lang
stringclasses
5 values
text
stringlengths
1
2.47k
ur_Arab
َّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ} 4۔چوتھے معجزے کے بارے میں بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس کے مظاہرہ کی وجہ یہ پیش آئی کہ مخالفین جب ان کی دعوت رشد و ہدایت سے نفور ہو کر ان کو جھٹلاتے اور ان کے پیش کردہ آیات بینات (معجزات) کو سحر اور جادوکہتے تو ساتھ ہی ازراہ تمسخر یہ بھی کہہ دیا کرتے تھے کہ اگر تم خدائے تعالیٰ کے ایسے مقبول بندے ہو تو بتاؤ آج ہم نے کیا کھایا ہے اور کیا بچا رکھا ہے تب عیسیٰ (علیہ السلام) ان کے تمسخر کو سنجیدگی سے بدل دیتے اور وحی الٰہی کی نصرت سے ان کے سوال کا جواب دیدیا کرتے تھے۔ مگر قرآن حکیم نے اس معجزہ کو جس انداز میں بیان کیا ہے اس کو غور کے ساتھ مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ” نشان “ کے مظاہرہ کی وجہ مفسرین کی بیان کردہ توجیہ سے زیادہ دقیق اور وسیع معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) پیغام ہدایت و تبلیغ حق کی خدمت انجام دیتے ہوئے اکثر و بیشتر لوگوں کو دنیا میں انہماک ‘ دولت و ثروت کے لالچ اور عیش پسند زندگی کی محبت سے باز رکھنے پر مختلف اسالیب بیان کے ذریعہ توجہ دلایا کرتے تھے تو جس طرح بعض سعید روحیں اس کلمہ حق کے سامنے سر تسلیم خم کردیتی تھیں۔ اس کے برعکس شریر النفس انسان ان کے مواعظ حسنہ سے قلبی نفرت و اعراض کے باوجود امتثال امر کرنے والی ہستیوں سے زیادہ ان کو یہ باور کر اتیں کہ ہم توہمہ وقت آپ کے اس ارشاد کی تعمیل میں سرگرم رہتے ہیں۔لہٰذا قدرت حق نے یہ فیصلہ کیا کہ ان منافقین کی منافقت کی مضرت کو زائل کرنے کے لیے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ایسا ” نشان “ عطا کیا جائے کہ اس ذریعہ سے حق و باطل منکشف ہوجائے اور حقوق اللہ اور حقوق انسانی کے اتلاف پر جو ذخیرہ اندوزی کا سامان کیا جا رہا ہے اس کا پردہ چاک کردیا جائے۔ ان چہار گانہ خدائی نشان (معجزات) کے علاوہ خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بغیر باپ کے پیدائش بھی ایک عظیم الشان ” خدائی نشان “ تھا جس کے متعلق ابھی تفصیلات سن چکے ہو۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ہاتھ پر جن معجزات کا ظہور ہوا یا ان کی ولادت جس مع
ur_Arab
جزانہ طریق پر ہوئی یہود نے ازراہ حسد ان کا انکار کیا تو کیا لیکن بعض فطرت پرست مدعی اسلام حضرات نے بھی ان کے انکار کے لیے راہ پیدا کرنے کی ناکام سعی فرمائی ہے ‘ان میں سے بعض حضرات وہ ہیں جنہوں نے اس انکار کو ذاتی مفاد کے لیے نہیں بلکہ فطرت پرست اور منکرین خدا یورپین علمائے جدید سے مرعوبیت کی بنا پر یہ روش اختیار کی ہے تاکہ ان کی مذہبیت پر عجائب پرستی کا الزام عائد نہ ہو سکے ‘ ان میں سر سید اور مولوی چراغ علی صاحب خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔اور بعض وہ یہود صفت اشخاص ہیں جو اپنی ذاتی غرض اور ناپاک مقصد کی خاطر ازراہ حسد و بغض حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ان معجزات کا نہ صرف انکار کرتے ہیں بلکہ تاویلات باطل کے پردہ میں ان کا مضحکہ اڑاتے ہیں ‘ان میں متنبی کاذب مرزا قادیانی اور مسٹر محمد علی لاہوری خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔قادیانی اور لاہوری نے تو یہ ظلم کیا ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے معجزہ { اَنِّیْٓ اَخْلُقُ لَکُمْ مِّنَ الطِّیْنِ کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْہِ فَیَکُوْنُ طَیْرًا بِاِذْنِ اللّٰہِ } کے متعلق یہ کہہ دیا کہ مسیح (علیہ السلام) کا یہ عمل ایک تالاب کی مٹی کا رہین منت تھا ‘ معجزہ کچھ نہیں تھا ‘ اس تالاب کی مٹی کی یہ خاصیت تھی کہ جس کسی پرند کی شکل بنائی جاتی اور منہ سے دم تک سوراخ رکھ دیا جاتا تھا تو ہوا بھر جانے سے اس میں آواز بھی پیدا ہوجاتی تھی اور حرکت بھی ‘ گویا العیاذ باللّٰہ ! ان بدبختوں کے نزدیک حضرت مسیح (علیہ السلام) کی جانب سے منکروں کے مقابلہ میں یہ معجزانہ صداقت نہیں تھی بلکہ مداری یا شعبدہ باز کا تماشہ تھا۔ اسی طرح احیائے موتیٰ (مردہ کو زندہ کردینا) کے معجزہ کا بھی انکار کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ قرآن عزیز نے یہ فیصلہ سنا دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ موت کے بعد کسی کو اس دنیا میں قبل از قیامت زندگی نہیں
ur_Arab
بخشے گا۔لیکن لطف یہ ہے کہ اگر پورے قرآن کو از اول تا آخر پڑھ لیا جائے تو کسی ایک آیت میں بھی آپ کو یہ فیصلہ نہیں ملے گا بلکہ اس دعویٰ کے خلاف متعدد مقامات پر اس کا اثبات پائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں موت دینے کے بعد حیات تازہ بخشی ہے مثلاً سورة بقرہ کی آیات ذبح بقرہ کے واقعہ میں ارشاد ہے : { فَقُلْنَا اضْرِبُوْہُ بِبَعْضِھَا کَذٰلِکَ یُحْیِ اللّٰہُ الْمَوْتٰی } یا سورة بقرہ ہی کی اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے :{ فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍ } یا اسی سورة میں تیسری جگہ مذکور ہے : { وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی قَالَ اَوَ لَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلٰی وَ لٰکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْھُنَّ اِلَیْکَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنْھُنَّ جُزْئًا ثُمَّ ادْعُھُنَّ یَاْتِیْنَکَ سَعْیًا } چنانچہ ان تمام
ur_Arab
واقعات میں ” احیائے موتیٰ “ کے صاف اور صریح معانی ثابت ہیں اور جن حضرات نے ان مقامات میں ” احیائے موتیٰ “ سے مجازی یا کنائی معنی لیے ہیں ان کو طرح طرح کی تاویلات کی پناہ لینی پڑی ہے مگر ان کی تاویلات سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ احیائے موتیٰ کی یہ تاویل اس وجہ سے نہیں کر رہے ہیں کہ قرآن کے نزدیک اس کا دنیا میں وقوع ممنوع ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ آیات مسطورہ بالا کے سیاق وسباق کے پیش نظر یہی معنی مناسب حال ہیں۔غرض یہ دعویٰ کہ قرآن ممنوع قرار دیتا ہے کہ دار دنیا میں ” احیائے موتیٰ “ وقوع پزیر ہو صرف مرزا قادیانی اور مسٹر لاہوری کے دماغ کی اپج ہے جو قطعاً باطل ہے اور غیر ثابت ہے اور اس کی پشت پر کوئی دلیل نہیں ہے ‘رہا یہ امر کہ خدا کے عام قانون فطرت کے ماتحت ایسا نہیں پیش آتا رہتا سو اگر ایسا ہوتا رہتا تو پھر یہ ” معجزہ “ ہرگز نہ کہلاتا اور خدائے برتر کا قانون خاص جو تصدیق انبیاء (علیہم السلام) کے مقصد سے کبھی کبھی مخالفین کے مقابلہ میں بطور تحدی (چیلنج) کے پیش آتا رہا ہے کوئی خصوصیت نہ رکھتا۔ اسی طرح حضرت مسیح (علیہ السلام) کی بن باپ پیدائش کے مسئلہ کا بھی انکار کیا گیا ہے اور قادیانی اور لاہوری نے بھی اس کے خلاف بےدلیل ہرزہ سرائی کی ہے لیکن اس مسئلہ کی موافق و مخالف آراء سے قطع نظر ایک غیر جانبدار منصف جب حضرت مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش سے متعلق تمام آیات قرآنی کا مطالعہ کرے گا تو اس پر یہ حقیقت بخوبی آشکارا ہوجائے گی کہ قرآنحضرت مسیح (علیہ السلام) سے متعلق یہود کی تفریط اور نصاریٰ کی افراط دونوں کے خلاف اپنا وہ فرض منصبی ادا کرنا چاہتا ہے جس کے لیے قرآن کی دعوت حق کا ظہور ہوا ہے ‘یہود اور نصاریٰ اس بارے میں دو قطعاً مخالف اور متضاد سمتوں میں چلے گئے ہیں ‘ یہود کہتے ہیں کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) مفتری اور کاذب اور شعبدہ باز تھے اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ وہ خدا ‘ خدا کے بیٹے یا ثالث ثلثہ تھے ‘ان حالات میں قرآن نے ان اوہام و ظنون کے خلاف علم و یقین کی راہ دکھاتے ہوئے دونوں کے خلاف یہ فیصلہ دیا کہ راہ حق افراط وتفریط کے درمیان میں ہے
ur_Arab
اور صراط مستقیم کی یہی سب سے بڑی شناخت ہے۔ وہ کہتا ہے واضح رہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) مفتری اور کاذب نہیں تھے بلکہ خدا کے سچے پیغمبر اور راہ حق کے داعی صادق تھے ‘ انہوں نے دعوت حق کی تصدیق کے لیے جو بعض عجیب باتیں کردکھائیں وہ معجزات انبیاء کی فہرست میں شامل ہیں نہ کہ ساحروں اور شعبدہ بازوں کی ‘اور یہ بھی صحیح ہے کہ ان کی پیدائش بغیر باپ کے ہوئی مگر اس سے یہ کیسے لازم آسکتا ہے کہ وہ خدا یا خدا کے بیٹے ہوگئے ‘ کیا جو شخص پیدائش کا محتاج ہو اور پیدائش میں بھی ماں کے پیٹ کا محتاج اور جو شخص بشری لوازم کھانے پینے کا محتاج ہو وہ عبد اور بشر کے ماسوا خدا یا معبود ہوسکتا ہے ؟ نہیں ہرگز نہیں۔ یہاں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ نصاریٰ نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے متعلق الوہیت کا جو عقیدہ قائم کیا تھا اس کا بہت بڑا سہارا یہی واقعہ تھا جیسا کہ وفد نجران اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باہمی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے۔ تو جب کہ قرآن نے یہود و نصاریٰ کے ان تمام باطل عقائد کی واضح الفاظ میں تردید کرکے جو انہوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے متعلق قائم کر لیے تھے اپنا فریضہ اصلاح انجام دیا ‘ یہ کیسے ممکن تھا کہ اگر بن باپ کے پیدائش کا واقعہ باطل اور غیر واقعی تھا اور جو سہارا بن رہا تھا الوہیت مسیح (علیہ السلام) کا ‘ اس کے متعلق واضح طور سے قرآن تردید نہ کرتا بلکہ اس کے برعکس وہ جگہ جگہ اس واقعہ کو ٹھیک اسی طرح بیان کرتا جاتا جیسا کہ متی کی انجیل میں بیان کیا گیا ہے ‘ اس کا فرض تھا کہ سب سے پہلے اسی پر ضرب کاری لگاتا اور صرف اس قدر کہہ کر کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کا باپ فلاں شخص تھا اس ساری عمارت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا جس پر الوہیت مسیح (علیہ السلام) کی بنیاد رکھی گئی ہے مگر اس نے یہ طریقہ اختیار نہیں کیا بلکہ یہ کہا کہ یہ بات کسی طرح بھی مسیح (علیہ السلام) کی الوہیت کی دلیل نہیں بن سکتی ‘ کیوں ؟ اس لیے کہ : {إِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلَقَہٗ مِنْ
ur_Arab
تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ } پس اگر بن باپ کی پیدائش مسیح (علیہ السلام) کو درجہ الوہیت دے سکتی ہے تو آدم (علیہ السلام) کو اس سے زیادہ الوہیت کا حق حاصل ہے کہ وہ بن ماں باپ کے پیدا ہوا ہے۔ بہرحال جن تاویل پرستوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی بن باپ پیدائش سے متعلق آیات کے جملوں کو جدا جدا کرکے غلط احتمالات پیداکئے ہیں وہ اس لیے باطل ہیں کہ جب اس واقعہ سے متعلق آیات کو یکجا کرکے مطالعہ کیا جائے تو ایک لمحہ کے لیے بھی آیات کے معانی میں بن باپ پیدائش کے معنی کے ماسوا دوسرے کسی بھی احتمال کی گنجائش باقی نہیں رہتی مگر یہ کہ عربی زبان کے الفاظ کے معین مدلولات اور اطلاقات میں تحریف معنوی پر بے جا جسارت کی جائے۔ نیز بقول مولانا ابو الکلام جن اصحاب نے بغیر باپ کے پیدائش سے متعلق آیات میں تاویل باطل کی ہے ان کی دلیل کا مدار صرف اس بات پر ہے کہ حضرت مریم (علیہا السلام) کا نکاح اگرچہ یوسف سے ہوچکا تھا مگر رخصتی عمل میں نہیں آئی تھی ‘ایسی صورت میں میاں بیوی کے درمیان مقاربت گو شریعت موسوی کے خلاف نہیں تھی تاہم وقت کے رسم و رواج کے قطعاً خلاف تھی اس لیے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش لوگوں کو گراں گزری ‘ لیکن اول تو اس واقعہ کا ثبوت ہی موجود نہیں سب بےسند بات ہے۔دوسرے یہودیوں نے حضرت مریم (علیہا السلام) پر جو بہتان لگایا تھا ” انسائیکلوپیڈیا آف بائبل “ میں تصریح ہے کہ اس بہتان کی نسبت ایک شخص پنتھرا ٹالی کی جانب کی تھی نہ کہ یوسف نجار کی جانب ‘اس لیے تاویل کی یہ بنیاد ہی از سر تاپا غلط اور بےاصل ہے۔ علاوہ ازیں جہاں تک اس مسئلہ کا عقلی پہلو ہے سو عقل بھی اس کے امکان کو ممنوع اور محال قرار نہیں دیتی بلکہ اس کو ممکن الوقوع تسلیم کرتی ہے ‘ کیا سائنس کی موجودہ دنیا سے آشنا حضرات اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ آج جب کہ سائنس کی جدید تحقیق نے نظریوں سے آگے قدم بڑھا کر مشاہدہ اور تجربہ سے یہ ثابت کردیا ہے کہ دوسرے حیوانات کی طرح انسان کی خلقت و پیدائش بھی بیضہ سے ہوتی ہے اور اس کو اصطلاح میں خلیہ تخم 1 ؎(خلیہ کو انگریزی میں (CELL ) کہتے ہیں۔)
ur_Arab
کہتے ہیں ‘ یہ خلیہ مرد اور عورت دونوں میں ہوتا ہے اور حمل قرار پا جانے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ مرد کے خلیات تخم عورت کے بیضہ میں داخل ہوجاتے ہیں ‘ یہی خلیہ زندگی اور حیات کا تخم ہے اور قدرت حق نے اس کو بہت باریک جثہ عطا فرمایا 2 ؎( اس کا قطر انچ کا 5٠٠/1 ہوتا ہے۔) ہے ‘ تو اس تحقیق نے امریکا اور انگلینڈ کے سائنسدانوں کو اس جانب متوجہ کردیا ہے کہ کیوں وہ ایک ایسی کوشش نہ کریں کہ بغیر مرد کی مقاربت کے جنس رجال کے خلیات تخم کو آلات کے ذریعہ جنس اناث کے مبیض میں داخل کرکے ” وجود انسانی “ حاصل کرنے میں کامیاب ہوں۔ سائنس والوں کا یہ تخیل ابھی عملی حیثیت سے کتنا ہی دور ہو لیکن اس سے یہ نتیجہ ضرور پیدا ہوتا ہے کہ عقل یہ ممکن سمجھتی ہے کہ انسانی پیدائش ‘ آنکھوں دیکھے عام طریق ولادت کے علاوہ بعض دوسرے طریقوں سے بھی ہوسکتی ہے اور ان کو قانون قدرت کے خلاف اس لیے نہیں کہا جاسکتا کہ ہم نے قدرت کے تمام قوانین کا احاطہ نہیں کرلیا ہے بلکہ انسان جس قدر علم و دانش کی جانب بڑھتا جاتا ہے اس کے سامنے قدرت حق کے قانون کے نئے نئے گوشے کھلتے جاتے ہیں۔ پس اگر یہ صحیح ہے کہ جو بات کل ناممکن نظر آتی تھی آج وہ ممکن کہی جارہی ہے اور جلد یا بدیر اس کے وقوع پر یقین کیا جا رہا ہے تو نہیں معلوم پھر اس قانون قدرت کا انکار کردینے کے کیا معنی ہیں جس کا علم اگرچہ ابھی تک ہم کو حاصل نہیں ہے مگر انبیاء و رسل جیسی قدسی صفات ہستیوں پر اس علم کی حقیقت آشکارا ہے تو کیا علمی دلیل کا یہ بھی کوئی پہلو ہے کہ جس بات کا ہم کو علم نہ ہو اور عقل اس کو ناممکن اور محال نہ ثابت کرتی ہو اس کا انکار صرف ” عدم علم “ کی وجہ سے کردیا جائے خصوصاً جب یہ انکار ایک مدعی مسیحیت و نبوت کی جانب سے ہو تو اس کے لیے تو یہی کہا جاسکتا ہے۔ اب ان ” آیات بینات “ کو قرآن حکیم سے سنئے اور موعظت و عبرت کے حصول کا سر و سامان کیجئے کہ ماضی کے ان واقعات کی تذکیر سے قرآن کا یہی عظیم مقصد ہے۔ { وَ یُعَلِّمُہُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ۔ وَ رَ
ur_Arab
سُوْلًا اِلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُکُمْ بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ اَنِّیْٓ اَخْلُقُ لَکُمْ مِّنَ الطِّیْنِ کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْہِ فَیَکُوْنُ طَیْرًا بِاِذْنِ اللّٰہِ وَ اُبْرِیُٔ الْاَکْمَہَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللّٰہِ وَ اُنَبِّئُکُمْ بِمَا تَاْکُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَ فِیْ بُیُوْتِکُمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔ وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰۃِ وَ لِاُحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ وَ جِئْتُکُمْ بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوْنِ۔ اِنَّ اللّٰہَ رَبِّیْ وَ رَبُّکُم
ur_Arab
ْ فَاعْبُدُوْہُ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ۔ } ” اور خدا سکھاتا ہے اس (عیسیٰ ) کو کتاب ‘ حکمت ‘ تورات اور انجیل ‘ اور وہ رسول ہے بنی اسرائیل کی جانب (وہ کہتا ہے) کہ بے شک میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی جانب سے ” نشان “ لے کر آیا ہوں ‘ وہ یہ کہ میں تمہارے لیے مٹی سے پرند کی شکل بناتا پھر اس میں پھونک دیتا ہوں اور وہ خدا کے حکم سے زندہ پرند بن جاتا ہے اور پیدائشی اندھے کو سوانکھا کردیتا اور سپید داغ کے جذام کو اچھا کردیتا ہوں ‘اور خدا کے حکم سے مردہ کو زندہ کردیتا ہوں ‘ اور تم کو بتا دیتا ہوں جو تم کھا کر آتے ہو اور جو تم گھر میں ذخیرہ رکھ آتے ہو ‘ سو اگر تم حقیقی ایمان رکھتے ہو تو بلاشبہ ان امور میں (میری صداقت اور منجانب اللہ ہونے کے لئے) ” نشان “ ہے اور میں تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں جو میرے سامنے ہے اور (اس لیے بھیجا گیا ہوں) تاکہ بعض ان چیزوں کو جو تم پر حرام ہوگئی ہیں تمہارے لیے حلال کر دوں تمہارے لیے پروردگار ہی کے پاس سے ” نشان “ لایا ہوں ‘ پس تم اللہ سے ڈرو ‘اور (اس کے دیئے ہوئے احکام میں) میری اطاعت کرو ‘ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے ‘ سو اس کی عبادت کرو ‘ یہی سیدھی راہ ہے۔ “ { وَ اِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ بِاِذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْھَا فَتَکُوْنُ طَیْرًا بِاِذْنِیْ وَ تُبْرِیُٔ الْاَکْمَہَ وَ الْاَبْرَصَ بِاِذْنِیْ } ” اور (ا ے عیسیٰ ابن مریم ! تو میری اس نعمت کو یاد کر) جبکہ تو میرے حکم سے گارے سے پرند کی شکل بنا دیتا اور پھر اس میں پھونک دیتا تھا اور وہ میرے حکم سے زندہ پرند
ur_Arab
بن جاتا تھا اور جبکہ تو میرے حکم سے پیدائشی اندھے کو سوانکھا اور سپید داغ کے کوڑھی کو اچھا کردیتا تھا اور جبکہ تو میرے حکم سے مردہ کو زندہ کر کے قبر سے نکالتا تھا۔ “ { فَلَمَّا جَائَہُمْ بِالْبَیِّنَاتِ قَالُوْا ہٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ} ” پھر جب وہ (عیسیٰ (علیہ السلام)) ان کے پاس کھلے نشان لے کر آیا تو انہوں نے (بنی اسرائیل نے) کہا ” یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔ “ انبیاء (علیہم السلام) نے جب کبھی بھی قوموں کے سامنے آیات اللہ کا مظاہرہ کیا ہے تو منکروں نے ہمیشہ ان کے متعلق ایک بات ضرور کہی ہے ” یہ تو کھلا ہوا جادو ہے “ پس کیا ایک جویائے حق اور غیر متعصب انسان کے لیے یہ جواب اس جانب رہنمائی نہیں کرتا کہ انبیاء (علیہم السلام) کے اس قسم کے مظاہرے ضرور عام قوانین قدرت سے جدا ایسے علم کے ذریعہ ظہور پزیر ہوتے تھے جو صرف ان قدسی صفات ہستیوں کے لیے ہی مخصوص رہا ہے اور ان کے علاوہ انسانی دنیا اس کے فہم حقیقت سے بہرہ مند نہیں ہوئی تب ہی ان لوگوں کے پاس جو ازراہ عناد و ضد انکار پر تلے ہوئے تھے ‘اس کے انکار کے لیے اس سے بہتر دوسری تعبیر نہیں تھی کہ وہ ان امور کو ” سحر و جادو “ کہہ دیں۔ لہٰذا ان امور کو سحر و جادو کہنا بھی ان کے ” معجزہ “ اور ” نشان خداوندی “ ہونے کی زبردست دلیل ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی تعلیمات کا خلاصہ بہرحال حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو حجۃ وبرہان اور آیات اللہ کے ذریعہ دین حق کی تعلیم دیتے رہتے اور ان کے بھولے ہوئے سبق کو یاد دلا کر مردہ قلوب میں حیات تازہ بخشتے رہتے تھے۔ خدا اور خدا کی توحید پر ایمان ‘ انبیاء و رسل ( ) کی تصدیق ‘آخرت (معاد) پر ایمان ‘ ملائکۃ اللہ پر ایمان ‘ قضا و قدر پر ایمان ‘ خدا کے رسولوں اور کتابوں پر ایمان ‘ اخلاق حسنہ کے اختیار ‘ اعمال سیہ سے پرہیز و اجتناب ‘ عبادت الٰہی سے رغبت ‘ دنیا میں انہماک سے نفرت اور خدا کے کنبہ (مخلو
ur_Arab
ق خدا) سے محبت و مودت یہی وہ تعلیم و تلقین تھی جو ان کی زندگی کا مشغلہ اور فرض منصبی بنا ہوا تھا۔وہ بنی اسرائیل کو تورات ‘ انجیل اور حکیمانہ پند و نصائح کے ذریعہ ان امور کی جانب دعوت دیتے ‘ مگر بدبخت یہود اپنی فطرت کج صدیوں کی مسلسل سرکشی اور تعلیم الٰہی سے بغاوت کی بدولت اس درجہ متشدد ہوگئے تھے اور انبیاء و رسل کے قتل نے ان کے قلوب کو حق و صداقت کے قبول میں اس درجہ سخت بنادیا تھا کہ ایک مختصر سی جماعت کے علاوہ ان کی جماعت کی بڑی اکثریت نے ان کی مخالفت اور ان کے ساتھ حسد و بغض کو اپنا شعار اور اپنی جماعتی زندگی کا معیار بنا لیا اور اس لیے انبیاء کی سنت راشدہ کے مطابق رشد و ہدایت کے حلقہ بگوشوں میں دنیوی جاہ و جلال کے لحاظ سے کمزور و ناتواں اور زیردست پیشہ ور طبقہ کی اکثریت نظر آتی تھی ‘ضعفاء کا یہ طبقہ اگر اخلاص و دیانت کے ساتھ حق کی آواز پر لبیک کہتا تو بنی اسرائیل کا وہ سرکش و مغرور حلقہ ان پر اور خدا کے پیغمبر پر پھبتیاں کستا ‘ توہین و تذلیل کا مظاہرہ کرتا اور اپنی عملی جدوجہد کا بڑا حصہ معاندت و مخالفت میں صرف کرتا رہتا تھا : { وَلَمَّا جَائَ عِیْسٰی بِالْبَیِّنَاتِ قَالَ قَدْ جِئْتُکُمْ بِالْحِکْمَۃِ وَلِاُبَیِّنَ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْہِ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ۔ اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ۔ فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْم بَیْنِہِمْ
ur_Arab
فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْ عَذَابِ یَوْمٍ اَلِیْمٍ۔ } ” اور جب عیسیٰ ظاہر دلائل لے کر آئے تو کہا : ” بلاشبہ میں تمہارے پاس ” حکمت “ لے کر آیا ہوں اور اس لیے آیا ہوں تاکہ ان بعض باتوں کو واضح کر دوں جن کے متعلق تم آپس میں جھگڑ رہے ہو ‘ پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ‘ بے شک اللہ تعالیٰ ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے سو اس کی پرستش کرو یہی سیدھی راہ ہے “پھر وہ آپس میں گروہ بندی کرنے لگے ‘ سو ان لوگوں کے لیے درد ناک عذاب کے ذریعہ ہلاکت اور خرابی ہے۔ “ { وَاِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یَا بَنِیْ اِسْرَآئِیلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْم بَعْدِی اسْمُہٗ اَحْمَدُ فَلَمَّا جَائَہُمْ بِالْبَیِّنَاتِ قَالُوْا ہٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ} ” اور (وہ وقت یاد کرو) جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا : اے بنی اسرائیل ! بلاشبہ میں تمہاری جانب اللہ کا پیغمبر ہوں ‘ تصدیق کرنے والا ہوں تورات کی جو میرے سامنے ہے اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا نام اس کا احمد ہے ‘پس جب (عیسیٰ (علیہ السلام)) آیا ان کے پاس معجزات لے کر تو وہ (بنی اسرائیل) کہنے لگے ‘ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔ “ { فَلَمَّآ اَحَ
ur_Arab
سَّ عِیْسٰی مِنْھُمُ الْکُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ اشْھَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ۔ رَبَّنَآ اٰمَنَّا بِمَآ اَنْزَلْتَ وَ اتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰھِدِیْنَ۔ } ” پھر جب عیسیٰ نے ان (بنی اسرائیل) سے کفر محسوس کیا تو کہا ” اللہ کی جانب میرا کون مددگار ہے ؟ “ حواریوں نے جواب دیا : ” ہم ہیں اللہ کے (دین کے) مدد گار۔ ہم اللہ پر ایمان لے آئے اور تم گواہ رہنا کہ ہم مسلمان ہیں ‘ اے ہمارے پروردگار ! جو تونے اتارا ہے ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم نے رسول کی پیروی اختیار کرلی پس تو ہم کو (دین حق کی) گواہی دینے والوں میں سے لکھ لے۔ “ حواری عیسیٰ (علیہ السلام) مگر عیسیٰ (علیہ السلام) معاندین و مخالفین کی در اندازیوں اور ہرزہ سرائیوں کے باوجود اپنے فرض منصبی ” دعوۃ الی الحق “ میں سرگرم رہتے اور شب و روز بنی اسرائیل کی آبادیوں اور بستیوں میں پیغام حق سناتے اور روشن دلائل اور واضح آیات اللہ کے ذریعہ لوگوں کو قبول حق و صداقت پر آمادہ کرتے رہتے تھے۔ اور خدا اور حکم خدا سے سرکش اور باغی انسانوں کی بھیڑ میں ایسی سعید روحیں بھی نکل آتی تھیں جو عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت حق پر لبیک کہتی اور سچائی کے ساتھ دین حق کو قبول کرلیتی تھیں ‘ان ہی پاک بندوں میں وہ مقدس ہستیاں بھی تھیں جو حضرت عیسیٰ کے شرف صحبت سے فیضیاب ہو کر نہ صرف ایمان ہی لے آئی تھیں بلکہ دین حق کی سر بلندی اور کامیابی کے لیے انہوں نے جان و مال کی بازی
ur_Arab
