیں نبی ہیں ان پر اس لیے کہ وہ ان قرآنی نصوص کے پیش نظر جو ان کے فضائل و کمالات سے تعلق رکھتی ہیں باقی نبی اس پر برتری رکھتی ہیں۔ لیکن جو علماء عورتوں کی نبوت کا انکار فرماتے ہیں اور حضرت مریم (علیہا السلام) کو ” نبیہ “ نہیں تسلیم کرتے وہ اس آیت کی مراد میں دو جدا جدا خیال رکھتے ہیں ‘ بعض کہتے ہیں کہ آیت کا جملہ نِسَائِ الْعَالَمِیْنَ عام ہے اور ماضی ‘ حال اور مستقبل کی تمام عورتوں کو شامل ہے۔ اس لیے بلاشبہ حضرت مریم (علیہا السلام) کو بغیر کسی استثناء کے کائنات انسانی کی تمام عورتوں پر فضیلت و برتری حاصل ہے اور اکثر کا قول یہ ہے کہ آیت کے لفظ ” العالمین “ سے کائنات کی وہ تمام عورتیں مراد ہیں جو حضرت مریم (علیہا السلام) کی معاصر تھیں۔یعنی قرآن عزیز حضرت مریم (علیہا السلام) کے زمانہ کا واقعہ نقل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ بشارت دی کہ وہ اپنے زمانہ کی تمام عورتوں میں برگزیدہ اور صاحب کمال ہیں اور ہم نے ان سب میں سے ان کو چن لیا ہے اور ” العٰلمین “ کا یہ اطلاق وہی حیثیت رکھتا ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت (بنی اسرائیل) کے لیے اس آیت میں اختیار کی گئی ہے : { وَلَقَدِ اخْتَرْنَاہُمْ عَلٰی عِلْمٍ عَلَی الْعٰلَم
ur_Arab
ِیْنَ } ” اور بلاشبہ ہم نے اپنے علم سے ان (بنی اسرائیل) کو جہان والوں کے مقابلہ میں پسند کرلیا ہے “ اور جبکہ باتفاق آراء بنی اسرائیل کی فضیلت کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ ” العٰلمین “ سے ان کی معاصر امم و اقوام مراد ہیں کہ ان میں سے امت موسیٰ (علیہ السلام) کو فضیلت حاصل ہے تو حضرت مریم (علیہا السلام) کی فضیلت کے باب میں بھی یہی معنی مراد لینے چاہئیں۔ حضرت مریم (علیہا السلام) کا تقدس اور تقویٰ و طہارت ‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جیسے جلیل القدر پیغمبر کی والدہ ہونے کا شرف ‘ مرد کے ہاتھ لگائے بغیر معجزہ کے طور پر ان کے مشکوئے معلی سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت باسعادت بلاشبہ ایسے امور ہیں جن کی بدولت ان کو معاصر عورتوں پر فضیلت و برتری حاصل تھی۔ پھر یہ حقیقت بھی فراموش نہیں ہونی چاہیے کہ باب فضیلت ایک وسیع باب ہے اور جس طرح کسی شئے کی حقیقت بیان کرنے میں بلیغ اور عمدہ طریق بیان یہ ہے کہ وہ جامع و مانع ہو یعنی اس کی حقیقت پر اس طرح حاوی ہو کہ تمام دوسری چیزوں سے ممتاز ہوجائے ‘نہ ایسی کمی رہ جائے کہ اصل حقیقت پوری طرح بیان نہ ہو سکے اور نہ ایسا اضافہ کرے کہ بعض دوسری حقائق بھی اس کے ساتھ شامل ہوجائیں ‘ اسی طرح اس کے برعکس بیان فضیلت کے لیے فصاحت و بلاغت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو بیان حقیقت کی طرح حدود وقیود میں نہ جکڑ دیا جائے۔کیونکہ اس مقام پر حقیقت شئے نہیں بلکہ فضیلت شئے کا اظہار ہو رہا ہے جو اگر اسی طرح کے دوسرے افراد پر بھی صادق آجائے تو بیان حقیقت کی طرح اس میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا بلکہ اس موقع پر وسعت بیان ہی از بس ضروری ہوتا ہے تاکہ مخاطب کے دل میں اظہار فضیلت سے جو نفسیاتی اثر پیدا کرنا ہے وہ دل نشین اور موثر ہو سکے۔ تو ایسی صورت میں عَلٰی نِسَائِ الْعٰلَمِیْنَ کے معنی یہ نہیں ہوں گے کہ حضرت مریم (علیہا السلام) کے علاوہ دوسری کوئی مقدس عورت اس شرف کو نہیں پہنچ سکتی یا نہیں پہنچی ‘ بلکہ یہ مطلب ہوگا کہ حضرت مریم (علیہا السلام) کو فضائل و کمالات میں بلند مرتبہ حاصل ہے ‘باب فضائل کی یہی وہ حقیقت ہے جس کے فراموش کردینے پر فضائل صحابہ (رض) و رضوا عنہ وغیرہ
ur_Arab
میں اکثر ہم کو لغزش ہوجاتی اور چند مقدس اشخاص سے متعلق فضائل کے مابین تضاد و تناقض نظر آنے لگتا ہے ‘ البتہ ان فضائل کی حدود سے گزر کر جب ہم صاحب فضائل افراد کے انفرادی و اجتماعی اعمال کا جائزہ لے کر فرق مراتب بیان کرتے ہیں تو وہ ضرور ایک دوسرے کے لیے حد فاصل ثابت ہوتے ہیں۔مثلاً حضرات صحابہ وصحابیات کے فضائل کے پیش نظر فرق مراتب کا صحیح فیصلہ جب ہی ممکن ہوسکتا ہے کہ ان کے ان فضائل کے ساتھ ساتھ جو زبان وحیٔ ترجمان سے نکلے ہیں ان سے متعلق خصوصی ارشادات قرآنی وحدیثی ‘ان کی اسلامی خدمات ‘ اسلام سے متعلق ان کی سر فروشیاں و جاں سپاریاں ‘ نصرت حق میں مالی فدا کاریاں ‘ اسلام کے نازک ترین لمحات میں ان کے علم و تدبر کی عقدہ کشائیاں اور ان کی عملی جدوجہد کی رفیع سرگرمیاں ان سب کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا جائے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور بشارات کتب سابقہ ادیان و ملل کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دین حق اور ملت بیضاء کی تبلیغ و دعوت کا سلسلہ اگرچہ آدم (علیہ السلام) سے شروع ہو کر خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک برابر جاری رہا ہے لیکن اس سلسلہ کو مزید قوت پہنچانے اور سر بلند کرنے کے لیے سنت اللہ یہ رہی ہے کہ صدیوں بعد ایک ایسے اولوالعزم اور جلیل القدر پیغمبر کو بھیجے جو امتداد زمانہ کی وجہ سے پیدا شدہ عام روحانی اضمحلال کو دور کرکے قبول حق کے افسردہ رجحانات میں تازگی بخشے اور ضعیف روحانی عواطف کو قوی سے قوی تر بنادے ‘گویا مذہب کی خوابیدہ دنیا میں حق و صداقت کا صور پھونک کر ایک انقلاب عظیم بپا کر دے اور مردہ دلوں میں نئی روح ڈال دے اور اکثر ایسا ہوتا رہا ہے کہ جن اقوام و امم میں اس عظیم المرتبہ پیغمبر کی بعثت ہونے والی ہوتی ہے۔صدیوں پہلے ان کے ہادیان ملت اور داعیان حق (انبیاء (علیہم السلام)) اس مقدس رسول کی آمد کی بشارات وحی الٰہی کے ذریعہ سناتے رہتے ہیں تاکہ اس کی دعوت حق کے لیے زمین ہموار رہے اور جب اس نور حق کے روشن ہونے کا وقت آجائے تو ان اقوام و امم کے لیے اس کی آمد غیر متوقع حادثہ نہ بن جائے۔حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی ان چند اولوا العزم
ur_Arab
‘ جلیل القدر اور مقدس رسولوں میں سے ایک ہیں اور اسی بنا پر انبیاء بنی اسرائیل میں سے متعدد انبیاء (علیہم السلام) ان کی آمد سے قبل ان کے حق میں منادی کرتے اور آمد کی بشارت سناتے نظر آتے ہیں اور ان ہی بشارات کی وجہ سے بنی اسرائیل مدت مدید سے منتظر تھے کہ مسیح موعود کا ظہور ہو تو ایک مرتبہ وہ پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کی طرح اقوام عالم میں معزز و ممتاز ہوں گے اور رشد و ہدایت کی خشک کھیتی میں روح تازہ پیدا ہوگی اور خدا کے جاہ و جلال سے ان کے قلوب ایک مرتبہ پھر چمک اٹھیں گے۔بائبل ( توراۃ و انجیل) اپنی لفظی و معنوی تحریفات کے باوجود آج بھی ان چند بشارات کو اپنے سینہ میں محفوظ رکھتی ہے جو حضرت مسیح (علیہ السلام) کی آمد سے تعلق رکھتی ہیں۔ توراۃ استثناء میں ہے : ” اور اس موسیٰ نے کہا کہ خداوند سینا سے آیا اور شعیر (ساعیر) سے ان پر طلوع ہوا ‘ اور فاران کے پہاڑوں سے جلوہ گر ہوا۔ “ اس بشارت میں ” سینا سے خدا کی آمد “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کی جانب اشارہ ہے اور ” ساعیر سے طلوع ہونا “ سے نبوت عیسیٰ (علیہ السلام) مراد ہے ‘ کیونکہ ان کی ولادت باسعادت اسی پہاڑ کے ایک مقام ” بیت اللحم “ میں ہوئی ہے۔اور یہی وہ مبارک جگہ ہے جہاں سے نور حق طلوع ہوا اور ” فاران پر جلوہ گر ہونا “ آفتاب رسالت کی بعثت کا اعلان ہے کیونکہ فاران حجاز کے مشہور پہاڑی سلسلہ کا نام ہے۔ مرقس کی انجیل میں ہے : ” جیسا یسعیاہ نبی کی کتاب میں لکھا ہے دیکھ میں اپنا پیغمبر تیرے آگے بھیجتا ہوں جو تیری راہ تیار کرے گا ‘ بیابان میں پکارنے والے کی آواز آتی ہے کہ خداوند کی راہ تیار کرو ‘ اس کے راستے سیدھے بناؤ۔ “ اس بشارت میں ” پیغمبر “ سے عیسیٰ (علیہ السلام) مراد ہیں اور بیابان میں پکارنے والے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مناد تھے اور ان کی بعثت سے قبل بنی اسرائیل میں ان کی بعثت و رسالت کا مژدہ جانفزا سناتے تھے۔ اور متی کی انجیل میں ہے : ” جب یسوع ہیرودیس بادشاہ کے زمانہ میں یہودیہ کے بیت
ur_Arab
اللحم میں پیدا ہوا تو دیکھو کئی مجوس پورب سے یروشلم میں یہ کہتے ہوئے آئے کہ یہودیوں کا بادشاہ جو پیدا ہوا ہے وہ کہاں ہے ؟ یہ سن کر ہیرودیس بادشاہ اور اس کے ساتھ یروشلم کے سب لوگ گھبرا گئے اور اس نے قوم کے سب سردار کاہنوں اور فقیہوں کو جمع کرکے ان سے پوچھا کہ مسیح کی پیدائش کہاں ہونی چاہیے ؟ انھوں نے اس سے کہا کہ یہودیہ کے بیت لحم میں کیونکہ نبی (یسعیاہ (علیہ السلام)) کی معرفت یوں لکھا گیا ہے ‘ اے بیت لحم یہوداہ کے علاقے ! تو یہوداہ کے حاکموں میں ہرگز سب سے چھوٹا نہیں کیونکہ تجھ میں سے ایک سردار نکلے گا جو میری امت اسرائیل کی گلہ بانی کرے گا۔ “ اور دوسری جگہ ہے : ” اور جب وہ یروشلم کے نزدیک پہنچے اور زیتون کے پہاڑ پر بیت فگے کے پاس آئے تو یسوع نے دو شاگردوں کو یہ کہہ کر بھیجا کہ اپنے سامنے کے گاؤں میں جاؤ وہاں پہنچتے ہی ایک گدھی بندھی ہوئی اور اس کے ساتھ بچہ پاؤ گے ‘ انھیں کھول کر میرے پاس لے آؤ اور اگر کوئی تم سے کچھ کہے تو کہنا کہ خداوند کو ان کی ضرورت ہے وہ فی الفور انھیں بھیج دے گا۔یہ اس لیے ہوا کہ جو نبی کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہو کہ ” صیہوں کی بیٹی سے کہو کہ دیکھ تیرا بادشاہ تیرے پاس آتا ہے وہ حلیم ہے اور گدھے پر سوار ہے بلکہ لا دو کے بچہ پر۔ “ اور یوحنا کی انجیل میں ہے : ” اور یوحنا (یحییٰ (علیہ السلام)) کی گواہی یہ ہے کہ جب یہودیوں نے یروشلم سے کاہن اور لاوی یہ پوچھنے کو اس کے پاس (یحییٰ (علیہ السلام) کے پاس) بھیجے کہ تو کون ہے ؟ تو اس نے اقرار کیا اور انکار نہ کیا بلکہ اقرار کیا کہ میں تو مسیح نہیں ہوں ‘ انھوں نے اس سے پوچھا پھر کون ہے ؟ کیا تو ایلیاہ ہے ‘ اس نے کہا میں نہیں ہوں ‘ کیا تو وہ نبی ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں ‘ پس انھوں نے اس سے کہا پھر تو ہے کون ؟ تاکہ ہم اپنے بھیجنے والوں کو جواب دیں کہ تو اپنے حق میں کیا کہتا ہے ؟ اس نے کہا میں جیسا یسعیاہ نبی نے کہا ہے بیابان میں پکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی راہ سیدھی کرو۔ “ اور مر