لگا کر خدمت دین کے لیے خود کو وقف کردیا تھا اور اکثر و بیشتر حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ساتھ رہ کر تبلیغ و دعوت کو سرانجام دیتی تھیں ‘ اسی خصوصیت کی وجہ سے وہ ” حواری “ (رفیق) اور ” انصار اللّٰہ “ (اللہ کے دین کے مددگار) کے مقدس القاب سے معزز و ممتاز کی گئیں۔چنانچہ ان بزرگ ہستیوں نے پیغمبر خدا کی حیات پاک کو اپنا اسوہ بنایا اور سخت سے سخت اور نازک سے نازک حالات میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا اور ہر طرح معاون و مددگار ثابت ہوئیں : { وَ اِذْ اَوْحَیْتُ اِلَی الْحَوَارِیّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَ بِرَسُوْلِیْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَاشْھَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ } ” اور (اے عیسیٰ وہ وقت یاد کرو) جبکہ میں نے حواریوں کی جانب (تیری معرفت) یہ وحی کی کہ مجھ پر اور میرے پیغمبر پر ایمان لاؤ تو انہوں نے جواب دیا ” ہم ایمان لائے اور اے خدا ! گواہ رہنا کہ ہم بلاشبہ مسلمان ہیں۔ “ { یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا اَنْصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیِّیْنَ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ فَاٰمَنَتَ طَّائِفَۃٌ مِّنْم بَنِیْ اِسْرَآئِیلَ وَکَفَرَتْ طَائِفَۃٌ
ur_Arab
فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰی عَدُوِّہِمْ فَاَصْبَحُوْا ظَاہِرِیْنَ } ” اے ایمان والو ! تم اللہ کے (دین کے) مددگار ہو جاؤ جیسا کہ عیسیٰ ابن مریم نے جب حواریوں سے کہا : ” اللہ کے راستہ میں کون میرا مدد گا رہے “ تو حواریوں نے جواب دیا ” ہم ہیں اللہ (کی راہ) کے مددگار پس بنی اسرائیل کی ایک جماعت ایمان لائی اور ایک گروہ نے کفر اختیار کیا سو ہم نے مومنوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلہ میں تائید کی پس وہ (مومن) غالب رہے۔ “ گزشتہ سطور میں یہ واضح ہوچکا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے یہ حواری بیشتر غریب اور مزدور طبقہ میں سے تھے کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) کی دعوت و تبلیغ کے ساتھ ” سنت اللّٰہ “ یہی جاری رہی ہے کہ ان کی صدائے حق پر لبیک کہنے اور دین حق پر جان سپاری کا مظاہرہ کرنے کے لیے اول غریب اور کمزور طبقہ ہی آگے بڑھتا ہے اور زیردست ہی فدا کاری کا ثبوت دیتے ہیں اور وقت کی صاحب اقتدار اور زبردست ہستیاں اپنے غرور اور گھمنڈ کے ساتھ مقابلہ اور معارضہ کے لیے سامنے آتی اور معاندانہ سرگرمیوں کے ساتھ اعلائے کلمۃ اللہ کی راہ میں سنگ گراں بن جاتی ہیں لیکن جب خدائے تعالیٰ کا قانون پاداش عمل اپنا کام کرتا ہے تو نتیجہ میں فلاح و کامرانی ان کمزور فدایان حق ہی کا حصہ ہوجاتا ہے اور متکبر و مغرور ہستیاں یا ہلاکت کے قعر مذلت میں جا گرتی ہیں اور یا مقہور و مغلوب ہو کر سرنگوں ہوجانے کے ماسوا کوئی چارہ کار نہیں دیکھتیں۔ حواری عیسیٰ (علیہ السلام) اور قرآن و انجیل کا موازنہ قرآن عزیز نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کی منقبت بیان کی ہے ‘ سورة آل عمران کی آیات تمہارے سامنے ہیں ‘ حضرت مسیح (علیہ السلام) جب دین حق کی نصرت و یاوری کے لیے پکارتے ہیں تو سب سے پہلے جنہوں نے ” نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ “ کا نعرہ بلند کیا وہ یہی پاک ہستیاں تھیں ‘ سورة صف میں اللہ رب
ur_Arab
العٰلمین نے جب مسلمانوں کو مخاطب کرکے کُوْنُوْا اَنْصَارَ اللّٰہِ کی ترغیب دی تو ” تذکیر بایام اللّٰہ “کے پیش نظر ان ہی مقدس ہستیوں کا ذکر کیا اور ان ہی کی مثال اور نظیر دے کر نصرت حق کے لیے برانگیختہ کیا اور سورة مائدہ میں ان کے قبول ایمان اور دعوت حق کے سامنے انقیاد و تسلیم کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ بھی ان کے خلوص ‘حق طلبی اور حق کوشی کی زندہ جاوید تصویر ہے۔ یہ سب کچھ تو اس وقت کا حال ہے جب تک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان کے درمیان موجود ہیں لیکن آپ کے ” رفع الی السماء “ کے بعد بھی ان کی پر استقامت اور دین قویم کی فدا کارانہ خدمت کے متعلق سورة صف کی آیت: { فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰی عَدُوِّہِمْ فَاَصْبَحُوْا ظَاہِرِیْنَ } میں کافی اشارہ موجود ہے اور شاہ عبد القادر (نور اللہ مرقدہ) نے اسی بنا پر آیت زیر بحث کی تفسیر کرتے ہوئے تاریخی شہادت کا اس طرح ذکر فرمایا ہے : ” حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ان کے یاروں (حواریوں) نے بڑی محنتیں کی ہیں تب ان کا دین نشر ہوا ‘ ہمارے حضرت کے پیچھے بھی خلیفوں نے اس سے زیادہ کیا۔ “ مگر اس کے برعکس بائبل (انجیل) بعض مقامات میں اگر ان کی منقبت اور مدح سرائی میں رطب اللسان ہے تو دوسری جانب ان کو بزدل اور منافق ثابت کرتی ہے۔ انجیل یوحنا میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مشہور و معتمد علیہ حواری یہودا کے متعلق اس وقت کا حال جب حضرت یسوع (علیہ السلام) کو یہودی گرفتار کرنا چاہتے ہیں ‘ اس طرح مذکور ہے : ” یہ باتیں کہہ کر یسوع اپنے دل میں گھبرایا اور یہ گواہی دی کہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم میں سے ایک شخص مجھے پکڑوائے گا۔ شاگرد شبہ کرکے کہ وہ کس کی نسبت کہتا ہے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اس کے شاگردوں میں سے ایک شخص جس سے یسوع محبت کرتا تھا۔اس نے اسی طرح یس
ur_Arab
وع کی چھاتی کا سہارا لے کر کہا کہ اے خداوند ! وہ کون ہے ؟ یسوع نے جواب دیا کہ جسے میں نوالہ ڈبو کر دے دوں گا وہی ہے ‘ پھر اس نے نوالہ ڈبو دیا اور لے کر شمعون اسکریوتی کے بیٹے یہوداہ کو دیا اور اس نوالہ کے بعد شیطان اس میں سما گیا۔ “ اور اسی انجیل میں اس شمعون پطرس حواری کے متعلق جو ” بقول اناجیل ساری عمر حضرت یسوع کا پیارا اور معتمد علیہ رہا “ یہ مسطور ہے : ” شمعون پطرس نے اس سے کہا ‘ اے خداوند ! تو کہاں جاتا ہے ‘ یسوع نے جواب دیا کہ جہاں میں جاتا ہوں اب تو تو میرے پیچھے نہیں آسکتا مگر بعد میں میرے پیچھے آئے گا۔ پطرس نے اس سے کہا اے خداوند ! میں تیرے پیچھے اب کیوں نہیں آسکتا ‘میں تو تیرے لیے اپنی جان دوں گا۔ یسوع نے جواب دیا ‘ کیا تو میرے لیے اپنی جان دے گا ؟ میں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ مرغ بانگ نہ دے گا جب تک تو تین بار میرا انکار نہ کرلے گا۔ “ اور متی کی انجیل میں تمام شاگردوں (حواریوں) کی بزدلی اور حضرت یسوع کو بےیارو مددگار چھوڑ کر فرار ہوجانے کا اس طرح ذکر کیا گیا ہے : ” اس پر سب شاگرد اسے چھوڑ کر بھاگ گئے۔ “ ان حوالہ جات سے تین ایسی باتیں ثابت ہوتی ہیں جن کو کسی طرح بھی عقل و نقل تسلیم کرنے کو تیار نہیں ‘ اول یہ کہ جو شاگرد اور حواری حضرت یسوع کے زیادہ قریب ‘ ان کے معتمد علیہ اور ان کی نگاہوں میں محبوب تھے وہ نتیجہ میں نہ صرف بزدل بلکہ ” منافق “نکلے مگر عقل و نقل کا فیصلہ یہ ہے کہ اگرچہ ہر ایک پیغمبر اور مصلح کی جماعت میں ایک چھوٹا سا گروہ منافقین کا عموماً ہوتا ہے جو اپنی دنیوی اغراض کی خاطر بہ کراہت قلب ظاہر داری کے طور پر شریک جماعت ہونا مفید سمجھتا ہے ‘مگر ایک مصلح اور پیغمبر کے درمیان میں ہمیشہ سے یہ فرق رہا ہے کہ مصلح خواہ اپنی جماعت کے منافقین سے پوری طرح آگاہ نہ ہو سکے لیکن نبی اور پیغمبر کو ” وحی الٰہی “ کے ذریعہ شروع ہی سے مخلص اور منافق کی اطلاع دے دی جاتی ہے تاکہ ایک منکر و کافر سے زیادہ جس گروہ سے جماعت حق اور اس کی دعوت و اصلاح کو ضرر پہنچ سکتا ہے ‘ نبی اس کے حالات
ur_Arab
سے غافل نہ رہے۔ پس اسی بناء پر کوئی منافق کسی وقت اور کسی حالت میں بھی نبی اور پیغمبر کا محبوب ‘ معتمد علیہ اور مقرب نہیں ہوسکتا ‘البتہ یہ ایک جدا امر ہے کہ نبی دین حق کی مصالح کی وجہ سے اس کے ساتھ اعراض اور در گزر کا طریق عمل مناسب سمجھے جیسا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ایک صحابی کے اس سوال پر کہ ”جب آپ منافقین کے حالات منافقت سے آگاہ ہیں تو ان کا مقابلہ کرکے کیوں ان کو کیفر کردار تک نہیں پہنچا دیتے تاکہ جماعت مسلمین کو ان کی منافقت سے نجات ملے “ یہ جواب دیا : ”اس لیے کہ ان کے قبول ایمان کی ظاہر داری کے بعد ہمارے سخت گیر طریقہ کے متعلق غیر مسلموں کو یہ دھوکا نہ ہو کہ وہ کہہ اٹھیں ” محمد اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کرنے سے نہیں چوکتے۔ “ دوسری بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ یہودا کے اندر شیطان نے اس وقت حلول کیا جب حضرت یسوع نے اپنے ہاتھ سے اس کو نوالہ ڈبو کردیا مگر یہ بات بھی اس لیے عقل اور نقل کے خلاف ہے کہ بزرگوں اور مقدس انسانوں کے ہاتھوں سے جو کچھ ہوتا ہے اس کا اثر برکت ‘ طہارت اور تقدیس تو ہوا کرتا ہے لیکن شیطان کا حلول اور بدی کا نفوذ نہیں ہوا کرتا ‘ بے شک یہ درست ہے کہ جب حق کا ترازو قائم ہوتا ہے تو اس سے کھرا اور کھوٹا دونوں کی حقیقت کا انکشاف ہوجایا کرتا ہے لیکن یہ کبھی نہیں ہوتا کہ اس پیمانہ کے مس کرنے سے کسی کھرے میں کھوٹ پیدا ہوجائے اور انجیل کے اس بیان میں صورت حال پہلی نہیں بلکہ دوسری ہے۔تیسری بات یہ کہ حضرت یسوع کے تمام ان حواریوں میں سے ” جن کی مدح و ستائش میں جگہ جگہ بائبل رطب اللسان ہے “ ایک ‘ دو ‘ یا دس پانچ نہیں سب کے سب نہایت بزدلی اور غداری کے ساتھ اس وقت حضرت مسیح (علیہ السلام) سے کناہ کش ہوگئے ‘جب دین حق کی حمایت و نصرت کے لیے سب سے زیادہ ان کی ضرورت تھی اور جب کہ پیغمبر خدا (صلى الله عليه وسلم ) دشمنوں کے نرغہ میں پھنسے ہوئے تھے۔ مگر انجیل کی اس شہادت کے خلاف سورة آل عمران میں قرآن عزیز نے یہ شہادت دی ہے کہ اس نازک وقت میں جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے حواریوں کو دین حق کی نصرت و یاری کے لیے پکارا تو سب نے اولوالعزمی اور فداکارانہ جذبہ کے
ur_Arab
ساتھ یہ جواب دیا : ” نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ “ اور پھر حضرت مسیح (علیہ السلام) کے سامنے اپنی استقامت دین اور اپنے مخلصانہ ایمان کے متعلق شہادت دے کر نصرت کا پورا پورا یقین دلایا اور پھر سورة صف میں قرآن عزیز نے یہ بھی ظاہر کیا کہ ان حواریوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے جو کچھ کہا تھا ان کی موجودگی میں اور ان کے بعد سچی وفاداری کے ساتھ نباہا اور بلاشبہ مومنین صادقین ثابت ہوئے اور اس لیے اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی مدد فرمائی اور ان کو دشمنان حق کے مقابلہ میں کامیاب کیا۔ انجیل اور قرآن کے اس موازنہ کو دیکھ کر ایک انصاف پسند یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس معاملہ میں ” حق “ قرآن کے ساتھ ہے اور علمائے نصاریٰ نے انجیل میں تحریف کرکے اس قسم کے گھڑے ہوئے واقعات کا اضافہ اس لیے کیا ہے تاکہ صدیوں بعد کے خود ساختہ عقیدہ ” عقیدہ تصلیب مسیح “ سے متعلق یہ داستان صحیح ترتیب پر قائم ہو سکے کہ جب مسیح (علیہ السلام) کو صلیب پر لٹکایا گیا تو انہوں نے یہ کہتے کہتے جان دے دی ” ایلی ایلی لما شبقتنی “ ” اے خدا ! اے خدا ! تونے مجھے کیوں یکہ و تنہا چھوڑ دیا “ اور کسی ایک شخص نے بھی مسیح (علیہ السلام) کا ساتھ نہ دیا۔۔ بہرحال حواریوں سے متعلق بائبل کی تصریحات محرف اور خود ساختہ داستان سرائی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ نزول مائدہ مخلص اور فداکار حواریوں کی جماعت اگرچہ صادق الایمان اور راسخ الاعتقاد تھی مگر علمی و مجلسی تکلّفات گفت و شنید کے لحاظ سے سادہ لوح اور ضروریات زندگی کے سرو سامان کے اعتبار سے غرباء اور ضعفاء کی جماعت تھی۔ اس لیے انہوں نے ازراہ سادگی و سادہ دلی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے یہ درخواست کی کہ جس خدائے برتر میں یہ لامحدود طاقت ہے کہ اس کا ایک نمونہ آپ کی ذات اقدس اور وہ نشان (معجزات) ہیں خدائے تعالیٰ نے جن کو آپ کی تصدیق نبوت و رسالت کے لیے آپ کے ہاتھ پر ظاہر فرمایا اس خدا میں یہ طاقت بھی ضرور ہوگی کہ وہ ہمارے لیے غیب سے ایک دستر خوان نازل کردیا کرے تاکہ ہم روزی کمانے کی فکر سے آزاد ہو کر باطمینان قلب یاد خدا اور دین حق کی
ur_Arab
دعوت و تبلیغ میں مصروف رہا کریں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ سن کر ان کو نصیحت فرمائی کہ اگرچہ خدا کی طاقت بےغایت اور بےنہایت ہے لیکن کسی سچے بندہ کے لیے یہ زیبا نہیں کہ وہ اس طرح خدا کو آزمائے ‘ پس خدا سے ڈرو اور ایسے خیالات سے بچو ‘ یہ سن کر حواریوں نے جواب دیا ” ہم اور خدا کو آزمائیں ؟ حاشا ہمارا تو یہ مقصد نہیں ‘ ہمارا تو یہ مطلب ہے کہ رزق کی جدوجہد سے دل کو مطمئن کرکے خدا کے اس عطیہ کو زندگی کا سہارا بنالیں اور آپ کی تصدیق میں ہم کو حق الیقین کا اعتقاد راسخ حاصل ہوجائے اور ہم اس کی خدائی پر کائنات انسانی کے لیے شاہد عدل بن جائیں۔ “حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے جب انکا بڑھتا ہوا اصرار دیکھا تو بارگاہ الٰہی میں دعا کی ” اے خدا ! تو ان کے سوال کو پورا کر اور آسمان سے ایسا مائدہ (دستر خوان نعمت) نازل فرما کہ وہ ہمارے لیے تیرے غضب کا مظہر ثابت نہ ہو بلکہ ہمارے اول و آخر سب کے لیے خوشی کی یادگار (عید) بن جائے اور تیرا ” نشان “ کہلائے اور اس ذریعہ سے ہم کو اپنے غیبی رزق سے شاد کام کرے کیونکہ تو ہی بہتر رزق رساں ہے “ اس دعا کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی : ” عیسیٰ تمہاری دعا قبول ہے ‘ میں اس کو ضرور نازل کروں گا لیکن یہ واضح رہے کہ اس کھلی نشانی کے نازل ہونے کے بعد اگر ان میں سے کسی نے بھی خدا کے حکم کی خلاف روزی کی تو پھر ان کو عذاب بھی ایسا ہولناک دوں گا جو کائنات کے کسی انسان کو نہیں دیا جائے گا۔ “ قرآن عزیز نے نزول مائدہ کے واقعہ کا اس معجزانہ اسلوب بیان کے ساتھ ذکر کیا ہے : { اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ھَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآئِ قَالَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنْ کُنْتُ
ur_Arab
مْ مُّؤْمِنِیْنَ۔ قَالُوْا نُرِیْدُ اَنْ نَّاْکُلَ مِنْھَا وَ تَطْمَئِنَّ قُلُوْبُنَا وَ نَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَ نَکُوْنَ عَلَیْھَا مِنَ الشّٰھِدِیْنَ۔ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَآ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآئِ تَکُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَۃً مِّنْکَ وَارْزُقْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ۔ قَالَ اللّٰہُ اِنِّیْ مُنَزِّلُھَا عَلَیْکُمْ فَمَنْ یَّکْفُرْ بَعْدُ مِنْکُمْ فَاِنِّیْٓ اُعَذِّبُہٗ عَذَابًا لَّآ اُعَذِّبُہٗٓ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ } ” اور (دیکھو) جب ایسا ہوا تھا کہ حواریوں نے کہا تھا ” اے عیسیٰ بن مریم ! کیا تمہارا پروردگار ایسا کرسکتا ہے کہ آسمان سے ہم پر ایک خوان اتار دے ؟ “ (یعنی ہماری غذا کے لیے آسمان سے غیبی سامان کر دے) عیسیٰ نے کہا ” خدا سے ڈرو (اور ایسی فرمائشیں نہ کرو) اگر تم ایمان رکھتے
ur_Arab
ہو “ انہوں نے کہا ”(مقصود اس سے قدرت الٰہی کا امتحان نہیں ہے بلکہ) ہم چاہتے ہیں کہ (ہمیں غذا میسر آئے تو) اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل آرام پائیں اور ہم جان لیں کہ تونے ہمیں سچ بتایا تھا اور اس پر ہم گواہ ہوجائیں۔ “ اس پر عیسیٰ بن مریم نے دعا کی ” اے اللہ ! اے ہمارے پروردگار ! ہم پر آسمان سے ایک خوان بھیج دے کہ اس کا آنا ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں اور پچھلوں سب کے لیے عید قرار پائے اور تیری طرف سے (فضل و کرم کی) ایک نشانی ہو۔ ہمیں روزی دے تو سب سے بہتر روزی دینے والا ہے “ اللہ نے فرمایا ” میں تمہارے لیے خوان بھیجوں گا ‘ لیکن جو شخص اس کے بعد بھی (راہ حق سے) انکار کرے گا تو میں (پاداش عمل میں) عذاب دوں گا ‘ایسا عذاب کہ تمام دنیا میں کسی آدمی کو بھی ویسا عذاب نہیں دیا جائے گا۔ “ یہ مائدہ نازل ہوا یا نہیں ؟ قرآن عزیز نے اس کے متعلق کوئی تفصیل نہیں بیان کی اور نہ کسی مرفوع حدیث میں اس کا کوئی تذکرہ پایا جاتا ہے ‘ البتہ آثار صحابہ وتابعین میں ضرور تفصیلات مذکور ہیں۔ مجاہد اور حسن بصری (; ) فرماتے ہیں کہ مائدہ کا نزول نہیں ہوا ‘ اس لیے کہ خدا تعالیٰ نے اس کے نزول کو جس شرط کے ساتھ مشروط کردیا طلب کرنے والوں نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ انسان ضعیف البنیان اور کمزوریوں کا مجسمہ ہے ‘کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی لغزش یا معمولی خلاف ورزی کی بدولت اس درد ناک عذاب کے سزا وار ٹھہریں اپنے سوال کو واپس لے لیا۔ علاوہ ازیں اگر مائدہ کا نزول ہوا ہوتا تو وہ ایسا نشان الٰہی (معجزہ) تھا کہ نصاریٰ اس پر جس قدر بھی فخر کرتے وہ کم تھا اور ان کے یہاں اس کی جس قدر بھی شہرت ہوتی وہ بےجا نہیں ہوتی تاہم ان کے یہاں اس نزول مائدہ کا اس طرح کوئی تذکرہ نہیں پایا جاتا۔ 1 ) اور حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عمار بن یاسر (رض) سے منقول ہے کہ یہ واقعہ پیش آیا اور مائدہ کا نزول ہوا ‘ جمہور کا رجحان اسی جانب ہے۔ البتہ اس کے نزول کی تفصیلات میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں۔مثلاً صرف ایک دن نازل ہوا یا چالیس روز تک نازل ہوتا رہا ؟ اور پھر اترنا بند ہوگیا تو کیوں ؟ اور صرف یہی ہوا کہ نازل نہ ہوا ‘ یا جن لوگوں کی خلاف ورزی کی وجہ سے بند ہوا ‘ ان
ur_Arab
پر سخت قسم کا عذاب بھی آپہنچا ؟ جو نقول یہ کہتی ہیں کہ مائدہ کا نزول صرف ایک دن نہیں بلکہ چالیس دن تک برابر جاری رہا ‘وہ بند ہونے کا سبب یہ بیان کرتی ہیں کہ نزول مائدہ پر حکم یہ ہوا کہ اس کو فقیر ‘ مسکین اور مریض ہی کھائیں ‘ تونگر اور بھلے چنگے نہ کھائیں ‘ مگر چند روز تعمیل کے بعد لوگوں نے آہستہ آہستہ اس کی خلاف ورزی شروع کردی ‘یا یہ حکم ملا تھا کہ اس کو کھائیں سب مگر اگلے روز کے لیے ذخیرہ نہ کریں ‘ مگر کچھ عرصہ کے بعد اس کی خلاف ورزی ہونے لگی اور نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف مائدہ کا نزول ہی بند ہوگیا بلکہ خلاف ورزی کرنیوالے خنزیر اور بندر کی شکل میں مسخ کردیئے گئے۔ 2( نزول مائدہ کا سوال اگرچہ کیا تھا حواریوں نے ‘ مگر کیا تھا سب کی جانب سے۔ اس لیے یہ واضح رہے کہ جن نقول میں خلاف ورزی اور اس سے متعلق عذاب کا ذکر ہے ان کا اشارہ حواریوں میں سے کسی کی جانب مطلق نہیں ہے کیونکہ یہ بات نصوص قرآنی کے خلاف ہے۔) بہرحال ان آثار میں جو قدر مشترک ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول فرمالی تو مشیت باری کا یہ حکم ہوا کہ مائدہ تیار ہو چنانچہ لوگوں کی آنکھوں دیکھتے خدا کے فرشتے فضائے آسمانی سے اس کو لے کر اترے ‘ادھر فرشتے آہستہ آہستہ اس کو لیے ہوئے اتر رہے تھے اور ادھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ درگاہ الٰہی میں دست بدعا تھے کہ مائدہ آپہنچا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اول دو رکعت نماز شکر ادا کی اور پھر مائدہ (خوان) کو کھولا تو اس میں تلی ہوئی مچھلیاں اور ترو تازہ پھل اور روٹیاں موجود پائیں اور خوان کھولتے ہی ایسی نفیس خوشبو نکلی کہ اس کی مہک نے سب کو مست کردیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ کھائیں ‘ مگر لوگوں نے اصرار کیا کہ ابتداء آپ کریں ‘آپ نے ارشاد فرمایا ‘ یہ میرے لیے نہیں ہے ‘ تمہاری طلب پر نازل ہوا ہے ‘یہ سن کر سب گھبرائے کہ نہ معلوم اس کا نتیجہ کیا ہو کہ خدا کا رسول تو نہ کھائے اور ہم کھائیں آپ نے یہ دیکھ کر ارشاد فرمایا :اچھا فقراء ‘ مساکین ‘ معذورین اور مریضوں
ur_Arab
کو بلاؤ یہ ان کا حق ہے ‘ تب ہزارہا بندگان خدا نے شکم سیر ہو کر کھایا ‘ مگر مائدہ کی مقدار میں کوئی فرق نہیں آیا۔ 1(یہ واقعات بڑی تفصیل کے ساتھ تمام کتب تفسیر میں موجود ہیں۔ ) اس مسئلہ میں حضرت شاہ عبد القادر نور اللہ مرقدہ مجاہد اور حسن بصری ; کے ہم نوا معلوم ہوتے ہیں اور نزول مائدہ سے متعلق ان دونوں جماعتوں سے الگ ایک اور لطیف بات ارشاد فرماتے ہیں۔ موضح القرآن میں ہے : ” ھَلْ یَسْتَطِیْعُ “ ” ہو سکے “یہ معنی کہ ہمارے واسطے تمہاری دعا سے اس قدر خرق عادات کرے یا نہ کرے فرمایا کہ اِتَّقُوا اللّٰہَ ” ڈرو اللہ سے “ یعنی بندہ کو چاہیے کہ اللہ کو نہ آزمائے کہ میرا کہا مانتا ہے یا نہیں اگرچہ خداوند (آقا ومالک) بہتیری مہربانی کرے { وَنَکُوْنَ عَلَیْھَا مِنَ الشّٰھِدِیْنَ } یعنی برکت کی امید پر مانگتے ہیں اور (تاکہ) معجزہ ہمیشہ مشہور رہے ‘ آزمانے کو نہیں کہتے ہیں۔ وہ خوان اترا چالیس روز تک پھر بعضوں نے ناشکری کی یعنی حکم ہوا تھا کہ فقیر اور مریض کھاویں محظوظ (تونگر) اور چنگے بھی لگے کھانے پھر قریب اسی آدمی سور اور بندر ہوگئے (مگر)یہ عذاب پہلے یہود میں ہوا تھا پیچھے کسی کو نہیں ہوا۔2 (شاہ صاحب کا مسلک یہ ہے کہ واقعہ مسخ صحیح نہیں ہے۔) اور بعضے کہتے ہیں (مائدہ) نہ اترا ‘ تہدید سن کر مانگنے والے ڈر گئے نہ مانگا ‘ لیکن پیغمبر کی دعا عبث نہیں اور اس کلام (قرآن) میں نقل کرنا بےحکمت نہیں ‘شاید اس دعا کا اثر یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی امت (نصاریٰ ) میں آسودگی مال سے ہمیشہ رہی (فَمَنْ یَّکْفُرْ بَعْدُ مِنْکُمْ ) اور جو کوئی ان میں ناشکری کرے یعنی دل کے چین سے عبادت میں نہ لگے بلکہ گناہ میں خرچ کرے تو شاید آخرت میں سب سے زیادہ عذاب پاوے۔ اس میں مسلمان کو عبرت ہے کہ اپنا مدعا خرق عادت کی راہ سے نہ چاہے پھر اس کی شکرگزاری بہت مشکل ہے ‘
ur_Arab
اسباب ظاہری پر قناعت کرے تو بہتر ہے اس قصہ میں بھی ثابت ہوا کہ حق تعالیٰ کے آگے حمایت پیش نہیں جاتی۔ “ اس سلسلہ میں حضرت عمار بن یاسر ؓ نے موعظت و بصیرت سے متعلق بہت خوب بات ارشاد فرمائی ہے : ” عیسیٰ (علیہ السلام) سے ان کی قوم نے نزول مائدہ کی درخواست کی تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے جواب ملا : تمہاری درخواست اس شرط کے ساتھ منظور کی جاتی ہے کہ نہ اس میں خیانت کرنا نہ اس کو چھپائے رکھنا اور نہ اس کو ذخیرہ کرنا ورنہ یہ بند کردیا جائے گا اور تم کو ایسا عبرت ناک عذاب دوں گا جو کسی کو نہ دیا جائے گا۔ “ ” اے معشر عرب ! تم اپنی حالت پر غور کرو کہ اونٹوں اور بکریوں کی دم پکڑ کر جنگلوں میں چراتے پھرتے تھے ‘ پھر خدائے تعالیٰ نے اپنی رحمت سے تمہارے درمیان میں ہی سے ایک ایسا برگزیدہ رسول مبعوث فرمایا ‘ جس کے حسب و نسب سے تم اچھی طرح واقف ہو ‘اس نے تم کو یہ خبر دی کہ عنقریب تم عجم پر غالب آ جاؤ گے اور اس پر چھا جاؤ گے۔ اور اس نے تم کو سختی کے ساتھ منع فرمایا کہ مال و دولت کی فراوانی دیکھ کر ہرگز تم چاندی اور سونے کے خزانے جمع نہ کرنا مگر قسم بخدا کہ زیادہ لیل و نہار نہ گزریں گے کہ تم ضرور سونے چاندی کے خزانے جمع کرو گے اور اس طرح خدائے برتر کے درد ناک عذاب کے مستحق بنو گے۔ “ ” رفع الی السماء “ یعنی زندہ آسمان پر اٹھا لیا جانا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے نہ شادی کی اور نہ بود و ماند کے لیے گھر بنایا۔ وہ شہر شہر اور گاؤں گاؤں خدا کا پیغام سناتے اور دین حق کی دعوت و تبلیغ کا فرض انجام دیتے اور جہاں بھی رات آپہنچتی وہیں کسی سر و سامان راحت کے بغیر شب بسر کردیتے تھے۔ اور چونکہ ان کی ذات اقدس سے مخلوق خدا جسمانی و روحانی دونوں طرح کی شفا اور تسکین پاتی تھی ‘ اس لیے جس جانب بھی ان کا گزر ہوجاتا خلقت کا انبوہ حسن عقیدت کے ساتھ جمع ہوجاتا اور والہانہ محبت کے ساتھ ان پر نثار ہوجانے کو تیار رہتا تھا۔یہود کو اس دعوت حق کے ساتھ جو بغض وعناد تھا ‘ اس نے اس بڑھتی ہوئی مقبولیت کو انتہائی حسد اور سخت خطرہ کی نگاہ سے دیکھا اور جب ان کے مسخ شدہ قلوب کسی طرح اس کو برداشت نہ کرس
ur_Arab