ur_Arab
قس اور لوقا کی انجیلوں میں ہے : ” وہ لوگ منتظر تھے اور سب اپنے اپنے دل میں یوحنا (یحییٰ (علیہ السلام)) کی بابت سوچتے تھے کہ آیا وہ مسیح تھے یا نہیں تو یوحنا (یحییٰ (علیہ السلام)) نے ان سب کے جواب میں کہا : میں تو تمہیں بپتسمہ دیتا ہوں مگر جو مجھ سے زور آور ہے وہ آنے والا ہے۔میں اس کی جوتی کا تسمہ کھولنے کے بھی لائق نہیں ‘ وہ تمہیں روح القدس سے بپتسمہ دے گا۔ “ ان ہر دو بشارات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہود اپنی مذہبی روایات کی بنا پر جن اولوا العزم پیغمبروں کی بعثت کے منتظر تھے ان میں مسیح (علیہ السلام) بھی تھے اور حضرت یحییٰ 1 ؎ (علیہ السلام) نے ان کو بتایا کہ وہ نہ ایلیاہ ہیں نہ وہ نبی اور نہ مسیح ( ) بلکہ مسیح (علیہ السلام) کی بعثت کے مناد اور مبشر ہیں۔ (1 ؎ عہد نامہ جدید (انجیل) میں یوحنا دو جدا جدا شخصیتیں ہیں ‘ ایک یحییٰ (علیہ السلام) اور دوسری عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواری اور شاگرد۔ ) قرآن عزیز نے بھی حضرت زکریااور حضرت یحییٰ (علیہما السلام) کے واقعہ کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت کی تمہید قرار دیا ہے اور یحییٰ (علیہ السلام) کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا مبشر اور مناد بتایا ہے۔ سورة آل عمران میں ہے : { فَنَادَتْہُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَ ھُوَ قَآئِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِ اَنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیٰی مُصَدِّقًام بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ } ” پس جب فرشتوں نے اس (زکریا) کو اس وقت پکارا جبکہ وہ حجرہ میں کھڑا ہوا نماز پڑھ رہا تھا ‘ بے شک اللہ تعالیٰ تجھ کو یحییٰ (فرزند) کی بشارت دیتا ہے ‘ جو اللہ کے کلمہ (عیسیٰ (علی
ur_Arab
ہ السلام)) کی تصدیق کرے گا۔ “ ولادت مبارک عابد و زاہد اور عفت مآب مریم (علیہا السلام) اپنے خلوت کدہ میں مشغول عبادت رہتی اور ضروری حاجات کے علاوہ کبھی اس سے باہر نہیں نکلتی تھیں ‘ ایک مرتبہ مسجد اقصیٰ (ہیکل) کے مشرقی جانب لوگوں کی نگاہوں سے دور کسی ضرورت سے ایک گوشہ میں تنہا بیٹھی تھیں کہ اچانک خدا کا فرشتہ (جبرئیل (علیہ السلام)) انسانی شکل میں ظاہر ہوا۔حضرت مریم (علیہا السلام) نے ایک اجنبی شخص کو اس طرح بےحجاب سامنے دیکھا تو گھبرا گئیں اور فرمانے لگیں ” اگر تجھ کو کچھ بھی خدا کا خوف ہے تو میں خدائے رحمان کا واسطہ دے کر تجھ سے پناہ چاہتی ہوں۔ “ فرشتے نے کہا : ” مریم ! خوف نہ کھا ‘میں انسان نہیں بلکہ خدا کا فرستادہ فرشتہ ہوں اور تجھ کو بیٹے کی بشارت دینے آیا ہوں “ حضرت مریم (علیہا السلام) نے یہ سنا تو ازراہ تعجب فرمانے لگیں : ” میرے لڑکا کیسے ہوسکتا ہے جبکہ مجھ کو آج تک کسی بھی شخص نے ہاتھ نہیں لگایا۔ اس لیے کہ نہ تو میں نے نکاح کیا اور نہ میں زانیہ ہوں “ فرشتہ نے جواب دیا : میں تو تیرے پروردگار کا قاصد ہوں ‘ اس نے مجھ سے اسی طرح کہا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ میں اس لیے کروں گا کہ تجھ کو اور تیرے لڑکے کو دنیا والوں کے لیے اپنی قدرت کاملہ کے اعجاز کا ” نشان “ بنا دوں اور لڑکا میری جانب سے ” رحمت “ ثابت ہوگا اور میرا یہ فیصلہ اٹل ہے۔ مریم اللہ تعالیٰ تجھ کو ایک ایسے لڑکے کی بشارت دیتا ہے جو اس کا ” کلمہ “ 1 ؎ ہوگا ‘ اس کا لقب ” مسیح “ 2 ؎ اور اس کا نام عیسیٰ (یسوع) ہوگا اور وہ دنیا اور آخرت دونوں میں با وجاہت اور صاحب عظمت رہے گا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے مقربین میں سے ہوگا ‘ وہ اللہ تعالیٰ کے نشان کے طور پر بحالت شیر خوارگی لوگوں سے باتیں کرے گا اور سن کہولت (بڑھاپے کا ابتدائی دور) بھی پائے گا تاکہ کائنات کی رشد و ہدایت کی خدمت کی تکمیل کرے۔ اور یہ سب کچھ اس لیے ضرور ہو کر رہے گا کہ اللہ تعالیٰ کا قانون قدرت یہ ہے کہ جب وہ کسی شئے کو وجود میں لانا چاہتا ہے تو اس کا محض یہ ارادہ اور حکم کہ ” ہوجا “ اس شئے کو نیست
ur_Arab
سے ہست کردیتا ہے۔ لہٰذا یہ یوں ہی ہو کر رہے گا اور اللہ تعالیٰ اس کو اپنی کتاب عطا کرے گا ‘ اس کو حکمت سکھائے گا اور اس کو بنی اسرائیل کی رشد و ہدایت کے لیے رسول اور اولوالعزم پیغمبر بنائے گا۔ قرآن عزیز نے ان واقعات کا معجزانہ اسلوب بیان کے ساتھ سورة آل عمران اور سورة مریم میں اس طرح ذکر کیا ہے : { اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُ اسْمُہُ الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْھًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ۔ وَ یُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَھْدِ وَ کَھْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ۔ قَالَتْ رَبِّ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ وَلَدٌ وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ قَالَ کَذٰلِکَ اللّٰہُ یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ اِذَا قَضٰٓی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ۔ وَ یُعَلِّمُہُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ۔ وَ رَسُوْلًا اِلٰی بَن
ur_Arab
ِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ } ” (وہ وقت قابل ذکر ہے) جب فرشتوں نے مریم سے کہا : ” اے مریم ! اللہ تعالیٰ تجھ کو اپنے کلمہ کی بشارت دیتا ہے اس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا ‘ وہ دنیا و آخرت میں صاحب وجاہت اور ہمارے مقربین میں سے ہوگا اور وہ (ماں کی) گود میں اور کہولت کے زمانہ میں لوگوں سے کلام کرے گا اور وہ نیکوکاروں میں سے ہوگا۔ “ مریم نے کہا : ” میرے لڑکا کیسے ہوسکتا ہے جبکہ مجھ کو کسی مرد نے ہاتھ تک نہیں لگایا “ فرشتہ نے کہا ” اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے اسی طرح پیدا کردیتا ہے ‘ وہ جب کسی شئے کے لیے حکم کرتا ہے تو کہہ دیتا ہے ” ہوجا “ اور وہ ہوجاتی ہے اور اللہ اس کو کتاب و حکمت اور توراۃ و انجیل کا علم عطا کرے گا اور وہ بنی اسرائیل کی جانب اللہ کا رسول ہوگا۔ “ { وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ مَرْیَمَ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَھْلِھَا مَکَانًا شَرْقِیًّا۔ فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِھِمْ حِجَابًا فَاَرْسَلْنَآ اِلَیْھَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَھَا بَشَرًا سَوِیًّا۔ قَالَتْ اِنِّیْٓ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْکَ اِنْ کُنْتَ تَقِیًّا۔ قَالَ اِنَّمَآ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِاَھَبَ لَکِ غُلٰمًا زَکِیًّا۔ قَالَتْ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ
ur_Arab
وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ وَّ لَمْ اَکُ بَغِیًّا۔ قَالَ کَذٰلِکِ قَالَ رَبُّکِ ھُوَ عَلَیَّ ھَیِّنٌ وَّ لِنَجْعَلَہٗٓ اٰیَۃً لِّّلنَّاسِ وَ رَحْمَۃً مِّنَّا } ” اور اے پیغمبر ! کتاب میں مریم کا واقعہ ذکر کرو اس وقت کا ذکر جب وہ ایک جگہ جو پورب کی طرف تھی اپنے گھر کے آدمیوں سے الگ ہوئی پھر اس نے ان لوگوں کی طرف سے پردہ کرلیا ‘ پس ہم نے اس کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا اور وہ ایک بھلے چنگے آدمی کے روپ میں نمایاں ہوگیا مریم اسے دیکھ کر گھبرا گئی ‘ وہ بولی ” اگر تو نیک آدمی ہے تو میں خدائے رحمان کے نام پر تجھ سے پناہ مانگتی ہوں۔ “ فرشتہ نے کہا : ” میں تیرے پروردگار کا فرستادہ ہوں اور اس لیے نمودار ہوا ہوں کہ تجھے ایک پاک فرزند دیدوں۔ “ مریم بولی ” یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میرے لڑکا ہو ‘ حالانکہ کسی مرد نے مجھے چھوا نہیں اور نہ میں بدچلن ہوں ؟ “ فرشتہ نے کہا : ” ہوگا ایسا ہی ‘ تیرے پروردگار نے فرمایا ہے کہ یہ میرے لیے کچھ مشکل نہیں وہ کہتا ہے یہ اس لیے ہوگا کہ اس (مسیح) کو لوگوں کے لیے ایک نشان بنا دوں اور میری رحمت کا اس میں ظہور ہو اور یہ ایسی بات ہے جس کا ہونا طے ہوچکا ہے۔ “ جبرئیل امین نے مریم (علیہا السلام) کو یہ بشارات سنا کر ان کے گریبان میں پھونک دیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کا کلمہ ان تک پہنچ گیا۔ مریم (علیہا السلام) نے کچھ عرصہ کے بعد خود کو حاملہ محسوس کیا توبہ تقاضائے بشری ان پر ایک اضطراری کیفیت طاری ہوگئی اور اس کیفیت نے اس وقت شدید صورت اختیار کرلی ‘ جب انھوں نے دیکھا کہ مدت حمل ختم ہو کر ولادت کا وقت قریب سے قریب تر ہوتا جا رہا ہے ‘ انھوں نے سوچا کہ اگر یہ واقعہ قوم کے اندر رہ کر پیش آیا تو چونکہ وہ حقیقت حال سے واقف نہیں ہے اس لیے نہیں معلوم وہ کس کس طرح بدنام اور بہتان طرازیوں کے ذریعہ کس درجہ پریشان کرے ‘ اس
ur_Arab