کے تو ان کے سرداروں ‘ فقیہوں ‘فریسیوں اور صدوقیوں نے ذات اقدس کے خلاف سازش شروع کی اور طے یہ پایا کہ اس ہستی کے خلاف کامیابی حاصل کرنے کی بجز اس کے کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ بادشاہ وقت کو مشتعل کرکے اس کو دار پر چڑھا دیا جائے۔ گزشتہ چند صدیوں سے یہود کے ناگفتہ بہ حالات کی بدولت اس زمانہ میں یہودیہ کے بادشاہ ہیرودیس کی حکومت اپنے باپ دادا کے علاقہ میں بمشکل ایک چوتھائی پر قائم تھی۔ اور وہ بھی برائے نام اور اصل حکومت و اقتدار وقت کے بت پرست شہنشاہ قیصر روم کو حاصل تھا اور اس کی نیابت میں پیلاطس یہودیہ کے اکثر علاقہ کا گورنر یا بادشاہ تھا۔ یہود اگرچہ اس بت پرست بادشاہ کے اقتدار کو اپنی بدبختی سمجھ کر اس سے متنفر تھے۔ مگر حضرت مسیح (علیہ السلام) کے خلاف قلوب میں مشتعل حسد کی آگ نے اور صدیوں کی غلامی سے پیدا شدہ پست ذہنیت نے ایسا اندھا کردیا کہ انجام اور نتیجہ کی فکر سے بےپروا ہو کر پیلاطس کے دربار میں جا پہنچے اور عرض کیا : ” عالی جاہ ! یہ شخص نہ صرف ہمارے لیے بلکہ حکومت کے لیے بھی خطرہ بنتا جا رہا ہے ‘ اگر فوراً ہی اس کا استیصال نہ کردیا گیا تو نہ ہمارا دین ہی صحیح حالت میں باقی رہ سکے گا اور اندیشہ ہے کہ کہیں آپ کے ہاتھ سے حکومت کا اقتدار بھی نہ چلا جائے۔ اس لیے کہ اس شخص نے عجیب و غریب شعبدے دکھا کر خلقت کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے اور ہر وقت اس گھات میں لگا ہے کہ عوام کی اس طاقت کے بل پر قیصر اور آپ کو شکست دے کر خود بنی اسرائیل کا بادشاہ بن جائے۔ اس شخص نے لوگوں کو صرف دنیوی راہ سے ہی گمراہ نہیں کیا بلکہ اس نے ہمارے دین تک کو بھی بدل ڈالا اور لوگوں کو بد دین بنانے میں منہمک ہے۔ پس اس فتنہ کا انسداد از بس ضروری ہے تاکہ بڑھتا ہوا یہ فتنہ ابتدائی منزل ہی میں کچل ڈالا جائے۔ “ غرض کافی گفت و شنید کے بعد پیلاطس نے ان کو اجازت دے دی کہ وہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کو گرفتار کرلیں اور شاہی دربار میں مجرم کی حیثیت سے پیش کریں ‘ بنی اسرائیل کے سردار اور فقیہ اور کاہن یہ فرمان حاصل کرکے بےحد مسرور ہوئے اور فخر ومباہات کے ساتھ ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے کہ آخر ہماری سازش کارگر ہوئی اور ہماری تدبیر کا تیر ٹھیک
ur_Arab
نشانہ پر بیٹھ گیا اور کہنے لگے کہ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ خاص موقع کا منتظر رہا جائے اور کسی خلوت اور تنہائی کے موقع پر اس طرح اس کو گرفتار کیا جائے کہ عوام میں ہیجان نہ ہونے پائے۔ انجیل یوحنا میں اس واقعہ سے متعلق یہ کہا گیا ہے :” پس سردار کاہنوں اور فریسیوں نے صدر عدالت کے لوگوں کو جمع کرکے کہا ہم کرتے کیا ہیں ؟ یہ آدمی تو بہت معجزے دکھاتا ہے۔ اگر ہم اسے یونہی چھوڑ دیں تو سب اس پر ایمان لے آئیں گے اور رومی آ کر ہماری جگہ اور قوم دونوں پر قبضہ کرلیں گے اور ان میں سے کا ئفانام ایک شخص نے جو اس سال سردار کاہن تھا ‘ ان سے کہا تم کچھ نہیں جانتے اور نہ سوچتے ہو کہ تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ ایک آدمی امت کے واسطے مرے نہ کہ ساری قوم ہلاک ہو۔ “ یہ اس مشورہ کا تذکرہ ہے جو بادشاہ کے پاس جانے سے قبل آپس میں ہوا اور یہ خطرہ ظاہر کیا گیا کہ اگر اس ہستی کو یونہی چھوڑدیا گیا تو بادشاہ وقت (قیصر) کہیں سلطنت کے لیے خطرہ سمجھ کر رہی سہی برائے نام حکومت یہود کا بھی خاتمہ نہ کر دے۔ اور مرقس کی انجیل میں ہے :” دو دن کے بعد فصح اور عید فطیر ہونے والی تھی اور سردار کاہن اور فقیہ موقع ڈھونڈ رہے تھے کہ اسے کیونکر فریب سے پکڑ کر قتل کریں کیونکہ کہتے تھے کہ عید میں کہیں ایسا نہ ہو کہ بلوہ ہوجائے۔ “ دوسری جانب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے حواریوں کے مکالمہ کو سورة آل عمران اور سورة صف کے حوالہ سے نقل کیا جا چکا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہود کے کفر و انکار اور معاندانہ ریشہ دوانیوں کو محسوس کیا تو ایک جگہ اپنے حواریوں کو جمع کیا اور ان سے فرمایا کہ بنی اسرائیل کے سرداروں اور کاہنوں کی معاندانہ سرگرمیاں تم سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ اب وقت کی نزاکت اور کڑی آزمائش و امتحان کی گھڑی کی قربت تقاضا کرتی ہے کہ میں تم سے سوال کروں کہ تم میں کون وہ افراد ہیں جو اس کفر و انکار کے سیلاب کے سامنے سینہ سپر ہو کر خدا کے دین کے ناصر و مددگار بنیں گے۔حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا یہ ارشاد مبارک سن کر سب نے بڑے جوش و خروش اور صداقت ایمانی کے ساتھ جواب دیا ” ہم ہیں اللہ کے مددگار ‘ خدائے
ur_Arab
واحد کے پرستار ‘ آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلم وفا شعار ہیں اور درگاہ باری میں اپنی اس اطاعت کوشی پر استقامت کے لیے یوں دست بدعا ہیں ‘ اے پروردگار ! ہم تیری اتاری ہوئی کتاب پر ایمان لے آئے اور صدق دل کے ساتھ تیرے پیغمبر کے پیرو ہیں۔ خدایا ! تو ہم کو صداقت و حقانیت کے فدا کاروں کی فہرست میں لکھ لے۔ “ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے فریضہ دعوت و تبلیغ کے خلاف یہود بنی اسرائیل کی مخالفانہ سرگرمیوں سے متعلق حالات کا یہ حصہ تو اکثر و بیشتر ایسا ہے کہ قرآن اور انجیل کے درمیان میں اصولاً اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن اس کے مابعد کے پورے حصہ بیان میں دونوں کی قطعاً جدا جدا راہیں ہیں اور ان کے درمیان میں اس درجہ تضاد ہے کہ کسی طرح بھی ایک کو دوسری راہ کے قریب نہیں لایا جاسکتا۔ البتہ اس جگہ پہنچ کر یہود اور نصاریٰ دونوں کا باہمی اتحاد ہوجاتا ہے اور دونوں کے بیانات واقعہ سے متعلق ایک ہی عقیدہ پیش کرتے ہیں ‘فرق ہے تو یہ کہ یہود اس واقعہ کو اپنا کارنامہ اور اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں اور نصاریٰ اس کو یہود بنی اسرائیل کی ایک قابل لعنت جدوجہد یقین کرتے ہیں۔ یہود اور نصاریٰ دونوں کا مشترک بیان یہ ہے کہ یہود کے سرداروں اور کاہنوں کو یہ اطلاع ملی کہ اس وقت یسوع (علیہ السلام) لوگوں کی بھیڑ سے الگ اپنے شاگردوں کے ساتھ ایک بند مکان میں موجود ہیں ‘ یہ موقع بہترین ہے ‘ اس کو ہاتھ سے نہ جانے دیجئے۔ فوراً ہی یہ لوگ موقع پر پہنچ گئے اور چاروں طرف سے مکان کا محاصرہ کرکے یسوع (علیہ السلام) کو گرفتار کرلیا اور توہین و تذلیل کرتے ہوئے پیلاطس کے دربار میں لے گئے تاکہ وہ ان کو سولی پر لٹکائے اور اگرچہ پیلاطس نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو بےقصور سمجھ کر چھوڑ دینا چاہا ‘ مگر بنی اسرائیل کے اشتعال پر مجبوراً سپاہیوں کے حوالہ کردیا۔ سپاہیوں نے ان کو کانٹوں کا تاج پہنایا ‘ منہ پر تھوکا ‘ کوڑے لگائے اور ہر طرح کی توہین و تذلیل کرنے کے بعد مجرموں کی طرح سولی پر لٹکا دیا اور دونوں ہاتھوں میں میخیں ٹھونک دیں ‘ سینہ کو برچھی کی انی سے چھید دیا اور اس کسمپرسی کی حالت میں انہوں نے
ur_Arab
یہ کہتے ہوئے جان دے دی ” ایلی ایلی لما شبقتنی “ انجیل متی میں اس واقعہ کی تفصیلات کو ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے : ” سردار کاہن نے اس سے کہا : میں تجھے زندہ خدا کی قسم دیتا ہوں کہ اگر تو خدا کا بیٹا مسیح ہے تو ہم سے کہہ دے۔ یسوع نے اس سے کہا : تونے خود کہہ دیا بلکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اس کے بعد تم ابن آدم کو قادر مطلق کی داہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر آتا دیکھو گے اس پر سردار کاہن نے یہ کہہ کر اپنے کپڑے پھاڑے کہ اس نے کفر بکا ہے۔ اب ہمیں گواہوں کی کیا حاجت رہی۔ دیکھو تم نے ابھی یہ کفر سنا ہے تمہاری کیا رائے ہے۔ انہوں نے جواب میں کہا وہ قتل کے لائق ہے اس پر انہوں نے اس کے منہ پر تھوکا اور اس کے مکہ مارے اور بعض نے طمانچے مار کے کہا : اے مسیح ہمیں نبوت سے بتا کہ کس نے تجھے مارا۔۔ جب صبح ہوئی تو سب سردار کاہنوں اور قوم کے بزرگوں نے یسوع کے خلاف مشورہ کیا کہ اسے مار ڈالیں اور اسے باندھ کرلے گئے اور پیلاطس حاکم کے حوالہ کیا۔ اور حاکم کا دستور تھا کہ عید پر لوگوں (بنی اسرائیل) کی خاطر ایک قیدی جسے وہ چاہتے تھے چھوڑ دیتا تھا۔ اس وقت برابا نام ان کا ایک مشہور قیدی تھا۔ پس جب وہ اکٹھے ہوئے تو پیلاطیس نے ان سے کہا تم کسے چاہتے ہو کہ میں تمہاری خاطر چھوڑ دوں ؟ برابا کو یا یسوع کو جو مسیح کہلاتا ہے ؟۔وہ بولے برابا کو ‘ پیلاطس نے ان سے کہا پھر یسوع کو جو مسیح کہلاتا ہے ‘ کیا کروں ‘ سب نے کہا اس کو صلیب دی جائے۔ اس نے کہا کہ کیوں ؟ اس نے کیا برائی کی ہے ؟ مگر وہ اور بھی چلا چلا کر بولے کہ اس کو صلیب دی جائے۔ جب پیلاطس نے دیکھا کہ کچھ بن نہیں پڑتا الٹا بلوہ ہوتا جاتا ہے تو پانی لے کر لوگوں کے روبرو اپنے ہاتھ دھوئے اور کہا : ” میں اس راست باز کے خون سے بری ہوں تم جانو۔ “ سب لوگوں نے جواب دے کر کہا کہ ” اس کا خون ہماری اور ہماری اولاد کی گردن پر “ اس پر اس نے برابا کو ان کی خاطر چھوڑ دیا اور یسوع کو کوڑے لگوا کر حوالے کیا تاکہ صلیب دی جائے۔ اس پر حاکم کے سپاہیوں نے یسوع کو
ur_Arab
قلعہ میں لے جا کر ساری پلٹن اس کے گرد جمع کی اور اس کے کپڑے اتار کر اسے قرمزی چوغہ پہنایا اور کانٹوں کا تاج بنا کر اس کے سر پر رکھا اور ایک سرکنڈا اس کے داہنے ہاتھ میں دیا اور اس کے آگے گھٹنے ٹیک اسے ٹھٹھوں میں اڑانے لگے کہ اے یہودیوں کے بادشاہ آداب ! اور اس پر تھوکا اور وہی سرکنڈا لے کر اس کے سر پر مارنے لگے اور جب اس کا ٹھٹھا کرچکے تو چوغے کو اس پر سے اتار کر پھر اس کے کپڑے اسے پہنائے اور صلیب دینے کو لے گئے۔ اس وقت اس کے ساتھ دو ڈاکو صلیب پر چڑھائے گئے۔ ایک داہنے اور ایک بائیں اور راہ چلنے والے سر ہلا ہلا کر اس کو لعن طعن کرتے اور کہتے تھے اے مقدس کے ڈھانے والے اور تین دن میں بنانے والے ! اپنے تئیں بچا۔ اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو صلیب پر سے اتر آ۔اسی طرح سردار کاہن بھی فقیہوں اور بزرگوں کے ساتھ مل کر ٹھٹھے کے ساتھ کہتے تھے ” اس نے اوروں کو بچایا اپنے تئیں نہیں بچا سکتا۔۔۔“ اور دوپہر سے لے کر تیسرے پہر تک تمام ملک میں اندھیرا چھایا رہا اور تیسرے پہر کے قریب یسوع نے بڑی آواز سے چلا کر کہا : ” ایلی ایلی لما شبقتنی “ (اے میرے خدا ! اے میرے خدا تونے مجھ کو کیوں چھوڑ دیا) جو وہاں کھڑے تھے ان میں سے بعض نے سن کر کہا ‘ یہ ایلیاہ کو پکارتا ہے۔ یسوع پھر بڑی آواز سے چلایا اور جان دے دی۔ “ تفصیلات میں کم و بیش فرق کے ساتھ یہی مفروضہ داستان باقی تینوں انجیلوں میں بھی مذکور ہے۔ چاروں انجیلوں کی اس متفقہ مگر مفروضہ داستان کو مطالعہ کرنے کے بعد طبیعت پر قدرتی اثر یہ پڑتا ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی موت انتہائی بےکسی اور بےبسی کی حالت میں درد ناک طریقہ سے ہوئی اور اگرچہ خدا کے پاک اور مقدس بندوں کے لیے یہ کوئی اچن بھی بات نہ تھی بلکہ مقربین بارگاہ صمدی کے لیے اس قسم کی کڑی آزمائشوں کا مظاہرہ اکثر ہوتا رہا ہے لیکن اس واقعہ کا یہ پہلو اس کے مفروضہ اور گھڑے ہوئے ہونے پر روز روشن کی طرح شاہد ہے کہ حضرت یسوع نے ایک اولوالعزم پیغمبر بلکہ مرد صالح کی طرح اس واقعہ کو
ur_Arab
صبر و رضائے الٰہی کے ساتھ انگیز نہیں کیا بلکہ ایک انتہائی مایوس انسان کی طرح خدا سے شکوہ کرتے کرتے جان دے دی۔ ” ایلی ایلی لما شبقتنی “ کہتے ہوئے جان دے دینا مایوسی اور شکوہ کی وہ صورت حال ہے جو کسی طرح بھی حضرت مسیح (علیہ السلام) کے شایان شان نہیں کہی جاسکتی۔پھر اس واقعہ کا یہ پہلو بھی کم حیرت زا نہیں ہے کہ بقول انجیل کے یسوع مسیح نے اس حادثہ سے قبل تین مرتبہ خدائے تعالیٰ سے یہ درخواست کی ” اے میرے باپ ! اگر ہو سکے تو یہ (موت کا) پیالہ مجھ سے ٹل جائے “ ۔ اور جب یہ درخواست کسی طرح قبول نہ ہوئی تو مایوس ہو کر یہ کہنا پڑا ” اگر یہ میرے پیئے بغیر نہیں ٹل سکتا تو تیری مرضی پوری ہو۔ “ باعث حیرت یہ بات ہے کہ جبکہ ” عقیدہ کفارہ “ کے مطابق حضرت مسیح (علیہ السلام) کا یہ معاملہ خدا اور اس کے بیٹے (العیاذ باللّٰہ) کے درمیان میں طے شدہ تھا تو پھر اس درخواست کے کیا معنی اور اگر لوازم بشریت کی بنا پر تھا تو خدا کی مرضی معلوم ہوجانے اور اس پر قناعت کرلینے کے بعد پھر یہ بےصبر اور مایوس انسانوں کی طرح جان دینے کا کیا سبب ؟ یہود کی گھڑی ہوئی اس داستان کو چونکہ نصاریٰ نے قبول کرلیا تو یہود ازراہ فخر و غرور اس پر بےحد مسرور ہیں اور کہتے ہیں کہ مسیح ناصری اگر ” مسیح موعود “ ہوتا تو خدائے تعالیٰ اس بےبسی اور بےکسی کے ساتھ اس کو ہمارے ہاتھ میں نہ دیتا کہ وہ مرتے وقت تک خدا سے شکوہ کرتا رہا کہ اس کو بچائے مگر خدا نے اس کی کوئی مدد نہ کی۔ حالانکہ ہمارے باپ دادا اس وقت بھی کافی اشتعال دیتے رہے کہ اگر تو حقیقتاً خدا کا بیٹا اور ” مسیح موعود “ ہے تو کیوں تجھ کو خدا نے ہمارے ہاتھوں اس ذلت سے نہ بچایا۔ واقعہ یہ ہے کہ نصاریٰ کے پاس جب کہ اس چبھتے ہوئے الزام کا کوئی جواب نہیں تھا اور واقعہ کی ان تفصیلات کو مان لینے کے بعد ” عقیدہ کفارہ “ کی کوئی قیمت باقی نہیں رہ جاتی تھی ‘ تب انہوں نے واقعہ کی ان تفصیلات کے بعد ایک پارہ بیان کا اور اضافہ کیا۔ یوحنا کی انجیل میں ہے :” لیکن جب انہوں نے یسوع کے پاس آ کر دیکھا کہ وہ مرچکا ہے تو اس کی ٹانگیں نہ توڑ دیں
ur_Arab
مگر ان میں سے ایک سپاہی نے بھالے سے اس کی پسلی چھیدی اور فی الفور اس سے خون اور پانی بہہ نکلا۔ ان باتوں کے بعد ارمتیہ کے رہنے والے یوسف نے جو یسوع کا شاگرد تھا یہودیوں کے خوف سے خفیہ طور پر پیلاطس سے اجازت چاہی کہ یسوع کی لاش لے جائے۔ پیلاطس نے اجازت دے دی۔ پس وہ آ کر اس کی لاش لے گیا اور نیکدیمس بھی آیا جو پہلے یسوع کے پاس رات کو گیا تھا اور پچاس سیر کے قریب مر اور عود ملا ہوا لایا۔ پس انہوں نے یسوع کی لاش لے کر اسے سوتی کپڑے میں خوشبو دار چیزوں کے ساتھ کفنایا جس طرح کہ یہودیوں میں دفن کرنے کا دستور ہے اور جس جگہ اسے صلیب دی گئی ‘ وہاں ایک باغ تھا اور اس باغ میں ایک نئی قبر تھی جس میں کبھی کوئی نہ رکھا گیا تھا۔پس انہوں نے یہودیوں کی تیاری کے دن کے باعث یسوع کو وہیں رکھ دیا کیونکہ یہ قبر نزدیک تھی۔ ہفتہ کے پہلے دن مریم مگدلینی ایسے تڑکے کہ ابھی اندھیرا ہی تھا ‘ قبر پر آئی اور پتھر کو قبر سے ہٹا ہوا دیکھا پس وہ شمعون پطرس اور اس کے دوسرے شاگرد کے پاس جسے یسوع عزیز رکھتا تھا دوڑی ہوئی گئی اور ان سے کہا کہ خداوند کو قبر سے نکال لے گئے اور ہمیں معلوم نہیں کہ اسے کہاں رکھ دیا۔ لیکن مریم باہر قبر کے پاس کھڑی روتی رہی اور جب روتے روتے قبر کی طرف جھک کے اندر نظر کی تو دو فرشتوں کو سپید پوشاک پہنے ہوئے ایک کو سرہانے اور دوسرے کو پائینتی بیٹھے ہوئے دیکھا جہاں یسوع کی لاش پڑی تھی۔انہوں نے اس سے کہا اے عورت ! تو کیوں روتی ہے ؟ اس نے ان سے کہا اس لیے کہ میرے خداوند کو اٹھالے گئے ہیں اور معلوم نہیں کہ اسے کہاں رکھا ہے یہ کہہ کر وہ پیچھے پھری اور یسوع کو کھڑے دیکھا اور نہ پہچانا کہ یہ یسوع ہے۔ یسوع نے اس سے کہا اے عورت ! تو کیوں روتی اور کس کو ڈھونڈتی ہے۔ اس نے باغبان سمجھ کر اس سے کہا : میاں اگر تو نے اس کو یہاں سے اٹھایا ہو تو مجھے بتادے کہ اسے کہاں رکھا ہے تاکہ میں اسے لے جاؤں۔ یسوع نے اس سے کہا : ” مریم ! “ وہ پھر کر اس سے عبرانی زبان میں بولی ” ربونی “ یعنی ”اے استاد ! “ یسوع نے اس سے کہا مجھے نہ چھو ‘
ur_Arab
کیونکہ میں اب تک باپ کے پاس اوپر نہیں گیا لیکن میرے بھائیوں کے پاس جا کر ان سے کہو کہ میں اپنے باپ اور تمہارے باپ اور اپنے خدا اور تمہارے خدا کے پاس اوپر جاتا ہوں ‘ مریم مگدلینی نے آ کر شاگردوں کو خبر دی کہ میں نے خداوند کو دیکھا اور اس نے مجھ سے یہ باتیں کہیں۔پھر اسی دن جو ہفتہ کا پہلا دن تھا ‘ شام کے وقت جب وہاں کے دروازے جہاں شاگرد تھے یہودیوں کے ڈر سے بند تھے ‘ یسوع آ کر بیچ میں کھڑا ہوا اور ان سے کہا کہ تمہاری سلامتی ہو اور یہ کہہ کر اس نے اپنے ہاتھ اور پسلی انہیں دکھائی۔ پس شاگرد خداوند کو دیکھ کر خوش ہوئے یسوع نے پھر ان سے کہا کہ تمہاری سلامتی ہو جس طرح باپ نے مجھے بھیجا ہے اسی طرح میں بھی تمہیں بھیجتا ہوں اور یہ کہہ کر ان پر پھونکا اور ان سے کہا ” روح القدس “ لو۔ “ ہر ایک شخص معمولی غور و فکر کے بعد بہ سہولت سمجھ سکتا ہے کہ یہ پارہ بیان پہلے حصہ بیان کے ساتھ غیر مربوط اور قطعاً بےجوڑ ہے بلکہ یہ اندازہ لگانا ہی مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ دونوں تفصیلات ایک ہی شخص سے وابستہ ہیں کیونکہ پہلا پارہ بیان ایک ایسی شخصیت کا مرقع ہے جو بےبس و بےکس مایوس اور خدا سے شاکی نظر آتی ہے اور دوسرا حصہ بیان ایسی ہستی کا رخ روشن پیش کرتی ہے جو خدائی صفات سے متصف ‘ ذات باری کی مقرب اور پیش آمدہ واقعات سے مطمئن و مسرور ہے بلکہ ان کے وقوع کی متمنی اور ان کو اپنے اداء فرض کا ایک اہم جزو سمجھتی ہے۔ ع ببیں تفاوت رہ از کجا ست تا بکجا بہرحال حقیقت چونکہ دوسری تھی اور ایک عرصہ دراز کے بعد ” عقیدہ کفارہ “ کی بدعت نے نصاریٰ کو اس کے خلاف اس گھڑے ہوئے افسانہ کی تصنیف پر مجبور کردیا اس لیے قرآن عزیز نے حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) سے متعلق دوسرے گوشوں کی طرح اس گوشہ سے بھی جہالت و تاریکی کا پردہ ہٹا کر حقیقت حال کے رخ روشن کو جلوہ آرا کرنا ضروری سمجھا اور اس نے اپنا وہ فرض انجام دیا جس کو مذاہب عالم کی تاریخ میں قرآن کی دعوت تجدید و اصلاح کہا جاتا ہے۔ اس نے بتایا کہ جس زمانہ میں بنی اسرائیل پیغمبر حق اور رسول خدا (عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ) کے خلاف خفیہ تدبیروں اور سازشوں میں مصروف اور ان پر نازاں تھے ‘ اسی زمانہ میں خدائے برتر کے قانون قضا
ur_Arab
و قدر نے یہ فیصلہ نافذ کردیا کہ کوئی طاقت اور مخالف قوت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام پر قابو نہیں پاسکتی اور ہماری محکم تدبیر اس کو دشمنوں کے ہر ” مکر “ سے محفوظ رکھے گی اور نتیجہ یہ نکلا کہ جب بنی اسرائیل نے ان پر نرغہ کیا تو ان کو پیغمبر خدا پر کسی طرح دسترس حاصل نہ ہوسکی اور ان کو بحفاظت تمام اٹھا لیا گیا اور جب بنی اسرائیل مکان میں گھسے تو صورت حال ان پر مشتبہ ہوگئی اور وہ ذلت اور رسوائی کے ساتھ اپنے مقصد میں ناکام رہے اور اس طرح خدا نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا جو عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کی حفاظت کے لیے کیا گیا تھا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ محسوس فرمایا کہ اب بنی اسرائیل کے کفر و انکار کی سرگرمیاں اس درجہ بڑھ گئی ہیں کہ وہ میری توہین و تذلیل بلکہ قتل کے لیے سرگرم سازش ہیں تو انہوں نے خاص طور سے ایک مکان میں اپنے حواریوں کو جمع کیا اور ان کے سامنے صورتحال کا نقشہ پیش فرما کر ارشاد فرمایا : ” امتحان کی گھڑی سر پر ہے ‘کڑی آزمائش کا وقت ہے ‘ حق کو مٹانے کی سازشیں پورے شباب پر ہیں ‘ اب میں تمہارے درمیان میں زیادہ نہیں رہوں گا۔ اس لیے میرے بعد دین حق پر استقامت ‘اس کی نشر و اشاعت اور یاوری و نصرت کا معاملہ صرف تمہارے ساتھ وابستہ ہوجانے والا ہے۔ اس لیے مجھے بتاؤ کہ خدا کی راہ میں سچا مددگار کون کون ہے۔ “ حواریوں نے یہ کلام حق سن کر کہا : ” ہم سب ہی خدا کے دین کے مددگار ہیں ‘ ہم سچے دل سے خدا پر ایمان لائے ہیں اور اپنی صداقت ایمانی کا آپ ہی کو گواہ بناتے ہیں اور یہ کہنے کے بعد انسانی کمزوریوں کے پیش نظر اپنے دعویٰ پر ہی بات ختم نہیں کردی بلکہ درگاہ الٰہی میں دست بدعا ہوگئے کہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں تو اس پر ہم کو استقامت عطا فرما اور ہم کو اپنے دین کے مددگاروں کی فہرست میں لکھ لے۔ اس جانب سے مطمئن ہو کر اب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے فریضہ دعوت و ارشاد کے ساتھ ساتھ منتظر رہے کہ دیکھئے معاندین کی سرگرمیاں کیا رخ اختیار کرتی ہیں اور خدائے برحق کا فیصلہ کیا صادر ہوتا ہے ؟اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں قرآن عزیز کے ذریعہ یہود و نصاریٰ کے ظنون و اوہام فاسدہ کے خلاف ” علم الیقین کی روشنی “ بخشتے
ur_Arab
ہوئے یہ بھی بتایا کہ جس وقت معاندین اپنی خفیہ تدبیروں میں سرگرم عمل تھے۔اسی وقت ہم نے بھی اپنی قدرت کاملہ کی مخفی تدبیر کے ذریعہ یہ فیصلہ کرلیا کہ عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کے متعلق معاندین حق کی تدبیر کا کوئی گوشہ بھی کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی پوشیدہ تدابیر کے مقابلہ میں کسی کی پیش نہیں جاسکے گی۔ اس لیے کہ اس کی تدبیر سے بہتر کوئی تدبیر ہو ہی نہیں سکتی : { وَ مَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ } ” اور انہوں نے (یہود نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف) خفیہ تدبیر کی اور اللہ نے (یہود کے مکر کے خلاف) خفیہ تدبیر کی اور اللہ سب سے بہتر خفیہ تدبیر کا مالک ہے۔ “ لغت عرب میں ” مکر “ کے معنی خفیہ تدبیر (اور دھوکا کرنے) کے ہیں اور علم معانی کے قاعدہ ” مشاکلہ “ کے مطابق جب کوئی شخص کسی کے جواب یا دفاع (DEFENCE ) میں خفیہ تدبیر کرتا ہے تو وہ اخلاق اور مذہب کی نگاہ میں کتنی ہی عمدہ تدبیر کیوں نہ ہو اس کو بھی ” مکر “ ہی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔جیسا کہ ہر ایک زبان کے محاورہ میں بولاجاتا ہے ” برائی کا بدلہ برائی ہے “ حالانکہ ہر شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ برائی کرنے والے کے جواب میں اسی قدر مقابلہ کا جواب دینا اخلاق اور مذہب دونوں کی نگاہ میں ” برائی “ نہیں ہے۔ تاہم تعبیر میں دونوں کو ہم شکل ظاہر کردیا جاتا ہے اور اسی کو ” مشاکلہ “ کہتے ہیں اور یہ فصاحت و بلاغت کا اہم جزء سمجھا جاتا ہے۔ غرض خفیہ تدبیر دونوں جانب سے تھی۔ ایک جانب برے بندوں کی بری تدبیر اور دوسری جانب خدائے برتر کی بہترین تدبیر ‘ نیز ایک جانب قادر مطلق کی تدبیر کامل تھی جس میں نقص و خامی کا امکان نہیں اور دوسری جانب دھوکے اور فریب کی خام کاریاں تھیں جو تار عنکبوت ہو کر رہ گئیں۔ آخر وہ وقت آپہنچا کہ بنی اسرائیل کے سرداروں ‘ کاہنوں اور فقیہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ایک بند مکان میں محاصرہ کرلیا۔ ذات اقدس اور حواری مکان کے اندر بند ہیں اور دشمن چاروں طرف سے محاصرہ کئے ہوئے ہیں۔
ur_Arab
لہٰذا اب قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوا کہ وہ کیا صورت ہو کہ جس سے دشمن ناکام رہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کسی طرح کا بھی گزند نہ پہنچا سکے ‘ تاکہ خدائے قادر کا وعدہ حفاظت اور دعویٰ تدبیر خیر پورا ہو تو اس کے متعلق قرآن نے بتایا کہ بے شک خدا کا وعدہ پورا ہوا اور اس کی تدبیر محکم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو دشمنوں کے ہاتھوں سے ہر طرح محفوظ رکھا اور صورت یہ پیش آئی کہ اس نازک گھڑی میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو وحی الٰہی نے یہ بشارت سنائی : عیسیٰ ! خوف نہ کر تیری مدت پوری کی جائے گی (یعنی تم کو دشمن قتل نہیں کرسکیں گے اور نہ تم اس وقت موت سے دوچار ہو گے) اور ہوگا یہ کہ میں تجھ کو اپنی جانب (ملائے اعلیٰ کی جانب) اٹھالوں گا اور ان کافروں سے ہر طرح تجھ کو پاک رکھوں گا (یعنی یہ تجھ پر کسی قسم کا قابو نہ پاسکیں گے) اور تیرے پیرؤوں کو ان کافروں پر ہمیشہ غالب رکھوں گا (یعنی بنی اسرائیل کے مقابلہ میں قیامت تک عیسائی اور مسلمان غالب رہیں گے اور ان کو کبھی ان دونوں پر حاکمانہ اقتدار نصیب نہیں ہوگا) پھر انجام کار میری جانب (موت کے بعد) لوٹ آنا ہے۔ پس میں ان باتوں پر فیصلہ حق دوں گا ‘جن کے متعلق تم آپس میں اختلاف کر رہے ہو : { اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَیْنَکُمْ فِیْ
ur_Arab
مَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ } ” (وہ وقت ذکر کے لائق ہے) جب اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ سے کہا : ” اے عیسیٰ ! بےشبہ میں تیری مدت کو پورا کروں گا اور تجھ کو اپنی جانب اٹھالینے والا ہوں اور تجھ کو کافروں (بنی اسرائیل) سے پاک رکھنے والا ہوں جو تیری پیروی کریں گے ‘ ان کو تیرے منکروں پر قیامت تک کے لیے غالب رکھنے والا ہوں۔ پھر میری جانب ہی لوٹنا ہے ‘ پھر میں ان باتوں کا فیصلہ کروں گا جن کے بارے میں (آج) تم جھگڑ رہے ہو۔ “ { وَ اِذْ کَفَفْتُ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ عَنْکَ اِذْ جِئْتَھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْھُمْ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ} ” (قیامت کے دن اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ کو اپنے احسانات شمار کراتے ہوئے فرمائے گا) اور وہ وقت یاد کرو ‘ جب میں نے بنی اسرائیل کو تجھ سے روک دیا (یعنی وہ کسی طرح تجھ پر قابو نہ پا سکے) جبکہ تو ان کے پاس معجزات لے کر آیا اور ان میں سے کافروں نے کہہ دیا : ” یہ تو جادو کے ماسوا اور کچھ نہیں ہے۔ “ تو اب جبکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہ اطمینان دلا دیا گیا کہ اس سخت محاصرہ کے باوجود دشمن تم کو قتل نہ کرسکیں گے اور تم کو غیبی ہاتھ ملائے اعلیٰ کی جانب اٹھالے گا اور اس طرح دشمنان دین کے ناپاک ہاتھوں سے آپ ہر طرح محفوظ کردیئے جائیں گے ‘ تو اس جگہ پہنچ کر ایک دوسرا سوال پیدا ہوا کہ یہ کس طرح ہوا اور واقعہ نے کیا صورت اختیارکر لی ؟ کیونکہ یہود و نصاریٰ تو کہتے ہیں کہ مسیح (علیہ السلام) کو سولی پر بھی لٹکایا اور مار بھی ڈالا۔ تب قرآن نے بتایا کہ مسیح بن مریم (علیہ السلام ) کے قتل و صلیب کی پوری