لیے مناسب یہ ہے کہ لوگوں سے دور کسی جگہ چلے جانا چاہیے۔ یہ سوچ کر وہ یروشلم (بیت المقدس) سے تقریباً نو میل دور کوہ سرات (ساعیر) کے ایک ٹیلہ پر چلی گئیں جو اب ” بیت اللحم “ کے نام سے مشہور ہے ‘ یہاں پہنچ کر چند روز بعد درد زہ شروع ہوا تو تکلیف و اضطراب کی حالت میں کھجور کے ایک درخت کے نیچے تنے کے سہارے بیٹھ گئیں اور پیش آنے والے نازک حالات کا اندازہ کرکے انتہائی قلق اور پریشانی کی حالت میں کہنے لگیں ”کاش کہ میں اس سے پہلے مرچکی ہوتی اور میری ہستی کو لوگ یک قلم فراموش کرچکے ہوتے۔ “ تب نخلستان کے نشیب سے خدا کے فرشتہ نے پھر پکارا ” مریم ! غمگین نہ ہو ‘ تیرے پروردگار نے تیرے تلے 1 ؎(” سری “ لغت عرب میں نہر کو بھی کہتے ہیں اور بلند ہستی کو بھی ‘ جمہور نے اس جگہ پہلے معنی مراد لیے ہیں ‘ اور حسن بصری ‘ ربیع بن انس اور ابن اسلم (رحمہم اللہ) سے دوسرے معنی منقول ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے تیرے تلے ایک بلند ہستی پیدا کردی ہے۔ ) نہر جاری کردی ہے اور کھجور کا تنا پکڑ کر اپنی جانب ہلا تو پکے اور تازہ خوشے تجھ پر گرنے لگیں گے۔ پس تو کھا پی اور اپنے بچہ کے نظارہ سے آنکھیں ٹھنڈی کر اور رنج و غم کو بھول جا۔ “ حضرت مریم (علیہا السلام) پر تنہائی ‘ تکلیف اور نزاکت حال سے جو خوف طاری اور اضطراب پیدا ہوگیا تھا فرشتہ کی تسلی آمیز پکار اور عیسیٰ (علیہ السلام) جیسے برگزیدہ بچہ کے نظارہ سے کافور ہوگیا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھ دیکھ کر شاد کام ہونے لگیں۔تاہم یہ خیال پہلو میں ہر وقت کانٹے کی طرح کھٹکتا رہتا تھا کہ اگرچہ خاندان اور قوم میری عصمت و پاک دامنی سے ناآشنا نہیں ہے پھر بھی ان کی اس حیرت کو کس طرح مٹایا جاسکے گا کہ بن باپ کے کس طرح ماں کے پیٹ سے بچہ پیدا ہوسکتا ہے ؟ مگر جس خدائے برتر نے ان کو یہ بزرگی اور برتری بخشی وہ کب ان کو اس کرب و بےچینی میں مبتلا رہنے دیتا ‘ اس لیے اس نے فرشتہ کے ذریعہ مریم (علیہا السلام) کے پاس پھر یہ پیغام بھیجا کہ جب تو اپنی قوم میں پہنچے اور وہ تجھ سے اس
ur_Arab
معاملہ کے متعلق سوالات کرے تو خود جواب نہ دینا بلکہ اشارہ سے ان کو بتانا کہ میں روزہ دار ہوں۔اور اس لیے آج کسی سے بات نہیں کرسکتی تم کو جو کچھ دریافت کرنا ہے ‘ اس بچہ سے دریافت کرلو ‘ تب تیرا پروردگار اپنی قدرت کاملہ کا نشان ظاہر کے ان کی حیرت کو دور اور ان کے قلوب کو مطمئن کر دے گا۔حضرت مریم (علیہا السلام) وحی الٰہی کے ان پیغامات پر مطمئن ہو کر بچہ کو گود میں لے کر بیت المقدس کو روانہ ہوئیں۔ جب شہر میں پہنچیں اور لوگوں نے اس حالت میں دیکھا تو چہار جانب سے ان کو گھیر لیا اور کہنے لگے : ” مریم ! یہ کیا ؟ تونے تو بہت ہی عجیب بات کر دکھائی اور بھاری تہمت کا کام کرلیا ‘ اے ہارون کی بہن ! نہ تو تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی بدچلن تھی پھر تو یہ کیا کر بیٹھی ؟ “ مریم (علیہا السلام) نے خدا کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے لڑکے کی جانب اشارہ کردیا کہ جو کچھ دریافت کرنا ہے ‘ اس سے معلوم کرلو ‘ میں تو آج روزہ 2 (بنی اسرائیل کے یہاں روزہ میں خاموشی بھی داخل عبادت تھی۔) سے ہوں۔لوگوں نے یہ دیکھ کر انتہائی تعجب کے ساتھ کہا : ” ہم کس طرح ایسے شیر خوار بچہ سے باتیں کرسکتے ہیں جو ابھی ماں کی گود میں بیٹھنے والا بچہ ہے۔ “ مگر بچہ فوراً بول اٹھا :” میں اللہ کا بندہ ہوں ‘ اللہ نے (اپنے فیصلہ تقدیر میں) مجھ کو کتاب (انجیل) دی ہے اور نبی بنایا ہے اور اس نے مجھ کو مبارک بنایا خواہ میں کسی حال اور کسی جگہ بھی ہوں اور اس نے مجھ کو نماز اور زکوۃ کا حکم دیا ہے کہ جب تک میں زندہ رہوں یہی میرا شعار ہو اور اس نے مجھ کو اپنی ماں کا خدمت گزار بنایا اور خود سر اور نافرمان نہیں بنایا اور اس کی جانب سے مجھ کو سلامتی کا پیغام ہے جس دن کہ میں پیدا ہوا اور جس دن کہ میں مروں گا اور جس دن کہ پھر زندہ اٹھایا جاؤں گا۔ “ اللہ تعالیٰ نے ان تفصیلات کو سورة انبیاء ‘ سورة تحریم اور سورة مریم میں ذکر فرمایا ہے : { وَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْھَا مِنْ رُّوْحِنَا وَ جَعَلْنٰھ
ur_Arab
َا وَ ابْنَھَآ اٰیَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ } ” اور اس عورت (مریم (علیہا السلام)) کا معاملہ جس نے اپنی پاک دامنی کو قائم رکھا ‘ پھر ہم نے اس میں اپنی ” روح “ کو پھونک دیا اور اس کو اور اس کے لڑکے کو جہان والوں کے لیے ” نشان “ ٹھہرایا ہے۔ “ { وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِیْ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا } ” اور عمران کی بیٹی مریم کہ جس نے اپنی عصمت کو برقرار رکھا پس ہم نے اس میں اپنی روح کو پھونک دیا۔ “ { فَحَمَلَتْہُ فَانْتَبَذَتْ بِہٖ مَکَانًا قَصِیًّا۔ فَاَجَآئَھَا الْمَخَاضُ اِلٰی جِذْعِ النَّخْلَۃِ قَالَتْ یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا وَ کُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا۔ فَنَادٰھَا مِنْ تَحْتِھَآ اَلَّا تَحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا۔ وَ ھُزِّیْٓ اِلَیْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَۃِ تُسٰقِطْ عَلَیْکِ رُطَبًا جَنِیًّا۔ فَکُلِیْ وَ اشْرَبِیْ وَ قَرِّیْ عَیْنًا فَاِ
ur_Arab
مَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًا فَقُوْلِیْٓ اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُکَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّا۔ فَاَتَتْ بِہٖ قَوْمَھَا تَحْمِلُہٗ قَالُوْا یٰمَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا۔ یٰٓاُخْتَ ھٰرُوْنَ مَا کَانَ اَبُوْکِ امْرَاَ سَوْئٍ وَّ مَا کَانَتْ اُمُّکِ بَغِیًّا۔ فَاَشَارَتْ اِلَیْہِ قَالُوْا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَھْدِصَبِیًّا۔ قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّا۔ وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَکًا اَیْنَ مَا کُنْتُ وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ مَا دُمْتُ حَیًّا۔ وَّ بَرًّا بِوَالِدَتِیْ وَ لَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا۔ وَ السَّلٰ
ur_Arab
مُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَ یَوْمَ اَمُوْتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا } ” پھر اس ہونے والے فرزند کا حمل ٹھہر گیا وہ (اپنی حالت چھپانے کے لئے) لوگوں سے الگ ہو کر دور چلی گئی ‘ پھر اسے درد زہ (کا اضطراب) کھجور کے ایک درخت کے نیچے لے گیا (وہ اس کے تنے کے سہارے بیٹھ گئی) اس نے کہا کاش میں اس سے پہلے مرچکی ہوتی ‘ میری ہستی کو لوگ یک قلم بھول گئے ہوتے ‘ اس وقت (ایک پکارنے والے فرشتے نے) اسے نیچے سے پکارا ” غمگین نہ ہو تیرے پروردگار نے تیرے تلے نہر جاری کردی ہے اور کھجور کے درخت کا تنا پکڑ کر اپنی طرف ہلا ‘ تازہ اور پکے ہوئے پھلوں کے خوشے تجھ پر گرنے لگیں گے ‘ کھا پی اور (اپنے بچہ کے نظارے سے) آنکھیں ٹھنڈی کر ‘ پھر اگر کوئی آدمی نظر آئے (اور پوچھ گچھ کرنے لگے) تو (اشارہ سے) کہہ دے میں نے خدائے رحمان کے حضور روزہ کی منت مان رکھی ہے میں آج کسی آدمی سے بات چیت نہیں کرسکتی۔ “ پھر ایسا ہوا کہ وہ لڑکے کو ساتھ لے کر اپنی قوم کے پاس آئی ‘ لڑکا اس کی گود میں تھا ‘ لوگ (دیکھتے ہی) بول اٹھے ” مریم ! تونے عجیب ہی بات کر دکھائی اور بڑی تہمت کا کام کر گزری ‘ اے ہارون 1 ؎(؎ کہتے ہیں کہ ہارون مریم (علیہا السلام) کے خاندان میں ایک عابد و زاہد انسان اور بہت نیک نفس مشہور تھا۔ ) کی بہن ! نہ تو تیرا باپ برا آدمی تھا نہ تیری ماں بدچلن تھی (تو یہ کیا کر بیٹھی) “ اس پر مریم نے لڑکے کی طرف اشارہ کیا (کہ یہ تمہیں بتلا دے گا کہ حقیقت کیا ہے) لوگوں نے کہا : ” بھلا اس سے ہم کیا بات کریں جو ابھی گود میں بیٹھنے والا شیر خوار بچہ ہے “ مگر لڑکا بول اٹھا۔ ” میں اللہ کا بندہ ہوں ‘ اس نے مجھے کتاب دی اور نبی بنایا ‘ اس نے مجھے بابرکت کیا خواہ میں کسی جگہ ہوں ‘ اس نے مجھے نماز ‘ زکوۃ کا حکم دیا کہ جب تک زندہ رہوں یہی میرا شعار ہو۔ اس نے مجھے اپنی
ur_Arab
ماں کا خدمت گزار بنایا ‘ ایسا نہیں کیا کہ خودسر اور نافرمان ہوتا ‘ مجھ پر اس کی طرف سے سلامتی کا پیغام ہے جس دن پیدا ہوا ‘ جس دن مروں گا اور جس دن پھر زندہ اٹھایا جاؤں گا۔ “ قوم نے ایک شیر خوار بچہ کی زبان سے جب یہ حکیمانہ کلام سنا تو حیرت میں رہ گئی اور اس کو یقین ہوگیا کہ مریم (علیہا السلام) کا دامن بلاشبہ ہر قسم کی برائی اور تلویث سے پاک ہے اور اس بچہ کی پیدائش کا معاملہ یقیناً منجانب اللہ ایک ” نشان “ ہے۔ یہ خبر ایسی نہیں تھی کہ پوشیدہ رہ جاتی ‘ قریب اور بعید سب جگہ اس حیرت زا واقعہ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی معجزانہ ولادت کے چرچے ہونے لگے اور طبائع انسانی نے اس مقدس ہستی کے متعلق شروع ہی سے مختلف کروٹیں بدلنی شروع کردیں ‘ اصحاب خیر نے اس کے وجود کو اگر یمن وسعادت کا ماہتاب سمجھا تو اصحاب شر نے اس کی ہستی کو اپنے لیے فال بد جانا اور بغض و حسد کے شعلوں نے اندر ہی اندر ان کی فطری استعداد کو کھانا شروع کردیا۔ غرض اسی متضاد فضا کے اندر اللہ تعالیٰ اپنی نگرانی میں اس مقدس بچہ کی تربیت اور حفاظت کرتا رہا ‘ تاکہ اس کے ہاتھوں بنی اسرائیل کے مردہ قلوب کو حیات تازہ بخشے اور ان کی روحانیت کے شجر خشک کو ایک مرتبہ پھر بارآور اور مثمر بنائے : { وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَاُمَّہٗ اٰیَۃً وَّ اوَیْنَاہُمَا اِلٰی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ } ” اور ہم نے عیسیٰ بن مریم اور اس کی ماں (مریم) کو (اپنی قدرت کا ) نشان بنادیا اور ان دونوں کا ایک بلند مقام (بیت اللحم) پر ٹھکانا بنایا جو سکونت کے قابل اور چشمہ والا ہے۔ “ عن ابن عباس فی قولہ ” وَ اوَیْنَاھُمَا اِلٰی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ “ قال المعین الماء الجاری وھو النھر الذی قال اللہ تعالیٰ ” قَدْ جَع