ur_Arab
داستان سر تا سر غلط اور جھوٹ ہے بلکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ جب مسیح (علیہ السلام) کو بقید حیات ملائے اعلیٰ کی جانب اٹھا لیا گیا اور اس کے بعد دشمن مکان کے اندر گھس پڑے تو ان پر صورت حال مشتبہ کردی گئی اور وہ کسی طرح نہ جان سکے کہ آخر اس مکان میں سے مسیح (علیہ السلام) کہاں چلا گیا : { وَ قَوْلِھِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَ مَا قَتَلُوْہُ وَ مَا صَلَبُوْہُ وَ لٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَا لَھُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَ مَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا۔ بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا۔ } ” اور (یہود ملعون قرار دیئے گئے) اپنے اس قول پر کہ ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم پیغمبر خدا کو قتل کردیا حالانکہ انہوں نے نہ اس کو قتل کیا اور نہ سولی پر چڑھایا بلکہ (خدا کی خفیہ تدبیر کی بدولت) اصل معاملہ ان پر مشتبہ ہو کر رہ گیا اور جو لوگ اس کے (قتل کے) بارے میں جھگڑ رہے ہیں بلاشبہ وہ اس (عیسیٰ (علیہ السلام)) کی جانب سے شک میں پڑے ہوئے ہیں ان کے پاس حقیقت حال کے بارے میں ظن (اٹکل) کی پیروی کے سوا علم (کی روشنی) نہیں ہے اور انہوں نے عیسیٰ کو یقیناً قتل نہیں کیا بلکہ ان کو اللہ نے اپنی جانب (ملائے
ur_Arab
اعلیٰ کی جانب) اٹھا لیا اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ “ قرآن عزیز کا یہ وہ بیان ہے جو یہود و نصاریٰ کے اختراعی افسانہ کے خلاف اس نے حضرت مسیح بن مریم (علیہما السلام) کے متعلق دیا ہے۔ اب دونوں بیانات آپ کے سامنے ہیں اور عدل و انصاف کا ترازو آپ کے ہاتھ میں۔ پہلے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی شخصیت اور ان کے دعوت و ارشاد کے مشن کو تاریخی حقائق کی روشنی میں معلوم کیجئے اور اس کے بعد ایک مرتبہ پھر ان تفصیلی واقعات پر نظر ڈالئے جو ایک اولو العزم پیغمبر ‘ مقرب بارگاہ الٰہی اور نصاریٰ کے عقیدہ باطل کے مطابق خدا کے بیٹے کو خدا کے فیصلہ کے سامنے مایوس ‘ مضطرب ‘ بےیارو مددگار اور خدا سے شاکی ظاہر کرتے ہیں اور ساتھ ہی اس تضاد بیان پر بھی غور فرمایئے کہ ایک جانب عقیدہ کفارہ کی بنیاد صرف اس پر قائم ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) خدا کا بیٹا بن کر آیا ہی اس غرض سے تھا کہ مصلوب ہو کر دنیا کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے اور دوسری جانب صلیب اور قتل مسیح (علیہ السلام) کی داستان اس اساس پر کھڑی کی گئی ہے کہ جب وہ وقت موعود آ پہنچتا ہے تو خدا کا یہ فرضی بیٹا اپنی حقیقت اور دنیا میں وجود پذیری کو یکسر فراموش کرکے ” ایلی ایلی لما شبقتنی “کا حسرت ناک جملہ زبان سے کہتا اور مرضی الٰہی پر اپنی ناخوشی کا اظہار کرتا ہوا نظر آیا ہے۔کیا کسی شخص کو یہ سوال کرنے کا حق نہیں ہے کہ اگر نصاریٰ کے بیان کردہ واقعات کے دونوں حصے صحیح اور درست ہیں تو ان دونوں کے باہم یہ تضاد کیسا اور اس عدم مطابقت کے کیا معنی ؟ پس اگر ایک حقیقت بیں اور دور رس نگاہ ان تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر اور واقعات و حالات کی ان تمام کڑیوں کو باہم جوڑ کر اس مسئلہ کا مطالعہ کرے تو وہ تصدیق حق کے پیش نظر بلا تامل یہ فیصلہ کرے گی کہ بائبل کی یہ داستان تضاد کی حامل اور گھڑی ہوئی داستان ہے اور قرآن نے اس سلسلہ میں جو فیصلہ دیا ہے وہی حق اور مبنی بر صداقت ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے بعد سے سینٹ پال سے قبل تک نصاریٰ ” یہود “ کی اس خرافی داستان سے قطعاً بےتعلق تھے لیکن جب سینٹ پال (پولوس رسول) نے تثلیث اور کفارہ پر جدید عیسائی
ur_Arab
ت کی بنیاد رکھی تو کفارہ کے عقیدہ کی استواری کے لیے یہود کی اس خرافی داستان کو بھی مذہب کا جزء بنا لیا گیا۔ لیکن واقعہ سے متعلق حد درجہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جب کہ چودہ صدیوں سے قرآن حکیم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی عظمت و جلالت قدر کا اعلان کرتے ہوئے ان کے ” رَفَعَ اِلٰی السَّمَائِ “ کی حقیقت کو یہود و نصاریٰ کی خرافی داستان کے خلاف علم و یقین کی روشنی میں نمایاں اور یہود و نصاریٰ کو دلائل وبراہین کے ذریعہ لاجواب اور سرنگوں کردیا تھا تو اس کے مقابلہ میں آج ایک مدعیٔ اسلام دعویٰ نبوت و مسیحیت کے شوق یا ہندوستان پر مسلط عیسائی حکومت کی خود غرضانہ خوشامد میں یہود و نصاریٰ کے اسی عقیدہ کو دوبارہ زندہ کرنا اور اس پر اپنے ” باطل عقیدہ نبوت “ کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے اور پنجاب (قادیان) کا یہ متنبی قرآن عزیز کی تصریحات سے بےنیاز ہو کر نہایت جسارت کے ساتھ ان تمام واقعات کی تصدیق کرتا ہے جو اس سلسلہ میں یہود و نصاریٰ نے اپنے اپنے باطل مزعومہ عقائد کی تکمیل کے لیے اختراع کئے ہیں ‘ وہ کہتا ہے کہ بلاشبہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہود نے اسیر کیا ‘ ان کا ٹھٹھا اڑایا ‘ ان کے منہ پر تھوکا ‘ ان کے طمانچے بھی لگائے ‘ ان کو کانٹوں کا تاج بھی پہنایا اور ان کے علاوہ ہر قسم کی توہین و تذلیل کا سلوک کرنے کے بعد ان کو صلیب پر بھی چڑھایا اور اپنے زعم میں ان کو قتل بھی کر ڈالا البتہ یہود و نصاریٰ کی حرف بحرف تصدیق کے بعد بغیر کسی قرآنی نص ‘ حدیثی روایت اور تاریخی شہادت کے اپنی جانب سے یہ اضافہ کرتا ہے کہ جب شاگردوں کے مطالبہ پر نعش ان کے حوالہ کردی گئی اور وہ تجہیز و تکفین کے لیے آمادہ ہوئے تو دیکھا کہ جسم میں جان باقی ہے تب انہوں نے خفیہ طور پر ایک خاص مرہم کے ذریعہ ان کے زخموں کا علاج کیا اور جب وہ چنگے ہوگئے تو پوشیدہ رہ کر کشمیر کو چلے گئے اور وہاں بھی حیات کے آخری لمحوں تک خود کو چھپائے رکھا اور گمنامی میں وہیں انتقال پا گئے۔گویا یوں کہئے کہ یہود و نصاریٰ کی مفروضہ داستان میں
ur_Arab
حضرت مسیح (علیہ السلام) سے متعلق توہین و تذلیل کے جس قدر بھی پہلو تھے وہ سب تو متنبی کاذب نے قبول کر لیے باقی ان کی عظمت شان اور جلالت مرتبت سے متعلق پہلو کو داستان سے خارج کرکے اس کے ساتھ ایک ایسا فرضی حصہ جوڑ دیا جس سے ایک جانب نیچر پرستوں کو اپنی جانب مائل کرنے کا سامان مہیا ہو سکے اور دوسری جانب عیسیٰ (علیہ السلام) کی باقی زندگی مبارک کو گمنامی کے ساتھ وابستہ کر کے توہین و تذلیل کا ایک گوشہ جو تشنہ سامان رہ گیا تھا اس کی تکمیل ہوجائے۔ (اِناَّ لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن)۔ مت نبی پنجاب کو یہ سب کچھ کرنے کی کیوں ضرورت پیش آئی ؟ اس کی جانب ابھی اشارہ کیا جا چکا ہے اور اس کی تفصیل کے لیے پروفیسر الیاس برنی کی کتاب ” قادیانی مذہب “ لائق مطالعہ ہے ‘ یا خود متنبی کاذب کی تصنیفی ہفوات اس حقیقت کو عریاں کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ ہمارے پیش نظر تو یہ مسئلہ ہے کہ متنبی پنجاب نے کس طرح قرآن حکیم کی نصوص قطعیہ کے خلاف یہود و نصاریٰ کے عقیدہ ” توہین “ ” تصلیب “ اور قتل عیسیٰ (علیہ السلام) کی تائید پر بےجا جسارت کا اقدام کیا اور جس حد تک اختلاف کیا اس میں بھی دعویٰ قرآنی کے خلاف ان کی حیات طیبہ کو نامراد و ناکام اور گمنام ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کی۔آپ ابھی سن چکے ہیں کہ قرآن عزیز نے بنی اسرائیل کے مقابلہ میں خدائے تعالیٰ کی نجات سے دعویٰ حفاظت و برتری کو کس قوت بیان کے ساتھ نمایاں کیا ہے : وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰہَ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ اِذْ قَالَ اللّٰہُ یَعِیْسٰی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اور پھر کس زور کے
ur_Arab
ساتھ یہ اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دعوائے حفاظت کو اس شان کے ساتھ پورا کیا کہ دشمن کسی حیثیت سے بھی مسیح بن مریم (علیہما السلام) پر قابو نہ پا سکے اور ہاتھ تک نہ لگا سکے : { وَ اِذْ کَفَفْتُ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ عَنْکَ } { وَ مَا قَتَلُوْہُ وَ مَا صَلَبُوْہُ وَ لٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَا لَھُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَ مَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا۔ بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ } تواب قابل غور ہے یہ بات کہ ہم دنیا میں روز و شب یہ مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ اگر کسی صاحب قوت و اقتدار ہستی کے عزیز دوست یا مصاحب کے خلاف ان کا دشمن درپے آزار یا قتل کے درپے ہوتا ہے اور یہ سمجھ کر کہ ہم صاحب اقتدار ہستی کی اعانت کے بغیر دشمن کے مقابلہ میں عہدہ برآ نہیں ہوسکتے ‘صاحب اقتدار کی جانب رجوع کرتے ہیں اور یہ ہستی ان کو پوری طرح اطمینان دلاتی ہے کہ دشمن ان کو کسی طرح نقصان نہیں پہنچا سکتا بلکہ ان تک اس کی دسترس ہی نہیں ہونے دی جائے گی تو ہر ایک اہل عقل اس کا یہی مطلب لیتا ہے کہ اب کسی بھی حالت میں ان کو دشمن کا خطرہ باقی نہیں رہا مگر یہ کہ صاحب اقتدار ہستی یا اپنے وعدہ کا ایفا نہ کرے اور جھوٹا ثابت ہو اور یا دشمن کی طاقت اتنی زیادہ ہو کہ وہ خود بھی اس حمایت و نصرت میں مغلوب ہو کر رہ جائے۔پس جب انسانی دنیا میں یہ اطلاع موصول ہو کہ صاحب اقتدار ہستی کے عزیز دوست یا مصاحب کو اس کے دشمن نے گرفتار کرلیا ‘ مارا پیٹا ‘ منہ پر تھوکا اور ہر طرح ذل
ur_Arab
یل و رسوا کرکے اپنے گمان میں مار بھی ڈالا اور مردہ سمجھ کر نعش اس کے عزیزوں کے سپرد کردی مگر حسب اتفاق نبض دیکھنے سے معلوم ہوا کہ کہیں جان اٹکی رہ گئی ہے لہٰذا علاج معالجہ کیا گیا اور وہ رو بصحت ہوگیا تو دنیائے انسانی اس صاحب اقتدار ہستی کے متعلق کیا رائے قائم کرے گی جس نے اس مظلوم کی حمایت و نصرت کا وعدہ کیا تھا ؟ یہ کہ اس نے اپنا وعدہ پورا کیا یا نہیں کیا ؟ ظاہر ہے کہ نہیں کیا خواہ قصداً نہیں کیا یا اس لیے کہ وہ مجبور رہا۔ پس اگر دنیائے انسانی کے معاملات میں صورتحال یہ ہے تو معلوم نہیں کہ متنبی پنجاب کے عقل و دماغ نے قادر مطلق خدا کے متعلق کس ذہنیت کے ماتحت یہ فیصلہ کیا کہ خدا نے عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کو ہر قسم کی حفاظت و صیانت کے وعدہ کے باوجود دشمن کے ہاتھوں وہ سب کچھ ہونے دیا ‘جس کو یہود و نصاریٰ کی اندھی تقلید میں متنبی پنجاب نے تسلیم کرلیا اور اشک شوئی کے لیے صرف اس قدر اضافہ کردیا کہ اگرچہ یہود نے صلیب و قتل کے بعد سمجھ لیا تھا کہ روح قفس عنصری سے نکل چکی ہے ‘مگر حقیقتاً ایسا نہیں ہوا تھا بلکہ رمق جان ابھی غیر محسوس طور پر باقی تھی ‘ اس لیے اسی طرح ان کی جان بچ گئی ‘ جس طرح موجودہ زمانہ میں اب سے چند سال قبل جیلوں میں پھانسی دینے کا جو طریقہ رائج تھا ‘اس کی وجہ سے کبھی پھانسی پانے کے بعد رمق جان باقی رہ جاتی تھی اور نعش کی سپردگی کے بعد علاج معالجہ سے وہ اچھا ہوجاتا تھا۔ بہرحال ہم تو اس ذات واحد ‘ قادر مطلق خدا پر ایمان رکھتے ہیں جس نے جب کبھی بھی اپنے خاص بندوں (نبیوں اور رسولوں) سے اس قسم کا وعدہ حفاظت و صیانت کیا ہے تو پھر اس کو پورا بھی ایسی شان سے کیا ہے جو قادر مطلق ہستی کے لیے شایان اور لائق ہے۔حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے منکرین حق کا معاملہ سورة نمل میں جس معجزانہ شان کے ساتھ بیان ہوا اس پر غور فرمایئے۔ ارشاد باری ہے : { وَکَانَ فِی الْمَدِیْنَۃِ تِسْعَۃُ رَہْطٍ یُّفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُ
ur_Arab
صْلِحُوْنَ۔ قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللّٰہِ لَنُبَیِّتَنَّہُ وَاَہْلَہُ ثُمَّ لَنَقُوْلَنَّ لِوَلِیِّہِ مَا شَہِدْنَا مَہْلِکَ اَہْلِہٖ وَاِنَّا لَصَادِقُوْنَ۔ وَمَکَرُوْا مَکْرًا وَّمَکَرْنَا مَکْرًا وَّہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ۔ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ مَکْرِہِمْ اَنَّا دَمَّرْنَاہُمْ وَقَوْمَہُمْ اَجْمَعِیْنَ۔ فَتِلْکَ بُیُوْتُہُمْ خَاوِیَۃًم بِمَا ظَلَمُوْا اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ۔ وَاَنجَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ۔ } ” اور شہر میں نو شخص تھے جو (بہت) مفسد تھے اور کوئی کام صلاح کاری کا نہیں کرتے تھے ‘ انہوں نے آپس میں کہا ” باہم قسمیں کھاؤ کہ ہم ضرور صالح اور اس کے گھر والوں پر شب خون ماریں گے اور پھر اس کے وارثوں سے کہہ دیں گے کہ ہم اس کے خاندان کی ہلاکت کے وقت موقع پر موجود ہی نہیں تھے اور قسم بخدا ہم ضرور سچے ہیں۔ “ اور انہوں نے (صالح (علیہ السلام) کے خلاف) خفیہ سازش کی
ur_Arab
اور ہم نے بھی (ان کی سازش کے خلاف) خفیہ تدبیر کی اور وہ (ہماری مخفی تدبیر کو) نہیں سمجھتے تھے پس (اے محمد ! ) دیکھو ! کہ ان کی خفیہ سازشی تدبیر کا کیا حشر ہوا ؟یہ کہ ہم نے ان کو (مفسدوں کو) اور ان کی (سرکش) قوم سب کو ہلاک کردیا (نگاہ اٹھا کر) دیکھو یہ (قریب ہی) ہیں ان کے گھروں کے کھنڈر ‘ ویران ہیں ان کے ظلم کی وجہ سے ‘ بے شک اس واقعہ میں نشانی ہے سمجھ والوں کے لیے اور ہم نے نجات دی ایمان والوں کو جو پرہیزگار تھے۔ “ اور پھر مطالعہ کیجئے اس عظیم الشان واقعہ کا جو ہجرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تعلق رکھتا ہے اور سورة انفال میں دشمنان حق کی ذلت و رسوائی کا ابدی اعلان ہے۔ان دونوں واقعات میں حق و باطل کے معرکوں ‘ دشمنوں کی خفیہ سازشوں اور انبیاء (علیہما السلام) کی حفاظت کے لیے وعدہ الٰہی اور اس کے بےغل و غش پورا ہونے کا جو نقشہ قرآن عزیز نے پیش کیا ہے تاریخی نگاہ سے اس پر غور فرمایئے اور فیصلہ کیجئے کہ جس خدا نے صالح (علیہ السلام) اور خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اپنے وعدہ حفاظت کو اس شان رفیع کے ساتھ پورا کیا ہو ‘ کیا متنبی پنجاب کے عقیدہ کے مطابق اسی شان معجزانہ کے ساتھ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حق میں پورا ہوا ؟ نہیں ہرگز نہیں ‘ حالانکہ آیات قرآنی شاہد ہیں کہ ان دونوں واقعات کے مقابلہ میں عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) سے کئے گئے وعدے زیادہ واضح تفصیلات رکھتے ہیں اور ان میں صاف کہا گیا ہے کہ خدا کے بہترین مخفی فیصلہ کے مطابق حضرت مسیح (علیہ السلام) کے دشمن ان کو ہاتھ تک نہ لگا سکیں گے تب ہی تو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اپنے جن احسانات و انعامات کو شمار کرائے گا ان میں سے ایک بڑا انعام و احسان یہ بھی ہوگا : { وَ اِذْ کَفَفْتُ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ عَنْکَ } ” اور جبکہ ہم نے بنی اسرائیل کو تجھ سے روک دیا تھا۔ “ مت نبی پنجاب کو اگر اپنی نبوت اور مسیحیت کے افترا اور ڈھونگ کو مضبوط کرنے کے لیے حضرت مسیح (علی
ur_Arab
ہ السلام) کے زندہ آسمان پر اٹھائے جانے کے خلاف اس درجہ ناگواری تھی جیسا کہ متنبی کاذب کی تصنیفات سے معلوم ہوتا ہے تب بھی یہود و نصاریٰ کی اس اندھی تقلید کے مقابلہ میں جو نصوص قرآنی کے خلاف ” کفر بواح “تک پہنچاتی اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کی شان رفیع کے حق میں باعث توہین و تذلیل اور وعدہ الٰہی کی تکذیب کرتی ہے ‘ کیا یہ کافی نہیں تھا کہ تاویل باطل 1 ؎ کے پردہ میں اتنا ہی کہہ دیا جاتا کہ وہ اگرچہ بقید حیات آسمان پر نہیں اٹھائے گئے مگر اللہ تعالیٰ نے بند مکان سے کسی طریق پر ان کو دشمنوں کے نرغے سے نکال کر محفوظ کردیا اور دشمن کسی طرح ان کو نہ پا سکے ‘لیکن وائے برحال متنبی قادیان کہ خدا کے سچے پیغمبر حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کے ساتھ بغض وعناد نے ” خسر الدنیا و الآخرہ “ کا مصداق بنا کر ہی چھوڑا۔ 1 ؎ تاویل باطل اس لیے کہ حیات عیسیٰ (علیہ السلام) سے متعلق دیگر نصوص قرآنی ‘حدیثی اور اجماع امت کے پیش نظر اس مقام پر یہ تاویل بلاشبہ ” باطل “ ہے مگر اس سے کم از کم حضرت مسیح (علیہ السلام) کی توہین اور وعدہ الٰہی کی تکذیب کا پہلو نہیں نکلتا۔ قرآن و احادیث کی رو سے آخر الزمان دوبارہ آمد پر نظریات اللہ نے سورۃ النساء کی ان آیات میں یہود کے ملعون ہونے کی کچھ وجوہات بیان کی ہیں من جملہ ان میں ہے کہ؛ اور ان کے اس کہنے (یعنی فخریہ دعوٰی) کی وجہ سے (بھی) کہ ہم نے اللہ کے رسول، مریم کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر ڈالا ہے، حالانکہ انہوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ انہیں صلیب پر چڑھایا مگر (ہوا یہ کہ) ان کے لیے (کسی کو عیسٰی علیہ السلام کا) ہم شکل بنا دیا گیا اور بے شک جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں وہ یقیناً اس (قتل کے حوالے) سے شک میں پڑے ہوئے ہیں انہیں (حقیقتِ حال کا) کچھ بھی علم نہیں مگر یہ کہ گمان کی پیروی (کر رہے ہیں) اور انہوں نے عیسٰی (علیہ السلام) کو یقیناً قتل نہیں کیا۔ اور اس کے علاوہ سورہ النساء میں ہے کہ اور (قربِ قیامت نزول
ur_Arab
ِ عیسیٰ علیہ السلام کے وقت) اہلِ کتاب میں سے کوئی (فرد یا فرقہ) نہ رہے گا مگر وہ عیسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی موت سے پہلے ضرور (صحیح طریقے سے ) ایمان لے آئے گا اور قیامت کے دن عیسٰی (علیہ السلام) ان پر گواہ ہوں گے۔ یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سے پیشتر جب ان کا آسمان سے نزول ہوگا تو اہل کتاب ان کو دیکھ کر ان کو مانیں گے اور ان کے بارے میں اپنے عقیدے کی تصحیح کریں گے۔ حدیث نبوی حیات و نزول مسیح علیہ السلام کے متعلق احادیث درجہ تواتر کو پہنچتی ہیں۔ ان احادیث کا متواتر ہونا محمد انور شاہ کشمیری نے اپنی کتاب «التصريح بما تواتر في نزول المسيح» میں ثابت کیا ہے۔ چند احادیث پیش خدمت ہیں؛ (رواہ البخاري ومسلم) ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نے فرمایا کیا حال ہوگا تمہارا کہ جب عیسٰی ابن مریم آسمان سے نازل ہوں گے اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا۔ {{عربی متن|عن عبد اللّہ بن عمر قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلمَ: ينزل عيسى ابن مريم عليہ السلام إلى الأرض فيتزوج ويُولَد لہ ويمكث خمسًا وأربعين سنة ثم يموت فيُدفن معي في قبري فأقوم أنا وعيسى ابن مريم من قبر واحدٍ بين أبي بكر وعمر}} عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ محمد رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ زمانہ آئندہ میں عیسٰی علیہ السلام زمیں پر اُتریں گے اور میرے قریب مدفون ہوں گے۔ قیامت کے دن میں اور مسیح ابن مریم، ابو بکر وعمر کے درمیان میں والی ایک ہی قبر سے اُٹھیں گے۔ آعن الحسن مرسلاً قال: قال رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم لليهود ان عيسى لم يمت وانہ راجع اليكم قبل يوم القيامة''' امام حسن بصری سے مرسلاً روایت ہے کہ محمد رسول اللہ نے یہود سے فرمایا کہ عیسٰی علیہ السلام نہیں مرے وہ قیامت کے قریب ضرور لوٹ کر آئیں گے۔ دیگر بہت سی احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ عیسٰی علیہ السلام کے نزول کے وقت مسلمانوں کے امام، امام مہدی علیہ السلام ہوں گے اور عیسٰی علیہ السلام اس ہدایت یافتہ امام کی اقتداء میں نماز ادا کریں گے۔ قادیانی تلبیس اور اس کا جواب حضرت
ur_Arab
عیسیٰ (علیہ السلام) کے اس معرکہ آراء مسئلہ میں ” جو ان کی عظمت اور جلالت کا زبردست نشان ہے “ سورة آل عمران کی آیات کا باہمی ربط اور ترتیب ذکری خصوصیت کے ساتھ قابل توجہ ہے کہ متنبی کاذب نے اس میں بھی تَلْبِیْسُ الْحَقِّ بِالْبَاطِلِ کا ثبوت دے کر ناواقف کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔قرآن عزیز ‘ سورة آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے دشمنوں کے نرغہ میں گھر جانے سے متعلق جس تسلی اور وعدہ کا ذکر کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فطری شکل و صورت یہ پیش آئی کہ جب دشمنان دین نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کا ایک بند مکان میں محاصرہ کرلیا تو ایک اولوا العزم پیغمبر اور خدائے برحق کے درمیان میں تقرب کا جو رشتہ قائم ہے اس کے پیش نظر قدرتی طور پر حضرت عیسیٰ کو یہ خیال پیدا ہوا کہ اب کیا پیش آنے والا ہے ؟ راہ حق میں جاں سپاری یا قدرت الٰہی کا کوئی اور کرشمہ ؟ اور اگر دشمنوں سے تحفظ کے لیے کوئی کرشمہ پیش آنے والا ہے تو اس کی کیا شکل ہوگی کیونکہ بظاہر کوئی سامان نظر نہیں آتا ؟ اور اگر تحفظ ہوا بھی تو کیا کچھ مصائب و آلام اٹھانے کے بعد تحفظ جان ہوگا یا دشمن کسی بھی صورت میں قابو نہ پاسکیں گے ؟ تب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قلب میں فطری طور پر پیدا ہونے والے سوالات کا ترتیب وار اس طرح جواب دیا : ” عیسیٰ ! میری یہ ذمہ داری ہے کہ میں تیری مقررہ مدت حیات پوری کروں گا یعنی مطمئن رہو کہ تجھ کو دشمن قتل نہ کر پائیں گے “ (اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ ) ” اور صورت یہ ہوگی کہ اس وقت میں تجھ کو اپنی جانب یعنی ملائے اعلیٰ کی جانب اٹھالوں گا (وَرَافِعُکَ اِلَیَّ ) ” اور یہ بھی اس طرح نہیں کہ پہلے سب کچھ مصائب ہو گزریں گے اور پھر ہم تجھ کو آخر میں علاج معالجہ کرا کر اٹھائیں گے نہیں بلکہ یوں ہوگا کہ تو دشمن کے ناپاک ہاتھوں سے ہر طرح محفوظ رہے گا اور کوئی دشمن تجھ کو ہاتھ تک نہ لگا سکے گا
ur_Arab
“ (وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) یہ تو تمہارے فطری سوالات کا جواب ہوا لیکن اس سے بھی زیادہ ہم یہ کریں گے کہ جو تیرے پیرو ہیں (خواہ غلط کار ہوں جیسا کہ نصاریٰ اور خواہ صحیح العقیدہ ہوں جیسا کہ مسلمان) ان کو قیامت تک یہود پر غالب رکھیں گے اور تاقیام قیامت کبھی ان کو حاکمانہ اقتدار نصیب نہیں ہوگا ‘ باقی رہا تمام معاملات کا فیصلہ سو اس کے لیے (قیامت کا) دن مقرر ہے اس روز سب اختلافات ختم ہوجائیں گے اور حق و باطل کا دو ٹوک فیصلہ کردیا جائے گا۔زیر بحث آیات کی یہ تفسیر جس طرح سلف صالحین اور اجماع امت کے مطابق ہے اسی طرح اس میں آیات میں کئے گئے متعدد وعدوں کی ترتیب میں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا اور مقدم کو مؤخر اور مؤخر کو مقدم کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی مگر مرزائے قادیانی نے اپنی مسند مسیحیت و نبوت کو قائم کرنے کے لیے قرآن ‘احادیث صحیحہ اور اجماع امت کے خلاف جبکہ یہ دعویٰ کیا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت ہوچکی تو اس سلسلہ کی آیات میں تحریف معنوی کی ناکام سعی کو بھی ضروری سمجھا اور دعویٰ کیا کہ اگر مسیح (علیہ السلام) کی موت کے وقوع کو رَفَعَ اِلٰی السَّمَائِ اور تَطْہِیْر اور تَفَوُّقُ الْمُطِیْعِیْنَ عَلٰی الْکَافِرِیْنَ سے قبل تسلیم نہ کیا جائے گا تو ترتیب ذکری میں فرق آجائے گا اور مقدم کو مؤخر اور مؤخر کو مقدم ماننا پڑے گا اور یہ قرآن عزیز کی شان بلاغت کے خلاف ہے لہٰذا یہ ماننا چاہیے کہ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کے وعدہ کا وقوع ہوچکا اور عیسیٰ (علیہ السلام) پر موت آچکی۔ مرزائے قادیانی کی یہ ” تلبیس “ اگرچہ ان حضرات سے تو پوشیدہ نہیں رہ سکتی جو عربیت اور قرآن کے اسلوب بیان کا ذوق رکھتے ہیں لیکن عوام کو مغالطہ میں ڈال سکتی ہے اس لیے اس عنوان کے شروع ہی میں آیات کی تفسیر کو اس طرح بیان کردیا گیا کہ مرزا کی جانب سے جو تلبی
ur_Arab