ur_Arab
َلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا “ و کذا قال الضحاک و قتادۃ الی ربوۃ ذات قرار و معین ھو بیت المقدس فھذا واللہ اعلم ھو الاظھر لانہ المذکور فی الایۃ الاخری والقران یفسر بعضہ بعضا وھذا اولی ما یفسر بہ ثم الاحادیث الصحیحۃ ثم الاثار۔ یعنی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے وَ اوَیْنَاھُمَا اِلٰی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ کی تفسیر میں منقول ہے کہ ” معین “ سے نہر جاری مراد ہے اور یہ اسی نہر کا ذکر ہے جس کو آیت قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا میں بیان کیا گیا ہے اور ضحاک اور قتادہ ; کا بھی یہی قول ہے کہ وَ اوَیْنَاھُمَا اِلٰی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ سے بیت المقدس کی سرزمین مراد ہے اور یہی قول زیادہ ظاہر ہے اس لیے کہ دوسری آیت میں بیت المقدس (کی نہر) کا ہی ذکر ہے اور قرآن کا بعض حصہ خود ہی دوسرے حصہ کی تفسیر کردیا کرتا ہے اور تفسیر آیات میں پہلی جگہ اسی طریق تفسیر کو حاصل ہے۔ اس کے بعد صحیح احادیث کے ذریعہ تفسیر کا اور اس کے بعد آثار کے ذریعہ تفسیر کا درجہ ہے۔ بشارات ولادت قرآن عزیز نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بچپن کے حالات میں سے صرف اسی اہم واقعہ کا ذکر کیا ہے باقی بچپن کے دوسرے حالات کو جن کا ذکر قرآن کے مقصد تذکیر و موعظت سے خاص تعلق نہیں رکھتا تھا نظر انداز کردیا ہے لیکن اسرائیلیات کے مشہور ناقل حضرت وہب بن منبہ سے جو واقعات منقول ہیں۔اور متی کی انجیل میں بھی جن کا ذکر موجود ہے ان میں سے یہ واقعہ بھی ہے کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی تو اسی شب میں فارس کے بادشاہ نے آسمان پر ایک نیا ستارہ روشن دیکھا ‘بادشاہ نے درباری نجومیوں سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ اس ستارہ کا طلوع کسی عظیم
ur_Arab
الشان ہستی کی پیدائش کی خبر دیتا ہے جو ملک شام میں پیدا ہوئی ہے۔ تب بادشاہ نے خوشبوؤں کے عمدہ تحفے دے کر ایک وفد کو ملک شام روانہ کیا کہ وہ اس بچہ کی ولادت سے متعلق حالات و واقعات معلوم کریں ‘وفد جب شام پہنچا تو اس نے تفتیش حال شروع کی اور یہودیوں سے کہا کہ ہم کو اس بچہ کی ولادت کا حال سناؤ جو مستقبل قریب میں روحانیت کا بادشاہ ہوگا یہود نے اہل فارس کی زبان سے یہ کلمات سنے تو اپنے بادشاہ ہیرودیس کو خبر کی ‘ بادشاہ نے وفد کو دربار میں بلا کر استصواب حال کیا اور ان کی زبانی واقعہ کو سن کر بہت گھبرایا اور پھر وفد کو اجازت دی کہ وہ اس بچہ کے متعلق مزید معلومات حاصل کریں۔پارسیوں کا یہ وفد بیت المقدس پہنچا اور جب حضرت یسوع مسیح (علیہ السلام) کو دیکھا تو اپنے رسم و رواج کے مطابق اول ان کو سجدہ تعظیم کیا اور پھر مختلف قسم کی خوشبوئیں ان پر نثار کیں اور چند روز وہیں قیام کیا ‘ دوران میں قیام میں وفد کے بعض آدمیوں نے خواب میں دیکھا کہ ہیرودیس اس بچہ کا دشمن ثابت ہوگا اس لیے تم اب اس کے پاس نہ جاؤ اور بیت اللحم سے سیدھے فارس کو چلے جاؤ۔صبح کو وفد نے فارس کا ارادہ کرتے وقت حضرت مریم (علیہا السلام) کو اپنا خواب سناتے ہوئے کہا کہ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہودیہ کے بادشاہ ہیرودیس کی نیت خراب ہے اور وہ اس مقدس بچہ کا دشمن ہے اس لیے بہتر یہ ہے کہ تم اس کو ایسی جگہ لے جا کر رکھو جو اس کی دسترس سے باہر ہو ‘اس مشورہ کے بعد حضرت مریم (علیہا السلام) یسوع مسیح (علیہ السلام) کو اپنے بعض عزیزوں کے پاس مصر لے گئیں اور وہاں سے ناصرہ چلی گئیں اور جب عیسیٰ (علیہ السلام) کی عمر مبارک تیرہ سال کی ہوئی تو ان کو ساتھ لے کر دوبارہ بیت المقدس واپس آئیں۔یہی روایات یہ بھی ظاہر کرتی ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بچپن کے حالات زندگی بھی غیر معمولی تھے اور ان سے طرح طرح کی کرامات کا صدور ہوتا رہتا تھا۔ (واللّٰہ اعلم بحقیقۃ الحال) حلیہ مبارک بخاری حدیث معراج میں ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میری ملاقات حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے ہوئی تو میں نے ان کو میانہ قد سرخ سپید پایا۔ بدن ایسا صاف شفاف تھا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی حمام
ur_Arab
سے نہا کر آئے ہیں ‘ اور بعض روایات میں ہے کہ آپ کے کا کل کاندھوں تک لٹکے ہوئے تھے اور بعض احادیث میں ہے کہ رنگ کھلتا ہوا گندم گوں تھا۔ بخاری کی روایت اور اس روایت میں ادا و تعبیر کا فرق ہے ‘ حسن میں اگر صباحت کے ساتھ ملاحت کی آمیزش بھی ہوتی ہے تو اس رنگ میں ایک خاص کیفیت پیدا ہوجاتی ہے کسی وقت اگر سرخی جھلک آئی تو صباحت نمایاں ہوجاتی ہے اور اگر کسی وقت ملاحت غالب آگئی تو چہرہ پر حسن و لطافت کے ساتھ کھلتا ہوا گندم گوں رنگ چمکنے لگتا ہے۔ بعثت و رسالت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے قبل بنی اسرائیل ہر قسم کی برائیوں میں مبتلا تھے اور انفرادی و اجتماعی عیوب و نقائص کا کوئی پہلو ایسا نہیں تھا جو ان سے بچ رہا ہو ‘ وہ اعتقاد و اعمال دونوں ہی قسم کی گمراہیوں کا مرکز و محور بن گئے تھے حتیٰ کہ اپنی ہی قوم کے ہادیوں اور پیغمبروں کے قتل تک پر جری اور دلیر ہوگئے تھے ‘ یہودیہ کے بادشاہ ہیرودیس کے متعلق معلوم کرچکے ہو کہ اس نے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو اپنی محبوبہ کے اشارہ پر کی سے عبرتناک طریقہ پر قتل کرا دیا تھا اور اس نے یہ سفاکانہ اقدام صرف اس لیے کیا کہ وہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی بڑھتی ہوئی روحانی مقبولیت کو برداشت نہ کرسکا اور اپنی محبوبہ سے ناجائز رشتہ پر ان کے نہی عن المنکر (برائی سے بچانے کی ترغیب) کی تاب نہ لاس کا اور یہ عبرتناک سانحہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی مبارک ہی میں ان کی بعثت سے قبل پیش آچکا تھا۔ دائرۃ المعارف (انسائیکلو پیڈیا للبستانی) میں یہود سے متعلق جو مقالہ ہے اس کے تاریخی مواد سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی بعثت سے پہلے یہود کے عقائد و اعمال کا یہ حال تھا کہ وہ مشرکانہ رسوم و عقائد کو جزء مذہب بنا چکے تھے اور جھوٹ ‘ فریب ‘ بغض و حسد جیسی بداخلاقیوں کو تو عملاً اخلاق کریمانہ کی حیثیت دے رکھی تھی۔ اور اسی بنا پر بجائے شرمسار ہونے کے وہ ان پر فخر کا اظہار کرتے تھے اور ان کے علماء و احبار نے تو دنیا کے لالچ اور حرص میں کتاب اللہ ( توراۃ ) تک کو تحریف
ur_Arab
کئے بغیر نہ چھوڑا اور درہم و دینار پر خدا کی آیات کو فروخت کر ڈالا یعنی عوام سے نذر اور بھینٹ حاصل کرنے کی خاطر حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنانے سے بھی دریغ نہیں کیا اور اس طرح قانون الٰہی کو مسخ کر ڈالا۔ یہود کی اعتقادی اور ملی زندگی کا مختصر اور مکمل نقشہ ہم کو شعیا (علیہ السلام) کی زبانی خود توراۃ نے اس طرح دکھایا ہے : ” خداوند فرماتا ہے : یہ امت (بنی اسرائیل) زبان سے تو میری عزت کرتی ہے مگر ان کا دل مجھ سے دور ہے اور یہ بےفائدہ میری پرستش کرتے ہیں کیونکہ میرے حکموں کو پیچھے ڈال کر آدمیوں کے حکموں کی تعلیم دیتے ہیں۔ “ بہرحال ان ہی تاریک حالات میں جب حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے قتل کا واقعہ بھی ہو گزرا اور بنی اسرائیل نے خدا کے حکموں کے خلاف بغاوت و سرکشی کی حد کردی تب وہ وقت سعید آپہنچا کہ جس مبارک بچہ نے حضرت مریم (علیہا السلام) کی آغوش میں پیغام حق سنا کر بنی اسرائیل کو حیرت میں ڈال دیا تھا ‘سن رشد کو پہنچ کر اس نے یہ اعلان کرکے کہ ” وہ خدا کا رسول اور پیغمبر ہے اور رشد و ہدایت خلق اس کا فرض منصبی “ قوم میں ہلچل پیدا کردی ‘ وہ شرف رسالت سے مشرف ہو کر اور حق کی آواز بن کر آیا اور اپنی صداقت و حقانیت کے نور سے تمام اسرائیلی دنیا پر چھا گیا ‘اس مقدس ہستی نے قوم کو للکارا اور احبار کی علمی مجلسوں ‘ راہبوں کے خلوت کدوں ‘ بادشاہ اور امراء کے درباروں اور عوام و خواص کی محفلوں میں حتیٰ کہ کوچہ وبر زن اور بازاروں میں شب و روز یہ پیغام حق سنایا : ” لوگو ! اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اپنا رسول اور پیغمبر بنا کر تمہارے پاس بھیجا ہے اور تمہاری اصلاح کی خدمت میرے سپرد فرمائی ہے ‘ میں اس کی جانب سے پیغام ہدایت لے کر آیا ہوں اور تمہارے ہاتھ میں خدا کا جو قانون ( توراۃ ) ہے اور جس کو تم نے اپنی جہالت اور کج روی سے پس پشت ڈال دیا ہے میں اس کی تصدیق کرتا ہوں اور اس کی مزید تکمیل کے لیے خدا کی کتاب (انجیل) لے کر آیا ہوں ‘ یہ کتاب حق و باطل کا فیصلہ کرے گی اور آج جھوٹ اور سچ کے درمیان میں فیصلہ ہو کر رہے گا۔ سنو اور سمجھو اور اطاعت کے لیے خدا کے حضور جھک جاؤ کہ یہی
ur_Arab