س کی گئی ہے وہ خود بخود زائل ہوجائے تاہم مزید تشریح کے لیے یہ اور اضافہ ہے کہ ترتیب ذکری کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کلام میں اگر چند باتیں ترتیب وار کی گئی ہیں تو ان کا وقوع بھی اس طرح ہونا چاہیے کہ اس کلام میں ذکر کردہ ترتیب بگڑنے نہ پائے اور مقدم کو مؤخر اور مؤخر کو مقدم کرنا نہ پڑے اور یہ جب ضروری ہے کہ کلام کی فصاحت و بلاغت کا تقاضا ہی یہ ہو کہ ترتیب ذکری میں فرق نہ آنے پائے ‘ ورنہ تو بعض مقامات پر تقدیم و تاخیر کو بھی فصاحت کی جان سمجھا جاتا ہے اور یہ علم معانی کا مشہور مسئلہ ہے۔ پس قرآن کی ان آیات میں جمہور اہل اسلام کی تفسیر کے مطابق ترتیب ذکری بحالہ قائم ہے اس لیے کہ خدا کی جانب سے پہلا وعدہ یہ ہے کہ میں تمہاری مقررہ مدت پوری کروں گا (اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ ) یعنی تمہاری موت ان دشمنوں کے ہاتھ سے نہیں ہوگی بلکہ تم اپنی طبعی موت سے مرو گے مگر اس پہلے وعدہ کو پورا کرنے کے لیے متعدد صورتیں ہوسکتی تھیں :یہ کہ دشمنوں پر باہر سے اچانک حملہ ہوجائے اور وہ فرار ہوجائیں یا سب وہیں کھیت رہیں اور حضرت مسیح (علیہ السلام) ان کی زد سے بچ جائیں یا یہ کہ قوم عاد وثمود کی طرح زمین یا آسمان سے قدرتی عذاب آ کر ان سب کو ہلاک کر دے یا یہ کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کسی ترکیب سے ان کے نرغہ میں سے محفوظ نکل جائیں اور ان کی دسترس سے باہر ہوجائیں یا یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے کرشمہ قدرت سے عیسیٰ (علیہ السلام) کو مکان بند رہتے ہوئے ملا اعلیٰ کی جانب اٹھالے وغیرہ وغیرہ۔ تو قرآن نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خبر دی کہ پہلے وعدہ کا ایفاء مسطورہ بالا آخری شکل یعنی وَرَافِعُکَ اِلَیَّ کی شکل میں ہوگا اور ہوگا بھی ایسی قدرت کاملہ کے ہاتھوں کہ اس محاصرہ کے باوجود دشمن اپنے ناپاک ہاتھ تجھ کو نہیں لگا سکیں گے اور میں ان کافروں کے ہاتھ سے تجھ کو پاک رکھوں گا : { وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا } اور ان باتوں کے علاوہ یہ بھی ہوگا کہ میں تیرے پیرؤوں کو تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رکھوں
ur_Arab
گا بہرحال بعد کے یہ تینوں وعدے بالترتیب جب ہی عمل میں آئیں گے کہ پہلے وعدہ اول وقوع پزیر ہوجائے یعنی تیری موت ان کے ہاتھوں نہ ہو بلکہ اپنی مقررہ مدت پر پہنچ کر طبعی موت آئے ان آیات میں پہلے وعدہ کے متعلق یہ نہیں کہا گیا کہ میں اول تجھ کو ماروں گا اور پھر بالترتیب یہ سب امور انجام دوں گا کیونکہ یہ قول صرف جاہل ہی کہہ سکتا ہے لیکن جس کو گفتگو کا معمولی بھی سلیقہ ہے وہ ہرگز ایسا کہنے کی جرأت نہیں کرے گا کیونکہ ترتیب ذکری کے لیے یہ تو ہونا چاہیے کہ ان امور کے وقوع میں ایسی صورت نہ پیدا ہوجائے کہ ترتیب میں فرق لا کر تقدیم و تاخیر کا عمل جراحی کرنا پڑے لیکن اگر کوئی شئے زمانہ کا امتداد اور طوالت چاہتی ہے اور اس کا آخری حصہ وقوع ان تمام امور کے بعد پیش آتا ہے جو اس کے بعد مذکور تھے مگر ترتیب ذکری میں مطلق کوئی فرق نہیں آتا تو ایسی شکل میں اس وقوع کے متاخر ہوجانے سے کسی عالم کے نزدیک بھی کلام کی فصاحت و بلاغت میں نقص واقع نہیں ہوتا اور نہ اس قسم کے وقوع ترتیبی کا ترتیب ذکری کے ساتھ کوئی تعلق ہوتا ہے۔ پس مسئلہ زیر بحث میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طبعی موت کا وقوع کبھی بھی ہوا ہو اس کا ترتیب ذکری سے مطلق کوئی علاقہ نہیں ہے یہاں تو اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کہہ کر یہ بتایا گیا ہے کہ دیئے گئے متعدد وعدوں میں پہل اور اولیت اس وعدہ کو حاصل ہے کہ تمہاری موت کا سبب یہ یہود بنی اسرائیل نہیں ہوں گے بلکہ جب بھی یہ مقررہ مدت پوری ہوگی اس طریق پر ہوگی جو عام طور سے میری جانب منسوب کی جاتی ہے (یعنی طبعی موت) اور یہ وعدہ بہرحال باقی تین وعدوں سے پہلے ہی رہا تب ہی تو یہ تینوں وعدے وقوع میں آسکے اور اگر کہیں دشمن حضرت مسیح (علیہ السلام) کی موت کا سبب بن گئے ہوتے تو پھر ” رَفَعْ “ اور ” تَطْہِیْر “ کے لیے کوئی صورت ہی نہ رہ جاتی اور مرزا قادیانی کی طرح باطل اور رکیک تاویلات کی آڑ لینی پڑتی اور آیات زیر بحث کی ” روح “ فنا ہو کر رہ جاتی۔ اور یہ اس لیے کہ اگر ” رَفَعْ “ سے رفع روحانی اور ” تَطْہِیر “ سے روحانی پا کی مراد لیے جائیں تو یہ قطعاً
ur_Arab
بےمحل اور بےموقع ہوگا کیونکہ قرآن کے ارشاد کے مطابق یہ وعدے عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیئے جا رہے ہیں تو حضرت عیسیٰ کو یہ بتانا کہ تمہارے متعلق یہود کا یہ اعتقاد کہ تم کاذب اور ملعون ہو غلط ہے اور تم مطمئن رہو کہ میں تمہارا رفع روحانی کرنے والا ہوں قطعاً عبث تھا کیونکہ حضرت عیسیٰ پیغمبر خدا ہیں اور جانتے ہیں کہ یہود کا افتراء کیا حقیقت رکھتا ہے نیز یہود کو حضرت مسیح (علیہ السلام) کے رفع روحانی کا پتہ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ معاملہ عالم غیب سے متعلق ہے تو خدائے برتر کا یہ ارشاد نہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی برمحل تسلی کا باعث ہوسکتا تھا۔ اور نہ یہود کے لیے سود مند اور یہی حال دوسرے وعدہ تطہیر کا ہے بلکہ جب بقول قادیانی یہود کے ہاتھوں حضرت مسیح (علیہ السلام) صلیب پر چڑھا دیئے گئے تو نعش پالینے کے بعد شاگردوں کا مرہم عیسیٰ (علیہ السلام) کو لگا کر چنگا کرلینے اور پھر منجانب اللہ جن کی ہدایت و ارشاد کے لیے مامور کئے گئے تھے ان سے جان بچا کر بھاگ جانے اور زندگی بھر گمنامی میں زندگی بسر کرتے رہنے کے بعد { وَرَافِعُکَ اِلَیَّ اور وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا } کہہ دینے سے نہ یہود کے عقیدہ متعلق مسیح (علیہ السلام) کی ہی تردید ہوگی اور نہ ایک غیر جانبدار انسان ہی یہ سمجھ سکے گا کہ ایسے موقع پر جبکہ عیسیٰ (علیہ السلام) دشمنوں کے نرغے میں ہیں اور جبکہ ان کو یہ یقین ہے کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں اور موت کے بعد رفع روحانی اور تطہیر لازم شئے ہے ان تسلیوں اور وعدوں کا کیا فائدہ ہے خصوصاً جبکہ ان کے ساتھ دشمن نے وہ سب کچھ کرلیا جو وہ کرنا چاہتا تھا۔البتہ جمہور اہل حق کی تفسیر کے مطابق آیات قرآنی کی روح اپنی معجزانہ بلاغت کے ساتھ پوری طرح ناطق ہے کہ یہ وعدے حضرت مسیح سے جس طرح کئے گئے وہ برمحل اور فطری اضطراب کے لیے بلاشبہ باعث تسکین ہیں اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معرفت کا وقت کے یہود و نصاریٰ کے وراثتی عقائد باطلہ کی تردید کے لیے کافی اور مدلل۔ جمہ
ur_Arab
ور اہل حق کی یہ تفسیر ” تُوْفِّی “ کے معنی ” مقررہ مدت پوری کرنا “ اختیار کرکے کی گئی ہے جس کا حاصل تُوْفِّی بمعنی موت نکلتا ہے لیکن تُوْفِّی کے یہ حقیقی معنی نہیں ہیں بلکہ بطور کنایہ کے مستعمل ہوئے ہیں کیونکہ لغت عرب میں اس کا مادہ وفیٰ ‘ یفی ‘ وَفاَئً ہے جس کے معنی ” پورا کرنے “ کے آتے ہیں اور اس کو جب باب تفعُّل میں لے جا کر ” توفی “ بناتے ہیں تو اس کے معنی ” کسی شے کو پورا پورا لینا “ یا ” کسی شے کو سالم قبضہ میں کرلینا “ آتے ہیں ” تَوَفّٰی اَخَذَہٗ وَافِیًا تَامَّا یَقَالُ ” تَوَفَّیْتُ مِنْ فُلَانٍ مَا لِیْ عَلَیْہِ “ اور چونکہ موت میں بھی اسلامی عقیدہ کے مطابق روح کو پورا لے لیا جاتا ہے۔ اس لیے کنایہ کے طور پر کہ جس میں حقیقی معنی بحالہ محفوظ رہا کرتے ہیں ” تُوْفِّی “ بمعنی موت مستعمل ہوتا ہے اور کہتے ہیں تَوَفَّاہٗ اللّٰہٗ اَیْ اَمَاتَہٗ لیکن اگر موقع پر دوسرے دلائل ایسے موجود ہوں جن کے پیش نظر تُوْفِّی کے حقیقی معنی لیے جاسکتے ہوں یا حقیقی کے ماسوا دوسرے معنی بن ہی نہ سکتے ہوں تو اس مقام پر خواہ فاعل ” اللہ تعالیٰ “ اور مفعول ” ذی روح انسان “ ہی کیوں نہ ہو وہاں حقیقی معنی ” پورا لے لینا “ ہی مراد ہوں گے مثلاً آیت: { اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا } ” اللہ تو پورا لے لیتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت اور ان جانوں کو جن کو ابھی موت نہیں آئی ہے پورا لے لیتا ہے نیند میں “ وَالَّتِیْ لَمْ تَمُت
ur_Arab
ْ کے لیے بھی لفظ ” تُوْفِّی “ بولا گیا یعنی ایک جانب یہ صراحت کی جا رہی ہے کہ یہ وہ جانیں (نفوس) ہیں جن کو موت نہیں آئی اور دوسری جانب یہ بھی بصراحت کہا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نیند کی حالت میں ان کے ساتھ ” تُوْفِّی “ کا معاملہ کرتا ہے تو یہاں اللہ تعالیٰ فاعل ہے ” مُتَوَفِّیْ “ اور نفس انسانی مفعول ہے ”مُتَوَفَیّٰ “ مگر پھر بھی کسی صورت سے ” تُوْفِّیَ “ بمعنی موت “ صحیح نہیں ہیں ورنہ تو قرآن کا جملہ وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ العیاذ باللہ مہمل ہو کر رہ جائے گا یا مثلاً: { وَ ھُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ بِالَّیْلِ وَ یَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّھَارِ } ” اور وہی (اللہ) ہے جو پورا لے لیتا یا قبضہ میں کرلیتا ہے تم کو رات میں اور جانتا ہے جو تم کماتے ہو دن میں۔ “ اس میں بھی کسی طرح توفی بمعنی موت نہیں بن سکتے حالانکہ توفی کا فاعل اللہ اور مفعول انسانی نفوس ہیں یا مثلاً { حَتّٰٓی اِذَا جَآئَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا } ” یہاں تک کہ جب آتی ہے تم میں سے کسی ایک کو موت ‘ قبض کرلیتے ہیں یا پورا لے لیتے ہیں اس کو ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) “ میں ذکر موت ہی کا ہو رہا ہے لیکن پھر بھی تَوَفَّتْہُ میں توفی کے معنی موت کے نہیں بن سکتے ورنہ بےفائدہ تکرار لازم آئے گا یعنی اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ میں جب لفظ ” موت “ کا ذکر آچکا تو اب تَوَفَّتْہُ میں بھی اگر توفی کے معنی موت ہی کے لیے جائیں تو ترجمہ یہ ہوگا ”یہاں تک کہ جب آتی ہے تم میں
ur_Arab
سے کسی ایک کو موت ‘ موت لے آتے ہیں ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) “ اور ظاہر ہے اس صورت میں دوبارہ لفظ موت کا ذکر بےفائدہ ہے اور کلام فصیح وبلیغ اور معجز تو کیا روزمرہ کے محاورہ اور عام بول چال کے لحاظ سے بھی پست اور لاطائل ہوجاتا ہے البتہ اگر ” توفی “ کے حقیقی معنی کسی شے پر قبضہ کرنا یا اس کو پورا لے لینا مراد لیے جائیں تو قرآن عزیز کا مقصد ٹھیک ٹھیک ادا ہوگا اور کلام بھی اپنے حد اعجاز پر قائم رہے گا۔ اب ہر ایک عاقل غور کرسکتا ہے کہ یہ دعویٰ کرنا کہ ” توفی “ کے حقیقی معنی موت کے ہیں ‘ خصوصاً جبکہ فاعل خدا ہو اور مفعول ذی روح کہاں تک صحیح اور درست ہے۔بہرحال اس موقع پر ” موت “ اور ” توفی “ دونوں کا ساتھ ساتھ بیان ہونا اور دونوں کا ایک ہی معمول ہونا اور پھر دونوں کے معنی میں فرق و تفاوت اس بات کے لیے واضح دلیل ہے کہ یہ دونوں مرادف الفاظ نہیں ہیں اور جس طرح لیث و اسد (بمعنی شیر) ابل و جمل (بمعنی اونٹ) نون و حوت (بمعنی مچھلی) وغیرہ اسماء کا اور جمع ‘ شمل ‘کسب (بمعنی جمع ہونا) اور لبث مکث (بمعنی ٹھہرنا) اور عطش ‘ ظماء (بمعنی پیاس) اور جوع ‘ سغب (بمعنی بھوک ) مصادر کا حال ہے ‘ موت اور توفی کے درمیان میں وہ معاملہ نہیں ہے بلکہ ان کے حقیقی معانی میں نمایاں فرق ہے اور مثلاً آیت: { فَاَمْسِکُوْھُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰھُنَّ الْمَوْتُ } ” پس روکے رکھو ان (عورتوں) کو گھروں میں یہاں تک کہ لے لے ان کو موت “ میں موت کو فعل اور توفی کا فاعل قرار دیا گیا ہے اور ہر ایک زبان کی نحو (گرامر) کا یہ مسئلہ ہے کہ فاعل اور فعل ایک نہیں ہوتے کیونکہ فعل فاعل سے صادر ہوتا ہے عین ذات فاعل نہیں ہوا کرتا تو اس سے یہ بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ توفی کے حقیقی معنی ” موت “ ہرگز ہرگز نہیں ہیں ورنہ اس کا اطلاق جائز نہیں ہوسکتا۔ ان تین مقامات کے علاوہ سورة بقرہ کی آیت : { ثُمَّ
ur_Arab
تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ } ” پھر پورا دیا جائے گا ہر نفس کو جو اس نے کمایا ہے۔ “ اور سورة نحل کی آیت { وَ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ } ” اور پورا دیا جائے گا ہر نفس کو جو کچھ اس نے کمایا ہے۔ “ میں بھی توفی کا فاعل اللہ تعالیٰ اور مفعول نفس انسانی ہے تاہم یہاں توفی بمعنی موت نہیں بن سکتے اور یہ بہت واضح اور صاف بات ہے۔ غرض ان آیات میں باوجود اس امر کے کہ ” توفی “ کا فاعل اللہ تعالیٰ اور اس کا مفعول ” انسان یا نفس انسانی “ ہے پھر بھی باجماع اہل لغت و تفسیر ” موت کے معنی “ نہیں ہوسکتے خواہ اس لیے کہ دلیل اور قرینہ اس معنی کے خلاف ہے اور یا اس لیے کہ اس مقام پر توفی کے حقیقی معنی (پورا لے لینا یا قبض کرلینا) کے ماسوا ” موت کے معنی “ کسی طرح بن ہی نہیں سکتے۔ تو مرزائے قادیانی کا یہ دعویٰ کہ ” توفی “ اور ” موت “ مرادف الفاظ ہیں یا یہ کہ توفی کا فاعل اگر اللہ تعالیٰ اور مفعول انسان یا نفس انسانی ہو تو اس جگہ صرف موت ہی کے معنی ہوں گے دونوں دعوے باطل اور نصوص قرآنی کے قطعاً خلاف ہیں۔ { قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ } توفی اور موت یقیناً مرادف الفاظ نہیں ہیں اور توفی کے حقیقی معنی ” موت “ نہیں بلکہ ” پورا لے لینا یا قبض کرلینا “ ہیں۔ قرآن عزیز سے اس کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ پورے قرآن میں کسی ایک جگہ بھی موت کا فاعل اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کو قرار نہیں دیا گیا مگر اس کے برعکس توفی کا فاعل متعدد مقامات پر ملائکہ (فرشتوں) کو ٹھہرایا ہے مثلاً سورة نساء میں ہے : { اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ } ” بے شک وہ لوگ جن کو فرشتوں نے قبض کرلیا یا پورا پورا لے لیا۔ “ اور سورة انعام میں ہے : { تَو
ur_Arab
َفَّتْہُ رُسُلُنَا } ” قبض کرلیا یا پورا لے لیا اس کو ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتوں) نے “ اور سورة سجدہ میں ہے : { قُلْ یَتَوَفّٰکُمْ مَّلَکُ الْمَوْتِ } ” (اے محمد) کہہ دیجئے قبض کرے گا تم کو موت کا فرشتہ “ اور سورة انفال میں ہے : { وَ لَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلٰٓئِکَۃُ } ” اور کاش کہ تو دیکھے جس وقت کہ قبض کرتے ہیں فرشتے ان لوگوں (کی روحوں) کو جنہوں نے کفر کیا ہے۔ “ ان تمام مقامات پر اگرچہ توفی ” کنایتاً “ بمعنی موت استعمال ہوا ہے لیکن پھر بھی چونکہ اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی بجائے ملائکہ اور ملک الموت کی جانب ہو رہی تھی اس لیے لفظ ” توفی “ کا اطلاق کیا گیا اور لفظ ” موت “ استعمال نہیں کیا گیا اور یہ صرف اس لیے کہ موت تو اللہ کا فعل ہے اور موت کے وقت انسان کا یعنی روح انسانی کا قبض کرنا اور اس کا پورا پورا لے لینا یہ فرشتوں کا عمل ہے تو جن مقامات میں یہ بتانا مقصود ہے کہ جب خدا کسی کی اجل پوری کردیتا اور موت کا حکم صادر فرماتا ہے تو اس کی صورت عمل کیا پیش آتی ہے ان مقامات میں موت کا اطلاق ہرگز موزوں نہیں تھا بلکہ ” توفی “ کا لفظ ہی اس حقیقت کو ادا کرسکتا تھا۔ موت اور توفی کے درمیان میں قرآنی اطلاقات کے پیش نظر ایک بہت بڑا فرق یہ بھی ہے کہ قرآن عزیز نے جگہ جگہ ” موت “ اور ” حیات “ کو تو مقابل ٹھہرایا ہے لیکن ” توفی “ کو کسی ایک مقام پر بھی ” حیات “ کا مقابل قرار نہیں دیا۔ مثلاً سورة ملک میں ہے : { الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ } ” خدا ہی وہ ذات ہے جس نے پیدا کیا موت کو اور زندگی کو “ اور سورة فرقان میں ہے : { وَلَا یَمْلِکُوْنَ مَوْتًا وَّ لَا حَیٰوۃً } ” اور
ur_Arab
وہ نہیں مالک ہیں موت کے اور نہ حیات کے “ اور اسی طرح ان دونوں کے مشتقات کو مقابل ٹھہرایا ہے مثلاً - { کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی } - { وَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا } - { فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا } - { وَ اُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللّٰہِ } - { وَہُوَ یُحْیِ الْمَوْتٰی } (وَغِیْرَ ذَالِکَ کَثِیْرًا) البتہ توفی کے حقیقی معنی میں چونکہ یہ وسعت موجود ہے کہ اسلام کے نقطہ نظر سے موت کی جو حقیقت ہے بطریق کنایہ اس پر بھی حسب موقع اس کا اطلاق ہوسکتا ہے تو یہ استعمال اور اطلاق بھی جائز ٹھہرا اور اس میں کسی کو بھی اختلاف نہیں۔ ” توفی “ کے معنی کی اس مفصل تشریح و توضیح کا حاصل یہ ہوا کہ لغت عرب اور قرآنی اطلاقات دونوں اس کے شاہد ہیں کہ توفی اور موت دونوں کے حقیقی معنی میں بھی اور دونوں کے اطلاقات میں بھی واضح فرق ہے اور دونوں مرادف الفاظ نہیں ہیں خواہ توفی کا فاعل اللہ تعالیٰ اور مفعول انسان اور روح انسانی ہی کیوں نہ ہو ‘ مگر اسلامی نقطہ نظر سے چونکہ موت ایک ایسی حقیقت کا نام ہے جس پر بطریق ” توسع “ اور ” کنایہ “ توفی کا اطلاق کیا جاسکتا ہے پس جس مقام پر قرینہ اور محل استعمال کا تقاضا یہ ہوگا کہ وہاں توفی بول کر کنایتاً موت کے معنی لیے جانے چاہئیں تو اس جگہ ” موت “ کے معنی مراد ہوں گے لیکن اس کے برعکس اگر دلیل ‘ قرینہ اور محل استعمال حقیقی معنی کا متقاضی ہے تو اس جگہ وہی معنی مراد ہوں گے اور ان ہی کو مقدم سمجھا جائے گا خواہ کنائی معنی وہاں قطعاً نہ بن سکتے ہوں اور خواہ بن سکتے ہوں مگر محل استعمال اور دوسرے دلائل اس کو مرجوح یا ممنوع قرار دیتے ہوں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو بہ نظر غائر مطالعہ کرنے کے بعد لغت کے مشہور امام ابوالبقاء نے یہ تصریح کی ہے کہ عوام میں
ur_Arab
توفی کے معنی اگرچہ موت کے سمجھے جاتے ہیں مگر خواص کے نزدیک اس کے معنی ” پورا لے لینا “ اور ” قبض کرنا “ ہیں ‘ فرماتے ہیں : ( (اَلتَّوَفِّیْ اَلْاِمَاتَۃُ وَقَبْضُ الرُّوْحِ وَعَلَیْہِ اِسْتِعْمَالُ الْعَامَّۃِ وَالْاِسْتِیْفَائُ وَاَخَذُ الْحَقِّ وَعَلَیْہِ اِسْتِعْمَالُ الْبُلَغَائِ )) الحاصل سورة مائدہ کی آیت اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ میں اگر حقیقی معنی مراد ہوں جیسا کہ جلیل القدر علمائے تفسیر و لغت نے اختیار کئے ہیں تب بھی مرزائے قادیانی کے علی الرغم آیات زیر بحث کا یہ مطلب ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہ تسلی دی گئی ” اے عیسیٰ ! میں تجھ کو پورا پورا لے لینے والا ہوں یا تجھ کو قبض کرنے والا ہوں اور صورت یہ ہوگی کہ میں تجھ کو اپنی جانب (ملا اعلیٰ کی جانب) اٹھالینے والا ہوں اور تجھ کو دشمنوں کے ناپاک ہاتھوں سے پاک رکھنے والا ہوں الخ “یعنی جب شروع میں یہ بتایا کہ تجھ کو قبض کرلیا جائے گا یا پورا لے لیا جائے گا تو قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوا کہ قبض کرنے اور پورا لے لینے کی مختلف شکلیں ہیں مثلاً ایک یہ کہ موت آجائے اور روح کو قبض کرلیا جائے اور پورا لے لیا جائے اور دوسری یہ کہ زندہ ملائے اعلیٰ کی جانب (اپنی جانب) اٹھا لیا جائے تو یہاں کونسی صورت پیش آئے گی پس اس کو صاف اور واضح کرنے کے لیے کہا گیا کہ دوسری شکل اختیار کی جائے گی تاکہ دشمنوں کی سازشوں کے مقابلہ میں معجزانہ تدبیر کے ذریعہ وعدہ الٰہی { وَ مَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ } پورا ہو اور { وَ اِذْ کَفَفْتُ بَنِیْٓ
ur_Arab
اِسْرَآئِیْلَ عَنْکَ } کا عظیم الشان مظاہرہ ہوجائے اور ” توفی “ اور ” رفع “ ہوجانے پر نتیجہ یہ نکلے کہ ذات اقدس کافروں کے ہاتھ سے ہر طرح محفوظ ہوجائے اور اس طرح وعدہ ربانی { وَ مُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا } بغیر کسی تاویل کے صحیح ہوجائے اور تاویل باطل کے ذریعہ شک اور ترددیا حقیقت حال سے انکار صرف ان ہی قلوب کا حصہ رہ جائے جو قرآن سے علم حاصل کرنے کے بجائے اول اپنے ذاتی اوہام و ظنون کو راہنما بناتے اور پھر قرآن کے منطوق و مفہوم کے خلاف اس کے منہ میں اپنی زبان رکھ دینا چاہتے ہیں اور اس سے وہ کہلانا چاہتے ہیں جو وہ خود کہنا نہیں چاہتا مگر وہ قرآن عزیز کی اس صفت سے غافل رہتے ہیں : { لَا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ } ” اس قرآن کے آگے سے اور نہ اس کے پیچھے سے (کسی جانب سے بھی) باطل نہیں پھٹک سکتا یہ اتارا ہوا ہے ایسی ہستی کی جانب سے جو حکمت والی ‘ خوبیوں والی ہے۔ “ مت نبی پنجاب کو جب قرآن عزیز کی ان نصوص سے متعلق تحریف معنوی میں ناکامی ہوئی اور خسران کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا تو مجبور ہو کر قرآن عزیز کے اطلاقات ‘ احادیث صحیحہ کی اطلاعات اور اجماع امت کے فیصلہ کو پس پشت ڈال کر ” فلسفہ “ کی آغوش میں پناہ لینے کا ارادہ کیا اور اپنی تصانیف میں یہ ہرزہ سرائی کی کہ اگر حضرت مسیح (علیہ السلام) آسمان پر زندہ اٹھا لیے گئے تو یہ عقل کے خلاف ہے اس لیے کہ کوئی مادی جسم ملائے اعلیٰ تک پرواز نہیں کرسکتا اور کر بھی جاتا تو اتنی طویل مدت کیسے زندہ رہے اور وہاں کھانے پینے اور رفع حاجت کرنے کی صورت کیسے عمل میں آسکتی ہے ؟ قدرت الٰہی کے معجزانہ افعال کو خلاف عقل کہہ کر بات اگر ختم ہوسکتی تو شاید قادیانی کی یہ فلسفی
ur_Arab
انہ موشگافی درخود اعتناء سمجھی جاسکتی ‘ لیکن آج فلسفہ جدید بہ شکل سائنس ترقی کرکے جس حد تک پہنچ چکا ہے وہاں نظریات نہیں بلکہ مشاہدات اور عملیات اس بات کو ثابت کر رہے ہیں کہ فضا کے موانعات کو اگر آہستہ آہستہ ہٹا دیا جائے یا ان کو ضبط میں لے آیا جائے تو مادی جسم کے لیے غیر معلوم بلندی تک پہنچنا ممکن العمل ہوجائے گا اور اس کے لیے جو جدوجہد وہ کر رہے ہیں وہ ممکن العمل سمجھ کر ہی کر رہے ہیں اور سائنٹفک طریقہ پر کر رہے ہیں پس اگر آج کا انسان میلوں اوپر ہوائی جہاز کے ذریعہ جاسکتا ہے اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ ہزاروں میل سے مادی انسان سے باتیں کرتے وقت اس کے جسم کی تصویر لے سکتا ہے اور ہوا اور آفتاب کی لہروں اور شعاعوں پر کنٹرول کرکے ہزاروں میل تک اپنی آواز کو بذریعہ ریڈیو نشر کرسکتا ہے اور ہزاروں برس کے گزرے ہوئے واقعات کو فضا میں نظم کرکے آج اس طرح سنا سکتا ہے گویا وہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے تو اس انسان کے خالق بلکہ خالق کائنات کے متعلق ازراہ تفلسف یہ کہنا کہ وہ مادی جسم کو ملائے اعلیٰ تک کیسے لے جاسکتا ہے اپنی غباوت پر مہر کرنا نہیں تو اور کیا ہے ؟ اور اگر ادویات اور غذاؤں اور حفظان صحت کے مختلف طریقوں سے عمر طبعی کو دگنا اور تین گنا کیا جاسکتا ہے اور کیا جا رہا ہے نیز اگر مختلف غذاؤں کے اثرات و نتائج میں یہ فرق ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے کہ کسی سے فضلہ زیادہ بنے اور کسی سے بہت کم بنے اور کسی سے قطعاً نہ بنے بلکہ وہ خالص خون کی شکل میں تحلیل ہوجائے اور اگر انسان اپنی ریاضتوں اور مجاہدوں کے ذریعہ روحانی قوت بڑھاکر آج اس دنیا میں ہفتوں بلکہ مہینوں بغیر خور ونوش زندہ رہ سکتا ہے تو مجبور انسانوں کی ان کامیاب کوششوں کو صحیح سمجھنے کے باوجود خالق ارض و سماوات کی جانب حضرت مسیح (علیہ السلام) کی رفعت آسمانی پر مسطورہ بالا شکوک پیش کرنا یا ان کے پیش نظر ان کے بجسد عنصری ملائے اعلیٰ تک پہنچنے اور وہاں زندہ رہنے کا انکار کرنا اگر جہالت نہیں تو اور کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص علمی حقائق سے ناآشنا اور علوم قرآن سے محروم ہے وہ ” خلاف عقل “ اور ” ماورائے عقل “ ان دونوں باتوں کے درمیان میں فرق کرنے سے عاجز ہے اور اس لیے ہمیشہ ماورائے عقل کو خلاف عقل کہہ کر پیش کرتا رہتا ہے۔ دراصل انسان کی
ur_Arab
فکری گمراہیوں کا سرچشمہ صرف دو ہی باتیں ہیں ایک یہ کہ انسان ” عقل “ سے اس درجہ بےبہرہ ہوجائے کہ ہر ایک بات بےسمجھے بوجھے مان لے اور اندھوں کی طرح ہر ایک راہ پر چلنے لگے دوسری بات یہ کہ جو حقیقت بھی عقل سے بالاتر نظر آئے اس کو فوراً جھٹلا دے اور یہ یقین کرلے کہ جس شئے کو اس کی سمجھ یا چند انسانوں کی سمجھ ادراک نہیں کرسکتی وہ شئے حقیقتاً وجود نہیں رکھتی اور تکذیب کے لائق ہے حالانکہ بہت سی باتیں وہ ہیں جو ایک دور کے تمام عقلا کے نزدیک ماورائے عقل سمجھی جاتی ہیں اس لیے کہ ان کی عقلیں ان باتوں کا ادراک کرنے سے عاجز رہیں مگر وہی باتیں علمی ترقی کے دوسرے دور میں جا کر نہ صرف ممکن الوقوع قرار پاتی بلکہ مشاہدہ اور تجربہ میں آجاتی ہیں پس اگر ہر ایک وہ شئے جو کسی ایک انسان یا جماعت یا اس کے دور کے تمام اہل عقل کے نزدیک ماورائے عقل تھی ” خلاف عقل “ کہلانے کی مستحق تھی تو وہ دوسرے دور میں کیوں عقل کے لیے ممکن ہوئی بلکہ مشاہدہ میں آگئی۔ قرآن عزیز نے گمراہی کی اس پہلی حالت کو ” جہل ‘ ظن ‘ خرص ‘ اٹکل “ سے تعبیر کیا ہے اور دوسری حالت کو ” الحاد “ کہا ہے اور یہ دونوں حالتیں ” علم و عرفان “ سے محرومی کا نتیجہ ہوتی ہیں خلاف عقل اور ماورائے عقل کے درمیان یہ فرق ہے کہ خلاف عقل بات وہ ہوسکتی ہے جس کے نہ ہوسکنے کے متعلق علم و یقین کی روشنی میں مثبت دلائل وبراہین موجود ہوں اور عقل ‘ دلیل وبرہان اور علم یقین سے یہ ثابت کرتی ہو کہ ایسا ہونا ناممکن اور محال ذاتی ہے اور ماورائے عقل اس بات کو کہتے ہیں کہ بعض باتوں کے متعلق عقل ہی کا یہ فیصلہ ہے کہ چونکہ انسانی عقل کا ادراک ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھتا اور حقیقت اسی حد پر ختم نہیں ہوجاتی لہٰذا ہر وہ بات جو عقل کے احاطہ میں نہ آسکتی ہو مگر اس کے انکار پر علم و یقین کے ذریعہ برہان و دلیل بھی دی جاسکتی ہو تو ایسی بات کو خلاف عقل نہیں بلکہ ماورائے عقل کہیں گے۔ خلاف عقل اور ماورائے عقل کے درمیان میں امتیاز ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ جن چیزوں کو کل کی دنیا میں عام طور پر خلاف عقل کہا جاتا رہا ان کو اہل دانش و بینش نے خلاف عقل نہ سمجھتے ہوئے موجودہ دور میں ممکن
ur_Arab
بلکہ موجود کر دکھایا اور کل یہی عقل کی ترقی آج کی بہت سی ماورائے عقل باتوں کو احاطہ عقل میں لاسکے گی اور نہ معلوم یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ پس جو شخص حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بجسد عنصری رفع الی السماء کا اس لیے منکر ہے کہ عقلی فلسفہ اس کا انکار کرتا ہے تو اس کا یہ دعویٰ برہان و دلیل اور علم و یقین کی جگہ محض جہل ‘ ظن ‘ اٹکل کے ماتحت ہے اور ایسے حضرات کے لیے پھر عالم غیب کی تمام ماورائے عقل باتوں مثلاً وحی ‘ فرشتہ ‘ جنت ‘ جہنم ‘ حشر ‘ معاد ‘ معجزہ وغیرہ تمام باتوں کو خلاف عقل کہہ کر جھٹلا دینا چاہیے۔ قرآن عزیز نے ان ہی جیسے منکرین حق کے متعلق صاف صاف مکذبین کا لقب تجویز کردیا ہے : { بَلْ کَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِہٖ وَ لَمَّا یَاْتِھِمْ تَاْوِیْلُہٗ کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظّٰلِمِیْنَ } ” نہیں یہ بات نہیں ہے (جیسا کفار کہتے ہیں) اصل حقیقت یہ ہے کہ جس بات پر یہ اپنے علم سے احاطہ نہ کرسکے اور جس بات کا نتیجہ ابھی پیش نہیں آیا اس کے جھٹلانے پر آمادہ ہوگئے ٹھیک اسی طرح انہوں نے بھی جھٹلایا تھا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں تو دیکھو ظلم کا کیسا انجام ہوچکا ہے۔ “ آیت میں { کَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِہٖ } (یونس 1٠/39) کہہ کر جس حقیقت کا اعلان کیا گیا ہے یعنی انسان کی عقل جس بات کا ادراک نہ کرسکے اس کو دلیل وبرہان اور علم یقین کے بغیر ہی جھٹلا دینا اور صرف اس بنا پر انکار کردینا کہ یہ
ur_Arab
بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے اس کی ایک نظیر مرزائے قادیانی کا وہ انکار ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ” رفع الی السماء “ سے متعلق ہے اور اس کے خلیفہ مسٹر لاہوری کی فلسفیانہ موشگافیاں بھی اسی بےدلیل انکار و جحود کا شعبہ ہیں۔ اس حربہ کو بھی کمزور سمجھ کر متنبی پنجاب نے پھر رخ بدلا اور یہ دعویٰ کیا کہ اس موقع کے علاوہ قرآن کے کسی مقام سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ ” رفع “ سے ” رفع روحانی “ کے ماسوا کوئی معنی لیے گئے ہیں یعنی مادی شئے کی جانب رفع کی نسبت کی گئی ہو لہٰذا اس مقام پر بھی رفع روحانی کے علاوہ معنی لینا قرآن کے اطلاق و استعمال کے خلاف ہے۔ مگر متنبی کاذب کا یہ دعویٰ اول تو بنیاداً ہی غلط ہے کیونکہ اگر کسی لفظ کے محل استعمال سے یا قرآن ہی کی دوسری نصوص سے ایک معنی متعین ہیں تب یہ سوال پیدا کرنا کہ ” یہی استعمال دوسرے کسی مقام پر جب تک ثابت نہیں ہوگا قابل تسلیم نہیں “ حد درجہ کی نادانی ہے تاوقتیکہ دلیل سے یہ ثابت نہ کردیا جائے کہ لغت عرب میں اس لفظ کا اس معنی میں استعمال جائز ہی نہیں اور اگر اتمام حجت کے طور پر اس قسم کے لچر سوال یا دعوے کو قابل جواب یا لائق رد سمجھا ہی جائے تو سورة النازعات کی یہ آیت کافی و وافی ہے : { ئَ اَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَآئُ بَنَاہَا۔ رَفَعَ سَمْکَہَا } ” (اے افراد نسل انسانی) خلقت اور پیدائش کے لحاظ سے کیا تم زیادہ بھاری اور بوجھل ہو یا آسمان جس کو خدا نے بنایا اور اس کے بوجھل جسم کو بلند کیا۔ “ اور ایک آسمان پر ہی کیا موقوف ہے یہ ہم سے لاکھوں اور کروڑوں میل دور فضا میں سورج چاند ستاروں کو خدائے برتر نے جو بلندی اور رفعت عطا کی ہے کیا یہ سب کے سب مادی اجسام نہیں ہیں ؟ اور اگر ہیں اور یقیناً ہیں تو جس خالق ارض و سماوات نے ان مادی اجسام کا رفع آسمانی کیا ہے وہ اگر ایک انسانی مخلوق کا رفع آسمانی کر دے تو اس کو قرآن کے اطلاق و استعمال کے خلاف کہنا غباوت اور جہالت نہیں تو اور کیا ہے البتہ ثبوت درکار ہے تو اس کے لیے قرآن عزیز کی نصوص ‘ صحیح
ur_Arab
احادیث اور اجماع امت سے زیادہ موثق ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے ؟ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا رفع سماوی اور چند جذباتی باتیں مرزائے قادیانی نے اگرچہ اس مسئلہ میں جمہور کے خلاف یہود و نصاریٰ کی پیروی میں تحریف مطالب کی کافی سعیٔ ناکام کی ہے اور مسٹر لاہوری نے بھی تفسیر قرآن میں تحریف معنوی کے ذریعہ اپنے مقتداء کی مدد کی تاہم دل کا چور ان کو مطمئن نہیں کرسکا اور اس لیے انہوں نے دلائل وبراہین کی جگہ جذبات کو دلیل راہ بنایا اور کبھی تو یہ کہا کہ جو لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر زندہ تسلیم کرتے ہیں وہ ان کو خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فضیلت دیتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زمین پر ہوں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان پر ‘ یہ تو سخت توہین کی بات ہے۔ لیکن علمی حلقوں میں اس لچر اور لوچ جذبہ کی کیا قدر و قیمت ہوسکتی ہے جبکہ ہر مذہبی انسان اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہے کہ اگرچہ فرشتے ہمیشہ بقید حیات ملا اعلیٰ میں موجود اور سکونت پزیر ہیں تاہم ان سب کے مقابلہ میں بلکہ ان کی جلیل القدر ہستیوں مثلاً جبرائیل و میکائیل (علیہما السلام) کے مقابلہ میں بھی ایک مفضول سے مفضول نبی کا رتبہ بہت بلند اور عالی ہے حالانکہ وہ نبی زمین پر مقیم رہا ہے اور جبرائیل (علیہ السلام) کا قیام ملائے اعلیٰ کے بھی بلند تر مقام پر رہتا ہے چہ جائیکہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مرتبہ جلیل کہ جس کی عظمت ” بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر “ میں مضمر ہے علاوہ ازیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب معراج میں { قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی } کا جو تقرب پایا ہے وہ نہ کسی ملک اور فرشتہ کو حاصل ہوا اور نہ کسی نبی اور رسول کو ‘ اس لیے حضرت مسیح (علیہ السلام) کا رفع آسمانی اس ” رفعت “ کو پہنچ ہی نہیں سکتا جو اسریٰ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل ہوئی۔ بہرحال فاضل و مفضول کے درمیان میں فرق مراتب کے لیے تنہا ملائے اعلی
ur_Arab
ٰ کا قیام معیار فضیلت نہیں ہے خصوصاً اس ” افضل ہستی “ کے مقابلہ میں جس کی فضیلت کا معیار خود اس کا وجود باجود ہو اور جس کی ذات قدسی صفات خود ہی منبع فضائل اور مرجع کمالات ہو ‘ ایسی ہستی سے تو ” مقام “ عزت و مرتبہ پاتا ہے نہ کہ وہ ذات گرامی : حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری اور کبھی یہ کہا کہ جو شخص عیسیٰ (علیہ السلام) کو زندہ تسلیم کرتا ہے وہ ” العیاذ باللہ “ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس لیے توہین کرتا ہے کہ وہ بقید حیات نہیں رہے اور اس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو پھر ذات اقدس پر برتری حاصل ہوگئی۔ یہ مقولہ پہلے سے بھی زیادہ بےکیف اور بےمعنی ہے بلکہ سرتا سر غلط بنیاد پر قائم ‘ اس لیے کہ کون اہل عقل اور ذی ہوش کہہ سکتا ہے کہ ” زندگی “ بھی فاضل و مفضول کے درمیان معیار فضیلت ہے اس لیے کہ زندگی کی قیمت ذاتی کمالات و فضائل سے ہے نہ اس لیے کہ وہ زندگی ہے پھر ” معیار فضیلت “ کی اس بحث سے قطع نظر اس موقع پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مسئلہ فضیلت کو درمیان میں لانا اس لیے بھی قطعاً بےمحل ہے کہ جبکہ قرآن عزیز کی نصوص نے تمام کائنات پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برتری کو ثابت کردیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت نے زندہ شہادت بن کر ان نصوص کی تصدیق کردی تو کسی بھی انسان کی ” زندگی “ یا ” رفع آسمانی “ یا اور کوئی ” وجہ فضیلت “ اس کے مقابلہ میں نہیں لائی جاسکتی ‘ اور ہر ایک حالت و صورت میں ” فضل کلی “ اسی جامع کمالات ہستی کو حاصل رہے گا۔ { وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ } کی تفسیر اس مسئلہ کو ختم کرنے سے پہلے اب ایک بات باقی رہ جاتی ہے کہ سورة نساء کی مسطورہ بالا آیت میں { وَلٰکِنْ شُبّْہَ لَھُمْ } کی کیا تفسیر ہے ؟ یعنی وہ کیا اشتباہ تھا جو یہودیوں پر طاری کردیا گیا تو قرآن عزیز اس کا جواب اس مقام پر بھی اور آل عمران میں بھی ایک ہی دیتا ہے اور وہ ” رَفَعَ اِ
ur_Arab
لَی السَّمَائِ “ ہے سورة آل عمران میں اس کو وعدہ کی شکل میں ظاہر کیا ” وَرَافِعُکَ اِلَیَّ “ اور سورة نساء میں ایفائے وعدہ کی صورت میں یعنی ” بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ “ جس کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ محاصرہ کے وقت جب منکرین حق گرفتاری کے لیے اندر گھسے تو وہاں عیسیٰ (علیہ السلام) کو نہ پایا یہ دیکھا تو سخت حیران ہوئے اور کسی طرح اندازہ نہ لگا سکے کہ صورت حال کیا پیش آئی اور اس طرح ” وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ “ کا مصداق بن کر رہ گئے اس کے بعد قرآن کہتا ہے : { اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَا لَھُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَ مَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا } تو یہ اشتباہ کے بعد جو صورت حال پیش آئی اس کا نقشہ بیان کیا گیا ہے اور اس سے دو باتیں بصراحت ظاہر ہوتی ہیں : ایک یہ کہ یہود اس سلسلہ میں اس طرح شک میں پڑگئے تھے کہ گمان اور اٹکل کے ماسوا ان کے پاس علم و یقین کی کوئی صورت باقی نہیں رہ گئی تھی اور دوسری بات یہ کہ انہوں نے کسی کو قتل کرکے یہ مشہور کیا کہ انہوں نے ” مسیح (علیہ السلام) “ کو قتل کردیا یا پھر آیت زمانہ نبوت محمدی کے یہود کا حال بیان کر رہی ہے۔ پس قرآن عزیز کے ان واضح اعلانات کے بعد جو حضرت مسیح (علیہ السلام) کی حفاظت و صیانت کے سلسلہ میں کئے گئے ہیں اور جن کو تفصیل کے ساتھ سطور بالا میں بیان کردیا گیا ہے ان دونوں باتوں کی جزئی تفصیلات کا تعلق آثار صحابہ (رض) و رضوا عنہ اور تاریخی روایات پر رہ جاتا ہے اور اس سلسلہ میں صرف ان ہی روایات و آثار کو قابل تسلیم سمجھا جائے گا جو اپنی صحت روایت کے ساتھ ساتھ ان بنیادی تصریحات سے نہ ٹکراتی ہوں جن کا ذکر متعدد مقامات پر قرآن
ur_Arab
عزیز نے بصراحت کردیا ہے اور اَلْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًا ” قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصہ کی خود ہی تفسیر کردیتا ہے “ کے اصول پر جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دشمن ہاتھ تک نہ لگا سکے اور وہ محفوظ ملائے اعلیٰ کی جانب اٹھالیے گئے اور جیسا کہ حیات عیسیٰ (علیہ السلام) کی بحث میں ابھی نصوص قرآنی سے ثابت ہوگا کہ وہ وقوع قیامت کے لیے ” نشان “ ہیں ‘ اور اس لیے دوبارہ کائنات ارضی میں واپس آ کر مفوضہ خدمت انجام دے کر پھر موت سے دو چار ہوں گے۔ شخصِ مقتول و مصلوب سے متعلق آثار و تاریخ کی جو ملی جلی روایات ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ ” سبت کی شب “ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بیت المقدس کے ایک بند مکان میں اپنے حواریوں کے ساتھ موجود تھے کہ بنی اسرائیل کی سازش سے دمشق کے بت پرست بادشاہ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی گرفتاری کے لیے ایک دستہ بھیجا اس نے آ کر محاصرہ کرلیا اسی اثناء میں اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو ملائے اعلیٰ کی جانب اٹھا لیا جب سپاہی اندر داخل ہوئے تو انہوں نے حواریوں میں سے ہی ایک شخص کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہم شبیہ پایا ‘ اور اس کو گرفتار کرکے لے گئے اور پھر اس کے ساتھ وہ سب کچھ ہوا جس کا ذکر گزشتہ سطور میں ہوچکا ہے ان ہی روایات میں بعض اس کا نام یودس بن کر یایوطا بیان کرتے ہیں اور بعض جرجس اور دوسرے داؤد بن لوزا کہتے ہیں۔ پھر ان روایات میں سے بعض میں ہے کہ یہ شخص مقتول اپنی خلقت ہی میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کا مشابہ اور ان کا نقش ثانی تھا ‘ اسرائیلیات انجیلی میں ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں میں سے یہوداہ اسکرلوتی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ہم شبیہ تھا اور بعض روایات میں ہے کہ جب یہ نازک گھڑی آپہنچی تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے حواریوں کو دعوت و تبلیغ حق سے متعلق تلقین و ہدایات کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی مجھ کو مطلع کردیا ہے کہ میں ایک مدت تک کے لیے ملائے اعلیٰ کی جانب اٹھا لیا جاؤں گا اور یہ واقعہ مخالفین اور م
ur_Arab
تبعین دونوں کے لیے سخت آزمائش و امتحان میں جانے والا ہے۔ لہٰذا تم میں سے جو شخص اس پر آمادہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کو میرا ہم شبیہ بنا دے اور وہ خدا کی راہ میں جان بحق پیئے اس کو جنت کی بشارت ہے تب ایک حواری نے پہل کی اور خود کو اس کے لیے پیش کیا اور منجانب اللہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ہم شکل ہوگیا اور سپاہیوں نے اس کو گرفتار کرلیا۔ یہ تفصیلات نہ قرآن میں مذکور ہیں اور نہ احادیث مرفوعہ میں اس لیے وہ صحیح ہوں یا غلط ‘ نفس مسئلہ اپنی جگہ اٹل ہے اور قرآن کی آیات میں منصوص ‘ اس لیے اصحاب ذوق کو اختیار ہے کہ وہ صرف قرآن کے اس اجمال پر ہی قناعت کریں کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کا رفع الی السماء اور ہر طرح دشمنوں سے تحفظ نیز یہود پر معاملہ کا مشتبہ ہو کر کسی دوسرے کو قتل کرنا ‘ یہود و نصاریٰ کے پاس اس سلسلہ میں علم و یقین سے محروم ہو کر ظن وتخمین اور شک و شبہ میں مبتلا ہوجانا اور قرآن کا حقیقت واقعہ کو علم و یقین کی روشنی میں ظاہر کردینا یہ سب حقائق ثابتہ ہیں { وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ } اور { وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ } کی تفسیر میں ان روایات کی تفصیلات کو بھی قبول کرلیں اور یہ سمجھ کر تسلیم کریں کہ زیر بحث آیات کی تفسیر ان تفصیلات پر موقوف نہیں ہے بلکہ یہ امر زائد ہے جو آیات کی تفسیر صحیح کے لیے مؤید ہے۔ حیات عیسیٰ (علیہ السلام) سورة آل عمران ‘ مائدہ اور نساء کی زیر بحث آیات سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق حکمت الٰہی کا یہ فیصلہ صادر ہوا کہ ان کو بقید حیات ملائے اعلیٰ کی جانب اٹھا لیا جائے اور وہ دشمنوں اور کافروں سے محفوظ اٹھا لیے گئے۔ لیکن قرآن نے اس مسئلہ میں صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ حسب موقع ان کی حیات امروز پر نصوص قطعیہ کے ذریعہ متعدد جگہ روشنی ڈالی ہے اور ان مقامات میں اس جانب بھی اشارات کئے ہیں کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی حیات طویل اور رفع الی السماء میں کیا حکمت مستور تھی تاکہ
ur_Arab
اہل حق کے قلوب تازگی ایمان سے شگفتہ ہوجائیں اور باطل کوش اپنی کور باطنی پر شرمائیں۔ لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ { وَ اِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا } ” اور کوئی اہل کتاب میں سے باقی نہ رہے گا مگر یہ کہ وہ ضرور ایمان لائے گا (عیسیٰ ) پر اس (عیسیٰ ) کی موت سے پہلے اور وہ (عیسیٰ ) قیامت کے دن ان پر (اہل کتاب پر) گواہ بنے گا۔ “ اس آیت سے قبل آیات میں وہی مسطورہ بالا واقعہ مذکور ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو نہ صلیب پر چڑھایا گیا اور نہ قتل کیا گیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی جانب اٹھا لیا۔ یہ یہود و نصاریٰ کے اس عقیدہ کی تردید ہے جو انہوں نے اپنے باطل زعم اور اٹکل سے قائم کرلیا تھا ان سے کہا جا رہا ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے متعلق صلیب پر چڑھائے جانے اور قتل کئے جانے کا دعویٰ قابل لعنت ہے کیونکہ بہتان اور لعنت تَوْاَمْ ہیں اس کے بعد اس آیت میں امر اول کی تصدیق میں اس جانب توجہ دلائی جا رہی ہے کہ آج اگر اس ملعون عقیدہ پر فخر کر رہے ہو تو وہ وقت بھی آنے والا ہے جب عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) خدائے برتر کی حکمت و مصلحت کو پورا کرنے کے لیے کائنات ارضی پر واپس تشریف لائیں گے اور اس عینی مشاہدہ کے وقت اہل کتاب (یہود و نصاریٰ ) میں سے ہر ایک موجود ہستی کو قرآن کے فیصلہ کے مطابق عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آنے کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہ رہے گا ‘ اور پھر جب وہ اپنی مدت حیات ختم کرکے موت کی آغوش سے دو چار ہوجائیں گے تو قیامت کے دن اپنی امت (اہل کتاب) پر اسی طرح گواہ ہوں گے جس طرح تمام انبیاء ومرسلین اپنی اپنی امتوں پر شاہد بنیں گے۔
ur_Arab
یہ حقیقت کچھ مخفی نہیں ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق اگرچہ یہود و نصاریٰ دونوں واقعہ صلیب و قتل پر متفق ہیں لیکن اس سلسلہ میں دونوں کے عقائد کی بنیاد قطعاً متضاد اصول پر قائم ہے ‘ یہود حضرت مسیح (علیہ السلام) کو مفتری اور کاذب کہتے اور دجال 1۔(دجال دجل سے ماخوذ ہے جس کے معنی ” فریب “ کے ہیں۔) سمجھتے ہیں اور اس لیے فخر کرتے ہیں کہ انہوں نے یسوع مسیح (علیہ السلام) کو صلیب پر بھی چڑھایا اور پھر اس حالت میں مار بھی ڈالا۔ اس کے برعکس نصاریٰ کا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا کا پہلا انسان آدم (علیہ السلام) گناہ گار تھا اور ساری دنیا گناہ گار تھی۔ اس لیے خدا کی صفت ” رحمت “ نے ارادہ کیا کہ دنیا کو گناہوں سے نجات دلائے اس لیے اس کی صفت ” رحمت “ نے ابنیت (بیٹا ہونا) کی شکل اختیار کی اور اس کو دنیا میں بھیجا تاکہ وہ یہود کے ہاتھوں سولی پر چڑھے اور مارا جائے اور اس طرح ساری کائنات ماضی و مستقبل کے گناہوں کا ” کفارہ “ بن کر دنیا کی نجات کا باعث بنے۔ سورة نساء کی آیات میں قرآن عزیز نے صاف صاف کہہ دیا کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے قتل کے دعویٰ کی بنیاد کسی بھی عقیدہ پر مبنی ہو لائق لعنت اور باعث ذلت و خسران ہے۔ خدا کے سچے پیغمبر کو مفتری سمجھ کر یہ عقیدہ رکھنا بھی لعنت کا موجب اور خدا کے بندے اور مریم (علیہا السلام) کے بطن سے پیدا انسان کو خدا کا بیٹا بنا کر اور ” کفارہ “ کا باطل عقیدہ تراش کر مسیح (علیہ السلام) کو مصلوب و مقتول تسلیم کرنا بھی گمراہی اور علم و حقیقت کے خلاف اٹکل کا تیر ہے اور اس سلسلہ میں صحیح اور مبنی برحقیقت فیصلہ وہی ہے جو قرآن نے کیا ہے اور جس کی بنیاد ” علم و یقین اور وحی الٰہی “ پر قائم ہے۔ پس آج جبکہ تمہارے سامنے اس اختلاف کے فیصلہ کے لیے جو شک و ظن کی شکستہ بنیادوں پر قائم تھا علم و یقین کی روشنی آچکی ہے پھر بھی تم اپنے ظنون کا سدہ اور اوہام فاسدہ پر اصرار کر رہے ہو اور حضرت مسیح (علیہ السلام) سے متعلق باطل عقیدہ کو ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہو ‘ تو قرآن کا ایک دوسرا فیصلہ اور وحی الٰہی کا یہ اعلان بھی سن لو
ur_Arab
کہ تمہاری نسلوں پر وہ وقت بھی آنے والا ہے جب قرآن کے اس صحیح فیصلہ اور اعلان حق کے مطابق حضرت مسیح (علیہ السلام) ملائے اعلیٰ سے کائنات ارضی کو واپس ہوں گے اور ان کی یہ آمد ایسی مشاہد ہوگی کہ یہود و نصاریٰ میں سے ایک فرد بھی ایسا نہ رہے گا جو بادل خواستہ یا بادل ناخواستہ اس ذات گرامی پر یہ ایمان نہ لے آئے کہ بلاشبہ وہ خدا کے سچے رسول ہیں ‘ خدا کے بیٹے نہیں برگزیدہ انسان ہیں ‘ مصلوب و مقتول نہیں ہوئے تھے بقید حیات ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ { وَ اِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ } یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ سورة آل عمران اور سورة مائدہ کی طرح اس جگہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے لفظ ” توفی “ نہیں بولا گیا بلکہ بصراحت لفظ ” موت “ استعمال کیا گیا ہے یہ کیوں ؟ صرف اس لیے کہ ان دونوں مقامات پر جس حقیقت کا اظہار مقصود ہے اس کے لیے ” توفی “ ہی مناسب ہے جیسا کہ سورة آل عمران سے متعلق آیات کی تشریح و تفسیر میں گزر چکا اور سورة مائدہ سے متعلق آیت کی تفسیر میں عنقریب بیان ہوگا اور اس جگہ چونکہ براہ راست ” موت “ ہی کا تذکرہ مطلوب ہے اور اس حالت کا ذکر ہے۔جس کے بعد حضرت مسیح (علیہ السلام) بھی { کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ } کا مصداق بننے والے ہیں اس لیے یہاں ” موت “ کو بصراحت لانا ہی از بس ضروری تھا اور یہ مزید برہان ہے اس دعویٰ کے لیے کہ آل عمران اور مائدہ میں لفظ ” موت “ کی جگہ ” توفی “ کا اطلاق بلاشبہ خاص مقصد رکھتا ہے ورنہ جس طرح ان دونوں مقامات پر ” توفی “ کا اطلاق کیا گیا تھا اسی طرح یہاں بھی کیا جاتا یا جس طرح اس جگہ لفظ ” موت “ کا اطلاق کیا گیا ہے اسی طرح ان دونوں مقامات پر بھی لفظ موت ہی کا استعمال ہونا چاہیے تھا مگر قرآن عزیز کے ان دقیق اسالیب بیان کے فرق کا فہم ‘ طالبین حق کا ہی حصہ ہے نہ کہ مرزائے قادیانی اور مسٹر لاہوری جیسے اصحاب زیغ کا جو اپنی خاص اغراض ذاتی کے پیش نظر
ur_Arab
پہلے ایک نظریہ ایجاد کرلیتے ہیں اور بعد ازاں اس سلسلہ کی تمام آیات قرآنی کو اسی کے سانچہ میں ڈھال کر اس کا نام ” تفسیر قرآن “ رکھتے ہیں۔ بہرحال جمہور کے نزدیک آیت زیر عنوان کی تفسیر یہی ہے جو سپرد قلم کی جا چکی ‘ مشہور محدث ‘ جلیل القدر مفسر اور اسلامی مورخ عماد الدین ابن کثیر ؒ اس تفسیر کو حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور حسن بصری ؒ سے بسند صحیح نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں : ” قتادہ ‘ عبد الرحمن اور بہت سے مفسروں کا یہی قول ہے اور یہی قول حق ہے جیسا کہ عنقریب ہم دلیل قاطع سے اس کو ثابت کریں گے ‘ ان شاء اللہ تعالیٰ “ اور سر تاج محدثین ابن حجر عسقلانی بھی اسی کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ” اسی تفسیر پر حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے یقین کیا ہے اور ابن عباس ؓ کی اس تفسیر کو ابن جریر نے بروایت سعید بن جبیر اور ابو رجاء نے بھی حسن ؒ سے بسند صحیح روایت کیا ہے کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا ” قَبْلَ مَوْتِہٖ “ یعنی قبل موت عیسیٰ (علیہ السلام)۔ قسم بخدا بے شک وشبہ حضرت عیسیٰ بقید حیات ہیں اور جب وہ آسمان سے اتریں گے تو سب اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے اور ابن جریر ؒ نے اسی تفسیر کو اکثر اہل علم سے نقل کیا ہے اور ابن جریر ؒ وغیرہ نے اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے۔ “ مگر اس صحیح تفسیر کے علاوہ کتب تفسیر میں احتمال عقلی کے طور پر دو قول اور بھی منقول ہیں۔ مگر وہ دونوں بلحاظ سند ضعیف اور ناقابل اعتماد اور بلحاظ سیاق وسباق (یعنی آیت زیر بحث سے قبل اور بعد کی آیات کے لحاظ سے) غلط اور ناقابل التفات ہیں۔ یعنی ایسے احتمالات عقلی ہیں جو نقل اور آیات کے باہمی نظم و ترتیب کے خلاف ہیں۔ ان ہر دو معنی میں سے ایک معنی یہ ہے کہ ” مَوْتِہٖ “ میں جو ضمیر ہے اس کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بجائے اہل کتاب کی جانب لوٹایا جائے اور آیت کا ترجمہ یوں کیا جائے ” اور اہل کتاب میں سے کوئی فرد ایسا نہیں ہے جو اپنی موت سے پہلے عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان نہ لے آتا ہو “ یعنی اگرچہ یہود و نصاریٰ اپنی زندگی میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے متعلق قرآن کے بتائے ہوئے عقیدہ