دین و دنیا کی فلاح کی راہ ہے۔ “ اب ان حقائق اور ان کے عواقب و نتائج کو قرآن کی زبانی سنئے اور ” احقاق حق و ابطال باطل “ کے لطف سے بہرہ مند ہو کر عبرت و موعظت حاصل کیجئے ‘ کیونکہ ” تَذْکِیْرِ بِاَیَّامِ اللّٰہِ “ سے قرآن کا مقصد عظیم یہی بصیرت و عبرت ہے : { وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَ قَفَّیْنَا مِنْ بَعْدِہٖ بِالرُّسُلِ وَ اٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ اَفَکُلَّمَا جَآئَکُمْ رَسُوْلٌم بِمَا لَا تَھْوٰٓی اَنْفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ فَفَرِیْقًا کَذَّبْتُمْ وَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ۔ وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ بَلْ لَّعَنَھُمُ اللّٰہُ بِکُفْرِھِمْ فَقَلِیْـلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ۔ } ” اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب ( توراۃ ) عطا کی اور اس کے بعد ہم (تم میں) پیغمبر بھیجتے رہے اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو واضح معجزے دے کر بھیجا اور ہم نے اس کو روح پاک (جبرئیل) کے ذریعہ قوت و تائید عطا کی ‘ کیا جب تمہارے پاس (خدا کا) پیغمبر ایسے احکام لے کر آیا جن
ur_Arab
پر عمل کرنے کو تمہارا دل نہیں چاہتا تو تم نے غرور کو شیوہ (نہیں) بنا لیا ؟ پس (پیغمبروں کی) ایک جماعت کو جھٹلاتے ہو تو ایک جماعت کو قتل کردیتے ہو اور کہتے ہو کہ ہمارے دل (قبول حق کے لئے) غلاف میں ہیں (یہ نہیں) بلکہ ان کے کفر کرنے پر خدا نے ان کو ملعون کردیا ہے پس بہت تھوڑے سے ہیں جو ایمان لے آئے ہیں۔ “ { وَ اِذْ کَفَفْتُ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ عَنْکَ اِذْ جِئْتَھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْھُمْ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ} ” اور (اے عیسیٰ ) جب ہم نے بنی اسرائیل (کی گرفت و ارادہ قتل) کو تجھ سے باز رکھا اس وقت جبکہ تو ان کے پاس کھلے معجزات لے کر آیا تو کہا بنی اسرائیل میں سے منکروں نے ‘ یہ کچھ نہیں ہے مگر کھلا جادو ہے۔ “ { وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰۃِ وَ لِاُحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ وَ جِئْتُکُمْ بِاٰ یَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاتَّقُوْا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوْنِ۔ اِنَّ اللّٰہَ رَبِّیْ وَ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ۔ فَلَمَّآ اَحَسَّ عِیْسٰی
ur_Arab
مِنْھُمُ الْکُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ } ” اور میں تصدیق کرنے والاہوں توراۃ کی جو میرے سامنے ہے اور (میں اس لیے آیا ہوں) تاکہ تمہارے لیے بعض وہ چیزیں حلال کر دوں جو (تمہاری کجروی کی وجہ سے) تم پر حرام کردی گئی تھیں اور میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی نشانی لے کر آیا ہوں پس اللہ کا خوف کرو اور میری پیروی کرو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ میرا اور تمہارا پروردگار ہے پس اسی کی عبادت کرو یہی سیدھی راہ ہے۔ پس جبکہ عیسیٰ نے ان سے کفر محسوس کیا تو فرمایا اللہ کے لیے کون میرا مددگار ہے تو شاگردوں نے جواب دیا : ہم ہیں اللہ کے (دین کے) مددگار۔ “ { ثُمَّ قَفَّیْنَا عَلٰی اثَارِہِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّیْنَا بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَ اتَیْنَاہُ الْاِنْجِیْلَ } ” پھر ان کے بعد (نوح و ابراہیم (علیہما السلام) کے بعد) ہم نے اپنے رسول بھیجے اور ان کے بعد عیسیٰ ابن مریم کو رسول بناکر بھیجا اور اس کو کتاب (انجیل) عطا کی۔ “ { اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْکَ وَ عَلٰی وَالِدَتِکَ اِذْ اَیَّدْتُّکَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَھْدِ وَ کَھْلًا وَ اِذْ
ur_Arab
عَلَّمْتُکَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ التَّوْرٰۃَ وَالْاِنْجِیْلَ } ” (وہ وقت یاد کرنے کے لائق ہے) جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کہے گا ” اے عیسیٰ ابن مریم ! میری اس نعمت کو یاد کرو جو میری جانب سے تجھ پر اور تیری والدہ پر نازل ہوئی جب کہ میں نے روح القدس (جبرئیل) کے ذریعہ تیری تائید کی کہ تو کلام کرتا تھا آغوش مادر میں اور بڑھاپے میں اور جبکہ میں نے تجھ کو سکھائی کتاب ‘ حکمت ‘ توراۃ اور انجیل۔ “ { وَاِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یَا بَنِیْ اِسْرَآئِیلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ یَاْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہٗ اَحْمَدُ } ” اور (وہ وقت یاد کرو) جب عیسیٰ ابن مریم (علیہما السلام) نے کہا : اے بنی اسرائیل ! میں بلاشبہ تمہاری جانب اللہ کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں ‘ تصدیق کرنے والا ہوں توراۃ کی جو میرے سامنے ہے اور بشارت سنانے والا ہوں ایک پیغمبر کی جو میرے بعد آئے گا اس کا نام احمد ہے۔ “ آیات بینات قصص القرآن جلد اول معجزات کی بحث میں گزر چکا ہے کہ حق و صداقت کے تسلیم وانقیاد میں انسانی فطرت ہمیشہ سے دو طریقوں سے مانوس رہی ہے : ایک یہ کہ ” مدعی حق “ کی حقانیت و صداقت دلائل کی قوت اور براہین کی روشنی کے ذریعہ ثابت اور واضح ہوجائے اور دوسرا طریقہ یہ کہ دلائل وبراہین کے ساتھ ساتھ منجانب اللہ اس کی صداقت کی تائید میں عام قانون قدرت سے جدا بغیر اسباب و وسائل اور تحصیل علم و فن کے اس کے ہاتھ پر امور
ur_Arab
عجیبہ کا مظاہرہ اس طرح ہو کہ عوام و خواص اس کے مقابلہ سے عاجز و درماندہ ہوجائیں اور ان کے لیے اسباب و وسائل کے بغیر ان امور کی ایجاد ناممکن ہو ‘ پہلے طریق کے ساتھ یہ دوسرا طریق انسان کے عقل و فکر اور اس کی نفسیاتی کیفیات میں ایسا انقلاب پیدا کردیتا ہے کہ ان کا وجدان یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ داعی حق (نبی و پیغمبر) کا یہ عمل دراصل خود اس کا اپنا فعل نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ خدا کی قوت کام کر رہی ہے اور بلاشبہ یہ اس کے صادق ہونے کی مزید دلیل ہے چنانچہ قرآن میں آیت : { وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی } اور اے پیغمبر (بدر کے غزوہ میں ) جب تونے (دشمنوں پر) مٹھی بھر خاک پھینکی تھی تو تونے وہ مشت خاک نہیں پھینکی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے پھینکی تھی۔ “ میں اسی حقیقت کا اظہار مقصود ہے مگر ان ہر دو طریقوں میں سے ان اصحاب علم و دانش پر جو قوت فہم و ادراک میں بلند مقام رکھتے ہیں پہلا طریقہ زیادہ مؤثر ثابت ہوتا ہے اور وہ دوسرے طریقہ کو پہلے طریقہ کی تائید وتقویت کی حیثیت سے قبول کرتے اور داعیٔ حق (نبی و پیغمبر) کے دعوائے نبوت و رسالت کی صداقت کا مزید عملی ثبوت یقین کرکے اس پر ایمان لے آتے ہیں اور ان حضرات ارباب عقل و فکر کے برعکس ارباب قوت و اقتدار اور ان کی ذہنیت سے متاثر عام انسانی قلوب دوسرے طریقہ تصدیق سے زیادہ متاثر ہوتے اور نبی و پیغمبر کے معجزانہ افعال کو کائنات کی طاقت و قوت کے دائرہ سے بالاتر ہستی کا ارادہ و قوت فعل یقین کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور ان امور کو ” خدائی نشان “ باور کرکے دعوت حق و صداقت کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے ہیں۔ قرآن عزیز نے اکثر و بیشتر مقامات پر پہلے طریق دلیل کو ” حُجَّۃُ اللّٰہِ “ ” بُرْہَانَ “ اور ” حِکْمَۃ “ سے تعبیر کیا ہے سورة انعام میں خدا کی ہستی ‘ اس کی وحدانیت ‘ معاد و آخرت اور دین کے بنیادی عقائد کو دلائل ‘ نظائر اور شواہد کے ذریعہ سمجھانے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے : {
ur_Arab
قُلْ فَلِلّٰہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ } ” (اے محمد) کہہ دیجئے ‘ اللہ کے لیے ہی ہے حجت کامل (یعنی مکمل اور روشن دلیل) “ اور اس سورة میں دوسری جگہ حضرت ابراہیم کے تذکرہ میں ہے : { وَ تِلْکَ حُجَّتُنَآ اٰتَیْنٰھَآ اِبْرٰھِیْمَ عَلٰی قَوْمِہٖ } ” اور یہ ہماری ” دلیل “ ہے جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابلہ میں عطا کی۔ “ اور سورة نساء میں ہے : { رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌم بَعْدَ الرُّسُلِ } ” (ہم نے بھیجے) پیغمبر خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے تاکہ لوگوں کی جانب سے خدا پر پیغمبر بھیجنے کے بعد کوئی حجت (دلیل ) باقی نہ رہے (کہ ہمارے پاس دلائل کے ذریعہ راہ مستقیم بتانے کوئی نہ آیا تھا اس لیے ہم دین حق کی معرفت سے محروم رہے) “ { یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ کُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّکُمْ } ” اے لوگو ! بے شک تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی جانب سے برہان (قرآن) آگیا۔ “ اور سورة یوسف میں ہے : { لَوْ لَآ اَنْ رَّ ا بُرْھَانَ رَبِّہٖ } ” اگر نہ ہوتی یہ بات کہ دیکھ لی تھی اس (یوسف) نے اپنے پروردگار کی دلیل۔ “ اور سورة نحل میں ہے : { اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَ
ur_Arab
ۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ } ” اپنے پروردگار کے راستہ کی جانب دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور تبادلہ خیالات کرو ان (مخالفین) کے ساتھ اچھے طریق گفتگو سے۔ “ اور سورة نساء میں ہے : { وَ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ } ” اور اللہ تعالیٰ نے اتارا تجھ پر کتاب کو اور حکمت کو۔ “ اسی طرح ” حکمت “ کا یہ ذکر سورة بقرہ ‘ آل عمران ‘ مائدہ ‘ لقمان ‘ ص ‘ زخرف ‘ احزاب اور قمر میں بکثرت موجود ہے اور دوسرے طریق دلیل کو اکثر ” آیۃ اللّٰہ “ اور ” آیَاتُ اللّٰہ “ اور بعض مقامات پر ” آیَاتِ بَیِّنَاتَ “ اور ” بَیِّنَاتَ “ کہا ہے۔ ناقہ صالح (علیہ السلام) کے متعلق ارشاد ہے : { ھٰذِہٖ نَاقَۃُ اللّٰہِ لَکُمْ اٰیَۃً } ” یہ اونٹنی تمہارے لیے (خدا کی جانب سے) ایک ” نشان “ ہے۔ اور حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کی والدہ مریم (علیہا السلام) کے متعلق ارشاد ہے : { وَ جَعَلْنٰھَا وَ ابْنَھَآ اٰیَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ } ” اور ہم نے کردیا مریم اور اس کے لڑکے عیسیٰ کو جہان والوں کے لیے ” نشان “ (معجزہ) “ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات میں ارشاد باری ہے : { وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی تِسْعَ اٰیٰتٍ } ” اور ہم نے موسیٰ کو نو نشان (معجزات) عطا کئے۔ “ اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کو جو معجزات دیئے گئے تھے ان کے متعلق ارشاد ہے : { وَ اٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَر
ur_Arab
ْیَمَ الْبَیِّنٰتِ } ” اور دیئے ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو معجزات “ { اِذْ جِئْتَھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْھُمْ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ} ” اس وقت جبکہ تو ان کے پاس کھلے معجزات لے کر آیا تو کہا بنی اسرائیل میں منکروں نے ‘ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔ “ ہم نے اس مقام پر اکثر و بیشتر کا لفظ قصداً اختیار کیا ہے کیونکہ قرآن عزیز کے اسلوب بیان سے واقف اس سے بیخبر نہیں ہے کہ اس نے ان الفاظ کے استعمال میں وسعت تعبیر سے کام لیا ہے یعنی جبکہ ” معجزہ “ بھی ایک خاص قسم کا ” برہان “ ہے اور قرآن اور آیات قرآن جس طرح سرتا سر ” علم وبرہان “ ہیں اسی طرح ” معجزہ “ بھی ہیں ‘اس لیے معجزہ پر برہان کا اطلاق اور کتاب اللہ کے جملوں پر آیت اور آیات اللہ کا اطلاق مجاز نہیں بلکہ حقیقت ہے ‘ مثلاً حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دو معجزوں عصاء اور ید بیضاء کے متعلق سورة قصص میں ہے : { فَذٰنِکَ بُرْھَانٰنِ مِنْ رَّبِّکَ } ” پس تیرے رب کی جانب سے یہ دو دلیلیں ہیں۔ “ اور کتاب اللہ اور اس کے جملوں پر آیت اور آیات کے اطلاقات سے تو قرآن کی کوئی طویل سورت ہی خالی ہوگی ‘ تمام قرآن میں جگہ جگہ اس کثرت سے اس کا استعمال ہوا ہے کہ اس کی فہرست مستقل موضوع بن سکتا ہے۔ اسی طرح ” آیَاتِ بَیِّنَات “ کا اگرچہ بکثرت اطلاق کتاب اللہ (قرآن ‘ توراۃ ‘ زبور ‘ انجیل) اور ان کی آیات پر ہوا ہے مگر مسطورہ بالا مقامات کی طرح بعض بعض جگہ اس کو ” معجزات “ کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ لائق توجہ بات اور حقیقت معجزات نبی اور رسول کی بعثت کا مقصد کائنات میں رشد و ہدایت اور دین و دنیا کی فلاح و خیر کی رہنمائی ہے اور وہ منجانب اللہ وحی کی روشنی میں اس فرض منصب
ur_Arab
ی کو انجام دیتا ہے اور علم وبرہان اور حجۃ حق کے ذریعہ راہ صداقت دکھاتا ہے ‘ وہ یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ فطرت اور ماورائے فطرت امور میں تصرف و تغیر بھی اس کا کار منصبی ہے۔بلکہ وہ بار بار یہ اعلان کرتا ہے کہ میں خدا کی جانب سے بشیر و نذیر اور داعی الی اللہ بن کر آیا ہوں ‘ میں انسان ہوں اور خدا کا ایلچی ‘ اس سے زائد اور کچھ نہیں ہوں تو پھر اس کے دعویٰ صداقت کے امتحان اور پرکھ کے لیے اس کی تعلیم ‘اس کی تربیت اور اس کی شخصیت کا زیر بحث آنا یقیناً معقول لیکن اس سے ماورائے فطرت اور خارق عادت عجائبات وغرائب کا مطالبہ خلاف عقل اور بےجوڑ بات معلوم ہوتی ہے اور یوں نظر آتا ہے کہ کسی طبیب حاذق کے دعویٰ حذاقت طب پر اس سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ طلسمی کھٹکے کی ایک عمدہ الماری یا لکڑی کا ایک عجیب قسم کا کھلونا بنا کر دکھائے ‘طبیب نے یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ وہ ماہر لوہار یا بڑھئی ہے بلکہ اس کا دعویٰ تو امراض جسمانی کے علاج کا ہے ‘ اسی طرح پیغمبر خدا کا یہ دعویٰ نہیں ہوتا کہ وہ خدا کی طرح کائنات پر ہمہ قسم کے تصرف و تغیر کا مالک و قادر ہے بلکہ اس کا دعویٰ تو یہ ہے کہ وہ تمام امراض روحانی کے لیے طبیب کامل اور حاذق و ماہر ہے۔ پس دعویٰ نبوت اور معجزات (خارق عادات امور) کے درمیان میں کیا تعلق ہے ؟ اور کیا اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ” معجزہ “ لوازم نبوت میں سے نہیں ہے ؟ بلاشبہ یہ سوال بہت زیادہ قابل توجہ ہے اور اس لیے علم کلام میں اس مسئلہ کو کافی اہمیت دی گئی ہے لیکن ہم نے ” آیات بینات “ عنوان کے ماتحت ابتدائے کلام میں دعویٰ نبوت کی صداقت سے متعلق دلائل کی جو تقسیم انسانی طبائع اور ان کے فطری رجحانات کے پیش نظر کی ہے وہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے اور جوہر عقل کے تفاوت درجات نے بلاشبہ انسانوں کی قوت فکریہ کو جدا جدا دو طریقوں کی جانب مائل کردیا ہے ‘ ان حالات میں جب ایک نبی اور رسول یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ خدا کی جانب سے ایک ایسے منصب پر مامور ہے جو ریاضات و مجاہدات اور نیک عملی کی قوت سے نہیں بلکہ محض خدا کی موہبت اور عطا سے حاصل ہوتا ہے اور یہ ” منصب نبوت و رسالت “
ur_Arab
ہے اور اس کا مقصد کائنات کی رشد و ہدایت اور تعلیم حق و صداقت ہے تو بعض انسانی دماغ اور ان کا جوہر عقل اس جانب متوجہ ہوتا ہے کہ اگر اس ہستی کا یہ دعویٰ صحت پر مبنی ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس کو خدائے برتر کے ساتھ اس درجہ قربت حاصل ہے جو دوسرے انسانوں کے لیے ناممکن ہے پس جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس کی صدائے اصلاح اور اس کی تعلیم ہمارے قدیم رسم و رواج یا مذہب و دھرم کے ان عقائد و اعمال کے خلاف ہے جس کو ہم حق سمجھتے آئے ہیں تو ان متضاد اور متخالف تعلیمات کی صداقت و بطالت کے امتحان کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ یہ ہستی کوئی اور ماورائے فطرت یا خارق عادت امر کر دکھائے تو ہمارے لیے یہ سمجھنا بہت آسان ہوجائے گا کہ بغیر اسباب و وسائل کے اس ہستی کے ہاتھ ایسے امر کا صدور یقیناً اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس کو خدائے برتر کے ساتھ خاص قرب حاصل ہے ‘ تب ہی تو خدائے برحق نے یہ ” نشان “ دکھا کر اس کی صداقت پر مہر لگا دی ‘ نیز وہ صاحب قوت و اقتدار انسان جن کے غور و فکر کی قوت ایسے سانچہ میں ڈھل گئی ہے کہ ان پر کوئی امر حق اس وقت تک موثر ہی نہیں ہوتا جب تک کہ ان کی متکبرانہ طاقت کو غیبی ٹھوکر سے بیدار نہ کیا جائے ‘ وہ بھی اس کے منتظر رہتے ہیں کہ مدعی نبوت و رسالت اپنی صداقت کو دلیل وبرہان کے ساتھ ساتھ ایک ایسے ” کرشمہ “ کے ذریعہ ناقابل انکار بنا دے کہ جس کا صدور دوسرے انسانوں سے یا تو ممکن ہی نہ ہو اور یا بغیر اسباب و وسائل کے استعمال کئے وجود پزیر نہ ہوسکتا ہو تاکہ یہ باور کیا جاسکے کہ بلاشبہ اس ہستی کی تعلیم و تبلیغ کو خدائے برتر کی تائید حاصل ہے۔ اسی لیے علمائے کلام نے دعویٰ نبوت اور معجزہ کے درمیان میں تعلق پر بحث کرتے ہوئے یہ مثال بیان کی ہے کہ ایک شخص جب یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کو بادشاہ وقت نے اپنا نائب مقرر کرکے بھیجا ہے تو اس ملک یا صوبے کے باشندے خواست گار ہوتے ہیں کہ اسی لیے علمائے کلام نے دعویٰ نبوت اور معجزہ کے درمیان میں تعلق پر بحث کرتے ہوئے یہ مثال بیان کی ہے کہ ایک شخص جب یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کو بادشاہ وقت نے اپنا نائب مقرر کرکے بھیجا ہے تو اس ملک یا صوبے کے باشندے خواست گار ہوتے ہیں کہ مدعی نیابت اپنے دعویٰ کی صداقت کے
ur_Arab
لیے کوئی سند اور علامت پیش کرے چنانچہ مدعی نیابت ایک جانب اگر سند دکھاتا ہے تو دوسری جانب ایسی ” نشانی “ بھی پیش کرتا ہے جس کے متعلق یہ یقین کیا جاسکے کہ بادشاہ کی عطا کردہ یہ نشانی اس کے عطیہ اور اس منصب کی تصدیق کے علاوہ اور کسی طرح بھی حاصل نہیں کی جاسکتی۔مثلاً بادشاہ کی انگشتری (مہر حکومت) یا ایسا خاص عطیہ جو صرف اس منصب پر فائز ہستی کو عطا کیا جاتا ہو۔ تو اگرچہ بظاہر دعویٰ نیابت اور انگشتری یا عطیہ خاص کے درمیان میں کوئی مطابقت نہیں ہے تاہم اس تعلق خاص نے جو شاہی تصدیق سے وابستہ ہے ان دونوں کے درمیان میں اہم ربط پیدا کردیا ہے۔ لیکن جب کہ یہ طریق تصدیق معیار صداقت و حقانیت میں دوسرے درجہ کی حیثیت رکھتا ہے اور حقیقتاً معیاری حیثیت صرف طریق اول ” حجۃ وبرہان حق “ کو ہی حاصل ہے ‘ اس لیے معجزہ کے وقوع و صدور کا معاملہ پہلے طریق کے وجود و صدور سے قطعاً جدا ہے اور وہ یہ کہ ہر ایک مدعی نبوت و رسالت کے لیے از بس ضروری ہے کہ وہ اپنے دعویٰ حق و صداقت کو حجۃ وبرہان کی روشنی اور علم و یقین کی قوت کے ذریعہ ثابت کرے اور اپنی تعلیم و تربیت اور شخصی حیات کے ہر پہلو میں دعویٰ اور دلیل وبرہان کی مطابقت کو واضح کرے اور انسانی جوہر عقل کے فکر و تدبر کی رہنمائی کا فرض اس طرح انجام دے کہ ہر قسم کے ظن و وہم اور فاسد و کا سد خیالات کے مقابلہ میں ” یقین محکم “ روز روشن کی طرح نمودار ہوجائے اور اس ادائے فرض کے لیے کسی کی جانب سے نہ مطالبہ شرط ہے اور نہ جستجو لازم بلکہ یہ نبی اور رسول کا براہ راست وہ فرض ہے جس کے لیے خدائے تعالیٰ نے اس کو منتخب اور مامور کیا ہے ‘ اور اگر ایک لمحہ کے لیے بھی وہ اس میں کوتاہی کرتا ہے تو گویا اپنے فرض کی پوری عمارت کو اپنے ہاتھ سے برباد کردیتا ہے : { یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ } ” اے پیغمبر ! جو تم پر نازل کیا گیا
ur_Arab
ہے تم اس کو پورا پورا پہنچا دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو منصب رسالت کو ادا نہ کیا۔ “ اس کے برعکس معجزہ کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ نبی اور رسول اس کو ضرور ہی دکھائے یا مخالفین کے ہر مطالبہ پر اس کی تعمیل کرے بلکہ ” معجزہ “ حجۃ وبرہان کی وہ قسم ہے جو اکثر معاندین کے مطالبہ پر وقوع پذیرہوتا ہے اور اس سے اس کا صدور صرف عالم الغیب کی اپنی ” حکمت و مصلحت “ پر ہی موقوف رہتا ہے اور وہی خوب جانتا ہے کہ معجزہ کے بارے میں کس کا سوال جویائے حق کی حیثیت میں ہے اور کس کا تعنت اور انکار مزید کے لیے ‘ کن سعید روحوں پر اس کا یہ اثر پڑے گا کہ وہ کہہ اٹھیں گی { اٰمَنَّا بِرَبِّ ھٰرُوْنَ وَمُوْسٰی } اور کن بدبختوں پر اس طرح اثر انداز ہوگا کہ یوں گویا ہوں گے { اِنْ ھٰذَا اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ} ۔ پس قرآن عزیز نے اگر ایک جانب بہ نصوص قطعیہ یہ ظاہر کیا ہے کہ اس نے اپنے نبیوں اور رسولوں کو حجۃ وبرہان کے ساتھ مزید تائید وتقویت کے لیے معجزات عطا کئے ہیں تو دوسری جانب یہ بھی صاف صاف نبی کی زبانی کہلا دیا ہے کہ میں خدا کی جانب سے فقط ” نَذِیْرٌ مُبِیْنٌ“ ” بَشِیْرٌ وَّ نَذِیْرٌ“ اور ” رَسُوْلٌ وَّ نَبِیٌّ“ ہوں۔میں نے یہ دعویٰ ہرگز نہیں کیا کہ میں کائنات خداوندی کے تصرفات و تغیرات اور ماورائے فطرت امور پر قادر ہوں ‘ ہاں خدائے برتر اگر چاہے تو وہ ایسا کرسکتا ہے اور اس نے ایسا کیا بھی ہے مگر وہ جب ہی کرتا ہے کہ اس کی حکمت و مصلحت اس کی متقاضی ہو۔ چنانچہ حضرت داؤد و سلیمان (علیہما السلام) کو منطق الطیر اور تسخیر ہوا طیور و جن کے نشان دیئے گئے ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ” تِسْعَ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ “ ” نو کھلے نشان “ عطا کئے گئے جن میں سے دو نشان عصا اور یدبیضا کو قرآن
ur_Arab
نے بڑے نشان کہا ہے اور بحر قلزم میں غرق فرعون اور نجات قوم موسیٰ کا عجیب و غریب واقعہ مستقل ایک نشان عظیم ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر دہکتی آگ کے شعلوں کو ” بردو سلام “ بنادیا حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کے لیے ” ناقہ صالح “کو نشان بنایا کہ جوں ہی اس کو کسی نے ستایا اسی وقت خدا کا عذاب قوم کو تباہ و برباد کر جائے گا چنانچہ ٹھیک اسی طرح پیش آیا۔ حضرت ہود اور حضرت نوح (علیہما السلام) سے ان کی قوموں نے عذاب طلب کیا اور کافی سمجھانے کے بعد بھی جب ان کا اصرار قائم رہا تو ان پیغمبروں نے عذاب الٰہی کی جو وعیدیں سنائی تھیں وہ ٹھیک اپنے اپنے وقت پر پوری ہوئیں حالانکہ ان سب مواقع میں بظاہر اسباب نزول عذاب اور وقوع حوادث و ہلاکت کے کوئی سامان نہیں تھے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو جو مختلف نشان (معجزات) دیئے گئے ان کو بھی قرآن نے صاف صاف بیان کردیا ہے جو ابھی زیر بحث آئیں گے اور آخر میں خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علمی معجزہ قرآن عطا کیا جس کی تحدی (مقابلہ کے چیلنج) کا کوئی جواب نہ دے سکا ‘ نیز بدر کے معرکہ میں فرشتوں کا نزول اور ان کے ذریعہ مسلمانوں کی نصرت و یاوری اور { وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی } کے اعلان سے اس مشہور معجزہ کا اظہار فرمایا جس نے بدر کے میدان میں مٹھی بھر خاک کو ایک ہزار دشمنوں کی آنکھوں کا آزار بنادیا اور ” شق القمر “ کا معجزہ عطا فرمایا۔معاملہ زیر بحث کا یہ ایک پہلو یا ایک رخ ہے اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت ارشاد و تبلیغ حق کے روشن دلائل وبراہین کا کوئی جواب مخالفین سے نہ بن پڑا تو ازراہ تعنت و سرکشی عجائبات اور خارق عادات امور کا مطالبہ کرنے لگے تب اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع دی کہ ان کا مقصد طلب حق اور جستجوئے صداقت نہیں ہے بلکہ یہ جو کہہ رہے ہیں سرکشی ‘ ضد اور تعصب کی راہ
ur_Arab
سے کہتے ہیں اس لیے ان کا جواب یہ نہیں ہے کہ خدا کے نشانات کو بھان متی کا تماشہ یامداری کا کھیل بنادیا جائے بلکہ اصل جواب یہ ہے کہ ان سے کہہ دو میں ان تصرفات کا مدعی نہیں ہوں میں تو نیک و بد امور میں تمیز پیدا کرنے ‘ خدا کے بندوں کا خدا کے ساتھ رشتہ ملانے اور نیک و بد کاموں کے انجام کو واضح کرنے کے لیے ” نَذِیْرٌ مُبِیْنٌ“ اور ” نبی رسول “ ہوں : { وَ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْبُوْعًا۔ اَوْ تَکُوْنَ لَکَ جَنَّۃٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّ عِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْھٰرَ خِلٰلَھَا تَفْجِیْرًا۔ اَوْ تُسْقِطَ السَّمَآئَ کَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا کِسَفًا اَوْ تَاْتِیَ بِاللّٰہِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃِ قَبِیْلًا۔ اَوْ یَکُوْنَ لَکَ بَیْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰی فِی السَّمَآئِ وَ لَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتّٰی تُنَزِّلَ عَلَیْنَا کِتٰـبًا نَّقْرَؤُہٗ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ھَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَر
ur_Arab
ًا رَّسُوْلًا۔ وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَآئَھُمُ الْھُدٰٓی اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰہُ بَشَرًا رَّسُوْلًا۔ } ” اور انھوں نے (مشرکوں نے) کہا : ہم اس وقت تک ہرگز تیری بات نہیں مانیں گے جب تک کہ تو ہمارے لیے زمین سے چشمہ ابال دے یا تیرے واسطے کھجوروں کا اور انگوروں کا باغ ہو اور تو اس کے درمیان میں زمین پھاڑ کر نہریں بہا دے یا تو جیسا گمان کرتا ہے ہمارے اوپر آسمان گرا دے یا تو اللہ اور اس کے فرشتوں کو (ہمارے) مقابل لائے یا تیرے واسطے ایک سونے کا (طلائی) مکان ہو اور یا تو چڑھ جائے آسمان پر اور ہم تیرے چڑھ جانے کو بھی ہرگز اس وقت تک نہیں تسلیم کریں گے تاوقتیکہ تو ہمارے پاس (آسمان سے) کتاب لے کر نہ آئے کہ اس کو ہم پڑھیں (اے محمد ! ) کہہ دیجئے پاکی ہے میرے پروردگار کے لیے میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ انسان ہوں ‘ خدا کا پیغامبر ہوں۔ “ { وَ لَوْ فَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَآئِ فَظَلُّوْا فِیْہِ یَعْرُجُوْنَ۔ لَقَالُوْٓا اِنَّمَا سُکِّرَتْ اَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُوْرُوْنَ۔ } ” اور اگر کھول دیں ہم ان پر آسمان کا ایک دروازہ اور یہ اس پر چڑھنے لگیں تب بھی ضرور یہی کہیں گے کہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ مست کردی گئی ہیں ہماری آنکھیں بلکہ ہم پر جادو کردیا گیا ہے۔ “ { وَ اِنْ یَّرَوْا کُلَّ اٰیَۃ
ur_Arab
ٍ لَّا یُؤْمِنُوْا بِھَا } ” اور اگر یہ ہر قسم کے نشان بھی دیکھ لیں تب بھی (ضد اور تعصب کی بنا پر) ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ “ اب ان تفصیلات سے یہ بھی بخوبی روشن ہوگیا کہ علم کلام میں جن علماء کی رائے یہ ظاہر کی گئی ہے کہ معجزہ دلیل نبوت نہیں ہے ان کی مراد کیا ہے ؟ وہ دراصل دعویٰ نبوت کی صداقت سے متعلق مسطورہ بالا ہر دو دلائل کے فرق کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جو ہستی نبوت و رسالت کا دعویٰ کرتی ہے اس پر لازم اور ضروری ہے کہ اپنے دعویٰ کی تصدیق کے لیے ” حجۃ وبرہان “ پیش کرے اور دلائل کی روشنی میں اپنی حقانیت کو ثابت کرے اور وحی الٰہی کی جو تعلیم وہ کائنات کی ہدایت کے لیے پیش کرتی ہے برہان و حجت کے ذریعہ اس کی حقیقت کو واضح کرے ‘ تو گویا اس طرح نبوت و رسالت اور حجۃ و برہانِ صداقت میں لازم و ملزوم کا رشتہ ہے اس کے برعکس نبوت کے ساتھ معجزات اور آیات اللہ (نشانات خداوندی) کا تعلق اس طرح کا نہیں ہے بلکہ اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر مخالفین کے مطالبہ پر یا بہ تقاضائے حکمت الٰہی نبی و رسول از خود اپنی صداقت کی تائید میں کوئی نشان (معجزہ) دکھائے تو بلاشبہ وہ اس ہستی کے نبی و رسول ہونے کی ناقابل انکار دلیل ہے اور اس کا انکار درحقیقت اس رسول کی صداقت کا انکار ہے کیونکہ اس صورت میں یہ انکار حقیقت اور واقعہ کا انکار ہے اور حقیقت کا انکار ” حق “ نہیں بلکہ ” باطل “ ہوتا ہے جو نبوت و رسالت کے مقصد کے ساتھ کسی طرح بھی جمع نہیں ہوسکتا۔ البتہ اگر حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہو کہ تعلیم حق کی روشنی ‘وحی الٰہی پر دلائل وبراہین کا یقین ‘ اور اصول دین پر حجۃ وبرہان کا قیام ہوتے ہوئے اب مخالفین کے بار بار طلب معجزات و عجائبات کی پروا نہ کی جائے اور نبی و رسول وحی الٰہی کی روشنی میں حجۃ وبرہان کے ذریعہ تعلیم حق جاری رکھے اور مخالفین کے جواب میں صاف صاف کہہ دے کہ میں نے ماورا فطرت پر قدرت کا کبھی دعویٰ نہیں کیا ‘ تو اس صورت میں بندوں پر خدا کی حجت تمام ہوجاتی ہے اور کسی امت اور قوم کو یہ حق نہیں رہتا کہ وہ تعلیم حق کے دلائل وبراہین اور روشن حجت بینہ سے
ur_Arab
اس لیے منہ پھیرے اور اس لیے اس کا انکار کر دے کہ اس کی طلب پر اچنبھوں اور عجائبات کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا گیا۔ پس قرآن عزیز نے جن انبیاء و رسل کے واقعات و حالات تذکیر بایام اللّٰہ کے سلسلہ میں بیان کرتے ہوئے نصوص قطعیہ کے ذریعہ صراحت و وضاحت سے یہ ثابت کیا ہے کہ ہم نے ان کی صداقت کے نشان کے طور پر نشانات (معجزات) ان کو عطا کیے اور مخالفین کے سامنے ان کا مظاہرہ کیا تو ہمارا فرض ہے کہ ہم بےچون و چرا ان کو قبول اور ان کی تصدیق کریں اور عجائب پرستی کے الزام سے خائف ہو کر عالم غیب کی اس تصدیق سے گریز نہ کریں اور نہ رکیک و باطل تاویلات کے پردہ میں ان کے انکار پر آمادہ ہوجائیں کیونکہ ایسا کرنا اس آیت کا مصداق بن جانا ہے : { وَ یَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَّ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا } ” اور وہ کہتے ہیں کہ ہم کتاب الٰہی کے بعض پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ایمان و کفر کے درمیان میں ایک راہ بنالیں۔ “ اور ظاہر ہے کہ یہ مومن و مسلم کی نہیں بلکہ کافر و منکر کی راہ ہے ‘ مومن و مسلم کی سیدھی راہ تو یہ ہے : { یٰٓــاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ} ” اے پیروان دعوت ایمانی ! اسلام میں پوری طرح داخل ہو جاؤ (اور اعتقاد و عمل کی ساری باتوں میں مسلم بن جاؤ ‘ مسلم ہونے کے لیے صرف اتنا ہی کافی نہیں کہ زبان سے
ur_Arab
اسلام کا اقرار کرلو) اور دیکھو شیطانی وسوسوں کی پیروی نہ کرو ‘ وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے۔ “ بہرحال ” سنت اللّٰہ “ یہ جاری رہی ہے کہ جب کسی قوم کی ہدایت یا تمام کائنات انسانی کی فوز و فلاح کے لیے نبی اور پیغمبر مبعوث ہوتا ہے تو اس کو منجانب اللہ محکم دلائل وبراہین اور آیات اللہ (معجزات) دونوں سے نوازا جاتا ہے ‘وہ ایک جانب وحی الٰہی کے ذریعہ کائنات کے معاش و معاد سے متعلق اوامرو نواہی اور بہترین دستور و نظام پیش کرتا ہے تو دوسری جانب حسب مصلحت خداوندی ” خدائی نشانات “ کا مظاہرہ کرکے اپنی صداقت اور منجانب اللہ ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔نیز ہر ایک پیغمبر کو اسی قسم کے معجزات و نشانات عطا کئے جاتے ہیں جو اس زمانہ کی علمی ترقیوں یا قومی و ملکی خصوصیتوں کے مناسب حال ہونے کے باوجود معارضہ کرنے والوں کو عاجز و درماندہ کردیں اور کوئی ان کے مقابلہ میں تاب مقاومت نہ لاسکے اور اگر تعصب اور ضد درمیان میں حائل نہ ہوں تو اپنی اکتسابی ترقیوں اور خصوصیتوں کے حقائق سے آگاہ ہونے کی وجہ سے اس اعتراف پر مجبور ہوجائیں کہ یہ جو کچھ سامنے ہے انسانوں کی قدرت سے بالاتر ‘ ان کی دسترس سے باہر ‘ اور صرف خدائے واحد ہی کی جانب سے ہے۔ مثلاً حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں علم نجوم اور علم کیمیا کا بہت زور تھا اور ساتھ ہی ان کی قوم کواکب و نجوم کے اثرات کو ان کے ذاتی اثرات سمجھتی اور ان کو موثر حقیقی یقین کرکے خدائے واحد کی جگہ ان کی پرستش کرتی تھی اور ان کا سب سے بڑا دیوتا شمس (سورج) تھا کیونکہ وہ روشنی و حرارت دونوں کا حامل تھا اور یہی دونوں چیزیں ان کی نگاہ میں کائنات کی بقا و فلاح کے لیے اصل الاصول تھیں اور اسی بنا پر کرہ ارضی میں ” آگ “ کو اس کا مظہر مان کر اس کی بھی پرستش کی جاتی تھی ‘علاوہ ازیں ان کو اشیاء کے خواص و اثرات اور ان کے رد عمل پر بھی کافی عبور تھا گویا آج کی علمی تحقیقات کے لحاظ سے وہ کیمیاوی طریقہ ہائے عمل سے بھی بڑی حدتک واقف تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی ہدایت اور خدا پرستی کی تعلیم و تلقین کے لیے ایک جانب ایسے روشن حجۃ وبرہان عطا فرمائے جن کے ذریعہ وہ
ur_Arab
قوم کے غلط عقائد کے ابطال اور احقاق حق کی خدمت انجام دیں اور مظاہر پرستی کی وجہ سے حقیقت کے چہرہ پر تاریکی کا جو پردہ پڑگیا تھا اس کو چاک کرکے رخ روشن کو نمایاں کرسکیں : { وَ تِلْکَ حُجَّتُنَآ اٰتَیْنٰھَآ اِبْرٰھِیْمَ عَلٰی قَوْمِہٖ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآئُ اِنَّ رَبَّکَ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ} اور دوسری جانب جب کواکب پرست اور بت پرست بادشاہ سے لے کر عام افراد قوم نے ان کے دلائل وبراہین سے لاجواب ہو کر اپنی مادی طاقت کے گھمنڈ پر دہکتی آگ میں جھونک دیا تو اسی خالق اکبر نے جس کی دعوت و ارشاد کی خدمت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) انجام دے رہے تھے کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا کہہ کر اپنی قدرت کا وہ عظیم الشان نشان (معجزہ) عطا کیا جس نے باطل کے پرہیبت ایوان میں زلزلہ پیدا کردیا اور تمام قوم اس خدائی مظاہرہ سے عاجز ‘ حیران و پریشان اور ذلیل و خاسر ہو کر رہ گئی۔ { وَ اَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنٰھُمُ الْاَخْسَرِیْنَ } اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں سحر مصری علوم و فنون میں بہت زیادہ نمایاں اور امتیازی شان رکھتا تھا اور مصریوں کو فن سحر میں کمال حاصل تھا اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قانون ہدایت ( توراۃ ) کے ساتھ ساتھ یدبیضا اور عصا جیسے معجزات دیئے گئے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ساحرین مصر کے مقابلہ میں جب ان کا مظاہرہ کیا تو سحر کے تمام ارباب کمال اس کو دیکھ کر یک زبان ہو کر پکار اٹھے کہ بلاشبہ یہ سحر نہیں ‘یہ تو اس سے جدا اور انسانی طاقت سے بالاتر مظاہرہ ہے جو خدائے برحق نے اپنے سچے پیغمبروں کی تائید کے
ur_Arab
لیے ان کے ہاتھ پر کرایا ہے کیونکہ ہم سحر کی حقیقت سے بخوبی واقف ہیں اور یہ کہہ کر انھوں نے فرعون اور قوم فرعون کے سامنے بےخوفی کے ساتھ اعلان کردیا کہ وہ آج سے موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کے خدائے واحد ہی کے پرستار ہیں : { وَاُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سَاجِدِیْنَ۔ قَالُوْا امَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ رَبِّ مُوْسٰی وَھَارُوْنَ } مگر فرعون اور امراء دربار اپنی بدبختی سے یہی کہتے رہے : { قَالَ لِلْمَـلَاِ حَوْلَہٗ اِنَّ ہٰذَا لَسَاحِرٌ عَلِیْمٌ} { فَلَمَّا جَآئَھُمْ مُّوْسٰی بِاٰیٰتِنَا بَیِّنٰتٍ قَالُوْا مَا ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًی وَّ مَا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِیْٓ اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِیْنَ } اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں علم طب اور علم طبیعیات کا بہت چرچا تھا اور یونان کے اطباء و حکماء (فلاسفر) کی طب و حکمت گرد و پیش کے ممالک و امصار کے ارباب کمال پر بہت زیادہ اثر انداز تھی اور ملکوں میں صدیوں سے بڑے بڑے طبیب اور فلسفی اپنی حکمت و دانش اور کمالات طب کا مظاہرہ کر رہے تھے مگر خدائے واحد کی توحید اور دین حق کی تعلیم سے خواص و عوام یکسر محروم تھے اور خود بنی اسرائیل بھی جو نبیوں کی نسل میں ہونے پر ہمیشہ فخر کرتے رہتے تھے جن گمراہیوں میں مبتلا تھے سطور گزشتہ میں ان پر روشنی پڑچکی ہے۔ پس ان حالات میں ” سنت اللّٰہ “ نے جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو رشد و ہدایت کے لیے منتخب کیا
ur_Arab
تو ایک جانب ان کو حجۃ وبرہان (انجیل) اور حکمت سے نوازا تو دوسری جانب زمانہ کے مخصوص حالات کے مناسب چند ایسے نشان (معجزات) بھی عطا فرمائے جو اس زمانہ کے ارباب کمال اور ان کے پیرؤوں پر اس طرح اثر انداز ہوں کہ جویائے حق کو اس اعتراف میں کوئی جھجک باقی نہ رہے کہ بلاشبہ یہ اعمال اکتسابی علوم سے جدا محض خدائے تعالیٰ کی جانب سے رسول برحق کی تائید میں رونما ہوئے ہیں اور متعصب اور متمرد کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہ رہے کہ ان کو ” صریح جادو “ کہہ کر اپنے بغض و حسد کی آگ کو اور مشتعل کرے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے ان معجزات میں سے جن کا مظاہرہ انھوں نے قوم کے سامنے کیا قرآن عزیز نے چار معجزات کا بصراحت ذکر کیا ہے : 1۔وہ خدا کے حکم سے مردہ کو زندہ کردیا کرتے تھے۔اور پیدائشی نابینا اور جذامی کو چنگا کردیا کرتے تھے۔ 2۔ وہ مٹی سے پرند بنا کر اس میں پھونک دیتے تھے اور خدا کے حکم سے اس میں روح پڑجاتی تھی۔ 3۔ وہ یہ بھی بتادیا کرتے تھے کہ کس نے کیا کھایا اور خرچ کیا اور کیا گھر میں ذخیرہ محفوظ رکھا ہے۔ قوموں میں ایسے مسیحا موجود تھے جن کے علاج و معالجے اور اکتسابی تدابیر سے مایوس مریض شفا پاتے تھے ان میں ماہر طبیعیات ایسے فلسفی بھی کم نہ تھے جو روح و مادہ کے حقائق اور ارضی و سماوی اشیاء کی ماہیات پر بےنظیر نظریات و تجربات کے مالک سمجھے جاتے تھے اور حقائق اشیاء میں ان کی باریک بینی اور مہارت ارباب کمال کے لیے باعث صد نازش تھی۔لیکن جب ان کے سامنے عیسیٰ (علیہ السلام) نے اسباب و وسائل اختیار کئے بغیر ان امور کا مظاہرہ کیا تو ان پر بھی ہدایت و ضلالت کی قدرتی تقسیم کے مطابق یہی اثر پڑا کہ جس شخص کے قلب میں حق کی طلب موجزن تھی اس نے اقرار کیا کہ بلاشبہ اس قسم کا مظاہرہ انسانی دسترس سے باہر اور نبی برحق کی تائید و تصدیق کے لیے منجانب اللہ ہے اور جن دلوں میں رعونت ‘ حسد اور بغض وعناد تھا ان کے تعصب نے وہی کہنے پر مجبور کیا جو ان کے پیشرو انبیاء و رسل سے کہتے آئے تھے۔ { اِنْ ھٰذَآ اِل