ur_Arab
پر ایمان نہیں لاتے اور اپنے اپنے عقیدہ پر قائم رہتے ہیں لیکن جب ان کو ” موت “ آ دباتی ہے تو وہ اس آخری حالت میں ” جو نزع کا وقت کہلاتا ہے “ صحیح عقیدہ کے مطابق ایمان لے آتے ہیں اور اہل کتاب کے ہر ایک فرد پر بلا استثناء یہی حالت گزرتی ہے اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ ” اہل کتاب کا ہر ایک فرد اپنی موت سے پہلے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آتا ہے “ یعنی جب وہ عالم دنیا سے منقطع ہو کر عالم غیب سے وابستہ ہو رہا ہوتا ہے اس وقت اس پر اصل حقیقت منکشف ہوجاتی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بے شک خدا کے سچے پیغمبر تھے۔ پس اس بات سے قطع نظر کہ یہ دونوں تفسیریں نقل روایت کے اعتبار سے ناقابل اعتماد اور غیر صحیح اور آیات کے سیاق وسباق کے خلاف ہیں عقلی نقطہ نظر سے بھی غلط ہیں۔ اس لیے کہ اگر آیت کے معنی یہ ہیں جو سطور بالا میں نقل کئے گئے تب یہ آیت اپنے مقصد بیان کے خلاف بےمعنی اور بےنتیجہ ہوجاتی ہے۔ (العیاذ باللہ) کیونکہ قرآن عزیز دوسرے مقامات پر صاف کہہ چکا ہے کہ جب انسان عالم دنیا سے کٹ کر عالم غیب سے وابستہ ہوجاتا ہے اور نزع کی یہ کیفیت اس پر طاری ہوجاتی ہے کہ جو معاملات اس ساعت سے قبل تک اس کے لیے غیب کے معاملات تھے وہ مشاہدہ میں آنے شروع ہوجاتے ہیں تو اس وقت اس کے اعمال و کردار کا صحیفہ لپیٹ دیا جاتا ہے اور اب تبدیلی اعتقاد کا کوئی نتیجہ اور ثمرہ نہیں ملتا یعنی اس وقت کا نہ اقرار اور اعتراف معتبر اور نہ انکار مستند۔ { فَلَمَّا جَائَتْہُمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَہُمْ مِنَ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِہِمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِئُوْ۔ فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْا اٰمَنَّا بِاللّٰ
ur_Arab
ہِ وَحْدَہٗ وَکَفَرْنَا بِمَا کُنَّا بِہٖ مُشْرِکِیْنَ۔ فَلَمْ یَکُ یَنْفَعُہُمْ اِیْمَانُہُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِہٖ وَخَسِرَ ہُنَالِکَ الْکٰفِرُوْنَ } ” پس جب آئے ان کے پاس پیغمبر واضح دلائل لے کر تو اس چیز سے خوش ہوئے جو ان کے پاس علم سے تھی اور گھیر لیا ان کو اس چیز نے جس کو وہ مذاق بناتے تھے پس جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھا تو انہوں نے کہا ہم خدائے واحد پر ایمان لے آئے اور جن چیزوں کو ہم اس کا شرک بناتے تھے ان سے منکر ہوئے پس نہیں نافع ہوا ان کا (یہ) ایمان جب انہوں نے ہمارے عذاب کا مشاہدہ کرلیا ‘ یہ اللہ کی سنت ہے جو اس کے بندوں میں ہمیشہ جاری رہی اور اس موقع پر کافروں نے زیاں پایا۔ “ { وَ لَیْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ حَتّٰٓی اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْئٰنَ وَ لَا الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَ ھُمْ کُفَّارٌ اُولٰٓئِکَ اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا } ” لیکن ان لوگوں کی توبہ توبہ نہیں ہے جو (ساری عمر تو) برائیاں کرتے رہے لیکن جب ان میں سے
ur_Arab
کسی کے آگے موت آکھڑی ہوئی تو کہنے لگا اب میں توبہ کرتا ہوں (ظاہر ہے کہ ایسی توبہ سچی توبہ نہیں ہوئی) اسی طرح ان لوگوں کی توبہ بھی توبہ نہیں جو دنیا سے کفر کی حالت میں جاتے ہیں ان تمام لوگوں کے لیے ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ “ تو ایسی صورت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا معنی رکھتا ہے انسان جب اس حالت پر پہنچ جاتا ہے تو اس کے سامنے سے غیب کے پردے ہٹ جاتے ہیں اور برزخ ملائکۃ اللہ ‘ عذاب یا راحت ‘ جنت و جہنم ‘ غرض دین حق کی تعلیم کردہ غیب کی ساری حقیقتیں اس پر منکشف ہوجاتی ہیں اور اس میں یہود و نصاریٰ کی ہی خصوصیت کیا ہے یہ حالت تو ہر ایک ابن آدم پر گزرنے والی ہے نیز جب اس قسم کا ایمان قبول ہی نہیں ہے تو اس کا ذکر اسی اسلوب کے ساتھ ہونا چاہیے تھا جو غرق فرعون کے وقت فرعون کے ایمانی اعتراف و اقرار کے لیے اختیار کیا گیا اور جس میں اس وقت کی ایمانی پکار کی بےوقعتی ظاہر کی گئی ہے نہ کہ ایسے اسلوب بیان کے ساتھ ‘ گویا مستقبل میں ہونے والے کسی ایسے عظیم الشان واقعہ کی خبر دی جا رہی ہے جو مخاطبین (یہود و نصاریٰ ) کے عقائد و عزائم کے خلاف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے متعلق قرآن کی تصدیق اور اس کے اٹل فیصلہ کی زندہ شہادت بن کر پیش آنے والا ہے ورنہ تو ایک عیسائی اور یہودی پنجہ موت میں آجانے کے وقت جان عزیز سپرد کردینے سے پہلے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لایا تب کیا اور نہ لایا تب کیا اس کی یہ تصدیق کائنات انسانی کے علم و ادراک سے باہر صرف اس کے اور خدا کے درمیان میں تعلق رکھتی ہے اور ظاہر ہے کہ ایسی بات کا ایسے موقع پر تذکرہ کرنا قطعاً بےمحل ہے جہاں ایک قوم کو اس کے ایک خاص عقیدہ پر ملزم و مجرم بنانے کے لیے فیصلہ حق کی تائید کے لیے ماضی اور مستقبل میں کائنات ارضی پر پیش آنے والے واقعات کو پیش کیا جا رہا ہے جیسا کہ آیت کے سیاق وسباق سے واضح ہو رہا ہے علاوہ ازیں ان احتمالات کی یہاں اس لیے بھی گنجائش نہیں ہے کہ غرغرہ کے وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
ur_Arab
پر اس قسم کا ایمان تو ہر اس اہل کتاب سے متعلق ہے جو اس آیت کے نزول سے کچھ دن قبل یا صدیوں قبل گزر چکے اور مرکھپ چکے ہیں لہٰذا اگر آیت میں یہ مضمون بیان کرنا مقصود تھا تو اس کے لیے مؤکد مستقبل کی یہ تعبیر ” لِیُؤْمِنَنَّ “ فصاحت و بلاغت کلام کے بالکل خلاف ہے اس کے لیے تو ایسی تعبیر کی ضرورت تھی جو ماضی ‘ حال اور استقبال تینوں زمانوں پر حاوی ہوتی تاکہ قرآن کا مفہوم اپنے توسع کے لحاظ سے پوری طرح ادا ہوتا۔ نیز دوسرے معنی تو اس لیے بھی قطعاً غلط اور بےمحل ہیں کہ اس آیت سے قبل اور بعد کی آیات میں یعنی سیاق وسباق میں خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر ہی نہیں ہے کیونکہ شروع آیات میں صرف حضرت مسیح (علیہ السلام) کا ذکر ہو رہا ہے اور اس آیت کے آخر میں یہ ارشاد ہوا ہے : { وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا } اور واضح ہے یہ بات کہ اس جگہ شاہد سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مراد ہیں اور عَلَیْھِمْ کی ضمیر سے ان کی امت تو پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر کئے بغیر درمیان میں کی کسی ضمیر کا مرجع ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرار دینا نہ صرف یہ کہ فصاحت و بلاغت کے منافی ہے بلکہ قاعدہ عربیت کے قطعاً خلاف اور انتشار ضمائر کا موجب ہے۔ غرض بےغل و غش صحیح معنی وہی ہیں جو جمہور نے اختیار کئے ہیں اور یہ دونوں خود ساختہ احتمالات آیت کی تفسیر تو کیا صحیح احتمال کہلانے کے بھی مستحق نہیں ہیں۔ 1 ؎( اس مقام کے علاوہ سورة مائدہ کی آیت مَا الْمَسِیْحُ بْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اور سورة آل عمران کی ابتداء سے بیاسی آیات تک جو وفد نجران سے تعلق رکھتی ہیں یہ سب مقامات دلالۃ النص یا اشارۃ النص کی شکل میں
ur_Arab
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی حیات کے لیے دلیل وبرہان ہیں اور اگرچہ ان کی تفصیلات اور وجوہ استشہاد میرے پاس مدون و مرتب ہیں تاہم کتاب کی طوالت کے خوف سے اس جگہ ان کو نظر انداز کردیا گیا ہے ‘ بوقت فرصت ان شاء اللہ مستقل مضمون کی صورت میں ہدیہ ناظرین ہوگا ‘ اور یا پھر حجۃ الاسلام علامہ محمد انور شاہ کشمیری نور اللہ مرقدہ کی کتاب ” عقیدۃ الاسلام فی حیٰوۃ عیسیٰ (علیہ السلام) “ اس مقصد کے لیے قابل مراجعت ہے۔ ) حیات و نزول عیسیٰ (علیہ السلام) اور احادیث صحیحہ قرآن عزیز نے جس معجزانہ اختصار کے ساتھ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے رفع سماوی ‘ حیات امروز اور علامت قیامت بن کر نزول من السماء کے متعلق تصریحات کی ہیں صحیح ذخیرہ احادیث نبوی میں ان آیات ہی کی تفصیلات بیان کرکے ان حقائق کو روشن کیا گیا ہے چنانچہ امام حدیث بخاری اور مسلم نے صحیحین میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے یہ روایت متعدد طریق ہائے سند سے نقل کی ہے : ((قَالَ رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَیُوْشِکَنَّ اَنْ یَّنْزِلَ فِیْکُمْ اِبْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلًا فَیُکَسِّرَ الصَّلِیْبَ وَیَقْتُلَ الْخِنْزِیْرَ وَیَضَعَ الْجِزْیَۃَ وَیُفِیْضَ الْمَالَ حَتّٰی لَا یَقْبَلُہٗ اَحَدٌ وَحَتّٰی تَکُوْنَ السَّجْدَۃُ الْوَاحِدَۃُ خَیْرًا لَہٗ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا ثُمَّ قَالَ اَبُو
ur_Arab
ْھُرَیْرَۃَ اِقْرَئُوْا اِنْ شِئْتُمْ ) ) { وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتَابِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا } ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ضرور وہ وقت آنے والا ہے کہ تم میں عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) حاکم و عادل بن کر اتریں گے وہ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے (یعنی موجودہ عیسائیت کو مٹائیں گے) اور جزیہ اٹھا دیں گے (یعنی نشان الٰہی کے مشاہدہ کے بعد اسلام کے سوا کچھ بھی قبول نہیں ہوگا اور اسلامی احکام میں بارشاد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جزیہ کا حکم اسی وقت تک کے لیے ہے) اور مال کی اس درجہ کثرت ہوگی کہ کوئی اس کو قبول کرنے والا نہیں ملے گا اور خدا کے سامنے ایک سجدہ دنیا ومافیہا سے زیادہ قیمت رکھے گا (یعنی مالی کثرت کی وجہ سے خیرات و صدقات کے مقابلہ میں عبادت نافلہ کی اہمیت بڑھ جائے گی) پھر ابوہریرہ ؓ نے فرمایا اگر تم (قرآن سے اس کا استشہاد) چاہو تو یہ آیت پڑھو { وَ اِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا } ” اور کوئی اہل کتاب میں سے نہ ہوگا مگر (عیسیٰ کی) موت سے پہلے اس پر (عیسیٰ پر) ضرور ایمان لے آئے گا اور وہ (عیسیٰ ) قیامت کے
ur_Arab
دن ان پر گواہ ہوگا۔ “ 1 بخاری اور مسلم میں بسند نافع مولیٰ ابوقتادہ انصاری ؓ، حضرت ابوہریرہ ؓ سے یہ روایت بھی منقول ہے : ( (قَالَ رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَیْفَ اَنْتُمْ اَذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَاِمَامُکُمْ مِنْکُمْ )) ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تم میں ابن مریم اتریں گے اور اس حالت میں اتریں گے کہ تم ہی میں سے ایک شخص تمہاری امامت کر رہا ہوگا۔ “ 2 ان دونوں روایات کے علاوہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے متعدد طریق ہائے سند سے اور روایات بھی صحیحین ‘ مسند احمد اور سنن 1 ؎ میں درج ہیں جو یہی مفہوم و معنی ادا کرتی ہیں ‘ ان میں سے ایک زیادہ مفصل ہے اور مسئلہ زیر بحث کے بعض دوسرے پہلوؤں کو بھی نمایاں کرتی ہے مسند احمد میں ہے : ( (اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ ” اَلْاَنْبِیَائُ اِخْوَۃٌ لِعَلَّاتٍ اُمَّھَاتُھُمْ شَتّٰی وَدِیْنُہُمْ وَاحِدٌ وَاِنِّی اَوْلَی النَّاسِ بِعِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ لِاَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ نَبِیٌّ بَیْنِی وَبَیْنَہٗ وَاِنَّہٗ نَازِلٌ فَاِذْ رَأَیْتُمُوْہٗ فَاعْرِفُوْہٗ رَجُلٌ مَرْبُوْعٌ اِلَی الْحُمْرَۃِ وَ
ur_Arab
الْبَیَاضِ عَلَیْہِ ثَوْبَانِ مُمَصَّرَانِ کَأَنَّ رَأسَہٗ یَقْطُرُ اِنْ لَمْ یُصِبْہٗ بَلَلٌ فَیَدُقُّ الصَّلِیْبَ وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَ وَیَضَعُ الْجِزْیَۃَ وَیَدْعُوْا النَّاسَ اِلَی الْاِسْلَامِ وَیُھْلِکُ اللّٰہُ فِیْ زَمَانِہِ الْمَسِیْحَ الدَّجَّالَ ثُمَّ تَقَعُ الْاَمَانَۃُ عَلَی الْاَرْضِ حَتَّی تَرْتَعَ الْاُسُوْدُ مَعَ الْاِبِلِ وَالنِّمَارُ مَعَ الْبَقَرِ وَالذِّئَابُ مَعَ الْغَنَمِ وَیَلْعَبُ الصِّبْیَانُ بِالْحَیَّاتِ لَا تَضُرُّھُمْ فَیَمْکُثُ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ثُمَّ یُتَوَفّٰی وَیُصَلِّی عَلَیْہِ الْمُسْلِمُوْنَ )) ” نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تمام انبیاء اصول دین میں علاتی بھائیوں کی طرح ہیں دین سب کا ایک اور فروع دین مختلف اور میں دوسرے انبیاء کے مقابلہ میں عیسیٰ بن مریم (رض) سے زیادہ قریب ہوں اس لیے کہ ان کے اور میرے درمیان میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا اور بلاشبہ وہ کائنات ارض
ur_Arab
ی پر اتریں گے پس جب تم ان کو دیکھو تو اس حلیہ سے پہچان لینا : میانہ قد ‘ سرخ و سپید رنگ ہوگا ‘ ان کے جسم پر دو سرخی مائل رنگ کی چادریں ہوں گی ایسا معلوم ہوگا گویا فی الحال غسل کرکے آ رہے ہیں اور سر سے پانی کے قطرے موتی کی طرح ٹپک پڑنے والے ہیں۔ وہ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے (موجودہ عیسائیت کا خاتمہ کردیں گے) اور جزیہ اٹھا دیں گے اور لوگوں کو ” اسلام “ کی دعوت دیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے زمانہ میں تمام ادیان و ملل کو مٹا دے گا اور صرف ایک ہی دین ” دین اسلام “ باقی رہ جائے گا اور اللہ تعالیٰ ان ہی کے زمانہ میں مسیح دجال کو ہلاک کرے گا پھر کائنات میں ” امانت “ (امر خیر) جگہ کرلے گی حتیٰ کہ شیر اونٹوں کے ساتھ ‘ چیتے گائے بیلوں کے ساتھ ‘ بھیڑیے بکریوں کے ساتھ چرتے نظر آئیں گے اور بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے اور ان کو کوئی گزند نہیں پہنچے گا ‘ پس عیسیٰ (علیہ السلام) چالیس سال اس زمین پر زندہ رہیں گے پھر وفات پاجائیں گے اور مسلمان ان کے جنازہ کی نماز ادا کریں گے۔ “ 3 اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے ایک طویل حدیث روایت کی گئی ہے اس میں خروج دجال کا ذکر کرتے ہوئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد مبارک مذکور ہے : ( (فَاِذَا جَائُوْا الشَّامَ خَرَجَ فَبَیْنَاھُمْ یُعِدُّوْنَ لِلْقِتَالِ یُسَرُّوْنَ الصَّفُوْفَ اِذْ اُقِیْمَتِ الصَّلٰوۃُ فَیَنْزِلُ عِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ۔۔ الخ)) ” پس جب مسلمان ملک شام پہنچیں گے تو دجال کا خروج ہوگا ابھی مسلمان اس کے مقابلہ میں جنگ کی تیاریاں کر رہے ہوں گے ‘ صفیں درست کرتے ہوں گے کہ نماز کے لیے اقامت ہونے لگے گی۔ اس درمیان میں عیسیٰ بن مریم کا نزول ہوگا اور وہ مسلمانوں کی امامت کا فرض انجام دیں گے۔
ur_Arab
“ 4 اور صحیح مسلم میں حضرت نواس بن سمعان (رض) سے ایک طویل روایت منقول ہے جس میں یہ مذکور ہے : ( (اِذَا بَعَثَ اللّٰہُ الْمَسِیْحَ بْنَ مَرْیَمَ (علیہ السلام) فَیَنْزَلُ عِنْدَ الْمَنَارَۃِ الْبَیْضَائِ شَرْقِیْ دِمَشْقَ بَیْنَ مَھْرُوْدَتَیْنِ وَاضِعَا کَفَّیْہِ عَلٰی اَجْنِحَۃِ مَلَکَیْنِ اِذَا طَأطَأ رَاْسَہٗ قَطَرَ وَاِذَا رَفَعَہٗ تَحَدَّرَ مِنْہٗ جُمَانٌ کَا لْلُوْلُؤ۔۔ الخ)) ” (ابھی دجال ایک مسلمان پر اپنے شیطانی کرشموں کی آزمائش کر ہی رہا ہوگا کہ) اللہ تعالیٰ مسیح بن مریم (علیہما السلام) کو بھیج دے گا وہ جب کائنات ارضی پر اتریں گے تو جامع مسجد دمشق کے مشرقی جانب کے سپید منارہ پر اتریں گے اور ان کے بدن پر (سرخی مائل) گہری زرد رنگ کی دو چادریں ہوں گی (یعنی ایک بدن کے اوپر کے حصہ پر اور دوسری زیریں حصہ بدن پر لپٹی ہوں گی) اور دو فرشتوں کے بازؤوں پر سہارا لیے ہوں گے جب سرجھکائیں گے تو سر سے پانی ٹپک پڑنے لگے گا اور جب سر اٹھائیں گے تو پانی کے قطرے موتیوں کی طرح ٹپکیں گے (یعنی غسل کئے آ رہے ہوں گے) “ 5 اور مختلف طریق ہائے سند سے امام احمد نے مسند میں اور ترمذی (رح) نے سنن میں حضرت مجمع بن حارثہ ؓ سے بسند صحیح یہ روایت کیا ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے : ( (یَقْتُلُ اِبْنُ مَرْیَ
ur_Arab
مَ الدَّجَّالَ بِبَابِ لُدٍّ )) 1 ؎(شہر دمشق کی شہر پناہ کا ایک دروازہ ہے۔) ” ابن مریم ‘ دجال کو باب لد پر قتل کریں گے۔ “ امام ترمذی اس روایت کو نقل کرکے فرماتے ہیں ھَذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ اور اس کے بعد ان حضرات صحابہ ؓ و رضوا عنہ کی فہرست شمار کراتے ہیں جن سے نزول عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) اور ان کے ہاتھوں قتل دجال سے متعلق روایات کتب حدیث میں منقول ہیں۔ فرماتے ہیں : ” اور اس باب میں حضرت عمران بن حصین ‘ نافع بن عیینہ ‘ ابوبرزہ اسلمی ‘ حذیفہ بن اسید ‘ ابوہریرہ ‘ کیسان ‘ عثمان بن ابی العاص ‘ جابر بن عبداللہ ‘ ابو امامہ باہلی ‘ ابن مسعود ‘ عبداللہ بن عمرو بن العاص ‘ سمرہ بن جندب ‘ نواس بن سمعان ‘ عمرو بن عوف ‘ حذیفہ بن الیمان سے بھی روایات منقول ہیں۔ “ 6 اور امام احمد نے مسند میں ‘ امام مسلم ; نے صحیح میں اور اصحاب سنن نے سنن میں بروایت حضرت حذیفہ بن الاسیدی ‘ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت نقل کی ہے : ( (قَالَ اَشْرَفَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ۔ مِنْ غُرْفَۃٍ وَنَحْنُ نَتَذَکَّرُ السَّاعَۃَ فَقَالَ : لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی تَرَوْا عَشْرَ اٰیَاتٍ : طُلُوْعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِھَا وَالدُّخَانُ وَالدَّابَۃُ وَخُرُوْجُ یَاجُوْجَ وَمَاجُوْجَ وَنُزُوْلُ عِیْسٰی بْنِ مَرْیَ
ur_Arab
مَ وَالدَّجَّالُ وَثَلٰثَۃُ خُسُوْفٍ خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ بِجَزِیْرَۃِ الْعَرَبِ وَنَارٌ تَخْرُجُ مِنْ قَعْرِ عَدْنِ تَسُوْقُ وَتَحْشُرُ النَّاسَ تَبِیْتُ مَعَھُمْ حَیْثُ بَاتُوْا وَتَقِیْلُ مَعَھُمْ حَیْثُ قَالُوْا))۔اس حدیث میں جن علامات کا ذکر ہے وہ سب تشریح طلب ہیں مگر یہاں ان کی تشریحات بےمحل ہیں اس لیے نظر انداز کردی گئیں ‘ عام تشریحات کتب تفسیر و حدیث میں شاہ رفیع الدین دہلوی نور اللہ مرقدہ کے رسالہ ” علاماتِ قیامت “ میں قابل مطالعہ ہیں۔ ” حضرت حذیفہ فرماتے ہیں ہم (صحابہ ؓ و رضوا عنہ ) ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے قیامت کے متعلق بات چیت کر رہے تھے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بالاخانہ سے جھانکا اور ارشاد فرمایا ” قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم دس نشان نہ دیکھ لو گے آفتاب کا مغرب سے طلوع ‘ دخان (دھواں) ‘ دابۃ الارض ‘ خروج یاجوج و ماجوج ‘ عیسیٰ بن مریم کا نزول ‘ دجال کا خروج ‘ تین مقامات میں خسوف کا پیش آنا (زمین میں دھنس جانا) مشرق میں ‘ مغرب میں اور جزیرۃ العرب میں آگ کا قعر عدن سے نکلنا جو لوگوں کو سمیٹ لے جائے گی اور جب رات کو لوگ آرام کریں گے تو وہ بھی ٹھہر جائے گی اور الاسلمی ‘ عبد الرحمن بن آدم ‘ ابو سلمہ ‘ ابو عمرہ ‘ عطاء بن بشار ‘ ابو سہیل ‘ موثر بن غفارہ ‘ یحییٰ بن ابی عمرو ‘ جبیر بن نضیر ‘ عروہ بن مسعود ثقفی ‘ عبداللہ بن زید انصاری ‘
ur_Arab
ابوزرعہ ‘ یعقوب بن عامر ‘ ابو نضرہ ‘ ابو الطفیل (رحمہم اللہ)۔جب دوپہر کو قیلولہ کریں گے تب بھی وہ ٹھہری رہے گی۔ “ ' اور محدث ابن ابی حاتم ؒ نے اور جلیل القدر محدث و مفسر ابن جریر طبری ؒ نے بروایت حسن بصری ؒ بسند صحیح حیات و نزول عیسیٰ بن مریم سے متعلق ایک روایت نقل کی ہے اس میں ہے : ( (قَالَ رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِلْیَھُوْدِ اِنَّ عِیْسٰی لَمْ یَمُتْ وَاِنَّہٗ رَاجِعٌ اِلَیْکُمْ قَبْلَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ )) ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود سے فرمایا : ” عیسیٰ (علیہ السلام) مرے نہیں اور بلاشبہ وہ قیامت سے پہلے تمہاری جانب لوٹ کر آئیں گے۔ “ ( اسی طرح ابن ابی حاتم اور ابن جریر ; نے سورة نساء کی آیات متعلقہ وفد نجران کی تفسیر کرتے ہوئے اصول حدیث کے نقطہ نظر سے بسند حسن ایک طویل روایت ربیع بن انس ؓ سے نقل کی ہے اس میں بھی بصراحت یہ مذکور ہے : ( (فَقَالَ لَھُمْ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَلَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَبَّنَا حَیٌّ لَا یَمُوْتُ وَاَنَّ عِیْسٰی یَاتِیْ عَلَیْہِ الْفَنَائُ )) ” نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وفد سے فرمایا : کیا تم نہیں جانتے کہ بلاشبہ ہمارا پروردگار زندہ ہے جس کے لیے موت نہیں ہے اور بلاشبہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو فنا (موت) سے دو چار ہونا ہوگا۔ “ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جگہ لفظ ” یاتی “ فرمایا ہے جو مستقبل کے لیے بولا جاتا ہے لفظ ” اتی
ur_Arab
“ نہیں فرمایا جو ماضی کے لیے مخصوص ہے۔ ) اور امام بیہقی ؒ نے کتاب الاسماء و الصفات میں اور محدث علی متقی گجراتی ؒ نے کنز العمال میں باسناد حسن و صحیح اس سلسلہ میں جو روایات نقل فرمائی ہیں ان میں نزول عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر کے ساتھ ” من السماء “ کا لفظ بصراحت موجود ہے۔ یہ اور اسی قسم کا کثیر ذخیرہ حدیث ہے جو حیات و نزول عیسیٰ بن مریم پیغمبر بنی اسرائیل سے متعلق کتب حدیث و تفسیر میں منقول ہے اور جو قوت سند کے لحاظ سے صحیح اور حسن سے کم رتبہ نہیں رکھتا اور باعتبار شہرت و تواتر روایات جن کا یہ حال ہے کہ حسب تصریح امام ترمذی ‘ حافظ حدیث عماد الدین ابن کثیر ‘ حافظ حدیث ابن حجر عسقلانی اور دیگر ائمہ حدیث سولہ جلیل القدر صحابہ ؓ و رضوا عنہ نے ان کو روایت کیا ہے جن میں سے بعض صحابہ ؓ و رضوا عنہ کا یہ دعویٰ ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ تصریحات سیکڑوں صحابہ ؓ و رضوا عنہ کے مجمع میں خطبہ دے کر فرمائیں اور یہ صحابہ کرام ؓ بغیر کسی انکار و اجنبیت کے ان روایات کو خلفائے راشدین کے دور خلافت میں علیٰ رؤس الاشہاد سناتے تھے چنانچہ ان جلیل القدر صحابہ ؓ و رضوا عنہ سے جن ہزارہا شاگردوں نے سنا ان میں سے یہ عظیم المرتبت ہستیاں قابل ذکر ہیں جن میں ہر فرد روایت حدیث میں ضبط و حفظ ‘ ثقاہت وعلمی تجربے کے پیش نظر امامت و قیادت کا درجہ رکھتا ہے مثلاً سعید بن مسیب ‘ نافع مولیٰ ابوقتادہ ‘ حنظلہ بن علی پھر ان علمائے کبار اور محدثین اعلام سے جن بے شمار تلامذہ نے سنا ان میں سے راویان حدیث کے طبقہ میں جن کو حدیث اور علوم قرآن کا رتبہ بلند حاصل ہے اور جو اپنے اپنے وقت کے امام الحدیث اور امیر المومنین فی الحدیث تسلیم کئے گئے ہیں بعض کے اسمائے گرامی یہ ہیں : ابن شہاب زہری ‘ سفیان بن عیینہ ‘ لیث ‘ ابن ابی ذئب ‘ اوزاعی ‘ قتادہ ‘ عبدالرحمن بن ابی عمرہ ‘ سہیل ‘ جبلہ بن سہیم ‘ علی بن زید ‘ ابو رافع ‘ عبد الرحمن بن جبیر ‘ نعمان
ur_Arab
بن سالم ‘ معمر ‘ عبداللہ بن عبید اللہ (رحمہم اللہ)۔ غرض ان روایات و احادیث صحیحہ کا صحابہ ؓ و رضوا عنہ ‘ تابعین ‘ تبع تابعین یعنی خیرالقرون کے طبقات میں اس درجہ شیوع ہوچکا تھا اور وہ بغیر کسی انکار کے اس درجہ لائق قبول ہوچکی تھیں کہ ائمہ حدیث کے نزدیک حضرت مسیح (علیہ السلام) کی حیات و نزول سے متعلق ان احادیث کو مفہوم و معنی کے لحاظ سے درجہ ” تواتر “ حاصل تھا اور اسی لیے وہ بےجھجک اس مسئلہ کو احادیث متواترہ سے ثابت اور مسلم کہتے تھے اور حقیقت بھی یہ ہے کہ روایت حدیث کے تمام طبقات و درجات میں ان روایات کو ” تلقی بالقبول “ کا یہ درجہ حاصل رہا ہے کہ ہر دور میں اس کے روات میں ” ائمہ حدیث “ اور روایت حدیث کے ” مدار “ نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان مرفوع و موقوف بر صحابہ ؓ عنم و رضوا عنہ احادیث اور روایات کے ناقلین میں امام احمد ‘ امام بخاری ‘ امام مسلم ؒ‘ ابوداؤد ؒ‘ نسائی ؒ‘ ترمذی ؒ‘ ابن ماجہؒ جیسے اصحاب صحیح و سنن ‘ ائمہ حدیث کے اسمائے گرامی شامل ہیں اور وہ باتفاق ان روایات کی صحت و حسن کے قائل ہیں ‘ چنانچہ یہ اور اسی قسم کی احادیث صحیحہ کا ذکر کرتے ہوئے مشہور محدث و مفسر ابن کثیر ؒ اپنی تفسیر میں اول یہ عنوان قائم کرتے ہیں : ( (ذِکْرُ الْاَحَادِیْثِ الْوَارِدَۃِ فِیْ نُزُوْلِ عِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ عَلَیْھُمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ اِلَی الْاَرْضِ مِنَ السَّمَائِ فِیْ آخِرِ الزَّمَانِ قَبْلَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ )) ” ان احادیث کا ذکر جو حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کے آسمان سے زمین پر اترنے کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ “ اور اس کے بعد سلسلہ کی احادیث کو نقل کرنے کے بعد آخر میں یہ تحریر فرماتے ہیں : (
ur_Arab
(فَھٰذِہِ اَحَادِیْثُ مُتَوَاتِرَۃٌ عَنْ رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ رِوَایَۃِ اَبِی ھُرَیْرَۃَ وَابْنِ مَسْعُوْدٍ وَعُثْمَانَ بْنِ اَبِی الْعَاصِ وَاَبِی اُمَامَۃَ وَالنَّوَاسِ بْنِ سَمْعَانَ وَعَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَمُجَمَّعِ بْنِ حَارِثَۃَ وَاَبِی شُرَیْحَۃَ وَحُذَیْفَۃَ بْنِ اُسَیْدً وَفِیْھَا دَلَالَۃٌ عَلٰی صِفَۃِ نُزُوْلِہِ وَ مَکَانِہِ۔۔ الخ)) ” پس یہ ہیں وہ احادیث جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تواتر کے درجہ تک منقول ہوئی ہیں اور یہ نقل روایت (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ) ابوہریرہ ‘ ابن مسعود ‘ عثمان بن ابی العاص ‘ ابوامامہ ‘ نواس بن سمعان ‘ عبداللہ بن عمرو بن العاص ‘ مجمع بن حارثہ ‘ ابی شریحہ ‘ حذیفہ بن اسید سے ثابت ہے اور ان روایات میں عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کے طریقہ نزول اور مکان نزول سے متعلق بھی رہنمائی موجود ہے۔ “ اور حافظ حدیث ابن حجر عسقلانی (نور اللہ مرقدہ) علامہ ابو الحسن آبری ؒ سے نزول عیسیٰ (علیہ السلام) سے متعلق احادیث کے تواتر کو فتح الباری میں ان الفاظ کے ساتھ نقل کرتے ہیں : ( (قَالَ اَبُوْ الْحَسَنِ الْخَسْع
ur_Arab
ِیُّ الْاَبْرِیُّ بِاَنَّ الْمَھْدِیِّ مِنْ ھٰذِہٖ الْاُمَّۃِ وَاَنَّ عِیْسٰی یُصَلِّیْ خَلْفَہٗ۔۔ الخ)) ” ابو الحسن خسعی آبری سے منقول ہے کہ احادیث رسول اس بارہ میں تواتر کو پہنچ چکی ہیں کہ مہدی اسی امت میں ہوں گے اور عیسیٰ (علیہ السلام) ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ “ اور تلخیص الحبیر کتاب الطلاق کے ضمن میں یہ تحریر فرماتے ہیں ( (وَاَمَّا رَفْعُ عِیْسٰی فَاتَّفَقَ اَصْحَابُ الْاَخْبَارِ وَالتَّفْسِیْرِ عَلٰی اَنَّہٗ بِبَدِنِہٖ حَیًّا الخ)) ” لیکن رفع عیسیٰ (علیہ السلام) کا معاملہ تو تمام علمائے حدیث و تفسیر کا اس پر اجماع ہے کہ وہ اپنے جسد عنصری کے ساتھ ہنوز زندہ ہیں (اور وہی قرب قیامت نازل ہوں گے) “ اور محدث عصر محقق وقت علامہ سید محمد انورشاہ ” عقیدۃ الاسلام “ میں اس ” تواتر “ کی تائید میں یہ تحریر فرماتے ہیں : ( (وَلِلْمُحَدِّثِ الْعَلَّامَۃِ الشَّوْکَانِیِّ رِسَالَۃٌ سَمَّاھَا اَلتَّوْضِیْحُ فِی تَوَاتُرِ مَا جَائَ فِی الْمُنْتَظَرِ وَالدَّجَّالِ وَالْمَسِیْحِ ذَکَرَ فِیْھَا تِسْعَۃً وَعِشْرِیْنَ حَدِیْثًا فِی نُزُوْلِہٖ علیہ السلام مَا بَیْنَ صَحِیْحٍ وَح
ur_Arab
َسَنٍ وَصَالِحٍ ھَذَا وَاَزْیَدُ مِنْہٗ مَرْفُوْعٌ وَاَمَّا الْآثَارُ فَتَفُوْتُ الْاِحْصَائُ الخ)) ” اور محدث علامہ شوکانی نے ایک رسالہ تصنیف کیا ہے جس کا نام یہ رکھا ہے ” التَّوْضِیْحُ فِیْ تَوَاتُرِ مَاجَائَ فِی الْمُنْتَظَرِ وَالدَّجَّالِ وَ الْمَسِیْحِ “ اس رسالہ میں انہوں نے انتیس احادیث حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول سے متعلق نقل کی ہیں جو اصول حدیث کے لحاظ سے صحیح ‘ حسن ؒ‘ صالح تینوں درجات کو شامل ہیں اور مرفوع احادیث اس تعداد سے بھی زیادہ موجود ہیں اور آثار صحابہ ؓ و رضوا عنہ تو بے شمار ہیں۔ “ اور یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے رفع سماوی اور حیات و نزول من السماء پر امت محمدیہ کا اجماع منعقد ہوچکا ہے چنانچہ علم عقائد و کلام کی مشہور و مستند کتاب عقیدہ سفارینی میں امت کے اس اجماع کی تصریح موجود ہے : ( (وَمِنْھَا اَیْ مِنْ عَلَامَاتِ السَّاعَۃِ الْعُظْمٰی اَلْعَلَامَۃُ الثَّالِثَۃُ اَنْ یَنْزِلَ مِنَ السَّمَائِ سَیِّدُ (اَلْمَسِیْحُ ) عِیْسٰی بْنُ مَرْیَمَ (علیہ السلام) وَنُزُوْلُہٗ ثَابِتٌ بِالْکِتَابِ وَالسُّنَۃِ وَاِجْمَاعِ الْاُمَّۃِ وَاَمَّا الْاِجْمَاعُ فَقَدْ ا
ur_Arab
َجْمَعْتِ الْاُمَّۃُ عَلٰی نُزُوْلِہٖ وَلَمْ یُخَالِفْ فِیْہٖ اَحَدٌ مِّنْ اَھْلِ الشَّرِیْعَۃِ وَاِنَّمَا اَنْکَرَ ذٰلِکَ الْفَلَاسِفَۃُ وَالْمَلَاحِدَۃُ مِمَّا لَا یُعْتَدُّ بِخِلَافِہِ )) ” اور علامات قیامت میں سے تیسری علامت یہ ہے کہ حضرت مسیح (عیسیٰ بن مریم ؓ ) آسمان سے اتریں گے اور ان کا آسمان سے اترنا کتاب (قرآن) ‘ سنت (حدیث) اور اجماع امت سے قطعاً ثابت ہے (قرآن و حدیث سے نزول ثابت کرنے کے بعد فرماتے ہیں) جہاں تک اجماع امت کا تعلق ہے تو اس میں ذرا شبہ نہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے آسمان سے نازل ہونے پر امت کا اجماع ہے اور اس بارے میں پیروان شریعت اسلامی میں سے کسی ایک کا بھی خلاف موجود نہیں البتہ فلسفیوں اور ملحدوں نے نزول عیسیٰ (علیہ السلام) کا انکار کیا ہے اور اسلام میں ان کا انکار قطعاً بےوقعت ہے۔ “ حیات ونزول مسیح (علیہ السلام) کی حکمت گزشتہ سطور میں حیات و نزول مسیح (علیہ السلام) کو دلائل وبراہین کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے جو ایک منصف اور طالب حق کو علم یقین عطا کرتے ہیں اب مزید طمانیت قلب کے لیے ان چند حکمتوں کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے جن کو علمائے حق نے اس سلسلہ میں بیان فرمایا ہے لیکن اس کے مطالعہ سے قبل یہ حقیقت بہرحال پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی حکمتوں اور اس کی مشیت کی مصلحتوں کا احاطہ عقل انسانی کے لیے ناممکن ہے اور مخلوق خالق کائنات کے اسرار و حکم پر عبور بھی کیسے کرسکتی ہے ؟ تاہم علمائے امت ‘ فراست مومن اور علم حق کی راہ سے دین اور احکام دین کے اسرار و مصالح پر قلم فرسائی کرتے اور اپنی محدود دسترس کے مطابق اس موضوع پر علمی حقائق کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ اسلامی دور کی علمی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ دور اول میں علم الاسرار کی امام
ur_Arab
ت کا شرف عمر بن خطاب ‘ علی بن ابی طالب اور صدیقہ عائشہ ؓ کو حاصل تھا اور اس کے بعد اگرچہ ہر ایک صدی میں دو چار علمائے ربانی اس کے ماہر و محقق رہے ہیں لیکن خصوصیت کے ساتھ خلیفہ اموی عمر بن عبد العزیز ؒ‘ امام ابوحنیفہؒ ‘ علامہ عز الدین بن عبد السلام مصری ‘ حافظ ابن تیمیہ ‘ امام غزالی ‘ روحی ‘ سید مرتضیٰ زبیدی اور شاہ ولی اللہ دہلوی کو اس علم سے خاص مناسبت تھی اور اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں ان کو فطری ملکہ عطا فرمایا تھا۔ اسلامی دور کی علمی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ دور اول میں علم الاسرار کی امامت کا شرف عمر بن خطاب ‘ علی بن ابی طالب اور صدیقہ عائشہ ؓ کو حاصل تھا اور اس کے بعد اگرچہ ہر ایک صدی میں دو چار علمائے ربانی اس کے ماہر و محقق رہے ہیں لیکن خصوصیت کے ساتھ خلیفہ اموی عمر بن عبد العزیز ‘ امام ابوحنیفہ ‘ علامہ عز الدین بن عبد السلام مصری ؒ‘ حافظ ابن تیمیہؒ ‘ امام غزالیؒ ‘ روحی ‘ سید مرتضیٰ زبیدی اور شاہ ولی اللہ دہلوی ؒکو اس علم سے خاص مناسبت تھی اور اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں ان کو فطری ملکہ عطا فرمایا تھا۔ بہرحال حکمت کی حیثیت لطائف و نکات کی ہوتی ہے اور اس کو دلیل و حجت کا مرتبہ نہیں دیا جاسکتا اس لیے زیر بحث مسئلہ میں بھی ” حکمت و مصلحت “ کا ذکر اسی نقطہ نظر سے سمجھنا چاہیے۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ وَلِکُلِّ شَیْئٍ عِنْدَہٗ فَصْلُ الْخِطَابِ۔ یہود بنی اسرائیل اپنی مذہبی کتابوں کی پیشین گوئیوں اور بشارتوں میں یہ پڑھ چکے تھے کہ ان کو دو شخصیتوں ” مسیح ہدایت “ اور ” مسیح ضلالت “ سے سابقہ پڑے گا اس لیے وہ منتظر تھے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ” مسیح ہدایت “ کا ظہور کب ہوتا ہے لیکن شومی قسمت کہ جب مسیح ہدایت کا ظہور ہوا تو انہوں نے بغض و حسد کی راہ سے اس کو ” مسیح ضلالت “ کہہ کر رد کردیا اور صرف یہی نہیں بلکہ آمادہ قتل ہوگئے اور چونکہ
ur_Arab
قتل انبیاء انکا دستور رہا تھا اس لیے وہ اس پر ہر وقت جری رہتے تھے پس جبکہ وہ دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کی طرح ان کے قتل کے بھی قائل ہوگئے تو یہ تعجب خیز بات نہ ہوئی کہ جب مسیح ضلالت (دجال) کا خروج ہو تو یہود اس کو مسیح ہدایت کہہ کر قومی حیثیت سے اس کے پیرو ہوجائیں کیونکہ مذہبی تعلیم کے پیش نظر ان پر مسیح ہدایت کا اتباع ضروری تھا اور جب وہ مسیح ہدایت کو مسیح ضلالت کہہ کر قتل کرچکے تو اب مسیح ضلالت کو ہی اس کے دعوے کے مطابق مسیح ہدایت تسلیم کرنے پر آمادہ ہوجائیں گے مگر مشیت الٰہی فیصلہ کرچکی تھی کہ مسیح ضلالت کی گمراہی کا فتنہ چونکہ عظیم الشان ہوگا اور وہ اول خدائی کا دعویٰ کرے گا اور اس کے بعد مسیح ہدایت بنے گا اس لیے اس کا خروج قیامت کے قریب ہی ہونا چاہیے جو دور فتن یعنی فتنوں کی آماجگاہ ہوگا اس لیے حکمت الٰہی کا یہ بھی منشا ہوا کہ ” مسیح ہدایت “ کو یہود کے فتنہ سے اس طرح بچا لیا جائے کہ وہ اس کو ہاتھ بھی نہ لگاسکیں اور جب وہ وقت آپہنچے کہ مسیح ضلالت اپنی گمراہی کا علم بلند کرے تو مسیح ہدایت ملائے اعلیٰ سے کائنات ارضی پر اترے اور یہود بنی اسرائیل جو بہ تعداد کثیر مسیح ضلالت کے پیرو ہو رہے ہوں گے اپنی آنکھوں سے حق و باطل کا مشاہدہ کرلیں اور جب مسیح ہدایت کے مقدس ہاتھوں سے مسیح ضلالت کا خاتمہ ہوجائے تو { جَائَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا } حق الیقین بن کر ان کی نگاہوں کے سامنے آجائے اور اس طرح قبول حق کے ماسوا ان کے لیے دوسرا چارہ کار باقی ہی نہ رہے اور یا پھر وہ بھی مسیح ضلالت کے ساتھ ” فی النار “ کردیئے جائیں۔ نیز یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ ادیان و ملل کی تاریخ میں صرف یہود ہی ایک ایسی جماعت ہے جس نے اپنے انبیاء (علیہم السلام) کو بھی قتل کرنے سے ہاتھ نہیں روکا لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد یہود نے جن انبیاء کے خون ناحق سے ہاتھ رنگے تھے وہ صرف ” نبی “ ہی تھے جو ” علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل
ur_Arab
“ کا مصداق تھے مگر کوئی صاحب شریعت رسول ان کے اس قتل ناحق کا مظلوم نہیں بنا تھا اس لیے یہ پہلا موقع تھا کہ انہوں نے ایک جلیل القدر رسول (عیسیٰ بن مریم ؓ کو قتل کرنے کا نہ صرف ارادہ کیا بلکہ دنیوی اسباب کے لحاظ سے مکمل تیاری کرلی تھی تب مشیت حق نے یہ فیصلہ کیا کہ مسیح ہدایت کو اس طرح بچا لیا جائے کہ خود یہود کو بھی محسوس ہوجائے کہ وہ مسیح بن مریم (علیہما السلام) پر دسترس نہ پا سکے لہٰذا فیصلہ مشیت بروئے کار آیا اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کو ملائے اعلیٰ کی جانب اٹھا لیا گیا اور تمام دنیوی اسباب ہیچ ہو کر رہ گئے لیکن اس احساس کے باوجود چونکہ حقیقت حال تک نہ پہنچ سکے اور ظن و گمان ہی کے قعر میں پڑے رہے گو اپنی بات رکھنے کے لیے مشہور یہی کرتے رہے کہ ہم نے مسیح بن مریم کو قتل کردیا۔ ادھر متبعین مسیح ہدایت (نصاریٰ ) کی بدبختی دیکھئے کہ کچھ عرصہ کے بعد پولوس رسول نے ان میں عقیدہ تثلیث و کفارہ کی بدعت پیدا کرکے یہود کے گھڑے ہوئے افسانہ صلیب کو بھی داخل عقیدہ کردیا اور اب یہود و نصاریٰ دونوں جماعتیں اس گمراہی میں مبتلا ہوگئیں کہ عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) صلیب پرچڑھا کر قتل کردیئے گئے تب قرآن عزیز نے نازل ہو کر حق و باطل کے درمیان میں فیصلہ سنایا اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کے متعلق دونوں جماعتوں نے جو دو الگ الگ رخ اختیار کئے تھے اور پھر ایک مسئلہ میں دونوں کا اتفاق بھی ہوگیا تھا ان سب کے متعلق علم یقین کے ذریعہ حقیقت حال کو واشگاف اور دونوں کی گمراہی کو واضح کرکے قبول حق کے لیے دعوت دی مگر جماعتی حیثیت سے دونوں نے انکار کردیا اور حضرت مسیح (علیہ السلام) سے متعلق اپنے اپنے گمراہ کن عقیدہ پر قائم رہے مگر عالم الغیب و الشہادہ چونکہ ان حقائق کا ان کے وقوع سے قبل عالم و دانا تھا ‘ اس لیے اس کی حکمت کا یہ تقاضا ہوا کہ مسیح ہدایت کو کائنات ارضی پر اس وقت دوبارہ بھیجا جائے جب مسیح ضلالت کا بھی خروج ہوچکے تاکہ یہود و نصاریٰ کے سامنے حقیقت حال مشاہدہ کے درجہ میں روشن ہوجائے یہود آنکھوں سے دیکھ لیں کہ جس کے قتل کے وہ مدعی تھے قدرت الٰہی کے کرشمے کی بدولت وہ بقید حیات موجود ہے اور نصاریٰ نادم ہوں کہ
ur_Arab
حضرت مسیح (علیہ السلام) کی سچی پیروی چھوڑ کر جو گمراہ کن عقیدہ اختیار کیا تھا وہ سرتا پا باطل اور ہیچ تھا اور اس طرح ہدایت و ضلالت کے معرکہ میں حق کی سر بلندی اور باطل کی پستی دونوں کا مشاہدہ کرکے قرآن عزیز کی تصدیق پر مجبور ہوجائیں اور دونوں جماعتیں ” ایمان حق “ کو برضا ورغبت اختیار کرلیں اور اپنے باطل عقائد پر شرمسار و سرنگوں ہوجائیں اور چونکہ ان دونوں جماعتوں کے علاوہ ہدایت و ضلالت کا یہ مشاہدہ و مظاہرہ دوسرے اہل باطل بھی کریں گے اس لیے وہ بھی حلقہ بگوش اسلام ہوجائیں گے اور اس طرح احادیث صحیحہ کے مطابق اس زمانہ میں کائنات ارضی کا صرف ایک ہی مذہب ہوگا اور وہ ” اسلام “ ہوگا۔ { ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا } 1 ادیان و ملل کی تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) اور معاندین حق کے درمیان میں ” سنت اللہ “ کے دو مستقل دور رہے ہیں۔ پہلا دور حضرت نوح (علیہ السلام) سے شروع ہو کر حضرت لوط (علیہ السلام) پر ختم ہوتا ہے ‘ اس دور میں سنت اللہ یہ رہی کہ جب قوموں نے اپنے پیغمبروں کی صدائے حق پر کان نہ دھرا بلکہ برابر اس کا تمسخر کرتی اور اس کے پیغام حق کے آڑے آتی رہیں ‘ تب اللہ تعالیٰ کے عذاب نے ان کو ہلاک کردیا اور دوسروں کے لیے ان کو باعث عبرت و بصیرت بنادیا۔ اور دوسرا دور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے شروع ہو کر خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچا ہے۔ اس دور میں سنت اللہ کی خصوصیت یہ رہی ہے کہ جب اعدائے حق اور دشمنان دین قویم نے کلمہ حق کی مخالفت پر اصرار کیا اور اپنے پیغمبروں کو ایذا دہی اور ان کے ساتھ تمسخر کو اپنا نصب العین بنا لیا تو اللہ تعالیٰ نے ان قوموں کو ہلاک کرنے کے بجائے اپنے پیغمبروں کو یہ حکم دیا کہ وہ خدا کی راہ میں وطن
ur_Arab
چھوڑ دیں اور ہجرت کر جائیں چنانچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پہلے پیغمبر ہیں جنہوں نے قوم 1 ؎(یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اپنی قوم نہیں تھی اس لیے کہ یہ بنی سام (سامی) تھے اور نماردہ عراق اور ان کی قوم بنی حام (حامی) تھے۔ ) کے سامنے یہ اعلان کیا : { اِنِّیْ مُھَاجِرٌ اِلٰی رَبِّیْ اِنَّہٗ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ } اور عراق سے شام کی جانب ہجرت فرما گئے۔ پھر یہی صورت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پیش آئی اور وہ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر مصر سے شام کو ہجرت کرگئے مگر فرعون اور اس کے لشکریوں نے چونکہ مزاحمت کی اور ہجرت کے بھی آڑے آئے اس لیے وہ بحر قلزم میں غرق کردیئے گئے۔ اور یہی صورت نبی اکرم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیش آئی کہ جب قریش مکہ نے اذیت ‘ تمسخر ‘ دین حق کے ساتھ تصادم اور اعمال دین کی مزاحمت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا تب مشیت الٰہی کا فیصلہ ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ سے مدینہ کو ہجرت کر جائیں چنانچہ ہر قسم کی نگرانی اور مکان کے ہر طرف محاصرہ کے باوجود کرشمہ قدرت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محفوظ و مامون مدینہ ہجرت کر گئے۔ ” سنت اللہ “ کے اسی دور میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت ہوئی اور ان کی قوم بنی اسرائیل نے ان کے ساتھ اور ان کی دعوت حق کے ساتھ بھی وہ سب کچھ کیا جو معاندین حق اور دشمنان دین اپنے پیغمبروں کے ساتھ کرتے رہے تھے اور ان میں ایک یہ خصوصیت زیادہ تھی کہ وہ حضرت مسیح (علیہ السلام) سے قبل چند انبیاء کو قتل تک کرچکے تھے اور اب حضرت مسیح (علیہ السلام) کے قتل کے درپے تھے اسی کے ساتھ یہ مسطورہ بالا حقیقت بھی فراموش نہیں رہنی چاہیے کہ یہود مسیح ہدایت اور مسیح ضلالت دومسیح کے منتظر تھے اور حضرت عیسیٰ بن مریم ؓ کو مسیح ضلالت قرار دے کر آج بھی مسیح ہدایت کے منتظر ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کا یہ فیصلہ ہوا کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی
ur_Arab
ہجرت کائنات ارضی کے بجائے ملائے اعلیٰ کی جانب ہو تاکہ مقررہ وقت آنے پر وہ مسیح ہدایت اور مسیح ضلالت کے درمیان مشاہدہ سے امتیاز کرسکیں اور ایک جانب اگر مسیح ہدایت کو مسیح ہدایت سمجھیں تو دوسری جانب قرآن کے فیصلہ حق کی صداقت و حقانیت کو دیکھ کر دین حق ” اسلام “ کے سامنے سر تسلیم خم کردیں اور ساتھ ہی نصاریٰ کو بھی اپنی جہالت اور یہود کی کو رانہ تقلید پر ندامت ہو اور وہ بھی تعلیم قرآن کی صداقت پر یقین و اعتقاد کے ساتھ شہادت دینے پر آمادہ ہوجائیں۔ کچھ عجیب صورت حال ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) اور خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان میں دعوت و تبلیغ حق اور معاندین کی جانب سے حق کی معاندت و مخالفت اور پھر اس کے نتائج وثمرات میں بہت ہی زیادہ مشابہت پائی جاتی ہے دونوں کی اپنی قوم نے دونوں کو جھٹلایا دونوں کی قوموں نے سازش قتل کے بعد مکانوں کا محاصرہ کیا قدرت حق کے کرشمہ اعجاز نے دونوں کو دشمنوں کی دسترس سے ہر طرح محفوظ رکھا دونوں کے لیے ہجرت کا معاملہ پیش آیا البتہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت چونکہ بعثت عامہ تھی اور اس کی دعوت و تبلیغ کے لیے ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کرہ ارضی پر قیام مسلسل ضروری تھا ‘ اس لیے مکہ سے مدینہ ہجرت کا حکم ہوا اور عیسیٰ ابن مریم (علیہما السلام) چونکہ قوم کو دعوت حق پہنچا چکے تھے اور ایک خاص مقصد عظیم کے پیش نظر ان کا مدت مدید کے بعد کائنات ارضی پر موجود ہونا ضروری تھا اس لیے ان کو ہجرت ارضی کے بجائے ہجرت سماوی پیش آئی پھر جس طرح نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے زمانہ کے قائد ضلالت امیہ بن خلف کو اپنے حربہ سے قتل کیا عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) بھی قوم کے مسیح ضلالت دجال کو قتل کریں گے اور جس طرح نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہجرت کے بعد آپ کے وطن مکہ پر قدرت حق نے اقتدار عطا فرما دیا ‘ عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کا نزول بھی شام ہی کے اس مشہور شہر میں ہوگا جس سے اپنی قوم کی معاندانہ سازشوں کی بنا پر ملائے اعلیٰ کی جانب ہجرت پیش آئی تھی
ur_Arab
اور بیت المقدس ‘ دمشق اور شام کے پورے ملک پر یہود کے علی الرغم ان کی حکومت ہوگی۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) سے پہلے قتل انبیاء (علیہم السلام) نے یہود کو اس درجہ گستاخ اور بےباک بنادیا تھا کہ وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ کسی ہستی کے متعلق یہ فیصلہ کہ وہ نبی صادق ہے یا متنبی کاذب ہمارے ہاتھ میں ہے اور جس کو ہم اور ہمارے فقیہ کاذب قرار دیدیں وہ واجب القتل ہے چنانچہ اسی زعم باطل میں انہوں نے عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کو مسیح ضلالت کہا اور ان کے فقیہوں نے قتل کا فتویٰ صادر کردیا حالانکہ یہ وہ جلیل القدر ہستی تھی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بنی اسرائیل میں اس پایہ کا کوئی پیغمبر مبعوث ہی نہیں ہوا تھا اور اس نے جدید پیغام حق (انجیل) کے ذریعہ روحانیت کی مردہ کھیتی میں دوبارہ جان ڈال دی تھی تب اللہ تعالیٰ کی مشیت کا فیصلہ ہوا کہ ہمیشہ کے لیے بنی اسرائیل کے اس زعم باطل کو پاش پاش کردیا جائے اور دکھا دیا جائے کہ رب العالمین خالق کائنات جس کی حفاظت کا وعدہ کرلے کائنات کی کوئی ہستی یا مجموعہ کائنات بھی اس پر دسترس نہیں پاسکتی چنانچہ ید قدرت نے اس وقت اس مقدس ہستی کو جسد عنصری کے ساتھ ملائے اعلیٰ کی جانب اٹھا لیا جبکہ مکان کے محاصرہ کے ساتھ دشمنوں نے اس کی حفاظت جان کے تمام وسائل دنیوی مسدود کردیئے تھے۔ پھر اس واقعہ نے ایک نئی صورت پیدا کردی وہ یہ کہ مذاہب کی تاریخ میں صرف حضرت مسیح (علیہ السلام) ہی کی شخصیت ایسی ہے جن کے قتل و عدم قتل کے متعلق حق و باطل کے درمیان میں سخت اختلاف پیدا ہوا اور یہود و نصاریٰ کے باہم واقعہ صلیب و قتل پر اتفاق کے باوجود دو باطل اور متضاد عقائد کی کشمکش نظر آنے لگی۔ یہود قتل و صلیب کی وجہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک وہ ” مسیح ضلالت “ تھے اور نصاریٰ وجہ صلیب یہ بتاتے ہیں کہ وہ خدا کے بیٹے تھے جو کائنات کے گناہوں کا کفارہ بننے کے لیے بھیجے گئے تھے تاکہ پاپی دنیا پاپ سے پاک ہوجائے اور صدیوں بعد جب قرآن نے ” امر حق “ کو واضح اور مسیح بن مریم (علیہما السلام) سے متعلق حقیقت حال کو روشن کیا تب بھی دونوں جماعتوں نے جماعتی حیثیت سے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا لہٰذا قدرت
ur_Arab
حق کا فیصلہ ہوا کہ خود مسیح بن مریم (علیہما السلام) ہی وقت موعود پر نازل ہو کر قرآن کے فیصلہ کی تصدیق کردیں اور یہود و نصاریٰ کے باطل عقائد کا خود بخود اس طرح خاتمہ ہوجائے اور اس کے بعد مدعیان اہل کتاب کو شرک و باطل کی پیروی کے لیے کوئی گنجائش باقی نہ رہے اور خدا کی حجت ان پر تمام ہوجائے۔ نیز جبکہ اللہ تعالیٰ نے کائنات ہست و بود کے لیے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ خدا کی ہستی کے ماسوا ہر ایک وجود کو فنا اور موت ہے : { کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ } { کُلُّ شَیْئٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہٗ } اور یہ ظاہر ہے کہ ملائے اعلیٰ اور عالم قدس مقام موت نہیں ہے بلکہ مقام حیات ہے اس لیے از بس ضروری ہے کہ عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) بھی موت کا ذائقہ چکھیں اور اس کے لیے کائنات ارضی پر اتریں تاکہ زمین کی امانت زمین ہی کے سپرد ہو اس لیے ” حیات ورفع “ کے بعد ” نزول ارضی “ مقدر ہوا۔ علمائے حق نے حیات و نزول عیسیٰ (علیہ السلام) سے متعلق جو ” اسرار و حکم “ بیان فرمائے ہیں یہاں ان کا احاطہ مقصود نہیں ہے اس لیے مختصر چند حکمتوں کا ذکر کردیا گیا ورنہ محدث عصر علامہ سید محمد انور شاہ نور اللہ مرقدہ نے اس سلسلہ میں ایک طویل مقالہ ” عقیدۃ الاسلام “ میں سپرد قلم فرمایا ہے جو لائق مطالعہ ہے حضرت استاذ نے نہایت لطیف مگر دقیق پیرایہ بیان میں کائنات عالم کو ” انسان کبیر “ اور انسان کو ” عالم صغیر “ قرار دے کر ان ہر دو عالم کی حیات و موت پر جو بحث فرمائی ہے اس سے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے رفع اور قرب قیامت میں کائنات ارضی کی جانب رجوع کی حکمت بہت اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے لیکن یہ کتاب چونکہ اس دقیق بحث کی متحمل نہیں ہے اس لیے اپنی جگہ قابل مراجعت ہے۔ آخر میں اب اپنی جانب سے چند جملے اس سلسلہ میں اضافہ کرکے اس مبحث کو ختم کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے : 3 قرآن عزیز میں ” میثاق انبیاء “ سے متعلق یہ ارشاد باری ہے : { وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَ